Tag: جل پری

  • سمندر میں پرستان

    سمندر میں پرستان

    ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سمندر میں کوئی پری نہیں رہتی تھی۔

    سمندر میں رہنے والی مخلوق کو معلوم تھا کہ پریاں تمام جان دار چیزوں پر نہایت مہربان ہوتی ہیں۔ جب ان میں کوئی دکھ بیماری یا مصیبت ہوتی ہے تو وہ ان کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں، اس لیے سب رنجیدہ تھے کہ ہم نے ایسی کیا خطا کی ہے، جو ہمارے ہاں پریاں آ کر نہیں رہتیں۔

    چناں چہ سمندر کے سارے رہنے والوں نے پرستان میں اپنا ایلچی بھیجا اور وہاں کے بادشاہ سے درخواست کی کہ کچھ پریاں سمندر میں بھی بسنے کے لیے بھیج دی جائیں، تاکہ ہمارے آڑے وقتوں پر کام آ جائیں۔

    ایلچی نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کی "جو پریاں ہمارے ہاں آ کر رہیں گی، ہم ان کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں گے اور انھیں خوش رکھنے میں حتی المقدور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔”

    بادشاہ پریوں سے مخاطب ہو کر بولا "تم نے سنا، سمندر کا ایلچی ہمارے پاس کیا درخواست لے کر آیا ہے؟

    اب بتاؤ، تم وہاں جانا اور نیلے سمندر کے پانی کے نیچے رہنا پسند کرتی ہو؟”

    پریوں نے کانپ کر کہا "ہم وہاں جانے اور رہنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ہم یہیں خوش ہیں۔”

    اس کے بعد بادشاہ نے جنگل کی پریوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ سمندر میں جا کر رہنے میں تمھاری کیا مرضی ہے؟

    وہ بھی سب سر ہلا کر کہنے لگیں کہ کہیں جانا ہمیں گوارا نہیں۔

    بادشاہ نے باری باری تمام پریوں کی مرضی معلوم کی اور اب صرف پانی کی پریاں رہ گئی تھیں۔

    آخر میں بادشاہ ان سے مخاطب ہوا، وہ بلا جھجک فوراً تیار ہو گئیں اور کہنے لگیں "ہم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان ندی نالوں، تالابوں، کنوؤں اور باؤلیوں سے باہر نکلیں۔

    گھر بیٹھے ہماری مراد پوری ہوئی۔ اتنے لمبے چوڑے اور گہرے سمندر کا کیا کہنا ہے۔ ہمارے اچھلنے کودنے، بھاگنے دوڑنے کے لیے اس سے زیادہ اچھی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟ وہاں ہزاروں لاکھوں قسم کی مچھلیاں ہیں اور مچھلیوں کے علاوہ طرح طرح کے عجائبات۔

    حضور! ہماری اس سے بڑھ کر کوئی تمنا نہیں کہ ہم سمندر کی پریاں بن جائیں۔ ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ ہم پانی میں کس طرح رہ سکیں گے؟ دوسرے اپنے تمام زندگی بھر کے ساتھیوں کو اچانک چھوڑنے کے خیال سے دل دکھتا ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہم کو انھیں خدا حافظ کہنا پڑے گا اور پھر ہم اپنے پیارے بادشاہ اور ملکہ کی صورت بھی شاید کبھی نہ دیکھ سکیں۔”

    بادشاہ نے کہا "نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ جب تمھارا دل چاہے، رات کے وقت تم اوپر آ سکتی ہو اور چاندنی رات میں ہم میں سے بعض پریاں سمندر کے کنارے ریت پر جا کر تمھارے ساتھ کھیلا کودا اور گایا بجایا کریں گی، لیکن دن میں ہم سب اپنا اپنا کام کریں گے۔

    البتہ ہمارا ایک دوسرے سے ملنا دشوار ہے۔ رہا سمندر کے اندر ہر وقت رہنا، یہ معمولی بات ہے۔ میں تمھاری موجودہ صورت تبدیل کر دوں گا اور تم کو پانی میں رہنے سے کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ پاؤں کی جگہ تمھاری مچھلیوں کی سی دمیں پیدا ہو جائیں گی اور پھر تم سمندر کی ہر مخلوق کی طرح بخوبی تیرا کرو گی۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ پُھرتی کے ساتھ۔”

