Tag: جمال خاشقجی

  • صحافی کی گمشدگی: دھمکیوں اور منفی اقدامات کا بھرپور جواب دیں گے، سعودی عرب

    صحافی کی گمشدگی: دھمکیوں اور منفی اقدامات کا بھرپور جواب دیں گے، سعودی عرب

    ریاض: سعودی عرب نے کہا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کی وجہ سے دی جانے والی دھمکیوں اور منفی اقدامات کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

    عرب میڈیا کے مطابق سعودی حکام کا کہنا ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر سعودی عرب کے خلاف کسی بھی کارروائی کے جواب میں اس سے بڑا ردعمل سامنے آئے گا۔

    سعودی حکام نے ریاست پر صحافی کے اغوا اور قتل کے الزامات بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جلد حقائق منظر عام پر آجائیں گے، جمال خاشقجی کے لاپتا اور قتل کی افواہیں سعودی عرب کے خلاف سازش ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ لاپتا سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہلاک کیے گیے ہیں تو ریاض حکومت کو سخت سزا دی جائے گی۔

    مزید پڑھیں: صحافی کی گمشدگی، ٹرمپ کی سعودی عرب کو نتائج بھگتنے کی دھمکی

    دوسری جانب جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بعد بین الاقوامی برادری کے ساتھ کشیدہ ہوتے تعلقات کے باعث سعودی عرب کی اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان رہا، تقریباً دو گھنٹے کی تجارت کے انڈیکس سات فیصد تک گر گیا جو دسمبر 2014 کے بعد سب سے بڑی گراوٹ ہے جب تیل کی قیمتیں گر رہی تھیں۔

    واضح رہے کہ امریکا اور برطانیہ نے سعودی صحافی کی گمشدگی معاملے پر سعودی عرب کے ملوث ہونے کے شبے میں سعودی عرب میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس کے بائیکاٹ پر غور شروع کردیا ہے۔

    یاد رہے کہ جمال خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس ہیں اور وہ دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں جانے کے بعد سے لاپتا ہیں۔

  • صحافی کی گمشدگی، ٹرمپ کی سعودی عرب کو نتائج بھگتنے کی دھمکی

    صحافی کی گمشدگی، ٹرمپ کی سعودی عرب کو نتائج بھگتنے کی دھمکی

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ لاپتا سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہلاک کیے گیے ہیں تو ریاض حکومت کو سخت سزا دی جائے گی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت اس معاملے کا حل تلاش کرلے گی اور اگر اس میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تو ذمہ داران کو سزا بھی دی جائے گی۔

    امریکی صدر کے مطابق جمال خاشقجی کا کیس اس لیے بھی اہم ہے کہ کیونکہ وہ ایک رپورٹر ہیں تاہم اس معاملے کی وجہ سے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کے معاہدوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، ہم لوگوں کی ملازمتوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ہیں۔

    دوسری طرف ترک ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ جمال خاشقجی کو استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ میں ہی ہلاک کردیا گیا تھا، جمال خاشقجی کا معاملہ ترکی اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں بھی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل کے الزامات من گھڑت اور بے بنیاد ہیں، عبدالعزیز بن سعود

    واضح رہے کہ سعودی وزیر داخلہ عبدالعزیز بن سعود نے ریاست پر صحافی کے اغوا اور قتل کے الزامات بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جلد حقائق منظر عام پر آجائیں گے، جمال خاشقجی کے لاپتا اور قتل کی افواہیں سعودی عرب کے خلاف سازش ہے۔

    یاد رہے کہ جمال خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس ہیں اور وہ دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں جانے کے بعد سے لاپتا ہیں۔

  • یو این سیکریٹری جنرل نے جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق سچ کا مطالبہ کردیا

    یو این سیکریٹری جنرل نے جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق سچ کا مطالبہ کردیا

    نیویارک : اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مطالبہ کیا ہے کہ محمد بن سلمان کو ہدف تنقید بنانے والے سعودی صحافی کی گمشدگی سے متعلق واضح جواب دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملے پر کہا ہے کہ ’مجھے ڈر تھا کہ ایسی گمشدگیاں باقاعدگی سے شروع ہوجائیں گی اور معمول بن جائیں گی‘۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت اور ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے سے لاپتہ ہوئے تھے۔

    دوسری جانب سعودی حکام کی جانب سے مسلسل معروف امریکی اخبار میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دینے والے صحافی کے اغواء اور قتل کی تردید کرتے ہوئے افواہوں کو جھوٹ قرار دے رہا ہے۔

    سعودی عرب کے وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نایف نے گذشتہ روز کہا تھا کہ ریاست بہت جلد جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق حقائق کو بے نقاب کرے گی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔

    ترک سیکیورٹی حکام نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ’ترکی کے سیکیورٹی ایجنسیوں کے پاس دی واشنگٹن پوسٹ کے لیے تحریر لکھنے والے جمال خاشقجی کے سعودی سفارت خانے میں قتل ہونے کے آڈیو اور ویڈیو ثبوت موجود ہیں‘۔

    اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ’ہمیں حقائق جاننے کی ضرورت ہے تاکہ واقعے کا اصل ذمہ دار کون اس کا پتہ لگایا جاسکے‘۔

    انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت کو جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق مناسب انداز میں ’واضح جواب‘ دینا ہوگا۔

    سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ قانونی نظام کو احتساب کی ضمانت دینے کے قابل ہونا چاہیے، لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کہ گمشدگی کے واقعات معمول نہ بن جائیں‘۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیر خارجہ جیمری ہنٹ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب پر دباؤ ڈالتے ہوئے جمال خاشقجی کے معاملے میں وضاحت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

  • جمال خاشقجی کے معاملے میں‌ سعودی عرب کے ساتھ ہیں، اماراتی وزیر خارجہ

    جمال خاشقجی کے معاملے میں‌ سعودی عرب کے ساتھ ہیں، اماراتی وزیر خارجہ

    ابو ظہبی : اماراتی وزیر شیخ عبداللہ بن زائد النہیان نے جمال خاشقجی سے متعلق بیان میں کہا ہے کہ ’یو اے ای سعودی عرب کا حامی ہے اور سعودیہ کی حمایت کرنا امارات کے لیے باعث عزت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زائد نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں سے گمشدگی کے معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امارات ہر قدم پر سعودیہ کے ساتھ ہے۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ معروف امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی سے متعلق اماراتی وزیر ایک روز قبل جاری بیان میں کہا کہ سعودیہ کے ساتھ کام کرنا متحدہ عرب امارات کے لیے عزت اور شرف کی بات ہے۔

    خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زائد نے ایسے موقع پر سعودیہ کی حمایت میں بیان دیا ہے جب جمال خاشقجی کے سعودی سفارت خانے میں قتل کیے جانے کی افواہیں گردش کررہی ہے۔

    یاد رہے کہ جمعرات کے روز وزیر خارجہ امور انور قرقاش نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری پیغام میں صحافی کے معاملے پر سعودی عرب کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جس کے خطرناک مضمرات ہوں گے۔

    اماراتی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ مشرق وسطی کی کامبابی کا ضامن سعودی عرب ہے، سعودیہ کی کامیابی مشرق وسطیٰ کی کامیابی ہے۔

    سعودی صحافی رواں ماہ 2 اکتوبر کو ترک شہر استنبول سے اچانک لاپتہ ہوگئے تھے، اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

    خیال رہے کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔

  • جمال خاشقجی کے قتل کے الزامات من گھڑت اور بے بنیاد ہیں، عبدالعزیز بن سعود

    جمال خاشقجی کے قتل کے الزامات من گھڑت اور بے بنیاد ہیں، عبدالعزیز بن سعود

    ریاض : سعودی عرب کے وزیر داخلہ عبدالعزیز بن سعود نے ریاست پر صحافی کے اغواء اور قتل کے الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں، بہت جلد حقائق منظر عام پر آجائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے ترکی کے دارالحکومت استنبول میں معروف صحافی و کالم نگار جمال خاشقجی کی سعودی سفارت خانے میں گمشدگی اور قتل میں ریاست کو مورد الزام میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمال خاشقجی کے لاپتہ اور قتل کی افواہیں سعودی عرب کے خلاف سازش ہے۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر سعودی حکومت کو بھی تشویش ہے تاہم انہیں استنبول میں واقع سفارت خانے میں مدعو کرکے اغواء کرنا اور قتل کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔

    سعودی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اپنے شہریوں کی ہر طرح سے حفاظت کرنے کی خواہاں ہے، بہت جلد خاشقجی سے متعلق حقیقت منظر عام آجائے گی۔

    شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نایف بن عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اپنے شہری کے قتل کا الزام عائد کرنا ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے کی ناکام کوشش ہے جو عالمی قوانین اور اصولوں کے خلاف ہیں۔

    سعودی صحافی رواں ماہ 2 اکتوبر کو ترک شہر استنبول سے اچانک لاپتہ ہوگئے تھے، اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

