Tag: جمشید نسروانجی

  • جمشید نسروانجی اور ”داغی تجارت“

    جمشید نسروانجی اور ”داغی تجارت“

    کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروانجی (1886ء تا 1952ء) کو شہر کے محسنین میں شمار کیا جاتا ہے۔ شہر کی ترقی کے ساتھ انھوں نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اقدامات کیے اور بہت سے منصوبوں کو مکمل کیا۔ وہ ایک دردمند اور حساس طبع انسان بھی تھے جس نے شہر میں خاص طور پر بار برداری کے جانوروں جیسے گھوڑوں اور گدھوں کی دیکھ بھال اور ان کا خیال رکھنے کے لیے بھی خوب کام کیا۔ اس حوالے بھی متعدد واقعات مشہور ہیں۔

    جمشید نسروانجی کا تعلق کراچی کی پارسی برادری سے تھا۔ وہ 1933ء میں رئیسِ‌ شہر ہوئے تھے اور کراچی اور اس کے شہریوں کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ یہاں ہم ضیا الدین احمد برنی کی کتاب ’عظمت رفتہ‘ سے کراچی کے اس محسن کی زندگی کا ایک باب نقل کررہے ہیں۔ برنی صاحب کی یہ کتاب 1961ء میں شایع ہوئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:

    جمشید مہتا نسروانجی کے والد کا کاروبار شراب کا تھا۔ برطانوی حکومت چوں کہ جمشید نسروانجی کی سیاست سے ناخوش تھی، اس لیے اس نے شراب کی غیر ملکی ایجینسیوں کو بند کرا دیا، جس کی وجہ سے انھیں زبردست نقصان اٹھانا پڑا، مگر وہ اپنے بیٹے کے طریقۂ کار سے خوش رہے۔ جمشید نسروانجی بھی مسرور تھے کہ انھیں اس لعنتی کام سے چھٹکارا ملا۔ وہ شراب کو مغربی تہذیب کی ”برکات“ میں شمار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ وہ ایسے روپے کو بھی نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے، جو اس ”داغی تجارت“ سے حاصل ہوا ہو۔ وہ دنیا میں اسلام کو شراب بندی کا سب سے زبردست مبلّغ سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے وہ پاکستان میں شراب نوشی کے بڑھتے ہوئے رحجانات کو اندیش ناک قرار دیتے تھے۔

    بہت کم لوگوں کو معلوم ہے (مگر یہ حقیقت ہے) کہ جمشید نسروانجی پابندی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے اور ماہ رمضان میں روزے رکھتے تھے اور اپنے خرچ سے ہر سال چند مسلمانوں کو حج کے لیے بھی بھیجتے تھے۔ جمشید نسروانجی مال دار آدمی تھے، مگر انھیں روپے پیسے سے مطلق محبت نہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسے خدمت خلق میں خرچ کرتے رہتے تھے۔

    ماما پارسی گرلز ہائی اسکول (کراچی) بھی انہی کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔ انھوں نے اپنے ہم مذہب پارسیوں میں رقص کے رواج کو کم کرنے کی انتہائی کوشش کی۔ وہ اسے معاشرے کے لیے خطرے کا سگنل قرار دیتے تھے۔ اس نصف صدی میں پارسیوں میں وقتاً فوقتاً جتنی اصلاحی تحریکیں اٹھیں، وہ بڑی حد تک جمشید نسروانجی کی جدوجہد کی رہین منت ہیں۔

  • گاندھی کا مجسمہ اور جمشید نسروانجی کا بیان

    گاندھی کا مجسمہ اور جمشید نسروانجی کا بیان

    شخصی خاکوں کی کتاب بعنوان ’عظمت رفتہ‘ ضیاء الدین برنی کی تصنیف کردہ ہے جو یاد نگاری اور تذکرہ نویسی کے ساتھ کئی دل چسپ واقعات کا گل دستہ بھی ہے۔ اس میں موہن داس کرم چند گاندھی اور محمد علی جناح کے خاکے بھی شامل ہیں۔ یہاں ہم جمشید نسروانجی سے متعلق برنی صاحب کی ایک یاد تازہ کر رہے ہیں۔

    کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروانجی (1886ء تا 1952ء) کو شہر کے محسنین میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نومبر 1933ء میں اس عہدے پر فائز ہوئے اور کراچی شہر اور اس کے باسیوں‌ کے لیے کئی خدمات انجام دیں۔ گرو مندر کراچی کے قریب ایک سڑک بھی ان سے منسوب ہے۔ جمشید نسروانجی کا تعلق کراچی کی پارسی برادری سے تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھی کئی برس تک کراچی میں بعض کئی اہم عمارتوں پر گاندھی کی تصاویر اور مجسمے دیکھے جا سکتے تھے جن کا افتتاح تقسیم سے پہلے گاندھی جی نے کیا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ماضی کی یہ یادگاریں سرحد کے دونوں اطراف ہی فسادات اور نفرت کی آندھی کے سامنے تو نہیں‌ ٹھیر سکتی تھیں۔ سو، بہت کچھ برباد ہوا اور بہت کچھ مٹا دیا گیا۔ لیکن جب گاندھی کا ایک مجسمہ موسم کی نذر ہوا اور یہ خبر بھارت کے عوام تک پہنچی تو یہ خدشہ ہوا کہ دلوں میں اس سے منفی جذبات پیدا ہوں گے اور کسی سطح پر ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے۔ تب، جمشید نسروانجی کا بیان سامنے آیا۔ ضیا الدین احمد برنی نے اپنی مذکورہ کتاب جو 1961ء میں شایع ہوئی تھی، اس میں اس واقعے کو بنیاد بناتے ہوئے جمشید نسروانجی سے متعلق لکھا ہے:

    میں بمبئی میں برسوں سے کراچی کے اس سینٹ (مقدس بزرگ) کا نامِ نامی سنتا چلا آیا تھا اور اسی لیے کراچی آتے ہی اپنی اوّلین فرصت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہر ملاقات میں ان کی شرافت اور خلوص سے گہرے طور پر متاثر ہوا۔ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں مملکتوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے گاندھی جی کے مجسمے کے متعلق خاص طور پر ان سے بیان دلوایا۔

    ہندوستان والوں کا خیال تھا کہ مجسمہ جان بوجھ کر گرایا گیا ہے اور پاکستان والے کہتے تھے کہ تند ہواؤں کے جھونکوں سے یہ خود بخود گر گیا ہے۔ اس خیال سے کہ کہیں یہ واقعہ دنوں مملکتوں کے مابین مزید کشیدگی کا باعث نہ بن جائے، لیاقت علی خان نے جمشید مہتا سے ایک بیان دلایا جس کا ہندوستان پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ جمشید نسروانجی کی ساری زندگی خدمت الناس میں گزری اور انھوں نے اپنی پاکیزہ زندگی سے بتایا کہ مادّیت کے اس دور میں بھی بے غرضی، سچائی اور روحانیت کو روزمرہ کے کاموں میں کس طرح سمویا جا سکتا ہے۔

  • یومِ وفات: جرأت مند اور راست گو جمشید نسروانجی کو بابائے کراچی کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: جرأت مند اور راست گو جمشید نسروانجی کو بابائے کراچی کہا جاتا ہے

    جمشید نسروانجی جنھیں بابائے کراچی کہا جاتا تھا، 1952ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ پارسی برادری کے نسروانجی اپنی جرات، راست گوئی اور عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کے لیے مشہور تھے۔

    وہ ایک ایسے درد مند اور باشعور شخص تھے جنھوں نے انسانوں ہی نہیں‌ جانوروں کے حقوق کے لیے بھی کام کیا اور اپنے خلوص اور پیار و محبت سے لوگوں کے دل جیتے اور ان کے لیے مثال بنے۔

