Tag: جم کاربٹ

  • ایک اچھوت کا قصّہ جسے باپ دادا کا قرض مع سود اتارنا پڑا

    ایک اچھوت کا قصّہ جسے باپ دادا کا قرض مع سود اتارنا پڑا

    ’میرا ہندوستان‘ اینگلو انڈین مہم جو، شکاری اور مصنّف جم کاربٹ کی کتاب ہے جو متحدہ ہندوستان کے پسے ہوئے اور مجبور طبقات کی زندگی کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔

    فن و ادب سے متعلق مزید تحریریں پڑھیں

    جم کاربٹ لکھتے ہیں، ’’میرا ہندوستان‘‘ میں، میں نے اُس ہندوستان کے بارے بات کی ہے جو میں جانتا ہوں اور جس میں چالیس کروڑ انسان آباد ہیں اور ان میں نوے فیصد انتہائی سادہ، ایماندار، بہادر، وفا دار اور جفا کش ہیں اور روزانہ عبادت کرتے ہیں۔ یہ لوگ بلاشبہ غریب ہیں اور انہیں ’ہندوستان کی بھوکی عوام‘ کہا جاتا ہے اور ان کے درمیان میں نے زندگی گزاری ہے اور مجھے ان سے محبت ہے۔‘‘

    اس کا ترجمہ محمد منصور قیصرانی نے کیا ہے۔ جم کاربٹ نے اپنی اس کتاب میں ایک نوجوان جوڑے کی درد ناک کہانی بیان کی ہے، جس کے دادا بنیے کے جال اور سود کی دلدل میں پھنس گئے تھے اور اسے بھی اپنے والد کی موت کے بعد یہ رقم اتارنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔

    بدھو ذات کا اچھوت تھا اور جتنے سال وہ میرے پاس کام کرتا رہا، ایک بار بھی نہیں مسکرایا کہ اس کی زندگی اتنی مشکل تھی۔

    اس کی عمر پینتیس برس تھی اور لمبا اور دبلا تھا۔ اس کی بیوی اور دو بچّے بھی اس کے ساتھ تھے جب وہ میرے پاس ملازمت کے لیے آیا۔ چوں کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ کام کرے، سو میں نے اسے واحد ممکن کام پر لگا دیا جو براڈ گیج سے میٹر گیج والی بوگیوں میں کوئلے کی منتقلی تھا۔ دونوں بوگیوں میں چار فٹ کی ڈھلوان ہوتی تھی اور کوئلہ کچھ تو پھینک کر اور کچھ ٹوکریوں میں اٹھا کر منتقل کیا جاتا تھا۔

    یہ کام انتہائی دشوار تھا کہ پلیٹ فارم پر چھت نہیں تھی۔ سردیوں میں یہ لوگ شدید سردی میں کام کرتے اور اکثر کئی کئی روز مسلسل بارش میں بھیگتے رہتے اور گرمیوں میں اینٹوں کے پلیٹ فارم اور دھاتی بوگیوں سے نکلنے والی شدید گرمی ان کے ننگے پیروں پر چھالے ڈال دیتی۔ اپنے بچوں کے لیے روٹی کے حصول کی خاطر نووارد کے ہاتھوں میں بیلچہ انتہائی ظالم اوزار ہے۔ پہلے روز کے کام کے بعد کمر درد سے ٹوٹ رہی ہوتی ہے اور ہتھیلیاں سرخ ہو چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے روز ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں اور کمر کا درد اور بھی شدید تر ہو جاتا ہے۔ تیسرے روز چھالے پھٹ جاتے ہیں اور ان میں پیپ پڑ جاتی ہے اور کمر سیدھی کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہفتے یا دس دن انسان محض ہمت کے بل بوتے پر کام جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے سے بتا رہا ہوں۔

    بدھو اور اس کی بیوی انہی مراحل سے گزرے اور اکثر انہیں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور بمشکل خود کو گھسیٹ کر وہ اس کوارٹر تک جاتے جو میں نے انہیں رہائش کے لیے دیا تھا۔ میں نے انہیں کئی بار بتایا کہ یہ کام ان کے بس سے باہر ہے اور وہ کوئی دوسرا اور نسبتاً آسان کام دیکھیں، مگر بقول بدھو، اس نے آج تک اتنے پیسے نہیں کمائے تھے، سو میں نے انہیں کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ مگر ایک دن آ گیا کہ ان کی کمر کا درد ختم ہو گیا اور وہ کام سے جاتے ہوئے اتنے خوش ہوتے جتنا کام پر آتے ہوئے ہوتے تھے۔

    اُس وقت میرے پاس دو سو افراد کوئلے کی منتقلی کے لیے کام کر رہے تھے کہ کوئلے کی مقدار بہت زیادہ تھی اور کوئلہ ہمیشہ گرمیوں میں زیادہ بھیجا جاتا ہے۔ ہندوستان اُس دور میں سامانِ تجارت برآمد کر رہا تھا سو غلّے، افیون، نیل، کھالوں اور ہڈیوں سے بھری ویگنیں کلکتہ جاتیں اور واپسی پر ان میں کوئلہ لدا ہوتا اور کانوں سے کوئلہ آتا۔ اس میں سے پانچ لاکھ ٹن موکمہ گھاٹ سے گزرتا۔

