Tag: جمال خاشقجی کی خبریں

  • سعودی شاہی خاندان نے ولی عہدی کی فہرست میں تبدیلی پرغورشروع کردیا

    سعودی شاہی خاندان نے ولی عہدی کی فہرست میں تبدیلی پرغورشروع کردیا

    ریاض: سعودی شاہی خاندان کے اراکین نے مملکت کے تخت کے آئندہ امیدوار کے طور پر ولی عہد محمد بن سلمان کے بجائے شہزادہ احمد کا نام لینا شروع کردیا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق شاہی خاندان کے قریبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ کئی ارکان اب محمد بن سلمان کو ولی عہد برقرار رکھنے کے حق میں نہیں ہیں اور انہوں نے آئندہ بادشاہ کے لیے 76 سالہ احمد بن عبدالعزیز کا نام لینا شروع کردیا ہے۔

    احمد بن عبد العزیز ، موجودہ شاہ سلمان کے واحد زندہ حقیقی بھائی ہیں اور وہ گزشتہ چالیس سے نائب وزیرداخلہ کے منصب پر فائز ہیں اور انہیں ایک موضوع امید وار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سینئر امریکی حکام نے بھی حالیہ دنوں میں سعودی مشیروں کو باور کرایا ہے کہ وہ بطور فرما ن روائے مملکت شہزادہ احمد بن عبد العزیز کی حمایت کریں گے۔

    خیال رہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے سعودی شاہ سلمان اور ان کے ولی عہد محمد بن سلمان بے پناہ دباؤ کا شکار ہیں تاہم وہ اس معاملے کو مسلسل اپنی مملکت کا داخلی معاملہ قرار دے کر عالمی دباؤ کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ محمد بن سلمان ممکنہ طور پر صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہوسکتے ہیں۔

    ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ آل سعود کی طاقت ور شاخوں میں سے درجنوں شہزادے اور ان کے کزن ولی عہد ی تبدیلی کے حق میں ہیں ،تاہم وہ اس وقت تک کوئی ردعمل نہیں دیں گے جب تک 82 سالہ شاہ سلمان زندہ ہیں۔

    کہا جارہا ہے کہ ولی عہدی کی لائن میں تبدیلی کے خواہش مند شہزادے جانتے ہیں کہ شاہ سلمان کبھی بھی اپنے چہیتے بیٹے کے خلاف ایسے کسی عمل کی حمایت نہیں کریں گے ۔ لہذا خاندان کے ارکان آپس میں مشاورت کررہے ہیں کہ شاہ سلمان کے انتقال کے بعد محمد بن سلمان کے بجائے ان کے چچا احمد بن عبدالعزیز کو تخت نشین کردیا جائے۔

    واضح رہے کہ سعودی حکومت نے صحافی کے سعودی قونصل خانے میں قتل کی تصدیق کی ہے اور 18 سعودی شہریوں کو حراست میں لینے اور انٹیلی جنس کے 4 افسران کو معطل کرنے جیسے اقدامات بھی کیے ہیں لیکن ترکی اور دنیا بھر کی جانب سے بار بار مطالبے کے باوجود صحافی کی لاش سے متعلق تاحال کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔

    قبل ازیں ترک صدر نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے کالم میں لکھا تھا کہ صحافی کے قتل کا حکم سعودی اعلیٰ قیادت نے دیا تھا، ترک صدر کے مشیر یاسین اکتے نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے کر کے تیزاب میں تحلیل کردیے گئے۔

    یاد رہے کہ سعودی عرب کے محکمہ پبلک پراسیکیوشن نے ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث پانچ افراد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔پبلک پراسیکیوشن کا کہنا ہے کہ ان پانچ افراد نے جمال خاشقجی کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔

    دوسری جانب ترکی جس کی حدود میں قائم سعودی سفارت خانے میں جمال خاشقجی کا قتل ہوا، بضد ہے کہ اس قتل میں محمد بن سلمان براہ راست ملوث ہیں اور ان کے حکم پر ہی صحافی کو قتل کیا گیا۔ قتل کے بعد کام انجام دینے والوں نے ولی عہد کو اس کی رپورٹ بھی کی۔

  • جمال خاشقجی کا قتل سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے: سعودی وزیرِ خارجہ

    جمال خاشقجی کا قتل سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے: سعودی وزیرِ خارجہ

    ریاض: سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل کو بین الاقوامی معاملہ تسلیم کرنےسے انکار کردیا ہے ، سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ ہماری عدلیہ فعال ، موثر اور آزاد ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پر لائی گئی جس کے بعد سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے صحافیوں کے ساتھ نیوز کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کا پبلک پراسیکیوشن ابھی تک بہت سے سوالوں کے جواب کی تلاش میں ہے اور وہ تحقیقات کررہا ہے۔

    میڈ یا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کیس میں سعودی عرب کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عادل الجبیر نے قطری میڈیا پر الزام عائد کیا کہ اس نے سعودی عرب کے خلاف مہم برپا کررکھی ہے اورجمال خاشقجی کے قتل کیس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ابھی تک سعودی عرب کے خلاف مہم جاری ہے۔

    انہوں نے واضح کیا کہ اس کیس میں مقتول اور تمام ملزمان سعودی شہری ہیں اور یہ واقعہ سعودی قونصل خانے میں رونما ہوا تھا۔ انھوں نے سعودی حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ قتل کے اس واقعے میں ملوث تمام ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔

    سعودی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ خاشقجی کی موت کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن اس کیس کے سبب سعودی عرب کی بین الاقوامی پالیسیوںمیں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لائی جائے گی۔

    یاد رہے کہ سعودی عرب کے محکمہ پبلک پراسیکیوشن نے ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث پانچ افراد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔پبلک پراسیکیوشن کا کہنا ہے کہ ان پانچ افراد نے جمال خاشقجی کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔

    سعودی حکام نے ان افراد سمیت کل اکیس ملزموں سے پوچھ تاچھ کی ہے اور ان میں سے گیارہ پر قتل کے الزام میں فرد جرم عاید کی گئی ہے۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ فوجداری نظام کے تحت فی الوقت ان ملزموں کے نام ظاہر نہیں کیے جاسکتے۔

  • جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سیکیورٹی کیمروں سے’چھیڑ چھاڑ‘ کی کوشش کی گئی: ترک اخبار

    جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سیکیورٹی کیمروں سے’چھیڑ چھاڑ‘ کی کوشش کی گئی: ترک اخبار

    استنبول : ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کو چھپانےکے لیے سعودی عرب کے قونصل خانے کی انتظامیہ نے سیکیورٹی کیمروں کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق ترک حکومت کی حمایتی صباح نیوز ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ دو اکتوبر کو جس دن جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا، اس دن قونصل خانے کے اسٹاف نے کیمروں کو بند کرنے کی کوشش کی ، نیوز ایجنسی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ قونصل خانے نے باہر قائم پولیس چیک پوسٹ کے کیمرے کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی تھی۔

    دعویٰ کیا جارہا ہے کہ چھ اکتوبر کو قونصل خانے کا ایک اسٹاف ممبر سیکیورٹی چیک پوسٹ میں گیا اور اس نے ویڈیو سسٹم تک رسائی حاصل اور ڈیجیٹل لاک کوڈ سسٹم میں ڈالا، تاہم اس سے کیمروں نے اپنا کام بند نہیں کیے بلکہ ویڈیو دیکھنے تک بھی رسائی بند کردی۔

