Tag: جمال خشوگی

  • ’مجھے کاٹنا آتا ہے‘

    ’مجھے کاٹنا آتا ہے‘

    انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ایک فوجی اہلکار ملوث تھا جس نے واردات سے قبل کہا مجھے کاٹنا آتا ہے۔

    ترک صدر کے مطابق انہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کی آڈیو ریکارڈنگ سنی جس میں ایک شخص صاف بولتا سنائی دے رہا ہے کہ ’مجھے کاٹنا آتا ہے‘۔

    رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ معلومات امریکا اور یوپی حکام کے ساتھ شیئر کی ہیں تاکہ عالمی سطح پر صحافی کے قتل کی تحقیقات ہوسکیں اور ذمہ داران کو سامنے لایا جائے۔

    سعودی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے امریکا، فرانس اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک کے حکام کو یہ آڈیو ریکارڈنگ فراہم کی، جس میں قاتل اپنے آپ کو سعودی فوج کا اہلکار اہلکار بھی بتا رہا ہے‘۔

    مزید پڑھیں: سعودی صحافی کے قتل کی آڈیو حاصل کرلی،ترک حکام کا دعوی

    قبل ازیں سعودی صحافی کی آڈیو ریکارڈنگ سامنے آئی تھی جس کے بعد امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے فراہم کردہ ریکارڈنگ سُن لی۔

    سی آئی اے کے مطابق جمال خاشقجی نے آخری لمحات میں اپنے قاتلوں سے متعدد بار استدعا کی کہ مجھے چھوڑ دو اب میرا سانس نہیں آرہا مگر اُن لوگوں نے نہیں چھوڑا۔

    امریکی خفیہ ادارے نے آڈیو کی مکمل ٹرانسکرپٹ پڑھ لی ہے جس کے حوالے سے ترک حکومت سے بھی بات چیت جاری ہے۔

    اس سے قبل سی آئی اے کی طرف سے یہ بھی دعویٰ سامنے آچکا ہے کہ اسکواڈ میں شامل سعودی ولی عہد کے مشیر نے جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے بعد محمد بن سلمان کو میسج کیا۔

    یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی قتل کے وقت سعودی ولی عہد نے پیغامات بھیجے، سی آئی اے کا دعویٰ

    ابتداء میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد ملوث ہیں مگر اس بات کو سعودی حکومت اور امریکی صدر نے خود بھی مسترد کیا۔

    ترک حکومت کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قتل کی تحقیقات ترکی میں ہی کروائی جائیں البتہ سعودی حکام نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات اپنے ہی ملک میں کرانے کا اعلان کیا۔

    دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر محمد بن سلمان پر عائد ہونے والے الزام کی سختی سے تردید کرچکے اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اس جرم میں ملوث افراد کو پھانسی کی سزا دی جائے گی۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ دنوں جی ٹوئنٹی اجلاس میں شرکت کی تھی جس میں انہوں نے جمال خاشقجی سے متعلق گفتگو پر گریز کیا جبکہ فرانس کی جانب سے اسی اجلاس میں عالمی تحقیقات کا مطالبہ بھی سامنے آیا تھا۔

    اسے بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کی آڈیو ٹیپ نہیں سنی اور نہ ہی سننا چاہتا ہوں، جان بولٹن

    امریکی جریدے کے مطابق سی آئی اے نے اب تک کی جانے والی تحقیق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ ’قتل میں ملوث 15 رکنی اسکواڈ کی سربراہی سعود القحطانی کررہے تھے ‘۔

    سی آئی اے نے الزام عائد کیا تھا کہ سعودی ولی عہد نے اگست 2017 میں سعود القحطانی سے گفتگو کے دوران کسی شخص کو سعودی عرب واپس لانے سے متعلق بات کی تھی، ممکنہ طور پر وہ اشارہ جمال خاشقجی کی طرف ہی تھا۔

