Tag: جشن آزادی

  • 1947ء: اسلامی دنیا کا قیامِ‌ پاکستان پر مسرّت کا اظہار، تہنیتی پیغامات

    1947ء: اسلامی دنیا کا قیامِ‌ پاکستان پر مسرّت کا اظہار، تہنیتی پیغامات

    تقسیمِ ہند سے قبل دنیا نے عالمی جنگیں بھی دیکھیں، ممالک نے مختلف تنازعات، سیاسی انتشار، ریاستی سطح پر عدم استحکام اور خانہ جنگی اور قدرتی آفات کا سامنا بھی کیا اور مختلف برسوں کے دوران عرب خطّہ، انڈونیشیا، فلسطین، مصر، افریقا کے ممالک، ترکی اور ایشیا میں آباد مسلمان بھی ایسے حالات اور واقعات سے متاثر ہوئے۔

    قیامِ پاکستان سے قبل مسلمانانِ ہند کے سیاسی و سماجی راہ اور مذہبی قائدین دنیا کے کسی بھی خطّے سے بلند ہونے والی تحریک اور مصیبت میں ان کا ساتھ دیتے دیتے تھے۔ خصوصاً ہر اس تحریک پر ہندوستان سے حمایت میں ضرور آواز بلند کی جاتی تھی جس کا تعلق مسلمانوں کے حقوق سے ہوتا تھا۔

    تاریخی طور پر اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ بانیانِ پاکستان نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں بلکہ فلسطین، انڈونیشیا اور دنیا کے ہر کونے میں سامراج کی غلامی میں جکڑے ہوئے اور مظلوم طبقات کے حق کی بات کی اور ان کے لیے آواز بلند کی۔ یہی سبب تھا کہ قیامِ پاکستان کے اعلان کے بعد اسلامی دنیا کی جانب سے نہایت والہانہ انداز میں‌ خوشی اور مسّرت کا اظہار کیا گیا اور نہایت قریبی اور برادرانہ تعلقات کی بنیاد رکھی گئی۔

    نوزائیدہ مملکت کی قیادت اور عوام کے لیے بھی خیرمقدم کا یہ سلسلہ جہاں نہایت پُرمسرّت اور روح افزا تھا، وہیں سفارت کاری اور بین الاقوامی سطح پر تعلقات کے قیام و فروغ کے حوالے سے بھی مددگار ثابت ہوا۔

    یہاں ہم ایسے چند اسلامی ممالک اور ان کی قیادت کا تذکرہ کررہے ہیں جنھوں نے نہ صرف دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی نئی اسلامی ریاست کو سب سے پہلے تسلیم کیا بلکہ سفارتی تعلقات قائم کرکے اسے مضبوط شناخت دی۔

    1947ء میں جب آزاد اسلامی ریاست پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بین الاقوامی برادری بالخصوص اسلامی دنیا سے سربراہانِ مملکت اور عوام نے قائد اعظم محمد علی جناح اور عوام کے نام تہنیتی پیغامات بھیجے اور پاکستانی قیادت کو اپنے ملک کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔

    اسلامی دنیا کی طرف سے بانی پاکستان اور ملک کے عوام کو ہدیہ تبریک پیش کرنے والوں میں شاہِ ایران، شاہِ یمن، ترکی کی اعلیٰ قیادت اور عوام، شاہِ شرق اردن، لبنان کے صدر، تنزانیہ کی قیادت، انڈونیشیا کے وزیرِ اعظم، لیبیا، تیونس، مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی، سعودی عرب کے شہزادہ فیصل و شاہ عبد العزیز و دیگر شامل تھے۔

    قیام پاکستان پر اسلامی دنیا نے برصغیر میں اس نئی مسلم ریاست کا شایانِ‌ شان اور مثالی خیر مقدم کیا۔

    قیام پاکستان سے قبل سعودی عرب کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ مسلمانانِ ہند کا بیتُ اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی نسبت اس خطّے اور اس کے باشندوں سے ہمیشہ عقیدت اور محبّت کا رشتہ رہا ہے جو بعد میں مزید مضبوط ہوا اور سفارتی سطح پر اس تعلق کی بنیادیں استوار کی گئیں۔

    سعودی عرب، آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو تسلیم کرنے والے اوّلین ممالک میں شامل تھا۔

    اس وقت سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ نے قائدِاعظم محمد علی جناح کے نام پیغامِ تہنیت بھیجا اور عوام کو مبارک باد دی۔

