Tag: جمہوریت

  • پاکستان کے آئین و قانون کی بقاء کے لیے کام کریں گے، خورشید شاہ

    پاکستان کے آئین و قانون کی بقاء کے لیے کام کریں گے، خورشید شاہ

    اسلام آباد : پی پی پی رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت شہید بے نظیر بھٹوکی شہادت کی وجہ سے ہے، بھرپور کوشش ہوگی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے اقدامات کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ نے پی ٹی آئی کے اسد قیصر کو اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہونے مبارک دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی کوشش ہوگی پارلیمنٹ کا تقدس بحال رکھے۔

    رہنما پی پی پی خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ملک میں جمہوریت شہید بے نظیر بھٹوکی شہادت کی وجہ سے ہے، بے نظیر بھٹو شہید کی قربانی رائیگاں نہ جانے دیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بھرپور کوشش ہوگی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے اقدامات کریں گے، ہمارے قائدین نے پارلیمنٹ کے تقدس کے لئے جانیں قربان کیں۔

    سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ سابق اسپیکر ایازصادق کا ذکر نہ کروں تو یہ زیادتی ہوگی، سردار ایاز صادق کے کردار کی تعریف کرتا ہوں۔

    پیپلز پارٹی کے رہنما نے مؤقف اختیار کیا کہ ماضی میں بھی کوشش کی گئی پارلیمنٹ مدت پوری نہ کرسکے، کوشش ہوگی پاکستان، آئین اور قانون کے لیے کام کریں، دعا ہے موجودہ پارلیمنٹ بھی اپنے 5 سال پورے کرے۔

    سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا مزید کہنا تھا کہ جو لوگ منتخب ہو کر آئے کوشش ہوگی انہیں موقع دیں، بلاول بھٹو کی قیادت میں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے، بھرپور اپوزیشن کا کردار  ہمارا آئینی اور جمہوری حق ہے۔

  • جمہوری حکومت کے پانچ برس پر ایک نظر

    جمہوری حکومت کے پانچ برس پر ایک نظر

    ملک میں ایک اور جمہوری حکومت نے پانچ برس مکمل کر لیے، 2013 میں اقتدار سنبھالنے والی ن لیگ کی حکومت گوناگوں مسائل کے باوجود 2018 تک اقتدار میں رہی.

    مجموعی طور پر حکومت کا زیادہ وقت شریف خاندان کے خلاف جاری بدعنوانی کے کیسز کے دفاع میں صرف ہوا، معیشت، توانائی، پانی کے مسائل پوری طرح حل نہ ہوئے، عدلیہ دباؤ سے آزاد اور متحرک نظر آئی، فوج نے دہشت گردی کے خاتمے پر توجہ مرکوز رکھی۔

    اس رپورٹ میں‌ جمہوری حکومت کے پانچ برس کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے.


    ان پانچ برسوں میں ہیوی مینڈیٹ لے کر آنے والی مسلم لیگ ن کو کئی مسائل درپیش رہے، جس کی ابتدا پی ٹی آئی کے دھرنوں سے ہوئی.

    دوسرا بڑا بحران پاناما لیکس تھا، جو حکومت کے لیے سم قاتل ثابت ہوا. نوازشریف پاناما کیس میں خود پر عائد کیے جانے والے الزامات کو غلط ثابت کرنے میں‌ناکام رہے، جس کے نتیجے میں‌ وہ نہ صرف وزیر اعظم کے عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے، بلکہ پارٹی صدارت سے بھی گئے اور تاحیات نااہل ہوئے.

    ان مسائل کے باعث حکومت ملک کو درپیش معیشت، پانی اور توانائی کے مسائل حل کرنے سے بھی قاصر رہی اور آخر تک لوڈشیڈنگ نے حکومت کا پیچھا نہیں چھوڑا.

    حکومت اور اداروں کے درمیان تصادم نے بھی مسائل کو جنم دیا اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا ڈیڈ لاک آخر تک برقرار رہا. اس دوران ریاستی اداروں پر منتخب میڈیا کے ذریعے حملے بھی کیے گئے، ممبئی حملےمیں بھارتی موقف کی تائید کی گئی.