    چناں چہ جب یہ پانی کی پریاں سمندر کے کنارے پہنچیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے پاؤں آپس میں جڑ کر ایسی خوبصورت چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی دمیں بن گئے کہ ان کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا اور وہ اپنے ہاتھوں سے پانی چیرتی اور تیرتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔

    پریوں کو سمندر میں بے انتہا کام تھے، کیوں کہ سارے بڑے جانور چھوٹوں کو ستایا اور مار ڈالا کرتے تھے۔ اب تک وہاں کوئی ایسا نہ تھا، جو ان باتوں کا انتظام کرتا، ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا اور جسے سمندر کی سطح پر امن قائم کرنے کا خیال آتا۔

    پریوں کے لیے یہ کام کم نہ تھے، امن و امان پیدا کرنا چھوٹی سی بات نہیں، لیکن تم جانتے ہو کہ پریوں کے پاس وقت کی کمی نہیں اور وہ کبھی تھکتی نہیں، اس لیے مصروف ہو کر وہ اتنی خوش ہوئیں کہ پورے ایک مہینے تک چاندنی رات میں بھی کھیلنے کودنے کے لیے سمندر کے کنارے پر نہ آئیں۔

    جب تیس راتیں لگا تار گزر گئیں اور کوئی پری باہر نہ آئی تو بادشاہ نے ان کی خبر لینے کے لیے اپنا ایلچی بھیجا۔

    ایلچی سمندر میں پریوں کے پاس پہنچا اور بادشاہ کا پیغام دیا۔ پریوں نے کہا: ” ہم کو یہاں آکر اتنی خوشی اور اس قدر مصروفیت رہی کہ معلوم نہ ہوا اتنا وقت گزر گیا ہے۔ آج رات ہم ضرور حاضر ہوں گے اور اب تک جو گزرا وہ سنائیں گے۔”

    رات کو پریاں سمندر سے باہر نکل آئیں۔ سارا پرستان ان سے ملنے جمع ہو گیا اور انھوں نے سمندر کی تہ کے عجیب و غریب حالات اور وہاں کی مخلوق کا ذکر کیا تو بادشاہ، ملکہ اور سب حیران رہ گئے اور بڑی دل چسپی لی۔

    بادشاہ نے کہا: "تم بڑی اچھی نیک دل پریاں ہو۔ تم کو اس کا صلہ ملنا چاہیے۔مناسب ہے کہ تم اپنا بادشاہ الگ بنا لو اور لہروں کے نیچے اپنی سلطنت قائم کر لو۔ شاہی خاندان میں سے ایک شہزادہ تمھارا بادشاہ بن سکتا ہے، تم اس کے رہنے کے لیے ایک محل بناؤ، جس میں جا کر وہ رہے اور تم پر حکومت کرے۔”

    سمندر کی پریاں خوش ہو گئیں کہ انھیں اپنی سلطنت اور بادشاہ ملا اور وہ محل تعمیر کرنے سمندر میں چلی گئیں۔ ایک مہینے کے اندر ہی محل تیار ہو گیا۔

    محل کے درو دیوار چمکیلی سیپ کے تھے اور اس کی چھتیں سفید باریک چاندنی جیسی ریت کی۔

    دیواروں پر رنگ رنگ کی نازک نازک سمندری بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ کہیں سرخ، کہیں سبزی مائل زرد تو کہیں قرمزی۔ جتنے کمرے تھے، اتنے ہی رنگ کی آرائش۔ تخت شاہی اور دربار کی نشستیں عنبر کی۔ تاج بڑے بڑے موتیوں کا۔

    سفید محل کے چاروں طرف باغات تھے۔ رات کو مچھلیاں ہر طرف اپنے چمکیلے جسموں سے روشنی پھیلاتی پھرتیں اور جہاں ہر وقت اجالے کی ضرورت تھی، وہاں شعلہ نکالنے والی مچھلیوں کو سمندری بیلوں سے باندھا گیا تھا تاکہ لیمپوں کا کام دیں۔

