Tag: جمیل الدین عالی

  • عالی جی: تہذیب، فن اور ادب کے ایک قدآور کا تذکرہ

    عالی جی: تہذیب، فن اور ادب کے ایک قدآور کا تذکرہ

    پاکستانی شعر و ادب میں جن چند شخصیات نے مجموعی طور پر اپنی انفرادیت اور تخلیقی اُپج کے نقوش چھوڑے ہیں، اُن میں جمیل الدّین عالی کا نام سرِفہرست ہے۔عالی صاحب کی تخلیقی شخصیت کے کئی حوالے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت کے مالک رہے۔

    ایک جانب انہوں نے کئی مقبول اور یادگار ملی نغمات لکھے تو دوسری طرف دوہے جیسی نظر انداز کی گئی صنف کو اپنی تخلیقی قوت کے سبب ایک نئی زندگی دی۔ یہی نہیں جمیل الدین عالی پاکستانی شعر و ادب میں نمایاں ترین کردار ادا کرنے کے ساتھ علمی اور تعمیری میدانوں میں بھی کئی اہم کارناموں کے باعث قابلِ ستایش ہیں۔ اُن کی علمی قابلیت اور دانش وارنہ شخصیت کا ادارک سب کو تھا، اور اسی لیے اُن کے چاہنے والے اُنہیں جمیل الدین عالی کے بہ جائے عالی جی کہہ کے پکارتے تھے۔

    عالی جی کی غیر معمولی انتظامی صلاحیتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس حوالے سے انجمن ترقی اردو جیسے تاریخی ادارے سے طویل علمی وابستگی اور پاکستان کی پہلی وفاقی اردو یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ رائٹرز گلڈ جیسے ادارے میں مرکزی اور انتظامی کردار نے عالی جی کو اُن کی زندگی ہی میں لیجنڈ بنا دیا تھا۔

    جمیل الدین عالی کی شاعری کا سفر 1939ء سے نویں جماعت ہی سے شروع ہو گیا تھا، تاہم جب مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تو استاد کی ضرورت محسوس ہوئی، چچا سراج الدین خاں سائل کی شاگردی میں آئے لیکن اُن کے پہلی ہی مشورے پر عمل نہ کیا اور یوں آگے چل کر بھی کسی باقاعدہ استاد کی شاگردی میں نہ آئے۔ 1956ء میں معروف مزاح نگار اور شاعر ابن انشا جو عالی جی کے دوست تھے، اُنہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق سے ملوانے لے گئے، اسی ملاقات کے بعد جمیل الدین عالی کی نیاز مندی مولوی عبدالحق سے قائم ہوگئی اور اسی نیازی مندی کے سبب وہ انجمن ترقیٔ اردو جیسے تاریخی ارادے سے جڑتے چلے گئے اور یہ تعلق اُن کی آخری سانس تک قائم رہا۔

    عالی جی راٹرز گلڈ کے اعزازی سیکرٹری رہے، منتخب جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ انجمن ترقی اردو کے رکنِ منتظمہ اور معتمدِ اعزازی رہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ کے رکن اور اعزازی صدر نشیں بھی رہے۔ وفاقی وزیرِ تعلیم ڈاکٹر عطا الرّحمٰن کے تعاون سے وفاقی اردو کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے میں کام یاب ہوئے، لیکن اس کے پیچھے عالی صاحب کو ایک طویل اور صبر آزما جد وجہد سے گزرنا پڑا۔

    مشاعروں میں وہ اپنی غزلیں اپنے مخصوص ترنم سے سناتے اور خاص طور پر لوگ اُن سے دوہے سنتے اور سنتے ہی چلے جاتے۔وہ اکثر مشاعروں میں اپنے کلام کا اختتام ’جیوے جیوے پاکستان جیسے مقبول عام قومی ترانے پر کرتے اور لوگ دیوانہ وار اُن کے ساتھ اس لازوال قومی ترانے کو اُن کے ساتھ ساتھ دہراتے۔

