Tag: جمال خاشقجی قتل کیس

  • کیا محمد بن سلمان کو وزیر اعظم بننے کے بعد خاشقجی مقدمے میں استثنیٰ حاصل ہو گیا؟

    کیا محمد بن سلمان کو وزیر اعظم بننے کے بعد خاشقجی مقدمے میں استثنیٰ حاصل ہو گیا؟

    ریاض: صحافی جمال خاشقجی قتل کیس میں شہزادہ محمد بن سلمان کو استثنیٰ ملنے کا دعویٰ سامنے آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی ولئ عہد کے وکلا نے 3 اکتوبر پیر کے روز ایک امریکی عدالت کو بتایا کہ چوں کہ ولی عہد کو اب سلطنت کا وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا ہے، اس لیے انھیں یقینی طور پر کسی بھی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق محمد بن سلمان کے وکلا نے اپنی دلیل میں کہا ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب نے جو شاہی حکم نامہ جاری کیا ہے اس کی بنیاد پر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عہدے اور حیثیت کی بنیاد پر ولی عہد شہزادہ استثنیٰ کے حق دار ہیں۔

    محمد بن سلمان کے وکلا نے عدالت سے مقدمے کو خارج کرنے کی درخواست کرنے والی اپنی عرضی میں ایسے دوسرے کیسز کا حوالہ بھی دیا ہے جہاں امریکا نے غیر ملکی سربراہ مملکت کے لیے استثنیٰ کو تسلیم کیا ہے۔

    عدالت نے سماعت کے بعد امریکی محکمہ انصاف سے کہا کہ اس بارے میں وہ اپنی رائے کا اظہار کرے کہ آیا شہزادہ محمد بن سلمان کو استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں۔

    امریکی محکمہ انصاف نے کہا کہ چوں کہ محمد بن سلمان کو گزشتہ ہفتے ہی وزارت عظمی کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے اس لیے، بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں اسے جواب دینے کے لیے کم سے کم 45 دن کی مہلت دی جائے۔

    یاد رہے کہ 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا اور اس سلسلے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف امریکا کی ایک عدالت میں قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔

    امریکی انٹیلیجنس کا خیال ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے ہی ان کے قتل کا حکم دیا تھا، جو گزشتہ کئی برس سے مملکت کے عملی حکمران بھی ہیں۔ یہ مقدمہ خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیزی اور خاشقجی کے قائم کردہ انسانی حقوق کے گروپ نے مشترکہ طور پر دائر کیا تھا۔

    مقدمے میں محمد بن سلمان کے ساتھ ہی ان 20 سے زائد دیگر سعودی شہریوں پر بھی مقدمہ دائر کیا گیا ہے، جن پر قتل کا آپریشن انجام دینے کا الزام ہے۔

  • سعودی صحافی کے قتل کیس کی سعودی عرب میں پہلی سماعت

    سعودی صحافی کے قتل کیس کی سعودی عرب میں پہلی سماعت

    ریاض: سعودی عرب میں مقتول صحافی جمال خاشقجی کیس کی سماعت کا آغاز ہو گیا ہے، اس سلسلے میں سعودی عدالت میں آج پہلی سماعت ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس کی سعودی عرب میں پہلی سماعت ہوئی، سعودی عدالت میں قتل کے الزام میں ملوث 11 افراد پیش ہوئے۔

    [bs-quote quote=”انتظار کر رہے ہیں کہ ترکی ثبوت فراہم کرے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”سعودی اٹارنی جنرل”][/bs-quote]

    کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ترکی سے ابھی تک قتل کے ثبوت نہیں فراہم کیے گئے۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ وہ انتظار کر رہے ہیں کہ ترکی ثبوت فراہم کرے، جس نے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

    یاد رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے میں اپنی منگیتر کے کاغذات لینے کے لیے گئے تھے، جہاں انھیں قتل کر دیا گیا۔

    20 اکتوبر کو سعودی عرب نے با ضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔


    یہ بھی پڑھیں:  جمال خاشقجی کو قتل کرکے کس طرح لے جایا گیا؟ ویڈیو سامنے آگئی


    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سخت ناقد تھے اور اپنے کالمز میں ان پر یمن جنگ کے حوالے سے سخت تنقید کرتے تھے، خاشقجی کو سعودی ولی عہد کے کہنے پر بھی قتل کرنے کا الزام ہے۔

    تین دن قبل ایک ترکی کے ٹی وی پر ایک اہم ویڈیو منظرِ عام پر آئی، جس میں دیکھا گیا کہ پانچ بیگز تھامے تین افراد سعودی سفارت خانے سے نکلے، ان بیگوں میں جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے تھے جس کو سعودی سفارت خانے سے ایک منی بس کے ذریعے رہائش گاہ کے گیراج تک لایا گیا۔

