Tag: جمال خاشقجی

  • خاشقجی قتل کیس: سعودی شہریوں نے ترک مصنوعات کی بائیکاٹ‌ مہم شروع کردی

    خاشقجی قتل کیس: سعودی شہریوں نے ترک مصنوعات کی بائیکاٹ‌ مہم شروع کردی

    ریاض : سعودی عرب پر خاشقجی قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرنے پر سعودی شہریوں نے ترک مصنوعات کی بائیکاٹ مہم شروع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے والے جمال خاشقجی کے قتل کا الزام سعودی عرب پر لگانے کی پاداش میں سعودی شہریوں کی جانب سے ترکی کو بائیکاٹ مہم کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    سوشل میڈیا استعمال کرنے والے سعودی صارفین نے ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا رکھی ہے جس کا مقصد خاشقجی قتل کیس میں سعودیہ کے خلاف اٹھائے گئے ترک اقدامات کی مذمت کرنا ہے۔

    سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مہم چلانے والے سعودی شہریوں کا ہدف صدر ایردوان ہیں جن کی سعودیہ مخالف پالیسیوں سے سعودی شہری نالا ہیں۔

    بائیکاٹ مہم کے منتظمین ’ہیش ٹیگ سعودی عوام ترک مصنوعات کو مسترد کرتے ہیں‘ کے عنوان سے چلارہے ہیں۔

    عرب میڈیا کے مطابق بائیکاٹ مہم چلانے والے سعودی شہریوں کا خیال ہے کہ ترکی معیشت کو سہارا دینے کےلیے سعودی عرب کے شہری کیوں مدد کریں جبکہ ترکی ہمارے خلاف منفی اقدامات کررہا ہے۔

    صارفین کا کہنا تھا کہ ترکی سعودی عرب کے داخلی معاملات میں مداخلت کررہا ہے کہ جو اسے نہیں کرنی چاہیے۔

    ایک اور شہری نے ٹویٹ کیا کہ انقرہ حالیہ دنوں سعودی عرب کے خلاف سازش میں مصروف ہے لہذا ہمیں اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

    عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ ایک سوشل میڈیا صارف نے اپنے ٹویٹ میں ان ترک مصنوعات کی تصاویر شیئر کی جن کا استعمال سعودی عرب میں کیا جارہا ہے اور ان کے بائیکاٹ پر زور دیا۔

    ایک اور صارف نے کہا کہ اگر 2 کروڑ سعودی شہری ترک مصنوعات بائیکاٹ کرتے ہیں تو ’یہ ترک صدر کے منہ پر طمانچہ ہوگا‘۔

  • ’مجھے کاٹنا آتا ہے‘

    ’مجھے کاٹنا آتا ہے‘

    انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ایک فوجی اہلکار ملوث تھا جس نے واردات سے قبل کہا مجھے کاٹنا آتا ہے۔

    ترک صدر کے مطابق انہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کی آڈیو ریکارڈنگ سنی جس میں ایک شخص صاف بولتا سنائی دے رہا ہے کہ ’مجھے کاٹنا آتا ہے‘۔

    رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ معلومات امریکا اور یوپی حکام کے ساتھ شیئر کی ہیں تاکہ عالمی سطح پر صحافی کے قتل کی تحقیقات ہوسکیں اور ذمہ داران کو سامنے لایا جائے۔

    سعودی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے امریکا، فرانس اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک کے حکام کو یہ آڈیو ریکارڈنگ فراہم کی، جس میں قاتل اپنے آپ کو سعودی فوج کا اہلکار اہلکار بھی بتا رہا ہے‘۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی کے قتل کی آڈیو حاصل کرلی،ترک حکام کا دعوی

    قبل ازیں سعودی صحافی کی آڈیو ریکارڈنگ سامنے آئی تھی جس کے بعد امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے فراہم کردہ ریکارڈنگ سُن لی۔

    سی آئی اے کے مطابق جمال خاشقجی نے آخری لمحات میں اپنے قاتلوں سے متعدد بار استدعا کی کہ مجھے چھوڑ دو اب میرا سانس نہیں آرہا مگر اُن لوگوں نے نہیں چھوڑا۔

    امریکی خفیہ ادارے نے آڈیو کی مکمل ٹرانسکرپٹ پڑھ لی ہے جس کے حوالے سے ترک حکومت سے بھی بات چیت جاری ہے۔