    خیال رہے کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔

  • جمال خاشقجی کی گمشدگی، برطانوی سرمایہ کار نے سعودیہ میں سرمایہ کاری روک دی

    جمال خاشقجی کی گمشدگی، برطانوی سرمایہ کار نے سعودیہ میں سرمایہ کاری روک دی

    لندن : برطانوی سرمایہ کار رچرڈ برانسن نے صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر سعودی عرب میں کی گئی سرمایہ کاری روکتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی حکومت کے اپنے ہی شہریوں کی گمشدگی میں ملوث ہونے کی اطلاعات نے مایوس کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں موجود سعودی عرب کے سفیر شہزادہ محمد بن نواف السعود نے جمال خاشقجی سے متعلق کہا ہے کہ ’میں سعودی صحافی کے لیے فکر مند ہوں، اس معاملے پر رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی وہ صحافی ہیں جو سعودی حکومت کی پالیسیوں کو بے تحاشا تنقید کا نشانہ بناتے تھے، استنبول میں موجود سعودی سفارت خانے کا دورہ کرنے کے بعد واپس نہیں آئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی صحافی کی گمشدگی کے معاملے پر برطانیہ کی کارباری شخصیت سر رچرڈ برانسن نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری روک دی ہے۔

    برطانیہ میڈیا کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کی منگیتر کو خدشہ ہے کہ صحافی کو سفارت اغواء یا قتل کردیا گیا ہے، جبکہ ترک پولیس کا خیال ہے کہ استنبول میں صحافی جمال خاشقجی کو سعودی جاسوسوں نے قتل کردیا ہے۔

    دوسری جانب سعودی حکام مسلسل صحافی جمال خاشقجی کے قتل یا اغواء میں ملوث ہونے کی تردید کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ صحافی کچھ دیر بعد ہی سفارت خانے سے نکل گئے تھے۔

    سعودی سفیر شہزادہ محمد بن نواف السعود کا کہنا تھا کہ صحافی کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں لہذا نتائج کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

    برطانوی وزیر خارجہ جیمری ہنٹ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب پر دباؤ ڈالتے ہوئے جمال خاشقجی کے معاملے میں وضاحت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق سر رچرڈ برانسن نے سعودی میں جاری دو سیاحتی منصوبوں کو بند کرنے اور سعودی حکومت کے ساتھ خلائی منصوبوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو بھی روکنے کا اعلان کیا ہے۔

    برطانوی سرمایہ کار رچرڈ برانسن کا کہنا تھا کہ مجھے سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے بہت توقعات تھیں لیکن سعودی عرب کے اپنے ہی شہری کی گمشدگی میں ملوث ہونے کی اطلاعات نے بہت ناامید کیا ہے۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

  • جمال خاشقجی کی گمشدگی، سعودی عرب کو سیاسی ہدف بنایا جارہا ہے، اماراتی وزیر

    جمال خاشقجی کی گمشدگی، سعودی عرب کو سیاسی ہدف بنایا جارہا ہے، اماراتی وزیر

    ابوظہبی : اماراتی وزیر انور قرقاش امریک صحافی جمال خاشقجی کے معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ صحافی کے معاملے پر سعودی عرب کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جس کے خطرناک مضمرات ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار ’دی واشنگٹن‘ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے سے گمشدگی کے معاملے پر سعودی حکام کو مورد الزام ٹھرایا جارہا ہے جس پر یو اے ای کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو سیاسی ہدف بنایا جارہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے خارجہ امور انور قرقاش نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ جمال خاشقجی کے نام پر ریاست سعودی عرب کے خلاف مہم چلانے والے فریقوں کے درمیان رابطہ متوقع ہے۔

    عرب میڈیا کے مطابق اماراتی وزیر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ امریکی اخبار سے منسلک صحافی کے معاملے پر سعودی عرب کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن مذکورہ معاملے کو ہوا دینے والے خبردار رہیں گے کیوں کہ اس کے سنگین مضمرات سامنے آئیں گے۔

    اماراتی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ مشرق وسطی کی کامبابی کا ضامن سعودی عرب ہے، سعودیہ کی کامیابی مشرق وسطیٰ کی کامیابی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے سے متعلق سعودی عرب اور ترکی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو معاملے مکمل تحقیق کرے گی۔

    سعودی صحافی رواں ماہ 2 اکتوبر کو ترک شہر استنبول سے اچانک لاپتہ ہوگئے تھے، اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