    ہمارے ہمسایہ اسلامی جمہوریہ ایران نے آزادی کے اعلان کے فوراً بعد پاکستان کو بطور آزاد اور خودمختار ریاست سب سے پہلے تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کیے۔

    مسلمانانِ ہند اور ترکی کے عوام پاکستان کے قیام سے قبل خلافتِ عثمانیہ کی وجہ سے ایک دوسرے سے قلبی اور برادرانہ تعلق میں بندھے ہوئے تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران ترکی کے اخبارات میں مسلمانانِ ہند کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تھی اور ان کی جدوجہد کو خاص طور پر نمایاں کیا جاتا تھا۔ ترکی نے بھی پاکستان کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک فیروز خان نون نے حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے ترکی، شام، شرقِ اردن، سعودی عرب، لبنان اور بحرین کا دورہ کیا تھا۔

  • تحریکِ آزادی: مولوی فضل الحق کا تذکرہ جنھیں شیرِ بنگال بھی کہا جاتا ہے

    تحریکِ آزادی: مولوی فضل الحق کا تذکرہ جنھیں شیرِ بنگال بھی کہا جاتا ہے

    23 مارچ 1940ء کو قرار دادِ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق کو شیرِ بنگال کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے عظیم راہ نما تھے جنھوں نے آزادی کی تحریک میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا۔

    وطنِ عزیز میں جشنَ‌ آزادی کی تیّاریاں عروج پر ہیں اور زندہ قوموں کی طرح اس موقع پر ہم اپنے ان عظیم راہ نماؤں کو یاد کررہے ہیں جنھوں نے آزادی کے راستے میں جان و مال اور ہر قسم کی قربانی دی۔ ابو القاسم فضل الحق جو تاریخ میں اے۔ کے۔ فضل الحق کے نام سے بھی معروف ہیں، 26 اکتوبر 1873ء کو متحدہ بنگال میں پیدا ہوئے۔

    پریزیڈنسی کالج کلکتہ سے گریجویشن کیا اور اس کے بعد کلکتہ یونی ورسٹی سے ریاضی میں ایم اے کی ڈگری لی۔ انھوں نے پہلے 1917ء میں بحیثیت جوائنٹ سیکریٹری کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ بعدازاں نظریاتی اختلافات کے باعث کانگریس سے استعفا دے دیا اور مسلم لیگ میں شامل ہوگئے جو مسلمانوں کی واحد سیاسی نمائندہ جماعت بن کر ابھری تھی۔

    مولوی فضل الحق 1935ء میں کلکتہ کے مئیر رہے، 1937ء سے 1943ء تک مغربی بنگال کے وزیر اعلی منتخب ہوئے۔ انھیں سیاسی حکومتی امور کا خاصا تجربہ تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1954ء میں مشرقی بنگال کے وزیر اعلٰی بنے۔

    انھوں نے بنگال کے کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ’’کراشک پرجا پارٹی‘‘ قائم کی، جو بعدازاں ایک سیاسی جماعت بن گئی۔

    قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد جب اس کی تنظیم نو کی تو مولوی فضل الحق اس سے منسلک ہوگئے۔ انھوں نے تاریخی قرارداد پیش کرنے کے موقع پر اہم کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے انھیں شیرِ بنگال کا خطاب دیا گیا۔

    مولوی فضل الحق 27 اپریل 1962ء کو ڈھاکا میں وفات پاگئے تھے۔

  • 10 اگست 1947ء: کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس

    10 اگست 1947ء: کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس

    ہندوستان میں مسلمانوں کی تحریکِ آزادی کی طویل جدوجہد کے دوران کئی تاریخ ساز موڑ اور یادگار لمحات آئے جن کا تذکرہ عظیم اور لازوال قربانیوں کی یاد دلاتے ہوئے حصولِ پاکستان کی داستان کو مکمل کرتا ہے۔ آج ایک ایسا ہی تاریخی دن ہے جب 1947ء میں کراچی میں سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔

    اس تاریخی اجلاس کی صدارت وزیرِ قانون جوگندر ناتھ منڈل نے کی اور اجلاس کی کارروائی کا آغاز مولانا شبیر احمد عثمانی نے تلاوتِ قرآن کریم سے کیا تھا۔ 14 اگست 1947ء تک جاری رہنے والے اس اجلاس کی کارروائی میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔

    10 اگست سے شروع ہونے والے اجلاس میں مشرقی بنگال کے 44، پنجاب کے 17، سرحد کے 3، بلوچستان کے ایک اور صوبہ سندھ کے 4 نمائندے شریک تھے جنھوں نے قائدِاعظم محمد علی جناح کو اسمبلی کا پہلا صدر اور مولوی تمیز الدین کو پہلا اسپیکر منتخب کیا۔

    اجلاس میں طے پایا کہ جب تک پاکستان کا مستقل آئین تیار نہیں ہوتا اس وقت تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو بعض ترامیم کے ساتھ پاکستان کے آئین کی شکل دی جائے۔

    پاکستان کی یہ پہلی دستور ساز اسمبلی 24 اکتوبر 1954ء تک قائم رہی۔

  • جشن آزادی پر پی آئی اے کا خصوصی ڈسکاؤنٹ کا اعلان

    جشن آزادی پر پی آئی اے کا خصوصی ڈسکاؤنٹ کا اعلان

    کراچی: پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) نے جشن آزادی کے موقع پر اندرون ملک پروازوں پر 14 فیصد رعایت کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) نے جشن آزادی کے موقع پر خصوصی ڈسکاؤنٹ کا اعلان کیا ہے، جشن آزادی کے موقع پر اندرون ملک پروازوں پر 14 فیصد ڈسکاؤنٹ کی پیشکش کی گئی ہے۔

    ترجمان پی آئی اے کا کہنا ہے کہ مذکورہ پیشکش 14 تا 16 اگست تک سفر کرنے پر محدود رہے گی، ٹکٹس فوری فروخت کے لیے دستیاب ہیں۔

    خیال رہے کہ قومی ایئر لائن اس سے قبل عاشورہ پر عراق کے لیے خصوصی پروازیں چلانے کا اعلان کرچکی ہے، زائرین کی سہولت کے لیے دارالحکومت اسلام آباد، لاہور اور کراچی سے نجف کے لیے براہ راست ‏پروازیں چلائی جائیں گی۔

    پی آئی اے کی 11 اگست سے 11 پروازیں زائرین کو لے کر نجف پہنچیں گی اور زائرین کی ‏واپسی کا آپریشن 21 اگست سے ترتیب دیا جائے گا۔

  • 1906: نواب سلیم اللہ خان اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

    1906: نواب سلیم اللہ خان اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

    ہندوستان میں جب مسلمان سیاسی و مذہبی راہ نماؤں علیحدہ وطن کے حصول کو ناگزیر اور اسلامیانِ ہند کی سیاسی میدان میں مؤثر اور منظّم طریقے سے ترجمانی کی ضرورت محسوس کی تو آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریکِ‌ آزادی کے متوالے اسی مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہوئے اور برصغیر کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔

    آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام 1906ء میں ڈھاكہ میں عمل میں آیا تھا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے اختتام پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خان كی دعوت پر خصوصی اجلاس میں شركت كی جس میں مسلمانوں كی سیاسی راہ نمائی كے لیے ایک جماعت تشكیل دینے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا۔

    بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقارُ الملك نے كی جس میں نواب محسن الملك٬ مولانا محمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خان سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین موجود تھے۔

    سَر نواب سلیم اللہ خان جن کی رہائش گاہ پر اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور دیگر اکابرین نے اس بات کا اعلان کیا کہ مسلم لیگ کے ذریعے مسلمانوں کے لیے مذہب میں آزادی اور سیاسی و مالی حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے گی۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھے، مناسب تعلقات کو اہمیت دی جائے گی اور یہ واضح ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اور فوائد کے لیے یہ جماعت تشکیل دی گئی ہے۔ مسلمانانِ ہند کا یہ اجتماع یا میٹنگ 30 دسمبر1906 ء کو ہوئی تھی جس کے ساتھ ہی ایک دو رکنی کمیٹی نواب وقار الملک اور نواب محسن الملک پر تشکیل دی گئی جنھیں مسلم لیگ کا آئین تیار کرنے کا کام سونپا گیا اور اس حوالے سے خدوخال اور وضاحت و تفصیل کو تحریری شکل دینے کے لیے بعد میں مزید اکابرین کو کام تفویض کیا گیا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کے عہدے داروں کا انتخاب مارچ 1908 ء میں لکھنؤ میں عمل میں آیا اور اس وقت تک مزید صلاح و مشورے اور تجاویز کی روشنی میں لیگ کو برطانوی ہند میں انگریز حکومت اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، معاشی ترقی اور حقوق کے تحفظ کی مؤثر تنظیم کے طور پیش کیا گیا جو آگے چل کر تشکیل و قیامِ پاکستان کا ذریعہ بنی۔

