Tag: جشن آزادی

  • ایک ساتھ  2 چھٹیاں! عوام کے لئے بڑی خوشخبری

    ایک ساتھ 2 چھٹیاں! عوام کے لئے بڑی خوشخبری

    اسلام آباد : وفاقی دارالحکومت میں 13 اگست کو تعطیل کا اعلان کر دیا گیا ہے ، اس طرح شہری 13 اور 14 اگست کی دو چھٹیوں سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں 13 اگست 2025 بروز بدھ مقامی تعطیل کا اعلان کر دیا گیا۔

    ضلعی مجسٹریٹ کے دفتر سے 12 اگست کو جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ چھٹی کا اطلاق وفاقی دارالحکومت میں قائم تمام سرکاری و نجی دفاتر، تعلیمی اداروں اور دیگر متعلقہ اداروں پر ہوگا، تاہم ضروری خدمات فراہم کرنے والے ادارے اس سے مستثنیٰ ہوں گے تاکہ عوامی سہولیات کی فراہمی متاثر نہ ہو۔

    نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی)، کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)، آئی سی ٹی ایڈمنسٹریشن، آئی سی ٹی پولیس، اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو)، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور ہسپتال معمول کے مطابق کام کریں گے۔

    مزید پڑھیں :  ایک ساتھ 4 روزہ طویل تعطیلات کا امکان

    انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چھٹی مقامی سطح پر ہونے والی سرگرمیوں اور تیاریوں کے پیش نظر دی گئی ہے۔

    ضلعی مجسٹریٹ نے ہدایت کی ہے کہ نوٹیفکیشن وفاقی وزارتوں، محکموں اور میڈیا کو جاری کیا جائے تاکہ عوام کو آگاہ کیا جا سکے۔

    یاد رہے کہ 14 اگست کو یومِ آزادی کے موقع پر عام تعطیل ہوگی، اس طرح اسلام آباد کے شہری 13 اور 14 اگست کو دو مسلسل چھٹیاں منائیں گے۔

    ویزا اور امیگریشن سے متعلق خبریں

  • جدوجہدِ آزادی: تذکرہ ملّتِ اسلامیہ کے قافلے میں شامل اہلِ قلم کا

    جدوجہدِ آزادی: تذکرہ ملّتِ اسلامیہ کے قافلے میں شامل اہلِ قلم کا

    برصغیر سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے تمام مذاہب کے ماننے والوں اور ہر شعبۂ سماج سے وابستہ لوگوں‌ نے مل کر جدوجہد کی اور ہر قسم کی قربانیاں دیں، لیکن جب مخصوص ذہینت اور ہندو قوم پرستی نے مسلمانوں‌ کو محکوم بنانے کے لیے سازشیں شروع کیں تو مسلمانوں کو علیحدہ وطن کی ضرورت محسوس ہوئی اور تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا جس میں شاعر و ادیب اور دوسرے اہلِ قلم بھی شامل تھے اور ان کی ادبی اور صحافتی تحریریں ہندوستان کے مسلمانوں میں آزادی کا ولولہ اور لگن بڑھاتی رہیں

    معروف شاعر اور کالم نویس غالب عرفان نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں اہلِ قلم کے کردار اور کارناموں پر ایک طویل مضمون سپردِ قلم کیا تھا جس سے یہ اقتباسات جشنِ آزادی کی مناسبت سے نقل کیے جارہے ہیں۔ غالب عرفان لکھتے ہیں:

    اگر شاعروں اور ادیبوں کے کردار پر گفتگو کی جائے تو یہ کوئی آسان موضوع نہیں۔ یہ موضوع تفصیل چاہتا ہے اور پھر ان تمام ناموں کا احاطہ کرنا بھی ناممکن جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے خونِ جگر سے حرف کی کھیتی سینچتے رہے اور لفظوں میں جان ڈال کر اس تحریک کو پاکستان نامی ملک پر منتج کیا۔ کیوں کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کی ابتدا کے فوراً بعد ہی قیامِ پاکستان کی جدو جہد کا آغاز ہوچکا تھا اور اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں لیکن یہ اردو اور صرف اردو کی ہمہ گیریت اور مقبولیت ہی تھی جس نے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔

    اس پورے تاریخ ساز عہد پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ علّامہ اقبال ہی دراصل مفکرَ پاکستان کہلانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ علّامہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو بدلنے کے لیے ہمارے قومی رہنما اپنے اپنے طور پر مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لارہے تھے۔

    مولانا الطاف حسین حالی ہوں یا مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی ہوں یا سرسیّد احمد خاں سبھی ایک رخ ہوکر سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کو غلامی کے طوق سے کس طرح نکالیں، لیکن ان سب زعما میں سب سے زیادہ کلیدی کردار علّامہ کی فکرِ حریّت نے ادا کیا ہے۔ انھوں نے کہا:

    دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
    کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
    تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
    جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا

    علّامہ اقبال نے اگر ایک طرف اپنے اذکار سے لبریز شاعری کے ذریعے ملّتِ اسلامیہ کے قافلوں میں اتحاد و یگانگی کی نئی روح پھونکی تو دوسری جانب غیر منقسم ہندوستان کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کر تاریخی جلسوں کے تناظر میں دلوں کو تڑپانے اور گرمانے کا جتن کیا۔

    جب ہم تحریکِ پاکستان کے اُس زمانے پر مرحلہ وار نظر ڈالتے ہیں تو کئی ایسے مراحل بھی سامنے آتے ہیں جہاں قائدِاعظم سے انتہائی عقیدت نے ہر چھوٹے بڑے شاعر سے ایسے نعرے لکھوائے یا ایسی نظمیں کہلوائیں جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ نعروں میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔‘‘

    یہاں یہ کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم اپنی تاریخ کے اُن ابواب کو ٹٹولیں اور اُن پر سے زمانے کی گرد کو صاف کریں تو شاید زنجیر کی کئی انمول ٹوٹی کڑیاں ہمیں مل جائیں اور تحریکِ پاکستان اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ہمیں نظر آ جائے۔

    خوش قسمتی سے مولانا حسرت موہانی جیسی با اصول، کھری اور ادبی شخصیت پر ہماری تاریخ خاموش نہیں ہے۔ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں جس قدر سادہ اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے، اُسی قدر سیاسی طور پر بھی وہ بلند و بالا اور سب سے الگ تھلگ نظر آتے تھے۔

