Tag: جشن آزادی

  • تحریکِ پاکستان اور خواتین

    تحریکِ پاکستان اور خواتین

    محسنؔ بھوپالی نے کہا تھا
    ملی نہیں ہے ہمیں ارضِ پاک تحفے میں
    جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
    بلاشبہ یہ وطن غیر منقسم ہندوستان کے انگنت مسلمانوں کے ایثار کے صلے میں انعام کی صورت ہمیں ملا ہے۔ ہمارے اسلاف نے آزاد وطن کے لیے عملی جدوجہد کی، انتھک محنت کی، بے مثال قربانیاں دیں تب کہیں جا کر غلامی کی قید سے خود کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے۔
    ہماری وہ بزرگ خواتین جنھوں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے کم و بیش ایک سے واقعات سناتی ہیں۔ انگریزوں بالخصوص فسادات کے دوران ہندوؤں اور سکھوں کی عصبیت اور ظلم و بربریت کی بات ہو تو ایک ہی دہائی سنائی دیتی ہے کہ مسلمانوں کی عزت، جان، مال، گھر کچھ بھی محفوظ نہ رہا تھا۔ عجب بے سرو سامانی کا عالم تھا۔ پاکستان بنانے میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی فعال کردارا دا کیا۔ مسلمان خواتین کی سیاسی بیداری نے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔ بی اماں تحریکِ خلافت کے دوران منظرِ عام پر آئیں۔ قائدِ اعظم کی عزیز ہمشیر محترمہ فاطمہ جناح ہر مشکل گھڑی میں اُن کے ساتھ ساتھ رہیں، آپ سیاسی سفر میں قائداعظم کی بہترین معاون اور مشیر تھیں۔ آپ مسلم لیگ کے خواتین کے جلسوں سے خطاب کرتیں تو خواتین کی تعلیم پر زور دیتیں اور تعلیمِ نسواں کا شعور بیدار کرتیں۔ اس ضمن میں آپ کی ساتھی خواتین بیگم رعنا لیاقت علی خان، امجدی بیگم، جمیلہ شوکت، بیگم شائستہ اکرام اللہ، نورالصباح بیگم، بیگم اختر سلیمان، بیگم جمعہ، بیگم اصفہانی، لیڈی ہارون، بیگم ممتاز شاہنواز، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، وقار النساء نون و دیگر کی مخلصانہ کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام معزز خواتین نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزاد وطن کے حصول کے لیے بہت فعال کردار ادا کیا۔ یہ وہ خواتین تھیں جن کی کوئی نہ کوئی اعلیٰ یا ادنیٰ درجے کی سیاسی حیثیت تھی مگر نام وَر مسلم لیگی خواتین کے ساتھ ساتھ عام عورتیں بھی اپنے اپنے انداز سے سرگرمِ عمل رہیں لیکن ان کی حیثیت گمنام سپاہی کی سی تھی۔ان تمام خواتین نے نہ صرف آزادی کی جدوجہد میں انتھک محنت کی بلکہ بڑی قربانیاں بھی دیں، زیورات جو اکثر خواتین کی کمزوری ہوتے ہیں اپنے ہاتھوں انہوں نے فنڈز میں دے دیے۔ اس راہ میں کئی کانٹے تھے جنھیں وہ پھول سمجھ کر چنتی رہیں۔
    ایک مرتبہ ایک ضعیف خاتون نے قائد اعظم سے صحت کی جانب سے غفلت نہ برتنے کی درخواست کرتے ہوئے ٹانک استعمال کرنے کا مشورہ دیا، جسے سن کر قائدِ اعظم مسکرائے اور فرمایا، ”آپ کا بہت بہت شکریہ، میری صحت خراب نہیں ہے، بات صرف یہ ہے کہ مجھے کام بہت زیادہ کرنا پڑتا ہے، اگر آپ لوگ مجھ سے زیادہ کام کرنا شروع کر دیں تو اس سے بڑا ٹانک میرے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔“ قائدِاعظم نے ہمیشہ خواتین کو ہمّت اور حوصلے سے کام لینے کی تلقین کی اور ان کی منزل کے حصول کے لیے لگن اور جدوجہد کو سراہا۔
    اُن دنوں تمام مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ گھر بار ہوتے ہوئے بھی بے گھری کا خوف سر پر سوار رہتا۔ ایسے میں 3 جون کے تقسیم کے اعلان 14 اگست 1947ء کو آزاد وطن کے حصول کی خوشی ناقابلِ بیان تھی اور پھر اپنے آزاد وطن جانے کے راستے کی صعوبتوں نے جینا محال کر دیا تھا، لیکن آزادی کی خوشی نے ہر مشکل گھڑی کو آسان بنا دیا۔
    قائدِ اعظم نے فرمایا تھا، ”مجھے ہر پڑھی لکھی عورت کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں پاکستان بنانا ہے اور ہر عورت کو تعمیری کام کرنا ہو گا۔“
    ایک آزاد وطن حاصل کرنے کے بعد خواتین کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوگئی تھیں۔ نئے ملک کے ساتھ ذمہ داریاں بھی نئی تھیں، خواتین کی لگن اور ہمت مزید بڑھ گئی تھی۔ انہوں نے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ مضحکہ خیز المیہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے لیے سرتوڑ کوششیں کرنے والی خاتون کو مادرِ ملّت کا خطاب تو دے دیا گیا لیکن اُن کی قدر نہیں کی گئی۔ اگر مادرِ ملّت کو مواقع میسر آتے تو وہ پاکستان کی بقا و ترقی کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کرتیں۔ آپ اولو العزم خاتون تھیں۔
    اے پیکرِ خلوص و وفا، اے متاعِ جاں
    خدمات آپ کی ہیں گراں فاطمہ جناح
    ( سید ذوالفقار حُسین نقوی)
    بیگم رعنا لیاقت علی خان نے اپنی ساتھی خواتین کے تعاون سے عورتوں کی ترقی، فلاح و بہبود کے لیے فعال ادارہ اپوا قائم کیا۔ بیگم اختر سلیمان نے نہ صرف تحریکِ پاکستان کے لیے عام کارکن سے کام لیا بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی معذور بچّوں کی بحالی کے لیے ادارہ SRCC اور بے سہارا خواتین کے لیے ”نشیمن“ قائم کیا۔ بیگم اصفہانی نے کاشانۂ اطفال بنایا۔ نورالصباح بیگم، بیگم تزئین فریدی اور بیگم صدیق علی خان نے خواتین اور بچّوں کی فلاح و بہبود کے لیے کاوشیں کیں اور فعال کردارادا کرتی رہیں۔ تحریک کے دنوں‌ میں‌ اور بعد میں‌ پاکستان کی خدمت کا جذبہ اتنا قوی تھا کہ خواتین بڑے سے بڑے کام کر جاتی تھیں۔تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب لاہور سیکریٹریٹ پر جھنڈا لہرانے والی بھی ایک طالبہ ہی تھی۔
    کل تک آزادی کی کامیاب جنگ لڑنے والی اور پاکستان بنتے ہوئے دیکھنے والی خواتین ماضی کے دریچے کھولتی ہیں تو جہاں انھیں وہ خوں آشام مناظر، قائدِ اعظم اور اُن کے رفقائے کار کی جدوجہد اور خواتین کی کاوشوں اور قربانیوں کا خیال آتا ہے وہاں احساسِ زیاں بھی ستاتا ہے کہ
    یہ داغ داغ اُجالا، یہ شبِ گزیدہ سحر
    وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
    (فیض احمد فیضؔ)
    گزشتہ پچھتّر برسوں میں پل پل رنگ بدلتی ملکی معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال دیکھ کر کئی بار یقین کے جھلملاتے دیے ٹمٹمائے، لیکن اِن نہایت تشویش ناک، غیر تسلی بخش اور غیر یقینی حالات میں بھی خواتین نے تعمیرِ وطن کے لیے اپنا سفر جاری رکھا۔
    چینی کہاوت ہے کہ ” اگر آپ کے ذہن میں چند ماہ کے لیے موسم کے اعتبار سے کوئی منصوبہ ہے تو موسمی پودے لگائیے، اگر کچھ عرصے کا منصوبہ ہے تو چھوٹے درخت لگائیے، اگر برسوں پر محیط منصوبہ ہے تو پھر گھنے تناور درخت لگائیے اور اگر صدیوں پر محیط منصوبہ ہے تو عورتوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے جمہوریت کے درخت کو پروان چڑھائیے۔ “
    بلاشبہ خواتین کی اہمیت کو اگر تسلیم کیا جائے اور اُن کی صلاحیتوں پر بھروسہ اور ان کا اعتراف کیا جائے تو خواتین ہر میدان میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔جب سے ہماری وزارت اور کابینہ میں خواتین کی شمولیت بڑھی ہے، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کلیدی عہدوں پر فائز ہورہی ہیں۔ ترقی و خوش حالی بھی نظر آئی ہے، گو یہ مسرت صدفی صد ابھی ہمارے حصّے میں نہیں آئی اور اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے ابھی مزید محنت اور ریاضت کی ضرورت ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر خلوصِ نیّت کے ساتھ پاکستان کی بقا کے لیے خواتین اپنا عملی کردار اسی طرح‌ ادا کرتی رہیں تو بقول شاہدہ ؔحسن
    قدم پہ خود ہی کھلیں گی راہیں، سحر سے خود سلسلہ ملے گا
    ہم اپنے سارے چراغ لے کر چلیں گے تب راستہ ملے گا
    ہم اپنے حصّے کی روشنی سے اجال دیں گر تمام رستے
    جو تھک گئے ہیں انھیں بھی چلنے کا اک نیا حوصلہ ملے گا
    ہم اپنے ریشم ملا کے بُن لیں جو ایک پوشاک الفتوں کی
    تو اِس زمیں پر کوئی بھی پیکر نہ پھر دریدہ قبا ملے گا
    اور پھر خواتین کے عزمِ محکم اور عملِ پیہم سے پاکستان کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
    میں راہِ ترقّی کا ہوں دیا
    دنیا نے مجھے تسلیم کیا
    مجھے عزّت، مان، وقار دیا
    میں، عفت، عزّت، عصمت ہوں
    میں ہمّت ہوں، میں قوت ہوں
    میں طاقت ہوں، میں جرأت ہوں
    میں عورت ہوں، میں عورت ہوں
    (عنبرین حسیب عنبرؔ)
  • جشن آزادی : پی آئی اے  کا مسافروں کیلئے بڑا اعلان