    نواب سلیم اللہ خان عین عالمِ شباب میں 16 جنوری 1915ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کے مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی شناخت اور مؤثر نمائندگی کے ضمن میں کردار کو اور مسلم لیگ کے لیے دیگر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • تحریکِ‌ آزادی: راغب احسن وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے گھنٹوں مشاورت کی

    تحریکِ‌ آزادی: راغب احسن وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے گھنٹوں مشاورت کی

    برطانوی ہندوستان میں اپنی سیاست کا آغاز تحریکِ خلافت سے کرنے والی شخصیات میں علّامہ راغب احسن بھی شامل ہیں جنھوں نے خلافت کمیٹی میں فعال و متحرک کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے جیل بھی گئے۔

    بعد میں‌ اسی مردِ مجاہد نے تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے محمد علی جناح کی قیادت میں اپنا کردار ادا کیا۔

    علّامہ کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے میں 1905ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کلکتہ میں محکمۂ ڈاک میں معمولی ملازم تھے۔ راغب احسن نے کلکتہ میں تعلیم پائی۔ خلافت کمیٹی میں شمولیت کے بعد جب ایک موقع پر جیل گئے تو انھیں کلکتہ کارپوریشن کے اس وقت کے میئر محمد عثمان سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہاں ان دونوں نے عہد کیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور انگریز کی ملازمت کرنے کے بجائے اس کے خلاف جہاد کریں گے اور رہائی کے بعد انھوں نے ایسا ہی کیا۔ ایم اے کی ڈگری لی اور اس کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔

    علّامہ راغب ” اسٹار آف انڈیا ” سے منسلک ہوگئے اور مولانا محمد علی جوہر کے اخبار ” کامریڈ ” کے اعزازی مدیر بھی بن گئے۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحبت نے علامہ راغب احسن میں ایسا زورِ قلم پیدا کیا کہ بعد از وفاتِ محمد علی جوہر انھیں صحافت اور قلم کی دنیا میں محمد علی ثانی کہا جانے لگا۔

    علّامہ راغب احسن نے 1931ء میں ” آل انڈیا یوتھ لیگ ” کی بنیاد رکھی اور اسی دوران ” میثاق فکر اسلامیت و استقلالِ ملّت ” کے نام سے ایک فکر انگیز دستاویز مسلمانوں کے حقوق کے لیے مرتب کی۔ 1936ء میں راغب احسن نے کلکتہ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اس کی تنظیم سازی میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا۔

    ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جو مسئلہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان متنازع فیہ تسلیم کیا گیا وہ طرزِ انتخاب تھا۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مسلم راہ نما مثلاً حکیم اجمل خاں، سر علی امام، حسن امام ، بیرسٹر مظہر الحق، محمد علی جناح، حسرت موہانی، ڈاکٹر انصاری، مولانا ظفر علی خان، چودھری خلیق الزماں، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہم متحدہ طرزِ انتخاب کو ہندوستان کے سیاسی نظام کے لیے بہتر سمجھتے تھے جب کہ مسلم کانفرنس کے اراکین و عہدے داران ہمیشہ جداگانہ طرزِ انتخاب کے حامی رہے۔ ان میں محمد شفیع، علامہ محمد اقبال کے ساتھ علّامہ راغب احسن بھی شامل ہیں۔

    جداگانہ طرزِ انتخاب پر علّامہ راغب احسن نے کئی تحاریر سپردِ قلم کیں اور مضامین کے انبار لگا دیے جن کا مقصد اس حوالے سے شعور بیدار کرنا اور اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنا تھا۔

    علّامہ راغب احسن کا نام و مقام اور ان کے تحریکِ آزادی میں کردار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح 1935ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلّی میں تین اہم شخصیات نے گھنٹوں ایک کمرے میں بیٹھ کر وطن اور مسلمانوں کے حالات اور مستقبل پر بات چیت کی تھی اور یہ تین قائدین محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال اور راغب احسن تھے۔

    راغب احسن نے علّامہ اقبال کی درخواست پر آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم میں بھر پور حصہ لیا اور اسے مستحکم بنایا۔

  • تحریکِ‌ آزادی:  آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    تحریکِ‌ آزادی: آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    انگلستان سے وطن واپس آکر کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرنے والے محمد علی جناح خود مسلم ہندو اتحاد کے بڑے حامی تھے۔

