Tag: جلیاں والا باغ

  • جلیاں والا باغ: تاریخی قتل عام کو 102 سال مکمل

    جلیاں والا باغ: تاریخی قتل عام کو 102 سال مکمل

    امرتسر: بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں واقع تاریخی نوعیت کے جلیاں والا باغ میں برطانوی سپاہیوں کے ہاتھوں ہوئے قتل عام کو آج 102 سال مکمل ہو گئے۔

    جلیاں والا باغ سانحے کو اگرچہ آج ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے تاہم اس سانحے کے زخم تاحال مندمل نہیں ہو سکے ہیں، آج بھی اس دن کی سیاہ تصاویر لوگ بھلا نہیں پائے۔

    13 اپریل 1919 کو برطانوی افسر جنرل ڈائر نے اپنے سپاہیوں کو امرتسر کے جلیاں والا باغ میں پُر امن مظاہرین کی بھیڑ پر گولیاں چلانے کا حکم دیا تھا، جس میں سیکڑوں شہری مارے گئے تھے۔

    شہیدوں کی یادگار

    1951 میں بھارتی حکومت نے جلیاں والا باغ قتل عام میں جان گنوانے والے مجاہدین آزادی کے لیے ایک یادگار قائم کی تھی، یہ میموریل آج بھی اس ہول ناک سانحے کی یاد دلاتا رہتا ہے۔

    ہندوستان کی تاریخ میں 13 اپریل کا دن ایک سانحہ کے ساتھ درج ہے، وہ سال 1919 کا تھا، جب جلیاں والا باغ میں ایک پُر امن میٹنگ کے لیے جمع ہوئے ہزاروں شہریوں پر انگریز جنرل نے اندھا دھند گولیاں برسائی تھیں، جلیاں والا باغ نام کے اس باغیچے میں انگریزوں کی فائرنگ سے خوف زدہ ہو کر بہت سی خواتین اپنے بچوں کو لے کر جان بچانے کے لیے کنوئیں میں کود گئی تھیں۔ راستے محدود ہونے کی وجہ سے لوگ بھگدڑ میں بھی کچلے گئے۔

    10 مارچ 1919 کو برصغیر میں رولٹ ایکٹ پاس کیا گیا تھا، اس کے تحت سرکار کو بغیر کسی مقدمے کسی بھی شہری کو ملک مخالف کارروائیوں میں شامل ہونے کا الزام لگا کر جیل میں ڈالا جا سکتا تھا، اس ایکٹ کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج شروع ہو گیا۔

    اپریل 1919 میں جب رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا، تو پنجاب اس تحریک کا مرکز بن گیا۔ ان دنوں پنجاب کا گورنر سر مائیکل فرانسس او ڈائر تھا ‘جس نے پنجاب میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کر کے بریگیڈیئر جنرل ریگنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر نامی ایک سخت گیر اور ظالم شخص کو بے پناہ اختیارات کے ساتھ ”نافرمان عوام“ کی سرکوبی کے لیے مامور کر دیا۔

    تاریخی کنواں جس سے سیکڑوں لاشیں نکالی گئی تھیں

    10 اپریل 1919 کو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک چلانے پر 2 سیاسی رہنماﺅں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کر لیا۔ 13 اپریل کو امرتسر کے عوام ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی اسیری کے خلاف جلیاں والا باغ میں جمع ہوئے، یہ باغ 19 ویں صدی میں مہا راجہ رنجیت سنگھ کے ایک درباری پنڈت نے بنوایا تھا اور اسی کے نام سے موسوم تھا۔ یہ باغ کوئی 200 گز لمبا اور سو گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ ہی مکانات تھے، باغ سے باہر جانے کے چار پانچ راستے تھے مگر کوئی بھی چار پانچ فٹ سے زیادہ چوڑا نہ تھا۔

    جب اس جلسے کا علم جنرل ڈائر کو ہوا تو وہ مشین گنوں اور رائفلوں سے مسلح سپاہیوں کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچ گیا، ڈائر جلیاں والا باغ میں داخل ہوا اور اپنے فوجوں کو چاروں طرف تعینات کر دیا، اس کے بعد انھیں بغیر کسی وارننگ کے گولی چلانے کا حکم دے دیا۔ لوگ وہاں سے باہر نکلنے کے لیے بھاگے، لیکن ڈائر نے اپنے سپاہیوں کو باہر نکلنے والے جگھوں پر بھی تعینات کر دیا تھا جہاں سے فائرنگ شروع ہوگئی، اور جنرل ڈائر کے سپاہی 10 سے 15 منٹ تک لگاتار فائرنگ کرتے رہے۔