    پی ٹی آئی نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا، ڈی چوک، اسلام آباد پر دھرنا چار ماہ سے زائد عرصے جاری رہا، جو بالآخر سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ختم ہوا.

    [bs-quote quote=”حکومت اور اداروں کے درمیان تصادم نے بھی مسائل کو جنم دیا اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا ڈیڈ لاک آخر تک برقرار رہا.” style=”style-2″ align=”left”][/bs-quote]

    پاناما لیکس پر پی ٹی آئی نے پھر دھرنے کی راہ چنی، آخر حکومت نے عدالتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا، جے آئی ٹی بنائی گئی، جس کے نتیجے میں ن لیگ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا. البتہ پی ٹی آئی کو خود بھی کے پی میں انتظامی معاملات پر تنقید کا سامنا رہا۔

    فوج نے ان پانچ برس میں‌ دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا موثر کردارادا کیا، فوجی قیادت نے جمہوری تسلسل کے لیے اپنا مکمل آئینی تعاون فراہم کیا.

    چیف آف آرمی اسٹاف جمہوری عمل کی غیرمتزلزل حمایت کے لیے پارلیمنٹ بھی گئے، دفاعی سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کی موثر ترجمانی کی، سی پیک سے متعلق منصوبوں کو درست سمت میں جاری رکھا.

    کلبھوشن یادیو کی گرفتاری، احسان اللہ احسان کا ہتھیار ڈالنا اور کراچی اور بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال میں‌ بہتری فوج کی بڑی کامیابی ہے.

    عدلیہ نے ان برسوں میں‌ موثر کردار ادا کیا۔ بالخصوص چیف جسٹس ثاقب نثار کے عہدے سنبھالنے کے بعد جیوڈیشل ایکٹو ازم کی تجدید ہوئی اور کئی اہم کیس میں بڑے فیصلے سامنے آئے.


    قومی اسمبلی تحلیل ہونے کا نوٹی فکیشن جاری


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ہم پرجمہوریت کوسبوتاژکرنےکےالزامات لگانےوالوں کوکچھ نہ ملا‘ سرفرازبگٹی

    ہم پرجمہوریت کوسبوتاژکرنےکےالزامات لگانےوالوں کوکچھ نہ ملا‘ سرفرازبگٹی

    کوئٹہ : وزیرداخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت کی تبدیلی جمہوری عمل تھا، اسمبلیاں اپنی معیاد پوری کررہی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق منشیات کےعادی افراد کی بحالی کی تقریب سے وزیرداخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل کو تباہ نہیں ہونے دیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ غیرسرکاری تنظیموں کواس کام میں آگے آنا چاہیے، انسداد منشیات کے لیے کام کرنے والوں کو تحفظ دیا جائے گا۔

    وزیرداخلہ بلوچستان نے کہا کہ بحال افراد کو میرٹ پرملازمت دے کر حوصلہ افزائی کریں گے۔

    سرفرازبگٹی نے کہا کہ سینیٹ کے لیے ٹکٹوں پرماہرین ہی رائے دے سکتے ہیں، خواہش ہےسینیٹ انتخابات وقت پر ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت کی تبدیلی جمہوری عمل تھا، اسمبلیاں اپنی معیاد پوری کررہی ہیں۔

    اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ بلوچستان نے کہا کہ ہم پرجمہوریت کوسبوتاژکرنے کے الزامات لگانے والوں کو کچھ نہ ملا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • علم کا ظفرِ موج … پروفیسر حسن ظفرعارف …. ابتدا سے اختتام تک

    علم کا ظفرِ موج … پروفیسر حسن ظفرعارف …. ابتدا سے اختتام تک

    ایم کیو ایم لندن کے ڈپٹی کنونیر اور شہرِ کراچی کے معروف استاد پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف اتوار کی صبح کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں اپنی کار کی عقبی نشست پر مردہ حالت میں پائے گئے۔