    اپنے سیاسی سفر کے ابتدائی دور میں وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ مسلم علما اور اکابرین کو انگریزوں سے آزادی اور متحدہ ہندوستان کے قیام کے لیے قائل کرلیں، لیکن دوسری طرف ان پر جلد ہی واضح ہو گیا کہ ہندو کسی بھی طرح مسلمانوں کو ان کا جائز حق، سیاسی اور مذہبی آزادی نہیں‌ دیں گے بلکہ انھیں اپنا محکوم و غلام بنانا چاہتے ہیں اور پھر انھوں نے کانگریس کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔

    ملک میں ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ جاری تھا اور 1920ء کے بعد اس میں تیزی آئی جس نے ثابت کیا کہ اس سرزمین پر دو قوموں کا اکٹھے رہنا ممکن نہیں ہے اور ہندو قیادت اور تمام راہ نما ایسے واقعات میں ملوث انتہا پسندوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اس سے قبل ہی 1916ء میں محمد علی جناح کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا اور جب انھیں یہ یقین ہوگیا کہ دو قومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر علیحدہ وطن کی جدوجہد تیز کرنا ہوگی، تو وہ اس پلیٹ فارم سے فعال ہوگئے۔

    قائدِ اعظم کا تحریکِ آزادی کے قافلے کی قیادت سنبھالنا تھاکہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک جوش و ولولے کی گویا ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ اپنے قافلے میں شامل ساتھیوں کی مدد سے آپ نے نظریۂ پاکستان کی ترویج کی اور سیاسی میدان میں پاکستان کے حصول کا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑا۔

    دراصل اس وقت کی تحریکِ خلافت کے بعد ملک میں فسادات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، ان سے واضح ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا جارہا ہے اور اسے محض جذباتی تقاریر اور امتداد زمانہ سے رفع نہیں کیا جاسکے گا۔ اسی دوران نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو دلبرداشتہ کردیا اور اس کے ردِعمل میں 1929ء میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی، جس میں قائدِاعظم نے 14 نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوؤں نے نہ صرف رد کردیا بلکہ قائدِ اعظم پر مزید طعن و تشنیع کی گئی۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنے پیش کردہ 14 نکات میں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مستقبل کے ہندوستان میں سیاست اور معاشی ترقی کے میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا اور برابری کی بنیاد پر سیاسی اور سماجی طور پر آزادی کا سفر شروع ہو گا۔

    بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے وہ نکات درج ذیل ہیں۔

    1- ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی طرز کا ہو گا۔

    2- تمام صوبوں کو برابری کی سطح پر مساوی خود مختاری حاصل ہو گی۔

    3- ملک کی تمام مجالسِ قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبے میں اقلیت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبے میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تبدیل نہ کیا جائے۔

    4- مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو۔

    5- ہر فرقے کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔

    6- صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی اسکیم عمل میں نہ لائی جائے، جس کے ذریعے صوبہ سرحد، صوبہ پنجاب اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو۔

    7- ہر قوم و ملّت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔

    8- مجالسِ قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو، جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں۔

    9- سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنایا جائے۔

    10- صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔

    11- سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔

    12- آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔

    13- کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے، جس میں ایک تہائی وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔

    14- ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔

  • تقسیمِ‌ ہند: ’’مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا‘‘

    تقسیمِ‌ ہند: ’’مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا‘‘

    بیگم شائستہ اکرام اللہ معروف مصنف اور سفارت کار تھیں۔ انھوں نے تحریکِ پاکستان میں فعال حصّہ لیا۔

    ان کا وطن کوکلکتہ تھا جہاں وہ حسان سہروری کے گھر میں پیدا ہوئیں جو برطانوی وزیرِ ہند کے مشیر تھے۔ 1932ء میں ان کی شادی جناب اکرام اللہ سے ہوئی جو قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔ وہ تقسیم سے قبل بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔

    انھوں نے تقسیمِ ہند کے واقعات اور اپنی اس زمانے کی یادوں کو بھی تحریری شکل دی تھی جن میں کئی حقائق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے جذباتی پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم یقینی نظر آنے لگی تھی تو اس وقت مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کا خیال تھا کہ دلّی اور مسلم کلچر تو ایک ہی حقیقت ہیں۔ دلّی کے بغیر پاکستان ایسے ہوگا جیسے دل کے بغیر جسم۔

    انھوں نے کتاب میں‌ لکھا، ’’مسلم فنِ تعمیر سے بھرے پُرے شہر دلّی کو اس وقت کوئی بھی دیکھتا تو یہی کہتا کہ یہ تو مسلمانوں کا شہر ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ مسلم ثقافت اگرچہ دلّی کے چپے چپے سے چھلک رہی ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں، لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں تھا، مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا، مگر پنجاب کو تقسیم کر کے ہماری مجموعی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا اور یوں ہم دلّی ہار گئے اور آج دلّی کی مسجدیں غرناطہ اور قرطبہ کی طرح یہ کہ رہی ہیں کہ جن عرب وارثوں نے ہمیں تخلیق کیا تھا ہم ان کی عظمتَ رفتہ کی یاد دلانے والی علامتیں ہیں۔‘‘

    (پروفیسر مشیر الحسن کی کتاب ’’منقسم قوم کی وراثت‘‘ سے خوشہ چینی)

  • تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

    تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

    تحریکِ پاکستان کو کام یابی سے ہم کنار کرنے میں مشائخِ عظام و علمائے کرام کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

    تاریخ گواہ ہے کہ برِّصغیر کے علما اور مختلف خانقاہوں سے وابستہ مشائخِ عظام نے قائدِاعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی کوششوں اور ان کے حقیقی کردار کی بدولت ہندوستان کے بطن سے ایک آزاد اور اسلامی ریاست نے جنم لیا۔

    مفکّرِ پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے برّصغیر کے مسلمانوں کے لیے جس آزاد اسلامی اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، اسے شرمندہ تعبیر کرنے کا سہرا بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کے سَر ہے۔

    تحریکِ پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں نے بے شمار اور ناقابلِ فراموش قربانیاں پیش کیں اور اس تحریک میں علمائے کرام کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ یہ علما اور صوفی بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو تھے۔ یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والے چند علمائے کرام کا تذکرہ کررہے ہیں۔

    پیر جماعت علی شاہ: آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ و مشاورت میں پیش پیش رہے۔ آپ مسلم لیگ اور قائدِاعظمؒ پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ وائسرائے ہند کے نام تار میں آپ نے فرمایا ’’مسلم لیگ‘‘ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور قائدِاعظم محمد علی جناح اسلامیانِ ہند کے واحد لیڈر ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی نام زدگی مسلم لیگ اور قائدِاعظم کا کام ہے۔ طول و عرضِ ہندوستان میں میرے لاکھوں مرید مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔

    مولانا عبدالحق بدایونی: تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل مولانا صاحب نے لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کی بھرپور تائید کی اور اپنے رفقا سمیت قراردادِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانوی ہند میں انتخابات کے موقع پر آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے یو پی، بہار،اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا اس میں مولانا بدایونی شامل تھے۔

    شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی: تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والوں میں ایک نام شاہ صاحب کا بھی ہے جنھوں نے قائدِاعظم سے کئی ملاقاتیں کیں جس میں اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے دنیا بھر میں اہم شخصیات اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالے سے تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں پر مفید بات چیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے کہنے پر آپ نے اپنے بیرونِ ممالک اپنے دوروں میں عالمی راہ نماؤں کو پاکستان کے قیام کی کوششوں کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

    علّامہ سید احمد سعید کاظمی: ہندوستان کے علما میں ایک نام کاظمی صاحب کا ہے جنھوں نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جس میں لاکھوں لوگ اور ہزاروں علمائے کرام شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت یقینی بنائی اور کانفرنس میں تشریف لائے جس سے اس وقت ہند بھر میں ان کے ماننے والوں تک بھی تحریکِ پاکستان کا مقصد پہنچا اور اسے تقویت ملی۔ 27 اپریل 1946ء کو منعقدہ آل انڈیا سنی کانفرنس کو جدوجہدِ آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

    مجاہدِ ملّت مولانا عبدالستار خان نیازی: مولانا نیازی نے علامہ محمد اقبال کے حکم پر ’’مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک پاکستان کے لیے بہت کام کیا۔ آپ کی بانی پاکستان کے ساتھ خط و کتابت اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ قائدِاعظم نے آپ کے لیے فرمایا ’’جس قوم کے پاس نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان بنانے سے کون روک سکتا ہے۔‘‘

    ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کے قافلے میں یوں تو مجاہدوں، قائداعظم کے جاں نثاروں، مسلم لیگ کے متوالوں اور آزادی کے لیے کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والوں کی قربانیوں، شبانہ روز محنت، کاوشوں اور ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