    محل کی گھر داری کا انتظام پرانے پرانے کیکڑوں کے سپرد تھا، جو اندر یا باہر برابر پھرتے رہتے اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے کام اس قدر مستعدی کے ساتھ انجام دیتے کہ سیکڑوں لونڈیاں، باندیاں بھی نہ کر سکتیں۔

    وہ آدمیوں کو چمٹنا اور شرارت کرنا قطعی بھول گئے تھے، پریوں کی تربیت نے انھیں پہلے سے بہت بہتر بنا دیا تھا۔

    محل اب ہر طرح سے آراستہ اور نئے بادشاہ کے قابل ہو گیا تھا۔ کام باقی تھا تو صرف دعوت کی تیاری کا۔ ایک بوڑھے دریائی بچھڑے کی ہدایت سے پریوں نے دعوت کا شان دار انتظام کر لیا۔

    سمندر کے پھل اور سمندر کی جلیبیاں وغیرہ، جو چیز کھانے میں مزیدار سمجھی یا دیکھنے میں اچھی معلوم ہوئی، جمع کر لی گئی اور چوں کہ امید تھی کہ ان گنت مہمان آئیں گے، اس لیے کام کاج کے لیے ایک فوج کی فوج سمندری مخلوق کی بلا لی گئی، تاکہ مہمانوں کی خدمت میں کمر بستہ کھڑے رہیں۔

    سمندر کے کنارے سے پانی کی نیلی نیلی لہروں میں بادشاہ کو لانے کے لیے چھ سمندری گھوڑے ساز لگے ایک گاڑی میں جتے کھڑے تھے۔ یہ گاڑی خالص سونے کی تھی، جس کے اندر نرم نرم سمندری گھاس کا فرش تھا اور ننھے ننھے گھونگوں سے سجی ہوئی تھی۔

    سب سے عجیب بات یہ تھی کہ یہ ننھے ننھے گھونگے سب زندہ تھے۔ انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ گاڑی کی سجاوٹ میں حصہ لیا تھا، کیوں کہ پریوں نے یہ احتیاط رکھی تھی کہ کوئی انھیں کسی طرح تکلیف نہ دے۔

    آخر کار بادشاہ سلامت آئے اور اپنے ساتھ ملکہ کو بھی لائے۔ تمام پریاں خوش تھیں۔ سمندر کی مخلوق خوشی کے ساتھ جوش میں غوطے لگانے لگی۔ ہر ایک نے پورے دن کی چھٹی منائی، سوائے کیکڑوں کے، جو قدرتاً کام کرنے کے ایسے عادی تھے کہ بےکار رہنا ان کے لیے عذاب تھا۔ دعوت بھی اس ٹھاٹھ کی ہوئی کہ نہ ایسا سلیقہ کسی نے دیکھا ہو گا، نہ ایسے کھانے کھائے ہوں گے۔

    دوسرے دن سلطنت کا نظام قائم کیا گیا۔ پریوں میں جو سب سے زیادہ سمجھدار تھی، وہ بادشاہ کی وزیر مقرر ہوئی اور خوب صورت سے خوب صورت اور نیک سے نیک کم عمر پریاں ملکہ کی خدمت گار بنائی گئیں۔ پرستان میں نر ہو یا مادہ، جتنی خوب صورت شکل ہو گی، اسی قدر خوش اخلاق اور سلیقہ شعار بھی ہو گی۔ اس لیے سمجھ لو کہ ملکہ کی خدمت میں رہنے کے لیے کن کو چنا ہو گا۔

    بادشاہ اور ملکہ کو وہاں جتنے ایک بادشاہت میں کام ہوا کرتے ہیں، اتنے ہی یہاں بھی کام تھے۔ وہ اپنی عمل داری میں دورے کرتے کہ کہیں کوئی ایک دوسرے پر ظلم تو نہیں کرتا۔

    بڑی دیکھ بھال یہ کرنی تھی کہ ظالم شارک اور اڑہ مچھلیاں ضعیف اور کمزور مچھلیوں کے ساتھ تو شرارت نہیں کرتیں یا دوسری مخلوق کا حد سے زیادہ تو خون نہیں کرتیں۔

