Tag: جسٹس اعجازالاحسن

  • جسٹس اعجازالاحسن نے اپنے استعفے میں کیا لکھا؟

    جسٹس اعجازالاحسن نے اپنے استعفے میں کیا لکھا؟

    اسلام آباد: جسٹس اعجاز الاحسن نے صدر پاکستان کو لکھے گئے استعفے میں کہا کہ بحیثیت جج سپریم کورٹ کام جاری رکھنے کی خواہش نہیں رکھتا، میرا استعفیٰ منظور کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج اور آئندہ کے چیف جسٹس آف پاکستان عہدے سے مستعفی ہوگئے، جسٹس اعجاز الاحسن کا صدر پاکستان کو لکھا گیا استعفیٰ منظر عام پر آگیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے آئین کے آرٹیکل 206 کے تحت دئیے گئے استعفے میں لکھا انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کا جج ہونے کا اعزاز حاصل رہا، بحیثیت جج سپریم کورٹ کام جاری رکھنے کی خواہش نہیں رکھتا،اس لیے میرا استعفیٰ فوری طور پر منظور کیا جائے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کوجسٹس مظاہرنقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر اعتراض تھا، انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں بھی شرکت سے معذرت کی تھی، ان کی معذرت کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کو کونسل میں شامل کرلیا گیا تھا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن مستعفی نہ ہوتے تو اکتوبر2024میں چیف جسٹس سپریم کورٹ بن کر 4 اگست 2025 کو ریٹائر ہوتے۔

    جسٹس اعجازالاحسن کےاستعفےکے بعد اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اکتوبر میں ریٹائرمنٹ پر جسٹس منصور علی شاہ نئے چیف جسٹس بنیں گے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کا نام سب سے اوپر تھا اور انہوں نے اکتوبر 2024 میں چیف جسٹس آف پاکستان بننا تھا۔ تاہم جسٹس اعجاز الاحسن کے مستعفی ہونے پر جسٹس منصور علی شاہ 2027 تک یعنی ساڑھے 3 سال چیف جسٹس رہیں گے۔

    جسٹس منصور علی شاہ سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بن گئے ہیں جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی جوڈیشل کمیشن کے ممبر بن گئے ہیں۔

    جسٹس اعجاز الحسن کون ہیں؟

    جسٹس اعجاز الحسن 11مئی 2011 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج اور 6 نومبر 2015 کو چیف جسٹس بنے، انہیں 28 جون 2016 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے عہدے پر فائز کیا گیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن اس پانچ رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے پانامہ کیس کا تاریخی فیصلہ سنایا جبکہ جسٹس اعجازالاحسن الیکشنز ایکٹ 2017 کےخلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کا بھی حصہ رہے، اس بینچ نےفیصلہ دیاتھا آرٹیکل ،باسٹھ ،تریسٹھ کے تحت نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں رہ سکتا۔

    جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس مظاہر اکبر نقوی اس پانچ رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے، جس نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمے چلانے کو خلاف آئین قراردیا تھا۔

    جسٹس اعجاز اور جسٹس نقوی ان اقلیتی پانچ ججوں میں شامل تھے، جنہوں نے پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف فیصلہ دیا تھا جبکہ انہیں پاناما کیس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں چلنےوالےمقدموں کامانیٹرنگ جج تعینات کیا گیا تھا۔

  • دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اجتماعی کوششیں کرنا ہونگی،  جسٹس اعجاز الحسن

    دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اجتماعی کوششیں کرنا ہونگی،  جسٹس اعجاز الحسن

    لاہور : چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس اعجازالحسن نے کہا ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ بن چکا ہے،اس سے نمٹنا تمام اقوام کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ انسداد دہشت گردی عدالتوں کے ججز کی تربیتی ورکشاپ سے خطاب کر رہے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کےلیے پوری دنیا سر جوڑ کر بیٹھی ہے ۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے مؤثر قانون سازی اور انسداد دہشت گردی قوانین کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا تاکہ معاشرے سے اس ناسور کو ختم کیا جا سکے۔

    دہشت گردی پاکستان سمیت بہت سی اقوام کی خود مختاری اورسالمیت کےلیے خطرہ بن چکی ہے، دہشت گرد معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر اقوام عالم میں امن ممکن نہیں، پاکستانی عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت عدالتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔

    قانون کے نفاذ کو یقینی بنانا پولیس اور متعلقہ محکموں جبکہ مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دینا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اپنے تفتیشی نظام اور پراسیکیوشن سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