    تحریکِ پاکستان میں ایسی پیاری و ہر دل عزیز شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وہ اگرچہ 1904ء میں کانگریس میں شامل ہوئے، لیکن جلد ہی بال گنگادھر تلک کی انتہا پسندی نے انھیں کانگریس چھوڑنے پر مجبور کر دیا جس کے بعد علی گڑھ سے ہی ایک ماہنامہ ’’اردوئے معلّٰی‘‘ شائع کیا۔ انھیں اپنے اصولوں سے انتہائی عشق تھا۔ ان کا پہلا امتحان اُس وقت ہوا جب ایک مصری اخبار میں عربی میں شائع شدہ مضمون کو انھوں نے اردو میں ترجمہ کرکے اپنے اخبار میں شائع کردیا۔

    یہ مضمون دراصل مصر میں قائم برطانوی حکومت کے خلاف تھا۔ انگریزی حکومت نے ان سے اس مضمون کے مصنّف کا نام دریافت کیا تو انھوں نے بتانے سے صاف انکار کردیا جس کے نتیجے میں انھیں دو سال قیدِ بامشقت اور جرمانے کی سزا دی گئی۔

    یوں تو مولانا حسرتؔ موہانی کو اُن کی غزلیہ شاعری کی بدولت اُن کی حیات میں ہی ’’رئیس المتغزّلین‘‘ کا لقب دیا جاچکا تھا، لیکن ان کی شاعری نے اس عہد کی تحریک میں اس جادو کا کام دکھایا جو بڑی بڑی تقریریں کر نہ پائیں۔

    سرسیّد احمد خاں نے اسی عہد میں ایک اخبار’’ تہذیبُ الا خلاق‘‘ بھی شائع کیا جس نے مسلم گھرانوں میں بیداری اور کردار سازی کا کام انجام دیا۔ اس مختصر سی تحریر میں، اگر نواب بہادر یار جنگ کا ذکر نہ کروں تو یہ ادھوری لکھت بھی مزید نامکمل رہ جائے گی۔ اپنی علمی استعداد اور شعلہ بیانی کی صلاحیت کے پس منظر میں نواب صاحب بہت جلد ہی قائد اعظم کے دستِ راست بن گئے اور اکثر مقامات پر انھوں نے قائدِاعظم کی انگریزی تقریروں کا فی البدیہہ اردو ترجمہ عوام کی داد و تحسین کے شور میں پیش کیا۔ ان کے اصل نام محمد بہادر خان کے ساتھ نظامِ دکن کا دیا ہوا خطاب ’’بہادر یار جنگ‘‘ دراصل اس تاریخی تقریر کا نتیجہ ہے جو انھوں نے سیرت کے ایک جلسے میں فتح میدان میں کی تھی۔

    وہ بنیادی طورپر ایک شاعر تھے اور اردو ادب سے ان کا لگائو قدرتی تھا۔ بہرحال بات ہورہی تھی ان کی تقریری صلاحیت کی جو اس دور میں مقبولیت حاصل کرسکی جس دور میں مولانا محمد علی جوہر، سید عطا اللہ بخاری، ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر نذیر احمد جیسی نابغہِ روز گار ہستیوں کا طوطی بول رہا تھا۔

    میں اپنی تجزیہ کو محدود وقت کے پیشِ نظر یہیں ختم کرتا ہوں، ورنہ تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں شریک ہونے والوں میں مولانا آزاد سبحانی، عبدالباری فرنگی محلی اور ظفر علی خان جیسے ادیبوں کی ایک طویل فہرست بھی ہنوز تشنہِ تحریر ہے۔

  • تحریکِ پاکستان اور اردو زبان

    تحریکِ پاکستان اور اردو زبان

    تحریکِ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے بے مثال جذبے، جدوجہد اور لازوال قربانیوں کی داستان ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کو بیک وقت جن دو دشمن قوتوں کا سامنا تھا، ان میں ایک انگریز سامراج اور دوسرا وہ ہندو تھا جو دل میں بغض و عناد اور مسلمانوں سے عداوت رکھتا تھا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر برطانوی راج کے خلاف لڑی تھی جو ناکام رہی۔ مگر بعد میں یہ کھلا کہ ہندو قیادت انگریزوں سے مل کر مسلمانوں‌ کے خلاف سازش کر رہی ہے تو مسلمان اکابرین نے اپنی شناخت اور قومیت کو بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

    1857ء کے بعد ہندوؤں کو محسوس ہوا کہ مسلمانوں‌ کی وجہ سے ان کا متحدہ ہندوستان پر راج قائم کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا تو انہوں نے انگریز سرکار کی قربت حاصل کر لی اور انگریزوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کر دیا اور دوسری طرف ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے مسلمانوں کی شناخت مٹائی جاسکے۔ انہوں نے اقتصادی و معاشی، تہذیبی و ثقافتی، علمی و ادبی الغرض ہر میدان میں مسلمانوں کی بالواسطہ اور بلا واسطہ شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اردو زبان جو برصغیر کی بولیوں اور مسلمان ریاستوں کی زبانوں عربی، ترکی اور فارسی کا امتزاج تھی اور مسلمانوں کے عہد میں ہی پروان چڑھی تھی، اپنے ارتقائی سفر کو طے کرتے ہوئے برصغیر کی مقبول ترین زبان بنی اور مسلمانوں کی شناخت اسی سے کی جانے لگی۔ چوں کہ اس زبان میں بکثرت عربی اور فارسی الفاظ شامل تھے اور اس کا رسم الخط بھی عربی اور فارسی تھا، اس لیے کم فہم اور تنگ نظر ہندوؤں نے صرف مسلمانوں کی زبان کہہ کر اس کے مقابلے میں ہندی کو لاکھڑا کیا۔

    تاریخ پاکستان کے طالب علم جانتے ہیں کہ علیحدہ وطن کے مطالبہ کی وجوہ میں ایک اردو ہندی تنازع بھی شامل تھا۔ زبان ایک ثقافتی عنصر ہے۔ کسی قوم کی زبان اس کے مافی الضمیر کے اظہار اور اس کی تہذیب و ثقافت کی علم بردار ہوتی ہے۔ برصغیر میں یہ زبان مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کا وسیلہ بنی کیوں کہ برطانوی حکومت نے دفاتر سے فارسی زبان کا خاتمہ کردیا تھا۔ اس کے بعد اردو ہی عوام اور خواص میں مقبول ہوئی جسے مخصوص ذہینت کے حامل ہندو قبول نہ کرسکے اور زبان کا تنازع بھی زور پکڑ گیا۔