    خیال رہے کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔

  • سعودی صحافی کی گمشدگی کا معاملہ، تحقیقات کے لیے ترک سعودی مشترکہ ٹیم تشکیل

    سعودی صحافی کی گمشدگی کا معاملہ، تحقیقات کے لیے ترک سعودی مشترکہ ٹیم تشکیل

    ریاض: سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق تحقیقات کے لیے ترکی اور سعودی عرب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق دونوں ممالک کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جمال خاشقجی کی کمشدگی کے معاملے پر جانچ پرتال کرے گی اور حقائق سامنے لائے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تحقیقاتی ٹیم سعودی عرب کی تجویز پر ترک حکام نے تشکیل دی ہے، یہ مشترکہ ٹیم اب اس معاملے کی چھان بین کرے گی۔

    سعودی صحافی رواں ماہ 2 اکتوبر کو ترک شہر استنبول سے اچانک لاپتہ ہوگئے تھے، اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

    بعض طقبوں کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانے کے جرم میں سعودیہ کے معروف صحافی جمال خاشقجی کو سعودی حکام نے مبینہ طور پر ترکی میں گرفتار کیا ہے۔

    سعودی صحافی کے اغوا اور قتل سے متعلق رپورٹیں من گھڑت ہیں، خالد بن سلمان

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

    دو روز قبل واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے اغوا اور قتل سے متعلق رپورٹیں من گھڑت ہیں۔

    خیال رہے کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔

  • امریکا کی سعودی عرب کو لاپتا صحافی کی تلاش میں مدد کی پیش کش

    امریکا کی سعودی عرب کو لاپتا صحافی کی تلاش میں مدد کی پیش کش

    واشنگٹن: امریکی نائب صدر مائیک پنس نے کہا ہے کہ سعودی عرب چاہے تو امریکا ترکی میں معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گم شدگی کے واقعے کی تحقیقات میں کسی بھی طریقے سے مدد دینے کو تیار ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق مائیک پنس نے کہا کہ اگر سعودی عرب درخواست کرتا ہے تو امریکا ترکی میں معروف صحافی جمال خاشقجی کی گم شدگی کے واقعے کی تحقیقات میں مدد دینے کو تیار ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔

    دوسری جانب ترکی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب نے گزشتہ ہفتے استنبول میں لاپتا ہونے والے صحافی کے کیس کی تحقیقات میں ہر طرح کی مدد اور تعاون فراہم کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی کے اغوا اور قتل سے متعلق رپورٹیں من گھڑت ہیں، خالد بن سلمان

    واضح رہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جمال خاشقجی استنبول میں واقعہ سعودی قونصل خانے میں نہیں تھے اور وہ ترک حکام کو قونصل خانے کی تلاشی کی اجازت دینے کو تیار ہیں حالانکہ وہ خود مختاری کی حامل جگہ ہے لیکن ہم نے کچھ بھی نہیں چھپایا ہے۔

    یاد رہے کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا تھا کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔

  • سعودی صحافی کے اغوا اور قتل سے متعلق رپورٹیں من گھڑت ہیں، خالد بن سلمان

    سعودی صحافی کے اغوا اور قتل سے متعلق رپورٹیں من گھڑت ہیں، خالد بن سلمان

    ریاض: واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے اغوا اور قتل سے متعلق رپورٹیں من گھڑت ہیں۔

    عرب میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر خالد بن سلمان نے باور کرایا ہے کہ تحقیقات کے ذریعے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملے میں کئی انکشافات سامنے آئیں گے، اغوا اور قتل سے متعلق رپورتیں من گھڑت ہیں۔

    سعودی سفیر نے کہا کہ اگرچہ تحقیقات ابھی اختتام کو نہیں پہنچی ہیں تاہم اس کے باوجود گزشتہ چند ماہ میں بے ہودہ نوعیت کی افواہوں کا بازار گرم ہوگیا ہے۔

    خالد بن سلمان نے کہا کہ سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان افواہوں پر بات نہ کی جائے بالخصوص جبکہ معاملہ مملکت کے ایک لاپتہ شہری سے متعلق ہو جس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اپنے وطن کی خدمت کے لیے وقف کردیا ہو۔

    ان کا کہنا تھا کہ بے شک جمال خاشقجی کے اہل خانہ انتہائی تشویش کا شکار ہیں اسی طرح ہمیں بھی تشویش لاحق ہے، جمال کے سعودی عرب میں بہت سے دوست ہیں اور میں ان میں سے ایک ہوں کئی معاملات میں اختلافات کے باوجود ہم نے اپنے رابطوں کو برقرار رکھا۔

    شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا کہ جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں چھپائے جانے یا مملکت کی جانب سے اغوا یا قتل کیے جانے کے حوالے سے تمام تر افواہیں جھوٹی اور بے بنیاد ہیں۔

    مزید پڑھیں: ترک پولیس نے گمشدہ سعودی صحافی کے مبینہ قتل ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا

    خیال رہے کہ غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