    فلسفے میں ڈاکٹریٹ کرنے والے پروفیسر حسن ظفر عارف جامعہ کراچی میں شعبہ فلسفہ کے استاد رہے ہیں وہ دوران تدریس ہی ایک متحرک ترقی پسند نظریاتی کارکن اور سرمایہ درانہ نظام و آمریت کے خلاف جدوجہد کی علامت سمجھے جانے لگے تھے جس کی پاداش میں انہیں اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا۔

    دوران تدریس جہاں وہ طالب علموں کی نصابی ضرورتوں کو پورا کرتے وہیں ان کی نظریاتی ذہن سازی بھی کرتے اور ایک روشن خیال معاشرہ کی ترویج میں طالب علموں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرتے رہے چنانچہ طالب علموں کے ساتھ اُن کا رویہ محض ایک مشفق استاد کا ہی نہیں بلکہ ایک لیڈر بھی کا تھا جو نوجوان ذہنوں کی مثبت سوچ کے ساتھ آبیاری کیا کرتا تھا۔

    انہوں نے جامعہ کراچی کے اساتذہ کی ایک انجمن کے سیکریٹری اور صدر کے طور پر بھی فرائض انجام دیئے اور اس دوران نہ صرف یہ کہ کنٹریکٹ اساتذہ کو مستقل کرایا بلکہ اساتذہ کے دیگر مسائل کو حل کرانے میں کامیاب رہے۔

    جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں انہیں پیپلز پارٹی کے حق میں آواز اُٹھانے کی پاداش میں اُس وقت کے گورنر سندھ جنرل جہانداد کے حکم پر گرفتار کیا گیا تھا اور بعد ازاں آمریت مخالف تحریک چلانے کے جرم میں انہیں ملازمت سے برطرف کرکے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کسی قسم کی سودے بازی سے انکار کردیا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے میں بھی ڈاکٹر صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا اور 80 کی دہائی میں جب اُس وقت کے آمر حکمراں کے خلاف ریگل چوک پر مظاہرہ کرنے کے دوران ڈی ایس پی پولیس نے مظاہرین پر دھاوا بول کر پروفیسر صاحب کو گریبان سے پکڑ کر پولیس موبائل میں ڈالا تو اگلے روز یہ تصویر مقامی اخبار میں ’’ ڈی ایس پی بمقابلہ پی ایچ ڈی ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔

    ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے بائیں بازو کی تحریک سے تعلق رکھنے والے دیگر دانشوروں جیسے سبط حسن ، ڈاکٹر عشرت حسین اور ڈاکٹر فیروز احمد کے ساتھ مل کر ہم خیال دانشوروں کی انجمن کی داغ بیل ڈالی جس کے تحت ‘پاکستان فورم’ کے نام سے ایک تحقیقی جریدہ شائع کرنے کا آغاز کیا جو پاکستان میں بائیں بازو کے نظریات کی پرچار کرتا تھا.

    اس تحقیقی جریدے نے ضیاء الحق کے دور حکمرانی کی رجعت و بنیاد پرستی، متوسط طبقے کی نمائندگی، علم دوستی اور آمریت کے خلاف جدوجہد میں پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر جمہوری قوتوں کی حمایت میں مضامین شائع کیے جس کے باعث اس جریدے کو جاری رکھنے میں سخت پریشانی کا سامنا بھی رہا۔

    پروفیسر حسن ظفر عارف آمریت کے خلاف جمہوری جدوجہد میں ایم آر ڈی کا حصہ بھی بنے علاوہ ازیں وہ اس وقت کی پیپلزپارٹی میں محنت کشوں، کسانوں اور طالب علموں اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند سیکشن کی نمائندگی کے خواہاں تھے جس کے لیے انہوں نے پی ایس ایف کو جامعہ کراچی میں منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

    کراچی یونیورسٹی میں ملازمت سے برطرفی کے بعد بیگم نصرت بھٹو کی تجویز پر وہ باقاعدہ پی ایس ایف کو منظم کرنے اور ترقی پسند طلبہ تنظیم این ایس ایف کی رہنمائی میں کل وقتی طور پہ مصروف ہوگئے اُسی زمانے میں انھوں نے روس سے شائع ہونے والے مارکسی لٹریچر کا بھی بڑے پیمانے پہ ترجمہ کیا۔ ‘ملکیت کیا ہے؟’ ‘ سرمایہ کیا ہے؟’ اور اس جیسے کئی مقبول کتابچوں میں سے  چند ایک ہیں۔