    ہم نے یہاں فقط چند نام تحریر کیے ہیں جن کے کردار اور کارناموں کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت ہر قسم کی مسلکی تفریق اور تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے پاکستان کے قیام کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا اور قائدِ اعظم کی قیادت اور ان کی ہدایت پر علمائے کرام ملک کے طول و عرض میں اپنے ارادت مندوں کو تحریکِ پاکستان کی کام یابی کے لیے اکٹھا کرنے کے لیے پھیل گئے۔

    پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات و دیگر، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا، مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی نے اپنے مکتبِ فکر کی قیادت کی، ان علمائے کرام نے عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسے، جلوس کے دوران اور عام لوگوں سے ملاقاتیں کرکے ان میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی جس نے تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کیا۔

  • بہادر یار جنگ: اقبال اور قائدِ اعظم کے شیدائی، مسلم لیگ کے عظیم مجاہد کا تذکرہ

    بہادر یار جنگ: اقبال اور قائدِ اعظم کے شیدائی، مسلم لیگ کے عظیم مجاہد کا تذکرہ

    جب قائدِ اعظم نے انگلستان سے لوٹ آنے اور مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کی ذمے داری سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو چند سر بَر آوردہ کارکن ان کی قیادت میں کام کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہوگئے۔ ان کارکنوں میں نواب بہادر یار جنگ ایک نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔

    یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگاکہ نواب صاحب کی اندوہ ناک اور ناوقت موت تک وہ قائدِاعظم کے معتمد اور دستِ راست رہے۔ بہادر یار جنگ نے اپنے قائد کا اعتماد حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا۔ مسلم عوام کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے کی خاطر انھوں نے سارے ہندوستان کے دورے کیے اور اپنی بے مثال خطابت سے مسلم لیگ کو مسلمانانِ ہند کی واحد نمایندہ جماعت بنانے کے سلسلے میں غیر معمولی خدمات انجام دیں۔

    بہادر یار جنگ بجا طورپر ان عظیم مجاہدین میں شمار کیے جا سکتے ہیں جنھوں نے قائدِاعظم کی قیادت میں حصولِ پاکستان کی جنگ لڑی۔

    محمد بہادر خان فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ بہادر خان کی نانی نے جو ایک نہایت سمجھ دار اور مذہبی خاتون تھیں ان کی پرورش کی۔ اٹھارہ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے وقت جاگیر قرضوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ نواب صاحب نے غیر معمولی تدبّر اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی سی مدّت میں قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔

    جاگیر کے حالات سنبھل گئے تو نواب صاحب نے حج بیتُ اﷲ کا عزم کیا۔ حج سے فارغ ہوکر مسلم ممالک کی سیاحت کی، سیّاحت سے واپسی کے بعد خاکسار تحریک سے وابستگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی ریاست کی ایک سیاسی و مذہبی تنظیم مجلسِ اتحادُ المسلمین میں بھی شامل ہوگئے۔

    1944ء میں وہ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی ساری توجہ مجلسِ اتحادُ المسلمین کی طرف مرکوز کردی۔ انھوں نے مجلس میں ایک رضاکار تنظیم قائم کی۔ بہادر یار جنگ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانانِ حیدر آباد(دکن) میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کردیا۔

    بہادر یار جنگ بڑی ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ بڑے ہی مذہبی اور معاملات میں انتہائی صداقت پسند اور کھرے انسان تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے اس کو کہتے اور کر گزرنے میں کسی قسم کی پروا نہ کرتے، وہ دامے، درمے، سخنے ہر ایک کی مدد کے لیے ہر وقت مستعد رہتے۔ قدرت نے بہادر یار جنگ کو ماحول کی پیداوار نہیں بلکہ ماحول کا مصلح بنایا۔ بچپن ہی سے وہ اسلامی جذبے سے سرشار تھے۔ مسلمانوں کی خدمت ان کا نصبُ العین تھا۔ ملّت کی تنظیم ان کا مدعا تھا اور قومی اتحاد ان کا مطمحِ نظر تھا۔ اسی کے پیشِ نظر انھوں نے نوجوانی کے عالم میں میلاد کی محفلوں میں تقریریں شروع کیں۔ مساجد میں وعظ اور جلسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دور میں علامہ اقبالؒ سے بہت متاثر ہوئے۔

