Tag: جمیل جالبی

  • ڈبیا اور قوام کی ڈبچی!

    ڈبیا اور قوام کی ڈبچی!

    یہ اردو ادب کی مایہ ناز شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی کا تذکرہ ہے جنھوں نے کئی اصناف میں طبع آزمائی کی اور اردو ادب کو اپنی تصانیف سے مالا مال کیا۔ ادبیاتِ اردو میں انھیں ایک محقق، نقاد، ادبی مؤرخ، مترجم، لغت نویس اور بچوں کے ادیب کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

    جالبی صاحب کا یہ تذکرہ انتظار حسین کے قلم کی نوک سے نکلا ہے جو اردو کے ایک مشہور ادیب اور نقاد تھے۔ انتظار حسین پہلے پاکستانی قلم کار تھے جن کا نام مین بکر پرائز کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ آج دونوں‌ ہی شخصیات اس دنیا میں‌ نہیں ہیں۔ لیکن ان کی تصانیف اور بہت سی ادبی تحریریں ہم پڑھتے رہتے ہیں۔ انتظار حسین کی کتاب ‘چراغوں کا دھواں’ سے جمیل جالبی کے بارے میں یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    انتظار حسین لکھتے ہیں، "سلیم کو تو 1947ء میں جیسا چھوڑا تھا، اب بھی ویسا ہی پایا، مگر وہ جو اس ٹولی کا دوسرا جوان تھا، جمیل خان اور جس نے آگے چل کر جمیل جالبی کے نام سے اپنی محققی کا ڈنکا بجایا وہ کتنا بدل گیا تھا۔ ماشاء اللہ کیا قد نکالا تھا۔ جب میرٹھ میں دیکھا تھا، تو نام خدا ابھی شاید مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ چھریرا بدن، گوری رنگت، پتلے پتلے ہونٹ، ستواں ناک، جیسی اچھی صورت ویسا اجلا لباس۔ میرٹھ کالج کا نیا دانہ اور اب جو دیکھا، تو نقشہ کچھ سے کچھ ہو چکا تھا۔ لمبا قد، چوڑا چکلا بدن، چہرہ سرخ و سفید، کلے میں گلوری، ہونٹوں پر پان کی لالی، جیب میں پانوں کی ڈبیا اور قوام کی ڈبچی۔ کتنی جلدی مگر کسی شائستگی سے جیب سے یہ ڈبیاں نکلتی تھیں۔ ”ناصر صاحب پان لیجیے اور یہ قوام چکھیے۔“

    ناصر کاظمی کو جمیل خاں کیا ملے، دونوں جہاں کی نعمت مل گئی۔ فوراً ہی مجھے اپنی رائے سے آگاہ کر دیا۔ ”یہ تمہارے جمیل صاحب آدمی شستہ ہیں۔“ پانوں کی اس ڈبیا اور قوام کی اس ڈبچی نے ہمارے بہنوئی شمشاد حسین کو بھی متاثر کیا۔ ”ارے میاں تمہارے دوستوں میں بس یہی ایک جوان کام کا ہے۔ باقی تو سب مجھے یوں ہی سے لگتے ہیں۔“

  • جمیل جالبی: یگانۂ روزگار ادبی شخصیت

    جمیل جالبی: یگانۂ روزگار ادبی شخصیت

    پاکستان کے ممتاز نقّاد، محقق، ادبی مؤرخ، مترجم اور ماہر لسانیات ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنے بے حد فعال اور طویل علمی و ادبی سفر میں نمایاں سرگرمیاں انجام دیں اور اپنے زورِ قلم سے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں۔ 18 اپریل 2019ء کو ڈاکٹر جمیل جالبی اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ آج اس نابغۂ روزگار شخصیت کی برسی ہے۔