    انگریز مؤرخین کے مطابق اس سانحے میں 379 افراد ہلاک اور 1203 زخمی ہوئے، تاہم مدن موہن مالویہ کی صدارت والی ایک کمیٹی سمیت دیگر رپورٹس میں مرنے والوں کی تعداد 500 سے زیادہ بتائی گئی تھی۔ سنگ دلی کی انتہا یہ تھی کہ سانحے کے فوراً بعد کرفیو نافذ کر کے زخمیوں کو مرہم پٹی کا انتظام بھی نہ کرنے دیا گیا، اس طرح اس سانحے نے پورے پنجاب میں آگ لگا دی جس پر قابو پانے کے لیے 2 دن بعد پورے پنجاب میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔

    1997 میں برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بھارت کا دورہ کیا تو وہ جلیاں والا باغ بھی گئی تھیں، جہاں انھوں نے نصف منٹ کی خاموشی اختیار کی، اس موقع پر انھوں نے کہا کہ ہماری تاریخ میں کچھ افسوس ناک واقعات بھی ہیں تاہم تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا۔

    فروری 2013 کو ڈیوڈ کیمرون پہلے برطانوی وزیرِ اعظم تھے جنھوں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور پھول چڑھائے اور امرتسر قتلِ عام کو برطانوی تاریخ کا انتہائی شرم ناک واقعہ قرار دیا، تاہم کیمرون نے بھی ملکہ الزبتھ دوم کی طرح سرکاری طور پر معافی نہیں مانگی۔ 2019 میں برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم بورسن جانسن نے جلیاں والا باغ قتل عام پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شرمناک تھا، لیکن انھوں نے بھی اس پر معافی نہیں مانگی۔

  • جلیاں والا باغ سانحے کو 100 برس مکمل

    جلیاں والا باغ سانحے کو 100 برس مکمل

    برصغیر کی تحریکِ آزادی میں ایک اہم موڑثابت ہونے والے واقعے ’جلیاں والا باغ‘ کو 100 سال بیت گئے ہیں‘اس واقعے نے برصغیرمیں آزادی کی مہم کو مہمیزکیا تھا‘ سنہ 1997 میں بھارت کے دورے پرملکہ برطانیہ نے اس تاریخ کا افسوس ناک باب قراردیا تھا۔

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق’’ اپریل 1919ءمیں جب رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا تو پنجاب اس تحریک کا مرکز بن گیا۔ ان دنوں پنجاب کا گورنر سر مائیکل فرانسس او ڈائر تھا ‘جس نے پنجاب میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کرکے بریگیڈیئر جنرل ریگنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر نامی ایک سخت گیر اور ظالم شخص کو بے پناہ اختیارات کے ساتھ ”نافرمان عوام“ کی سرکوبی کے لیے مامور کردیا‘‘۔

    دس اپریل 1919ءکو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر نے رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک چلانے میں دو سیاسی رہنماﺅں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو گرفتار کرلیا اور ان کی گرفتاری پر جب عوام نے جلوس نکالنا چاہا تو ان پر گولی چلا دی گئی۔

    جلیاں والا باغ میں تعمیر کردہ یاد گار

    تیرہ اپریل 1919ءکو امرتسر کے عوام ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی اسیری کے خلاف جلیاں والا باغ میں جمع ہوئے۔ یہ باغ انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک درباری پنڈت جلانے بنوایا تھا اور اسی کے نام سے موسوم تھا۔ یہ باغ کوئی دو سو گز لمبا اور ایک سو گز چوڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف دیوار تھی اور دیوار کے ساتھ ہی مکانات تھے، باغ سے باہر جانے کے چار پانچ راستے تھے مگر کوئی بھی چار پانچ فٹ سے زیادہ چوڑا نہ تھا۔