    عالی جی کا پہلا شعری مجموعہ ’غزلیں، دوہے، گیت ‘ 1957ء میں سامنے آیا، ملی نغمات پر مشتمل مختصر مجموعہ ’جیوے جیوے پاکستان ‘1974ء میں شایع ہوا۔ اسی سال اُن کا غزلوں، نظموں اور دوہے پر مشتمل اہم مجموعہ ’لاحاصل‘ بھی اشاعت پزیر ہوا۔ عالی جی کا آخری شعری مجموعہ ’اے مرے دشت ِ سخن کی صورت میں سامنے آیا۔ انہوں نے خاکہ نگاری کے حوالے سے ایک کتاب ’بس اک گوشۂ بساط‘ کے نام سے لکھی، چند سفر نامے بھی لکھے، عالی جی کی مزید کتابوں میں نئی کرن، شنگھائی کی عورتیں اور ایشین ڈرامے شامل ہیں۔

    عالی صاحب کی ایک کتاب اُن کی غیر معمولی طویل ترین نظم ’انسان ‘ ہے، اس نظم کی پہلی جلد 7800 مصرعوں پر مشتمل ہے۔ اُنہوں نے’انسان‘ کو 1950ء کے عشرے میں شروع کیا اور 2007ء میں یہ طویل ترین نامکمل نظم، پہلے حصے کے طور پر شایع ہوئی، ایک اندازے کے مطابق عالی صاحب اپنے انتقال تک اس اہم نظم کے دس ہزار سے زاید مصرعے لکھ چکے تھے۔ یہ نظم طوالت کے علاوہ اپنی فارم، اپنے اسلوب، اپنے ڈکشن اور اپنے ہمہ جہتی موضوعات کے سبب بھی اہم ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار انسان اور اس کا تاریخی و ارتقائی سفر ہے۔

    عالی جی کے ابتدائی دور کے دو شعر ملاحظہ کجیے

    کچھ نہ تھا یاد بہ جز کارِ محبت اک عمر
    وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے

    تم ایسے کون خدا ہو کہ عمر بھر تم سے
    اُمید بھی رکھوں اور نا اُمید بھی نہ رہوں

    دوسری جانب جمیل الدین عالی نے کئی دہائیوں تک بڑی معتبر اور معیاری کالم نگاری بھی کی۔ اُن کے کالموں میں علمی اور ادبی موضوعات کے ساتھ سماجی، تہذیبی اور سیاسی مسائل کی رنگ آمیزی بھی شامل رہی۔

    جمیل الدین عالی زندگی بھر کئی محاذوں پر نبرد آزما رہے۔ ایک جانب اُن کا خاندانی پس منظر، بھرپور شخصیت، ذہانت اور علمیت کے باوصف زندگی کے مختلف طبقات میں نمایاں رہی۔ علم وادب سے براہ راست وابستگی نے بھی اُن کی اہمیت میں چار چاند لگائے رکھے جب کہ بیوروکریسی میں شامل ہونے کے سبب وہ کئی اہم اور بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ اُنہیں 1991ء ’تمغۂ حسنِ کارکردگی‘، 1998ء ، میں ’ہلالِ امتیاز‘ اور اکادمی ادبیات کی جانب سے ’کمالِ فن ‘ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    جمیل الدین عالی نے سات مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں کراچی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے حصہ لیا لیکن ناکام رہے جب کہ ایم کیو ایم کی حمایت سے وہ 1997ء میں سینیٹ کی سیٹ پر منتخب ہوئے۔

    جمیل الدین عالی کی شخصیت اور اُن کی شاعری کا ذکر اُن کے ملی نغمات کے بغیر اداھورا رہ جائے گا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اپنے اکثر مقبولِ عام نغموں کی دھنیں بھی خود عالی جی نے بنائیں کیوں کہ یہ اُن کا شوق رہا ہے، تاہم انہوں نے اپنی کسی دُھن کو موسیقار کے تخلیقی مزاج پر حاوی نہیں ہونے دیا۔

    جیوے جیوے پاکستان پاکستان پاکستان جیوے پاکستان

    دین، زمین، سمندر، دریا، صحرا، کوہستان
    سب کے لیے سب کچھ ہے اس میں، یہ ہے پاکستان

    ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر، نام ور موسیقار اور گلوکار مہدی ظہیر نے عالی صاحب کا ایک ایسا یادگار اور شان دار ترانہ ریکارڈ کرایا جس نے غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی۔ یہ ملی ترانہ پاکستان میں منعقد ہونے والی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ہنگامی طور پر عالی جی نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی فرمایش پر راتوں رات لکھا، اور مہدی ظہیر نے اپنی ولولہ انگیز آواز میں گا کے امر کر دیا:

    ہم تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
    ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں

    پاکستان کے تمام ملی نغمات میں عالی جی کے لکھے ہوئے، اس ملی نغمے کو ہمیشہ یادگار حیثیت حاصل رہے گی۔ یہ ملی نغمہ جس خوب صورتی، جذبۂ حب الوطنی اور وارفتگی سے لکھا گیا، میڈم نور جہاں نے اپنی لافانی اور سُریلی آواز میں اُس ملی نغمے کو اُسی قدر سپردگی، تمکنت اور وقار کے ساتھ اپنے فوجی بھائیوں کی نذر کیا:

    اے وطن کے سجیلے جوانو
    میرے نغمے تمھارے لیے ہیں

    جمیل الدین عالی نے ایک طویل، بھرپور، خوش حال اور خوش خوش و خرم زندگی گزاری۔ وہ عارضۂ قلب کی بڑھتی ہوئی پیچدگیوں کے ساتھ کچھ ضمنی امراض میں بھی مبتلا ہوئے اور 23 نومبر 2015ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے، تاہم اُن کی شخصیت کی اثر انگیزی اور تخلیقی کاموں کی گونج اب تک برقرار ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔

    (عالی جی کے یومِ وفات پر معروف شاعر، ادیب اور سینئر صحافی خالد معین کے مضمون سے منتخب پارے)

  • جشنِ آزادی: جیوے، جیوے پاکستان اور جمیل الدّین عالی

    جشنِ آزادی: جیوے، جیوے پاکستان اور جمیل الدّین عالی

    جیوے جیوے پاکستان ایک ایسا ملّی نغمہ ہے جسے پانچ سال کا بچّہ اور زندگی کی 70 دہائیاں دیکھ لینے والا کوئی بزرگ بھی جھومتے ہوئے، سرخوشی کے عالم میں اور احساسِ مسّرت میں ڈوب کر ایک ہی ردھم میں خوبی سے گنگنا سکتا ہے۔

    یہ لازوال نغمہ جمیل الدّین عالی کا لکھا ہوا ہے۔ آج جشنِ آزادی پر ہم ان کا یہ نغمہ ہی نہیں ’ہم تا ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں، اے وطن کے سجیلے جوانو، جو نام وہی پہچان، پاکستان، پاکستان، اتنے بڑے جیون ساگر میں تُو نے پاکستان دیا، بھی سن رہے ہیں اور عالی جی کو بھی یاد کررہے ہیں۔

    جیوے جیوے پاکستان کو دوسرا قومی ترانہ اس ملّی نغمے کی عوامی مقبولیت کے پیشِ نظر کہا جاتا ہے۔ عالی جی نے وطنِ عزیز کے لیے جو نغمات لکھے وہ لازوال ثابت ہوئے۔ ان کے نغمات کو الن فقیر نے مخصوص انداز میں گایا گیا اور نصرت فتح علی خان کی منفرد گائیکی میں بھی محبت امن ہے اور اس کا ہے پیغام پاکستان کو بھی بہت سنا اور پسند کیا گیا۔

    جمیل الدین عالی، جنھیں عالی جی کہا جاتا تھا، ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد تھا جنھوں نے حبُ الوطنی، اپنی زبان اور ثقافت کی محبّت کو اپنے نغمات کے ذریعے ہمارے دلوں میں اتارا اور ایسی ملّی شاعری کی جو زبان زدِ عام ہو گئی۔