    انھوں نے 1886ء میں کراچی میں آنکھ کھولی۔ ان کا پورا نام جمشید نسروانجی رستم جی مہتا تھا۔ انھوں نے اپنی عوامی خدمات کا آغاز 1915ء سے کیا۔ ان کے سماجی کاموں کا سلسلہ گلی محلّے سے شروع ہوا اور پھروہ شہر بھر کے عوام کے مسائل، تکالیف اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی شخصیت بن گئے۔ انھوں نے اپنے دور میں سیاست میں بھی حصّہ لیا۔

    گل حسن کلمتی اپنی کتاب "سندھ جا لافانی کردار” میں لکھتے ہیں کہ 1919ء میں جب انفلوائنزا کی بیماری نے کراچی میں وبائی شکل اختیار کی تو جمشید نسروانجی نے دن رات عوام کی خدمت کی اور بے حد مقبول ہوئے۔ انھیں 1922ء میں کراچی میونسپلٹی کا صدر منتخب کرلیا گیا۔ وہ 1932 تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ سندھ کے مشہور سیاست داں جی ایم سید نے اپنی کتاب میں جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھا ہے کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔

    جمشید نسروانجی سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد 1937ء میں ضلع دادو سے سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور آزاد حیثیت میں رکن رہے، لیکن ایک موقع پر سیاسی دباؤ کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب انھوں نے محسوس کیا کہ غیر مسلم اور ایمان دار کارکنوں کے لیے ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔

    جمشید نسروانجی صحت عامّہ کے حوالے سے خاص طور پر متحرک رہے اور عوام میں حفظانِ صحّت کے اصولوں اور امراض سے متعلق شعور و بیداری کے لیے کام کیا۔ انھوں نے اپنی والدہ کے نام سے صدر میں ایک میٹرنیٹی ہوم بھی قائم کیا تھا۔

    کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔

    معروف ادیب، محقق اور تذکرہ نگار علی محمد راشدی نے اس حوالے سے ایک واقعہ اپنی کتاب میں رقم کیا جو جمشید نسروانجی کے بیدار مغز اور مثالی شخصیت ہونے کا ثبوت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    1930 کے آس پاس مَیں بندر روڈ سے گزر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتا پیدل ایک زخمی گدھے کو لے کر اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر، ان کا ڈرائیور پیچھے پیچھے چلاتا آ رہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔

    جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹّی کرائی اور ڈاکٹر سے بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کرے تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے، اور دانے گھاس کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔

    دوسری طرف گدھے کے مالک سے بھی کہا کہ جب تک گدھے کا علاج پورا نہ ہو جائے اور وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو جائے، تب تک وہ اپنی مزدوری کا حساب اُن سے لے لیا کرے، اور یہ کہتے ہوے کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

    یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی نظر میں انسان ہی نہیں جانور بھی جو ہمارے کام آتے ہیں اور بہت مددگار ہیں، ان کے بھی کچھ حقوق ہیں اور ان کے ساتھ ہم دردی اور انصاف سے پیش آنا چاہیے۔

    جمشید نسروانجی نے اپنے دور میں شہر کے لیے صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ بنا کر اس پرعمل درآمد کروایا، کشادہ سڑکیں تعمیر کراوائیں اور مختلف شفا خانے، راستوں اور حقوق و سہولیات کے حوالے سے متحرک اور فعال کردار ادا کیا۔

    آج شہرِ قائد کی جو حالت ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سڑکیں، بجلی و پانی کی فراہمی کا نظام، برساتی نالے، صفائی ستھرائی، تجاوزات غرض عوام کو سہولیات تو کیا بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں یا برائے نام ہیں۔ شہرِ قائد کو آج پھر کسی بے غرض، پُرخلوص اور درد مند کی تلاش ہے جو جمشید نسروانجی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شہر اور اس کے باسیوں کو ان کا حق دلوا سکے اور اسے صاف ستھرا اور مثالی شہر بنا سکے۔