    جشن آزادی : پی آئی اے کا مسافروں کیلئے بڑا اعلان

    کراچی : قومی ایئرلاین (پی آئی اے) نے جشن آزادی کے موقع پر اندرون ملک پروازوں پر 14 فیصد رعایت کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی ایئرلاین (پی آئی اے) نے جشن آزادی کے موقع پر اندرون ملک پروازوں پر رعایت کا اعلان کردیا۔

    ترجمان پی آئی اے نے بتایا کہ 14اگست کو پی آئی اے کی تمام پروازوں پر 14 فیصد رعایت ہوگی، رعایتی ٹکٹ فوری طور پر جاری کرائے جا سکتے ہیں۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ رعایتی ٹکٹ 14 اگست کو سفر کرنے کیلئے موثر ہوں گے۔

  • 75 سال: کبھی پاکستان کی معیشت مستحکم تھی

    75 سال: کبھی پاکستان کی معیشت مستحکم تھی

    برصغیر کے بٹوارے کو 75 سال بیت گئے۔ تقسیمِ ہند کے اعلان کے نتیجے میں معرضِ وجود میں‌ آنے والا پاکستان آج سیاسی انتشار، افراتفری دیکھ رہا ہے اور معاشی میدان میں‌ بھی اسے ابتری کا سامنا ہے۔

    پاکستان کی معیشت ہمیشہ مد و جزر کا شکار رہی ہے، لیکن کیا اس کے قصور وار صرف حکم راں ہیں اور صرف سیاسی مصلحتیں اس تباہ حالی کی وجہ ہیں؟

    ایک حد تک تو یہ بات درست ہے، مگر اس میں مختلف عوامل کارفرما ہیں اور کئی پہلوؤں سے ان کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس ضمن میں‌ قومی ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار اور ٹھوس حقائق پر مبنی بحث میں‌ ماہرینِ معیشت کی رائے ہی قابلِ توجہ ہوسکتی ہے۔ تاہم ایک بات یہ بھی ہے کہ دہائیوں پہلے پاکستانی مالیاتی اداروں میں مخلص اور قابل لوگ موجود تھے جنھوں نے ملکی معیشت کو سنبھالے رکھا۔ 1950 کی بات ہے جب پاکستانی معیشت مستحکم تھی، لیکن 1958 کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوئی۔ ملک میں‌ دوسرا پانچ سالہ معاشی منصوبہ 1965 میں ختم ہوا اور اس وقت بھی ملک ترقی پذیر ممالک میں مستحکم حیثیت کا حامل تھا۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت جو ممالک پہلی دنیا (ترقی یافتہ ممالک) کا درجہ حاصل کر سکتے تھے، ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ پھر 1965 میں پاک بھارت جنگ نے معیشت میں بگاڑ پیدا کردیا، لیکن پاکستان جلد اس سے نکل گیا اور 1968 تک ترقی کی شرح دوبارہ سات فیصد سے زیادہ ہوگئی۔ اس کے بعد معاشی حالات بگڑنے لگے اور بعد کے برسوں میں ملک میں اصلاحات اور صنعتوں کو قومیانے سے معیشت کو نقصان پہنچا۔

