Tag: جلیل قدوائی

  • جلیل قدوائی: شاعری، افسانہ نگاری اور نقد و نظر

    جلیل قدوائی: شاعری، افسانہ نگاری اور نقد و نظر

    اردو ادب کی قابل و باصلاحیت ہستیوں کی زندگی اور ان کے فن و تخلیق پر نقد و نظر، ممتاز اہلِ قلم کے تذکرے رقم کرنے والے جلیل قدوائی کو دنیا سے رخصت ہوئے تیس سال گزر گئے ہیں‌۔ انھوں نے شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ غیرافسانوی ادب تخلیق کیا۔ صحافت بھی جلیل قدوائی کا ایک حوالہ ہے۔

    معروف ادیب اور نقاد جلیل قدوائی یکم فروری 1996ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر اناؤ(اودھ) سے تھا۔ جلیل قدوائی 16 مارچ 1904ء کو پیدا ہوئے۔ علی گڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرر کے طور پر تقرر ہوگیا۔ حکومت ہند کے محکمۂ اطلاعات و نشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن افسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ رہے اور کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    جلیل قدوائی نے افسانوی ادب کے علاوہ کئی موضوعات پر علمی و ادبی مضامین، تبصرے اور تنقید لکھی۔ انھوں نے متعدد شعرا کا کلام مرتب کیا اور کئی کتابیں‌ ان کی تالیف کردہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں چند اکابر، چند معاصر، گلدستہ تنقید، تذکرے اور تبصرے (تنقید)، قطراتِ شبنم، مکتوباتِ عبد الحق (ترتیب)، شعری مجموعے خاکستر پروانہ، نقش و نگار، نوائے سینہ تاب اور، حیاتِ مستعار (خود نوشت)، سیرِ گل (افسانہ)، اصنام خیالی (مختصر افسانے) جب کہ مانا دانا اور ماموں‌ جان ڈراموں کے تراجم ہیں۔

  • جلیل قدوائی: اردو ادب کا ایک معتبر نام

    جلیل قدوائی: اردو ادب کا ایک معتبر نام

    اردو ادب میں جلیل قدوائی کو ایک معتبر شاعر، افسانہ نگار، محقّق و نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی ادبی صحافت کے لیے بھی مشہور رہے۔ یکم فروری 1996ء کو جلیل قدوائی اسلام آباد میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    جلیل قدوائی 16 مارچ 1904ء کو اناؤ (اودھ) میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرر مقرر ہوگئے۔ حکومتِ ہند کے محکمۂ اطلاعات و نشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن افسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہوئے اور کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    جلیل قدوائی نے شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ علمی و ادبی مضامین، تبصرے اور تنقید بھی لکھی۔ انھوں نے متعدد شعرا کا کلام بھی مرتب کیا۔ ان کی تصانیف میں چند اکابر، چند معاصر، گلدستہ تنقید، تذکرے اور تبصرے (تنقید)، قطراتِ شبنم، مکتوباتِ عبد الحق (ترتیب)، شعری مجموعے خاکستر پروانہ، نقش و نگار، نوائے سینہ تاب اور، حیاتِ مستعار (خود نوشت)، سیرِ گل (افسانہ)، اصنام خیالی (مختصر افسانے) جب کہ مانا دانا اور ماموں‌ جان ڈراموں کے تراجم ہیں۔

  • شعر و ادب، نقد و نظر میں ممتاز جلیل قدوائی کا یومِ وفات

    شعر و ادب، نقد و نظر میں ممتاز جلیل قدوائی کا یومِ وفات

    جلیل قدوائی کو دنیائے ادب میں شاعر، افسانہ نگار، محقّق، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ جلیل قدوائی یکم فروری 1996ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے تھے۔

    آج اس معروف ادیب و شاعر کا یومِ‌ وفات ہے۔ جلیل قدوائی 16 مارچ 1904ء کو اناؤ (اودھ) میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ حکومت ہند کے محکمۂ اطلاعات و نشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن افسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ رہے اور کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    جلیل قدوائی نے شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ علمی و ادبی مضامین، تبصرے اور تنقید بھی لکھی۔ انھوں نے متعدد شعرا کا کلام مرتب کیا۔ ان کی تصانیف میں چند اکابر، چند معاصر، گلدستہ تنقید، تذکرے اور تبصرے (تنقید)، قطراتِ شبنم، مکتوباتِ عبد الحق (ترتیب)، شعری مجموعے خاکستر پروانہ، نقش و نگار، نوائے سینہ تاب اور، حیاتِ مستعار (خود نوشت)، سیرِ گل (افسانہ)، اصنام خیالی (مختصر افسانے) جب کہ مانا دانا اور ماموں‌ جان ڈراموں کے تراجم ہیں۔