Tag: جموں و کشمیر

  • گلاب سنگھ ڈوگرا: جمّوں کا ویمپائر

    گلاب سنگھ ڈوگرا: جمّوں کا ویمپائر

    ہندوستان پر قبضے کے بعد انگریزوں نے جس طرح یہاں سے اجناس اور اشیاء کی تجارت اور کاروبار سے خوب خوب مالی فوائد سمیٹے ویسے ہی قدرتی وسائل سے مالا مال ریاستوں کو بھی اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جموں‌ و کشمیر کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے جس میں انگریزوں‌ نے اپنے مفاد کو ترجیح دی اور وہاں کے لوگوں کا سودا کردیا۔

    جموں کا ہندو راجہ گلاب سنگھ جو اپنی رعایا پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے مشہور ہے، آج ہی کے دن چل بسا تھا۔ وہ سکھ سلطنت کے بانی اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مہربانی سے جموں کا حاکم بنا تھا۔ اس کا تعلق ہندو ڈوگرا برادری سے تھا۔ یہ سنہ 1822ء کی بات ہے۔ بعد میں گلاب سنگھ نے کئی علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا جن میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار اور کئی دوسرے علاقے شامل ہیں۔

    پنجاب میں قدم جمانے کے بعد انگریزوں نے گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا اور 1846ء میں معاہدۂ امرتسر کے تحت پچھتر لاکھ روپے میں کشمیر بھی اس کو دے دیا۔ جموں و کشمیر کا مہاراجہ بن کر گلاب سنگھ نے سفاکی اور قتل و غارت گری کا ایک باب رقم کیا اور اس کے دور میں لوگوں سے غیرانسانی سلوک کی بدترین مثالیں سامنے آتی رہیں۔ گلاب سنگھ کے مظالم کا ذکر ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل سَر ہنری ہارڈنج کے اپنی بہن کے نام لکھے گئے ایک خط میں ملتا ہے جو دو مارچ 1846 کو ارسال کیا گیا تھا۔ اس خط میں وہ گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ لکھتے ہوئے بہن کو بتاتا ہے کہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنانے کی وجہ کیا رہی اور اسے انگریز سرکار کی بدقسمتی لکھا ہے۔ اس مکتوب میں گورنر جنرل نے رقم کیا: ’بدقسمتی سے ان کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور ان کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں، ہم بغیر کسی مشکل ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے انھیں ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں ان کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘

    گلاب سنگھ کی ڈوگرا سلطنت سو برس سے زیادہ عرصہ قائم رہی جو بادشاہت پر مبنی مطلق العنان طرزِ حکومت تھا۔ برطانیہ میں بھی کشمیر کو ڈوگرا راجہ کے ہاتھوں‌ فروخت کرنے پر کڑی تنقید کی گئی تھی، کیوں کہ اس رقم کو وصول کرنے کے لیے راجہ نے عام کشمیریوں پر بہت بھاری ٹیکس لگایا اور وصولی کے لیے ہر طرح کا جبر، زبردستی اور مظالم کیے گئے۔ ظالمانہ ٹیکس نظام کے علاوہ ڈوگرا دور میں بیگار کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس پر انگریز افسران نے بھی کڑی تنقید کی۔

    ہندوستان میں‌ برطانوی فوج کے ایک افسر رابرٹ تھورپ نے لکھا تھا کہ اس ناانصافی سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور اُس مذہب کے ہر اصول کے بالکل الٹ ہے جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعوی کرتے ہیں۔‘

    پنجاب میں سکھ حکم راں رنجیت سنگھ نے اپنے ایک منتظم گلاب سنگھ کو اپنے لیے خدمات انجام دینے کے صلے میں جمّوں کا راجا بنایا۔ گلاب سنگھ کا باپ رنجیت سنگھ کی جانب سے جمّوں کا انتظام دیکھتا رہا تھا اور اس کی موت کے بعد گلاب سنگھ کو یہ ذمہ داری منتقل ہوئی تھی جس میں وہ کام یاب رہا اور مہاراجہ کا اعتماد حاصل کرلیا۔ بعد میں انگریزوں‌ سے وفا کر کے اس نے اپنی سلطنت قائم کر لی تھی۔

