Tag: جمال خاشقجی

  • سعودی ولئ عہد کو امریکا نے خاشقجی قتل کیس میں استثنیٰ دے دیا

    سعودی ولئ عہد کو امریکا نے خاشقجی قتل کیس میں استثنیٰ دے دیا

    لندن: سعودی ولئ عہد محمد بن سلمان کو امریکا نے خاشقجی قتل کیس میں استثنیٰ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق عرب صحافی جمال خاشقجی قتل کیس کے مقدمے سے امریکا نے سعودی ولئ عہد کو مستثنیٰ قرار دے دیا، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔

    امریکی حکومت کی جانب سے قانونی کارروائی سے استثنیٰ کی تجویز نے صحافی جمال خاشقجی کی بنائی گئی این جی او ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ کے نمائندگان، ان کی منگیتر اور دیگر حامیوں میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل اگنیس کالامرڈ نے استثنیٰ کی سفارش کو بڑا دھوکا قرار دے دیا، جمعہ کے روز اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں انھوں نے لکھا کہ جمال خاشقجی آج ایک بار پھر انتقال کر گئے۔

    کیا محمد بن سلمان کو وزیر اعظم بننے کے بعد خاشقجی مقدمے میں استثنیٰ حاصل ہو گیا؟

    ادھر امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی عدالت میں پیش کی گئی تجویز میں کہا گیا تھا کہ سعودی ولئ عہد محمد بن سلمان اس وقت سعودی حکومت کے وزیر اعظم ہیں، لہٰذا بطور سربراہ سلطنت انھیں اس کیس سے استثنیٰ حاصل ہے۔

    امریکی محکمہ انصاف نے جمعرات کی رات دیر گئے اس سفارش کی دستاویز جمع کرائی۔

  • سعودی صحافی جمال خاشقجی قتل میں ملوث ایک ملزم گرفتار

    سعودی صحافی جمال خاشقجی قتل میں ملوث ایک ملزم گرفتار

    پیرس/انقرہ/ریاض : معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ملزم فرانس سے گرفتار ہوگیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث ملزم خالد الاوطیبی کو فرانس کے چارلس دی گولے ایئرپورٹ سے کچھ دیر قبل ہی گرفتار کیا گیا ہے۔

    مذکورہ شخص امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی کو قتل کرنے والے 26 افراد میں سے ایک ہے جن کی گرفتاری کےلیے ترکی کی جانب سے کوششیں جاری ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق 33 سالہ شخص سابق سعودی شاہی گارڈ رہ چکا ہے جو عدالتی حراست تھا اور اپنے اصل نام سے سفر کررہا تھا۔

    واضح رہے کہ صحافی جمال خاشقجی سعودی حکومت باالخصوص ولی عہد محمد بن سلمان کے شدید ناقد تھے جنہیں اکتوبر 2018 میں استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں بےدردی سے قتل کرکے لاش کو تیزاب میں ڈال دیا تھا۔

    جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سعودی حکومت نے کہا تھا کہ جاسوسوں کی ایک ٹیم واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی کو ریاست واپس لانے کےلیے گئی تھی تاہم آپریشن کے دوران انہوں نے خاشقجی کو قتل کردیا لیکن ترکش حکام نے کہا تھا کہ جاسوسوں نے صحافی کو سعودی حکومت کے اعلیٰ حکام کے حکم پر قتل کیا تھا۔

  • جمال خاشقجی کی منگیتر کا کینیڈین گلوکار جسٹن بیبر سے بڑا مطالبہ

    جمال خاشقجی کی منگیتر کا کینیڈین گلوکار جسٹن بیبر سے بڑا مطالبہ

    جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے کینیڈین گلوکار جسٹن بیبر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے قاتلوں کے لیے کنسرٹ نہ کریں۔

    تفصیلات کے مطابق مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے جسٹن بیبر کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں انھوں نے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب میں اپنا کنسرٹ منسوخ کر دیں۔

