Tag: جمال خاشقجی

  • سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملے کو جلد از جلد حل کرنا ہوگا، ترک صدر اردوان

    سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملے کو جلد از جلد حل کرنا ہوگا، ترک صدر اردوان

    استنبول: ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ہمیں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملے کو جلد از جلد حل کرنا ہے، سعودی حکام کو ثبوت دینا ہوگا جمال خاشقجی سعودی قونصل خانے سے چلا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق دورہ ہنگری کے دوران ترک صدر طیب اردوان نے سعودی صحافی کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمال خاشقجی کے معاملے کو جلداز جلد حل کرنا ہوگا، سعودی حکام ثبوت فراہم کریں کہ جمال خاشقجی سعودی قونصل خانے سے چلا گیا تھا۔

    ترک میڈیا کے مطابق سعودی عرب کی تحقیقاتی ٹیم تفتیش کے لیے استنبول پہنچ گئی ہے، عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی 2 اکتوبر کو سعودی قونصل خانہ جانے کے بعد لاپتہ ہوئے تھے۔

    دوسری جانب استنبول میں سعودی قونصل خانے کے باہر عرب اور ترک صحافیوں نے مظاہرہ کیا ہے،صحافتی تنظیموں نے قتل کی آزادانہ ذرائع سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، مظاہرین نے سعودی صحافی کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے، مظاہرے میں سول سوسائٹی کے نمائندگان اور سیاسی شخصیات سریک تھیں۔

    واضح رہے کہ لبنان میں تعینات سعودی عرب کے قائم مقام سفیر ولید بخاری نے واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق کہا تھا کہ جمال خاشقجی کا ترکی میں لاپتہ ہونا ریاست کے خلاف غیرملکیوں کی منظم سازش ہے۔

    مزید پڑھیں: ترک پولیس نے گمشدہ سعودی صحافی کے مبینہ قتل ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا

    خیال رہے کہ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔

  • سعودی صحافی کا قتل ریاست کو بدنام کرنے کےلیے ڈرامہ ہے، ولید بخاری

    سعودی صحافی کا قتل ریاست کو بدنام کرنے کےلیے ڈرامہ ہے، ولید بخاری

    بیروت : لبنان میں موجود سعودی عرب کے قائم مقامم سفیر نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی اخبار میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دینے والے سعودی صحافی کی گمشدگی ریاست کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لبنان میں تعینات سعودی عرب کے قائم مقام سفیر ولید بخاری نے واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق کہا ہے کہ جمال خاشقجی کا ترکی میں لاپتہ ہونا ریاست کے خلاف غیر ملکیوں کی منظم سازش ہے۔

    قائم مقام سفیر ولید بخاری نے جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کو غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے سعودی عرب کو بدنام کرنے کے لیے کی گئی منصوبہ بندی ہے۔

    لبنان میں تعینات سعودی سفیر کا کہنا تھا کہ سعودی شہری کی گمشدگی کے ڈرامے کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر غیرمعمولی طور پر پذیرائی کی جارہی ہے جس کا مقصد سعودی عرب کا غلط چہرہ پیش کرنا ہے جس میں غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔

    عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کئی صارفین نے سعودی صحافی کے قتل کے دعوؤں کو بھی سازش قرار دیا ہے اور ان لوگوں کو مصری یتنظیم اخوان المسلمون کے افکار سے متاثر قرار دیا ہے جو ریاست کو بدنام کرنا چاہے رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل محمد بن سلمان کی پالیسیوں ہدف تنقید بنانے والے معروف صحافی جمال خاشقجیترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سفارت خانے کے دورے پر گئے اور لاپتہ ہوگئے، صحافی کے اہل خانہ کا خیال ہے کہ ولی عہد پر تنقید کرنے کے جرم میں سعودی حکام نے ہی جمال خاشقجی کو گرفتار کیا ہے۔

    خیال رہے کہ سعودی صحافی کی گمشدگی سے متعلق ابتدائی تحقیقات میں ترک پولیس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوگئے اور انہیں قتل کرنے والی ٹیم اسی روز واپس چلی گئی۔