    یاد رہے کہ سعودی عرب قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے قتل کا اعتراف کرچکا ہے تاہم ابھی تک ان کی لاش کے حوالے سے کوئی بات حتمی طور پر سامنے نہیں آئی ہے کہ آیا اس کا کیا کیا گیا؟ خاشقجی کے بیٹوں نے سعودیہ سے اپنی والد کی میت کی حوالگی کا مطالبہ بھی کررکھا ہے ۔ اطلاعات ہیں کہ ان کی لاش کے ٹکڑے کرکے کسی کیمیکل کے ذریعے اسے تلف کردیا گیا ہے۔

    صباح نیوزایجنسی نے کچھ عرصے قبل دعویٰ کیا تھا کہ ’حکومتی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا اور بعد ازاں لاش کے ٹکڑے کر کے 5 بریف کیسوں میں رکھا گیا تھا۔ یہ بریف کیس سعودی حکام اپنے ہمراہ سعودی عرب سے لائے تھے۔

    اخبار کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکام نے مزید بتایا کہ یکم اکتوبر کی رات ریاض سے استنبول پہنچنے والے 15 سعودی حکام میں سے مہر مرتب، صلاح اور طہار الحربی نے صحافی کے قتل میں کلیدی کردار ادا کیا اور انہی سعودی حکام نے صحافی کو قتل کر کے لاش کے ٹکڑے کیے تھے۔

    یاد رہے کہ مہر مرتب سعوی ولی عہد محمد بن سلمان کے معاون خصوصی ہیں جب کہ صلاح سعودی سائنٹیفک کونسل برائے فرانزک کے سربراہ ہیں اور سعودی آرمی میں کرنل کے عہدے پر فائز ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ صحافی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث تیسری اہم شخصیت طہار الحربی کو شاہی محل پر حملے میں ولی عہد کی حفاظت کرنے پر حال ہی میں لیفٹیننٹ سے سعودی شاہی محافظ کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔

    اس سے قبل برطانوی خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا تھا کہ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کو امریکی اخبار سے منسلک صحافی و کالم نویس کے سعودی سفارت خانے میں سفاکانہ قتل سے تین ہفتے قبل ہی اغواء کی سازش کا علم ہوگیا تھا۔

    خفیہ ایجنسی نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ جمال خاشقجی کو سعودی عرب کے شاہی خاندان کے کسی اہم فرد کی جانب سے ریاست کی جنرل انٹیلیجنس ایجنسی کو اغواء کرکے ریاض لانے کے احکامات دئیے گئے تھے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی جمال خاشقجی سعودی عرب کی قیادت میں کام کرنے والے عرب اتحاد کے یمن میں کیمیائی حملوں کی تفصیلات ظاہر کرنے والے تھے تاہم سعودی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے انہیں پہلے ہی سفارت خانے میں بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا۔

    دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوغان کا اصرار ہے کہ سعودی عرب بتائے کہ جمال کے قتل کا حکم کس نے صادر کیا تھا؟، ساتھ ہی وہ مصر ہے کہ قاتلوں پر استنبول کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے ۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں اس کیس کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر گرفتاریاں دیکھنے میں آئی ہیں اور متعدد اہم افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے۔

  • سعودی عرب نے شہزادہ خالد بن طلال کو رہا کردیا

    سعودی عرب نے شہزادہ خالد بن طلال کو رہا کردیا

    ریاض: سعودی عرب نے کرپشن کے خلاف مہم پر تنقید کرنے کے الزام میں گرفتار شہزادہ خالد بن طلال کو بالاخر رہا کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی حکام نےشہزادہ خالد بند طلال کو 11 ماہ قبل اس وقت حراست میں لیا تھا جب انہوں نے کرپشن کے الزام میں کی جانے والی سیکڑوں گرفتاریوں پر تنقید کی تھی۔

    شہزادہ خالد بن طلال کے قریبی رشتہ داروں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر شیئر کی گئی ہیں جن سے آشکار ہورہا ہے کہ وہ اب سعودی حکام کی جانب سے قید میں نہیں ہیں۔