  • نام ور شاعر جمیل الدین عالی کے مقبول ترین ملّی نغمات

    نام ور شاعر جمیل الدین عالی کے مقبول ترین ملّی نغمات

    پاکستان سے محبت، اتحاد اور اتفاق سے مل جل کر رہنے کا پرچار کرنے والے، امن اور سلامتی کا درس دینے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے نوجوان نسل میں‌ جذبہ حب الوطنی اور جوش و ولولہ پیدا کرنے والے ادیبوں کا ذکر کیا جائے تو جمیل الدین عالی کا نام ہمارے سامنے آتا ہے جن کے ملّی نغمات ہمارا سرمایہ ہیں۔

    جمیل الدین عالی پاکستان سے محبت کا پرچار اور اردو کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ انھوں نے جو ملّی نغمے لکھے انھیں‌ لازوال شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہاں ہم ان کے چند مقبولِ عام نغمات کا ذکر کررہے ہیں جنھیں‌ آپ نے آج بھی جشنِ آزادی کی تقریبات میں شرکت کے دوران یا اپنے گھروں میں‌ ٹیلی ویژن پر سنا ہو گا۔

    جیوے… جیوے… جیوے پاکستان
    پاکستان، پاکستان جیوے پاکستان…

    یہ ملّی نغمہ جیسے ہر دل کی دھڑکن اور ایک ایسی دُعا بن گیا جو ہر لب پر جاری ہے کہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم، زندہ و پائندہ رہے۔ 90 کی دہائی میں‌ جمیل الدین عالی کا یہ نغمہ ملک کی فضاؤں میں گونجا اور دنیا بھر میں ہماری پہچان بن گیا۔

    پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر قوم نے جذبات اور امنگوں سے بھرپور ایک ترانہ سنا اور یہ بھی بچے بچے کی زبان پر جاری ہو گیا۔

    اس کے بول تھے: ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں…

    سندھ کے لوک فن کار علن فقیر کی آواز میں‌ یہ ملّی نغمہ بہت مشہور ہوا جس کے بول ہیں: اتنے بڑے جیون ساگر میں‌، تُو نے پاکستان دیا….

    اس گیت کے خالق بھی جمیل الدین عالی ہیں اور جب 1965 میں‌ دشمن نے ہمیں للکارا تو جرات و بہادری اور سرفروشی کی تاریخ رقم کرنے والے سپاہیوں تک جمیل الدین عالی نے قوم کے جذبات ان الفاظ میں‌ پہنچائے:

    اے وطن کی سجیلے جوانو، میرے نغمے تمہارے لیے ہیں…

  • مایہ ناز شاعر جمیل الدین عالی کو بچھڑے 4 برس بیت گئے

    مایہ ناز شاعر جمیل الدین عالی کو بچھڑے 4 برس بیت گئے

    لاہور : دوہوں اور نظموں کو پہچان دینے والے اردو ادب کے مایہ ناز شاعر، مترنم، ادیب اور محقق جمیل الدین عالی کی چوتھی برسی گزشتہ روز عزت و احترام سے منائی گئی۔

    نوابزادہ جمیل الدین احمد خان یہ کسی ریاست کے والی نہیں بلکہ شاعری کے عالی جی ہیں جنہوں نے بیس جنوری سنہ انیس سوپچیس کو دہلی کے معزز گھرانے میں آنکھ کھولی، جمیل الدین عالی اعلی تعلیم یافتہ اور قابل بینکر تھے۔

    اس دن کی مناسبت سے ان کے اہل خانہ کی جانب سے برسی کی تقریب کا انعقاد کیا گیا جبکہ ان کے دوست احباب نے بھی خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جس میں ان کی طویل ملکی قومی، سماجی، عوامی، فلاحی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

    جمیل الدین عالی پاکستان رائٹرز گلڈ کے اعلی عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ انجمن ترقی اردو سے ایک طویل عرصہ تک وابستہ اور اپنی انتہائی قابلیت سے ملک میں اردو زبان کی ترقی اور ترویج کیلئے کام کرتے رہے۔