  • ترک پولیس نے گمشدہ سعودی صحافی کے مبینہ قتل ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا

    ترک پولیس نے گمشدہ سعودی صحافی کے مبینہ قتل ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا

    انقرہ : سعودی صحافی کی گمشدگی سے متعلق ابتدائی تحقیقات میں ترک پولیس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوگئے اور انہیں قتل کرنے والی ٹیم اسی روز واپس چلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانے کے جرم میں سعودیہ کے معروف صحافی جمال خاشقجی کو سعودی حکام نے مبینہ طور پر ترکی میں گرفتار کیا گیا تھا، تاہم ترک حکام کو خدشہ ہے کہ مذکورہ صحافی کو مبینہ طور پر قتل کردیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔

    ترک پولیس کو خدشہ ہے کہ معروف امریکی اخبار کے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی کو قتل کرنے کے لیے خصوصی ٹیم استنبول آئی تھی جو اپنی ذمہ داری انجام دے کر اسی روز واپس چلی گئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک حکام کی ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس روز جمال خاشقجی لاپتہ قونصل خانے سے لاپتہ ہوئے ہیں اسی روز دو دو الگ الگ مسافر بردار طیاروں میں سعودی عہدیداروں سمیت 15 سعودی شہری استنبول آئے تھے۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی صحافی کی گمشدگی کی تصدیق واشنگٹن پوسٹ نے بھی کی تھی اور احتجاجاً جمال خاشقجی کی تصویر اور نام کے ساتھ خالی کالم اخبار میں چھاپ دیا تھا۔

    ترک پولیس کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی سعودی سفارت خانے کے اندر گئے تھے لیکن واپس نہیں آئے۔

    ترکی حکام کی جانب سے امریکی اخبار سے منسلک صحافی کی گمشدگی کے معاملے پر سعودی سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا تھا، سعودی سفارت کار نے صحافی کی گمشدگی سے متعلق لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ترک حکام سے تحقیقات میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔۔

    خیال رہے کہ ایک روز قبل ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ نے اپنے صافی کی گمشدگی کے خلاف اخبار میں ایک جملہ’ایک گمشدہ آواز‘ تحریر کرکے صحافی کا نام اور تصویر کے ساتھ شائع دیا، اخبار انتظامیہ کے اس خاموش احتجاج کا مقصد گمشدہ صحافی کے حق میں مؤثر آواز اٹھانا اور گمشدگی کا معاملہ دنیا کے سامنے لانا ہے۔

  • ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ میں صحافی کی گمشدگی کے خلاف ’خالی کالم‘ شائع

    ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ میں صحافی کی گمشدگی کے خلاف ’خالی کالم‘ شائع

    واشنگٹن : نامور امریکی اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ نے اپنے صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے خلاف تصویر اور نام کے ساتھ ’خالی کالم‘ چھاپ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی میں موجود سعودی سفارت خانے سے لاپتہ ہونے والے معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے امریکا کے مشہور خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ نے اخبار میں خالی کالم شائع دیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ دی واشنگٹن پوسٹ نے اپنے صافی کی گمشدگی کے خلاف اخبار میں ایک جملہ’ایک گمشدہ آواز‘ تحریر کرکے صحافی کا نام اور تصویر کے ساتھ شائع دیا، اخبار انتظامیہ کے اس خاموش احتجاج کا مقصد گمشدہ صحافی کے حق میں مؤثر آواز اٹھانا اور گمشدگی کا معاملہ دنیا کے سامنے لانا ہے۔

    خیال رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانے کے جرم میں سعودی صحافی جمال خاشقجی منگل کے روز ترکی کے دارالحکومت میں واقع سعودی سفارت میں داخل ہوئے تھے جس بعد لاپتہ ہوگئے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ سفارت خانے کے باہر انتظار میں کھڑی صحافی کی منگیتر نے کئی گھنٹے گزرنے کے بعد شام کے اوقات مقامی پولیس اسٹیشن میں امریکی اخبار کے لیے خدمات انجام دینے والے صحافی کی گمشدہ کی شکایت درج کروائی تھی۔