    اردو زبان کے ساتھ مسلمانوں کا لگاؤ اس لیے بھی تھا کہ حضرت امیر خسرو سے لے کر ولی دکنی تک اور میر و غالب جیسے شاعر بھی فارسی اور مقامی بولیوں کے ساتھ اسی زبان سے وابستہ تھے۔ اس سرمائے اور اپنی شناخت کی حفاظت مسلمانوں کا ملّی اور قومی فریضہ تھا۔دوسری طرف تنگ نظر ہندو سوچ اردو زبان کو مٹا کر ہندی کو فوقیت دلانے پر کمر بستہ تھی۔ ان حالات میں علیحدہ وطن کا مطالبہ زور پکڑتا گیا اور پاکستان بن کر رہا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اردو زبان کے خلاف اس محاز آرائی کا آغاز بنارس سے ہوا۔ اس ضمن میں محمد علی چراغ اپنی کتاب اکابرینِ تحریک پاکستان میں لکھتے ہیں:

    ’’سر انتونی میکڈانل نے متحدہ صوبہ جات کا گورنر بنتے ہی صوبہ بہار سے اردو کو ختم کرکے اس کے بجائے ہندی کو سرکاری زبان قرار دے دیا تھا۔ اس عمل سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی۔ اردو چونکہ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک طرح کی شناخت کا ذریعہ تھی اس لئے مسلمانوں نے اس مسئلے سے سنجیدگی سے نمٹنا شروع کیا‘‘۔

    اس سازش کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جو پہلا قدم اٹھایا گیا وہ ’’اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘ کا قیام تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم ادارہ جس نے اس بے سر و سامانی میں اردو زبان کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا وہ ’’انجمنِ ترقیِ اردو” تھا۔ اور کئی ایسی تنظیموں‌ اور اہل علم و ادب کی جدوجہد سے ہندوؤں پر واضح ہو گیا کہ مسلمان برصغیر میں موجودہ دور میں اردو کے دامن میں پھلنے پھولنے والی اپنی تہذیب اور ثقافت کو کبھی پامال نہیں ہونے دیں گے۔ اردو ہندی تنازع پر بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:

    ’’برعظیم میں انگریزوں کی حکومت کے قیام کے بعد جو سب سے بڑا سانحہ ہوا وہ یہ ہے کہ اس ملک میں انہوں محکوم قوم کی زبان سنسکرت اور ہندی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ ہندو اردو کو محض اس لیے رد کرتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی زبان تھی اور اس کے علاوہ اردو زبان ہندو سماج کی نمائندگی کرنے کے بجائے اسلامی معاشرت کی نمائندگی کرتی تھی۔ لہٰذا ہندوؤں نے اس کے مقابلے میں ہندی کو لا کھڑا کیا تھا۔ حالانکہ اس سے پیشتر برعظیم کی زبان اردو یا اردو کی کوئی مورد اور مفرس قسم ہی ایک عام زبان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عہد تک اسی زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لیے ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں اور چینیوں نے بھی کام کیا۔ پھر مسلمانوں میں عام لوگوں سے بڑھ کر صوفیائے کرام نے بھی اس مد میں اہم خدمات انجام دیں۔ اردو کو قوت بخشی اور اسے بجا طور پر محفوظ کرنے کا فریضہ ادا کیا۔ 1857ء کے بعد تو چونکہ اردو ہندی تنازع اردو اور مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بن گیا تھا۔ اس لیے واضح طور پر ہندوؤں کے لیے ہندی زبان اور مسلمانوں کے لیے اردو زبان ان کی دو سیاسی امتیازی نشان اور قومی علامتیں بن گئی تھیں‘‘۔

    اس دور میں اردو ہندی تنازع لسانی سے بڑھ کر سیاسی نوعیت کا ہو چکا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان دو قومی نظریہ کی بات کرتے تھے تو ساتھ ہی اردو زبان کے تحفظ کو بھی لازمی خیال کیا جاتا تھا۔ بالآخر برصغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں انہی لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جو دفاعِ اردو زبان کے لیے 4 دہائیوں سے لڑ رہے تھے۔ جن میں نمائندہ نام نواب وقار الملک، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ کے ہیں۔

    تحریک پاکستان کے پورے سفر میں رابطہ کی زبان اردو رہی۔ ایک طرف تحریک پاکستان میں عوامی رابطہ کی زبان اردو تھی اور تقاریر، جلسے اور ریلیوں میں نظریہ پاکستان کی تبلیغ بھی اسی زبان میں ہو رہی تھی جب کہ دوسری طرف ہمارے شاعر اور ادیب اردو زبان میں نظریۂ پاکستان کا تحفظ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں:

    ’’برعظیم کے مسلمانوں میں اجتماعی روح پیدا کرنے، ان کے ملّی اور قومی شعور کو بیدار کرنے، اسے تقویت دینے اور سیاسی انتشارات کی مختلف تباہیوں اور بربادیوں کے بعد ان کے مردہ دلوں کو حرارت سے آشنا کرنے میں اردو زبان و ادب نے جو اہم کردار ادا کیا، وہ بہت مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوا‘‘۔

    اردو زبان کے ان شاعروں اور ادیبوں کی فہرست طویل ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں اپنے قلم کے ذریعے کردار ادا کیا۔ تحریکِ پاکستان میں اردو زبان کے جس شاعر کا سب سے اہم اور ناقابلِ فراموش کردار رہا وہ مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ ہیں۔ ان کی نظم و نثر نظریہ پاکستان کی عکاس اور محافظ ہے۔ ان کے بعد جس شاعر کا نام اس ضمن میں اہم ہے وہ رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی ہیں۔ وہ ایک سیاسی راہنما ہونے کے ساتھ اردو زبان کے اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں برطانوی سامراج کے خلاف بڑی بے باکی سے لکھا جس کی وجہ سے ان کو کئی بار جیل بھی جانا پڑا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ صحافتی میدان میں بھی وہ سر گرمِ عمل رہے۔ مولانا ظفر علی خان نے بھی اردو شاعری اور صحافت کے ذریعے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی کانام بھی اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔

    اردو شاعری کی طرح اردو نثر نے بھی تحریک پاکستان میں اپنا حصّہ ڈالا۔ اردو زبان کے جن ادیبوں نے نظریۂ پاکستان کا پرچار کیا ان میں عبد الحلیم شرر، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، عبد المجید سالک، مولوی عبد الحق وغیرہ کے نام اہم ہیں۔