    اگر حکومتی کارکردگی کے تناظر میں‌ خراب معاشی حالات اور منہگائی میں اضافے کی بات کی جائے تو ہم دیکھتے آئے ہیں کہ ترقی کے دعوؤں اور عوام کی خوش حالی کے منشور کے ساتھ مرکز اور صوبوں‌ میں‌ حکومت بنانے کے والوں کی ترجیحات راتوں رات بدل جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں تمام وسائل اور سارا زور اپنے مخالفین کو کم زور کرنے اور اپنے مفادات کی تکمیل پر لگا دیتی ہیں جس میں ملک کا ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے۔

    آج پاکستان کو معاشی میدان میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کبھی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی تو کبھی ڈالر کی اونچی اڑان بریکنگ نیوز کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اس سیلابِ بلا خیز میں پاکستانی روپیہ خس و خاشاک کی طرح‌ بہہ رہا ہے، اور اس سے عوام براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ معاشی عدم استحکام اور اس حوالے سے بے یقینی کی فضا میں صنعتوں کا پہیہ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ تیل اور گیس کی ضرورت پوری نہ ہونے سے صنعتیں اور گھریلو زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ملک کی درآمدات، برآمدات اور ہر قسم کی خرید و فروخت متاثر ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں‌ بیروزگاری کی شرح بھی بڑھی ہے۔ ملک میں عوام کو دو وقت کی روٹی کا حصول دشوار ہوتا جارہا ہے۔ آٹا چینی، گھی تیل اور دیگر غذائی اجناس سمیت ضروریاتِ زندگی کی مختلف اشیا کے دام بڑھ رہے ہیں۔

    یہ حالات ایک طرف بھوک اور بیروزگاری لوگوں کو قسم قسم کے جرائم اور دھوکا دہی کی طرف مائل کر رہے ہیں اور دوسری جانب بے بس اور مجبور لوگ خود کشی کررہے ہیں۔ اس مشکل وقت میں آج پاکستان آزادی کی پلاٹینم جوبلی منا رہا ہے۔

    ادھر سرحد کے دوسری طرف بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ بھارت کی معیشت بھی بحران کا شکار ہے۔ غربت، بدحالی اور بنیادی ضروریات سے محرومی بھارت کی اکثریت کا مسئلہ ہے اور حکومت معیشت کو سہارا دینے اور مالی خسارے کو سنبھالنے کے لیے تمام بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے۔ پاکستان کے عوام کی اس بدحالی، پستی اور محرومی کا ایک بڑا سبب سرمایہ دار، امرا اور وڈیرے ہیں اور یہی لوگ سیاسی جماعتوں میں‌ شامل ہیں اور اقتدار ملنے کے بعد ملکی اداروں‌ میں‌ پالیسی ساز کے طور پر اختیار کو استعمال کرکے فیصلہ کُن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ حکم راں سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط بناتے ہیں اور یہ وہ نظام ہے جسے برطانوی سامراج نے اس خطّے میں پنپنے کا موقع دیا اور یہ عام آدمی کی جیب سے پیسہ نکلوا لیتا ہے۔

    75 سال گزر گئے، لیکن آج بھی پاکستان کے عوام روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضرورت اور پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں۔ عام آدمی عدالتوں سے انصاف، مریض علاج معالجے کی مفت اور بہترین سہولیات، معیاری اور مفت تعلیم کے علاوہ یکساں نصاب اور اس کی بنیاد پر جامعات میں‌ داخلہ اور بعد میں روزگار ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ دوسری جانب حکم راں طبقہ اور اشرافیہ کی دولت اور جائیدادوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں‌ احتساب کی کوئی روایت موجود نہیں‌ ہے اور اس حوالے سے موجود اداروں کا احتساب سیاسی دباؤ کی وجہ سے انتقامی کارروائی بن کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں‌ حکم راں طبقہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے امتیازی قوانین وضع کرنے اور تشکیلِ نظام کے ساتھ ضرورت پڑنے پر اپنے تحفظ کے لیے زبان، علاقے اور مذہب کا بے استعمال کرتا آیا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

    ملک میں معاشی مشکلات اور حالیہ منہگائی کو موضوع بنائیں‌ تو گزشتہ برس ہر کاروبار میں قیمتوں میں جس رفتار سے اضافہ ہونا شروع ہوا وہ پچھلی دہائیوں میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ دنیا کے کئی ممالک اور بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک امریکا ہے جہاں گزشتہ ماہ افراطِ زر کی شرح 8.6 فیصد تک پہنچ گئی، جو دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بلند ترین شرح ہے۔

    پاکستان میں منہگائی کی شرح کا تعین ادارۂ شماریات کرتا ہے جس پر کئی سوالات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ یہ ادارہ وزارتِ خزانہ کے ماتحت ہے جس کے منہگائی سے متعلق اعداد و شمار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ ادارۂ شماریات حکومت کے دباؤ پر منہگائی کو کم ظاہر کرتا ہے اور حکومتیں‌ ان اعداد و شمار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

    منہگائی سے متعلق ایسی رپورٹیں‌ ملک کے مختلف علاقوں سے اکٹھے کیے جانے والے اعداد و شمار پر مبنی ہوتی ہیں۔ وفاقی ادارہ مختلف شعبوں کے اعداد و شمار اکٹھا کرکے اپنی ایک مفصل رپورٹ جاری کرتا ہے جس میں مہنگائی کی شرح کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔

    ادارۂ شماریات جس ماڈل کے تحت کام کرتا ہے، اس میں مہنگائی کی شرح تین طریقوں سے معلوم کی جاتی ہے۔ ان میں ایک ماہانہ بنیادوں پر کنزیومر پرائس انڈیکس کا جائزہ ہوتا ہے جس میں ماہانہ بنیادوں پر قیمتوں میں ردّ و بدل کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ ہفتہ وار بنیادوں پر قیمتوں میں ہونے والا ردّ و بدل قیمتوں کے خاص اشاریے کے تحت جاری ہوتے ہیں اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ تیسرا طریقہ ہول سیل پرائس انڈیکس ہے جس میں ماہانہ بنیادوں پر ہول سیل کی سطح پر قیمتوں میں ردّ و بدل کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے بی بی سی کی ایک معلوماتی رپورٹ بتاتی ہے کہ ادارۂ شماریات کے تحت پاکستان کے 35 شہری علاقوں اور 27 دیہی علاقوں سے قیمتیں اکٹھی کی جاتی ہیں۔ شہری علاقوں میں 65 مارکیٹوں اور اور دیہات میں 27 مارکیٹوں سے قیمتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں 356 اشیا کی قیمتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے جب کہ دیہات سے 244 چیزوں کی قیمتیں معلوم کی جاتی ہیں۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر اوسط نکالنے کے بعد‌مہنگائی کی شرح بتائی جاتی ہے۔