    پروفیسر حسن ظفر عارف نے اُس زمانے میں نوجوانوں کی بڑی رہنمائی کی اور قومی سوال اور قومی تضادات پر ایک شہرہ آفاق مقالہ تحریر کیا جو 80 کی دہائی میں ان کی سرپرستی میں نکلنے والا جریدے پاکستان فورم ہی میں شائع ہوا تھا اور جس نے قبولیت عام کی سند پائی تھی۔

    تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد اور دو بار وزیر اعظم بننے کے باوجود سرمایہ داری کے خلاف موثر اقدام نہ اُٹھانے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناقص کارکردگی کے باعث مایوس ہوکر گوشہ نشین ہو گئے تاہم جب مسلم لیگ (ن) پر بُرا وقت آیا تو حسن ظفر عارف نے شمولیت حاصل کر کے آمریت کے خلاف کام کیا۔

    میاں صاحب کے دوبارہ اقتدار میں براجمان ہونے کے بعد بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو حسن ظفر عارف ایک بار پھر گوشہ نشین ہوئے تاہم 15 مئی 2016 میں اپنے دیگر کامریڈ ساتھیوں مومن خان مومن اور ساتھی اسحاق کے مشورے سے ایم کیو ایم میں شمولیت میں حاصل کی اور بانی ایم کیو ایم کی متنازعہ تقریر کے بعد لگنے والی پابندی کے بعد بھی ایم کیو ایم لندن سے جڑے رہے۔

    بانی ایم کیو ایم نے  فاروق ستار سمیت اپنی جماعت کے تقریبآ تمام ہی رہنماؤں کی جانب سے اعلان لاتعلقی کے بعد 17 اکتوبر 2016 کو ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو ڈپٹی کنونیر نامزد کیا گیا تاہم 22 اکتوبر 2016 کو اپنی دوسری پریس کانفرنس کے وقت ڈاکٹر صاحب کو دیگر رہنماؤں کے ہمراہ رینجرز اہلکاروں نے حراست میں لے لیا تھا بعد ازاں انہیں 18 اپریل 2017 کو ضمانت پر سینٹرل کراچی سے رہا کردیا گیا۔

    ڈاکٹر حسن ظفر عارف اپنی رہائی کے بعد بھی ایم کیو ایم لندن کے لیے کام کرتے رہے جب کہ ان کے ساتھ حراست میں لیے گئے دیگر رہنماؤں امجد اللہ اور کنور خالد یونس نے سیاست سے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔

    چند روز قبل ایم کیو ایم لندن کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے کے مطابق کراچی اور لندن میں تمام تنظیمی کمیٹیوں کو تحلیل کر کے ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو پاکستان میں انچارج مقرر کردیا گیا تھا اور وہ تاحال تنظیم سازی میں مصروف میں تھے اور گزشتہ شب پارٹی اپنی بیٹی سے ملاقات کرنے کا کہہ کر پارٹی میٹنگ سے چلے گئے تھے تاہم وہ گھر نہیں پہنچ سکے۔

    اتوار کی صبح اہل خانہ کو پتہ چلا کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف ابراہیم حیدری کے علاقے میں اپنی کار کی پچھلی نشست پر مردہ پائے گئے ہیں جس کے بعد اہل خانہ نے جناح اسپتال جاکر لاش کی تصدیق کی جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد میت لواحقین کے حوالے کردی گئی۔

    ڈاکٹر حسن ظفر عارف کا جنازہ ان کے بھائی کے گھر واقع گلبرگ سے اُٹھایا گیا جب کہ نماز جنازہ فیڈرل بی ایریا کی مسجد دارالعلوم میں ادا کی گئی اس موقع پر اہل خانہ سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

    پولیس اور جناح اسپتال کی ایم ایس سیمی جلالی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں تھا وہ عمر رسیدہ تھے اور سگریٹ نوشی کیا کرتے تھے اس لیے غالب امکان ہے کہ اُن کی موت دل کا دورہ یا فالج کے حملے کے باعث واقع ہوئی تاہم حتمی بات پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی کہی جا سکتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ن لیگی سعودی عرب کیوں اور کس لیےگئے، کیا وجہ ہے؟ ‘ خورشید شاہ