    تحریک پاکستان کے دوران صحافتی میدان میں بھی اردو زبان کے بے شمار اخبارات، رسائل اور جرائد نظریۂ پاکستان اور تحریک پاکستان کی تائید کرتے رہے اور ان کے مالکان کو قید و بند کے ساتھ انگریز سرکار کی جانب سے جرمانے بھی کیے گئے۔

    (وقار حسن کے تحقیقی مضمون سے منتخب پارے)

  • جشن آزادی معرکہ حق کے موقع پر خصوصی ٹرین چلانے کا فیصلہ

    جشن آزادی معرکہ حق کے موقع پر خصوصی ٹرین چلانے کا فیصلہ

    کراچی(7 اگست 2025): جشن آزادی معرکہ حق کے موقع پر سندھ حکومت نے خصوصی ٹرین چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر ثقافت و سیاحت سندھ ذوالفقار علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس ہوا، اجلاس میں جشن آزادی معرکہ حق کے موقع پر سندھ حکومت نے خصوصی ٹرین چلانے کا فیصلہ کیا۔

    ایم ڈی سیاحت فیاض شاہ نے آزادی ٹرین کے حوالے سے بریفنگ دی، اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ڈیزرٹ ٹرین سفاری کو آزادی ٹرین کے نام سے چلایا جائیگا یہ آزادی ٹرین کراچی سے زیرو پوائنٹ تھرپارکر تک چلائی جائے گی۔

    خصوصی ٹرین 13 اگست کو کراچی سے روانہ اور  14 اگست کی شام واپس پہنچے گی، آزادی ٹرین کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص، عمر کوٹ سے زیرو پوائنٹ تھرپارکر پہنچےگی۔

    وزیر ثقافت سندھ ذوالفقار علی شاہ نے کہا کہ آزادی ٹرین کے شرکا ہر اسٹیشن پر عوام میں قومی پرچم تقسیم کرینگے، پرچی جی ویری پر جشن آزادی کے سلسلے میں میوزیکل ایونٹ کا انعقاد ہوگا۔

    ذوالفقار شاہ کا کہنا تھا کہ ٹرین صبح کھوکھراپار ماروی اسٹیشن پہنچے گی جہاں پرچم کشائی اور کیک کاٹا جائیگا، تقریب کے بعد ٹرین واپس کراچی کے لئے روانہ ہوگی۔

    انہوں نے بتایا کہ سول سوسائٹی، شوبز، سیاسی شخصیات ودیگر آزادی ٹرین کا حصہ ہونگے، دنیا کو پیغام دینا چاہتے ہیں پاکستانی قوم متحد اور  پرامن قوم ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/sindh-announces-free-access-to-museums-and-heritage-sites/

  • جشن آزادی : باجوں کی فروخت اوراستعمال پر پابندی عائد

    جشن آزادی : باجوں کی فروخت اوراستعمال پر پابندی عائد

    اسلام آباد : یوم آزادی 14 اگست سے قبل اسلام آباد میں باجوں کی فروخت اور استعمال پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    پاکستان میں کسی بھی خوشی کے موقع پر اس کے جشن منانے کا انداز اس قدر شدید ہوتا ہے کہ لوگ کسی قسم کی حدود و قیود کا خیال نہیں رکھتے اور وہ جشن لوگوں کیلیے تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔

    ہر سال کی طرح اس سال بھی یوم آزادی ملی جوش و جذبے سے منایا جائے گا، لیکن اس بار وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کسی قسم کے باجوں، شرارت یا بدتہذیبی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

    اسلام آباد باجے

    اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر نے وفاقی دارالحکومت میں باجوں کی فروخت اور ان کے استعمال پرپابندی عائد کردی  ہے، جس کی خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی ہوگی۔

    ڈی سی اسلام آباد کی جانب سے تمام اسسٹنٹ کمشنرز اور مجسٹریٹس کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ ضلعی انتظامیہ اسلام آباد میں لگائے جانے والے تمام اسٹالز سے باجوں کو ضبط کرے۔

    ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ تمام افسران فی الفور فیلڈ میں نکلیں اور باجوں کی فروخت کیخلاف کارروائیاں یقینی بنائیں۔

    انہوں نے کہا کہ باجوں کے خلاف کارروائیاں یوم آزادی تک روزانہ کی بنیاد پر کی جائیں جس علاقے کے اسٹالز سے باجے برآمد ہوئے متعلقہ افسر اس کا ذمہ دار ہوگا۔

  • ہر قسم کی فیس ختم ! جشن آزادی پر سندھ حکومت کی شہریوں کو بڑی سہولت

    ہر قسم کی فیس ختم ! جشن آزادی پر سندھ حکومت کی شہریوں کو بڑی سہولت

    کراچی : جشن آزادی معرکہ حق کے موقع پر سندھ حکومت تاریخی اور سیاحتی مقامات پر ہر قسم کی فیس ختم کردی اور یکم تا 14 اگست عوامی داخلہ مفت کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق جشنِ آزادی 2025 کو شایانِ شان طریقے سے منانے کے لیے سندھ حکومت نے بڑا فیصلہ کرلیا۔

    وزیراعلیٰ سندھ کی خصوصی ہدایت پر صوبے بھر کے تاریخی، ثقافتی اور سیاحتی مقامات پر عوام کے داخلے کو یکم تا 14 اگست مکمل طور پر مفت کر دیا گیا ہے۔

    صوبائی وزیر ثقافت و سیاحت ذوالفقار علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلے کیے گئے جن کے تحت تمام میوزیمز، گیلریز، قلعے، تاریخی قبرستان اور دیگر سیاحتی مقامات عوام کے لیے بلا معاوضہ کھول دیے جائیں گے۔

    محکمہ ثقافت سندھ نے حیدرآباد،سکھر، کراچی میں گرینڈ میوزیکل ایونٹس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    مزید پڑھیں : جشن آزادی اور معرکہ حق کی تقریبات کیلئے اعلیٰ سطح کمیٹی قائم

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ محکمہ ثقافت کی جانب سے شائع کی گئی تمام کتب پر 50 فیصد رعایت ہوگی اور آرکائیو گیلری کراچی میں 14روزہ نمائش میں عوام مفت میں شرکت کر سکتے ہیں۔

    13 اگست کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں گرینڈ میوزیکل ایونٹ ہوگا جس میں مشہور فنکاروں کی شرکت متوقع ہے۔

    ذوالفقار علی شاہ کا کہنا تھا کہ "جشنِ آزادی کو ‘معرکۂ حق’ کے عنوان سے بھرپور طریقے سے منایا جائے گا اور پوری قوم جوش و خروش کے ساتھ اس عظیم دن کا استقبال کرے گی۔”