    یاد رہے کہ امریکی اخبار سے وابستہ سعودی صحافی کو 2 اکتوبر 2018 کو اُس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ اپنی منگیتر کے ہمراہ استنبول میں قائم سعودی قونصلیٹ ایک کام سے گئے تھے۔ صحافی نے اپنی منگیتر کو باہر ہی انتظار کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    جمال خاشقجی کی منگیتر بھی قتل کا الزام سعودی عرب پر عائد کرچکی جبکہ انہوں نے یہ بھی مؤقف اختیار کیا کہ وہ ٹرمپ کی دعوت پر امریکا اس لیے نہیں گئیں کیونکہ امریکی صدر اپنی سیاسی پذیرائی کے لیے اُن کے شوہر کا نام استعمال کرتے اور پھر الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے۔

  • سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے نیا پینڈورا باکس کھول دیا

    سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے نیا پینڈورا باکس کھول دیا

     سعودی صحافی کی منگیتر نے  کہا ہے کہ جمال خاشقجی سعودی قونصل میں کسی صورت جانا نہیں چاہتے تھے، قتل کے بعد سعودی عرب نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترک میڈیا کو جمعے کے روز انٹرویو دیتے ہوئے سعودی صحافی کی منگیتر ہیٹس کینگز نے کہا کہ خاشقجی کی قونصل خانے میں گمشدگی کے بعد سعودی عرب نے کوئی تعاون نہیں کیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی جاری تنازع کی وجہ سے استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں جانا نہیں چاہتے تھے اور انہیں اس پر شدید تحفظات بھی تھے۔

    جمال خاشقجی کی منگیتر کا کہنا تھا کہ ’میں اُن لوگوں کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں اور انہیں تختہ دار پر دیکھنا چاہتی ہوں جنہوں نے میرے بہترین دوست جو میرے منگیتر بھی تھے ، ان کو بربریت سے قتل کیا’۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’قونصل خانے جاتے وقت خاشقجی نے مجھے باہر کھڑا رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے اپنے دونوں موبائل دیے دیے تھے، وہ اندر ہماری شادی کے حوالے سے ضروری کاغذات لینے کے لیے گئے تھے‘۔

    جمال خاشقجی کی منگیتر شادی کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر رو پڑی تھیں۔

    38 سالہ کینگز استنبول میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ’مجھے امریکی صدر نے مجھے امریکا کے دورے پر مدعو کیا مگرمیں نے امریکا جانے سے صاف انکار کردیا‘۔

    کینگز کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتی تھی کہ ٹرمپ میرے ذریعے عوام سے ہمدردیاں لینا چاہتے ہیں، گمشدگی کے دوران امریکی سیکریٹری داخلہ مائیک پومپیو نے بذریعہ کال رابطہ بھی کیا مگر سعودی حکام نے قتل کی تصدیق کے بعد بھی کوئی رابطہ نہیں کیا‘۔

    یاد رہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز کے لیے کام کرنے والے خاشقجی سعودی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے تھے، انہیں 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کیا گیا جس کا اعتراف سعودی حکام بھی کرچکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ترک صدر کا سعودی عرب سے جمال خاشقجی کی باقیات سامنے لانے کا مطالبہ

    59 سالہ سعودی صحافی نے امریکا میں 2017 سے سیاسی پناہ اختیار کی ہوئی تھی جب کے اُن کے بچے سعودی عرب میں ہی مقیم تھے جن سےچند روز قبل شاہ سلمان نے بھی ملاقات کی تھی۔

    قبل ازیں ترک حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی تحقیقاتی ٹیم نے جمال خاشقجی کے قتل کے مزید شواہد حاصل کرنے کا دعویٰ کیا اور اعلان بھی کیا کہ وقت آنے پر مزید ثبوت فراہم کریں گے۔

    یاد رہے کہ جمعے کے روز سعودی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کی قونصل خانے میں موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ استنبول کے قونصل خانے میں اُن کا جھگڑا ہوا تھا جس کے بعد وہاں موجود افراد نے ان پر تشدد کیا اور پھر انہیں قتل کردیا۔

    یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی قتل، سعودیہ کی وضاحتوں اور تحقیقات پر یقین ہے، پیوٹن

    سعودی سرکاری ٹی وی کا کہنا تھا کہ قونصل خانے میں جھگڑے کے دوران جمال خاشقجی کی موت واقع ہوئی، سعودی انٹیلی جنس کے نائب صدر جنرل احمد العسیری کو اس واقعے کے بعد برطرف کردیا گیا تھا۔

