Tag: جسٹس منصور علی شاہ

  • گزشتہ 7 سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہم نے کچھ نہیں کیا،  جسٹس منصور علی شاہ

    گزشتہ 7 سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہم نے کچھ نہیں کیا، جسٹس منصور علی شاہ

    اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا سامناہے،پچھلے پانچ 7سال ہم نے اس حوالے سے کچھ نہیں کیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے نجی یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کلائمیٹ فنانس ہی کلائمیٹ جسٹس ہے ، موسمیاتی ایمرجنسی کا پاکستان کو سامنا ہے، پاکستان دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہے۔

    سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ عدالتوں نے ہمیشہ موسمیاتی ایمرجنسی کے کیسز کو سنجیدہ لیا ، 90 کی دہائی میں انڈسٹریوں کو بند کرنے سے لیکر دیگر عوامل پر بات کی گئی ، عملدرآمد کون کرے گا اس پر بات نہیں ہوئی۔

    انھوں نے کہا کہ کلائمیٹ فنانس پر بات ہی نہیں ہوئی ، نیچر فنانس کے بغیر موسمیاتی ایمرجنسی سے لڑا نہیں جاسکتا۔

    جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ گزشتہ 7 سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا ، کیسز میں عدالتوں نے ہدایات جاری کیں لیکن گراؤنڈ پر کچھ نہیں ہوا۔

    انھون نے زور دیا کہ فوڈ سیکیورٹی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، واٹرسیکورٹی سمیت دیگر عوامل پرغور کی ضرورت ہے، یہ دیکھا نہیں گیا کہ ریسورس ہےیانہیں، حکومت نے بھی اس پرتوجہ نہیں دی۔

    سپریم کورٹ کے جج نے بتایا کہ باکو میں حکومت نے موسمیات تبدیلی سے نمٹنے کیلئے اچھی کوشش کی، عدالتیں سمجھتی ہیں کہ کلائمٹ فنانس کو بنیادی حق سمجھنا ہوگا، ہم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، ہمیں موسمیاتی ایمرجنسی کے لئے مربوط حکمت عملی بنانا ہوگی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ نیچر فنانس پرغورکرنا ہوگا تاکہ آلودگی اوربائیو ڈائورسٹی پربھی کام ہوسکے، کلائمٹ فنڈ ابھی تک نہیں بنایا گیا ہوسکتا ہے جلد بن جائے۔

  • جسٹس منصور علی شاہ کا چلڈرن کورٹس بنانے کی ضرورت پر زور

    جسٹس منصور علی شاہ کا چلڈرن کورٹس بنانے کی ضرورت پر زور

    اسلام آباد : جسٹس منصور علی شاہ نے ملک میں چلڈرن کورٹس بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا عدلیہ کو بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ججزکوبتاناچاہتاہوں بچوں کیلئےانصاف کس قدراہم ہے ، بچےصرف ہمارا مستقبل ہی نہیں ہمارا آج بھی ہیں۔

    جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو بچوں کےحقوق کااحساس ہے، بچے کل کے لوگ نہیں بلکہ آج کے افراد ہیں، مفاد عامہ کے مقدمات سےکافی بہتری آتی ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ میں ہمیشہ کہتاہوں عدالت آئیں، میں آئینی بینچ میں نہیں مگرمیرےساتھ آپ کوسنیں گے، ہماری عدالت میں بچےپیش ہوتےبات کرنےکاموقع نہیں دیتے، ہم کیسز میں بچوں کے والدین کو سن لیتے ہیں، آئندہ سے بچہ عدالت میں پیش ہوتو اس کی بات سنیں۔

    سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ ایک جج کوکمرہ عدالت میں بچوں کو سننا ہوگا،جسٹس منصورچوں کی پروٹیکشن سے متعلق عالمی قوانین بنائے گئے۔