    یہ اقدامات نہ صرف قومی جذبے کو ابھاریں گے بلکہ شہریوں کو تاریخ، ثقافت اور موسیقی سے جڑنے کا نایاب موقع فراہم کریں گے۔

  • کراچی میں جشن آزادی کے موقع پر ہوائی فائرنگ سے 70 افراد زخمی

    کراچی میں جشن آزادی کے موقع پر ہوائی فائرنگ سے 70 افراد زخمی

    کراچی: پاکستان کے 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر رات 12 بجتے ہی مختلف علاقوں میں ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 70 افراد زخمی ہوگئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ جشن آزادی کے موقع پر ہوائی فائرنگ میں ملوث پولیس افسر سمیت 13 ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کارروائیاں ضلع کیماڑی، سٹی اور ایسٹ پولیس کی جانب سے کی گئیں، ملزمان میں سی ٹی ڈی افسر اے ایس آئی دانیال، محمد واجد، عبد اللہ، انس، بلال رضا، عبدالرحمان، حارث، شاہ زیب، محمد رفیق، محمد عادل، شعبان اور حارث اقبال شامل ہیں۔

    ملزمان کے قبضے سے اسلحہ اور دیگر سامان برآمد کرکے مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔

    یاد رہے کہ ملک بھر میں آج 78 واں یوم آزادی ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔

    جشن آزادی کے موقع پر عوام نے رنگ برنگی لائٹس، ہری بھری جھنڈیاں اور جھنڈے لگا کر پورا ملک کو دلہن کی طرح سجادیا ہے۔

    پاکستان کے 77 ویں یوم آزادی کا پرتپاک استقبال، قومی پرچموں کی بہار

    شہر قائد کی اگر بات کی جائے تو اہم شاہراہوں کے اردگرد قائم عمارتوں کی سجاوٹ نے شہر کے رنگ ڈھنگ ہی بدل دیے جبکہ اسلام آباد میں بھی رنگوں کی قوس و قزح چھائی ہوئی ہے۔

  • بانی پاکستان محمد علی جناح کی زندگی کے پانچ ادوار

    بانی پاکستان محمد علی جناح کی زندگی کے پانچ ادوار

    بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کا ہندوستان کی سیاست میں‌ قدم رکھنا خاص طور پر مسلم لیگ کے قائد کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند کے لیے الگ وطن کے حصول کی جدوجہد بلاشبہ ان کی زندگی کا نہایت ہنگامہ خیز دور تھا۔

    یوں تو نوجوان محمد علی جناح کی تعلیمی میدان میں کام یابیوں، بطور وکیل پیشہ ورانہ سفر اور پھر قیام پاکستان کے لیے ان کی کاوشوں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن جب ہم اپنے قائد کے تعلیمی دور سے لے کر ان کی وفات تک زندگی پر نظر ڈالیں تو اسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن سے بالخصوص نوجوان نسل کو واقف ہونا چاہیے۔

    محمد علی جناح کی زندگی کے پہلے دور کو 20 برسوں پر محیط کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمانہ تھا 1876ء سے 1896ء تک کا، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

    اس کے بعد اگلے دس سال یعنی 1896ء سے لے کر 1906ء تک کے عرصے میں انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے وکالت میں اپنی لیاقت کا لوہا منوایا۔

    مؤرخین اور سوانح و خاکہ نگار محمد علی جناح کے تیسرے دور کو 1906ء سے 1916ء تک دیکھتے ہیں، جب وہ زیادہ تر کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چوتھے دور کی بات کی جائے تو وہ 20 سال پر محیط ہے اور 1916ء سے 1936ء کا زمانہ ہے۔ اس دور میں وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

    پانچواں دور 1937ء سے شروع ہوتا ہے اور یہ ان کی وفات تک یعنی 1948ء تک کا ہے۔ اس دور کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے وکالت چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کے اتحاد اور تنظیم پر مرکوز کردی اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بے حد مصروف ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    قائدِاعظم کی زندگی کے ان ادوار کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو سامنے آئے گا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد اور نصبُ العین کے حصول کے لیے مصروفِ کار رہے۔

    قائداعظم سے 21 جون 1937ء کو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے راہ نمائی کی امید رکھے۔‘‘

    قائدِ اعظم قوم کے اس حق اور اپنے فرض کو بخوبی پہچان چکے تھے اور کانگریس سے تعلق توڑنے اور وکالت ترک کرنے کے بعد اپنی تمام زندگی حصول و قیامِ پاکستان کی جدوجہد کرتے ہوئے گزاری۔

  • کیا یہی قائد اعظم کا پاکستان ہے؟

    کیا یہی قائد اعظم کا پاکستان ہے؟

    14 اگست 2024 آن پہنچا ہے اور ہر سال کی طرح قوم پاکستان کا 77 واں جشن آزادی منا رہی ہے۔ اپنی آزادی کا جشن منانا زندہ قوموں کی نشانی ہے اور اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے وطن کے نونہالوں کو قوم کی تاریخ اور وطن کے لیے جدوجہد اور ان کی ذمے داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے مستقبل کے معماران وطن تیار کیے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پاکستان کی آزادی کا جشن منانے کی روایت کچھ انوکھی ہے۔

    بچّے تو بچّے ہوتے ہیں باجے بجائیں تو برداشت ہو جاتی ہے لیکن آج رات اور کل سارا دن منچلے سڑکوں پر آزادی کا جشن منانے نکلیں گے تو ہاتھ میں گز گز بھر لمبے بھونپو نما باجے لے کر پوں پاں سے آسمان سر پر اٹھائیں گے۔ دوسری طرف اکثریت ون ویلنگ کر کے اپنی اور دیگر کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے جو یہ نہیں کریں گے وہ بغیر سائلنسر موٹر سائیکلیں جیٹ جہاز کی طرح اڑاتے اور آواز کرتے ہوئے چلا کر اپنا فرض عین سمجھیں گے۔ یہ سب عجیب وغریب آزادانہ حرکات کرنے والوں کو اس سے غرض نہیں ہوگی کہ ان کے دن و رات باجا بجانے سے کسی مریض کو تکلیف ہوتی ہے، مساجد میں لوگوں کی عبادات میں خلل پڑتا ہے۔ گھروں میں سوئے ہوئے افراد کی نیند خراب ہوتی ہے۔ ان پر حب الوطنی کا یہ انوکھا جوش صرف ایک دن کے لیے چڑھتا ہے جس کا جشن منا کر پھر 364 دن غفلت کی نیند سوئے رہتے اور ملک کی ابتر حالت پر خود اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے باقی وقت حکومت اور دوسروں کو برا بھلا کہنے میں وقت گزارتے ہیں۔