    خدیجہ نے لکھا کہ آپ کو دنیا کو ایک واضح پیغام دینا چاہیے کہ آپ کا نام، ٹیلنٹ اور آپ کی موسیقی ایسے ملک کے لیے نہیں ہے جہاں ناقدین کا قتل ہو۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں جسٹن بیبر کا میوزک کنسرٹ 5 دسمبر کو منعقد ہو رہا ہے، ان کی یہ پرفارمنس سعودی عرب کی پہلی گراں پری ریس کے انعقاد کے موقع پر طے شدہ ہے۔

    واشنگٹن پوسٹ کے سعودی صحافی جمال خاشقجی کو 2018 میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں بے دردی سے قتل کیا گیا تھا، وہ سعودی حکومت کے ناقد مانے جاتے تھے، ان کی منگیتر خدیجہ چنگیز اب بھی ان کے لیے انصاف کی طلب گار ہیں، اور وہ قتل کے بعد سے ولئ عہد محمد بن سلمان کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔

    خدیجہ نے ان تین برسوں میں اس سلسلے میں ترکی، امریکا اور یورپی ممالک میں بہت ساری تقریریں کی ہیں، ان کا مؤقف ہے کہ جمال کے قاتلوں کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

  • جمال خاشقجی کے قاتلوں نے کس ملک میں تربیت حاصل کی؟ امریکی اخبار کا دعویٰ

    جمال خاشقجی کے قاتلوں نے کس ملک میں تربیت حاصل کی؟ امریکی اخبار کا دعویٰ

    واشنگٹن: امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں نے امریکا میں پیرا ملٹری ٹریننگ حاصل کی۔

    تفصیلات کے مطابق نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں نے امریکا میں پیرا ملٹری ٹریننگ حاصل کی تھی، یہ تربیت ٹیئر وَن گروپ نے دی، دفاعی نوعیت کی یہ تربیت سعودی رہنماؤں کی حفاظت کے لیے تھی۔

    جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 4 سعودی شہریوں نے امریکی محکمہ خارجہ سے منظور شدہ معاہدے کے تحت قتل سے ایک سال قبل پیرا ملٹری ٹریننگ حاصل کی، قاتلوں کو سعودی رائل گارڈز کی تربیت کا لائسنس پہلی مرتبہ 2014 میں جاری کیا گیا تھا۔

    تاہم اخبار کا کہنا ہے کہ کیا امریکی حکام اس آپریشن سے آگاہ تھے؟ اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

    اس رپورٹ پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ میڈیا رپورٹنگ میں کسی دفاعی برآمدی لائسنسنگ سرگرمی پر الزام پر قانون کے تحت محکمہ کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔

    نیڈ پرائس نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کے بارے میں امریکی پالیسی یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی کو ترجیح اور انسانی حقوق کا احترام ہو، تاہم انھوں نے بتایا کہ مذکورہ تربیت سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں شروع ہوئی اور ٹرمپ کے دور کے پہلے سال تک جاری رہی تھی۔

    واضح رہے کہ جمال احمد خاشقجی سعودی عرب کے شہری اور صحافی تھے، وہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے کالم لکھتے تھے، العرب نیوز چینل کے ایڈیٹر ان چیف بھی تھے، وہ مدینہ میں 1958 میں 13 اکتوبر کو پیدا ہوئے اور ترکی کے شہر استنبول کے سفارت خانے میں انھیں 2 اکتوبر 2018 کو قتل کیا گیا۔

  • خاشقجی قتل پر امریکی رپورٹ، سعودی عرب کا ردعمل آگیا

    خاشقجی قتل پر امریکی رپورٹ، سعودی عرب کا ردعمل آگیا

    ریاض: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر امریکی کانگریس کو پیش کی جانے والی رپورٹ پر سعودی عرب نے ردعمل دے دیا، سعودی دفتر خارجہ نے رپورٹ کے مندرجات کو سختی سے مسترد کیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی دفتر خارجہ نے سعودی شہری اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی کانگریس کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مندرجات کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔

    سعودی وزارت خارجہ نے جمعے کو اپنے بیان میں کہا کہ سعودی حکومت اپنے شہری جمال خاشقجی کے قتل کے جرم سے متعلق کانگریس کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مندرجات کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔

    دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت مبینہ رپورٹ میں سعودی قیادت سے متعلق منفی، غلط اور ناقابل قبول نتائج کو قطعی طور پر مسترد کرتی ہے، یہ نتائج کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ہیں، رپورٹ بہت ساری غلط معلومات اور نتائج پر مشتمل ہے۔

    بیان میں دفتر خارجہ نے اس حوالے سے مملکت کے متعلقہ اداروں کے سابقہ بیانات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ جمال خاشقجی کا قتل سنگین جرم ہے، یہ سعودی قوانین اور اس کی اقدار کی کھلی خلاف ورزی پر مشتمل ہے، اس جرم کا ارتکاب جس گروہ نے کیا اس نے نہ صرف یہ کہ مملکت کے تمام قوانین کو پس پشت ڈالا بلکہ اس نے متعلقہ اداروں کو حاصل اختیارات کی بھی خلاف ورزیاں کی ہیں۔

    دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ گروپ کے افراد کے ساتھ پوچھ گچھ کے حوالے سے تمام ضروری عدالتی اقدامات کیے گئے اور انہیں عدالت کے حوالے کیا گیا، سعودی عدالت نے ان کے خلاف حتمی سزاؤں کے فیصلے سنائے جن پر جمال خاشقجی کے اہل خانہ نے اطمینان کا اظہار کیا۔

    وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس جیسی رپورٹ جو غلط اور ناقابل قبول نتائج پر مشتمل ہے ایسے وقت میں جاری کی گئی جب سعودی عرب اس گھناؤنے جرم کی مذمت کر چکا ہے اور اس کی قیادت اس قسم کے افسوسناک واقعات کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کر چکی ہے۔

    بیان میں مزید کہا گیا کہ سعودی عرب اپنی قیادت، ریاستی بالا دستی اور عدالتی خود مختاری کو زک پہنچانے والی ہر بات کو مسترد کرتا ہے۔

    وزارت خارجہ کے مطابق سعودی عرب اور امریکا کے درمیان شراکت مضبوط اور مستحکم ہے، دونوں ملکوں کے ریاستی ادارے مختلف شعبوں میں شراکت کے استحکام کے لیے کوشاں ہیں، خطے اور عالمی امن و استحکام کے لیے باہمی تعاون اور زبردست یکجہتی پیدا کیے ہوئے ہیں۔

    خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر سنہ 2018 کو ترکی کے شہر استنبول میں واقع قونصلیٹ میں اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ اپنی طلاق سے متعلق کاغذی کارروائی مکمل کروانے وہاں گئے تھے۔

    انٹرنیشنل نیوز نیٹ ورکس کے رپورٹرز کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق رپورٹ شواہد اور معتبر معلومات سے خالی ہے۔ رپورٹ کے اجرا کے بعد امریکی دفتر خارجہ نے بیان جاری کر کے کہا کہ امریکا سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنے کے سلسلے میں پرعزم ہے۔

  • جمال خاشقجی کے قاتلوں کو ہر کوئی جانتا ہے، ترک صدر کےساتھی کا بیان

    جمال خاشقجی کے قاتلوں کو ہر کوئی جانتا ہے، ترک صدر کےساتھی کا بیان

    انقرہ: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں سے متعلق ترک عہدے دار کا اہم بیان سامنے آ گیا ہے، ترک صدر کے اطلاعاتی امور کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قاتلوں کو ہر کوئی جانتا ہے۔