    اس سے قبل سی آئی اے کی طرف سے یہ بھی دعویٰ سامنے آچکا ہے کہ اسکواڈ میں شامل سعودی ولی عہد کے مشیر نے جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے بعد محمد بن سلمان کو میسج کیا۔

    یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی قتل کے وقت سعودی ولی عہد نے پیغامات بھیجے، سی آئی اے کا دعویٰ

    ابتداء میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد ملوث ہیں مگر اس بات کو سعودی حکومت اور امریکی صدر نے خود بھی مسترد کیا۔

    ترک حکومت کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قتل کی تحقیقات ترکی میں ہی کروائی جائیں البتہ سعودی حکام نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات اپنے ہی ملک میں کرانے کا اعلان کیا۔

    دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر محمد بن سلمان پر عائد ہونے والے الزام کی سختی سے تردید کرچکے اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اس جرم میں ملوث افراد کو پھانسی کی سزا دی جائے گی۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ دنوں جی ٹوئنٹی اجلاس میں شرکت کی تھی جس میں انہوں نے جمال خاشقجی سے متعلق گفتگو پر گریز کیا جبکہ فرانس کی جانب سے اسی اجلاس میں عالمی تحقیقات کا مطالبہ بھی سامنے آیا تھا۔

    اسے بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کی آڈیو ٹیپ نہیں سنی اور نہ ہی سننا چاہتا ہوں، جان بولٹن

    امریکی جریدے کے مطابق سی آئی اے نے اب تک کی جانے والی تحقیق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ ’قتل میں ملوث 15 رکنی اسکواڈ کی سربراہی سعود القحطانی کررہے تھے ‘۔

    سی آئی اے نے الزام عائد کیا تھا کہ سعودی ولی عہد نے اگست 2017 میں سعود القحطانی سے گفتگو کے دوران کسی شخص کو سعودی عرب واپس لانے سے متعلق بات کی تھی، ممکنہ طور پر وہ اشارہ جمال خاشقجی کی طرف ہی تھا۔

    یاد رہے کہ امریکی اخبار سے وابستہ سعودی صحافی کو 2 اکتوبر 2018 کو اُس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ اپنی منگیتر کے ہمراہ استنبول میں قائم سعودی قونصلیٹ ایک کام سے گئے تھے۔ صحافی نے اپنی منگیتر کو باہر ہی انتظار کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    جمال خاشقجی کی منگیتر بھی قتل کا الزام سعودی عرب پر عائد کرچکی جبکہ انہوں نے یہ بھی مؤقف اختیار کیا کہ وہ ٹرمپ کی دعوت پر امریکا اس لیے نہیں گئیں کیونکہ امریکی صدر اپنی سیاسی پذیرائی کے لیے اُن کے شوہر کا نام استعمال کرتے اور پھر الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے۔

  • سعودی عرب اہم اتحادی ہے، تنہا نہیں چھوڑ سکتے، امریکی وزیر خارجہ

    سعودی عرب اہم اتحادی ہے، تنہا نہیں چھوڑ سکتے، امریکی وزیر خارجہ

    واشنگٹن: امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ سعودی عرب اہم اتحادی ہے تنہا نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سعودیہ خطے میں امریکا کا اہم اتحادی ہے اور اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔

    مائیک پومپیو نے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خاشقجی کیس کی وجہ سے ہم سعودی عرب پر دباؤ نہیں ڈال سکتے۔

    امریکی وزیر خارجہ نے خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے امکانات کو مسترد کردیا اور کہا کہ ولی عہد کے بارے میں جتنی رپورٹس سامنے آئی ہیں ان میں کوئی سچائی نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ خاشقجی کیس کے باوجود امریکا سعودی ولی عہد کے ساتھ کام جاری رکھے گا۔

    مزید پڑھیں: امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہد کو جمال خشوگی کےقتل کاذمہ دار ٹھہرادیا

    مائیک پومپیو نے کہا کہ محمد بن سلمان کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہے اور وہ امریکا کے اتحاد کے لیے بہت اہم ہیں۔

    خیال رہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب امریکی سینیٹ میں قرارداد پاس ہوئی ہے جس میں خاشقجی قتل کا ذمہ دار سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو قرار دیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • سعودی صحافی جمال خاشقجی سال 2018 کی اہم ترین شخصیت قرار