    خالد بن طلال اس وقت کے سعودی حکمران شاہ سلمان کے بھتیجے ہیں ۔ ان کے ہمراہ ان کے بھائی شہزادہ الولید بن طلال کو بھی کرپشن کے خلاف جاری مہم میں درجنوں شہزادوں اور دیگر اہم شخصیات کے ہمراہ حراست میں لیا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ ان دنوں سعودی قیادت بالخصوص شہزادہ محمد بن سلمان پر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے سبب انتہائی شدید دباؤ ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ قیادت اس مسئلے کے حل کے لیے شاہی خاندان سے اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    یاد رہے کہ ماضی میں تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ شہزادوں اور کاروباری افراد کی گرفتاری کرپشن سے زیادہ طاقت کو اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھنے کےلیے کی گئی ہے۔

    رواں سال جنوری کے آخر میں سعودی پراسیکیوٹر جنرل آفس نے اعلان کیا تھا کہ اہم شخصیات کی گرفتاری اور ان سے ہونے والی سیٹلمنٹ کے نتیجے میں 100 ارب امریکی ڈالر سے زائد کی رقم خزانے میں شامل کی گئی ہے۔ گرفتار شدگان کو زیادہ تر ریاست کے بڑے ہوٹلوں میں رکھا گیا تھا، خالد بن طلال رٹز کارلٹن ہوٹل میں قید تھے۔

  • سعودی ولی عہد کے معاونِ خصوصی نے’جمال خاشقجی‘ کو قتل کیا، ترک اخبار کا دعویٰ

    سعودی ولی عہد کے معاونِ خصوصی نے’جمال خاشقجی‘ کو قتل کیا، ترک اخبار کا دعویٰ

    انقرہ: ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا ، بعد ازاں لاش کے ٹکڑے کر کے اسے پانچ بریف کیسوں میں چھپا کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق صباح نامی ترک اخبار کا دعویٰ ہے کہ ’حکومتی حکام نے انکشاف کیا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا اور بعد ازاں لاش کے ٹکڑے کر کے 5 بریف کیسوں میں رکھا گیا تھا۔ یہ بریف کیس سعودی حکام اپنے ہمراہ سعودی عرب سے لائے تھے۔

    اخبار کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکام نے مزید بتایا کہ یکم اکتوبر کی رات ریاض سے استنبول پہنچنے والے 15 سعودی حکام میں سے مہر مرتب، صلاح اور طہار الحربی نے صحافی کے قتل میں کلیدی کردار ادا کیا اور انہی سعودی حکام نے صحافی کو قتل کر کے لاش کے ٹکڑے کیے تھے۔

    یاد رہے کہ مہر مرتب سعوی ولی عہد محمد بن سلمان کے معاون خصوصی ہیں جب کہ صلاح سعودی سائنٹیفک کونسل برائے فرانزک کے سربراہ ہیں اور سعودی آرمی میں کرنل کے عہدے پر فائز ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ صحافی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث تیسری اہم شخصیت طہار الحربی کو شاہی محل پر حملے میں ولی عہد کی حفاظت کرنے پر حال ہی میں لیفٹیننٹ سے سعودی شاہی محافظ کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔

    قبل ازیں ترک صدر نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے کالم میں لکھا تھا کہ صحافی کے قتل کا حکم سعودی اعلیٰ قیادت نے دیا تھا، ترک صدر کے مشیر یاسین اکتے نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے کر کے تیزاب میں تحلیل کردیے گئے۔

    واضح رہے کہ سعودی حکومت نے صحافی کے سعودی قونصل خانے میں قتل کی تصدیق کی ہے اور 18 سعودی شہریوں کو حراست میں لینے اور انٹیلی جنس کے 4 افسران کو معطل کرنے جیسے اقدامات بھی کیے ہیں لیکن ترکی اور دنیا بھر کی جانب سے بار بار مطالبے کے باوجود صحافی کی لاش سے متعلق تاحال کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