Tag: جسٹس منصور علی شاہ

  • چیف جسٹس پاکستان کا جسٹس منصور کو بھیجا گیا جوابی خط پہلی بار منظر عام پر

    چیف جسٹس پاکستان کا جسٹس منصور کو بھیجا گیا جوابی خط پہلی بار منظر عام پر

    اسلام آباد(14 اگست 2025): چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کا جسٹس منصور علی شاہ کو بھیجا گیا جوابی خط منظر عام پر آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق ججز کمیٹیوں کے 31 اکتوبر 2024 سے 29 مئی 2025 تک کے اجلاس کے منٹس پبلک کردیے گئے ہیں، اس کے علاوہ چیف جسٹس آف پاکستان کا جسٹس منصور کو بھیجا گیا جوابی خط بھی منظر عام پر آگیا، جوابی خط جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے 31 اکتوبر کے اجلاس پر لکھا گیا۔

    دونوں ججوں نے 26 ویں ترمیم فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے کہا آرٹیکل 184 شق تھری کے تحت فل کورٹ مقرر کریں۔

    چیف جسٹس کے خط میں کہا گیا کیا ایسا چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد ہوسکتا ہے؟ ججوں کی تشویش سمجھتا ہوں، جو 26 ویں ترمیم کو چیلنج کرنے والی آئینی درخواستوں کو مقرر کرنے پر ہے، ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے تیرہ ججوں سے رائے لی۔

    چیف جسٹس کے خط کے متن کے مطابق سپریم کورٹ کے نو ججوں کا مؤقف تھا معاملہ آئینی بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے جب ججوں کی رائے آچکی تو حقائق جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو بتادیے گئے، تیرہ ججوں کے نقطہ نظر سے بھی آگاہ کر دیا گیا۔

    خط میں کہا گیا کہ بطور چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ اجلاس بلانا مناسب نہیں سمجھا،  ایسا کرنے سے ججوں کے درمیان انتہائی ضروری باہمی روابط کی روح مجروح ہوتی، سپریم کورٹ عوامی تنقید کا نشانہ بھی بن سکتی ہے، جیسا کہ افسوس کے ساتھ ماضی قریب میں ہوتا رہا ہے۔

    اس کے علاوہ 26 نومبر  2024 کے ججز ریگولر کمیٹی اجلاس اور ٹیکس کیس سے متعلق ججز کمیٹی کے میٹنگ منٹس جاری کردیئے گئے، 17 جنوری 2025کے ریگولر ججز کمیٹی اجلاس میں جسٹس امین الدین، رجسٹرار شریک ہوئے، چیف جسٹس کی سربراہی میں اجلاس میں پرائیویٹ سیکرٹری کے ذریعے جسٹس منصور علی شاہ کو آگاہ کیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے آگاہ کیا کہ وہ دستیاب نہیں اور اپنی رائے 13 اور 16 جنوری کو دے چکے، یہ رائے جسٹس منصور نے ٹیکس کیس میں آئینی تشریح کوآئینی بینچ کے بجائے ریگولر بینچ بھی سننے پر دی تھی۔

    چیف جسٹس نے کہا ٹیکس مقدمات پر سماعت 13 جنوری کو ریگولر بینچ میں ہوئی تھی جو 27 جنوری تک ملتوی کی گئی، اور یہ حکم ویب ماسٹر کو موصول ہوا تھا، اسی تناظر میں ویب ماسٹر کو دوسرا آرڈر موصول ہوا جس میں کہا گیا اگلی سماعت 16جنوری کو ہوگی۔

    اجلاس میں دو ممبران کی اکثریت سے فیصلہ کیا گیا کہ کیس ریگولر بینچ کے بجائے آئینی بینچ میں منتقل کیا جاتا ہے۔