    جمیل جالبی علم و ادب کی دنیا میں ایسے ہمہ صفت تھے جس نے کئی نہایت اہم اور ادق موضوعات پر قلم اٹھایا اور اپنی قابلیت اور علمی استعداد کا لوہا منوایا۔ وہ بلاشبہ ایک قابلِ قدر اور لائقِ صد مطالعہ سرمایہ نئی نسل کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ جمیل جالبی جامعہ کراچی میں وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اور اردو لُغت بورڈ کے صدر بھی رہے۔ ان ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے انھوں نے تصنیف و تالیف سے لے کر تدوین و ترجمہ تک نہایت وقیع کام کیا۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔ وہ 2 جون، 1929 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندانی نام محمد جمیل خان تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہا‌ں انھوں نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ ماقبل ان کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول سہارنپور میں ہوئی۔ وہیں سے 1943ء میں میٹرک پاس کیا تھا۔ 1945ء میں میرٹھ کالج، میرٹھ سے ایف اے کے بعد 1947ء میں یہیں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ہجرت کے بعد سندھ یونیورسٹی کراچی سے 1949ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ اسی یونیورسٹی سے 1950ء میں اردو میں ایم اے کیا اور پھر ایل ایل بی بھی پاس کیا۔ اسی یونیورسٹی سے 1971ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری اور 1976ء میں ڈی لٹ سے نوازے گئے۔

    ڈاکٹر صاحب 1950ء سے 1952ء بہادر یار جنگ اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہے۔ اس کے بعد ایک مقابلے کے امتحان میں کام یاب ہوئے اور انکم ٹیکس کے محکمے سے وابستہ ہوگئے۔ اور اسی محکمے سے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ 1980ء میں انھوں نے وزارت تعلیم سے وابستگی اختیار کرلی تھی اور پھر کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوگئے۔

    علمی و ادبی میدان میں ان کی خصوصی دل چسپی تحقیق و تنقید، فکر و فلسفہ وغیرہ میں رہی اور انھوں نے تاریخ، تعلیم، ثقافت پر بھی مضامین سپردِ قلم کیے۔ ان کی ذاتی لائبریری ہزاروں کتابوں سے سجی ہوئی تھی جن میں کئی نادر کتابیں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے لکھنے لکھانے کے سفر کا آغاز ادب سے کیا اور کہانی لکھی جس کے بعد ان کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شایع ہونے لگی تھیں۔

    جمیل جالبی کی کتابوں میں تصنیف و تالیف، تنقیدی مضامین کے علاوہ تراجم بھی شامل ہیں جن کے نام پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ، تاریخ ادب اردو، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، معاصر ادب وغیرہ ہیں۔ لغات اور فرہنگِ اصلاحات کے علاوہ متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی ان کا کارنامہ ہیں۔

    الغرض ڈاکٹر جمیل جالبی کا شمار اُن یگانۂ روزگار ادبی شخصیات میں ہوتا ہے، جن کی زندگی کا ہر نفس گویا علم اور ادب کے نام ہوا۔ انھوں نے ادب کی ہر جہت میں کام کیا اور خوب کیا۔ ایسا وقیع اور جامع کام بہت کم نقّادوں نے کیا ہے۔ ہمہ صفات کا لاحقہ انہی جیسی ہستیوں کے لیے برتنا چاہیے۔ حکومت پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • دو چوہے…

    دو چوہے…

    دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا، اس لیے وہ کبھی کبھار ہی ایک دوسرے سے ملتے تھے۔

    ایک دن جو ملاقات ہوئی تو گاؤں کے چوہے نے اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، ’’بھائی! ہم دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں۔ کسی دن میرے گھر تو آئیے اور ساتھ کھانا کھائیے۔‘‘

    شہری چوہے نے اس کی دعوت قبول کر لی اور مقررہ دن وہاں پہنچ گیا۔ گاؤں کا چوہا بہت عزّت سے پیش آیا اور اپنے دوست کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ کھانے میں مٹر، گوشت کے ٹکڑے، آٹا اور پنیر اور میٹھے میں پکے ہوئے سیب کے تازہ ٹکڑے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ شہری چوہا کھاتا رہا اور وہ خود اس کے پاس بیٹھا میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہا۔ اس اندیشے سے کہ کہیں مہمان کو کھانا کم نہ پڑ جائے، وہ خود گیہوں کی بالی منہ میں لے کر آہستہ آہستہ چباتا رہا۔

