Tag: جسٹس منصور علی شاہ

  • جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق  صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیئے

    جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیئے

    اسلام آباد : جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیئے اور کہا ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔

    9 رکنی لارجربینچ میں جسٹس سردارطارق مسعود، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیے اور کہا کہ سپریم کورٹ بھٹوکیس میں فیصلہ سناچکی اور نظرثانی بھی خارج ہوچکی، ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ دوسری نظرثانی نہیں سن سکتی۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمے میں کہا کہ ایک معاملہ ختم ہوچکا ہے، عدالت کو یہ توبتائیں اس کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟ فیصلہ برا تھاتوبھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے بدلا نہیں جاسکتا، یہ آئینی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے، آپ عدالت کوکوئی قانونی حوالہ تو دیں۔

    دوران سماعت جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا جب یہ مقدمہ چلا کیا اس وقت آئین موجود تھا، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جس وقت مقدمہ چلا اسوقت ملک میں مارشل لا تھا تو جسٹس منصور نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کےتحت بنیادی سوالات واضح کرنا ہوں گے، کیا اس کیس میں آئین سے انحراف کا معاملہ ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے آرٹیکل186کےتحت سپریم کورٹ کے کسی حتمی فیصلےپر نظرثانی نہیں کی جاسکتی ، اٹارنی جنرل بتائیں اس معاملے پرکون سےقانونی سوالات ہیں جن کافیصلہ کرنا ہے۔

    اعلیٰ عدلیہ کے حج نے کہا کہ اس پر تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے مزید کتنے ریویوکرینگے ، صدر مملکت نے کہہ دیا کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کون ساقانونی جواز ہے کہ سپریم کورٹ کارروائی کرے، جو بھی فیصلہ کیاگیا اسوقت کے قوانین کے مطابق کیا گیا ، موجودہ صورتحال میں کون سا قانونی معاملہ ہے جس پر عدالت فیصلہ دے۔

    جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں مارشل لا دورمیں عدلیہ آزادانہ کام نہیں کرتی ، آپ کو ثبوت دینا ہوگا کہ مارشل لادورمیں عدلیہ آزاد نہیں تھی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ساتھی جج نے انتہائی اہم نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں، اب تک دو سوالات اٹھے ہیں ایک آئینی اور دوسرا فوجداری قوانین کا، ہمیں دونوں سوالات پر عدالتی معاونت کی ضرورت پڑے گی۔

  • نیب ترامیم کیس : جسٹس منصور علی شاہ  کا نوٹ سامنے آگیا

    نیب ترامیم کیس : جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیس میں جاری نوٹ جاری کر دیا، جس میں کہا کہ فریقین کو موقع دینا چاہتا ہوں کہ بینچ کی قانونی حیثیت پر معاونت کریں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کےخلاف کیس کی گزشتہ روز کی سماعت کا حکمنامہ جاری کردیا، حکمنامہ میں جسٹس منصور علی شاہ کا2 صفحات پر مشتمل نوٹ بھی شامل ہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے نیب ترامیم کیس میں جاری نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت 3 رکنی کمیٹی بینچزتشکیل دینے کی مجاز ہے، 16مئی کی سماعت سے قبل بھی چیف جسٹس کو بینچ پر تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔

    نوٹ میں کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی آئندہ تاریخ مقرر نہیں جبکہ نیب ترمیمی کیس مقرر ہوگیا، فریقین کو موقع دینا چاہتا ہوں کہ بینچ کی قانونی حیثیت پر معاونت کریں اور پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر فیصلہ یا بطور متبادل فل کورٹ میں سے تشکیل دیا جائے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا اطلاق 184/3 کےتمام زیرالتوامقدمات پر ہوتا ہے، معلوم ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو 8 رکنی بینچ معطل کر چکا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی معطلی کا حکم محض عبوری نوعیت کا ہے۔

    نوٹ کے مطابق قانون درست قرار پایا تو اس کا اطلاق نفاذ کی تاریخ سے ہوگا نہ کہ عدالتی فیصلے کے دن سے،پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی قرار پایا تو نیب کیس سننے والا بینچ غیر قانونی تصور ہوگا، میری رائے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر فیصلے تک184/3 کے مقدمات نہ سنے جائیں۔

    سپریم کورٹ کے حکمنامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار نے16مئی کےعدالتی سوالات کےتحریری جوابات جمع کرائے، وفاقی حکومت کےوکیل نے نیب ترامیم کے خلاف کیس خارج کرنے کی استدعا کی، بظاہر 16 مئی کے عدالتی حکمنامہ پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