    جب اس جلسے کا علم جنرل ڈائر کو ہوا تو وہ مشین گنوں اور رائفلوں سے مسلح سپاہیوں کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچ گیا اور اس نے بغیرکسی انتباہ کے عوام پر فائرنگ کا حکم دے دیا۔ یہ فائرنگ اس وقت تک جاری رہی جب تک اسلحہ ختم نہیں ہوگیا۔

    انگریز مورخین کے مطابق اس سانحہ میں 379 افراد ہلاک اور 1203 زخمی ہوئے۔ سنگدلی کی انتہا یہ تھی کہ سانحہ کے فوراً بعد کرفیو نافذ کرکے زخمیوں کو مرہم پٹی کا انتظام بھی نہ کرنے دیا گیا۔اس سانحے نے پورے پنجاب میں آگ لگا دی جس پر قابو پانے کے لیے دو دن بعد پورے پنجاب میں مارشل لاءنافذ کردیا گیا۔

    سنہ 1997 میں برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بھارت کا دورہ کیا تو وہ جلیاں والا باغ بھی گئیں تھی‘ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ میں کچھ افسوس ناک واقعات بھی ہیں تاہم تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اس موقع پر بھارت میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تاہم اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کمار گجرال کہتے نظر آئے تھے کہ’’اس سانحے کے وقت ملکہ پیدا نہیں ہوئی تھیں لہذا انہیں معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔

    وہ کنواں جس میں سے سینکڑوں لاشیں نکالی گئی تھیں

    اگرچہ ملکہ الزبتھ دوم نے اپنے 1961ء اور 1983ء کے دوروں میں اس قتلِ عام پر کوئی تبصرہ نہیں کیا مگر 13 اکتوبر، 1997ء کے سرکاری عشائیے میں انہوں نے یہ کہا:

    بے شک ہمارے ماضی میں کئی مشکل دور آئے ہیں جن میں جلیاں والا باغ انتہائی تکلیف دہ مثال شامل ہے۔ میں وہاں کل جاؤں گی۔ مگر تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا، چاہے ہم کتنی کوشش کر لیں۔ اس کے اپنے دکھ اور خوشی کے لمحات ہیں۔ ہمیں رنج سے سیکھ کر اپنے لیے خوشیاں جمع کرنی چاہیئں۔

    14 اکتوبر، 1997ء کو ملکہ الزبتھ دوم نے جلیاں والا باغ کا دورہ کیا اور نصف منٹ کی خاموشی اختیار کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس وقت ملکہ نے زعفرانی رنگ کا لباس زیبِ تن کیا تھا جو سکھ مذہب کے لیے مذہبی اہمیت کا حامل رنگ ہے۔ یادگار پر پہنچ کر انہوں نے اپنے جوتے اتارے اور پھول چڑھائے۔

    اگرچہ انڈین لوگوں نے پچھتاوے کے اظہار اور ملکہ کے رنج کو قبول تو کیا مگر بعض نقاد کہتے ہیں کہ یہ معافی نہیں تھی۔ تاہم اس وقت کے انڈین وزیرِ اعظم اندر کمار گجرال نے ملکہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو ملکہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔

    ملکہ برطانیہ الزبتھ جلیاں والا باغ کے دورے پر

    8 جولائی، 1920ء کو ونسٹن چرچل نے ایوانِ نمائندگان کو کرنل ڈائر کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ چرچل نے ہاؤس کو کرنل ڈائر کو زبردستی ریٹائر کرنے پر آمادہ کر لیا مگر چرچل چاہتے تھے کہ کرنل کو سزا بھی ملتی۔

    فروری 2013ء کو ڈیوڈ کیمرون پہلے برطانوی وزیرِ اعظم تھے جنہوں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور پھول چڑھائے اور امرتسر قتلِ عام کو ‘برطانوی تاریخ کا انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا‘۔ تاہم کیمرون نے سرکاری طور پر معافی نہیں مانگی۔

    دو روز قبل پاکستان کے وفاقی وزیراطلاعات نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ وہ اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ سلطنت برطانیہ جلیاں والاباغ قتل عام اور قحط بنگال پرپاکستان، بھارت اوربنگلا دیش سے معافی مانگے۔انھوں نے مزید کہا تھا کہ برطانیہ کو کوہ نور ہیرا بھی لاہورمیوزیم کو واپس کرنا چاہیے، ساتھ ہی معافی مانگنی چاہیے۔