    علامہ اقبال کے جذبہ اسلامی کے وہ بڑے پرستار تھے۔ ان کے کلام اور اشعار بر محل پڑھتے تھے۔ اس لگاؤ نے انھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ درسِ اقبالؒ کی محفلیں باقاعدہ منعقد کریں۔ چنانچہ وہ اپنے مکان بیتُ الّامت میں درسِ اقبال کی محفلیں منعقد کرتے تھے جس میں اقبال شناس شخصیتیں موجود ہوتی تھیں۔

    ایک طرف بہادر یار جنگ درسِ اقبال دیا کرتے تھے تو دوسری طرف درسِ قرآن۔ وہ جس طرح اقبال سے متاثر تھے اسی طرح مولانا رومیؒ کے زیر اثر بھی تھے۔ وہ علامہ اقبال ؒ اور مولانا رومیؒ کے تو مرید تھے۔

    بہادر یار جنگ میں دو خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ ان ہی خصوصیات نے انھیں اس مقام پر پہنچایا جو بہت سوں کے لیے باعثِ رشک تھا۔ ایک خصوصیت ان کا بے پناہ خلوص تھا، سیاست ان کے لیے پیشہ ہرگز نہ تھی اور نہ وہ اس کو اپنا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔

    مسلمانوں کے سیاسی عروج اور ان کے اتحاد کے لیے وہ پورے خلوص کے ساتھ زندگی بھر کام کرتے رہے۔ اگر دولت جاہ و منصب ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے تو وہ بڑی خوشی کے ساتھ اور بغیر کسی تامل کے انھیں ٹھکرا دیتے اپنی ساری زندگی اور ساری توانائی انھوں نے بڑی ایمان داری اور جرأت کے ساتھ مسلم سیاست پر صرف کر دی۔ ان کا یہی نصبُ العین تھا اور یہی ان کی جد وجہد کی غرض وغایت۔ اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔

    سیاست میں ان کا ہیرو قائدِ اعظم تھے جن کی زندگی سے انھوں نے عزم و ثبات کا سبق سیکھا تھا۔ ان میں قائدِاعظم کی سی اصول پرستی تھی اور وہی بے باکی اور صاف گوئی۔ وہ نڈر اور جری تھے۔ مجاہد کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ جاتے اور غازی کی طرح کام یاب اور کام ران رہتے۔

    دوسری خصوصیت ان کی خطابت تھی۔ قدرت نے انھیں یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انھوں نے ہر موقع اور ہر محل پر صحیح کیا۔ بغیر کسی تیاری کے وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ الفاظ کا انتخاب، فقروں کی بندش اظہار خیال کی ندرت اور آواز کا اتار چڑھاؤ اس قدر متوازن ہوتا کہ مجموعی طورپر ان کی ہر تقریر ایک شہ پارہ ہوتی تھی۔ ہر تقریر سننے والوں کو پچھلی تقریر سے بہتر معلوم ہوتی ۔ اور وہ اس ذوق وشوق سے سنتے جیسے کہ کوئی نغمہ ہو۔ میلاد کی محفل ہو، کالج کی انجمن ہو یا سیاسی تحریک ہر جگہ ان کا طوطی بولتا نظر آتا تھا۔

    انھوں نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص و تن دِہی سے حصہ لیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے بڑے شیدائی تھے۔ ان کی دلی تمنّا تھی کہ ایک ایسی مملکت برصغیر کے اندر بنائی جائے جہاں اسلامی آئین و قوانین نافذ ہوں۔ ایسی سلطنت کے قیام کا منصوبہ دیکھ کر انھوں نے غیر مبہم الفاظ میں یہ کہہ دیا تھا۔

    ’’میرے خیال میں پاکستان کے لیے ہر قسم کی سعی و کوشش حرام اگر پاکستان سے الٰہی اور قرآنی حکومت مراد نہیں جس میں قانون سازی کا بنیادی حق صرف خدائے قدوس کو حاصل ہو، ہمارے بنائے ہوئے قوانین اس کی توصیح و تشریح کریں۔‘‘ وہ آج ہم میں نہیں لیکن ان کی اعلیٰ شخصیت، بے مثال خطابت کی یاد آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔

    بلا شبہ ان کی زندگی میں ہمارے لیے ایک ایسا قابلِ تقلید نمونہ موجود ہے جسے بلا مبالغہ اقبالؒ کے مردِ مومن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

    (پروفیسر خواجہ قطب الدّین نے چند سال قبل یہ مضمون بہادر یار جنگ کی برسی کے موقع پر سپردِ قلم کیا تھا)