    گلاب سنگھ ڈوگرا کا سنہ پیدائش 1792ء بتایا جاتا ہے جب کہ اس کی موت 1857ء میں آج ہی کے روز ہوئی تھی۔ انگریز افسران اور برطانوی امراء کے علاوہ متعدد برطانوی مؤرخین نے بھی گلاب سنگھ کی سفاکیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس وقت علّامہ اقبال اور دیگر مسلمان اکابرین بھی گلاب سنگھ کے رعایا پر مظالم کی مذمت کرتے ہوئے انگریز سرکار کو مطعون کیا۔ اس حوالے سے یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    "جمّوں سے تعلق رکھنے والے تین بھائی گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ تھے۔ سکھ سلطنت میں یہ بااثر اور طاقت ور تھے۔ سکھ سلطنت میں کئی اہم عہدوں پر غیر سکھ رہے تھے اور جمّوں کے یہ بھائی بھی ان میں سے تھے۔ جمّوں اور پنجاب کے درمیان کوئی خاص جغرافیائی حدِ فاصل نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس وقت سیاسی طور پر کچھ فرق تھا۔ لوگوں کا ایک دوسرے علاقے میں بہت آنا جانا تھا۔”

    "لاہور سے سری نگر کے 180 میل سفر کے نصف راستے پر جموں شہر آتا تھا۔ جمّوں سے لاہور کا سفر، جمّوں سے سری نگر کے مقابلے میں بہت آسان تھا۔ اس لیے یہاں رہنے والوں کے زیادہ معاشرتی یا تجارتی روابط کشمیر کے مقابلے میں پنجاب سے تھے۔ آج پنجاب اور جمّوں کے درمیان سیاسی رکاوٹیں ہیں، لیکن سکھ حکومت کے وقت ایسا نہیں تھا۔ یہ عملاً پنجاب کی ایکسٹینشن تھی۔ جمّوں کے حکم رانوں کی پنجاب میں زمینیں تھیں اور یہی دوسری سمت میں بھی تھا۔”

    "لاہور سکھ سلطنت کا دارُالحکومت تھا اور غیرسکھ آبادی کے لیے پرکشش شہر تھا۔ سکھ آرمی میں بہت سے مسلمان اور ہندو شامل تھے اور کچھ کرسچن بھی۔ اس میں یورپی افسر بھی شامل تھے۔ لاہور دربار میں ان سب کو ترقی کے مواقع میسّر تھے۔ اور ان ترقی کے مواقع سے گلاب اور دھیان سنگھ نے بہت فائدہ اٹھایا تھا۔ انھوں نے سکھ سلطنت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ رنجیت سنگھ کے معتمد تھے۔”

    "1831ء میں ایک فرنچ مؤرخ نے لکھا ہے کہ “اگرچہ گلاب سنگھ ناخواندہ ہیں، لیکن رنجیت سنگھ کے پسندیدہ ہیں اور میرے خیال میں اگلے حکم ران بنیں گے۔” سکھ سلطنت نے ان بھائیوں کو اپنے علاقوں اور جاگیروں میں خودمختاری دی ہوئی تھی۔ (اس وقت میں سیاست کا طریقہ یہی ہوا کرتا تھا)۔”

    "جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تھا تو گلاب سنگھ سات سال کے تھے۔ رنجیت نے 1808ء میں جموں کے علاقے پر قبضہ کر کے یہاں کی خودمختاری ختم کر دی تھی۔ اس وقت گلاب سنگھ کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کی شہرت جمّوں کی بغاوت کے دوران بڑھی۔ انھیں مقامی علاقے کا علم تھا۔ چالاکی اور سفاکی میں ان کی شہرت تھی۔ جمّوں حکومت کرنے کے لیے مشکل جگہ تھی۔ یہاں پر لوگوں پر کنٹرول رکھنا اور ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ اپنی دہشت کی وجہ سے گلاب سنگھ ٹیکس نکلوانے میں اتنے مؤثر رہے تھے کہ ایک مؤرخ نے انھیں “جمّوں کا ویمپائر” کہا ہے۔”