    ان کی لکھی ہوئی کتابوں میں ’اے میرے دشت سخن، لاحاصل، نئی کرن، دعا کر چلے اور صدا کر چلے شامل ہیں نیز ان کے مشہور سفر ناموں میں دنیا میرے آگے، تماشا میرے آگے، شنگھائی کی عورتیں، ایشین ڈرامہ، بس ایک گوشہ، مہر ماہ وطن، اصلات بینکاری قابل ذکر ہیں اسی طرح ان کے دوہوں کو بھی زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔

    جمیل الدین عالی پاکستان میں دوہو ں کے خالق جانے جاتے ہیں، تقسیم ہند کے بعد خاندان کے ہمراہ کراچی آگئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

    جمیل الدین عالی 23 نومبر 2015 کو 90 برس کی عمر میں دار فانی سے رخصت ہوئے تھے۔

  • اردو کے مایہ ناز شاعر، نقاد اور کالم نگار جمیل الدین عالی انتقال کرگئے

    اردو کے مایہ ناز شاعر، نقاد اور کالم نگار جمیل الدین عالی انتقال کرگئے

    کراچی: اردو کے مایہ ناز شاعر، نقاد اور کالم نگار جمیل الدین عالی انتقال کرگئے۔

    لازوال ملی نغموں نےخالق اورمعروف ادیب، نقاد جمیل الدین عالی کراچی میں تویل علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے ۔

    نوابزادہ مرزا جمیل الدین احمد خان 20 جنوری 1926 میں دہلی میں پیدا ہوئے، جمیل الدین عالی کے والد نواب علاؤالدین احمد خان مرزا غالب کے دوست اور شاگردوں میں سے تھے،جمیل الدین عالی نے ابتدائی تعلیم دہلی سے حاصل کی ، جمیل الدین عالی 1951ء سے 1971 تک سول سروس آف پاکستان میں کام کرتے رہے ۔

    جمیل الدین عالی نے 1977 ء میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے عام انتخابات میں حصہ لیا،جمیل الدین عالی ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے چھ سال کیلئے سینیٹر بھی رہے، جمیل الدین عالی ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف تھے، جمیل الدین عالی کی کتابوں میں’ اے میرے دشت سخن‘، غزلیں، دوہے ، گیت جیوے ، جیوے پاکستان، لاحاصل، نئی کرن ، دنیا میرے آگے، تماشہ میرے آگے، آئس لینڈ، حرفے شامل ہیں۔

    جمیل الدین عالی نے قومی نغمے جن میں ”اے وطن کے سجیلے جوانوں“ 1965 میں تحریر کیا، جمیل الدین عالی نے” جیوے جیوے پاکستان “جیسے ملی نغمے سے شہرت حاصل کی،جمیل الدین عالی کے مشہور ملی نغموں میں ”میرا پیغام پاکستان“، ہم مائیں، ہم بہنیں ہم بیٹیاں، اور جو نام وہی پہچان جیسے ملی نغمے شامل ہیں جمیل الدین عالی نے ’اتنے بڑے جیون ساگر میں تونے پاکستان دیا“جیسے ملی نغمے گائے۔

    انہوں نے نہ صرف شاعری میں طبع آزمائی کی بلکہ سفرنامہ نگاری اوراخباری کالم بھی ان کی ادبی اورعلمی شخصیت کی پہچان بنےجمیل الدین عالی کو 2004 میں ہلال امتیاز 1991 میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی ادبیات پاکستان کا ’’کمال فن ایوارڈ سمیت درجنوں ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ان صحابزادے کے مطابق جمیل الدین عالی کی عمراناسی برس تھی، جمال الدین عالی کو 3 روز قبل شدید تشوتش ناک حالت میں استپال منتقل کیا گیا تھا ، موت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوئی، ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق دوپہر 4 بجے کر دی تھی.

    ان کی نماز جنازہ کل ڈیفنس میں ادا کی جائے گی، مرحوم نے سوگواران میں پانچ بچے تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں.