    یوم آزادی یعنی 14 اگست کے روز بھی سرکاری، نیم سرکاری، نجی، سیاسی وسماجی سطح پر پرچم کشائی کی تقریبات ہوں گی جس میں حکمرانوں سمیت سب کی جانب سے پاکستان کو قائداعظم کا حقیقی پاکستان بنانے کی دل خوش کن تقاریر کی جائیں گی لیکن ان تقاریر کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے اگلے دن ہی ان سب تقاریر کو بھلا کر اپنے پرانے معمولات پر واپس آ جائیں گے اور برسوں سے جشن آزادی منانے کا ہمارا وطیرہ یہی رہا ہے۔

    پاکستان کوئی طشت میں رکھ کر پیش نہیں کیا گیا، بلکہ یہ لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا گیا اور اس کو بنانے سنوارنے میں لوگوں نے اپنی پوری زندگیاں صرف کر دیں۔

    بانی پاکستان نے اپنے رفقا کے ساتھ طویل جدوجہد کرتے ہوئے چومکھی لڑائی لڑی جس کے ایک فریق قابض انگریز تھے تو دوسری جانب شاطر ہندو جب کہ ان کے درمیان اپنی ہی صفوں میں بیٹھے ہوئے کچھ غدار بھی لیکن عزم مسلسل سے قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کیا۔ افسوس وہ آزاد وطن کی فضا میں زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور صرف ایک سال بعد ہی وفات پا گئے جس کے بعد پاکستان کی کشتی کنارے نہیں لگ سکی۔ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے اس کا اندازہ ان کے فرمودات سے ہو جاتا ہے۔

    آئیے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے کچھ فرمودات پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اپنا محاسبہ کرتے ہیں۔

    ’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘ (آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب، 15 نومبر1942ء)

    ایک اور جگہ انہوں نے ارشاد فرمایا تھا کہ اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات اس امر پر شاہد ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم جمہوریت میں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکی۔ جو اپنے مذہب میں بھی جمہوری نکتہ نظر رکھتے ہیں۔

    میرا یقین ہے کہ ہماری نجات ہمارے عظیم قانون دان پیغمبر اسلام ﷺ کی طرف ہمارے لیے مقرر کردہ سنہری اصولوں پر عمل کرنے میں ہے۔ ہماری نجات کا راستہ صرف اور صرف اسوہ حسنہ ہے۔

    ’آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمدﷺ کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ ﷺ کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھے، عظیم واضع قانون تھے، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی۔‘ (کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب،25جنوری 1948ء)

    اگر انہی فرموداشت کی روشنی میں دیکھا جائے تو قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل ہی ملک میں نظام حکومت کے لیے جمہوریت کو منتخب کیا تھا لیکن مغربی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق۔ لیکن کیا آج کا پاکستان ان ارشادات پر پورا اترتا ہے؟ پاکستان میں 33 سال تک تو بلاشرکت غیرے فوجی حکمرانوں کی حکومت رہی ہے باقی جتنا عرصہ بچا اس میں بھی جمہوریت پنپ نہ سکی جس میں زیادہ قصور سیاستدانوں کا ہی ہے۔ دوسرا قائد اعظم کا ارشاد ملک میں قرآن کی تعلیمات کے مطابق حکومت کا قیام اور اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنانا طے کیا تھا، لیکن ہم نے پاکستان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ لگا کر اور آئین میں شریعت کو اپنا قانون اور نظام بنانے پر اکتفا کر کے اور ہر سال سیرت کانفرنس کا انعقاد کرکے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ معراج پا لی لیکن آج حقیقی معنوں میں نہ ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم ہے اور نہ ہی اسوہ حسنہ ﷺ کو مشعل راہ بنایا گیا ہے۔

    قیام پاکستان کے بعد حضرت قائد اعظم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا۔ لیکن یہ ہمارے مقصد کی ابتداء ہے، ابھی ہم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ حصول پاکستان کے مقابلے میں، اس ملک کی تعمیر پر کہیں زیادہ کوشش صرف کرنی ہے اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی ہیں۔

    ’چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے، بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں، اسلام اُن کے ساتھ فیاضی کو بھی روا رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اِس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔‘(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب، 2نومبر 1940ء)

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ نوزائیدہ ملک میں بسنے والے اقلیتی عوام کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن کیا یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے؟

    بانی پاکستان کے یہ تمام ارشادات ہم پر حکومت کرنے والوں کو روڈ میپ فراہم کرتے ہیں لیکن حکمرانوں نے اپنے راستے ہی قائد کے فرمان سے بالکل جدا کر لیے۔ آج وزرا صرف نام کے خادم ہیں جب کہ اپنے عمل اور کردار سے وہ خود کو ملک وقوم کا مالک سمجھتے ہیں۔ ان کی توجہ عوام کی فلاح وبہبود کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان کی فلاح وبہبود پر مرکوز ہو گئی ہے اور ذمے داریوں کی ادائیگی کے بجائے عزت وناموس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔

    وہ تعلیم کو تلوار سے زیادہ طاقتور سمجھتے تھے اور نوجوانوں کے لیے پیغام تھا کہ ’’آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔ اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کریں یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے آپ کی تعلیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آپ دور حاضر کی سیاست کا مطالعہ کریں۔ یاد رکھیں ہماری قوم کے لیے تعلیم موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔
    ہمارے ملک کے بانی نے جس کو قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ بتایا تھا وہ اول تو ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے جس کا اندازہ ہر سال بجٹ میں تعلیم کے لیے رکھے جانے والے بجٹ سے ہوتا ہے۔ سرکاری سطح پر ہماری خواندگی کی شرح 60 فیصد سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن اس میں وہ بھی شامل ہیں جو صرف اپنا نام لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں جب کہ معیار تعلیم کا یہ حال ہے کہ دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی پاکستان کی جامعہ نہیں ہے۔