  • آج ریاست جموں و کشمیر کے عوام یوم حق خود ارادیت منا رہے ہیں

    آج ریاست جموں و کشمیر کے عوام یوم حق خود ارادیت منا رہے ہیں

    آج 5 جنوری کو ریاست جموں و کشمیر کے عوام یوم حق خود ارادیت کے طور پر منا رہے ہیں۔

    پانچ جنوری 1949 کی اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا، اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ریاست بھر میں استصواب رائے کروانے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔

    بھارت مسلسل کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی نفی کرتا رہا ہے، بھارت کے جابرانہ قبضے اور ہٹ دھرمی کے خلاف دنیا بھر میں موجود کشمیری کمیونٹی سراپا احتجاج ہے۔

    آج کے دن جموں و کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود کشمیری یوم حق خود ارادیت منا رہے ہیں، بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں سے رو گردانی کرتا آ رہا ہے، بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں دس لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے، اور بھارتی فوج اب تک لاکھوں کشمیریوں کو شہید کر چکی ہے۔

    حریت رہنما مشال ملک کہتی ہیں میں اقوام متحدہ سے پوچھنا چاہتی ہوں ان وعدوں اور قراردادوں کا کیا بنا، کیا کشمیری صرف اس لیے پیدا ہوئے کہ ہم اپنے شہدا کو دفناتے رہیں، کیا اقوام متحدہ نے بھارت کی ہٹ دھرمی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں، تاریخ کبھی اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو معاف نہیں کرے گی۔

  • جموں و کشمیر اسمبلی میدان جنگ بن گئی

    جموں و کشمیر اسمبلی میدان جنگ بن گئی

    جموں و کشمیر اسمبلی میدان جنگ بن گئی، دفعہ 370 کی بحالی کا بینر اسمبلی میں بلند کرنے پر ہنگامہ بی جے پی اراکین پُرتشدد ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق جموں و کشمیر اسمبلی میں دفعہ 370 کی بحالی کا مطالبہ کرنے والا بینر بلند کرنے پر بی جے پی کے اراکین آپے سے باہر ہو گئے۔

    بینر کو اسمبلی میں دکھانے پر ہنگامہ برپا ہوگیا، حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تیکھی بحث اور نوک جھونک شروع ہو گئی۔

    رپوٹ کے مطابق ہنگامہ اتنا بڑھ گیا کہ دونوں ایک دوسرے پر پل پڑے، ایک دوسرے کو گھونسے اور تھپڑ مارے جس کے بعد معاملہ نہ سنبھلنے پر پولیس بلانا پڑی۔

    واضح رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیرکی اسمبلی نے دفعہ 370کی بحالی کے لئے قرارداد منظورکرلی ہے، کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق قرارداد کا مقصد ان خصوصی آئینی شقوں کو بحال کرانا ہے جن کے تحت جموں و کشمیر کو خود مختاری حاصل تھی۔

    Chaos in J&K assembly: Article 370 sparks clashes among MLAs | Jammu & Kashmir assembly

  • جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں اداروں میں رائٹ سائزنگ کے حوالے سے بڑے فیصلے

    جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں اداروں میں رائٹ سائزنگ کے حوالے سے بڑے فیصلے

    اسلام آباد: جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں اداروں میں رائٹ سائزنگ کے حوالے سے بڑے فیصلے کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے رائٹ سائزنگ کمیٹی کی سفارش پر وزارت سرحدی امور (سیفران) کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اور اسے وزارت کشمیر و گلگت بلتستان میں ضم کیا جائے گا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت سرحدی امور کا انتظامی ونگ بھی تحلیل کیا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق جموں و کشمیر اسٹیٹ پراپرٹی کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جے کے اسٹیٹ پراپرٹیز کے مستقبل کا فیصلہ خصوصی کمیٹی مشاورت سے کرے گی۔

    اسٹیٹ پراپرٹیز سے متعلق آزاد کشمیر و جی بی حکومت سے مشاورت کی جائے گی، جموں و کشمیر اسٹیٹ پراپرٹیز کو حسب ضرورت فروخت کیا جائے گا، اور اس کی آمدن آزاد کشمیر اور جی بی کی ویلفیئر پر خرچ ہوگی۔

    ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز کشمیر و جی بی پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا ہے، اسے آزاد کشمیر حکومت کو منتقل کیا جائے گا، اور ڈی ایچ ایس کے گلگت بلتستان کو فنڈنگ دینے کے لیے وزارت صحت سے مشاورت ہوگی۔

    ذرائع کے مطابق جموں و کشمیر مہاجرین بحالی آرگنائزیشن کو بھی تحلیل کیا جائے گا، آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کونسل کے عملے کی تعداد کم کی جائے گی، چیف کمشنریٹ افغان مہاجرین کے عملے کو بھی کم کیا جائے گا۔

  • گلاب سنگھ: ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘

    گلاب سنگھ: ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘

    تاریخ کے وہ ابواب جن میں قوم اور برادری کا فخر اور برتری کا احساس غالب رہا ہے، کئی مغالطوں اور طرح طرح کے پروپیگنڈے سے بھرے پڑے ہیں، اور جس طرح‌ حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے ہر جائز اور ناجائز راستہ اپنایا، اسے بھی چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن حقائق کو پوری طرح مسخ نہیں تو بہرحال نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست جموں‌ و کشمیر کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے جہاں ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اپنی مفاد کے لیے وہ سب کیا جس میں عوام کو بدترین حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ آج کے دن اسی علاقہ جموں کا راجہ گلاب سنگھ چل بسا تھا جو عوام پر اپنے ظلم و ستم کے لیے مشہور ہے۔

    سکھ سلطنت کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہندو ڈوگرا برادری کے گلاب سنگھ کو اس کی خدمات کے عوض جموں کا راجہ بنا دیا تھا۔ یہ سنہ 1822ء کی بات ہے۔ بعد میں گلاب سنگھ نے کئی علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا جن میں راجوری، پونچھ، بدرواہ اور کشتوار اور کئی دوسرے علاقے شامل ہیں۔

    جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب میں بھی قدم جما لیے تو گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنا دیا گیا اور 1846ء میں معاہدۂ امرتسر کے تحت پچھتر لاکھ روپے میں کشمیر بھی اس کو دے دیا۔ یوں جموں و کشمیر کے مہاراجہ بن جانے والے گلاب سنگھ کو اپنے ہی لوگوں پر ظلم ڈھانے کا موقع ملا گیا۔ وہ اپنی سفاکی اور قتل و غارت گری میں اس حد تک بڑھ گیا کہ رعایا کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا اور لوگوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا۔

    گلاب سنگھ کے دور میں جبر اور لوگوں پر مظالم کا ذکر ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل سَر ہنری ہارڈنج نے اپنے ایک خط میں کیا جو اس نے دو مارچ 1846 کو اپنی بہن کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں وہ گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ لکھتے ہوئے بہن کو بتاتا ہے کہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ بنانے کی وجہ کیا رہی اور اسے انگریز سرکار کی بدقسمتی لکھا ہے۔ اس مکتوب میں گورنر جنرل نے رقم کیا: ’بدقسمتی سے ان کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ انھوں نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور ان کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں، ہم بغیر کسی مشکل ان کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے انھیں ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں ان کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘

    گلاب سنگھ اور ان کی ڈوگرا سلطنت سو برس سے زیادہ عرصہ قائم رہی جو بادشاہت پر مبنی مطلق العنان طرزِ حکومت تھا۔ برطانیہ میں بھی کشمیر کو ڈوگرا راجہ کے ہاتھوں‌ فروخت کرنے پر کڑی تنقید کی گئی تھی، کیوں کہ اس رقم کی وصولی کے لیے راجہ نے عام کشمیریوں پر بہت بھاری ٹیکس لگایا اور وصولی کے لیے ہر طرح کا جبر، زبردستی اور مظالم کیے گئے۔ ظالمانہ ٹیکس نظام کے ساتھ ساتھ ڈوگرا دور میں بیگار لینے کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا جس پر انگریز افسران نے بھی کڑی تنقید کی۔

    ہندوستان میں‌ برطانوی فوج کے ایک افسر رابرٹ تھورپ نے اس وقت لکھا تھا کہ اس ناانصافی سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور اُس مذہب کے ہر اصول کے بالکل الٹ ہے جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعوی کرتے ہیں۔‘