    ان باتوں کے سوا یہ کام بھی تھا کہ جانوروں کے جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پریوں میں سے جو کام میں سست ہو یا شرارت کرے اس کو سزا دیں۔

    اچھا ان کی سزا کا کیا طریقہ تھا؟ پریوں یا سمندر کی مخلوق کو وہ سزا کیا دیتے؟

    شریر پریوں کو یہ سزا ملتی کہ اوپر سمندر کے کنارے جانا اور سنہری ریت پر کھیلنا کودنا، بالوں میں کنگھی کرنا اور گانا بجانا بند۔ پانی کے اندر پڑی ترسا کریں۔

    بد ذات جانوروں کی یہ سزا ہوتی کہ وہ کچھ عرصے کے لیے کیکڑوں کا ہاتھ بٹانے پر مجبور کر دیے جاتے۔ کیکڑے ان کو کیکڑے جیسا سیدھا کر دیتے کہ پھر ان سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوتا۔

    شریروں اور نافرمان جانوروں کو جس طرح سزا ملتی، اسی طرح اچھا کام کرنے والوں اور حکم ماننے والوں کو انعامات بھی دیے جاتے۔

    سب سے بڑا انعام یا صلہ یہ تھا کہ درباریوں میں جگہ دی جاتی۔ وہ بادشاہ کے سمندری سلطنت کے بڑے بڑے دوروں پر ان کے ساتھ ہوتے اور جہاں ان کا جی چاہتا، سیر کرتے پھرتے۔

    جب کبھی طوفان آتے تو پریاں پانی کی سطح پر پہنچ جاتیں اور بڑے بڑے جہازوں کو چٹانوں سے ٹکرانے اور ریت میں دھنس جانے سے بچانے کی بے انتہا کوشش کرتیں، پھر اگر ان کی کوشش ناکام رہتی، ڈوبنے والے جہاز ڈوب ہی جاتے تو نہایت سریلی آوازوں میں ان کا مرثیہ پڑھتیں اور ڈوبے ہوئے ملاحوں کو ریت میں دفن کر دیتیں۔

    کبھی کبھی جہاز راں اور ملاح بھی ان کی جھلک دیکھ لیتے انھیں جل پری یا جل مانس کہتے اور کبھی ان کو نہیں ستاتے۔ صرف دیکھتے، خوش ہوتے اور گزر جاتے۔

    اب آپ نے جان لیا کہ سمندر میں پریاں کس طرح اور کیوں کر آ گئیں؟

    (عالمی ادب سے انتخاب)

  • مفلس لڑکے کی کہانی جسے دنیا بھر میں‌ پہچان ملی!

    مفلس لڑکے کی کہانی جسے دنیا بھر میں‌ پہچان ملی!

    یہ ڈنمارک کے اُس لڑکے کی کہانی ہے جسے کم عمری ہی میں کتابوں سے عشق اور مطالعے کا شوق ہو گیا تھا۔

    وہ ادیب بننا چاہتا تھا۔ گھر کے معاشی حالات نے اُسے مڈل کے بعد تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت نہ دی، لیکن جب بھی کوئی اخبار یا کتاب اس کے ہاتھ لگتی، وہ بہت توجہ اور انہماک سے اسے پڑھتا اور اس سے کچھ سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا۔

    اس کے والد جوتیاں گانٹھ کر جو رقم حاصل کر پاتے، اس میں تو کنبے کا پیٹ بھرنا ہی مشکل تھا، دوسرے اخراجات کیسے پورے ہوتے۔ اسی غربت اور تنگ دستی کے دنوں میں ایک روز والد بھی دنیا سے چلے گئے۔ ان کے انتقال کے وقت وہ دس سال کا تھا اور اسے کسبِ معاش کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔

    اس یتیم بچے کی ماں چاہتی تھی کہ وہ لوگوں کے کپڑے سینے کا کام سیکھے تاکہ گزر بسر کی کوئی صورت بنے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

    لڑکے نے کوپن ہیگن جانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور ایک روز اسی ارادے سے گھر سے نکلا۔ اس کی جیب میں سواری کا کرایا نہ تھا اور وہ سڑک پر پیدل آگے بڑھ رہا تھا۔ ذہن طرح طرح کے خیالات کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ راستے میں ایک گھوڑا گاڑی والے نے اس پر ترس کھایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ یوں وہ کوپن ہیگن پہنچنے میں کام یاب ہو گیا۔

    اس لڑکے کا نام ہانز کرسچین اینڈرسن تھا۔ کوپن ہیگن پہنچ کر اُس نے کسی طرح اپنے دور کے ایک مشہور موسیقار سے ملاقات کا بندوبست کیا اور اس کے سامنے اپنے گھریلو حالات کے علاوہ اپنے ادیب بننے کی خواہش کا اظہار کردیا۔

    ہانز کرسچین اینڈرسن نے موسیقار کو بتایا کہ وہ پڑھنے لکھنے کے ساتھ رقص اور موسیقی میں بھی دل چسپی رکھتا ہے اور اب اس سلسلے میں اسے راہ نمائی اور مشاورت چاہیے۔ موسیقار نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کرلیا اور کوپن ہیگن میں اس کا بہت خیال رکھا۔ مقامی شاہی تھیٹر کے ڈائریکٹر سے کہہ کر اس لڑکے کی رہائش کا بندوبست بھی کروایا اور ساتھ ہی کہانیاں لکھنے پر آمادہ کر لیا۔

    ہانز کرسچین اینڈرسن نے اپنے محسن کے کہنے پر نہ صرف کہانیاں لکھنے لگا بلکہ جلد ہی ڈراما نویسی بھی شروع کردی اور کچھ ہی عرصے میں اپنے تخلیقی جوہر کو منوا لیا۔

    ہانز کرسچین اینڈرسن 1805 میں پیدا ہوا اور ایک ادیب کی حیثیت سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ بچوں اور بڑوں کے لیے اس کی تخلیقات کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس لکھاری کی مقبول ترین کہانیوں میں اسنوکوئن، اگلی ڈکلنگ، ماچس فروش اور لٹل مرمیڈ یعنی ننھی جل پری آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔

    1835 میں ہانز کرسچین اینڈرسن کا پہلا ناول شایع ہوا جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس ناول کا جرمن زبان اور چند سال بعد انگریزی میں بھی ترجمہ شایع ہوا اور یوں اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔

    اینڈرسن نے پہلا ڈراما لکھا جو شاہی تھیٹر میں پیش کیا گیا تھا اور یوں ہر طرف گویا اس کی دھوم مچ گئی۔ اسی ڈرامے کی وجہ سے اسے شاہِ ڈنمارک کی جانب سے سالانہ وظیفہ ملنے لگا تھا۔

    اس نے بچوں کے لیے پریوں اور اس جیسے دوسرے دل چسپ کرداروں پر مبنی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا جو کتابی صورت میں شایع ہوئیں اور انھیں بے حد پسند کیا گیا۔ یہ کہانیاں اتنی مقبول ہوئیں کہ صرف تین سال کے دوران متعدد زبانوں میں ان کا ترجمہ ہوا۔ ڈنمارک کے نام ور ادیبوں نے ان کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا۔

    1875 میں اس عظیم لکھاری نے دنیا سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیا۔ اوڈنسے میں اینڈرسن کی یاد میں ایک عجائب گھر بنایا گیا ہے جہاں اس کی تحریریں، اس کے زیرِ استعمال مختلف اشیا جیسے رائٹنگ ٹیبل اور کرسی وغیرہ بھی رکھی گئی ہے۔ اسی عجائب گھر کے باہر اینڈرسن کا ایک بڑا مجسمہ بھی نصب ہے۔

    اس ادیب کی عظمت اور مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ چین کے شہر شنگھائی میں صرف اینڈرسن کی زندگی اور تخلیقات کا احاطہ اور نمائش کے لیے ایک تھیم پارک بنایا گیا ہے۔ اینڈرسن کی مشہور کہانیوں پر متعدد فلمیں بن چکی ہیں۔