Tag: جسٹس اطہر من اللہ

  • آزاد ججز اور آزاد عدلیہ کی ضرورت ہے، جسٹس اطہر من اللہ

    آزاد ججز اور آزاد عدلیہ کی ضرورت ہے، جسٹس اطہر من اللہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ہمیں آزاد ججز اور آزاد عدلیہ کی ضرورت ہے۔

    یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی، ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا ہرجج پاکستان میں ہونے والی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ہے۔

    سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بلوچستان میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں۔

    انہوں نے بتایا کہ میں نے ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے 2023 میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس کو لکھا تھا لیکن کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آزاد عدلیہ اور آزاد ججز کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے ساتھ انصاف ہوسکے۔ ان کے مطابق اگر جمہوریت، آئین اور عدلیہ آزاد نہ ہوں تو ملک ترقی نہیں کرسکتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ وکلاء تحریک نے جمہوریت اور آئین کی بحالی میں تاریخی کردار ادا کیا اور عوام کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

  • میری خواہش ہے جب بھی مارشل لا کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی رہیں، جسٹس اطہرمن اللہ

    میری خواہش ہے جب بھی مارشل لا کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی رہیں، جسٹس اطہرمن اللہ

    نیویارک : جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ میری خواہش ہے جب بھی پاکستان میں مارشل لا کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی رہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے نیویارک بار خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گھرپر ٹی وی دیکھ رہا تھا ایسا ماحول بن گیا تھا جیسے مارشل لا لگنے والاہو، میری خواہش ہےجب بھی مارشل لا کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی رہیں۔

    سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ کاش عدالتیں 5 جولائی کوکھلی ہوتی جب ضیاالحق نےمنتخب وزیراعظم کو ہٹایا، کاش یہ عدالتیں 12 اکتوبر 1999 کو کھلی ہوتیں جب مشرف منتخب وزیراعظم کو ہٹا رہا تھا۔

    انھوں نے کہا کہ کسی نےپی ٹی آئی حکومت ہٹانےکی کوشش کی ہوتی تو اسلام آباد ہائیکورٹ کا بھی امتحان ہوتا، یہ امتحان اسلام آباد ہائیکورٹ کا ہوتا کہ وہ آئین کی بالادستی کیلئے کھڑی ہوتی یا نہیں۔

  • بانی پی ٹی آئی کو براہ راست دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    بانی پی ٹی آئی کو براہ راست دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    اسلام آباد : جسٹس اطہر من اللہ نے نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر اختلافی نوٹ میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو براہ راست دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں، وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر جسٹس اطہر من اللہ نے اختلافی نوٹ جاری کردیا۔

    جس میں کہا گیا ہے کہ کیس کی کارروائی براہ راست نشرکرنے کی درخواست منظورکی جاتی ہے، بنیادی حقوق کے تحفظ کےلئے براہ راست نشرکرنا ضروری ہے۔

    اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ کیس کی 31 اکتوبر 2023 اوررواں سال14 مئی کی سماعت براہ راست نشرہوئی، بانی پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، بانی پی ٹی آئی کو براہ راست دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔

    سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کیس کی پہلے براہ راست نشر ہوچکا ہے ، پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کے بعد184تین کے مقدمات بنچ ون سےلائیودکھائے گئے۔

    اختلافی نوٹ میں مزید کہنا تھا کہ نیب ترامیم کیس میں اپیل بھی 184 تین کے کیس کیخلاف ہے، ذوالفقارعلی بھٹو کوجب پھانسی دی گئی وہ عام قیدی نہیں تھیں ، بینظیر بھٹو اور نواز شریف بھی عام قیدی نہیں تھے۔

    جسٹس اطہر نے کہا کہ سابق وزرائے اعظم کیخلاف نیب اختیار کاغلط استعمال کرتارہا،سابق وزرائےاعظم کی عوامی نمائندہ ہونے پر تذلیل ،ہراساں کیا گیا۔

    مزید پڑھیں : نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد

    ان کا مزید کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی بھی عام قیدی نہیں ہیں، لاکھوں لوگ ان کےپیروکارہیں، حالیہ عام انتخابات کےنتائج اس کاثبوت ہیں ، ایس او پیز کا نہ بننا کیس براہ راست نشر کرنے میں رکاوٹ نہیں۔

    اختلافی نوٹ کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے قمر باجوہ کو ایک انٹرویو میں سپرکنگ قرار دیا اور کہا قمرجاوید باجوہ نیب کو کنٹرول کر رہے تھے جبکہ نواز شریف نے کہا پارلیمنٹ کو کوئی اور چلا رہا تھا۔

    سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ قمر جاوید باجوہ نے ان بیانات کی تصدیق بھی کی اور سیاست میں مداخلت کوتسلیم کیا، نیب کو سیاسی انجینئرنگ، مخالفین کو ہراساں اور نیچا دکھانےکیلئےاستعمال کیاگیا ، ناقدین،سیاسی مخالفین کی گرفتاریاں ،تذلیل کی گئیں اور نیب کا نشانہ بنے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی ، چیف جسٹس فائزعیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان نے درخوست مسترد کی جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سےاختلاف کیا تھا۔

  • ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کو فٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے خود کو ایکسپوز کررہے ہیں،  جسٹس اطہر من اللہ

    ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کو فٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے خود کو ایکسپوز کررہے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    اسلام آباد : جسٹس اطہر من اللہ نے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس دیئے کہ ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کوفٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے درحقیقت خود کو ایکسپوز کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ سماعت  کی، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس حسن رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سےمکالمہ آپ کہیں جا رہےہیں تو خواجہ حارث نے جواب دیا میں ادھر ہی ہوں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ مرکزی درخواست گزاربھی کہیں نہیں جا رہےکیونکہ وہ اڈیالہ میں قیدہیں، جسٹس اطہرمن اللہ کے ریمارکس پرکمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کوفٹبال بنائیں گے، ایساکہنے والےدرحقیقت خود کو ایکسپوز کررہے ہیں، کیا آپ اپنی پراکسیز کے ذریعے ہمیں دھمکا رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہ ایساہو رہا ہےاورنہ ہی ایسا ہونا چاہیے، عدالت نے آئندہ سماعت پربھی بانی پی ٹی آئی کو ویڈیولنک کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے کہا کہ کیس کی سماعت کی آئندہ تاریخ کا اعلان بینچ کی دستیابی کی صورت میں ہوگا۔

  • انتخابات پر ازخود نوٹس کیس : جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے لکھا گیا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    انتخابات پر ازخود نوٹس کیس : جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے لکھا گیا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس میں جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے لکھا گیا اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کی 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

    جس میں 9رکنی لارجر بینچ میں سے 4ججز نے بینچ کی از سر نوتشکیل کا مطالبہ کیا، تحریری فیصلے میں جسٹس منصور علی،جسٹس یحیی آفریدی ، جسٹس اطہرمن اللہ اورجسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ شامل تھے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے لکھا گیا اختلافی نوٹ سامنے آگیا، جس میں کہا گیا ہےکہ چیف جسٹس کا دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت  نہیں رکھتا، ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کی آئینی وقانونی حیثیت کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا اور سوال کیا کہ کیا اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی  اصولوں کو روندکر توڑی گئیں؟

    اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ اسمبلیاں توڑنے کی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر ہیں ، ہمارے سامنے آنیوالا معاملہ پہلے ہی صوبائی عدالت کے سامنے موجود ہے، اس معاملے کا سپریم کورٹ میں آنا ابھی قبل از وقت ہے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ پہلے اسمبلیاں توڑنےکی آئینی وقانونی حیثیت دیکھناناگزیرہے، چیف جسٹس نے مجھ سےاس معاملے پر سوالات مانگے ہیں۔

    اختلافی نوٹ کے مطابق کیا اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے، جس کی آئینی وجوہات دیکھنا ضروری نہیں؟ کیا وزیراعلیٰ  اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیادپر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مسترد اور اسمبلی  بحال کی جاسکتی ہے؟

  • جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی حیثیت سے حلف اٹھالیا

    جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی حیثیت سے حلف اٹھالیا

    اسلام آباد : جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی حیثیت سےحلف اٹھالیا ہے ، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی جسٹس اطہر من اللہ سے حلف لیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں ہوئی، جس میں جسٹس اطہر من اللہ نے بحیثیت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ حلف اٹھایا ، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی جسٹس اطہر من اللہ سے عہدے کا حلف لیا۔

    جسٹس انور خان کاسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس اطہر من اللہ آج چیف جسٹس کے عہدے پر فائض ہوں گے۔

    نئے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ 11 دسمبر 2023 تک چیف جسٹس رہیں گے، اگر جسٹس اطہر سپریم کورٹ میں پرموٹ نہیں ہوئے تو 12 دسمبر 2023 کو ریٹائر ہو جائیں گے۔

    خیال رہے 17 جون 2014 کو جسٹس اطہر من اللہ نے بحیثیت جج ہائی کورٹ حلف اٹھایا تھا۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور خان کاسی کا کل آخری ورکنگ دن ہائی کورٹ میں گزارا، جسٹس انورخان کاسی 5سال 9 ماہ 2دن کےلئےچیف جسٹس رہے۔

    25جسٹس انورخان کاسی نئے فروری2013 کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا عہدہ سنبھالا جبکہ 4 جنوری 2011 کو بطور جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ تعینات ہوئے ، انھوں نے اسلام آبادہائی کورٹ میں مجموعی طور پر 7سال 10ماہ23روز کا عرضہ گزارا۔