Tag: جسٹس منصورعلی شاہ

  • جسٹس منصور علی شاہ نے استعفیٰ کی افواہوں پر خاموشی توڑ دی

    جسٹس منصور علی شاہ نے استعفیٰ کی افواہوں پر خاموشی توڑ دی

    اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ نے مستعفی ہونے کی قیاس آرائیاں مسترد کردیں اور کہا بھاگ کر نہیں جائیں گے جو کام کرسکتے ہیں کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں تقریب میں شرکت کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کی۔

    صحافی نے سوال کیا کیا آپ کے مستعفیٰ ہونے سے متعلق افواہیں درست ہیں؟ تو ا نھوں نے مستعفی ہونے کی قیاس آرائیاں مسترد کردیں۔

    انھوں نے کہا کہ یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، بھاگ کر نہیں جائیں گے، جو کام کر سکتا ہوں وہ جاری رکھوں گا۔

    اس سے قبل جسٹس منصور نے ملک میں چلڈرن کورٹس بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا عدلیہ کو بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ججزکو بتانا چاہتا ہوں بچوں کیلئےانصاف کس قدراہم ہے ، بچےصرف ہمارا مستقبل ہی نہیں ہمارا آج بھی ہیں، عدلیہ کو بچوں کے حقوق کا احساس ہے، بچے کل کے لوگ نہیں بلکہ آج کے افراد ہیں، مفاد عامہ کے مقدمات سےکافی بہتری آتی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ملک میں چلڈرن کورٹس بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا عدلیہ کو بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔

  • لوگ ہمارے اعمال دیکھ رہے ہیں، تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی، جسٹس منصور کا چیف جسٹس کو خط

    لوگ ہمارے اعمال دیکھ رہے ہیں، تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی، جسٹس منصور کا چیف جسٹس کو خط

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جسٹس منصورعلی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان کو خط میں مخصوص بینچوں میں بیٹھنے سے پھر معذرت کر لی اور کہا لوگ ہمارے اعمال دیکھ رہے ہیں، تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے ایک بار پھر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھ دیا، جسٹس منصور علی شاہ نے نیا خط تیئس اکتوبرکو لکھا۔

    خط میں جسٹس منصور نے خصوصی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا پہلے بھی لکھا تھا ترمیمی آرڈیننس پرفل کورٹ بیٹھنے تک خصوصی بینچز کا حصہ نہیں بنوں گا۔

    خط میں سر تھامس مورےکا قول بھی تحریر کیا گیا، سر تھامس مورے کہتے ہیں جب سیاستدان عوامی فرائض کی خاطرضمیرکوترک کر دیتے ہیں تووہ ملک کی تباہی کے مختصر راستے پررہنمائی کرتے ہیں۔

    جسٹس منصورنے لکھا ہم اقتدارمیں رہتے ہوئے اکثربھول جاتے ہیں لوگ ہمارے اعمال کو دیکھ رہے ہیں، تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔

    جسٹس منصور نے خط چیف جسٹس کو بطور سربراہ پریکٹس اینڈپروسیجرکمیٹی لکھا گیا۔

  • جسٹس منصورعلی شاہ کل عمرے کی ادائیگی کیلئے روانہ ہونگے

    جسٹس منصورعلی شاہ کل عمرے کی ادائیگی کیلئے روانہ ہونگے

    جسٹس منصورعلی شاہ کل عمرے کی ادائیگی کیلئے مکہ روانہ ہونگے، قاضی فائزعیسیٰ ریفرنس میں ان کی شرکت کا امکان نہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ عمرے کی ادائیگی کیلئے جسٹس منصورعلی شاہ کل مکہ روانہ ہورہے ہیں، جسٹس منصور چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ ریفرنس میں شریک نہیں ہونگے، جسٹس منصور علی شاہ فیملی سمیت عمرے کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوں گے۔

    اس حوالے سے ذرائع نے مزید بتایا کہ جسٹس منصور علی شاہ کی عمرے سے واپسی آئندہ ماہ یکم نومبر کو ہوگی۔

    خیال رہے کہ سنیارٹی کی بنیاد پر جسٹس منصور علی شاہ کو اگلا چیف جسٹس بننا تھا تاہم حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس نامزد کیا۔

    دریں اثنا وزارت قانون نے یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ وزارت قانون کو صدر کی جانب سے جسٹس یحیٰی آفریدی کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کی منظوری موصول ہوگئی تھی جس کے بعد ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔

  • مولانا فضل الرحمان کا ن لیگ کو جسٹس منصورعلی شاہ کا بطور چیف جسٹس نوٹیفکیشن جاری کرنے کا مشورہ

    مولانا فضل الرحمان کا ن لیگ کو جسٹس منصورعلی شاہ کا بطور چیف جسٹس نوٹیفکیشن جاری کرنے کا مشورہ

    اسلام آباد : جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ن لیگ کو جسٹس منصورعلی شاہ کا بطور چیف جسٹس نوٹیفکیشن جاری کرنے کا مشورہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت اور اتحادیوں کی جانب سے آئینی ترامیم پر سربراہ جے یو آئی کو منانے کی کوششیں جاری ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے ن لیگ کو جسٹس منصورعلی شاہ کا بطور چیف جسٹس نوٹیفکیشن جاری کرنےکامشورہ دیا،

    ذرائع کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے اصرار کیا ہے کہ چیف جسٹس تقرری کے بعد بذریعہ پینل ججز تعیناتی سے متعلق ترمیم لاگو کی جائے۔

    جے یو آئی کے سربراہ نے خبردار کیا اگلے چیف جسٹس کے نوٹیفکیشن میں تاخیر سےمزید مسائل ہوں گے۔

    ذرائع نے کہا کہ نواز شریف نے سربراہ جے یو آئی کی تجویز پر غور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

    سربراہ جے یو آئی نے مزید کہا کہ ن لیگ اور پی پی ایک مسودہ بنائیں، ایک مسودہ حکومتی اتحاد کا اور دوسرا مسودہ مشترکہ اپوزیشن کا ہو۔

    مولانا سے گزشتہ روز پی ٹی آئی رہنماؤں کی دوملاقاتوں میں جاتی امراکی میٹنگ کا تذکرہ کیاگیا، فضل الرحمان سے پی ٹی آئی کے چند رہنماؤں کی پہلی ملاقات قومی اسمبلی میں ہوئی۔

    مزید پڑھیں : ’ہمارے اور پی ٹی آئی ارکان کو دھمکایا جارہا ہے، اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے ہیں تو ہم ساتھ نہیں‘

    گزشتہ روز سربراہ جے یو آئی نے اپنے ارکان پر ’دباؤ‘ پر حکومت سے مذاکرات روکنے کا انتباہ دیا تھا۔

    اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے چیئرمین گوہر علی خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ ہم حکومت کے ساتھ کھلے دل کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمیں اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ ان کے ممبران پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی اور بی این پی دونوں ممبران کو ڈرایا جا رہا ہے۔

    فضل الرحمان نے خبردار کیا تھا کہ اگر یہ ہتھکنڈے جاری رہے تو وہ مذاکرات روکنے پر مجبور ہوں گے۔

    یاد رہے حکومت سپریم کورٹ میں مستقل آئینی بنچ کی تشکیل پر مکمل اتفاق کر چکی ہے، ذرائع کا کہنا تھا کہ بنچ سات مستقل ججوں پر مشتمل ہو گا جنہیں ہٹایا نہیں جا سکتا، آئینی معاملات کو سنبھالنے کے لیے ایک مستحکم عدلیہ فراہم کرے گی۔

    ذرائع کے مطابق یہ جج آئینی درخواستوں کی سماعت کے علاوہ دیگر نوعیت کے مقدمات کی بھی صدارت کر سکیں گے، جوڈیشری کمیشن کو ان مستقل ججوں کی تقرری کا اختیار دیا جائے گا، ان کے انتخاب کے لیے ایک منظم اور رسمی عمل کو یقینی بنایا جائے گا۔

  • نیب ترامیم کیس : جسٹس منصورعلی شاہ کا  اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    نیب ترامیم کیس : جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : نیب ترامیم کیس مین جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا ، جسٹس منصورعلی شاہ نے نوٹ میں لکھا کہ قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے 27صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیا، جس میں کہا ہے کہ عدلیہ قانون سازی کاتب جائزہ لےسکتی ہےجب انسانی حقوق سےمتصادم ہو، قانون سازی جانچناپارلیمنٹ،جمہوریت کونیچا دکھانےکےمترادف ہے۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ درخواست میں نہیں کہ عوامی عہدہ رکھنےوالوں کافوجداری قوانین پراحتساب کیسےبنیادی حق ہے، نیب ترامیم کیس میں درخواست گزارکے بنیادی حقوق کا مؤقف غیریقینی ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ درخواست گزارکامؤقف تسلیم کیاتوپارلیمان کیلئےکسی بھی موضوع پرقانون سازی مشکل ہوگی، پارلیمان کی جانب سےقوانین بالآخرکسی نہ کسی انداز میں بنیادی حقوق تک پہنچتے ہیں، اداروں میں توازن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب اداروں میں احترام کا تعلق قائم ہو۔

    اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت میں عدلیہ کوایگزیکٹویامقننہ کےمخالف کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، عدلیہ کوتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیےجب تک آئینی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو، درخواست گزار نیب ترامیم کو عوامی مفاد کے برعکس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ آرٹیکل8ٹوکےتحت درخواست میرٹس لیس ہونےکی وجہ سےخارج کرتاہوں، سمجھنا ہوگابنیادی حقوق کی ضمانت ترقی پسند،لبرل ،متحرک نقطہ نظر سے آئین میں دی گئی، بنیادی حقوق کا یہ مطلب نہیں ججز کوان الفاظ ،تاثرات کوکوئی مصنوعی معنی دینےکی آزادی ہے۔

    نوٹ میں مزید کہا گیا کہ بنیادی حقوق پرآئینی رہنمائی معروضی معیار سےہونی چاہیےنہ کہ جھکاؤ، موضوع کی بنیاد پر، پارلیمان جو قانون بنا سکتی ہے اسے واپس بھی لےسکتی ہے، متعدد سوالات کےباوجود درخواست گزار نہیں بتا سکا کون ساآئینی بنیادی حق ختم یا کم کیا گیا۔

     

     

  • سپریم کورٹ کے جسٹس منصورعلی شاہ نے پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر سوالات اٹھادیے

    سپریم کورٹ کے جسٹس منصورعلی شاہ نے پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر سوالات اٹھادیے

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جسٹس منصورعلی شاہ نے پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر سوالات اٹھادیے اور کہا پی ٹی آئی نےبل پرووٹنگ سے اجتناب کیا کیا اب عدالت میں حق دعویٰ بنتاہے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر سوال اٹھا دیے اور کہا عمران خان،ان کی پارٹی نے نیب ترمیمی بل پر ووٹنگ سےاجتناب کیا۔

    جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا ووٹنگ سے اجتناب کا عدالت میں حق دعویٰ بنتا ہے؟ کیا کوئی رکن اسمبلی پارلیمان کو خالی چھوڑ سکتا ہے؟ کیا پارلیمان میں کرنیوالا کام عدالتوں میں لانا پارلیمنٹ کو کمزور کرنا نہیں؟

    جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ استعفیٰ منظور نہ ہونے کا مطلب ہے اسمبلی رکنیت برقرار ہے،رکن اسمبلی حلقے کے عوام کا نمائندہ اور ان کے اعتماد کا امین ہوتاہے۔

    سپریم کورٹ کے جج نے مزید استفسار کیا کہ کیا عوامی اعتماد کے امین کا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنادرست ہے؟ قانون سازی کابائیکاٹ پھر عدالت آ نا پارلیمانی جمہوریت کمزور کرنانہیں؟

    جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیسے تعین ہوگا کہ نیب ترامیم عوامی مفاد اور اہمیت کا کیس ہے؟عوامی مفاد کا تعین کیا عدالت میں بیٹھے تین ججز نےکرنا ہے؟ کیا عوام نیب ترامیم کے خلاف چیخ و پکار کر رہی ہے؟

    ان کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کون سے بنیادی حقوق سےمتصادم ہے نشاندہی نہیں کی گئی، عمران خان وکیل اسلامی دفعات،آئین کےڈھانچے کا ذکر کرتے رہے۔

    جس پر وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے کہا کہ عمران خان چاہتے تو نیب ترامیم کو اسمبلی میں شکست دےسکتےتھے، پی ٹی آئی کے ارکان مشترکہ اجلاس میں آتے تو اکثریت میں ہوتے۔

    جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے اس نقطے پر عمران خان سے جواب لیں گے، اس بنیاد پر عوامی مفاد کا مقدمہ نہ سنیں کہ درخواست گزار کا کنڈکٹ درست نہیں؟

    ہر لیڈر اپنے اقدامات کو درست کہنے کیلئےآئین کاسہارا لیتا ہے،پارلیمان کا بائیکاٹ کرناپی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی تھی،ضروری نہیں سیاسی حکمت عملی کا کوئی قانونی جوازبھی ہو۔