  • 31 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز، ملک بھر میں آج 75 واں یوم آزادی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے

    31 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز، ملک بھر میں آج 75 واں یوم آزادی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے

    لاہور: ملک بھر میں 75 واں یوم آزادی ملی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے۔

    پاکستان کا پچھتر واں جشن آزادی آج ملی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21,21 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز کیا گیا۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    فوجی جوانوں نے اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے، مساجد میں ملکی سلامتی، استحکام اور خوش حالی کی دعائیں کی گئیں۔

    مصور پاکستان علامہ اقبال کے مزار پر گارڈز تبدیلی کی باوقار تقریب منعقد ہوئی، پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے گارڈز کے فرائض سنبھال لیے، بابائے قوم قائد اعظم محمدعلی جناح کے مزار پر بھی گارڈز تبدیل ہوئے اور پاک بحریہ کے کیڈٹس نے ذمہ داری سنبھال لی۔

    اسلام آباد میں جناح کنونشن سینٹر میں پرچم کشائی کی مرکزی تقریب منعقد ہوئی، جس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے پرچم کشائی کی، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزرا، ارکان سینیٹ و قومی اسمبلی اور اعلیٰ عسکری قیادت شریک ہوئی۔

    لاہور میں ایوب اسٹیڈیم میں 21 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز کیا گیا، اور پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے توپوں کی سلامی دی۔

  • تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والی خواتین کا تذکرہ

    تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والی خواتین کا تذکرہ

    تقسیمِ ہند کے اعلان اور قیامِ پاکستان کو 75 سال بیت چکے ہیں۔ برصغیر کے عوام نے انگریزوں‌ کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بے شمار قربانیاں‌ دیں‌ اور مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو کر مسلمانوں نے آزاد وطن کی جدوجہد کی۔ اس میں‌ خواتین بھی شامل تھیں جن کے تذکرے کے بغیر آزادی کی جدوجہد اور قیامِ پاکستان کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔

    ان خواتین میں‌ مسلمان اکابرین اور زعما کے گھرانوں اور ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والی عام عورتیں شامل تھیں جنھوں نے جلسے جلوس اور احتجاجی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کے علاوہ گرفتاریاں اور جان و مال کا نذرانہ بھی پیش کیا۔

    ہندوستان کی تاریخ کی عظیم تحریک جس کے بعد ہم نے پاکستان حاصل کیا، محترمہ فاطمہ جناح، امجدی بانو بیگم، سلمیٰ تصدق حسین، بی اماں، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم گیتی آراء، بیگم جہاں آرا شاہنواز اور بے شمار خواتین کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہے۔

    ان خواتین کا لازوال کردار، عظمت و حوصلہ اور مسلمانوں کے لیےعلیحدہ ریاست حاصل کرنے کا جذبہ مردوں سے کسی طور کم نہ تھا، بلکہ ان میں سے اکثر ایسی خواتین تھیں جنھوں نے تحریکی ذمہ داریاں اور کام انجام دینے کے ساتھ اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کیں اور اپنے قول و عمل سے آزادی کے سفر اور تحریکِ پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔

    یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی چند خواتین کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں۔

    مادرِ ملت محترمہ فاطمہ علی جناح
    تحریکِ پاکستان میں اگر خواتین کے نمایاں اور فعال کردار کی بات کی جائے تو جہاں اپنے بھائی اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی طرح مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے خود ایک سیاسی مدبّر اور قائد کی حیثیت سے صفِ اوّل میں مرد راہ نماؤں کے ساتھ نظر آئیں، وہیں ان کا ایک بڑا کارنامہ ہندوستان میں خواتین میں آزادی کا شعور بیدار کرنا اور بڑی تعداد کو مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھا کرنا تھا۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث اور انتھک جدوجہد ایک مثال ہے جس نے انھیں برصغیر کی تاریخ میں ممتاز کیا۔

    محترمہ فاطمہ علی جناح پیشے کے اعتبار سے دندان ساز تھیں جو برصغیر کے طول و عرض میں خواتین میں علیحدہ مسلم ریاست سے متعلق شعور بیدار کرنے اور مسلمانوں کو منظّم و متحرک کرنے کے لیے دن رات میدان عمل میں رہیں۔ تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی خدمات ایک سنہرا اور روشن باب ہیں۔

    بی امّاں
    اس عظیم خاتون کا نام ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا جنھوں نے اپنے عزیز از جان بیٹوں کو اسلام کا پرچم سربلند رکھنے اور آزادی کی خاطر گردن کٹوا لینے کا درس دیا اور خود بھی جدوجہدِ‌ آزادی کے حوالے سے میدانِ‌ عمل میں متحرک اور فعال رہیں۔ بی امّاں نے گھر گھر جاکر عورتوں میں سیاسی شعور اور انگریزوں سے آزادی کی جوت جگائی اور انھیں‌ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ و خبردار کیا۔

    بی امّاں کا اصل نام آبادی بانو تھا۔ وہ عظیم سیاسی راہ نما مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ تھیں جنھیں دنیا جوہر برادران کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کی امارت اور خلافت کے یہ متوالے جیل کی قید اور صعوبتیں جھیلتے تو بی امّاں کی تلقین اور ان کا حکم یاد کرتے کہ بیٹا خلافت کے لیے جان دے دینا اور آزادی کا خواب دیکھنا مت ترک کرنا، چاہے گردن ہی تن سے جدا کیوں نہ کردی جائے۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ناقابل فراموش کردار ادا کرنے والی بی امّاں تعلیم یافتہ نہ تھیں لیکن ایک آزاد مملکت کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے جلسے جلوس سے لے کر چند کانفرنسوں کی صدارت بھی بخوبی کی۔ انھوں نے خواتین میں جذبہ حرّیت بیدار کرتے ہوئے انھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے نمایاں کام کیا۔

    بیگم رعنا لیاقت علی خان
    بیگم رعنا لیاقت علی خان معاشیات کے مضمون میں ڈگری یافتہ تھیں اور انھوں نے تحریکِ پاکستان جناح کمیٹی میں بطور اقتصادی مشیر خدمات سرانجام دیں۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی رفیق حیات تھیں۔

    انھوں نے قرار دادِ پاکستان کے مسودے کی تیاری کے دوران چند کلیدی نکات بتائے تھے۔ انھیں تحریکِ پاکستان کی کارکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    بیگم جہاں آرا شاہنواز
    آزادی کی جدوجہد کا ایک نمایاں کردار بیگم جہاں آرا شاہنواز ہیں۔ آپ مسلمانوں کی نمائند ہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا نام تجویز کرنے والے عظیم سیاسی راہ نما سر میاں محمد شفیع کی صاحبزادی تھیں۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز کو اس جماعت کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور انھوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

    بیگم زری سرفراز
    بیگم زری سرفراز نہ صرف تحریک پاکستان کی ایک سرگرم کارکن تھیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں‌ خواتین کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے بھی کوشاں رہیں اور اس حوالے سے بہت کام کیا۔ بیگم زری سرفراز 1940ء کے تاریخ ساز جلسے میں شریک ہوئی تھیں۔ انھوں نے مردان میں مسلم لیگ خواتین کی داغ بیل ڈالی جب کہ 1945ء میں برصغیر کی مسلم لیگی خواتین کی کانفرنس منعقد کروانے کا سہرا بھی آپ ہی کے سَر ہے۔ انھوں نے 1947ء میں سول نافرمانی اور وائسرائے کے پشاور کے دورے کے موقع پر احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی تھی۔

  • جب قائدِ‌اعظم نے مجسٹریٹ سے اپنے بارے میں‌ رائے طلب کی!