    سعودی صحافی جمال خاشقجی سال 2018 کی اہم ترین شخصیت قرار

    نیویارک: استنبول میں قتل کیے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سال 2018 کی اہم ترین شخصیت قرار دے دیا گیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق نیویارک کے ٹائم میگزین نے استنبول میں 2 اکتوبر کو قتل کیے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سال 2018 کی اہم ترین شخصیت قرار دے دیا ہے۔

    ٹائم میگزین میں جاری کردہ فہرست میں جمال خاشقجی کے ساتھ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور برطانوی شہزادی میگھن مرکل کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سخت ناقد تھے اور اپنے کالمز میں ان پر یمن جنگ کے حوالے سے سخت تنقید کرتے تھے، خاشقجی کو سعودی ولی عہد کے کہنے پر بھی قتل کرنے کا الزام ہے۔

    واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے میں اپنی منگیتر کے کاغذات لینے کے لیے گئے تھے اس موقع پر ان کی منگیتر باہر موجود تھیں۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے ایما پر کیا گیا تھا جبکہ خاشقجی کے مرنے سے قبل آخری الفاظ یہ تھے کہ ’میرا دم گھٹ رہا ہے‘۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • خاشقجی قتل محمد بن سلمان کی ایماء پر کیا گیا، امریکی میڈیا کا دعویٰ

    خاشقجی قتل محمد بن سلمان کی ایماء پر کیا گیا، امریکی میڈیا کا دعویٰ

    واشنگٹن : امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا خیال ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل ولی عہد محمد بن سلمان کی ایماء پر کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے دارالحکومت استنبول میں بہیمانہ طریقے سے قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی خفیہ ایجنسی نے مزید انکشافات کردئیے۔

    خاشقجی قتل کیس سے متعلق مزید تفصیلات منظر عام پر لاتے ہوئے امریکی خفیہ ادارے کا کہنا تھا کہ مقتول صحافی نے تی مرتبہ قاتلوں سے قتل نہ کرنے کی التجا کی تھی۔

    امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق جمال خاشقجی کے آخری الفاظ تھے ’میرا دم گھٹ رہا ہے‘۔

    امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ خاشقجی کے قتل پر مامور سعودی خفیہ ایجنسی کا اعلیٰ افسر واردات سے متعلق پل پل کی رپورٹ فون پر سعودیہ منتقل کررہا تھا۔

    امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا خیال ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ایماء پر کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : جمال خاشقجی قتل کے وقت سعودی ولی عہد نے پیغامات بھیجے، سی آئی اے کا دعویٰ

    یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی قتل کے وقت اسکواڈ اور اپنے مشیر کو 11 میسجز کیے۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی کے قتل میں محمد بن سلمان کا ہی کردار تھا، امریکی سینیٹرز

    دوسری جانب امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ سی آئی اے کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ سعودی ولی عہد سعود القحطائی کے ساتھ رابطے میں تھے، سعود القحطائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی نگرانی میں جمال خاشقجی کا قتل ہوا۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : جمال خاشقجی کے قتل پر مزید شواہد درکار ہیں، امریکی وزیر دفاع

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

    خیال رہے کہ احمد العسیری انٹیلی جنس کے سربراہ جبکہ سعود القحطائی ولی عہد کے اہم مشیر تھے، سعودی عرب کی جانب سے اپنے سفارت خانے میں قتل کے اعتراف کے بعد دونوں کو برطرف کردیا گیا تھا۔

  • جمال خاشقجی کے قتل پر مزید شواہد درکار ہیں، امریکی وزیر دفاع

    جمال خاشقجی کے قتل پر مزید شواہد درکار ہیں، امریکی وزیر دفاع

    واشنگٹن: امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر کچھ کہنے سے پہلے مزید شواہد درکار ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یقین ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کی حقیقت جاننے کے لیے مزید شواہد حاصل کرلیں گے۔

    جیمز میٹس نے کہا کہ فی الحال علم نہیں کہ آگے کیا ہوگا اور کسے اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔

    ادھر استنبول میں ترک عدالت نے سعودی ولی عہد کے سابق مشیر احمد العسیری اور سعود القحطائی کے وارنٹ جاری کردئیے ہیں، عدالتی دستاویز میں ملزمان کو قتل کا منصوبہ ساز قرار دیا گیا ہے۔

    احمد العسیری انٹیلی جنس کے سربراہ جبکہ سعود القحطائی ولی عہد کے اہم مشیر تھے، سعودی عرب کی جانب سے اپنے سفارت خانے میں قتل کے اعتراف کے بعد دونوں کو برطر کردیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی کے قتل میں محمد بن سلمان کا ہی کردار تھا، امریکی سینیٹرز