    حکمنامے میں کہنا تھا کہ کیس کی تیزسماعت کیلئے وفاقی حکومت وکیل کو جواب جمع کرانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دی جاتی ہے، 29اگست کو وفاقی حکومت کے وکیل دلائل دیں۔

  • انتخابات کے حق میں فیصلہ : جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی  نوٹ سامنے آگیا

    انتخابات کے حق میں فیصلہ : جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا انتخابات کے حق میں فیصلے پر اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا۔

    فیصلہ تین دو کی اکثریت سے سنایا گیا ، جس میں چیف جسٹس عمرعطابندیال،جسٹس منیب اختر،جسٹس محمد علی مظہر نے انتخابات کے حق میں فیصلہ دیا ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے ازخود نوٹس کوناقابل سماعت قرار دے دیا۔

    سپریم کورٹ کے بنچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ لکھا کہ ‘ازخودنوٹس نہیں بنتا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی اورجسٹس اطہر من اللہ کے فیصلےسے اتفاق کرتے ہیں۔’

    جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ‘ ظہور الہٰی اور بینظیرکیس میں واضح ہے ایک درخواست پہلےسےہوتو جلدی نہ کی جائے۔

    اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ ‘ یہ معاملہ ہائیکورٹ میں پہلے دن سے موجودتھا، سپریم کورٹ اعلیٰ عدالت ہےان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے، ایسی مداخلت صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے۔’

    دونوں ججز نے انتخابات پر ازخود نوٹس کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ الیکشن سےمتعلق درخواست پر فیصلہ تین روز میں کرے۔

  • انتخابات پر ازخود نوٹس کیس : جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا؟

    انتخابات پر ازخود نوٹس کیس : جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا؟

    اسلام آباد : پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کی 23 فروری کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

    جس میں 9رکنی لارجر بینچ میں سے 4ججز نے بینچ کی از سر نوتشکیل کا مطالبہ کیا، تحریری فیصلے میں جسٹس منصور علی،جسٹس یحیی آفریدی ، جسٹس اطہرمن اللہ اورجسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ شامل تھے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا میرے پاس بینچ سےالگ ہونےکاقانونی جوازنہیں، اپنے خدشات کو منظرعام پر لانا چاہتا ہوں۔

    نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے بنچ میں شامل ایک جج کا آڈیولیکس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جج سے متعلق الزامات کا کسی فورم پر جواب نہیں دیا گیا ، بارکونسلزنے جج کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائرکیا۔

    اختلافی نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے دیگر سینئر ججز کی بینچ پر عدم شمولیت پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا دو سینئر جج صاحبان کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا،عدلیہ پر عوام کےاعتماد کیلئےضروری ہے اسکی شفافیت برقرار رہے۔

    دوسری جانب جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں آڈیولیکس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ غلام ڈوگرکیس سے متعلق آڈیوسنجیدہ معاملہ ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس مظاہر علی نقوی پہلےہی ذہن واضح کرچکے ہیں، دونوں ججز کا مؤقف ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہونے چاہئیں ، دونوں ججز نے رائے دیتے وقت آرٹیکل10 اے پر غور نہیں کیا۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ان حالات میں چیف جسٹس کاازخودنوٹس کا جواز نہیں بنتا۔

  • چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے مالی اثاثے ازخود ظاہر کردیے

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے مالی اثاثے ازخود ظاہر کردیے

    لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات از خود ویب سائٹ پر شائع کرکے تاریخ رقم کردی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے مالی اثاثے ویب سائٹ پر ظاہر کردیے۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندہ لاہور عابد خان کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ 2 کروڑ 94 لاکھ،27 ہزار روپے کے مالک ہیں، ان کے اثاثوں میں سال بھر میں 1لاکھ 4ہزار 24روپے کا اضافہ ہوا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ایک سال میں 16لاکھ 43ہزار روپے ٹیکس ادا کیا، وہ 2گاڑیوں کے مالک ہیں، گھر میں 2 لاکھ کا فرنیچر اور 5لاکھ 50 ہزار روپے کی جیولری ہے جب کہ انہیں رشتے داروں کے 22 لاکھ 96 ہزار روپے ادا کرنے ہیں۔

    دستاویز کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کو بینک کے 3لاکھ روپے بھی ادا کرنے ہیں۔

    یہ اثاثے ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر شائع کیے گئے ہیں اور عدالتی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی چیف جسٹس نے اپنے مالی اثاثے از خود عوام کے سامنے ظاہر کردیے ہیں۔