    جب قائدِ‌اعظم نے مجسٹریٹ سے اپنے بارے میں‌ رائے طلب کی!

    بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کی ذہانت، ان کی قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ اس زمانے میں انھیں ان کے ہندوستانی سیاسی مخالفین اور انگریزوں نے بھی سراہا ہے۔

    مؤرخین نے محمد علی جناح کو بااصول، راست گو اور اجلے کردار کا مالک لکھا ہے۔ یہاں ہم قائدِ اعظم کی شخصیت سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    قانون کی تعلیم مکمل کرکے لندن سے ہندوستان لوٹنے والے محمد علی جناح نے جب ممبئی (بمبئی) میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنا چاہا تو انھیں کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت پڑی۔

    پریکٹس شروع کرنے کے خواہش مند کسی بھی وکیل کے لیے لازمی تھا کہ وہ یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرے۔ ایک روز محمد علی جناح صبح سویرے ایک انگریز مجسٹریٹ کے بنگلے پر پہنچ گئے اور نوکر کے ہاتھ ایک چٹ پر اپنا نام اور ڈگری لکھ کر ضروری کام سے ملاقات کا پیغام اندر بھجوا دیا۔ مجسٹریٹ نے انھیں اندر بلا لیا۔

    قائدِ اعظم نے اندر جاتے ہی سوال کیا:’’میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

    مجسٹریٹ نے جواب دیا: مجھے آپ بے حد شریف آدمی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس پر قائدِ اعظم نے اسی وقت ایک کاغذ آگے بڑھا دیا اور نہایت ادب اور شائستگی سے کہا: ’’جنابِ عالی، یہ الفاظ اس پر لکھ دیجیے۔ دراصل مجھے قانون کی پریکٹس شروع کرنے کے لیے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے۔‘‘

  • 75 ویں جشنِ آزادی پر ‘ناتواں پاکستان’ کا حکم رانوں اور قوم سے سوال

    75 ویں جشنِ آزادی پر ‘ناتواں پاکستان’ کا حکم رانوں اور قوم سے سوال

    75 واں جشنِ آزادی منانے کے لیے پاکستانی قوم جوش و جذبے سے سرشار ہے۔ گھروں، سڑکوں، گلیوں میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار آگئی ہے اور یہ اہتمام کیوں نہ ہو کہ آزادی کا جشن منانا کسی بھی قوم کے زندہ ہونے کی علامت ہوتا ہے۔

    آزادی کسی قوم کا وہ سرمایۂ افتخار ہوتا ہے جو اس قوم کی زندگی اور اس کے تاب ناک مستقبل کا ضامن ہوتا ہے، جب کہ غلامی ایک مرض اور غیروں پر بھروسا کرنا وہ عادت ہے جو دلوں کو جوش و جذبے سے محروم اور جذبہ و امنگ سے یکسر خالی کردیتی ہے۔ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے اسی غلامی کو آزادی میں بدلنے کا نسخہ بتاتے ہوئے کہا تھا:

    دلِ مردہ، دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
    کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ

    14 اگست 1947 اور رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو دنیا کے نقشے پر ایک نئی اور آزاد ریاست کے طور پر پاکستان کا نام ابھرا۔ آزادی کی یہ نعمت ہمیں قائداعظم کی قیادت اور ان کے رفقا کی شبانہ روز جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے طفیل نصیب ہوئی تھی۔ دو قومی نظریے اور ایک کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا وطن جب معرضِ وجود میں آیا تو اس کے پاس مسائل زیادہ اور وسائل انتہائی کم تھے۔ لیکن مخلص قیادت نے اس وقت کے ایک ناتواں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا اور چند سال میں اسے دنیا کے ایک ایسے ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا جہاں تیزی سے صنعتی ترقی ہورہی تھی۔

    دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام، دنیا کا سب سے بڑا ڈیم، اسٹیل مل، معروف فضائی کمپنی پی آئی اے اور پاکستان کا شہر کراچی بھی کبھی دنیا میں اپنی مصروف بندرگاہ کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستانی قیادت اگر امریکا جاتی تو وہاں کے حکم راں اور اعلیٰ عہدے دار خود ان کا استقبال کرتے تھے۔ یہ بات شاید کئی قارئین کے لیے خوش گوار حیرت کا باعث ہو کہ پاکستان جرمنی سمیت متعدد ملکوں کو قرضے دیتا تھا، لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا اور پاکستان نے ابتدائی دو عشروں میں جو ترقی کی تھی وہ اس طرح ترقیٔ معکوس ثابت ہوئی کہ قرض دینے والا یہ ملک آج خود قرضوں کے جال میں جکڑ چکا ہے اور ہمارے حکم راں کاسۂ گدائی پھیلائے ہوئے ہیں۔ ہم سے کئی برس بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک آج صنعت و حرفت میں ہم سے آگے ہیں اور اپنی معیشت کا عروج دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ دنیا میں مشہور ہونے والی اسٹیل مل معیار اور صنعت گری کے اعتبار سے ختم ہوچکی ہے۔ پی آئی اے تباہ حال ادارہ بن چکا ہے۔ سب سے بڑے نہری نظام اور دنیا کے سب سے بڑے ڈیم والا ملک پانی کی قلت کے مسئلے کا سامنا کررہا ہے اور زرعی زمینیں بھی پانی سے محروم ہیں۔ روشنیوں کے شہر کراچی کو پہلے دہشت گردی کے عفریت نے تاریکیوں میں دھکیلا اور اب حکم رانوں کی ریشہ دوانیوں اور غفلت نے عروسُ البلاد کو کھنڈر بنا دیا ہے۔

    قیامِ پاکستان کے ابتدائی چند سال کے بعد جو بھی حکم راں رہے ہیں ان میں سے چند کو چھوڑ کر یا تو سب کوتاہ نظر رہے یا پھر ان کی ترجیح ملک سے زیادہ ذاتی مفاد رہا ہے۔ ہمارے اکثر حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلیے کبھی مذہب تو کبھی لسانیت اور صوبائیت کا سہارا لیا۔ ہماری خارجہ پالیسی یہ رہی کہ جس کسی کے پاس اقتدار رہا وہ سات سمندر پار امریکا سے دوستی میں تو ہر حد تک گیا لیکن ہمسایہ ممالک (ماسوائے چین) کے ساتھ تعلقات کو کوئی اہمیت نہ دی۔