    انھوں نے زور دیا کہ عدلیہ کوبچوں کو بھی فیصلہ سازی کے عمل شامل کرنا چاہیے، عدلیہ کوبچوں کے حقوق کاتحفظ کرنا چاہیے، طوطا چوری ہو توبچہ جیل میں بیٹھا ہے، بچوں کو عدالتی نظام سے مت گزاریں، بچوں کو بھی کیس سے گزرنے میں20،15سال نہ لگ جائیں۔

    جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ ملک میں چلڈرن کورٹس بنانےکی ضرورت ہے، چلڈرن کورٹس میں بچوں سےمتعلق کیسز کےجلدفیصلےہوں۔

    انھوں نے کہا کہ دیکھنا ہے ہمارا نظام انصاف بچوں کیلئے کیا کر رہا ہے، بچوں کوبھی آزادی رائے کا حق ہے، بچے ہمارے لیے ہم سے زیادہ اہم ہونے چاہئیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے بچہ عدالت آکر سارا دن بیٹھا رہے، بچوں سےمتعلق کیس کو فوری سنا جانا چاہیے۔

    سپریم کورٹ جج کا کہنا تھا کہ بچوں کوآج”سائبر بلنگ”جیسےخطرات کاسامنا ہے، ملک میں25ملین سےزیادہ بچےاسکول نہیں جا رہے، اسپیشل چائلڈسےمتعلق ہمارے پاس سہولتیں نہیں۔

    انھوں نے کہا کہ بچیوں کوونی کرنےجیسی رسومات آج تک موجود ہیں، ایسی رسومات پرہمیں شرم آنی چاہیے، مذہب کی جبری تبدیلی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اسکولوں میں بچوں کو مارنےکارجحان آج بھی موجود ہے۔

  • ججز کی تعیناتی کا معاملہ : جسٹس منصور علی شاہ کا جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو خط

    ججز کی تعیناتی کا معاملہ : جسٹس منصور علی شاہ کا جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو خط

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو خط میں ججز تعیناتی کے عمل پر تحفظات کا اظہار کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو ایک اور خط لکھ دیا، جس میں کہا کہ ہائی کورٹس کے اضافی ججز کی نامزدگیوں سے پہلے جوڈیشل کمیشن کے قواعد ترتیب دیں، جوڈیشل کمیشن نے ججز تعیناتی کیلئے ضروری قواعد اور معیار ترتیب نہیں دیئے۔

    خط میں کہنا تھا کہ موجودہ نامزدگیوں کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جاسکتا جب تک طریقہ کار نہ طے کرے، سابقہ قواعد موجودہ حالات میں کارآمد نہیں ہیں، ججز تعیناتی کے عمل میں شفافیت، مستقل مزاجی اور میرٹ کیلئے جامع پالیسی لازمی ہے۔

    جسٹس منصور نے کہا کہ نامزدگیوں سے پہلے امیدواروں کی اہلیت، تجربہ اور پیشہ ورانہ خصوصیات دیکھنی چاہئیں ، قواعد کے بغیر یہ عمل عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، عوامی اعتماد کو متاثر کر سکتا ہے۔

    خط میں کہنا تھا کہ ایک جامع فریم ورک بنایا جائے، جو تعیناتی کے عمل کو منظم کرے اور نامزدگیوں کیلئے جنس، علاقے، مذہب اور قانونی مہارت کے لحاظ سے تنوع کو مدنظر رکھا جائے۔

    سپریم کورٹ کے جج نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے تمام ارکان کو پہلے قواعد وضع کرنے کی درخواست کی گئی ہے، قواعد و ضوابط کے بعد ہی ہائیکورٹس کے اضافی ججز کی نامزدگی ممکن بنائی جائے۔

    جسٹس منصور کا خط عدلیہ کی آزادی، قابلیت اور عوامی نمائندگی کو یقینی بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

  • جسٹس منصورعلی شاہ کا چیف جسٹس کو خط ، 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ

    جسٹس منصورعلی شاہ کا چیف جسٹس کو خط ، 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے سینئرترین جج جسٹس منصورعلی شاہ نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط میں 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پرفل کورٹ بنانے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئرترین جج جسٹس منصورعلی شاہ نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھا ، جس میں 6دسمبر کوشیڈول جوڈیشل کمیشن اجلاس ملتوی کرنےکی استدعا کردی۔

    جسٹس منصور نے 26 ویں آئینی ترمیم کی درخواستوں پرسماعت کیلئے خط تحریر کیا، خط میں لکھا چیف جسٹس آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پرسماعت کیلئےفل کورٹ تشکیل دیں اور رجسٹرارسپریم کورٹ کودرخواستیں سماعت کیلئےلگانے کا حکم دیں۔

    خط میں جوڈیشل کمیشن اجلاس مؤخر کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کا فیصلہ ہونےتک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس موخر کیا جائے۔

    سپریم کورٹ کے سینئرترین جج کا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی گئی تھی، ترمیم کے خلاف دو درجن سے زائد درخواستیں زیر التوا ہیں۔

    جسٹس منصور نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستیں منظور بھی ہو سکتی ہیں اور مسترد بھی، آئینی ترمیم کیخلاف درخواست منظور ہوتی ہیں تو جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کی وقعت ختم ہو جائے گی ، ایسی صورتحال ادارے اور ممبران کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گی۔

  • ‏جسٹس منصور علی شاہ کے آئینی بنچز سے متعلق دلچسپ ریمارکس

    ‏جسٹس منصور علی شاہ کے آئینی بنچز سے متعلق دلچسپ ریمارکس

    اسلام آباد : ‏سپریم کورٹ میں دورانِ سماعت جسٹس منصورعلی شاہ کے آئینی بنچز سے متعلق دلچسپ ریمارکس سامنے آئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سوئی ناردرن اووربلنگ کیس کی سماعت کی۔

    دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اس کیس کی نظرثانی درخواست ابھی زیرالتوا ہے، کیس 26 ویں ترمیم کے بعد آئینی بنچ میں جائے گا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں کوئی آئینی یا قانونی سوال موجود نہیں، سارے مقدمات آئینی بنچز میں نہ لے کر جائیں، کچھ مقدمات ہمارے پاس بھی رہنے دیں۔

    عدالت نے کیس نمٹاتے ہوئے قرار دیا کہ زیر التوا نظرثانی کیس میں درخواست گزار سوال اٹھا سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں : 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کے دلچسپ ریمارکس

    یاد رہے مسابقتی کمیشن سے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کےدوران جسٹس منصورعلی شاہ نے آئینی بینچ کا تذکرہ آیا تھا۔

    جسٹس منصور نے مسکراتے ہوئے سوال کیا تھا کہ کیا یہ کیس اب آئینی بینچ میں جائے گا یا ہم بھی سن سکتےہیں؟ اب لگتا ہے یہ سوال سپریم کورٹ میں ہر روز اٹھے گا کہ کیس عام بینچ سنے گا یا آئینی بینچ سنے گا۔

  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی  نے جسٹس منصور علی شاہ کو اہم ذمہ داری سونپ دی

    چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس منصور علی شاہ کو اہم ذمہ داری سونپ دی

    اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کو تنازعات کے حل کی متبادل کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے تنازعات کے حل کیلیے متبادل کمیٹی کی تشکیل تبدیل کردی۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کو اے ڈی آر کمیٹی کا چئیرمین مقرر کیا گیا ہے جبکہ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاید وحید کمیٹی کے ممبران ہوں گے۔

    اعلیٰ عدلیہ کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشن کی کاپی تمام متعلقہ افسران کو بھجوا دی گئی ہے۔

    یاد رہے سابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اگست 2024 میں تنازعات کے متبادل حل کیلئے ٹاسک فورس کی از سر نو تشکیل کی تھی۔

    لا اینڈ جسٹس کمیشن کے 22 جولائی کو جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جسٹس منصور کی ٹاسک فورس کی رکنیت ختم کردی گئی تھی، اور جسٹس یحییٰ خان آفریدی کو کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔

    کمیٹی کے دیگر ممبران میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔

  • جسٹس منصور علی شاہ نے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت  نہ کرنے کی وجہ بتادی

    جسٹس منصور علی شاہ نے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ بتادی

    اسلام آباد : جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے اعزازمیں فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات بتادیں۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا ، جس میں چیف جسٹس کے ریٹائر پر فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات بتائیں۔

    خط میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئینی حدود سے تجاوز کیا تو ان کے ریفرنس میں شرکت سے بھی انکار کیا اور ثاقب نثار کے ریفرنس میں عدم شرکت کی وجوہات بھی خط کے ذریعے بتائی تھیں۔

    انھوں نے خط میں لکھا "چیف جسٹس قاضی فائزکے ریفرنس میں شرکت نہ کرنےکی وجوہات مزیدپریشان کن ہیں ، اسی وجہ سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزازمیں منعقدہ ریفرنس بھی شرکت نہیں کروں گا۔”

    جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ "میرا خط فل کورٹ کے ریکارڈ پر رکھا جائے ، ایسے دور کا جشن منانے سے پیغام جائے گا ایک چیف جسٹس ادارے سے بے وفائی کرسکتا ہے، پیغام جائے گا چیف جسٹس ادارے کی طاقت کو کمزور کر سکتا ہے اور ایک چیف جسٹس چھوٹا اور گھٹیا عمل کر سکتا ہے۔

    خط میں انھوں کہا کہ "معذارت خواہ ہوں اور اپنے ضمیر کی آواز پر ایسے چیف جسٹس کے ریفرنس میں شرکت نہیں کرسکتا، چیف جسٹس کا حقیقی کردار تمام لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہوتا ہے، عدلیہ کی آزادی کا دفاع کرنا اور سب کے لیے انصاف کو یقینی بنانا ہے لیکن چیف جسٹس قاضی فائزنےعدلیہ پربیرونی دباؤ نظراندازکیا۔”

    ان کا کہنا تھا کہ "عدلیہ کا کردار طاقت پر ایک چیک اور بیلنس کے طور پر ہوتاہےلیکن اس سےروگردانی کی گئی، قاضی فائزعیسیٰ نے نہ تو عدلیہ کا دفاع کیلئےاخلاقی کردار ادا کیا نہ حوصلہ دکھایا اور اپنے مفاد کیلئے عدالتوں کو کمزور کرنے کی کوششوں پرقانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ کیا۔”

    سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ "چیف جسٹس شتر مرغ کی طرح اپنے سر کو ریت میں دبا کررہے، جسٹس منصور علی شاہ مداخلت کے خلاف دیوار بننے کے بجائے چیف جسٹس نے دروازے کھول دیے۔”

    خط میں کہا گیا کہ "قاضی فائزعیسیٰ کے اقدامات عدالتی ہم آہنگی کی صریحاً نفی تھے ، وہ عدالتی قائدانہ کرداراداکرنےمیں ناکام رہے۔”

    جسٹس منصور نے مزید کہا کہ ” جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھیوں میں تقسیم اور دراڑ پیدا کی، ساتھیوں میں تفریق کے اثرات تا دیر عدلیہ پر رہیں گے، انتظامی امور سےمتعلق ان کادورپست رہا۔”

    خط میں لکھا ” قاضی فائزعیسیٰ نےہمیشہ اتفاق رائےسےچلنےکومستردکیا، عدلیہ پرجوداغ چھوڑے ہیں ان کے اثرات دور رس ہیں، وہ ساتھی ججز میں ڈائیلاگ کرنے میں ناکام رہے۔”

  • 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کے دلچسپ ریمارکس

    26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کے دلچسپ ریمارکس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق جسٹس منصورعلی شاہ اورجسٹس عائشہ ملک کے دلچسپ ریمارکس سامنے آئے۔