    گمشدہ صحافی کی منگیتر نے پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرواتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ سعودی صحافی کو سفارت خانے میں ہی گرفتار کرلیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ امریکا میں سعودی سفارت خانے کے ایک اہلکار نے ان کی گمشدگی کے بارے میں سامنے آنے والی اطلاعات کو جھوٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ استنبول میں سعودی سفارت خانے سے کچھ دیر بعد واپس چلے گئے تھے۔

    ترک حکام کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جمال خاشقجی تاحال سفارت خانے کے اندر موجود ہیں، حالات کو جاننے کے لیے ترک حکام سعودی سفارت خانے سے رابطہ کررہے ہیں۔

    ترک حکام کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات سفارت کاری کے اصولوں اور قواعد و ضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے کی جارہی ہے اور سعودی سفارت خانے کو مکمل تعاون کرنے کے لیے درخواست دی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطن ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی شہری حالیہ دنوں معروف امریکی اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ سے وابستہ تھے۔

  • محمد بن سلمان کی پالیسی پر تنقید، سعودی صحافی ترکی میں لاپتہ

    محمد بن سلمان کی پالیسی پر تنقید، سعودی صحافی ترکی میں لاپتہ

    استنبول/ریاض : سعودی حکومت اور ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی ترکی میں واقع سعودی سفارت خانے سے مبینہ طور پر لاپتہ ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کی حکومتی پالیسیوں، باالخصوص ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانے کے جرم میں سعودیہ کے معروف صحافی جمال خاشقجی کو سعودی حکام نے مبینہ طور پر ترکی میں گرفتار کرلیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں ہدف تنقید بنانے والے معروف صحافی جمال خاشقجی ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سفارت خانے کے دورے پر گئے اور لاپتہ ہوگئے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے جمال خاشقجی منگل کے روز استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہوئے جس کے بعد سے لاپتہ ہیں، صحافی کے اہل خانہ کا خیال ہے ولی عہد پر تنقید کرنے کے جرم میں سعودی حکام نے ہی جمال خاشقجی کو گرفتار کیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطن ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی شہری حالیہ دنوں معروف امریکی اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ سے وابستہ تھے، جس نے جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کردی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر کا کہنا ہے کہ منگل کی دوپہر جمال خاشقجی اور میں اہم دستاویزات کے سلسلے میں سعودی سفارت خانے میں داخل ہوئے لیکن مجھے جمال خاشقجی کے ہمراہ اندر داخل ہونے نہیں گیا اور جمال خاشقجی کا موبائل بھی باہر ہی لے رکھ لیا تھا۔

    جمال خاشقجی کی منگیتر کا کہنا ہے کہ جب سے جمال خاشقجی سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہوئے ہیں اس کے بعد سے انہیں نہیں دیکھا گیا۔

    دوسری جانب سے سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ استنبول میں واقع سعودی سفارت خانہ جمال خاشقجی کی گمشدگی کے حوالے حقائق جاننے کے لیے کام کررہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کے بارے میں بدھ کے روز کنفیوژن اضافہ ہوا جب واشنگٹن میں موجود ایک سعودی اہلکار نے ان کی گمشدگی کے بارے میں سامنے آنے والی اطلاعات جھوٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ استنبول میں سعودی سفارت خانے سے کچھ دیر بعد واپس چلے گئے تھے۔

    ترک حکام کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جمال خاشقجی تاحال سفارت خانے کے اندر موجود ہیں، حالات کو جاننے کے لیے ترک حکام سعودی سفارت خانے سے رابطہ کررہے ہیں۔

    امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کی صحافی کی حیثیت سے حقائق آشکار کرنے پر گرفتاری اشتعال انگیز عمل ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی ماضی میں سعودی عرب کے شاہی خاندان کے مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں تاہم وہ ولی عہد محمد بن سلمان پالیسیوں کے سخت مخالف ہیں۔