  • جسٹس منصور علی شاہ نے ججز سنیارٹی بغیر مشاورت طے کرنے پر سوالات اٹھادیئے

    جسٹس منصور علی شاہ نے ججز سنیارٹی بغیر مشاورت طے کرنے پر سوالات اٹھادیئے

    اسلام آباد : جسٹس منصور علی شاہ نے ججز سنیارٹی بغیر مشاورت طے کرنے پر سوالات اٹھا دیئے اور کہا آرٹیکل 200 کے تحت مشاورت لازم تھی۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے سیکریٹری جوڈیشل کمیشن کو ایک اور خط لکھ دیا، ذرائع نے بتایا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے خط گزشتہ روز کے اجلاس سے پہلے لکھا۔

    خط میں جسٹس منصور نے ججز سنیارٹی بغیر مشاورت طے کرنے پرسوالات اٹھائے اور کہا صدر سنیارٹی طے کرنے سے پہلے چیف جسٹس سے مشاورت کے پابند تھے۔

    خط میں کہا گیا کہ آرٹیکل 200 کے تحت مشاورت لازم تھی، صدر مملکت نے جلدبازی میں خود ہی سنیارٹی طے کردی، معاملہ انٹرا کورٹ اپیل میں زیر التوا بھی ہے، میری رائے میں مشاورت لازم تھی۔

    یاد رہے گذشتہ ماہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے آئینی بینچ کی مدت میں توسیع کی مخالفت کرتے ہوئے 26ویں ترمیم کے فیصلے تک تمام ججز کو آئینی بینچ ڈکلیئر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    مزید پڑھیں : جسٹس منصور علی شاہ کی آئینی بینچ کی مدت میں توسیع کی مخالفت، خط سامنے آگیا

    جسٹس منصور کا 19 جون 2025 کے اجلاس سے پہلے کا لکھا گیا خط منظر عام پر آیا تھا، جو جوڈیشل کمیشن ممبران کو پہنچایا گیا۔

    خط میں جسٹس منصور  نے لکھا تھا کہ 26ویں ترمیم کیس کے فیصلے تک توسیع نہ کی جائے، پیشگی بتا دیا تھا 19 جون کے اجلاس کیلیے پاکستان میں دستیاب نہیں ہوں، توقع تھی عدم دستیابی پر اجلاس مؤخر کیا جائے گا کیونکہ ماضی میں ایگزیکٹو ممبران کی عدم موجودگی پر اجلاس مؤخر ہو چکا ہے۔

  • جسٹس منصور علی شاہ  کا سروس کیس میں عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ جاری

    جسٹس منصور علی شاہ کا سروس کیس میں عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ جاری

    اسلام آباد : جسٹس منصور علی شاہ نے سروس کیس میں عدلیہ سے متعلق اہم فیصلے میں کہا کہ تاریخ ان ججوں کو بری نہیں کرے گی جواپنی آئینی ذمہ داری ترک کر دیتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے سروس کیس میں عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ جاری کردیا۔

    جس میں کہا ہے کہ ججز کا فرض ہے اپنی صفوں میں طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والوں کی نشاندہی کریں، ججز اخلاقی وضاحت اور ادارہ جاتی جرأت کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں۔

    فیصلے میں کہنا تھا کہ اندر سے تنقید آئین کی وفاداری کی جڑ ہے،بے وفائی نہیں، ایسے لوگوں کو للکارنا عدالتی ادارے کی خدمت کی اعلیٰ ترین شکل ہے، ججز کو دیانتداری اور جرأت کے ساتھ کام کرنا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ججز کو اندرونی اور بیرونی تمام تجاوزات کا مقابلہ کرنا ہے، ججز کو عدلیہ اورقانون کی حکمرانی پامال کرنے کے خطرات کا مقابلہ کرنا ہے، ججز کو چھوٹے، قلیل مدتی فوائد کے لالچ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

    جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ ایسے فوائد محض وہم اور عارضی ہوتے ہیں، جج کا اصل اجر ادارے کے وقار اور عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے میں ہے، تاریخ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو اصول کے دفاع میں ثابت قدم رہے۔

    فیصلے کے مطابق عدالتوں کو آئینی اخلاقیات کا مینارہ اور جمہوری سالمیت کا محافظ ہونا چاہیے، تاریخ ان ججوں کو بری نہیں کرے گی جواپنی آئینی ذمہ داری ترک کر دیتے ہیں۔

    سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ تاریخ ایسے ججز کو ناانصافی کے ساتھی کے طور پر یاد رکھے گی، سپریم کورٹ تنازعات کے حل کا فورم نہیں، قوم کا آئینی ضمیر بھی ہے۔

  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھا لیا

    جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھا لیا

    اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کی بطور قائم مقام چیف جسٹس کی حلف برداری کی تقریب سپریم کورٹ میں ہوئی،حلف برداری تقریب میں سپریم کورٹ کے ججز نے شرکت کی۔

    تقریب میں جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا، سپریم کورٹ کےسینئر جج جسٹس منیب اختر نے جسٹس منصور علی شاہ سے حلف لیا۔

    اٹارنی جنرل، لاء افسران اور وکلا بھی تقریب بھی شریک ہوئے۔

    خیال رہے چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی 22 تا 26 اپریل کے دوران چین کے شہر ہانگژو میں منعقد ہونے والی ایس سی او کے رکن ممالک کی سپریم کورٹس کے چیف جسٹسز کی 20ویں کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

    دورے کے دوران سپریم کورٹ پاکستان اور سپریم پیپلز کورٹ چین کے درمیان تاریخی ایم او یو پر دستخط ہوں گے ، ایم او یو سے عدالتی روابط، تربیت، معلومات کے تبادلے میں پیشرفت ہوگی۔

    اعلی عدلیہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایم او یو میں بین الاقوامی کمرشل لا، ثالثی، سائبر کرائم، مالیاتی جرائم شامل ہوں گے، موسمیاتی تبدیلی، عدالتی ٹیکنالوجی اور تنازعات کے حل میں تعاون شامل ہوگا جبکہ عدالتی فیصلوں کے نفاذ اور شہری مقدمات میں باہمی قانونی معاونت کا نظام بہتر ہوگا، دونوں ممالک عدالتی خودمختاری اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر کاربند ہیں۔

  • جسٹس منصور علی شاہ 21 اپریل کو بطور قائم مقام چیف جسٹس پاکستان حلف اٹھائیں گے

    جسٹس منصور علی شاہ 21 اپریل کو بطور قائم مقام چیف جسٹس پاکستان حلف اٹھائیں گے

    اسلام آباد : چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے بیرون ملک دورے کے پیش نظر جسٹس منصور 21 اپریل کو بطور قائم مقام چیف جسٹس پاکستان حلف اٹھائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور 21 اپریل کو بطور قائم مقام چیف جسٹس پاکستان حلف اٹھائیں گے، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی بیرون ملک سے واپسی تک فرائص انجام دیں گے۔

    جسٹس منیب اختر جسٹس منصور علی شاہ سے حلف لیں گے، حلف برداری کی تقریب سپریم کورٹ میں ہوگی ، تقریب حلف برداری میں وکلا،سپریم کورٹ اسٹاف شرکت کرے گا۔

    خیال رہے چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی 22 تا 26 اپریل کے دوران چین کے شہر ہانگژو میں منعقد ہونے والی ایس سی او کے رکن ممالک کی سپریم کورٹس کے چیف جسٹسز کی 20ویں کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

    دورے کے دوران سپریم کورٹ پاکستان اور سپریم پیپلز کورٹ چین کے درمیان تاریخی ایم او یو پر دستخط ہوں گے ، ایم او یو سے عدالتی روابط، تربیت، معلومات کے تبادلے میں پیشرفت ہوگی۔

    کیوں میں 31 سال بعد اپنا سچ لیے پاکستان سے بھاگ جانا چاہتا ہوں؟ 

    اعلی عدلیہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ایم او یو میں بین الاقوامی کمرشل لا، ثالثی، سائبر کرائم، مالیاتی جرائم شامل ہوں گے، موسمیاتی تبدیلی، عدالتی ٹیکنالوجی اور تنازعات کے حل میں تعاون شامل ہوگا جبکہ عدالتی فیصلوں کے نفاذ اور شہری مقدمات میں باہمی قانونی معاونت کا نظام بہتر ہوگا، دونوں ممالک عدالتی خودمختاری اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر کاربند ہیں۔

