Tag: جسٹس جمال مندوخیل

  • ہم فیصلہ کرتے ہیں انصاف اللہ کی طرف سے ملتا ہے: جسٹس جمال مندوخیل

    ہم فیصلہ کرتے ہیں انصاف اللہ کی طرف سے ملتا ہے: جسٹس جمال مندوخیل

    سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ انصاف تو اللہ کا کام ہے، ہم جج تو دستاویز دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مطابق این آئی آر سی کے زیر اہتمام بین الاقوامی یوم مزدور کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم نے جو بھی فیصلہ کرنا ہے وہ بلا خوف و خطر کرنا ہے، انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔

    جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمارے ملک کا آئین اسلام کے مطابق ہے، ہمارا آئین کہتا ہے کوئی بھی قانون اسلام سے متصادم نہ ہو، مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے صوبے میں مائنز کا عمل دخل ہے، مزدوروں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے وہ کیسے مائنز میں کام کرتے ہیں، مزدور کیسے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر روزی کماتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ غلامی ختم کردی گئی کسی سے زبردستی کام نہیں لیا جا سکتا، کسی کا حق سلب ہوتا ہے تو انصاف کے ادارے موجود ہیں، ہم نےآئین کے مطابق انصاف کے فیصلےکرنے ہیں، بغیر کسی خوف اور دباؤ آئین کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔

    جمال مندوخیل نے کہا کہ جو حقوق آئین وقانون نے دیا اس کیلئے ادارے ہمیشہ موجود ہیں، ہم ہر ممکن کوشش کرینگے کہ آپ کو حقوق دلاسکیں، آئین میں محنت کش طبقے کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، سپریم کورٹ انصاف کا سب سے بڑا اور آخری ادارہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کان کنی کو صنعت کا درجہ ملنا چاہیے، کان کن اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کرتا ہے، آرٹیکل17 میں لکھا ہے ہر شخص کو اپنا ادارہ قائم کرنے کا حق ہے، یونین بنانےکا مقصد یہ نہیں کہ ادارے کو کسی اور مقاصد کیلئے استعمال کریں، ہم فیصلہ کرتے ہیں انصاف اللہ کی طرف سے ملتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کیسز کی بھر مار ہے اصل وجہ یہ ہے لوگ آپس میں نہیں بیٹھتے،  ہم لوگوں کو عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں جس میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔

  • کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا ؟ جسٹس جمال مندوخیل کا سوال

    کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا ؟ جسٹس جمال مندوخیل کا سوال

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی عدالتوں کے کیس میں سوال کیا کہ کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟کیا اس کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا؟

    تفصیلات سپریم کورٹ میں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت کی ، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا فوج کے ماتحت سویلینز کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔

    جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والاکون ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے تو جسٹس جمال کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹو کیخلاف اگر کوئی جرم ہوتو کیا وہ خود جج بن کرفیصلہ کرسکتاہے؟

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے، آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں یہ بنیادی آئینی سوال ہے تو وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی اورفورم دستیاب نہ ہوتو ایگزیکٹو فیصلہ کرسکتا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ قانون میں انسداد دہشت گردی عدالتوں کا فورم موجود ہے، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟ جس پر وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ آپ کی بات درست ہے، بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

    جسٹس جمال کا کہنا تھا کہ کوئی شہری فوج کا حصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، ملٹری کورٹس کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175 سے الگ ہے، کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟

    جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ تو آپ نے ایک صورتحال بتائی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا، جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ یہ تو سب سے متعلقہ سوال ہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے بھی ریمارکس میں کہا کہ اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے، وہ شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا، صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو کچھ نہیں ہو گا، جس پر وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ ملٹری کورٹس ٹرائل پرآرٹیکل 175 کا اطلاق نہیں ہوتا۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کو فوج کے ڈسپلن میں لانے کیلئے لایا گیا، شہری آرمڈ فورسز میں شامل ہو تو بنیادی حقوق کے تحت عام عدالتوں میں معاملہ چیلنج نہیں کرسکتا، ہمارے ملک میں 14 سال تک مارشل بھی نافذ رہا تو وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ آرمڈ فورسز کے فرائض میں شہری مداخلت کرے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے مزید وکیل سے مکالمے میں کہا کہ فرض کریں ایک چیک پوسٹ پر عام شہری جانےکی کوشش کرتا ہے ، کیا یہ بھی آرمڈ فورسز کے فرائض میں خلل ڈالنے کے مترادف ہوگا، آپ کےدلائل سے تعریف اتنی وسیع ہوتی جا رہی ہے کہ سب کو پھر شامل کر لیا جائے گا۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا بھی کہنا تھا کہ اس کیس کے دو حصے ہیں، ایک حصہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم قرار دینے سے متعلق ہے، دوسرا حصہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کا سوال بہت اہم ہے، کسی چیک پوسٹ پر سویلین کا تنازع ہو جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا، اختیارات کو وسیع کرکے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ کا نفاذ کن جرائم پر ہوگا اس کا جواب آرمی ایکٹ میں موجود ہے۔

    وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے ، سماعت کے اختتام پر حفیظ اللہ نیازی روسٹرم پر آئے ، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سیاسی بات کریں گے، جس پر ،حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ میں سیاسی بات بالکل نہیں کروں گا، ملزمان کو فیصلوں کے بعد جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے، ملزمان کوعام جیلوں میں دیگر قیدیوں کی طرح تمام حقوق نہیں مل رہے۔

    سپریم کورٹ نے جیلوں میں 9 مئی ملزمان سے رویے پر رپورٹ طلب کرلی اور کل سماعت کیلئے مقرر دیگر کیسز منسوخ کر دیے۔

    جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کل بھی صرف فوجی عدالتوں کا کیس ہی سنا جائے گا۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ نے توحکم بھی جیل مینول کے مطابق سلوک کا دیا تھا، پنجاب اور وفاقی حکومت عدالتی حکم کو نہیں مان رہے۔

  • جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط  کا جواب دے دیا

    جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط  کا جواب دے دیا

    اسلام آباد: جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس مصور علی شاہ کے خط کا جواب دے دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جسٹس جمال مندوخیل نے خط میں لکھا کہ آپ کا 12 دسمبر کو لکھا گیا خط موصول ہوا، 26ویں تمریم کے بعد جوڈیشل کمیشن دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے، کمیشن نے چیف جسٹس کو رولز بنانے کے لیے کمیٹی تشکیل کا اختیار دیا، چیف جسٹس رولز بنانے کے لیے میری سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ کمیٹی کے دو اجلاس پہلے ہی ہوچکے ہیں، آپ کی تجویز کردہ سفارشات پہلے ہی ڈرافٹ میں شامل کی جاچکی ہیں، مجوزہ ڈرافٹ آپ کے خط سے پہلے ہی میں آپ سے شیئر کرچکا ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ کمیٹی کی ذمہ داریاں قواعد کو تجویز کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے رکھنا ہے، 21 نومبر کے اجلاس میں میری معلومات کے مطابق آپ نے بھی ججز کے لیے نام تجویز کیے، میری تجویز ہے کہ آپ اپنے نام قواعد کے بننے کے بعد تجویز کریں۔

    جسٹس جمال نے لکھا کہ آپ کی تجاویز کا خیر مقدم کرتا ہوں، آئین کی منشا ہے کہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار ہو، عدلیہ کے ممبران کا اہل اور ایماندار ہونا بھی آئینی منشا ہے، کمیٹی کاآئندہ اجلاس 16 دسمبر کوہوگا آپ کی تجاویز زیر غور لائیں گے۔

    انہوں نے خط میں مزید لکھا کہ آپ کے خط میں 26ویں ترمیم پر بھی بات کی گئی، 26ویں ترمیم زیر التوا ہونے کے باعث اس پر رائے نہیں دوں گا۔

  • الیکشن ٹریبونلز کیس : جسٹس جمال مندوخیل کا اضافی نوٹ سامنے آگیا

    الیکشن ٹریبونلز کیس : جسٹس جمال مندوخیل کا اضافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : پنجاب الیکشن ٹریبونلز کیس میں جسٹس جمال مندوخیل کا 3 صفحات کا اضافی نوٹ سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب الیکشن ٹریبونلز کیس کاتحریری فیصلہ جاری کردیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا۔