    بعض اوقات قانونی حکمت عملی بھی سیاسی لحاظ سےبےوقوفی لگتی ہے،پارلیمانی کارروئی کا بائیکاٹ دنیا بھر میں ہوتا ہے،برصغیر میں تو بائیکاٹ کی لمبی تاریخ ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ پارلیمان کےمشترکہ اجلاس میں کتنےارکان نے نیب ترامیم کی منظوری دی؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ بل منظوری کے وقت مشترکہ اجلاس میں 166 ارکان شریک تھے۔

    جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ مشترکہ اجلاس میں تعداد 446 ہوتی ہے یعنی آدھے سے کم لوگوں نےووٹ دیا،عدالت صرف بنیادی حقوق،آئینی حدود پار کرنے کےنکات کاجائزہ لے رہی ہے۔

    جسٹس منصور شاہ نےکہا نیب قانون کالعدم قراردیں گے توکل کیاکوئی بھی سپریم کورٹ میں قانون سازی چیلنج کردے گا؟ ایک شخص نے نیب ترامیم چیلنج کی، ممکن ہے اسی جماعت کے باقی ارکان ترامیم کے حق میں ہوں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت چودہ فروری تک ملتوی کردی گئی۔

  • جسٹس منصورعلی شاہ نے بطور سپریم کورٹ جج حلف اٹھالیا

    جسٹس منصورعلی شاہ نے بطور سپریم کورٹ جج حلف اٹھالیا

    اسلام آباد : جسٹس منصورعلی شاہ نے بطور سپریم کورٹ جج حلف اٹھالیا، چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے حلف لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں حلف برداری کی تقریب ہوئی، جس میں جسٹس منصورعلی شاہ نے بطورسپریم کورٹ جج حلف اٹھایا، چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے حلف لیا۔

    تقریب میں ججز، سینئر وکلا، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز نے شرکت کی، ججز کے اہل خانہ اور عدالتی عملہ بھی تقریب حلف برداری میں شریک ہوا۔

    جسٹس منصور علی شاہ کی تقرری کے بعد سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 ہوگئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • خواتین کوعدالتی شعبےمیں مشکلات کا سامنا ہے‘ جسٹس منصورعلی شاہ

    خواتین کوعدالتی شعبےمیں مشکلات کا سامنا ہے‘ جسٹس منصورعلی شاہ

    لاہور : چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ منصورعلی شاہ کا کہنا ہے کہ ضلعی عدالتوں میں خواتین کے حقوق کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور میں خواتین ججز کی 3 روزہ کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ منصورعلی شاہ نے کہا کہ ہائی کورٹ میں کیس مینجمنٹ کی کوشش کی۔

    انہوں نے کہا کہ خواتین سےمتعلق مقدمات میں کیس مینجمنٹ سےمددملتی ہے، ایک دواقدامات سے خواتین کے مسائل کا حل ممکن نہیں تھا۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے کہا کہ ماتحت عدالتوں کے 36 ججوں سے تفصیلی بات کی جبکہ ججوں کے مسائل کا ہرممکن جائزہ لیا گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے رابطےکے بغیرعدلیہ میں بہتری ممکن نہیں۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ضلعی عدالتوں میں خواتین کےحقوق کے لیےاقدامات کیے ہیں جبکہ اسٹیک ہولڈرزکومل کرآئندہ کا لائحہ عمل تیارکرنا ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ سیشن ججزکوعدلیہ کا اہم حصہ ہونے کا احساس دلایا، ایڈوائزری کمیٹی کی مدد سے سیشن ججزکے مسائل جانے۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ میں اسپیشل بینچزقائم کررہےہیں، سیشن ججزکوعدلیہ کا اہم حصہ ہونے کا احساس دلایا۔

    انہوں نے کہا کہ ایڈوائزری کمیٹی کی مددسےسیشن ججزکےمسائل جانے، آج کے سیشن کا مقصد خواتین ججزکے مسائل سے آگاہی ہے۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کوشش ہے ماڈل کورٹ کا دائرہ پورے پنجاب میں پھیلائیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں 12لاکھ سےزائدمقدمات زیرسماعت ہیں۔

    واضح رہے کہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں آڈٹ کےذریعےمسائل کی نوعیت سےآگاہی حاصل کی،عدالتوں میں ڈسٹرکٹ ججوں کے بچوں کے لیے کیئر سینٹر قائم کررہے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