  • پاکستان میں عدالت کے علاوہ تنازعات کے حل کے متبادل راستے کیا ہیں؟ جسٹس منصور بتاتے ہیں

    پاکستان میں عدالت کے علاوہ تنازعات کے حل کے متبادل راستے کیا ہیں؟ جسٹس منصور بتاتے ہیں

    کراچی: تنازعات کے متبادل حل کے موضوع پر آئی بی اے میں آج ایک سیمینار ہوا، جس میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن شریک ہوئے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں 24 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں، اور 86 فی صد زیر التوا کیسز ضلعی عدالتوں میں ہیں، ملک میں یہ ایک طریقہ رائج ہو گیا ہے کہ کسی کو بھی مسئلہ ہوتا ہے تو عدالت آتا ہے، حالاں کہ ثالثی سمیت دیگر مختلف راستے بھی موجود ہیں۔

    انھوں نے کہا ہمارے پاس ججز کی تعداد کم ہے، پاکستان میں اوسطاً 13 ججز فی ملین ہیں، جب کہ دنیا میں 90 ججز فی ملین ہیں، اس لیے تنازعے کی صورت میں فوری طور پر عدالت آنے کی بجائے ثالثی کی کوشش کی جانی چاہیے، اگر ثالثی سے مسئلہ حل نہ ہو تو عدالت سے رجوع کیا جانا چاہیے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کمپنیوں کو پہلے داخلی طور پر تنازعات حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے عدالتوں پر دباؤ بڑھتا ہے، انصاف تک رسائی تمام شہریوں کا حق ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عدالت سے رجوع کیا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا فورم ہو جہاں مسائل حل ہو سکیں۔

    انھوں نے کہا ’’میڈیئیشن اور آربٹریشن سمیت دیگر آپشن بھی موجود ہیں، تنازعات کا یہ متبادل حل عدالتی نظام ہی کا حصہ ہے، عدالتی سسٹم عدالت سمیت دیگر طریقہ کار فراہم کرتا ہے، صرف عدالتوں کو ہی انصاف کی فراہمی کا ذمہ دار نہیں سمجھنا چاہیے، اگر ہر کوئی عدالت سے رجوع کر کے حکم امتناع حاصل کرے گا تو معیشت کیسے چلے گی، حکم امتناع اور ضمانتوں کی بنیاد پر قومیں ترقی نہیں کرتیں۔‘‘

    سیمینار سے جسٹس جواد حسن نے خطاب میں کہا ’’پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں تنازعات کے متبادل حل کا قانون موجود ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ثالثی کے موضوع پر تفصیلی فیصلے تحریر کیے ہیں، پاکستان دنیا کے 3 ممالک میں شامل ہے جہاں ثالثی کے عدالتی احکامات موجود ہیں۔‘‘

    جسٹس جواد نے مزید کہا ’’دنیا میں ثالثی رضاکارانہ بنیادوں پر ہوتی ہے، آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات تمام ماتحت عدالتوں پر لاگو ہوتے ہیں، عدالتوں کا کام ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو غیر ضروری مقدمہ سازی سے بچاتے ہوئے ثالثی کے ذریعے اعتماد فراہم کریں۔‘‘

  • توہین عدالت کیس  : حکومت کا  جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ

    توہین عدالت کیس : حکومت کا جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : حکومت نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کے فل کورٹ تشکیل سے متعلق آرڈر کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی مین سات رکنی آئینی بنچ نے کسٹم ریگولیٹرڈیوٹی کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل نے آئینی بینچ کو جسٹس منصورعلی شاہ توہین عدالت کیس کا فیصلہ چیلنج کرنےکے فیصلہ سے اگاہ کیا اور بتایا جسٹس منصورعلی شاہ کا 13اور16جنوری کے آرڈرزپرنظرثانی دائرکرنے کا فیصلہ ہوا ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ جسٹس منصورعلی شاہ نے کسٹم ڈیوٹی کا کیس اپنےبینچ میں لگانےکاحکم دیا ہے،کیا اس آرڈرکی موجودگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کی فکرصرف چندکونہیں سب کوہے، جوکام کریں وہ تو ڈھنگ سے کریں، کونسی قیامت آگٸی تھی ، یہ بھی عدالت ہی ہے۔

    جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے 13جنوری کوآرڈردیا کہ سماعت 27جنوری کوہوگی ، پھرسماعت اچانک اگلے روزکیلٸے کیسے مقرر ہوگٸی۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا تین رکنی بنچ سے ایک جج الگ ہوگٸے، کیا وہ جج یہ آرڈردے سکتا تھا کہ یہ کیس مخصوص بنچ کے سامنے لگے؟ جبکہ جسٹس حسن اظہررضوی نے بھی استفسار کیا کہ کیا بنچ دوبارہ قاٸم کرنے کا اختیاراسی جج کے پاس تھا؟

    جسٹس نعیم افغان نے بیرسٹرصلاح الدین سے مکالمہ کرتےہوئے کہا ہمیں لگتا ہے اس سارے معاملے کے ذمہ دارآپ ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہربولے عدالتی حکمنامہ کے مطابق آپکا اصرار تھا یہ ریگولر بنچ یہ کیس سن سکتا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کیا آپکو ہم ججز پر اعتماد نہیں؟ میں نااہل ہویا مجھے قانون نہیں آتا تومجھے بتا دیں؟ تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا میرے پاس 13 جنوری کے دوحکمنامے موجود ہیں، ایک میں کہا اگلی تاریخ 27 جنوری ہے جبکہ دوسرے میں کہا کیس کی اگلی تاریخ سولہ جنوری ہے۔

    جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آرہی اٹارنی جنرل کونوٹس دیے بغیرکہاگیا کیس سنا ہوا سمجھا جائے۔

    جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کل کے فیصلے میں کہا گیا کیس اسی بنچ کے سامنے سماعت کیلئے مقررکیا جائے اورفیصلے میں توججزکے نام تک لکھ دیے، غلط یا صحیح لیکن جوڈیشل آرڈرہے، کیا ہم یہاں کیس سن سکتے ہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے یہ بدقستمی ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے، جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ آپ بتا دیں کہ کیس کس بنچ کے سامنے چلے گا؟ ہماری بھی عزت ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بیرسٹر صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جذباتی نہ ہو ہم آپکے جذبات کا احترام کرتے ہیں، نام تو بدنام ویسے ہی ہے۔

    آئینی بینچ نے جسٹس منصورعلی شاہ کا 13 اور 16 جنوری کے آرڈر واپس لیتے ہوئے توہین عدالت کیس کا ریکارڈ کسٹم ڈیوٹی کیس کیساتھ منسلک کرنے کا حکم دے دیا۔

    جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے اس کے پابند ہیں، جو مقدمہ ہمارے دائرہ اختیار میں آتا ہے اس میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے ، بعد ازاں عدالت نے کسٹم ڈیوٹی کیس کی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔

  • ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس: جسٹس منصور علی شاہ کا  بینچ کے 2 ججز پر اعتراض

    ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس: جسٹس منصور علی شاہ کا بینچ کے 2 ججز پر اعتراض

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے انٹراکورٹ اپیل کے بینچ میں شامل 2 ججز پر اعتراض کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرارکیخلاف توہین عدالت کیس میں انٹراکورٹ اپیل کے بینچ پر اعتراض اٹھادیا۔

    اس سلسلے میں جسٹس منصور علی  نے ججز کمیٹی کو خط لکھا ، جس میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا۔

    جسٹس منصور نے کہا کہ 23 جنوری کو جوڈیشل کمیشن اجلاس ہوا، اجلاس کےبعدچیف جسٹس نےچیمبرمیں کمیٹی کاغیررسمی اجلاس بلایا، اجلاس میں تجویزدی سنیارٹی کےاعتبارسے5رکنی بینچ انٹراکورٹ اپیل پربنایاجائے۔