    سعودی حکومت نے عالمی دباؤ کے بعد شاہی عدالت کے مشیر سعودالقحطانی کو بھی برطرف کر دیا گیا جبکہ واقعے میں ملوث 18 سعودی شہریوں کو ترک حکومت نے گرفتار کر کے تفتیش شروع کردی۔

    قبل ازیں امریکی اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ صحافی کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں قتل کرکے لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے، قتل کی واردات میں سعودی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسران ملوث ہیں۔

    خیال رہے جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو سعودی عرب کے قونصل خانے کی عمارت کے اندر جاتے دیکھا گیا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں، وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر شدید تنقید کرتے رہے تھے اور یمن میں جنگ کے بعد ان کی تنقید میں مزید شدت آگئی تھی۔

  • جمال خاشقجی کیس، جرمنی نے سعودیہ کو اسلحے کی فروخت روک دی

    جمال خاشقجی کیس، جرمنی نے سعودیہ کو اسلحے کی فروخت روک دی

    برلن : جرمنی نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کردی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی ملک جرمنی نے استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں امریکی اخبار سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی اور ہلاکت پر شدید مذمت کرتے ہوئے سعودی حکام کی وضاحتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ سعودی سفارت خانے میں ہونے شاہی خاندان اور حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافی کے درد ناک قتل نے سعودی عرب کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔

    جرمن حکومت نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ذمہ داروں کے فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کرنے کا اعلان کردیا۔

    دوسری جانب ترک حکومت نے جمال خاشقجی کی استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے کے اندر جانے والی تصاویر میڈیا پر جاری کردی ہیں جبکہ صحافی کی ترک منگیتر سفارت خانے کے باہر ان کا انتظار کرتی رہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے مؤقف پیش کیا تھا کہ دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی اور کالم نویس جمال خاشقجی کہاں قتل ہوئے اور لاش کہا گئی انہیں معلوم نہیں۔


    مزید پڑھیں : صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت پر سعودی وضاحت ناکافی ہیں، جرمن چانسلر مرکل


    خیال رہے کہ ایک روز قبل جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور وزیر خارجہ ہائیکو ماس کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم سخت ترین الفاظ میں اس عمل کی مذمت کرتے ہیں، جمال خاشقجی کی ہلاکت کی وجوہات کے بارے میں ہم سعودی عرب سے شفافیت کی توقع رکھتے ہیں، استنبول میں پیش آئے واقعے کے بارے میں دستیاب معلومات ناکافی ہیں۔

    واضح رہے کہ عالمی برادری کے شدید دباؤ کے بعد ترک اور سعودی مشترکہ تحقیقات کے بعد سعودی عرب نے تسلیم کرلیا کہ صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہی مارے گئے تھے۔


    مزید پڑھیں: سعودی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کی قونصلیٹ میں موت کی تصدیق کردی


    سعودی میڈیا نے ابتدائی چھان بین کے نتائج کے بعد تصدیق کی تھی کہ خاشقجی دراصل قونصل خانے میں ہونے والی ایک ہاتھا پائی میں ہلاک ہوئے، اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے 18 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور دو اہم اہلکاروں کو برطرف بھی کردیا۔

    خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔

  • جمال خاشقجی کے معاملے میں‌ سعودی عرب کے ساتھ ہیں، اماراتی وزیر خارجہ

    جمال خاشقجی کے معاملے میں‌ سعودی عرب کے ساتھ ہیں، اماراتی وزیر خارجہ

    ابو ظہبی : اماراتی وزیر شیخ عبداللہ بن زائد النہیان نے جمال خاشقجی سے متعلق بیان میں کہا ہے کہ ’یو اے ای سعودی عرب کا حامی ہے اور سعودیہ کی حمایت کرنا امارات کے لیے باعث عزت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زائد نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں سے گمشدگی کے معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امارات ہر قدم پر سعودیہ کے ساتھ ہے۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ معروف امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی سے متعلق اماراتی وزیر ایک روز قبل جاری بیان میں کہا کہ سعودیہ کے ساتھ کام کرنا متحدہ عرب امارات کے لیے عزت اور شرف کی بات ہے۔

    خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زائد نے ایسے موقع پر سعودیہ کی حمایت میں بیان دیا ہے جب جمال خاشقجی کے سعودی سفارت خانے میں قتل کیے جانے کی افواہیں گردش کررہی ہے۔

    یاد رہے کہ جمعرات کے روز وزیر خارجہ امور انور قرقاش نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری پیغام میں صحافی کے معاملے پر سعودی عرب کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جس کے خطرناک مضمرات ہوں گے۔

    اماراتی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ مشرق وسطی کی کامبابی کا ضامن سعودی عرب ہے، سعودیہ کی کامیابی مشرق وسطیٰ کی کامیابی ہے۔

    سعودی صحافی رواں ماہ 2 اکتوبر کو ترک شہر استنبول سے اچانک لاپتہ ہوگئے تھے، اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

    خیال رہے کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔

  • جمال خاشقجی کے قتل کے الزامات من گھڑت اور بے بنیاد ہیں، عبدالعزیز بن سعود

    جمال خاشقجی کے قتل کے الزامات من گھڑت اور بے بنیاد ہیں، عبدالعزیز بن سعود

    ریاض : سعودی عرب کے وزیر داخلہ عبدالعزیز بن سعود نے ریاست پر صحافی کے اغواء اور قتل کے الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں، بہت جلد حقائق منظر عام پر آجائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے ترکی کے دارالحکومت استنبول میں معروف صحافی و کالم نگار جمال خاشقجی کی سعودی سفارت خانے میں گمشدگی اور قتل میں ریاست کو مورد الزام میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمال خاشقجی کے لاپتہ اور قتل کی افواہیں سعودی عرب کے خلاف سازش ہے۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر سعودی حکومت کو بھی تشویش ہے تاہم انہیں استنبول میں واقع سفارت خانے میں مدعو کرکے اغواء کرنا اور قتل کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔

    سعودی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اپنے شہریوں کی ہر طرح سے حفاظت کرنے کی خواہاں ہے، بہت جلد خاشقجی سے متعلق حقیقت منظر عام آجائے گی۔

    شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نایف بن عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اپنے شہری کے قتل کا الزام عائد کرنا ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے کی ناکام کوشش ہے جو عالمی قوانین اور اصولوں کے خلاف ہیں۔

    سعودی صحافی رواں ماہ 2 اکتوبر کو ترک شہر استنبول سے اچانک لاپتہ ہوگئے تھے، اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

    خیال رہے کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔

  • جمال خاشقجی کی گمشدگی، سعودی عرب کو سیاسی ہدف بنایا جارہا ہے، اماراتی وزیر

    جمال خاشقجی کی گمشدگی، سعودی عرب کو سیاسی ہدف بنایا جارہا ہے، اماراتی وزیر

    ابوظہبی : اماراتی وزیر انور قرقاش امریک صحافی جمال خاشقجی کے معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ صحافی کے معاملے پر سعودی عرب کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جس کے خطرناک مضمرات ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار ’دی واشنگٹن‘ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے سے گمشدگی کے معاملے پر سعودی حکام کو مورد الزام ٹھرایا جارہا ہے جس پر یو اے ای کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو سیاسی ہدف بنایا جارہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے خارجہ امور انور قرقاش نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ جمال خاشقجی کے نام پر ریاست سعودی عرب کے خلاف مہم چلانے والے فریقوں کے درمیان رابطہ متوقع ہے۔

    عرب میڈیا کے مطابق اماراتی وزیر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ امریکی اخبار سے منسلک صحافی کے معاملے پر سعودی عرب کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن مذکورہ معاملے کو ہوا دینے والے خبردار رہیں گے کیوں کہ اس کے سنگین مضمرات سامنے آئیں گے۔

    اماراتی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ مشرق وسطی کی کامبابی کا ضامن سعودی عرب ہے، سعودیہ کی کامیابی مشرق وسطیٰ کی کامیابی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے سے متعلق سعودی عرب اور ترکی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو معاملے مکمل تحقیق کرے گی۔

    سعودی صحافی رواں ماہ 2 اکتوبر کو ترک شہر استنبول سے اچانک لاپتہ ہوگئے تھے، اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

    خیال رہے کہ ترک پولیس نے سعودی صحافی کی گمشدگی کے حوالے سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوچکے ہیں۔