    ن لیگی سعودی عرب کیوں اور کس لیےگئے، کیا وجہ ہے؟ ‘ خورشید شاہ

    لاہور: اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ ہماری سیاست دھرنوں کی نہیں جمہوریت کی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت چلے اور الیکشن وقت پرہوں۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ طاہرالقادری سے ملاقات کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے بھی ملاقات ہوئی جب ماڈل ٹاؤن کا قتل عام ہوا تو تب بھی آئے۔

    خورشید شاہ نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن والوں کے حق لیے کھڑے ہوئے تھے اور آج بھی اس پرقائم ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ فاٹا انضمام کے حق میں ہیں اور اس معاملے پر پہلے دن سے پوزیشن لیے ہوئے ہیں، یہ ہمارے منشور کا حصہ ہے کہ فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم ہونا چاہیے۔

    اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ پیپلزپارٹی باشعور پارٹی ہے، سمجھتی ہے کہ ملک میں سیاست کیسے ہونی چاہیے اس میں انتقام اور دشمنی نہیں ہونی چاہیے۔

    خورشید شاہ نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق کے بیان پر فوری رد عمل نہیں آنا چاہیے تھا۔

    اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ دھرنے دینا یا احتجاج کرنا آئینی حق ہے لیکن یہ پرامن ہونا چاہیے، احتجاج ایوانوں تک پہنچنا چاہیے مگراس کی کوئی حد ہو جس سے عوام پریشان نہ ہوں، فیض آباد دھرنے سے دنیا کو خطرناک پیغام گیا۔

    خورشید شاہ نے کہا کہ ن لیگی سعودی عرب کیوں گئے اس کی کیا وجہ ہے ؟ قوم دیکھ رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کااپنا آئین ہے، ہمیں فیصلے خود کرنا چاہئیں، دوسروں کے دروازے نہیں کھٹکھٹانا چاہئیں۔

    اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان اور نوازشریف لاڈلے ہیں، کھیلنے کو مانگے چاند۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جمہوریت کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

    جمہوریت کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

    اسلام آباد: ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ ان کیمرہ سیشن میں سینٹ کے ارکان کو مفصل جواب دیے گئے اور آرمی چیف نے سینیٹرز کو مطمئن کیا، جمہوریت کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں۔

    اجلاس کے بعد پاک فوج کے شعبہ نشرو اشاعت کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جمہوریت کو فوج  سے کوئی خطرہ نہیں، آج کا سیشن بہت اہمیت کا حامل تھا، معلومات میں کمی کی وجہ سے جو افواہیں تھیں انہیں دور کردیا گیا ہے، دھرنے والوں کو پیسے بانٹنے سے متعلق بات نہیں ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ پولیٹیکل ایشو پرفوج کا ترجمان آئی ایس پی آر ہے، اگر ریٹائرڈ فوجی افسران سیاسی معاملے پربات کریں تو وہ ان کی ذاتی رائے ہے۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑے، افغانستان کی جنگ دوبارہ پاکستان میں نہیں لڑینگے، پاکستان پیسوں کیلئے دہشت گردی کی جنگ نہیں لڑرہا۔

    میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ امریکا سے دہشت گردی کی جنگ میں تعاون کافی عرصے سے جاری ہے، امن کیلئےہماری کوششیں اورقربانیاں تسلیم کی جائیں، امریکا مل کر کام کرے گا تو اسے تحفظات کا خیال کرنا ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک سے تعلقات میں قومی سلامتی کو پہلے سامنے رکھا جائیگا، ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا جواب دفتر خارجہ دے گا، بھارت کی پاکستان مخالف پالیسی برداشت نہیں کرینگے۔