     

  • جمیل الدین عالی آج نوے برس کے ہوگئے

    جمیل الدین عالی آج نوے برس کے ہوگئے

    آج اردو کے ممتازشاعر، نقاد، سابق بینکراورجیوے جیوے ہاکستان، اے وطن کے سجیلے جوانوں، میرا پیغام پاکستان اورہم مصطفوی ہیں جیسے شہرۂ آفاق گانوں کے خالق جمیل الدین عالی 90 برس کے ہوگئے ہیں۔

    جمیل الدین عالی 20جنوری 1926ء کودہلی میں پیدا ہوئے۔ 1940ء میں اینگلو عربک کالج دریا گنج دہلی سےمیٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1945ء میں معاشیات، تاریخ اورفارسی میں بی اے کیا۔ 1951ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے پاکستان ٹیکسیشن سروس کے لیے نامزد ہوئے۔ 1971ء میں جامعہ کراچی سے ایف ای ایل 1976ء میں ایل ایل بی پاس کرکے ملازمت کا آغاز کیا۔ 1948ء میں حکومت پاکستان وزارت تجارت میں بطوراسسٹنٹ رہے۔ 1951ء میں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد پاکستان ٹیکسیشن سروس ملی اورانکم ٹیکس افسرمقررہوئے۔

    1963ء میں آپ کووزارت تعلیم میں کاپی رائٹ رجسٹرارمقررکیا گیا اس دوران اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو میں فیلو منتخب ہوئے۔ اس کے بعد دوبارہ وزارت تعلیم میں بھیج دیا گیا لیکن فوراًگورنمنٹ نے عالی صاحب کو ڈیپوٹیشن پرنیشنل پریس ٹرسٹ بھیج دیا جہاں پر انہوں نے سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔

    1967ء میں نیشنل بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اورسینٹرایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے وہاںسے ترقی پاکر پاکستان بینکنگ کونسل میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ایڈوائزرمقررہوئے۔

    جمیل الدین عالی کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں اور ان کو بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ آپ کو 1989ء میں صدارتی اعزازبرائے حسن کارکردگی، 2003 میں ہلالِ امتیاز برائےاردو ادب، اور کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جامعہ کراچی نے 2004 میں آپ کو ادب کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔

    عالی کی تخلیقی متنوع مزاجی کا اندازہ ان کے تخلیقی کام کرنے کے مخلتف پیرایوں سے ہوتا ہے تاہم انہوں نے دوہا نگاری میں کچھ ایسا راگ چھیڑ دیا ہے یا اردو سائکی کے کسی ایسے تار کو چھو دیا ہے کہ دوہا ان سے اوروہ دوہے سکے منسوب ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے دوہے کی جو بازیافت کی ہے اوراسے بطور صنفِ شعراردو میں جواستحکام بخشا ہے وہ خاص انہی کی دین ہو کررہ گیا ہے۔ شعر گوئی میں کمال کرنا توفیق کی بات سہی، لیکن سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ تاریخ کا کوئی موڑکوئی رخ کوئی نئی جہت ، کوئی نئی راہ ، چھوتی یا بڑی کسی سے منسوب ہوجائے۔

    اپنے غزلیں بھی کہیں اور نظمیں بھی اور گیت بھی تخلیق کیے۔ جیوے جیوے ہاکستان، اے وطن کے سجیلے جوانوں، میرا پیغام پاکستان اورہم مصطفوی ہیں جیسے شہرۂ آفاق گانے آُپ سے ہی منسوب ہیں ۔ آپ کی طویل نظمیں فلسفے اور سائنس کا حسین امتزاج ہیں۔

    نثر میں جہاں آپ کے سفرنامے بے پناہ مقبول ہیں وہیں گزشتہ پچاس سال سے تحریر کیے جانے والے کالم بھی معاشرے میں ناصح کا کردار ادا کررہے ہیں۔

    آپ اردو زبان کی ترقی و ترویج میں پیش پیش رہے چھ دہائیوں تک انجمن ترقی اردو کے اعزازی سیکرٹری کی حیثییت سے خدمات انجام دیں۔ آپ تین سال تک اردو لغت بورڈ کے سربراہ بھی رہے۔

    گزشتہ سال آپ انجمن ترقی اردو میں اپنی ذمہ داریاں ڈاکٹر فاطمہ حسن کو سونپ کرعہدہ براہ ہوئے، آپ انجمن کے تاحیات مشیر بھی ہیں۔