    جس میں کہا کہ الیکشن ٹریبونلزکی تشکیل کالاہورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتےہیں، الیکشن کمیشن وکیل کےمطابق ہائیکورٹ نے الیکشن ایکٹ کی دفعات کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن مطابق ہائیکورٹ نے آئین میں ترمیم سے پہلے کے فیصلوں پرانحصار کیا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے،ہائیکورٹ کےچیف جسٹس بھی آئینی دفترکا رکھوالاہے، الیکشن کمیشن اورہائیکورٹ کےچیف جسٹس کا بہت احترام ہے، دونوں فریقین میں اگر براہ راست ملاقات وقوع پذیرہوتی تو معاملات اس نہج پر نہ پہنچتے۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سےبامعنی مذاکرات ہوئے، چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کے مابین اتفاق ہو گیا ہے، الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس میں معاملہ حل ہوگیا، کیس کےفیصلے کی ضرورت نہیں۔

    فیصلے کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے کردار کو سراہتے ہیں، ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس کے مذاکرات کافقدان ملحوظ خاطر نہ رکھا، اگر ہائیکورٹ کے جج مذاکرات کے فقدان کو ملحوظ رکھتےتو یہ فیصلہ ہی نہ جاری کرتے، ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے،الیکشن کمیشن کی اپیلیں منظور کی جاتی ہیں۔

    تحریری فیصلے میں جسٹس جمال مندوخیل کا 3 صفحات کا اضافی نوٹ بھی شامل ہیں ، جس میں کہا کہ سیکشن 140الیکشن کمیشن کو ججز پینل طلب کرنےکااختیار نہیں دیتا، مقننہ کی اس قانون میں سوچ واضح ہے، مقننہ نے الیکشن کمیشن کو ججز کاپینل مانگنے اور ان انتخاب کااختیار نہیں دیا۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کوہر جج پر اعتماد کرنا چاہیے، الیکشن کمیشن ایک ٹریبونل کیلئےایک ہی جج کے نام کا مطالبہ کرسکتا ہے ، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ اور ججز آئینی عہدیدار ہیں۔

    اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ ہرمعاملے میں الیکشن کمیشن اورججز کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، الیکشن کمیشن اورہائیکورٹ ججز کے درمیان باقاعدہ مشاورت نہیں ہوئی ، چیف جسٹس ہائیکورٹ اورکمیشن کی مشاورت کا نتیجہ ہمارے سامنے اتفاق کی صورت میں آیا۔

    جسٹس جمال نے کہا کہ امید ہےاب الیکشن کمیشن ٹربیونلزتشکیل کیلئے اقدامات کرےگا، امید ہے الیکشن ٹریبونلز قانون کی دی گئی مہلت میں فیصلے ہوں گے۔

  • انتخابات کے حق میں فیصلہ : جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی  نوٹ سامنے آگیا

    انتخابات کے حق میں فیصلہ : جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا انتخابات کے حق میں فیصلے پر اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا۔

    فیصلہ تین دو کی اکثریت سے سنایا گیا ، جس میں چیف جسٹس عمرعطابندیال،جسٹس منیب اختر،جسٹس محمد علی مظہر نے انتخابات کے حق میں فیصلہ دیا ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے ازخود نوٹس کوناقابل سماعت قرار دے دیا۔

    سپریم کورٹ کے بنچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ لکھا کہ ‘ازخودنوٹس نہیں بنتا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی اورجسٹس اطہر من اللہ کے فیصلےسے اتفاق کرتے ہیں۔’

    جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ‘ ظہور الہٰی اور بینظیرکیس میں واضح ہے ایک درخواست پہلےسےہوتو جلدی نہ کی جائے۔

    اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ ‘ یہ معاملہ ہائیکورٹ میں پہلے دن سے موجودتھا، سپریم کورٹ اعلیٰ عدالت ہےان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے، ایسی مداخلت صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے۔’

    دونوں ججز نے انتخابات پر ازخود نوٹس کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ الیکشن سےمتعلق درخواست پر فیصلہ تین روز میں کرے۔