    گلاب سنگھ، جو اپنے پایۂ تخت لاہور میں موجود رنجیت سنگھ کا ایک منتظم کی حیثیت سے اعتماد حاصل کر چکا تھا، اب جمّوں کا راجا بنا دیا گیا۔ اس کا باپ رنجیت سنگھ کی جانب سے جمّوں کا منتظم رہا تھا اور گلاب سنگھ نے اپنے باپ ہی سے انتظامی امور اور سیاست سیکھی تھی۔ اسی کی موت کے بعد یہ اختیار گلاب سنگھ کو سونپا گیا تھا اور وہ کام یاب منتظم ثابت ہوا۔ بعد میں جہاں اس نے اپنے مربّی کے خلاف سازشیں کیں، وہیں انگریزوں‌ سے وفا کر کے اپنی سلطنت قائم کرنے میں بھی کام یاب رہا۔

    گلاب سنگھ ڈوگرا کا سنہ 1792ء بتایا جاتا ہے۔ جمّوں‌ میں پیدا ہونے والا گلاب سنگھ 30 جون 1857ء کو چل بسا تھا۔ کشمیر کی سرسبز وادی کا حسن پائمال کرنے اور لوگوں کی زندگی اجیرن کر دینے والے اس حکم راں کو انگریز انتظامیہ کے افسران اور برطانوی امراء نے بھی ظالم کہا اور برطانوی مؤرخین نے بھی اس کی سفاکیوں کو رقم کیا۔

    علّامہ اقبال اور اس وقت کے دیگر مسلم اکابرین بھی گلاب سنگھ کے رعایا پر ظلم اور بالخصوص کشمیری مسلمانوں‌ کے ساتھ وہاں ہونے والے سلوک پر اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے انگریز سرکار کو مطعون کیا۔ اس حوالے سے یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    "جمّوں سے تعلق رکھنے والے تین بھائی گلاب سنگھ، دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ تھے۔ سکھ سلطنت میں یہ بااثر اور طاقت ور تھے۔ سکھ سلطنت میں کئی اہم عہدوں پر غیر سکھ رہے تھے اور جمّوں کے یہ بھائی بھی ان میں سے تھے۔ جمّوں اور پنجاب کے درمیان کوئی خاص جغرافیائی حدِ فاصل نہیں تھی۔ اور نہ ہی اس وقت سیاسی طور پر کچھ فرق تھا۔ لوگوں کا ایک دوسرے علاقے میں بہت آنا جانا تھا۔”

    "لاہور سے سری نگر کے 180 میل سفر کے نصف راستے پر جموں شہر آتا تھا۔ جمّوں سے لاہور کا سفر، جمّوں سے سری نگر کے مقابلے میں بہت آسان تھا۔ اس لیے یہاں رہنے والوں کے زیادہ معاشرتی یا تجارتی روابط کشمیر کے مقابلے میں پنجاب سے تھے۔ آج پنجاب اور جمّوں کے درمیان سیاسی رکاوٹیں ہیں، لیکن سکھ حکومت کے وقت ایسا نہیں تھا۔ یہ عملاً پنجاب کی ایکسٹینشن تھی۔ جمّوں کے حکم رانوں کی پنجاب میں زمینیں تھیں اور یہی دوسری سمت میں بھی تھا۔”

    "لاہور سکھ سلطنت کا دارُالحکومت تھا اور غیرسکھ آبادی کے لیے پرکشش شہر تھا۔ سکھ آرمی میں بہت سے مسلمان اور ہندو شامل تھے اور کچھ کرسچن بھی۔ اس میں یورپی افسر بھی شامل تھے۔ لاہور دربار میں ان سب کو ترقی کے مواقع میسّر تھے۔ اور ان ترقی کے مواقع سے گلاب اور دھیان سنگھ نے بہت فائدہ اٹھایا تھا۔ انھوں نے سکھ سلطنت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہ رنجیت سنگھ کے معتمد تھے۔”

    "1831ء میں ایک فرنچ مؤرخ نے لکھا ہے کہ “اگرچہ گلاب سنگھ ناخواندہ ہیں، لیکن رنجیت سنگھ کے پسندیدہ ہیں اور میرے خیال میں اگلے حکم ران بنیں گے۔” سکھ سلطنت نے ان بھائیوں کو اپنے علاقوں اور جاگیروں میں خودمختاری دی ہوئی تھی۔ (اس وقت میں سیاست کا طریقہ یہی ہوا کرتا تھا)۔”

    "جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تھا تو گلاب سنگھ سات سال کے تھے۔ رنجیت نے 1808ء میں جموں کے علاقے پر قبضہ کر کے یہاں کی خودمختاری ختم کر دی تھی۔ اس وقت گلاب سنگھ کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کی شہرت جمّوں کی بغاوت کے دوران بڑھی۔ انھیں مقامی علاقے کا علم تھا۔ چالاکی اور سفاکی میں ان کی شہرت تھی۔ جمّوں حکومت کرنے کے لیے مشکل جگہ تھی۔ یہاں پر لوگوں پر کنٹرول رکھنا اور ٹیکس وصول کرنا آسان نہیں رہا تھا۔ اپنی دہشت کی وجہ سے گلاب سنگھ ٹیکس نکلوانے میں اتنے مؤثر رہے تھے کہ ایک مؤرخ نے انھیں “جمّوں کا ویمپائر” کہا ہے۔”

  • جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضے کے 76 سال مکمل، کشمیری آج یوم سیاہ منارہے ہیں

    جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضے کے 76 سال مکمل، کشمیری آج یوم سیاہ منارہے ہیں

    جموں وکشمیر پر غیرقانونی قبضے کے 76 سال مکمل ہونے پر دنیا بھر میں کشمیری آج یوم سیاہ منارہے ہیں، آج کا دن کشمیری عوام کیلئے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جموں وکشمیر پر غیرقانونی قبضےکے چھہترسال مکمل ہوگئے، آج لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب سمیت دنیابھر میں کشمیری یوم سیاہ منارہےہیں۔

    بھارت نےستائیس اکتوبرانیس سوسینتالیس کواپنی افواج جموں وکشمیرمیں اتاریں، قابض فوج نے کشمیریوں کوبنیادی انسانی حقوق سےہی یکسرمحروم رکھا، جس کے بعد انسانیت سوز واقعات کاایسا سلسلہ شروع ہوا جوآج تک جاری ہے۔

    آج کادن کشمیری عوام کیلئےسیاہ ترین دنوں میں سےایک ہے،غیوراوربہادرکشمیری نہ صرف بھارت کے وحشیانہ ظلم و ستم اور جبر کے سامنے ڈٹ کھڑے ہیں۔

    ہندوستان نے غیرقانونی طورپرمسلم اکثریتی کشمیرمیں تقریباً10لاکھ فوجی تعینات کررکھےہیں ، مقبوضہ کشمیر کے عوام پچھلے76سال سےجاری ظلم وستم کی انتہا پر ہیں۔

    5اگست2019 کو ہندوستان نےمقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت بھی منسوخ کر دی م ہندوستانی افواج اب تک مقبوضہ کشمیرمیں ڈھائی لاکھ کشمیریوں کو شہید اور 7 ہزار سے زائد ماورائےعدالت قتل کرچکی ہے۔

    مقبوضہ کشمیرمیں1لاکھ سےزائدبچے یتیم،11ہزارسے زائد خواتین زیادتی کا شکار ہوئی اور اب تک16لاکھ کشمیری گرفتار،11سوسےزائداملاک نذرآتش کی جا چکی ہیں۔

    سال 2019سےمقبوضہ کشمیرمیں اب تک انٹرنیٹ کی طویل ترین بندش جاری ہے، اقوام متحدہ کی جانب سےمقبوضہ کشمیرمیں اب تک5قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں، ایک پربھی عملدرآمدنہ ہو سکا۔

    ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی عوام پر بہیمانہ مظالم میں بےجےپی ملوث ہے جبکہ جینو سائیڈ واچ پہلے ہی دنیا کو مقبوضہ کشمیرمیں مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم سےخبردارکرچکی ہے۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا کہ فروری 2023میں ہندوستان نےمقبوضہ وادی میں مسلم اکثریتی علاقوں کومسمار کرکےانسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی جبکہ الجزیرہ کا کہنا تھا کہ کشمیر کوہندوستان کی بربریت کے باعث بےشمارنقصان اٹھاناپڑا۔

    دوسرےممالک میں مداخلت اوردہشت گردی کروانا بھارت کا پرانا وطیرہ ہے، جو اب انڈیا کے گلے پڑ رہا ہے، قطرنے جاسوسی کا الزام ثابت ہونے پر آٹھ سابق نیوی افسروں کو سزائے موت سنادی، آٹھ ماہ قبل قطر میں بھارتی اہلکاروں کواسرائیل کےلئے جاسوسی کے الزام پرگرفتارکیاگیا تھا۔

    بھارت کی بیرون ملک دہشت گردانہ کارروائیاں پہلے بھی دنیا کے سامنے آشکار ہو چکی ہیں۔

  • نیویارک میں او آئی سی گروپ نے جموں و کشمیر پر مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا

    نیویارک میں او آئی سی گروپ نے جموں و کشمیر پر مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا

    نیویارک: اسلامی تعاون تنظیم کے رابطہ گروپ برائے جموں و کشمیر نے مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا ہے جس میں یو این قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے عوام کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کی توثیق کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلامک کوآپریشن آرگنائزیشن کے رابطہ گروپ نے نیویارک میں جموں و کشمیر پر گروپ کے اجلاسوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کشمیر میں حریت قیادت، سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کی نظر بندی کی مذمت کی۔

    اعلامیے کے مطابق رابطہ گروپ نے مقبوضہ کشمیر میں اظہار رائے کی آزادی اور بنیادی حقوق اور آزادیوں پر مسلسل پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا، اور جی 20 ٹورازم ورکنگ گروپ میٹنگ سے خود کو الگ کرنے کا فیصلہ کرنے والے ممالک کی تعریف کی۔

    اعلامیے کے مطابق گروپ اجلاسوں میں عالمی سول سوسائٹی اور تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دینے سے بھارت کے انکار کی مذمت کی گئی، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر عالمی رہنماؤں کے کردار، اور مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر انسانی حقوق کی تنظیموں، بین الاقوامی میڈیا کے کردار کا خیر مقدم کیا گیا۔

    گروپ اجلاسوں میں اس امر پر اتفاق رائے کیا گیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازعہ کا حل ناگزیر ہے، اور ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔

    گلگت بلتستان پر حملے کی تیاری سے متعلق بھارتی سیاسی رہنماؤں کے بیانات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا، اجلاس میں ایسے بیانات کو علاقائی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔

  • بھارت افواج میں خود کشی کے واقعات اکثر جموں و کشمیر میں ہوتے ہیں

    بھارت افواج میں خود کشی کے واقعات اکثر جموں و کشمیر میں ہوتے ہیں

    بھارتی افواج میں خود کشیاں عروج پر ہیں، ہر تیسرے روز ایک اور سالانہ 100 سے زائد خود کشی کے واقعات پیش آتے ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق بھارتی افواج میں خود کشیاں بڑھتی جا رہی ہیں، خود کشی کے واقعات اکثر جموں و کشمیر میں ہوتے ہیں، 2001 سے اب تک مختلف واقعات میں 3300 سے زائد بھارتی فوجی خود کشی کر چکے ہیں۔

    پچھلے 5 سالوں میں 800 سے زائد بھارتی جوانوں نے افسران کے رویے سے تنگ آ کر خود کشی کی، 23 جنوری 2023 کو کرنل کھنہ نے پنکھے سے لٹک کر خود کشی کر لی تھی، 9 جنوری 2023 کو فیروزپور میں لیفٹیننٹ کرنل نشانت نے بیوی کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی۔

    بھارتی افواج میں خواتین افسران بھی خود کشی پر مجبور ہیں، 2006 میں لیفٹیننٹ سشمیتا چکروتی نے بھرتی کے صرف 10 ماہ بعد اپنی جان لے لی تھی، سشمیتا کے مطابق افسران اسے ڈانس پارٹیوں اور ناجائز مطالبات کے لیے مجبور کرتے تھے۔

    اکتوبر 2019 کو پُونا میں لیفٹیننٹ کرنل رشمی مشرا نے پھندہ ڈال کر خود کشی کی تھی، دسمبر 2016 میں جموں میں میجر انیتا کماری نے سر پر گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر دیا تھا۔