    تفصیلات کے مطابق مسابقتی کمیشن سے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کےدوران جسٹس منصورعلی شاہ نے آئینی بینچ کا تذکرہ کیا۔

    جسٹس منصور نے مسکراتے ہوئے سوال کیا کہ کیا یہ کیس اب آئینی بینچ میں جائے گا یا ہم بھی سن سکتےہیں؟ اب لگتا ہے یہ سوال سپریم کورٹ میں ہر روز اٹھے گا کہ کیس عام بینچ سنے گا یا آئینی بینچ سنے گا۔

    جس پر وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ سیاسی مقدمات اب آئینی مقدمات بن چکے ہیں تو جسٹس عائشہ ملک نے مسکراتے ہوئے کہا چلیں جی اب آپ جانیں اورآپ کے آئینی بینچ جانیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ تین ہفتوں تک کیس کی سماعت ملتوی کررہے ہیں، تب تک صورتحال واضح ہو جائے گی، ویسے بھی ہمیں خود سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا۔

    جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیےکہ نئی ترمیم پڑھ لیں، آرٹیکل ایک سو ننانوے والا کیس یہاں نہیں سن سکتے۔

    مزید پڑھیں : 26 ویں آئینی ترمیم پر صدر مملکت کے دستخط ، گزٹ نوٹیفکیشن جاری

    اس سے قبل موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام سے متعلق کیس پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے دلچسپ مکالمہ ہوا۔

    جسٹس منصورنے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا اٹارنی جنرل گزشتہ رات مصروف رہے، اس لیے نہیں آئے۔

    جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا اب توساری مصروفیت ختم ہوچکی ہوگی، آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل پیش ہوں، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت دوہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔

  • چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی آرڈیننس  سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا۔

    ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس پروسیجر کمیٹی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا، اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھ کر انہوں نے صدارتی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

    ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس منیب اختر کے کمیٹی سے اخراج پر سوال اٹھایا تھا، جسٹس منصور علی شاہ کے خط پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوابی خط لکھا۔

    ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط کے جواب میں لکھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو ججز کمیٹی میں شامل ہونے کا کہا گیا تھا لیکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے میٹی میں شامل ہونے سے معذرت کی، جسٹس یحییٰ کی معذرت پر جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس نے جسٹس منصور کو خط میں لکھا کہ سینئر ججز سے جسٹس منیب اختر کا رویہ انتہائی درشت تھا، ایسا جسٹس منصور آپ کے اصرار پر کیا گیا، میں ہمیشہ احتساب اور شفافیت کی حمایت کرتا رہا ہوں، میں وجوہات فراہم کروں گا کہ جسٹس منیب اختر کو کیوں تبدیل کیا گیا، جسٹس منصور یاد رہے وجوہات آپکے اصرار پر دے رہا ہوں ایسا نہ ہو کہ کوئی ناراض ہوجائے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس منیب اختر کو کمیٹی میں شامل نہ کرنےکی 11 وجوہات بتائیں، انہوں نے کہا کہ قانوناً آپ اس بات پر سوال نہیں اٹھا سکتے کہ چیف جسٹس کس جج کو کمیٹی میں شامل کرے، آپ یہ نہیں پوچھ سکتے میں کمیٹی کے تیسرے رکن کے طور پر کس کو نامزد کروں۔

    چیف جسٹس نے خط میں لکھا کہ جسٹس منیب اختر نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سخت مخالفت کی تھی، جسٹس منیب دو ججز میں سے تھے جنہوں نے مقدمات کے بوجھ سے لاپرواہ تعطیلات کیں، جسٹس منیب تعطیلات میں عدالت کا کام کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھے، تعطیلات پر ہونے کے باوجود انہوں نے کمیٹی میٹنگز میں شرکت پر اصرار کیا۔