    انہوں نے کہا کہ18 نومبرکوسینیٹ اورپارلیمان کےہاؤسزنے جی ایچ کیوکا دورہ کیا تھا ، آج ڈی جی ایم او نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حکمت عملی پربریفنگ دی۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سینیٹرز کو قومی سیکیورٹی سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی جس میں ارکین کو مطمئن کیا گیا ہے، میجر جنرل آصف غفور کے مطابق معززسینیٹرزنےآرمی چیف کی آمد پرخوشی کااظہارکیا، تمام سینیٹرز نے افواج پاکستان کے کردارکوسراہا۔

    ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر اندر کی بات باہر نہیں کی جاسکتی‘ تفصیلی پریس کانفرنس3،4دن میں کروں گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم ایک ہیں ہمیں کوئی شکست نہیں دےسکتا‘ اجلاس میں قومی سلامتی‘ امریکی پالیسی میں تبدیلی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور خطے کی مجموعی صورتحال پر گفتگو ہوئی۔ اجلاس میں تمام خطرات کا مل کر سامنا کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

    یاد رہے کہ قومی سلامتی کے موضوع پر سینٹ میں پاک فوج کی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن کی جانب سےان اہم ان کیمرا بریفنگ دی گئی، اجلاس کی سربراہی چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کی جبکہ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر باجو ہ سمیت اہم عسکری قیادت بھی سینٹ میں موجود تھی۔

    اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار‘ ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفور اور ڈی جی ایم آئی میجر جنرل سید عاصم منیراحمد شاہ بھی پارلیمنٹ ہاؤس میں آرمی چیف کے ہمراہ موجود تھے۔ ڈی جی ایم اومیجرجنرل ساحر شمشاد مرزا نے سینٹ اراکین کے سامنے ملک میں قومی سلامتی کی مجموعی صورتحال اور نئی امریکی پالیسی کے بعد کی صورتحال پر بریفنگ دی۔

    اجلاس ساڑھے چار گھنٹے جاری رہا اور اس موقع پر سینیٹ میں سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔عسکری حکام کی بریفنگ کےبعد سوال وجواب کا بھی سیشن ہوا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زرداری صاحب اوران کے فرزند نوازشریف کوطعنےنہ دیں‘ خواجہ آصف

    زرداری صاحب اوران کے فرزند نوازشریف کوطعنےنہ دیں‘ خواجہ آصف

    اسلام آباد : وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ زرداری صاحب اوران کےفرزند ارجمند نوازشریف کوطعنےنہ دیں، ہم نےجواب دیا توسیاسی برادری کا نقصان ہو گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرخارجہ خواجہ آصف نے آصف زرداری اور چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے جواب دیا تو سیاسی برادری کا نقصان ہوگا، مہربانی کریں ہمیں خاموش رہنے دیں۔

    خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپراپنے پیغام میں کہا کہ ہمارا ظرف بھی اجازت نہیں دیتا، زرداری صاحب محترم دانشمند ہیں، اشارہ سمجھتے ہیں، اللہ انہیں خوش رکھے۔


    جمہوریت کو نواز شریف سے خطرہ ہے، بلاول بھٹو


    یاد رہے کہ گزشتہ روزلاہور میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے خلاف ہر سازش میں نواز شریف پیش پیش ہوتے تھے، میاں صاحب صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں انہیں جمہوریت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیسبک وال پر شیئر کریں۔

  • جمہوریت کے لیےہم نےنوازشریف کاساتھ دیا، لیکن اب نہیں دیں گے‘ آغاسراج درانی

    جمہوریت کے لیےہم نےنوازشریف کاساتھ دیا، لیکن اب نہیں دیں گے‘ آغاسراج درانی

    مٹیاری : اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف کواب ہمارے ساتھ کی ضرورت کیوں پڑی ہے، جب ہم نےجمہوریت کی خاطرساتھ دیا اس وقت ہم اچھےتھے۔

    تفصیلات کے مطابق اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے بھٹ شاہ میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کے لیے سب کریں گے، کسی ایک شخص کے لیے کچھ نہیں کریں گے۔

    آغا سراج درانی کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ عدالتوں کا سامنا کیا اب نواز لیگ بھی کرے، نوازشریف مشکل میں ہیں، ایک ہی راستہ ہےعدالتوں کا سامنا کریں۔