    جب شہری چوہا کھانا کھا چکا تو اس نے کہا، ’’ارے یار جانی! اگر اجازت ہو تو میں کچھ کہوں؟‘‘

    گاؤں کے چوہے نے کہا، ’’کہو بھائی! ایسی کیا بات ہے؟‘‘

    شہری چوہے نے کہا، ’’تم ایسے خراب اور گندے بِل میں کیوں رہتے ہو؟ اس جگہ میں نہ صفائی ہے اور نہ رونق۔ چاروں طرف پہاڑ، ندی اور نالے ہیں۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ تم کیوں نہ شہر میں چل کر رہو۔ وہاں بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ سرکار دربار ہیں۔ صاف ستھری روشن سڑکیں ہیں۔ کھانے کے لیے طرح طرح کی چیزیں ہیں۔ آخر یہ دو دن کی زندگی ہے۔ جو وقت ہنسی خوشی اور آرام سے گزر جائے وہ غنیمت ہے۔ بس اب تم میرے ساتھ چلو۔ دونو ں پاس رہیں گے۔ باقی زندگی آرام سے گزرے گی۔‘‘

    گاؤں کے چوہے کو اپنے دوست کی باتیں اچھی لگیں اور وہ شہر چلنے پر راضی ہو گیا۔ شام کے وقت چل کر دونوں دوست آدھی رات کے قریب شہر کی اس حویلی میں جا پہنچے جہاں شہری چوہے کا بِل تھا۔ حویلی میں ایک ہی دن پہلے بڑی دعوت ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے افسر، تاجر، زمین دار، وڈیرے اور وزیر شریک ہوئے تھے۔

    وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حویلی کے نوکروں نے اچھے اچھے کھانے کھڑکیوں کے پیچھے چھپا رکھے ہیں۔ شہری چوہے نے اپنے دوست، گاؤں کے چوہے کو ریشمی ایرانی قالین پر بٹھایا اور کھڑکیوں کے پیچھے چھپے ہوئے کھانوں میں سے طرح طرح کے کھانے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ مہمان چوہا کھاتا جاتا اور خوش ہو کر کہتا جاتا، ‘’واہ یار! کیا مزیدار کھانے ہیں۔ ایسے کھانے تو میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔”

    ابھی وہ دونوں قالین پر بیٹھے کھانے کے مزے لوٹ ہی رہے تھے کہ یکایک کسی نے دروازہ کھولا۔ دروازے کے کھلنے کی آواز پر دونوں دوست گھبرا گئے اور جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اتنے میں دو کتّے بھی زور زور سے بھونکنے لگے۔ یہ آواز سن کر گاؤں کا چوہا ایسا گھبرایا کہ اس کے ہوش و حواس اڑ گئے۔

    ابھی وہ دونوں ایک کونے میں دبکے ہوئے تھے کہ بلیوں کے غرانے کی آواز سنائی دی۔ گاؤں کے چوہے نے گھبرا کر اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، ’’اے بھائی! اگر شہر میں ایسا مزہ اور یہ زندگی ہے تو یہ تم کو مبارک ہو۔ میں تو باز آیا۔ ایسی خوشی سے تو مجھے اپنا گاؤں، اپنا گندا بل اور مٹر کے دانے ہی خوب ہیں۔‘‘

    (ادبِ اطفال سے انتخاب، از قلم جمیل جالبی)

  • چیل کو بادشاہ کیوں بنایا تھا؟

    چیل کو بادشاہ کیوں بنایا تھا؟

    بچّو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلارہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔

    چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہوسکیں۔

    چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیارسے بولی:’’بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔ تم بھی آسمان پر اڑسکتے ہو، میں بھی آسمان پر اڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کرسکتے۔ میں بلّی کو حملہ کر کے زخمی کرسکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کرسکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔

    میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آزادی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔ میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔

    بھائیو! اور بہنو! میں ظلم کے خلاف ہوں۔ انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔ دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکو۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔

    جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو گے اور مجھے ہی حقوق اور پورا اختیار دے دو گے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذمہ داری ہوگی۔ تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرم رہو گے۔ اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہوگی۔

    چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیار محبت سے ان باتوں کو طرح طرح سے دہرانی۔ رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔

    ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔

    اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔ چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی، حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔

    بچو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلّے کو وہاں دیکھا تو اسی پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلّا ڈر کر بھاگ گیا۔

    چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔

    اسی طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔ کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔ وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔

    ایک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔ وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی: بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری حکمران ہوں۔

    تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔ میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔ میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟ میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کرسکتی ہوں؟ یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھا جاؤں، بلکہ یہ میرے سارے شاہی خاندان کا حق ہے۔ آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔

    اس دن اگر اس بڑے سے بلّے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھاجاتا اور کتنوں کو زخمی کردیتا۔ یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔ دوسرے کبوتر منہ دیکھتے رہ گئے۔

    اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے جاتے۔ اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔

    ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ ان کی آزادی ختم ہوگئی۔ وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ہمارے بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔ آخر ہم نے چیل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایا تھا؟ اب کیا ہوسکتا ہے؟

    (ادبِ اطفال سے انتخاب، مصنّف جمیل جالبی)

  • قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    قصہ ایک بھیڑیے کا (سبق آموز کہانی)

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چاندنی رات میں ایک دبلے پتلے، سوکھے مارے بھوکے بھیڑیے کی ایک خوب کھائے پیے، موٹے تازے کتّے سے ملاقات ہوئی۔

    دعا سلام کے بعد بھیڑیے نے اس سے پوچھا، ’’اے دوست! تُو تو خوب تر و تازہ دکھائی دیتا ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ سے زیادہ موٹا تازہ جانور آج تک نہیں دیکھا۔ بھائی! یہ تو بتا کہ اس کا کیا راز ہے؟ میں تجھ سے دس گنا زیادہ محنت کرتا ہوں اور اس کے باوجود بھوکا مرتا ہوں۔‘‘

    کتّا یہ سن کر خوش ہوا اور اس نے بے نیازی سے جواب دیا، ‘’اے دوست! اگر تُو بھی میری طرح کرے تو مجھے یقین ہے کہ تُو بھی میری طرح خوش رہے گا۔‘‘

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’بھائی! جلدی بتا، وہ بات کیا ہے؟‘‘

    کتّے نے جواب دیا، ’’تو بھی میری طرح رات کو گھر کی چوکیداری کر اور چوروں کو گھر میں نہ گھسنے دے۔ بس یہی کام ہے۔”

    بھیڑیے نے کہا ’’بھائی! میں دل و جان سے یہ کام کروں گا۔ اس وقت میری حالت بہت تنگ ہے۔ میں ہر روز کھانے کی تلاش میں سارے جنگل میں حیران و پریشان مارا مارا پھرتا ہوں۔ بارش، پالے اور برف باری کے صدمے اٹھا تا ہوں، پھر بھی پیٹ پوری طرح نہیں بھرتا۔ اگر تیری طرح مجھے بھی گرم گھر رہنے کو اور پیٹ بھر کھانے کو ملے تو میرے لیے اس سے بہتر کیا بات ہے۔‘‘

    کتّے نے کہا، ’’یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، سچ ہے۔ اب تو فکر مت کر۔ بس میرے ساتھ چل۔‘‘ یہ سن کر بھیڑیا کتّے کے ساتھ ساتھ چل دیا۔

    ابھی وہ کچھ دور ہی گئے تھے کہ بھیڑیے کی نظر کتّے کے گلے پر پڑے ہوئے اس نشان پر پڑی جو گلے کے پٹّے سے پڑ گیا تھا۔