    چیف جسٹس نے جوابی خط میں لکھا کہ اگلے سینئر جج جسٹس یحییٰ پر ان کا عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کہتا ہے ارجنٹ مقدمات 14 روز میں سماعت کیلئے مقرر ہونگے، جسٹس منیب اختر نے ارجنٹ آئینی مقدمات سننے سے انکار کیا اور چھٹیوں کو فوقیت دی۔

    چیف جسٹس نے لکھا کہ سپریم کورٹ کی روایت کے برعکس اپنے سینئر ججز (ایڈہاک ججز) کا احترام نہ کیا، سینئر ججز (ایڈہاک ججز) کو ایسے 1100 مقدمات کی سماعت تک ہی محدود کردیا، ایڈہاک ججز کو شریعت اپیلٹ بینچ کے مقدمات بھی سننے نہیں دیئے گئے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط کے جواب میں لکھا کہ جسٹس منیب اختر نے کمیٹی کے معزز رکن سے غیر شائستہ درشت اور نامناسب رویہ اختیار کیا، جسٹس منیب اختر محض عبوری حکم جاری کر کے 11 بجے تک کام کرتے ہیں، جسٹس منیب اختر کے ساتھی ججز نے ان کے رویے کی شکایت کی۔

    چیف جسٹس نے جوابی خط میں لکھا کہ آڈیولیک کیس پر حکم امتناع جاری کر کے وہ کیس سماعت کیلئے مقرر ہی نہ کرنے دیا گیا، جسٹس منیب اختر کا کمیٹی میں رویہ مناسب نہیں تھا، واک آؤٹ کر گئے تھے۔

  • نظر یہی آرہا ہے 26  اکتوبر کو  جسٹس منصور علی شاہ  چیف جسٹس ہوں گے، عطا تارڑ

    نظر یہی آرہا ہے 26 اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس ہوں گے، عطا تارڑ

    اسلام آباد : وزیراطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ نظر یہی آرہا ہے 26 اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراطلاعات عطا تارڑ نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا مولانافضل الرحمان ہمارےاتحادی رہےہیں لائق احترام ہیں، ان سے وزیراعظم کی دوملاقاتیں ہوئی جومثبت رہیں۔

    وزیراطلاعات نے بتایا کہ مولانافضل الرحمان کی خواہش تھی کہ مزیدمشاورت ہوجائے، حکومت کابھی مؤقف ہےمشاورت کادائرہ کاروسیع کریں گے، ہمیشہ مزیدمشاورت کی گنجائش موجود رہتی ہے، کامران مرتضیٰ کے پاس مسودہ موجودتھا اور کلاز بائی کلاس مشاورت ہوئی، مسودہ وزیرقانون اعظم نذیرتارڑاوران کی ٹیم نے تیار کیاتھا، چارٹرآف ڈیموکریسی میں بھی آئینی عدالتوں کامطالبہ موجود تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثردرست نہیں ہےکہ مسودہ کہیں اورسےآیا ہے اور یہ بات درست نہیں ہےکہ مسودہ کسی کونہیں دیاگیا، ہوسکتا ہے عبدالغفور حیدری کو مسودہ نہ ملا ہو کیونکہ بیرون ملک سے آئے تھے۔

    اگلے چیف جسٹس کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ بلاول بھٹونےدرست کہاہوگاکہ نئےچیف جسٹس منصور علی شاہ ہوں گے ، نئےچیف جسٹس منصورعلی شاہ ہی نظر آتے ہیں اب تک یہ ہی نظر آتاہے، آئین وقانون کے مطابق یہ درست بات ہےکہ نئےچیف جسٹس منصورعلی شاہ ہوں گے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ آئینی عدالت کو کون ہیڈ کرے گا اس پر ابھی کوئی مشاورت نہیں ہوئی، پوری دنیا کے اندر آئینی عدالتوں کا نظام موجود ہے اور پورا اسٹرکچر موجود ہے۔