    ترکش ٹی وی کے مطابق بیگز میں موجود لاش کے ٹکڑوں کو تیزاب سے جلا دیا گیا تا کہ کوئی سراغ نہ مل سکے۔

  • جمال خاشقجی قتل کیس، سی آئی اے کے پاس بن سلمان کی کال ریکارڈنگ موجود ہے، ترک میڈیا

    جمال خاشقجی قتل کیس، سی آئی اے کے پاس بن سلمان کی کال ریکارڈنگ موجود ہے، ترک میڈیا

    انقرہ : ترک اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی کے پاس محمد بن سلمان کی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق فون کال کی ریکارڈنگ موجود ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں بے دردی سے قتل ہونے والی سعودی صحافی و کالم نویس جمال خاشقجی کے قتل کیس میں مزید نئے انکشافات ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امریکی خفیہ ایجنسی کے پاس جن فون کالز کی ریکارڈنگ موجود ہیں اس میں مبینہ طور پر محمد بن سلمان نے امریکا میں موجود سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلمان کو فون کرکے صحافی کو خاموش کروانے کا کہا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان اور خالد بن سلمان کی فون کال ریکارڈنگ سے متعلق خبر ترک صحافی عبد القادر سیلوی نے دی تھی۔

    یاد رہے کہ ترک حکام کی جانب سے جمال خاشقجی کے قتل کے کچھ روز بعد ایک آڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر لائی گئی تھی جس میں مقتول صحافی اور قاتلوں کے درمیان گفتگو کو سنا جاسکتا تھا۔

    ترک خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ حکام کی جانب سے منظر عام پر آنے والی کال ریکارڈنگ میں سنا جاسکتا ہے کہ جمال خاشقجی قاتلوں سے کہہ رہے ہیں کہ ’چھوڑوں میرا ہاتھ تمہیں پتہ ہے کیا کررہے ہو‘۔

    واضح رہے کہ کچھ روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ سی آئی اے کی رپورٹ قبل ازوقت ہے حتمی رپورٹ آنے تک کچھ نہیں کہہ سکتے مگر ایسا ہوسکتا ہے کہ قتل کا حکم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا ہو۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • جمال خاشقجی قتل کی تفتیش عالمی برادری سے زیادہ ہمارے لیے اہم ہے، سعودی وزیر خارجہ

    جمال خاشقجی قتل کی تفتیش عالمی برادری سے زیادہ ہمارے لیے اہم ہے، سعودی وزیر خارجہ

    ریاض: سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے معاملے میں منصفانہ تفتیش بین الاقوامی برادری سے زیادہ سعودی عرب کے لیے اہم ہے۔

    عرب میڈیا کے مطابق سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ریڈ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    انہوں نے ترکی سے اپیل کی کہ وہ اس قتل سے متعلق مزید شواہد سعودی استغاثہ میں پیش کرے تاکہ مکمل حقائق جاننے میں مدد مل سکے، ترکی اس امر کا اظہار پہلے ہی کرچکا ہے ولی عہد کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    عادل الجبیر نے کہا کہ مملکت کی قیادت امریکا کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات، شراکت کا تحفظ اور انہیں مضبوط بنانے کی خواہش مند ہے، امریکا نے خاشقجی کے قتل میں ملوث جن افراد پر پابندیاں عائد کی ہیں وہ سب شخصی نوعیت کی ہیں ان کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    یہ پڑھیں: سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے قتل کاحکم دیا، امریکی میڈیا کا دعوی

    سعودی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ سعودی عرب نے پہلے خود جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث مشتبہ افراد کے خلاف اقدام اُٹھائے جس کے بعد مختلف ملکوں نے ان مشتبہ افراد پر پابندیاں عائد کیں۔

    عادل الجبیر نے کہا کہ خاشقجی کے معاملے میں اپنا موقف تبدیل نہیں کیا، قتل کی کارروائی کرنے والوں نے گمراہ کن اور جھوٹی رپورٹ پیش کی جب اس رپورٹ میں پیش کردہ تفصیل حقائق کے منافی ظاہر ہوئی تو سعودی فرمانروا نے سعودی پراسیکیوتر کو تحقیقات کا حکم دیا۔

    انہوں نے کہا کہ جمال خاشقجی کے معاملے میں کوئی کہانی نہیں سنائی بلکہ ملنے والی معلومات کو شفاف انداز میں سامنے لائے اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