    بھیڑیے نے پوچھا، ’’اے دوست! تیرے گلے کے چاروں طرف یہ کیا نشان ہے؟

    کتّے نے کہا، ’’کچھ نہیں۔‘‘

    بھیڑیے نے پھر کہا، ’’اے دوست! بتا تو سہی یہ کیا نشان ہے؟‘‘

    کتّے نے دوبارہ پوچھنے پر جواب دیا ’’اگر تُو اصرار کرتا ہے تو سن، میں چونکہ درندہ صفت ہوں۔ دن کو میرے گلے میں پٹّا ڈال کر وہ باندھ دیتے ہیں تاکہ میں سو رہوں اور کسی کو نہ کاٹوں اور رات کو پٹّا کھول کر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ میں چوکیداری کروں اور جدھر میرا دل چاہے جاؤں۔ رات کو کھانے کے بعد میرا مالک میرے لیے ہڈیوں اور گوشت سے تیار کیا ہوا راتب میرے سامنے ڈالتا ہے اور بچوں سے جو کھانا بچ جاتا ہے، وہ سب بھی میرے سامنے ڈال دیتا ہے۔ گھر کا ہر آدمی مجھ سے پیار کرتا ہے۔ جمع خاطر رکھ، یہی سلوک، جو میرے ساتھ کیا جاتا ہے، وہی تیرے ساتھ ہو گا۔‘‘

    یہ سن کر بھیڑیا رک گیا۔ کتّے نے کہا، ’’چلو چلو! کیا سوچتے ہو۔‘‘

    بھیڑیے نے کہا، ’’اے دوست! مجھے تو بس معاف کرو۔ یہ خوشی اور آرام تجھے ہی مبارک ہوں۔ میرے لیے تو آزادی ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جیسا تُو نے بتایا اس طرح اگر کوئی مجھے بادشاہ بھی بنا دے تو مجھے قبول نہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر بھیڑیا پلٹا اور تیزی سے دوڑتا ہوا جنگل کی طرف چل دیا۔

  • ’’خوجی“ ایک ایسا آئینہ جس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں

    ’’خوجی“ ایک ایسا آئینہ جس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں

    فسانۂ آزاد اردو ناول نگاری کے عہدِ اوّلین کا ایک خوب صورت نقش ہے جو پنڈت رتن ناتھ سرشار کشمیری کی تخلیق ہے۔ اردو ادب میں یہ بحث کی جاتی رہی کہ اسے ناول کہا جائے یا داستان، لیکن سبھی یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ فسانۂ آزاد کا کردار ’’خوجی“ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔

    پنڈت رتن ناتھ سرشار ادیب اور شاعر تھے، تعلق کشمیر سے تھا۔ اپنے زمانے کے اخبارات میں مدیر رہے، سرکاری ملازمت بھی کی اور مضمون نگاری کے ساتھ تصنیف و ترجمہ کا شغل جاری رکھا۔

    خوجی کا کردار ان کے ذہن کی اختراع ہے جسے انھوں نے فسانۂ آزاد میں متعارف کروایا۔ اس مشہور کردار کے بارے میں اردو کے ممتاز نقّاد اور محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھا ہے:

    ’’فسانۂ آزاد“ دسمبر 1878ء سے دسمبر 1879ء تک، اودھ اخبار لکھنؤ کے ضمیمے کے طور پر قسط وار شائع ہوتا رہا۔ اور پہلی بار 1880ء میں نول کشور پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اس ناول میں سرشار نے زوال شدہ لکھنؤ، مسلم تہذیب کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ خود یہ تہذیب اس ناول میں محفوظ اور اجاگر ہو گئی ہے۔