    سرکاری سطح پر تو تعلیم کی حالت انتہائی دگرگوں ہے لیکن نجی تعلیمی اداروں نے بھی تعلیم کو مذاق بلکہ کاروبار بنا رکھا ہے اور اس کو اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ اب غریب کے بس میں بھی بچوں کو نجی اسکولوں میں تعلیم دلانا خواب بن گیا ہے۔
    قائد اعظم کے ارشادات صرف حکمران یا بالادست طبقے کے لیے نہیں تھے بلکہ انہوں نے قوم کو بھی اتحاد تنظیم اور یقین محکم کی تلقین، کام، کام اور بس کام، لوگوں کو اصولوں پر ڈٹ جانے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا درس دیا تھا، لیکن افسوس ان پیغامات کو پوری قوم بھلا بیٹھی ہے۔ بدقسمتی سے آج قوم خود کو مسلمان اور پاکستانی کہلانے کے بجائے پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ، سرائیکی، پختون، مہاجر کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے اور ہمارے سیاستدان اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے جان بوجھ کر لسانیت کو فروغ دیتے اور مستقبل میں ملک وقوم کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کو اس آگ میں جھونک دیتے ہیں۔

    بانی پاکستان نے کفایت شعاری کو قومی دولت اور ہر مسلمان کو دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنے کا درس دیا تھا۔ ان ارشادات کی روشنی میں اگر ہم ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

    آج کا دن بحیثیت قوم ہمیں انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں دیکھنا ہوگا کہ ہم جو لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے حاصل اس آزاد وطن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں تو کیا اس کا حق ادا کر رہے ہیں کیا ہم نے اسے اقبال کے خواب اور قائداعظم کی خواہش کے مطابق پنپنے دیا ہے۔

    حرف آخر قوم جشن آزادی منائے اور بھرپور جوش وجذبے کے ساتھ منائے۔ پرچم کشائیاں کریں، حب الوطنی پر تقاریر بھی کریں، ملی نغمے بھی گائیں لیکن اس کو صرف ایک دن تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنے قول کو افعال میں تبدیل کریں تاکہ ملک کا پرچم سر بلند کرسکیں۔

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے)

  • ’’ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے!‘‘

    ’’ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے!‘‘

    برصغیر میں‌ صدیوں تک مختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والے اکٹھا رہے ہیں۔ آپس میں میل جول اور راہ و رسم سے معاشرہ میں بھائی چارہ اور یگانگت فضا قائم رہی ہے۔ مغل دور کی بات کریں‌ تو دربار میں بھی بلاتفریقِ مذہب و ملّت یگانہ روزگار شخصیات اکٹھا تھیں، لیکن ہندوستان پر کمپنی کا قبضہ ہوگیا اور انگریزوں نے اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے اس فضا کو مسموم کیا اور یہ اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہوگیا۔

    اس کے بعد دنیا نے ہندوستان کی تقسیم دیکھی۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم اور ایسا دردناک واقعہ ہے جس میں لاکھوں انسانی جانیں ضایع ہوئیں اور کئی دردناک داستانیں رقم ہوئیں۔ برصغیر اور مسلم ہند کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں اور اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مسلم قومیت کا تصوّر پہلے سے موجود تھا۔ انگریزوں نے ہندوؤں میں اقتدار کی ہوس دیکھی اور یہ جانا کہ وہ کئی سو سال تک مغل بادشاہت کی وجہ سے احساسِ محرومی کا شکار ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھانے کے لیے ہندوستان میں نفرت کو ہوا دی، ہر قسم کی مذہبی اور قومی تفریق کو اجاگر کرکے انگریزوں نے اپنی حکومت اور اقتدار کو فائدہ پہنچایا۔ انگریز مسلمانوں کے دشمن تھے اور ان کو کچلنے اور استحصال کے لیے ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔ انہی سازشوں نے مسلمانوں میں جداگانہ تشخّص کو برقرار رکھنے کی خواہش کو تقویت دی اور تحریکِ پاکستان کا سفر شروع ہوا۔

    تحریکِ پاکستان کے یوں کئی عوامل ہیں، لیکن یہاں ہم اس حوالے سے چند بنیادی اور نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    جداگانہ تشخص اور تحریکِ پاکستان
    تحریکِ پاکستان کا ایک وسیع پس منظر ہے جسے جاننے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں میں جداگانہ تشخص اور علیحدہ وطن کی خواہش نے متعصب اور انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے جنم لیا اور حالات کو بگاڑتے ہوئے مسلمان قیادت کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انھوں نے اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے ہر محاذ پر انگریزوں اور متعصب ہندوؤں کا مقابلہ کیا۔ 1920ء کے بعد جو حالات پیدا کردیے گئے تھے، ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے سبب اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔

    حالات میں بگاڑ، انگریز ہندو گٹھ جوڑ
    جنگِ بلقان کے دوران 1913ء میں کانپور میں مچھلی بازار کی مسجد کا بیرونی حصہ شہید کر دیا گیا جس سے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے، اور مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا کہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی اور سماجی اعتبار سے پامال کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، چناں چہ سانحہ کانپور سے اسلامیانِ ہند کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

    اس واقعے سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصہ پیدا ہوا اور ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے راہ نماؤں اور اکابرین نے بالترتیب لاہور سے ’’زمیندار‘‘، دہلی سے ’’کامریڈ‘‘ اور کلکتہ سے ’’الہلا ل‘‘ نامی اخبارات جاری اور مسلمانوں کا مؤقف سامنے رکھتے ہوئے انگریز سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ دیگر مسلم زعماء مثلا ًمولانا عبدالباری فرنگی ، محلی، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا شوکت علی وغیرہ نے ایسے واقعات کو انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسی قرار دے کر کڑی نکتہ چینی کی۔ اسی واقعے کے بعد جب مسلمانوں پر فائرنگ اور مسلم راہ نماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو ان راہ نماؤں نے شدید احتجاج کیا جس سے مسلمانوں میں ملّی بیداری اور عملی سیاست میں حصّہ لینے کی سوچ کو تقویت پہنچی۔

    ہندو مسلم فسادات
    1920ء کے بعد ہندوستان میں انگریز سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے نقصان پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف برطانوی دور کی بدترین یاد ہے بلکہ مسلسل فسادات نے ایک خونیں تاریخ رقم کی۔ اس عشرے میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ میں ایک نئے اور سنگین باب کا اضافہ ہوا اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے ماضی میں کی جانے والی تمام کوششیں برباد ہوگئیں۔ مسلمانوں پر عیاں ہوگیا کہ انگریز اور ہندو ان کے بدترین دشمن ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے پاٹنا ممکن نہ تھا۔