    خط میں کہا گیا کہ "تجویز دی تھی بینچ میں ان ججز کو شامل نہ کیاجائےجوکمیٹی کےرکن بھی ہیں، چیف جسٹس نے کہا وہ 4 رکنی بینچ بنانا پسند کریں گے، پھر رات 9 بجکر33منٹ پر میرے سیکریٹری کا واٹس ایپ میسج آیا، سیکرٹری نے مجھ سے 6 رکنی بینچ کی منظوری کا پوچھا۔”

    جسٹس منصور نے خط میں لکھا "میں نےسیکرٹری کوبتایا مجھےاس پراعتراض ہےصبح جواب دوں گا، رات 10 بجکر 28 منٹ پر سیکریٹری نے بتایا 6 رکنی بینچ بن گیا ہے اور روسٹربھی جاری کر دیا گیا ہے۔”

    خط میں لکھا کہا "میرابینچ پر 2ممبران کی حدتک اعتراض ہے، بینچزاختیارات کا کیس ہم سے واپس لینے کا فیصلہ دونوں کمیٹیوں نے کیا، کمیٹیوں میں شامل ججز کے فیصلے پر ہی سوالات ہیں۔”

    ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی میں شامل ارکان اپنے کئے پر خود جج نہیں بن سکتے، میرے اعتراضات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے.

  • جسٹس منصور علی شاہ کی سپریم کورٹ انتظامی جج کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے معذرت

    جسٹس منصور علی شاہ کی سپریم کورٹ انتظامی جج کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے معذرت

    اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ نے بطور انتظامی جج سپریم کورٹ ذمے داریاں ادا کرنے سے معذرت کر لی۔

    ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کے پاس انتظامی فائلیں بھیجی گئیں تو انہوں نے انتظامی فائلوں پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے فائلز واپس بھجواتے ہوئے کہا کہ میں انتظامی جج سے سبکدوش ہوچکا ہوں۔

    سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منصور علی شاہ کو منتظم جج سپریم کورٹ مقرر کیا تھا۔

    یاد رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی نے چیف جسٹس کے لیے جسٹس یحییٰ آفریدی کا انتخاب کیا تھا اور سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس نہیں بن سکے تھے۔

  • جسٹس منصور کا جوڈیشل کمیشن کو ایک اور خط، ججز تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت

    جسٹس منصور کا جوڈیشل کمیشن کو ایک اور خط، ججز تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت

    اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کو ایک اور خط لکھ کر ججز تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کو ایک اور خط لکھ دیا ہے، جس میں انھوں نے ججوں کی تعیناتی سے متعلق رولز پر رائے بھی دے دی ہے۔

    سیکریٹری جوڈیشل کمیشن کو لکھے گئے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے ججوں کی تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسی کو کردار دیا گیا تو اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، جوڈیشل کمیشن میں پہلے ہی اکثریت ایگزیکٹو کی ہے۔

    انھوں نے کہا 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق اپنی پوزیشن واضح کر چکا ہوں، پہلے فل کورٹ بنا کر چھبیس ویں ترمیم کا جائزہ لینا چاہیے۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے تجویز پیش کی کہ آئینی بنچ کے لیے ججوں کی تعیناتی اور تعداد کا مکینزم ہونا چاہیے، آئینی بنچ میں ججز کی شمولیت کا پیمانہ طے ہونا چاہیے، کس جج نے آئین کی تشریح والے کتنے فیصلے لکھے یہ ایک پیمانہ ہو سکتا ہے۔

    انھوں نے لکھا کہ کمیشن بغیر پیمانہ طے کیے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں آئینی بنچ تشکیل دے چکا ہے، رولز پر میری رائے اس ترمیم اور کمیشن کی آئینی حیثیت طے ہونے سے مشروط ہے، جج آئین کی حفاظت اور دفاع کرنے کا حلف لیتا ہے، ججز تعیناتی کے رولز بھی اسی حلف کے عکاس ہونے چاہئیں۔