    دوسری جانب امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ سی آئی اے کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ سعودی ولی عہد سعود القحطائی کے ساتھ رابطے میں تھے، سعود القحطائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی نگرانی میں جمال خاشقجی کا قتل ہوا۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • سعودی صحافی کے قتل میں محمد بن سلمان کا ہی کردار تھا، امریکی سینیٹرز

    سعودی صحافی کے قتل میں محمد بن سلمان کا ہی کردار تھا، امریکی سینیٹرز

    واشنگنٹن: امریکی سی آئی اے کی سربراہ جینا ہیسپل کی امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کو سعودی صحافی کے قتل پر بریفنگ دی، بریفنگ کے بعد کچھ سینیٹرز نے سعودی ولی عہد کو جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث قرار دینا شروع کردیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی سینیٹرز کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر امریکی سی آئی اے کی سربراہ کی بریفنگ کے بعد یقین ہوگیا ہے کہ سعودی صحافی کے قتل میں محمد بن سلمان کا ہی کردار ہے۔

    امریکی سینیٹرز نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے سعودی شہزادے کی مذمت نہ کرکے صحافی کے قتل کو معاف کیا ہے، سینیٹر بوب بیننڈز کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے سعودی عرب کو واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے۔

    [bs-quote quote=”امریکا کی جانب سے سعودی عرب کو واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے” style=”style-6″ align=”left” author_name=”امریکی سینیٹرز”][/bs-quote]

    جنوبی کیرولینا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے سعودی شہزادوں کے بارے میں کہا کہ وہ ایک پاگل پن اور خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔

    ایک اور سینیٹر باب کورکر نے کہا کہ میں ذہن میں اس حوالے سے کوئی سوال نہیں کہ محمد بن سلمان نے خاشقجی کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔

    دوسری جانب امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ سعودی ولی عہد سعود القحانی کے ساتھ رابطے میں تھے، سعود القحانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی نگرانی میں جمال خاشقجی کا قتل ہوا۔

    خیال رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • جمال خاشقجی قتل کے وقت سعودی ولی عہد نے پیغامات بھیجے، سی آئی اے کا دعویٰ

    جمال خاشقجی قتل کے وقت سعودی ولی عہد نے پیغامات بھیجے، سی آئی اے کا دعویٰ

    واشنگٹن: امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی قتل کے وقت اسکواڈ اور اپنے مشیر کو 11 میسجز کیے۔

    تفصیلات کے مطابق دو اکتوبر کو  ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں قتل ہونے والے امریکی اخبار سے وابستہ صحافی کی تحقیقات کے حوالے سے خفیہ ادارے نے دوسری مرتبہ سعودی عہد پر الزام عائد کیا۔

    سی آئی اے نے ترک حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی آڈیو ریکارڈنگ کے بعد سعودی صحافی کے قتل کی تحقیقات کا آغاز کیا  اور ٹرمپ کو بریفنگ دینے کے لیے رپورٹ بھی مرتب کرلی۔

    مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں، برطانوی وزیراعظم

    یہ پڑھیں: گروپ 20 اجلاس: ہزاروں افراد کا جی 20 سربراہوں کے خلاف احتجاج

    امریکی خفیہ ادارے کی جانب سے یہ دعویٰ اُس وقت سامنے آیا جب ارجنٹینا کے دارالحکومت میں جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس جاری ہے جس میں مختلف ممالک کے سربراہان شرکت کررہے ہیں۔

    امریکی خفیہ ادارے کی سربراہ جینا گوسپل نے نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے وقت اپنے مشیر اور ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ کو 11 پیغامات موبائل سے ارسال کیے۔

    ابتداء میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد ملوث ہیں مگر اس بات کو سعودی حکومت اور امریکی صدر نے خود بھی مسترد کیا۔

    یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان ملوث نہیں، امریکی وزیر خارجہ

    ترک حکومت کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قتل کی تحقیقات ترکی میں ہی کروائی جائیں البتہ سعودی حکام نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات اپنے ہی ملک میں کرانے کا اعلان کیا۔

    قبل ازیں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر محمد بن سلمان پر عائد ہونے والے الزام کی سختی سے تردید کرچکے ہیں اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اس جرم میں ملوث افراد کو پھانسی کی سزا دی جائے گی۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ بھی جی ٹوئنٹی اجلاس میں شریک ہیں البتہ انہوں نے جمال خاشقجی سے متعلق گفتگو پر گریز کیا جبکہ فرانس کی جانب سے اسی اجلاس میں عالمی تحقیقات کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔

    اسے بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل، امریکا کے بعد برطانیہ نے بھی قاتلوں پر سفری پابندی عائد کردی

    امریکی جریدے کے مطابق سی آئی اے نے اب تک کی جانے والی تحقیق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ ’قتل میں ملوث 15 رکنی اسکواڈ کی سربراہی سعود القحطانی کررہے تھے ‘۔

    سی آئی اے نے الزام عائد کیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے اگست 2017 میں سعود القحطانی سے گفتگو کے دوران کسی شخص کو سعودی عرب واپس لانے سے متعلق بات کی تھی، ممکنہ طور پر وہ اشارہ جمال خاشقجی کی طرف ہی تھا۔

  • جمال خاشقجی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں، برطانوی وزیراعظم

    جمال خاشقجی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں، برطانوی وزیراعظم

    لندن: برطانوی وزراعظم تھریسامے نے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی شفاف تحقیقات اور ان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بیونس آئرس آمد سے قبل طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلمان سے ملاقات میں مقتول صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور یمن کے مسئلے پر گفتگو ہوگی۔

    تھریسامے نے کہا کہ سعودی صحافی کے قتل کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے اور ملزمان کو جلد قانون کے مطابق سزا دینی چاہئے۔
    برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ یمن کی صورت حال پر گہری تشویش ہے، یمن کا طویل المدتی حل سیاسی مذاکرات میں ہے۔

    واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جی 20 کانفرنس کے موقع پر ملاقات متوقع ہے۔۔

    مزید پڑھیں: خاشقجی قتل کیس، کینیڈا نے 17 سعودی شہریوں پر پابندی عائد کردی

    یاد رہے کہ 2 اکتوبر میں سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے تھے جہاں انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

    بیس اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سفارت خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کیا گیا۔

  • خاشقجی قتل کیس، کینیڈا نے 17 سعودی شہریوں پر پابندی عائد کردی

    خاشقجی قتل کیس، کینیڈا نے 17 سعودی شہریوں پر پابندی عائد کردی

    اوٹاوا : کینیڈین حکومت نےدی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی  جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 17 سعودی شہریوں پر پابندیاں عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں صحافی جمال خاشقجی کو بے دردی سے قتل کرنے والے سعودی جاسوسوں کے خلاف کینیڈین حکومت نے بھی بڑا قدم اٹھاتے ہوئے پابندیاں عائد کردیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کینیڈین حکومت کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنے والے سعودی شہریوں کے کینیڈا میں داخلے پر پابندی ہوگی جبکہ ان کے اثاثے بھی منجمد کیے جائیں گے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی کے قتل میں ملوث سعودی خفیہ ایجنسی کے جاسوسوں پر کینیڈا کی جانب سے ایسے وقت میں پابندی عائد کی گئی ہے جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ارجنٹینا کے دارالحکومت میں جی 20 ممالک کے اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔

    کینیڈین وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ جن سعودی شہریوں پابندیوں کا اطلاق کیا گیا وہ حکومت کی نظر میں صحافی و کالم نویس خاشقجی کے قتل میں ذمہ دار ہیں البتہ ان 17 سعودی شہریوں میں محمد بن سلمان کا نام شامل نہیں ہے۔

    کرسٹیا فری لینڈ اپنے بیان میں کہنا تھا کہ دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک کالم نویس و صحافی کا بہیمانہ قتل نفرت انگیزی اور آزادی رائے پر حملہ ہے۔

    وزیر خارجہ کرسٹیا فری کا کہنا تھا کہ سعودی صحافی کے قتل میں ملوث ملزمان کو لازمی عدالت میں پیش کرنا ہوگا۔

    کینیڈین حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے معاہدوں سے متعلق نظر ثانی کرنے کا اعلان کیا جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کینیڈا سعودی سے اسلحے کی فروخت کا معاہدہ منسوخ کردے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ کینیڈا سے قبل فرانس، امریکہ اور جرمنی بھی خاشقجی قتل میں ملوث سعودی شہریوں پر پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔

    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل ترک پراسیکیوٹر جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں گلا دبا کر قتل کردیا گیا تھا اور پھر ان کی لاش کو ٹھکانے لگادیا گیا۔