    ترک میڈیا کے مطابق رجب طیب اردوان کے اطلاعاتی امور کے ڈائریکٹر فاحریتین آلتون نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں کو ہر کوئی جانتا ہے۔

    انھوں نے کہا واشنگٹن پوسٹ کے رائٹر جمال خاشقجی کو 2 سال قبل سعودی عرب کے استنبول قونصل خانے میں گھات لگا کر قتل کیا گیا تھا، قاتل دستے میں فرانزک ماہر اور اسسٹنٹ شامل تھے، قاتل ٹیم کے ہاتھوں میں آرا مشین بھی تھی۔

    فاحریتین آلتون نے یہ بھی کہا کہ جمال خاشقجی کے قاتلوں کو عدلیہ جانے سے روکنے کے لیے اغوا کر لیا گیا تھا، اصل قاتلوں کو بچانے کے لیے عدلیہ کو غلط کیس پیش کیا گیا اور اصلی قاتلوں کو بچا لیا گیا۔

    انھوں نے کہا خاشقجی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ترکی کی پولیس، استغاثہ اور مواصلات کے ماہر دن رات کام کر رہے ہیں تاکہ تمام قاتلوں کو عدلیہ کے روبرو پیش کیا جا سکے، ہم عدلیہ اور انصاف کی فراہمی کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

    اطلاعاتی امور کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ہم سب جمال خاشقجی کے قاتلوں کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں اور ان سے احتساب کرنے اور انھیں ترکی کے حوالے کرنے کے مطالبے سمیت سعودی قاتلوں کو بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں عوام کی کھلی عدالت میں پیش ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

  • جمال خاشقجی کے قاتلوں کو سزائے موت

    جمال خاشقجی کے قاتلوں کو سزائے موت

    ریاض: معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں پانچ ملزمان کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی عرب ایک عدالت نے جمال خاشقجی قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 5 ملزمان کو سزائے موت اور 3 کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی ہے۔

    پبلک پراسیکیوٹر نے نیوز کانفرنس میں بتایا کہ سعودی رائل کورٹ کے سابق ایڈوائزر سے تفتیش کی گئی لیکن نامزد نہیں کیاگیا جب کہ سابق ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمدالاسیری ناکافی شواہد پر رہا کر دیا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی میرے عہد میں قتل ہوا، ذمہ داری میری ہے، محمدبن سلمان

    یاد رہے کہ معروف امریکی اخبار سے منسلک صحافی و کالم نگار جمال خاشقجی گزشتہ سال 2 اکتوبرکو ضروری کاغذات کے لیے استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے گئے تھے تاکہ اپنی ترک نژادمنگیتر سے شادی کرسکیں اور سفارت خانے سے ہی لاپتہ ہوگئے تھے تاہم عالمی دباؤ کے بعد سعودی عرب نے جمال خاشقجی کی استنبول کے سعودی سفارت خانے میں موت کی تصدیق کی تھی۔

    سعودی صحافی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کی پالیسیوں و وژن 2030 کے سخت ناقد تھے جس کی وجہ سے انہیں ریاست سعودیہ میں جان کا خطرہ لاحق جس کے باعث وہ کئی برسوں سے امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

  • مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر کو کس بات کا افسوس ہے؟

    مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر کو کس بات کا افسوس ہے؟

    مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے کہا ہے کہ انہیں اطالوی سپر کپ کے سعودی عرب میں انعقاد سے دلی افسوس ہوا ہے۔

    روم میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خاشقجی کی منگیتر ہیٹس کینگز کا کہنا تھا کہ یہ نہایت افسوسناک ہے کہ ایک ایسا ملک جس پر ایک ریاستی قتل کا الزام ہے، اور اس کے قاتل تاحال آزاد ہیں، اسے یہ تحفہ دیا گیا کہ اطالوی ان کی سرزمین پر فٹبال کھیلیں۔

