Tag: جمال احسانی

  • جمال احسانی: منفرد لب و لہجے کا شاعر

    جمال احسانی: منفرد لب و لہجے کا شاعر

    محبت کرنے والوں کو معروف شاعر جمال احسانی نے ایک نئے انداز سے دیکھنا سکھایا تھا۔ وہ کہتے ہیں:

    یاد رکھنا ہی محبّت میں نہیں ہے سب کچھ
    بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

    جذبات اور احساسات کی شدّت کے ساتھ اردو غزل میں روایتی موضوعات کو بہت خوب صورتی سے نبھانے والے شاعر جمال احسانی کی آج برسی ہے۔ تشبیہات اور استعاروں سے اپنی شاعری کو تازگی اور دل کشی عطا کرنے والے جمال احسانی 10 فروری 1998ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    اردو کے معروف شاعر جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا۔ شعر و ادب کی دنیا میں انھیں‌ جمال احسانی کے نام سے شہرت نصیب ہوئی۔ وہ 1951ء میں سرگودھا میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جن کے بزرگ متحدہ ہندوستان کے شہر پانی پت سے تعلق رکھتے تھے۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازم ہوگئے۔ اس سے پہلے ان کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ صحافت بھی جمال احسانی کا ایک حوالہ ہے۔ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بحیثیت معاون مدیر وابستہ رہے تھے۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں بطور شاعر جمال احسانی نے پہچان بنانا شروع کی اور جلد ان کا شمار خوش فکر شعرا میں ہونے لگا۔ جمال احسانی کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    معروف شاعر جمال احسانی کے شعری مجموعے بعنوان ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شایع ہوئے۔

    جمال احسانی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

  • جمال احسانی: ایک منفرد غزل گو شاعر

    جمال احسانی: ایک منفرد غزل گو شاعر

    جمال احسانی نے محبّت کرنے والوں کو ایک نیا راستہ یوں دکھایا تھا۔

    یاد رکھنا ہی محبّت میں نہیں ہے سب کچھ
    بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

    جذبات اور احساسات کی شدّت کے ساتھ اردو غزل کے روایتی موضوعات کو خوب صورت تشبیہات اور استعارے سے سجاتے ہوئے تازگی عطا کرنے والے ممتاز شاعر جمال احسانی کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 10 فروری 1998ء کو دارِ بقا کو لوٹ گئے تھے۔

    جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا اور ان کا تخلّص جمال۔ شعروادب کی دنیا میں انھیں‌ جمال احسانی کے نام سے شہرت اور مقام بھی ملا۔ 1951ء کو سرگودھا میں پیدا ہونے والے جمال احسانی کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر پانی پت سے تھا جو تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل اور مشہور علاقہ ہے۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازمت اختیار کرلی۔ اس وقت تک ان کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ صحافت بھی جمال احسانی کا ایک حوالہ ہے کیوں کہ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے۔ ان روزناموں‌ میں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں جمال احسانی نے اپنی تخلیقات کی وجہ سے پہچان حاصل کرنا شروع کی اور جلد ان کا شمار اہم غزل گو شعرا میں ہونے لگا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    ان کے شعری مجموعوں میں ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شامل ہیں۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

  • تارے کو مہتاب کرنے والے جمال احسانی کی برسی

    تارے کو مہتاب کرنے والے جمال احسانی کی برسی

    آج اردو زبان کے ممتاز غزل گو شاعر جمال احسانی کی برسی ہے۔ وہ 10 فروری 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا، انھوں نے تخلّص جمال اختیار کیا۔ 1951ء کو سرگودھا میں پیدا ہونے والے جمال احسانی کا خاندان پانی پت کا تھا۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازمت اختیار کرلی۔ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں شاعری کا آغاز کرنے والے جمال احسانی بہت جلد اہم غزل گو شعرا میں شمار ہونے لگے تھے۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    ان کے شعری مجموعوں میں ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شامل ہیں۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے