Tag: جمہوریت

  • ہمیں اتنا بھی ارزاں نہ کرو…!

    ہمیں اتنا بھی ارزاں نہ کرو…!

    پاکستان بننے کے ایک آدھ برس بعد پنجاب کے ایک جوان سال وزیر نے اپنے ایک اخباری دوست سے کہا: ”بھئی! کبھی ہمارا بھی رابطہ عوام سے کرواؤ۔“ چناں چہ وہ صحافی ایک روز وزیر صاحب کو لے کے موچی دروازے جا پہنچا۔

    لوگوں نے جب اپنے درمیان یوں اچانک ایک وزیر کو دیکھا، تو چاروں طرف سے امڈ آئے۔ ہر شخص مصافحے کے لیے بے قرار تھا۔ کچھ من چلے تو معانقوں پر اتر آئے۔ وزیر صاحب کچھ دیر تو یہ رابطہ برداشت کرتے رہے اور پھر اپنے کرم فرما سے کہنے لگے: ”یار، ہمیں اتنا بھی تو ارزاں نہ کرو!“

    جمہوریت کے اس حمام میں صرف ہمارے وزیر صاحب ہی ننگے نہیں پائے گئے تھے۔ امریکا کے ایک سابق صدر تھیوڈور روز ویلٹ کے بارے میں ان کے ایک دوست لکھتے ہیں کہ جب وہ رابطے کی مہم سے لوٹتے تو سیدھے اپنے محل کے غسل خانے میں جاتے اور صابن سے ہاتھ دھوتے، تاکہ مصافحوں کا میل اتر جائے۔

    (مولوی محمد سعید کی خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ سے اقتباس)

  • مودی کی ایک بارپھر مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کا ڈرامہ رچانے کی تیاری

    مودی کی ایک بارپھر مقبوضہ کشمیر میں الیکشن کا ڈرامہ رچانے کی تیاری

    بھارت کی جانب سے ایک بار پھر مقبوضہ جموں و کشمیر میں الیکشن کا ڈرامہ رچانے کی تیاری شروع کردی۔

    بھارت دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہو نے کا دعویٰ کرتا ہے مگر حقیقت میں یہ ایک نام نہاد جمہوریت ہے جو خطے میں فسطائیت کو فروغ دے رہی ہے۔ 2019 میں مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے کشمیریوں سے اُن کا حقِ خود ارادیت چھین لیا۔

    رپورٹ کے مطابق مقبوضہ وادی میں اس وقت لگ بھگ 8 لاکھ کے قریب بھارتی فوجی موجود ہیں جنہوں نے وادی میں نظامِ زندگی مفلوج کر رکھا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد مودی سرکار پہلی دفعہ وادی میں الیکشن کروانے جارہی ہے۔

    رپورٹ جے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے کروائے جانے الیکشنوں کی تاریخ انتہائی بھیانک ہے 1951 سے لے کر 2019 تک بھارت نے مقبوضہ وادی میں جتنے بھی نام نہاد الیکشن کروائے وہ تمام دھاندلی، دھوکہ دہی اور بددیانتی پر مشتمل تھے۔

    مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے ہر الیکشن کے بعد بھارت کے اندر سے ہی سیاسی حریفوں اور تجزیہ کاروں نے الیکشن کی شفافیت پر سوالات اُٹھائے بھارتی سرکار نے ہمیشہ الیکشن سے قبل مقبوضہ وادی میں میڈیا مینجمنٹ اور ہارس ٹریڈنگ کی ہے۔

    بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کروائے جانے والے الیکشن عالمی دنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کا ہتھکنڈا ہے مودی سرکار کشمیریوں سے اُن کا حقِ خود ارادیت چھین کر اب 18 ستمبر 2024 کو الیکشن کا ڈرامہ رچانے جا رہی ہے۔

    مودی سرکار کی بدنیتی اب کشمیریوں اور عالمی دنیا کے سامنے کھل کر آچکی ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کی عوام کا مستقبل مودی سرکار کی انسانیت سوز پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔

  • ویڈیو رپورٹ: بھارت کا جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ عالمی سطح پر مسترد ہو گیا

    ویڈیو رپورٹ: بھارت کا جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ عالمی سطح پر مسترد ہو گیا

    ہندوستان کا شمار حالیہ برسوں میں بدترین آمریت پسند ملکوں میں ہونے لگا ہے، اور بھارت کا جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ عالمی سطح پر مسترد کر دیا گیا ہے۔

    سویڈن میں قائم انسٹیٹیوٹ ممالک کی جمہوریت اور خود مختاری کے درمیان چار عبوری مراحل میں درجہ بندی کرتا ہے، جن میں لبرل جمہوریت، انتخابی جمہوریت، انتخابی خود مختاری اور بند خود مختاری شامل ہیں۔

    سویڈن میں قائم ورائٹیز آف ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ نے چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے، جس میں بھارت کی درجہ بندی جمہوریت اور خود مختاری کے تمام مراحل میں نہیں ہو سکی۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان حالیہ برسوں میں دنیا کے بدترین آمریت پسندوں میں سے ایک ملک ثابت ہوا ہے، بھارت دنیا کی 18 فی صد آبادی ہونے کے باوجود آزادی اظہار اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لحاظ سے سب سے نچلے درجے پر ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مودی حکومت نے ناقدین کو خاموش کرانے کے لیے بغاوت، ہتک عزت اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کا استعمال کیا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 2019 میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ میں ترمیم کر کے سیکولرازم کے آئین کے عزم کو کمزور کیا، 2019 کی ترمیم نے مرکزی حکومت کو اجازت دی کہ وہ کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دے سکے۔

    بھارت میں ہونے والے انتخابات پر مسلمانوں کے تحفظات، الجزیرہ کی ویڈیو رپورٹ

    رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت مذہبی آزادی کو بھی دباتی رہی اور سیاسی مخالفین اور حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرنے والے لوگوں کو ڈرانے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں اختلاف رائے کو خاموش کرانے میں سر فہرست ہے۔ مودی حکومت میں سول سوسائٹی اور اپوزیشن کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، انسٹیٹیوٹ کی لبرل ڈیموکریسی انڈیکس برائے 2023 میں سروے کیے گئے 179 ممالک میں سے ہندوستان کا نمبر 104 ہے۔

  • ’ہم ایسے حالات پیدا کرتے جس سے خود ہی جمہوریت کا گھلا گھونٹ دیتے ہیں‘

    ’ہم ایسے حالات پیدا کرتے جس سے خود ہی جمہوریت کا گھلا گھونٹ دیتے ہیں‘

    پیپلز پارٹی کے رہنما علی موسیٰ گیلانی نے کہا ہے کہ ہم ایسے حالات پیدا کرتے جس سے خود ہی جمہوریت کا گھلا گھونٹ دیتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ایم این اے علی موسیٰ گیلانی نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو اس منتخب ایوان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔

    علی موسیٰ گیلانی نے کہا کہ ہم ایسے حالات پیدا کرتے جس سے خود ہی جمہوریت کا گھلا گھونٹ دیتے ہیں، ہم کبھی جمہوریت پر شب خون نہیں مارنے دیں گے، ہمیں جمہوریت کے  دیے کو مزید روشن کرنا ہے، اس ملک کو نفرت کے نام پر جلا دیا گیا، شہدا کی یادگارکی بے حرمتی کی گئی۔

    انکا کہنا تھا کہ جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو اس کیلئے ملکر کوشش کرنی ہے،  جمہوریت کے تحت بلدیاتی نظام کو فوری بحال اور مضبوط کیا جائے، بلدیاتی نظام ہو تو عوام کے مسائل ان کے در پر حل ہونگے، یہاں تو ترقیاتی اسکیموں کے فنڈز کیلئے دوڑیں لگی ہوتی ہیں۔

  • سب کو پی ٹی آئی کی طرح آئین، قانون اور جمہوریت کا ساتھ دینا ہوگا، عمران خان

    سب کو پی ٹی آئی کی طرح آئین، قانون اور جمہوریت کا ساتھ دینا ہوگا، عمران خان

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سب کو پی ٹی آئی کی طرح آئین، قانون، جمہوریت کا ساتھ دینا ہوگا۔

    پی ٹی آئی کے چیئر مین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ آج ہم آئینی تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں، اس راستے سے ہم ترکیہ یا پھر میانمار بن سکتے ہیں۔

    سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ فیصلہ کرنا ہوگاکیا ہم جمہوریت اور قانون کی بالادستی کا ساتھ دیں گے، یا پھر ہم  کرپٹ مافیا، فاشزم، جنگل کے قانون کیساتھ ہیں۔

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ سب کو پی ٹی آئی کی طرح آئین، قانون ،جمہوریت کا ساتھ دینا ہوگا۔

  • امریکی صدر کو بھی ’جمہوریت‘ خطرے میں نظر آنے لگی

    امریکی صدر کو بھی ’جمہوریت‘ خطرے میں نظر آنے لگی

    میری لینڈ: امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی وسط مدتی انتخابات میں ’جمہوریت‘ خطرے میں نظر آنے لگی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا میں وسط مدتی الیکشن میں پولنگ شروع ہونے سے قبل صدر جو بائیڈن کو بھی جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگی ہے، انھوں نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ جمہوریت کو بچایا جائے۔

    اے ایف پی کے مطابق ریاست میری لینڈ میں اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب میں صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ ہماری جمہوریت خطرے میں ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہی وقت ہے جب آپ نے اس کو بچانا ہے۔‘

    جو بائیڈن نے پیر کو متنبہ کیا کہ ریپبلکن کی جیت ملک کے جمہوری اداروں کو کمزور کر سکتی ہے، دوسری طرف سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اشارہ دیا ہے کہ وہ ایک ہفتے بعد دوبارہ صدر بننے کے لیے انتخاب لڑنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

    روئٹرز کے مطابق بائیڈن کا بیان 8 نومبر کے انتخابات سے قبل ریاستہائے متحدہ میں گہری سیاسی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے، جس میں ریپبلکن کانگریس کے ایک یا دونوں ایوانوں کا کنٹرول جیت سکتے ہیں۔

    غیر جانب دار انتخابی پیشین گوئی کرنے والوں نے پیش گوئی کی ہے کہ 435 نشستوں والے ایوان نمائندگان میں ریپبلکنز تقریباً 25 نشستیں حاصل کر سکتے ہیں، جو کہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق حالیہ برسوں میں یہ سب سے زیادہ بے تابی سے دیکھے جانے والے وسط مدتی انتخابات ہیں۔ اس الیکشن میں لاکھوں امریکی قومی، ریاستی اور کاؤنٹی کے عہدیداروں کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ کاسٹ کریں گے، 36 ریاستوں کے گورنرز کا بھی انتخاب ہوگا۔

    ریاست ایریزونا کے کچھ علاقوں میں ری پبلکنز اور ڈیمو کریٹس میں سخت مقابلہ ہے، حکام کی جانب سے یہاں پولنگ اور ووٹوں کی گنتی کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔

    یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے برتری حاصل کرنے کے بعد 2020 کے صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست سے دوچار کر دیا تھا، اس کاؤنٹی کی آبادی 44 لاکھ سے زائد ہے۔

  • "انفرادی ہوش مندی” جمہوریت کے دفاع کا بہترین طریقہ!

    "انفرادی ہوش مندی” جمہوریت کے دفاع کا بہترین طریقہ!

    ایک افلاس زدہ اقلیت سیاسی لحاظ سے بے بس ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف ایک نچلا متوسط طبقہ جو حکومت کے سرمایہ دار اور مزدور دھڑوں کے درمیان پس رہا ہو خود کو منظّم کرنے کا اہل ہوتا ہے اور مراعات یافتہ طبقوں کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے۔

    یہ سرکش نچلا درمیانی طبقہ وہ دھماکہ خیز سماجی قوّت تھی جو ہٹلر کو 1930ء میں جرمنی میں برسرِ اقتدار لائی۔ چوں کہ کوئی ان کی مدد پر آمادہ نہیں تھا، لہٰذا وہ اپنی مدد آپ کے تحت نیشنل سوشلسٹ پارٹی میں منظّم ہو کر حکومت پر قابض ہو گئے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہٹلر محض اپنی شعلہ بیانی پر مبنی ذہانت سے جرمنی کا آمر نہیں بن سکتا تھا تا وقتیکہ جرمنی میں ایک غیر مطمئن طبقہ موجود نہ ہوتا جسے ہٹلر اپنی قیادت قبول کرنے کے عوض داد رسی کی پیش کش کر سکے۔

    اس وقت کے جرمن نژاد لوگوں نے اپنی مسلّمہ مشکلات کے حل کی توقع میں بہت عجلت کے ساتھ خود کو نازی پارٹی کے حوالے کر دیا۔ بہر کیف وہ یہ محسوس کرنے سے قاصر رہے کہ پارٹی جو طریقۂ کار اختیار کر رہی ہے، وہ دوسروں کے لیے کہیں زیادہ مصائب کا موجب ہوں گے۔ اپنی مشکلات سے گھبرا کر اور یہ محسوس کیے بغیر کہ نازی کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں جرمن لوگ فطری طور پر اس پیش گوئی سے قاصر تھے کہ وہ جن لوگوں کو ایذا پہنچا رہے تھے ایک دن ان کے خلاف بے پناہ قوّت کے ساتھ صف آرا ہو جائیں گے۔

    یہ کور چشمی جرمنی کی قوی امیدوں کی محرومی اور اس کی اپنی تباہی کا باعث بنی۔ بڑے دکھ کے ساتھ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی تکلیف کی حد تک انتہائی حساس ہوتا ہے اور دوسروں کے مصائب پر غیر معمولی بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے باوجود بقائے آزادی کے لیے ہر فرد میں یہ ذہنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے نظام کی سیاسی حکمتِ عملی سے دوسروں کی زندگی اور فلاح پر ہونے والے اثرات کا اندازہ کر سکے۔

    میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ ضمانت حاصل کرنے کے لیے کہ سارے انسان ایسی صلاحیت رکھتے ہیں، واحد طریقہ یہ ہے کہ انہیں محبت اور احترامِ انسانیت پر مبنی ایک صحّت مندانہ فلسفہ فراہم کیا جائے۔ ایسا فلسفہ انفرادی دانش کے فروغ میں مددگار ہو گا اور صرف دانش ہی فسطائیت کے ظہور کو روک سکتی ہے۔

    مجھے یقین ہے کہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے ہر فرد میں یہ ذہانت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے گرد و پیش ہونے والی ہر بات کی اصلیت کا وقتِ نظر سے جائزہ لے سکے۔ انفرادی ہوش مندی فسطائیت کے فروغ کے خلاف جمہوریت کے دفاع کا بہترین طریقہ ہے۔

    (عظیم تاریخ دان اور فلسفی ٹوئن بی کی گفتگو سے اقتباس جس کا اردو ترجمہ منظور احمد نے کیا ہے)

  • واشنگٹن پوسٹ کا امریکی نظام حکومت سے متعلق انکشاف

    واشنگٹن پوسٹ کا امریکی نظام حکومت سے متعلق انکشاف

    واشنگٹن: امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ نے کہا ہے کہ امریکا میں اب معیاری جمہوریت نہیں رہی، امریکا اینوکریسی کے قریب پہنچ رہا ہے، یعنی ایک ایسا نظام جو نہ تو مکمل جمہوری ہے اور نہ ہی مکمل آمرانہ۔

    امریکی روزنامے میں رائے پر مبنی جمہوریت کے حوالے سے مضمون میں کہا گیا ہے کہ ملک میں 200 سالوں میں پہلی بار معیاری جمہوریت نہیں رہی، کیوں کہ امریکی شہریوں کے کچھ حقوق، جیسا کہ فرد کے قانونی حقوق اور آزادئ صحافت کو پامال کیا گیا ہے۔

    مضمون میں کہا گیا ہے کہ ہمیں اس بات کی فکر کیوں کرنی چاہیے کہ امریکا پھر سے ‘اینوکریسی’ بن سکتا ہے؟ اس وجہ سے کہ ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ سر اٹھا رہا ہے۔

    مضمون کے مطابق اینوکریسی نہ تو مکمل طور پر جمہوری نظام ہے اور نہ ہی مکمل طور پر آمرانہ؛ اس میں شہری جمہوری حکمرانی کے کچھ عناصر (مثلاً انتخابات) سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جب کہ دیگر حقوق (مثلاً قانونی حقوق یا آزادئ صحافت) کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری ہفتوں میں، سینٹر فار سسٹمک پیس (CSP) نے حساب لگایا کہ، دو صدیوں کے عرصے میں پہلی بار امریکا جمہوری نہیں رہا، بلکہ پچھلے پانچ سالوں میں یہ ایک اینوکریسی کا حامل بن چکا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ جمہوری پسماندگی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ بہت سے امریکیوں کے لیے صدمہ انگیز بھی ہو سکتا ہے، جس طرح ساحل کا کٹاؤ جاری رہتا ہے، امریکا میں جمہوری پسماندگی کا عمل بھی جاری رہا، اور امریکیوں کے لیے اس عمل کو پہنچاننا اس لیے مشکل ہے، کیوں کہ وہ خود کو سب سے الگ قوم سمجھتے ہیں، سب سے مختلف۔

    مضمون میں ایک انوکریٹک معاشرے میں سیاسی تشدد اور عدم استحکام، یہاں تک کہ خانہ جنگی کے خطرے سے بھی خبردار کیاگیا ہے۔

  • آئین و قانون کے دائرے سے باہر تقریر کی حمایت نہیں کرتے: سپریم کورٹ بار

    آئین و قانون کے دائرے سے باہر تقریر کی حمایت نہیں کرتے: سپریم کورٹ بار

    اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عاصمہ جہانگیر سے متعلق کانفرنس پر وضاحت جاری کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ پیمرا نے کچھ لوگوں پر پابندی عائد کی ہے مگر ان کے خطاب پر پابندی نہیں ہے، اس لیے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں مقررین کے خیالات سے بار کا کوئی تعلق نہیں۔

    سپریم کورٹ بار نے اعلامیے میں کہا کہ یہ بار صرف جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے، ہم آئین و قانون کے دائرے سے باہر کسی تقریر کی حمایت نہیں کرتے۔

    اعلامیے میں کہا گیا کہ عاصمہ جہانگیر آزادئ اظہار رائے کی علم بردار تھیں، ان کے لیے کانفرنس کا مقصد ڈائیلاگ کے لیے ایک فورم فراہم کرنا تھا۔

    سپریم کورٹ بار نے تقریب میں شرکت پر چیف جسٹس صاحبان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بار کے لیے ان کی شرکت باعث اعزاز ہے، اور یہ بار ہمیشہ جمہوریت، قانون، عدلیہ کی آزادی کے ساتھ کھڑی رہے گی۔

  • مغربی ممالک نے افغانستان میں کون سی بڑی غلطی کی؟ روسی وزیر خارجہ کا اہم بیان

    مغربی ممالک نے افغانستان میں کون سی بڑی غلطی کی؟ روسی وزیر خارجہ کا اہم بیان

    ماسکو: امریکا کے دیگر ممالک میں جمہوریتیں نافذ کرنے پر روس نے ردِ عمل میں کہا ہے کہ امید ہے امریکا اب آئندہ کسی ملک میں جمہوریت نافذ نہیں کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے امید ظاہر کی ہے کہ مغربی رہنما اپنا وعدہ پورا کریں گے اور دوسری ریاستوں میں جمہوریت کو پھیلانے کی نئی کوششیں نہیں کریں گے۔

    لاوروف نے افغانستان میں مغربی نظام متعارف کرانے کی کوشش کو "سب سے بڑی غلطی” قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ وہ ملک ہے جہاں روایتی طور پر کبھی کوئی ایک مرکز قائم نہ ہو سکا۔

    روسی وزیر خارجہ نے ماسکو اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (ایم جی آئی ایم او) کے طلبہ اور لیکچررز کے سامنے اپنے خطاب میں کہا کہ میرا ماننا ہے کہ کسی بھی ریاست کا طریقہ کار اس کی روایات، رواج کی عکاسی کرتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے آرام دہ اور پرسکون ہونا چاہیے جو وہاں رہتے ہیں اور وہاں اپنی نسل پالتے ہیں۔

    سرگئی لاوروف نے کہا مغربی ممالک نے دیگر ممالک میں جمہوریتوں کے نفاذ کے اپنے عمل سے خود کو روکنے کا وعدہ کیا ہے۔

    انھوں نے کہا امریکی صدر جو بائیڈن اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے عملی طور پر یہ کہا ہے کہ اب وہ کسی دوسرے ملک میں جمہوریت کو جبراً مسلط نہیں کریں گے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ وعدے کیسے پورے ہوں گے۔

    روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ مغرب کی جانب سے کسی دوسرے ملک پر جمہوریت نافذ نہ کرنے کے وعدے پورے کیے جائیں گے۔