    انہوں نے کہا کہ میں اس کے معاشی پہلوؤں سے واقف ہوں اور اس کا بائیکاٹ کرنا ممکن نہیں ہوگا، لیکن کیا اس کے سیاسی اثرات نہیں ہوں گے؟

    واضح رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گزشتہ سال 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

    ان کے قتل پر سعودی حکومت پر خاصی تنقید کی گئی۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی سعودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے صحافی کے قتل کی ترکی میں شفاف تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    سعودی صحافی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کی پالیسیوں اور وژن 2030 کے سخت ناقد تھے جس کی وجہ سے انہیں اپنے ملک میں جان کا خطرہ لاحق تھا اور وہ کئی برسوں سے امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

    بعد ازاں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی طور پر خود کو اس قتل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

  • جمال خاشقجی کے قتل پر اقوام متحدہ کی رپورٹ بے بنیاد ہے، عادل الجبیر

    جمال خاشقجی کے قتل پر اقوام متحدہ کی رپورٹ بے بنیاد ہے، عادل الجبیر

    ریاض: سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے جمال خاشقجی کے قتل پر اقوام متحدہ کی رپورٹ کو بے بنیاد قرار دے دیا۔

    عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کچھ نیا نہیں یہ باتیں پہلے ہی میڈیا پر آچکی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں لگائے گئے بے بنیاد الزامات رپورٹ کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں، اقوام متحدہ نے اپنی غیر پابند رپورٹ میں پہلے سے میڈیا میں شائع اور نشر شدہ اشاعت کا اعادہ کیا ہے۔

    عادل الجبیر نے کہا کہ اس وقت سعودی عرب میں جمال خاشقجی قتل کیس کی تحقیقات اور ان کے قتل میں ملوث مشتبہ افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جارہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سعودی عدلیہ خاشقجی کیس میں مکمل بااختیار مجاز اتھارٹی ہے اور وہ مکمل آزادی کے ساتھ کام کررہی ہے۔

    مزید پڑھیں: سعودی ولی عہد سے جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش ہونی چاہیے، اقوام متحدہ

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے تفتیش ہونی چاہئے، شواہد موجود ہیں سعودی حکام قتل میں ملوث ہیں۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ سعودی صحافی کا قتل بین الاقوامی جرم ہے، قتل ماورائے عدالت ہے ذمے دارسعودی عرب ہے، سفارتی مراعات کاغلط استعمال کیاگیا، سعودی عرب کو ترکی سے معافی مانگنی چاہئے۔

    خیال رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ سال 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں اپنی منگیتر کے کاغذات لینے کے لیے گئے تھے، جہاں انھیں قتل کر دیا گیا۔

    بعد ازاں ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی سعودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے قتل کی تحقیقات کرنے کی درخواست کی تھی۔

  • صدر ٹرمپ اور سعودی ولی عہد کے درمیان رابطہ، خطے کی صورت حال پر گفتگو

    صدر ٹرمپ اور سعودی ولی عہد کے درمیان رابطہ، خطے کی صورت حال پر گفتگو

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا اس دوران خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی شہزادہ محمد بن سلمان اور صدر ٹرمپ نے مل کر دہشت گردی کے خاتمے کے عزل کا اظہار کیا اور خصوصی طور پر مشرقی وسطیٰ کی صورت حال پر گفتگو کی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اس ٹیلی فونک گفتگو کے دوران سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق تحقیقات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

    امریکی وائٹ ہاؤس نے ٹرمپ اور محمد بن سلمان کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر خاشقجی قتل کیس میں پیش رفت اور کیس جلد مکمل ہونے کے منتظر ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سال 2 اکتوبر کو سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

    خاشقجی قتل کیس، امریکا نے 16 سعودی شہریوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی

    خیال رہے کہ ترک صدر رجیب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی عرب کی اعلیٰ ترین سطح سے آیا تھا، سعودی ولی عہد کے اقدامات کا تحمل سے انتظار کررہے ہیں۔