    2007 میں کیپٹن نیہا راوت نے اپنے میجر جنرل لال پر جنسی ہراسگی کا الزام عائد کیا تھا، 2007 سے اب تک بھارتی افواج میں خواتین افسران کے ساتھ زیادتی و جنسی ہراسگی کے 1243 واقعات بھی رپورٹ ہو چکے ہیں۔

  • راجوڑی میں فوجی ٹرک میں لگنے والی آگ کی ہزیمت مٹانے کی خاطر جعلی آپریشن کی تیاری

    راجوڑی میں فوجی ٹرک میں لگنے والی آگ کی ہزیمت مٹانے کی خاطر جعلی آپریشن کی تیاری

    اسلام آباد: مودی سرکار نے اپنے عوام کو ایک اور دھوکا دینے کی تیاری شروع کر دی ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع راجوڑی میں ایک فوجی ٹرک میں لگنے والی آگ کی ہزیمت مٹانے کی خاطر جعلی آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق جمعرات کے روز مقبوضہ کشمیر کے راجوڑی سیکٹر کی نیشنل ہائی وے پر توتا گلی کے مقام پر راشٹریہ رائفلز یونٹ کی گاڑی پر آسمانی بجلی گرنے سے 5 فوجی جل کر ہلاک ہو گئے تھے، تاہم بعد ازاں، مودی سرکار نے اسے کشمیری مجاہدین کے گرنیڈ حملے کا نتیجہ قرار دے دیا تھا۔

    اب ذرائع کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی آڑ میں مودی سرکار ایک بار پھر جعلی آپریشن کی تیاری کر رہی ہے، اور جعلی آپریشن میں پہلے سے چھپائے گئے گولہ بارود کی برآمدگی ظاہر کی جائے گی۔

    ذرائع نے بھی بتایا ہے کہ جعلی آپریشن میں بھمبر گلی میں واقع 120 انفنٹری بریگیڈ حصہ لے گا، جعلی برآمدگی کے بعد تصاویر اور ویڈیوز میڈیا کو ریلیز کی جائیں گی، اس جعلی برآمدگی کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق جعلی برآمدگی کا ملبہ پاکستان اور تحریک آزادئ کشمیر پر ڈالنے کے بھی امکانات ہیں، اس جعلی آپریشن کا مقصد راجوڑی واقعے میں ناکامی پر پردہ ڈالنا اور بھارتی عوام کو رام کرنا ہے۔

    واضح رہے کہ بھارت عالمی میڈیا میں اپنے جعلی آپریشن کی وجہ سے پہلے ہی کافی بدنام ہے۔

  • مودی کے دورہ سری نگر کے موقع پر یوم سیاہ منایا جائے گا: سردار تنویر

    مودی کے دورہ سری نگر کے موقع پر یوم سیاہ منایا جائے گا: سردار تنویر

    مظفر آباد: وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر سردار تنویر الیاس خان کا کہنا ہے کہ مودی سن لے کشمیری بھارت کی تمام چالوں سے واقف ہیں، بھارت کا اکھنڈ بھارت کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر سردار تنویر الیاس خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ سری نگر کے موقع پر یوم سیاہ منایا جائے گا۔

    سردار تنویر کا کہنا تھا کہ نریندر مودی پیکج کے اعلان سے کشمیریوں کو ٹریپ کرنے کی کوشش کریں گے، مودی سن لے کشمیری بھارت کی تمام چالوں سے واقف ہیں۔ کشمیری 75 سال سے جو قربانیاں دے رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔

    انہوں نے کہا کہ آج اسلام آباد میں کشمیری شاہراہ جمہوریت پر بھرپور احتجاج کریں گے، آزاد کشمیر کے تمام شہروں میں بھارت کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔ بھارت کا اکھنڈ بھارت کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔

    سردار تنویر کا کہنا تھا کہ بھارتی قیادت نے پورے خطے کا امن داؤ پر لگایا ہوا ہے، کشمیریوں کے لیے ہر دن یوم سیاہ ہے۔ آزادی کشمیریوں کا بنیادی حق ہے۔ کشمیریوں کا ماننا ہے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