    حکومتوں نے ملکی وسائل اور افرادی قوت پر انحصار کرتے ہوئے زراعت و صنعت کو فروغ دینے کے بجائے بیرونی قرضوں کا طوق اس قوم کے گلے میں ڈالا۔ قومی صنعت کو فروغ دینے کے بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تحفظ فراہم کیا اور ہر موقع پر بااختیار و برسر اقتدار طبقے نے اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو بھینٹ چڑھا دیا۔ جاگیردار طبقے نے جان بوجھ کر تعلیم کو نظر انداز کیا تاکہ عام آدمی باشعور ہو کر ان کے اقتدار کیلیے خطرہ نہ بن سکے۔ یکساں تعلیمی نظام کے ذریعے قوم کے نونہالوں کی آبیاری کرنے کے بجائے تعلیم کو کمرشلائز کر کے طبقاتی تقسیم کو عروج دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کو وراثت میں ڈھال کر جمہوریت کے نام پر خاندانی ڈکٹیٹر شپ قائم کی گئی اور اسی سیاست کے بل بوتے پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔

    ایک کلمے کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کو مذہب، فرقہ واریت اور لسانیت کے نام پر بار بار خون میں نہلایا گیا۔ آج یہ حال ہے کہ پاکستانی صرف دو مواقع پر ایک قوم نظر آتے ہیں، ایک 14 اگست اور دوسرا کرکٹ میچ۔ وہ بھی بالخصوص بھارت سے مقابلے میں ورنہ اس کے علاوہ کہیں سندھی ہے تو کوئی پنجابی، کہیں پختون ہے، کوئی بلوچی، مہاجر اور کوئی سرائیکی ہے، اگر نہیں ہے تو پاکستانی نہیں ہے۔

    75 برس کے اس سفر میں ہم اپنا ایک بازو گنوا چکے جو اب دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے موجود ہے جب کہ باقی ماندہ پاکستان ہماری اپنی کوتاہیوں، ریشہ دوانیوں، رنجشوں، لسانی نفرت اور مذہبی بنیاد پر تفریق سے نڈھال اور ناتواں ہو چکا ہے جس کی ذمے داری یوں تو من حیث القوم سب پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن سب سے زیادہ ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک پر حکومت اور قوم کی قیادت کی لیکن ہمیں ایک ایسا پاکستان نہیں دے سکے جو دنیا میں ایک باوقار، حقیقی معنوں میں خود مختار اور معاشی طور پر مستحکم ہوتا۔

    یوں تو ہم کہنے کو آزاد قوم ہیں لیکن نہ ہماری معیشت آزاد ہے اور نہ ہی ہماری پالیسیوں میں کوئی تسلسل۔ اب ہماری معاشی پالیسی ہمارے قرض خواہ ادارے ہمیں بنا کر دیتے ہیں جن پر من و عن عمل کرنا حکمران وقت کی مجبوری ہوتا ہے۔ آج پاکستان کی صنعت و حرفت، تعلیم و صحت، فن و ثقافت کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کی کارکردگی کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔

    کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
    ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
    دن آجاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی

    پچھتر سال کا وطن عزیز سوال کررہا ہے کہ جس مقصد کیلیے کرہ ارض پر یہ زمین کا ٹکڑا پاکستان کے نام سے حاصل کیا گیا تھا کیا وہ مقصد پورا ہوگیا۔ اس بار قوم یہ جشن آزادی عدم اعتماد کی فضا میں پرانا پاکستان اور نیا پاکستان کے نعروں کی بازگشت میں منا رہی ہے۔ ملی نغموں کی گونج اور سبز ہلالی پرچموں کی بہار تو ہر طرف ہے، لیکن کیا صرف سال میں ایک ہی دن جھنڈے لہرانے، جھنڈیاں لگانے، قومی اور ملی نغمے گانے، ریلیاں نکالنے اور حب الوطنی پر مبنی تقاریر کرنا ہی ایک زندہ قوم کی نشانی ہوتی ہے؟

    وقت آگیا ہے کہ اب ہمیں جشن آزادی منانے کے ساتھ ساتھ ایک لمحہ رک کر سوچنا اور غور و فکر کرنا ہوگا اور قیام پاکستان سے اب تک ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ 75 سال کے آزادی کے اس سفر میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں باوقار انداز سے اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ اپنے قومی و ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بیرونی قرضوں سے کس طرح نجات ممکن ہے؟ کس طرح چھوٹی چھوٹی اکائیوں کی تقسیم کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرو کر قوم بناسکتے ہیں؟

    آج ملک کے مقتدر اور بااختیار افراد سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور بحیثیت قوم سب کو سوچنا ہوگا کہ آج تک ہم وہ مقاصد کیوں حاصل نہیں کر پائے جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ خطہ ارضی حاصل کیا تھا۔

    صرف آزادی کا جشن منا لینے سے وطن کی محبّت کا حق ادا نہیں ہوتا، ہم سب کو اپنی اپنی اصلاح بھی کرنا ہوگی۔ یہ مُلک جتنی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد نصیب ہوا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی قدر کریں اور اس سے محبّت کریں۔ قوم، بالخصوص نوجوان نسل میں جبّ الوطنی کو فروغ دینے کے لیے حکومت وقت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور جس کی نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اگر انہیں درست سمت اور سازگار ماحول دیا جائے تو وہ اسے مضبوط اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔ قومیتوں، فرقوں کی تقسیم سے نکال کر ایک قوم کی لڑی میں پرویا جائے تو یہ قوت بن کر اغیار کے سامنے سرنگوں مملکت کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلا سکتے ہیں اور پاکستان دنیا کے نقشے پر حقیقی معنوں میں سیاسی اور معاشی لحاظ سے ایک خودمختار ملک کے طور پر جگمگا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے صرف اور صرف اخلاص کے ساتھ جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے۔

    احمد ندیم قاسمی کے ایک دعائیہ کلام کے ساتھ اپنے اس بلاگ کا اختتام کرتا ہوں:

    خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
    وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
    یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
    یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
    یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
    اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
    گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
    کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
    خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
    اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
    ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
    کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
    خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
    حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

  • 75 سال پہلے بٹوارے کے ساتھ جنم لینے والی کہانیاں

    75 سال پہلے بٹوارے کے ساتھ جنم لینے والی کہانیاں

    تقسیمِ ہند کے اعلان پر فوری اور شدید رد عمل فسادات کی صورت میں سامنے آیا اور قتل و غارت گری کی وہ داستان رقم ہوئی جس سے برصغیر کی تاریخ کے اوراق چھلنی ہیں۔

    متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ پیدا ہونے والے حالات کا اثر انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر پڑا۔ ہجرت کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو مذہب اور قومیت کے نام پر خوب لہو بھی بہا جس نے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ نظم ہو یا نثر، ناول ہو، یا افسانہ، تقسیم اور فسادات پر لکھنے کا سلسلہ چل نکلا۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، حیات اللہ انصاری، قرۃالعین حیدر، رام لعل، خواجہ احمد عباس، احمد ندیم قاسمی اور کئی ادیبوں نے اس تقسیم اور عظیم ہجرت سے جڑے واقعات اور مسائل پر کہانیاں لکھیں۔ یہاں ہم ایسے ہی چند مشہور افسانوں کے مصنّفین اور ان کی تخلیق کا چند سطری تعارف پیش کررہے ہیں جنھیں آپ انٹرنیٹ کی مدد سے پڑھ سکتے ہیں۔

    ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘
    مشہور افسانوں‌ کے خالق، نام ور ادیب اور فلمی کہانی کار سعادت حسن منٹو کا یہ افسانہ نقل مکانی یا ہجرت کے کرب کو بیان کرتا ہے۔ مصنّف نے بتایا ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد جہاں ہر چیز کا تبادلہ اور منتقلی عمل میں لائی جارہی تھی اور نئی نئی بنائی گئی سرحدوں کے اطراف قیدیوں اور پاگلوں کی بھی منتقلی کا منصوبہ بنایا گیا تو ایک پاگل انسان پر کیا بیتی۔ یہ کردار فضل دین پاگل کا تھا جسے صرف اس بات سے سروکار ہے کہ اُسے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ سے یعنی اس کی جگہ سے دور نہ کیا جائے۔ وہ جگہ خواہ ہندوستان میں ہو یا پاکستان میں، اسے اس سے غرض نہیں‌ تھی۔ جب اُسے جبراً وہاں سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ ایک ایسی جگہ جم کر کھڑا ہو جاتا ہے جو نہ ہندوستان کا حصّہ ہے اور نہ پاکستان کا۔ اور اچانک وہ اسی جگہ پر ایک فلک شگاف چیخ کے ساتھ اوندھے منھ گر جاتا ہے۔ وہ مَر چکا ہوتا ہے۔

    ‘لاجونتی’
    راجندر سنگھ بیدی نے اپنے اس افسانے کو اس کے مرکزی کردار کا نام ہی دیا ہے۔ یہ عورت یعنی لاجونتی خلوص کے ساتھ سندر لال کو اپنا سب کچھ مانتی ہے اور اس سے بڑی محبت کرتی ہے۔ سندر لال بھی لاجونتی پر جان چھڑکتا ہے، لیکن تقسیم کے وقت کچھ مسلمان نوجوان لاجونتی کو اپنے ساتھ پاکستان لے جاتے ہیں۔ پھر کہانی میں وہ موڑ آتا ہے جب مہاجرین کی ادلا بدلی شروع ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں لاجونتی پھر سندر لال تک پہنچ جاتی ہے، لیکن اب وہ سندر لال جو اس پر جان چھڑکتا تھا، اس پر شک کرتا ہے اور اس کا لاجونتی کے ساتھ رویہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ اس عورت کو کچھ سمجھ نہیں‌ آتا۔ سندر لال کے رویے سے اس کی وفاداری اور پاکیزگی خود اس کے لیے سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔

    ‘ماں بیٹا’
    حیات اللہ انصاری اردو افسانہ کا اہم نام ہیں اور اپنے اسلوب کے باعث پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے افسانہ میں‌ مذہبی انتہا پسندی سے پریشان ایک ہندو بیٹے اور مسلمان ماں کو دکھایا ہے جو بالکل الگ تھے۔ ان کا ماحول، معاشرہ جدا تھا اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے مذہب سے سخت بیزار اور نفرت کرنے والے تھے۔ مگر تقسیم کے موقع پر ان کا دکھ ایک ہی تھا۔ لاکھوں لوگوں کی طرح برسوں سے ایک جگہ بسے ہوئے یہ دونوں بھی بالکل اجڑ گئے تھے۔ ان کا مذہب اور رسم و رواج، تہوار اور خاندان تو بالکل الگ تھے، مگر ان کے اجڑنے کی کہانی ایک جیسی تھی۔ پھر اتفاق سے جب وہ ملتے ہیں تو ایک دوسرے کی کہانی سنتے ہیں اور پھر ان کی سوچ بدل جاتی ہے۔

    ‘جلاوطن’
    قرۃ العین حیدر نے اس میں مشترکہ تہذیب کے بکھرنے کو بیان کیا ہے۔ یہ اس مشترکہ تہذیب کی کہانی ہے جس نے برصغیر میں بسنے والوں کے صدیوں کے میل جول سے جنم لیا اور ان کے درمیان یک جہتی کی علامت تھی۔ اس کہانی میں مصنّفہ نے رشتوں کے بکھرنے، خاندانوں کی جدائی اور انسانی قدروں کے پامال ہونے کے المیے کو پیش کیا گیا ہے۔ تقسیم کے بعد جس طرح رشتوں کا بھی بٹوارہ ہوا اور ایک ہی گھر کے باپ بیٹا سرحدوں کے اطراف میں بٹ کر کیسے کرب سے اور کن مسائل سے دوچار ہوئے، یہ سب اس کہانی میں‌ پڑھا جاسکتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی داستان ہے جو بٹوارہ نہیں چاہتے تھے اور اپنا گھر بار چھوڑنا ان کے لیے آسان نہ تھا۔ بیٹے کی پاکستان ہجرت دوسری طرف بھارت کے شہری بن جانے والے اس کے خاندان کو اپنے ہی وطن میں مشکوک بنا دیتی ہے۔ جوان اولاد کی جدائی کا غم تو مارے ہی دے رہا تھا، اس پر اپنی ہی پولیس کی تفتیش بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔

    ‘نصیب جلی’
    رام لعل کا یہ افسانہ تقسیم کے بعد ایک مسلمان اور سکھ کی محض دو سالہ دوستی اور ایک موقع پر ان کے امتحان کی خوب صورت تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ انسانیت کے عظیم جذبے کی کہانی ہے جس میں‌ مذہب کی تفریق حائل نہیں‌ ہوتی۔ یہ دو کردار موتا سنگھ اور غلام سرور کی کہانی ہے جو امرتسر میں ایک ہی ورکشاپ میں کام کرتے تھے۔ وہ اسی ورکشاپ کے قریب ایک بیرک میں پڑوسی کی حیثیت سے رہتے تھے۔