    محمد علی جناح اور اتحاد کی کوششیں
    محمد علی جناح جو اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے ایک سفیر اور اہم راہ نما تھے، وہ بھی حالات سے دل گرفتہ نظر آئے۔ اسی عشرہ میں اتحاد و اتفاق بڑھانے اور انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے حوالے سے کانفرنسیں بھی ہوئیں اور ہندو مسلم مفاہمت کے لیے کئی تجاویز سامنے آئیں جن میں قائد اعظم کے ایما پر دہلی تجاویز اہم ترین تھیں۔ یہ تجاویز 1937 میں مسلم زعما کے ایک اجلاس میں مرتب کی گئی تھیں، مگر آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی اور نہرو کی سرکردگی میں ان مطالبات پر غور کیا اور اپنے ابتدائی اجلاس میں تسلیم بھی کرلیا لیکن بعد میں چند متعصب ہندوؤں کے زیرِ اثر ان میں سے چند مطالبات کو رد کر دیا گیا۔

    کانگریس کی چالیں
    اس کے بعد جب نہرو رپورٹ سامنے آئی جو کانگریس نے ہندوستان کے آئین کی حیثیت سے تیار کی تھی، ان میں بھی مسلم حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء میں جب نہرو رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے کلکتہ میں نیشنل کنونشن منعقد ہوا تواس میں بھی محمد علی جناح کے تین بنیادی مطالبات کو مسترد کر دیا گیا۔

    ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا
    محمد علی جناح اور ان ساتھیوں کے لیے یہ ایک انتہائی مایوس کن اور چونکا دینے والی صورت حال تھی۔ محمد علی جناح نے اپنے پارسی دوست جمشید نسروانجی سے کہا کہ ’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو گئے ہیں کہ اب کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے۔‘‘

    اس رپورٹ کے بعد اس وقت مختلف معاملات پر گروہ بندی اور اختلافات کی وجہ سے دور ہو جانے والے مسلمان راہ نماؤں کو بھی جب کانگریس کی مسلم دشمنی کا یقین ہوگیا تو وہ سب متحد ہوگئے۔

    مسلمان قیادت کا اتحاد اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس
    جنوری 1929ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس کا اجلاس دہلی میں ہوا جس کی صدارت سر سلطان محمد آغا خان نے کی۔ اس کانفرنس میں نہ صرف میاں محمد شفیع اور سر شفاعت احمد خان پیش پیش تھے بلکہ ترک موالات اور تحریک خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور حسرت موہانی جیسے جید علما اور سیاست دانوں نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔

    قائدِ اعظم کے 14 نکات
    ان واقعات کی روشنی میں محمد علی جناح نے 1929ء میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے اور اسے برصغیر کی تاریخ میں اسلامیانِ ہند کے منشور کی حیثیت حاصل ہوئی۔ بعد کے برسوں میں مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی قیادت میں مختلف مسلم جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں جاری رہیں اور لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں جس کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مرتب کیا گیا۔

    انتخابات اور کانگریس کی غیر متوقع کام یابی
    1906ء سے 1938ء تک ہندو مسلم مفاہمت کی کوششیں اور اس ضمن میں تجاویز مسلمانوں کی ہی جانب سے پیش کی جاتی رہی تھیں لیکن کانگریس اور ہندوؤں کی جانب سے منفی رویہ اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا جس نے 1937ء کے انتخابات کے بعد شدت اختیار کرلی۔ انتخابات سے قبل قوی امید تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت ہو جائے گی اور دونوں جماعتیں مل کر مخلوط وزارتیں قائم کریں گی، لیکن انتخابات میں کانگریس کی غیر متوقع کام یابی کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست کانگریس نے کچھ اور ہی منصوبہ بنا لیا۔

    کانگریس کے متعصب اور مفاد پرست ہندو راہ نماؤں نے دوسری تمام پارٹیوں کو اپنے اندر ضم کر کے ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت بن جانے کا سوچا اور مخلوط وزارتوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، یہی نہیں جن ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔

    کانگریس کی پالیسیاں اور مسلم کش اقدامات
    سیاسی طاقت کے حصول کے بعد کانگریس کی جانب سے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یکے بعد دیگرے مسلم کش اقدامات کیے جن میں بندے ماترم کو قومی ترانہ کی حیثیت دینا، تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم کو قومی پرچم کی حیثیت سے لہرانا، اردو کی جگہ ہندی زبان، گائے کو ذبح کرنے پر پابندی، ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کے مخصوص اور مقررہ حقوق سے محروم کرنا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت
    مسلم قیادت اور اکابرین نے یہ سب دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے قائدِ اعظم کے ساتھ 1934ء میں‌ کوششوں کا آغاز کیا اور جب مسلم لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں 1937ء میں ہوا تو اس نے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو ایک ایسے جوش و جذبہ سے سرشارکردیا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس اجلاس کے صرف تین ماہ بعد ہی مسلم لیگ کی نئی شاخیں قائم ہونے لگیں اور رکنیت سازی زوروں پر تھی۔

    محمد علی جناح کی حکمت عملی، صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت کے باوصف تحریک کام یاب ہوتی چلی گئی اور ہندوستان بھر میں ترقی کی اور بڑے صوبوں میں اسلامیانِ ہند کے کام یاب ترین اجلاس منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ کی روز افزوں قوّت اور مقبولیت بڑھنے کا اندازہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہوتا ہے جس نے سیاسی طور پر مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ مسلم لیگ کی مقبولیت کا ایک ثبوت 1939ء میں یومِ نجات منانے کی جناح صاحب کی اپیل تھی جس پر برصغیر کے مسلمانوں نے والہانہ انداز اور جوش و جذبے سے لبیک کہا۔

    مسلم قومیت کا فروغ اور علیحدہ ریاست کا قیام
    وہ وقت بھی آیا جب قائداعظم نے الگ مسلم قومی تشخص کی اس طرح توضیح اور تشریح کی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں ایک علیحدہ مملکت کے قیام پر سب رضامند ہوگئے۔ چنانچہ قائداعظم کی زیرِ قیادت مسلم لیگ نے لاہور میں 1940ء میں منعقدہ اجلاس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اس کو پاکستان کا نام دیا گیا۔

    یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانانِ ہند نے اتنے واضح اور مدلل انداز میں اپنی منفرد اور علیحدہ قومیت کا نہ صرف اعلان اور دعویٰ کیا بلکہ برصغیر میں ایک علیحدہ وطن کی تشکیل پر بھی زور دیا اور پھر 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