    اس ناول میں ہر طبقے کے مردوں اور عورتوں کے بے شمار چھوٹے بڑے کردار ہیں، لیکن ایک کردار خصوصیت کے ساتھ ایسا ہے جو زندۂ جاوید ہو گیا ہے۔ عرفِ عام میں اس کردار کا نام ”خوجی“ ہے۔ ”فسانۂ آزاد“ میں اس کردار نے وہ رنگ بھرا ہے کہ اس کے بغیر خود یہ ناول بے مزہ و بے لطف ہو کر رہ جاتا۔ میں نے اسی عجیب و غریب اور نرالے کردار کی سرگزشت آپ کی تفریحِ طبع کے لیے مرتب کی ہے۔ خوجی کی انوکھی سرگزشت ترتیب دیتے ہوئے میں نے اس کردار کے سارے چھوٹے بڑے واقعات کو مربوط انداز میں اس طرح اکٹھا کر دیا ہے کہ ایک طرف آپ قبلہ خوجی صاحب کے مزاج اور رنگا رنگ تماشوں سے پوری طرح واقف ہو جائیں اور دوسری طرف ان کی زندگی کی ساری کہانی بھی آپ کے سامنے آ جائے۔

    خوجی صاحب دھان پان سے آدمی ہیں، لیکن ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے اور ذرا سی بات پر بڑی سے بڑی طاقت سے بھڑ جاتے ہیں اور مار کھاتے ہیں، لیکن شکست نہیں مانتے۔ بات بات پر قرولی نکالنے اور حریف کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔

    ”نہ ہوئی قرولی“ ان کا تکیۂ کلام ہے۔ یہی تکیۂ کلام خوجی کی سرگزشت کا عنوان ہے۔ آپ کو اس سرگزشت میں ربط بھی نظر آئے گا اور تسلسل بھی۔ آپ اسے ”سوانحی ناول“ کی طرح روانی اور دل چسپی کے ساتھ پڑھ سکیں گے۔

    خوجی کے کردار کو بحیثیت مجموعی دیکھیے تو یوں محسوس ہو گا کہ یہ کردار زوال شدہ لکھنوی مسلم تہذیب کا نمائندہ ہے۔ وہ تہذیب جس کا جسم کم زور و بے جان اور قد گھٹ کر بالکل بونوں جیسا ہو گیا ہے، لیکن ایک ہزار سال کی حکومت، طاقت اور عظمت کا نشہ اب بھی چڑھا ہوا ہے۔ اسی لیے شیخی بھگارنا، دون کی ہانکنا، اپنی بڑائی کا اظہار کرنے کے لیے ڈینگیں مارنا خوجی کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔

    برصغیر کی زوال پذیر مسلم تہذیب کی روح خوجی کے کردار میں مجسم ہو گئی ہے۔ اس لیے خوجی صاحب آج بھی زندہ ہیں اور آنے والے زمانے میں بھی زندہ رہیں گے۔“

  • ڈاکٹر جمیل جالبی کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا

    ڈاکٹر جمیل جالبی کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا

    پاکستان کی نام ور علمی اور ادبی شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی ایک سال پہلے آج ہی کے روز اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    18 اپریل 2019 کو انتقال کر جانے والے ڈاکٹر جمیل جالبی کی اردو زبان اور ادب کے لیے خدمات اور تحقیقی کاوشیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے مختلف اہم اور بعض ادق موضوعات پر بھی قلم اٹھایا اور اپنی قابلیت، علمی استعداد کو منواتے ہوئے محنت اور مستقل مزاجی سے کام کیا اور کئی اہم تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    پاکستان میں انھیں ایک نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ جامعہ کراچی میں وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اور اردو لُغت بورڈ کے صدر بھی رہے۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔ وہ 12 جون، 1929 کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام محمد جمیل خان تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یہا‌ں تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور کام یابیاں سمیٹتے رہے۔

    جالبی صاحب نے کہانی سے تخلیقی سفر کا آغاز کیا اور بعد میں ان کی تحاریر دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شایع ہوئیں۔

    ان کی کتابوں میں جارج آرویل کے ناول کا ترجمہ، پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ، تاریخ ادب اردو کے علاوہ دیگر تصانیف و تالیفات میں نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، معاصر ادب وغیرہ شامل ہیں۔ لغات اور فرہنگِ اصلاحات کے علاوہ متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی ان کا کارنامہ ہیں۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کو حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔

  • ماہرلسانیات، ادیب اوراستاد ڈاکٹرجمیل جالبی انتقال کرگئے

    ماہرلسانیات، ادیب اوراستاد ڈاکٹرجمیل جالبی انتقال کرگئے

    اردو زبان کی خدمت میں شب و روز کوشاں رہنے والے اردو نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ، سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی، سابق چیئرمین مقتدرہ قومی زبان اور سابق صدراردو لُغت بورڈ ڈاکٹر جمیل جالبی قضائے الہی سے انتقال کرگئے۔

    ڈاکٹرجمیل جالبی 12 جون، 1929ء کو علی گڑھ، برطانوی ہندوستان میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان ہے۔ ان کے آباء و اجداد یوسف زئی پٹھان ہیں اور اٹھارویں صدی میں سوات سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے والد محمد ابراہیم خاں میرٹھ میں پیدا ہوئے۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی نے ہندوستان، پاکستان کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی۔ 1943ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول سہارنپور سے میٹرک کیا۔ میرٹھ کالج سے 1945ء میں انٹر اور 1947ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

    کالج کی تعلیم کے دوران جالبی صاحب کو ڈاکٹر شوکت سبزواری، پروفیسر غیور احمد رزمی اور پروفیسر کرار حسین ایسے استاد ملے جنہوں نے ان کی ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ اردو ادب کے صف اول کے صحافی سید جالب دہلوی اور جالبی صاحب کے دادا دونوں ہم زلف تھے۔ محمد جمیل خاں نے کالج کی تعلیم کے دوران ہی ادبی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ ان دنوں ان کا آئیڈیل سید جالب تھے۔ اسی نسبت سے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ جالبی کا اضافہ کر لیا۔

    تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور ان کے بھائی عقیل پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہاں ان کے والد صاحب ہندوستان سے ان دونوں بھائیوں کے تعلیمی اخراجات کے لیے رقم بھیجتے رہے۔ بعد ازاں جمیل جالبی کو بہادر یار جنگ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹری کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔

    جمیل صاحب نے ملازمت کے دوران ہی ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کر لیے۔ اس کے بعد 1972ء میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی نگرانی میں قدیم اُردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی اور 1978ء میں مثنوی کدم راؤ پدم راؤ پر ڈی لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔

    بعد ازاں سی ایس ایس کے امتحان میں شریک ہوئے اور کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والدین کو بھی پاکستان بلا لیا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ طور پر ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہوئے۔ قبل ازیں انہوں نے ماہنامہ ساقی میں معاون مدیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنا ایک سہ ماہی رسالہ نیا دور بھی جاری کیا۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی 1983ء میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور 1987ء میں مقتدرہ قومی زبان (موجودہ نام ادارہ فروغ قومی زبان) کے چیئرمین تعینات ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ 1990ء سے 1997ء تک اردو لغت بورڈ کراچی کے سربراہ بھی مقرر ہوئے۔

    جالبی صاحب کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو تھی جو انہوں نے بارہ سال کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈراما اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔ جالبی صاحب کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کی شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب جانورستان تھی جو جارج آرول کے ناول کا ترجمہ تھا۔

    ان کی ایک اہم کتاب پاکستانی کلچر:قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے جس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک اور مشہور تصنیف تاریخ ادب اردو ہے جس کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔

    ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی وغیرہ شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل بھی ان کی اہم تصنیفات ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں حیرت ناک کہانیاں اور خوجی ہیں۔

    اردو ادب کے یہ نابغہ روزگار محسن آج 18 اپریل 2019 کو تقریباً نوے سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے۔ادب کے لیے بیش بہاخدمات پر انہیں امتیازحکومت پاکستان، کمال فن ایوارڈ،چاربارداؤد ادبی انعام اورطفیل ادبی سمیت کئی اعزازات سےنوازاگیا تھا۔