    سکھ اکثریت والے علاقے میں جب فسادات شروع ہوئے تو غلام سرور کو جان کے لالے پڑ گئے۔ وہ اپنی جان بچانے کے لیے دیواریں پھلانگتا ہوا کسی طرح موتا سنگھ کے آنگن میں کود جاتا ہے۔ موتا سنگھ کے کئی عزیز بھی عین تقسیم کے موقع پر مسلمانوں‌ کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور وہ چاہتا تو اس موقع پر ایک مسلمان کو قتل کرکے بدلہ لے بھی سکتا تھا۔ لیکن جب بھیڑ چیختی ہوئی موتا سنگھ کے دروازے پر پہنچی، تب اس نے اپنے دوست اور ایک انسان کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔ موتا سنگھ اسے گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے گیا جہاں ایک پلنگ پر اپنی بیوی کے ساتھ لٹا کر ان کے اوپر رضائی ڈال دی۔

    اس نے کہا، دونوں لیٹے رہو سیدھے، ایک دوسرے کے ساتھ بالکل لگ کر۔ کسی کو شک نہ ہو کہ دو سوئے ہوئے ہیں۔ ادھر فسادی گھر میں‌ داخل ہوجاتے ہیں اور گھر میں غلام سرور کا سراغ نہ پا کر واپس نکل جاتے ہیں۔

  • جشنِ آزادی: جیوے، جیوے پاکستان اور جمیل الدّین عالی

    جشنِ آزادی: جیوے، جیوے پاکستان اور جمیل الدّین عالی

    جیوے جیوے پاکستان ایک ایسا ملّی نغمہ ہے جسے پانچ سال کا بچّہ اور زندگی کی 70 دہائیاں دیکھ لینے والا کوئی بزرگ بھی جھومتے ہوئے، سرخوشی کے عالم میں اور احساسِ مسّرت میں ڈوب کر ایک ہی ردھم میں خوبی سے گنگنا سکتا ہے۔

    یہ لازوال نغمہ جمیل الدّین عالی کا لکھا ہوا ہے۔ آج جشنِ آزادی پر ہم ان کا یہ نغمہ ہی نہیں ’ہم تا ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں، اے وطن کے سجیلے جوانو، جو نام وہی پہچان، پاکستان، پاکستان، اتنے بڑے جیون ساگر میں تُو نے پاکستان دیا، بھی سن رہے ہیں اور عالی جی کو بھی یاد کررہے ہیں۔

    جیوے جیوے پاکستان کو دوسرا قومی ترانہ اس ملّی نغمے کی عوامی مقبولیت کے پیشِ نظر کہا جاتا ہے۔ عالی جی نے وطنِ عزیز کے لیے جو نغمات لکھے وہ لازوال ثابت ہوئے۔ ان کے نغمات کو الن فقیر نے مخصوص انداز میں گایا گیا اور نصرت فتح علی خان کی منفرد گائیکی میں بھی محبت امن ہے اور اس کا ہے پیغام پاکستان کو بھی بہت سنا اور پسند کیا گیا۔

    جمیل الدین عالی، جنھیں عالی جی کہا جاتا تھا، ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد تھا جنھوں نے حبُ الوطنی، اپنی زبان اور ثقافت کی محبّت کو اپنے نغمات کے ذریعے ہمارے دلوں میں اتارا اور ایسی ملّی شاعری کی جو زبان زدِ عام ہو گئی۔

  • یکم جولائی 1948ء: جب شاہانہ انداز میں بگھی میں سوار قائدِ اعظم ایک غیرمعمولی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے!

    یکم جولائی 1948ء: جب شاہانہ انداز میں بگھی میں سوار قائدِ اعظم ایک غیرمعمولی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے!

    29 جون 1948ء کو صبح، دس بجے کا وقت تھا جب قائدِ اعظم کا طیّارہ ماری پور کے ہوائی اڈّے پر اترا۔ وہ کوئٹہ سے جس مقصد کے لیے کراچی آئے تھے، وہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل تھا۔

    ہوائی اڈّے پر وزیرِ اعظم پاکستان، کابینہ کے وزرا سمیت اعلیٰ حکومتی عہدے داروں نے ان کا استقبال کیا۔ دراصل بانیِ پاکستان کو ایک افتتاحی تقریب میں‌ شرکت کرنا تھا۔ یہ تقریب ایک منتظم اور سربراہِ مملکت کی حیثیت سے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے قائد کے منصوبے کی تکمیل کے لیے منعقد کی جارہی تھی۔

    یکم جولائی کو منعقدہ اس تقریب میں شرکت کے لیے قائدِ اعظم گورنر جنرل ہائوس سے ایک بگھی میں سوار ہوکر پہنچے تھے۔ اس بگھی کے آگے چھے گھوڑے جتے ہوئے تھے جن کے ساتھ شوخ سرخ رنگ کی وردیوں میں ملبوس محافظ دستہ اور مستعدینِ رکاب نظر آتے تھے۔

    قائدِ اعظم نہایت باوقار اور شاہانہ انداز میں اپنی منزل تک پہنچے۔ دنیا نے دیکھا کہ عزم و ہمّت کے پیکر، پختہ ارادے کے ارادے کے مالک محمد علی جناح کی مدبّرانہ قیادت، فہم و فراست اور دور اندیشی نے اس روز پاکستان کی آزاد معیشت کے خواب کو عملی شکل دی اور اسٹیٹ بینک کی عمارت کا افتتاح کیا۔

    قیامِ پاکستان کے فوراً بعد قائدِ اعظم اور حکومت نے جن بے شمار انتظامی مسائل سے نمٹنے کے لیے دن رات ایک کردیا تھا، ان میں ایک بڑا مسئلہ بینکاری بھی تھا۔ تاہم تقسیم کے فوراً بعد ہی قائدِاعظم کی ہدایت پر قومی مالیاتی ادارے کے قیام کی منصوبہ بندی شروع کردی گئی تھی اور 10 مئی 1948ء کو قائدِ اعظم نے سربراہِ مملکت کے طور پر اسٹیٹ بنک آف پاکستان کو افتتاح کے ساتھ ہی فعال و کار گزار بنانے کا حکم جاری کیا اور یکم جولائی کو نئی مملکت کی آزاد معیشت کی داغ بیل ڈال دی گئی۔

    اس عظیم الشّان اور اہم و یادگار تقریب کے موقع بانی پاکستان نے کراچی میں‌ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے تاریخی تقریر فرمائی، اس تقریب میں مسلم ممالک کے نمائندے، دولتِ مشترکہ کے ارکان، امریکا اور روس کے سفیر اور متعدد ممالک کے صنعت و تجارت سے وابستہ اراکین بھی موجود تھے۔

    قائدِ اعظم نے اپنی تقریر میں پاکستانی معیشت کے لیے اسلامی پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنے اور ایسے معاشرے کے قیام میں مددگار بننے پر زور دیا جو سب کے لیے سود مند ثابت ہو اور ایک مثالی اقتصادی نظام پیش کرے۔