    اسپیکرسندھ اسمبلی کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ عدالتوں کا سامنا کیا،اب نواز لیگ بھی کرے۔ ان کا کہنا تھا اپوزیشن میں اتحاد نہیں نیب کے خلاف مضبوط آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔


    نواز شریف صاحب!یہ مکافات عمل ہے، خورشید شاہ


    یاد رہے کہ گزشتہ روزقائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف صاحب!یہ مکافات عمل ہے، نوازشریف وہ دن یادرکھیں جب آصف زرداری سے ملاقات سے انکار کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اس وقت ملک جمہوریت کےلیےخطرہ مسلم لیگ ن ہے‘ شاہ محمودقریشی

    اس وقت ملک جمہوریت کےلیےخطرہ مسلم لیگ ن ہے‘ شاہ محمودقریشی

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن تاخیری حربےچاہتی ہےاوراحتساب عدالت میں پیش آنے والا واقعہ اس بات کا ثبوت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کےرہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پولیس بھی ان کی اوروزرا بھی ان کے ہیں، یہ نہیں چاہتےعدالتی کارروائی آگے بڑھے۔

    شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ چوہدری نثارنے بھی کل کہا محاذ آرائی شریف خاندان کےمفاد میں نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن دودھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے، ایک دھڑا کہتا ہے محاذآرائی نہ کریں اوردوسرا کہتا ہے ڈٹ جاؤ اور لیگی وزرا اور رہنما کنفیوژن کا شکارہیں کہتےہیں ہم کیا کریں۔

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ ایک مسلم لیگ نواز پاکستان اور ایک مسلم لیگ نواز لندن ہے، وزرا آخرکس کی سنیں اور کیا کریں تذبذب کےشکارہیں۔


    احتساب عدالت میں بدمزگی‘ سماعت بغیرکارروائی کے 19اکتوبرتک ملتوی


    شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایک خاندان کوبچانےکے لیے جمہوریت کوداؤ پرلگایا جارہا ہے،اس وقت ملک جمہوریت کے لیےخطرہ مسلم لیگ نوازہے۔

    انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن چاہتی ہے نظام لپیٹ دیاجائےتاکہ یہ سیاسی شہید بنیں لیکن پاکستان تحریک انصاف ایسا کسی صورت نہیں ہونےدی گی۔

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ جمہوری ملکوں میں ایسی روایت نہیں ہوتی کہ ججزکیس چھوڑدیں، جمہوری ملک میں وزیراعظم پرالزام لگتا ہےتو وہ عہدہ چھوڑدیتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ججزکوکام کرنےنہیں دیا جارہا، پراسیکیوٹرکوزدوکوب کیا جارہا ہے، چیئرمین نیب کے لیے ایک امتحان ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تواسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • بارہ اکتوبر1999 کاآمرانہ اقدام ترقی روکنے کی سازش تھی‘ شہبازشریف

    بارہ اکتوبر1999 کاآمرانہ اقدام ترقی روکنے کی سازش تھی‘ شہبازشریف

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کا کہنا ہے کہ 12 اکتوبر1999 ملکی سیاسی و جمہوری تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، اس غیرجمہوری اقدام کےمنفی نتائج آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کا کہنا ہے کہ 12 اکتوبر1999 کا آمرانہ اقدام ترقی روکنے کی سازش تھی، جمہوری عمل سبوتاژ نہ کیا جاتا تو ملک کو مسائل کا سامنا نہ ہوتا۔

    وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا کہ 12 اکتوبر1999 ملکی سیاسی و جمہوری تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، جمہوریت کو پٹری سے نہ اتارا جا تا توپاکستان کی حالت مختلف ہوتی۔

    شہبازشریف نے کہا کہ آمرانہ حکومتوں کے ادوارمیں ملک وقوم کونقصان پہنچا، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مسائل کا حل جمہوریت کے تسلسل میں ہے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے کہا کہ ذاتی مفادات کی سیاست ختم کرکے ترقی کو مقدم رکھنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت،آئین کے خلاف کسی اقدام کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

    واضح رہے کہ 12 اکتوبر سنہ 1999 کے مارشل لاء کو آج 18 سال مکمل ہوگئے۔18 سال قبل اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا تھا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تواسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