    ایک روز بدھو اور اس کی بیوی کام پر نہ آئے۔ کوئلے والے مزدوروں کے نگران چماری نے بتایا کہ انہیں پوسٹ کارڈ ملا اور وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ جتنی جلدی ممکن ہوا، واپس لوٹ آئیں گے۔ دو ماہ بعد دونوں واپس لوٹے اور اپنے کوارٹر میں رہنے اور کام کرنے لگے۔ اگلے سال تقریباً اسی وقت یہ لوگ پھر غائب ہو گئے۔ تاہم اب ان کی صحت بہتر ہو گئی تھی۔ اس بار وہ لوگ تین ماہ غائب رہے اور واپسی پر تھکے ماندہ اور پریشان حال آئے۔ میری عادت ہے کہ جب تک مشورہ نہ لیا جائے یا کوئی اپنے حالات خود نہ بتائے، میں اپنے عملے کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہندوستانیوں کے لیے یہ دکھتی رگ ہوتی ہے۔ اس لیے مجھ علم نہ ہو سکا کہ ہر سال پوسٹ کارڈ ملنے پر بدھو کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ میرے ملازمین کی ڈاک ان کے نگرانوں کو دے دی جاتی تھی جو متعلقہ بندے کو پہنچاتے تھے۔ اس لیے میں نے چماری کو ہدایت کی کہ جب بھی بدھو کو اگلا پوسٹ کارڈ ملے، وہ بدھو کو میرے پاس بھیج دے۔ نو ماہ بعد جب کوئلے کی آمد و رفت معمول سے زیادہ تھی اور ہر آدمی اپنی بساط سے بڑھ کر کام کر رہا تھا، بدھو پوسٹ کارڈ لیے میرے کمرے میں داخل ہوا۔

    پوسٹ کارڈ کی زبان مجھے نہیں آتی تھی سو میں نے بدھو سے کہا کہ وہ پڑھ کر سنائے۔ تاہم وہ خواندہ نہیں تھا اس لیے اس نے بتایا کہ چماری نے پڑھ کر اسے سنایا تھا کہ اس کے مالک کی فصل تیار تھی اور وہ فوراً اسے بلا رہا تھا۔ پھر بدھو نے اس روز مجھے اپنی کہانی سنائی جو ہندوستان کے لاکھوں غریبوں کی کہانی ہے۔

    ’’میرا دادا کھیت مزدور تھا اور اس نے گاؤں کے بنیے سے دو روپے ادھار لیے تھے۔ بنیا نے ایک روپیہ ایک سال کے سود کے طور پر پیشگی رکھوا لیا اور میرے دادا سے بہی کھاتے پر انگوٹھا لگوا لیا (حساب کتاب کا کھاتہ)۔ جب بھی ممکن ہوتا، میرا دادا چند آنے سود کے نام پر ادا کرتا رہا۔ دادے کی وفات پر یہ ادھار میرے باپ کو منتقل ہوا اور اُس وقت تک یہ ادھار پچاس روپے بن چکا تھا۔ اس دوران بوڑھا بنیا بھی مر گیا اور اس کے بیٹے نے اس کی جگہ سنبھالی اور کہا کہ چونکہ ادھار بہت بڑھ گیا ہے، سو نئے سرے سے معاہدہ کرنا ہوگا۔ میں نے یہ معاہدہ کیا اور چونکہ میرے پاس اسٹامپ پیپر کے لیے پیسے نہیں تھے، سو بنیے کے بیٹے نے وہ بھی سود اور اصل رقم کے ساتھ لکھ لیے جو اب ایک سو تیس روپے سے زیادہ تھا۔ بنیے کے بیٹے نے ایک شرط پر سود کی شرح پچیس فیصد کرنے کی پیشکش کی کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہر سال اس کی فصلیں کاٹنے کے لیے آیا کروں۔ جب تک سارا ادھار اتر نہ جائے، ہمیں یہ کام کرتے رہنا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق مجھے اور میری بیوی کو بنیے کی فصلیں مفت میں کاٹنی ہوتی ہیں جو الگ کاغذ پر لکھا گیا تھا اور اس پر میرا انگوٹھا لگایا گیا۔ ہر سال کام کے بعد بنیے کا بیٹا کاغذ کی پشت پر حساب کتاب کر کے میرے انگوٹھے لگواتا ہے۔ علم نہیں کہ ادھار اب کتنا بڑھ چکا ہوگا کیونکہ میں نے ابھی تک کوئی پیسہ واپس نہیں کیا۔ اب چونکہ میں آپ کے پاس کام کر رہا ہوں، سو میں نے پانچ، سات اور تیرہ، کل مل ملا کر پچیس روپے ادا کیے ہیں۔‘

    بدھو نے کبھی اس ادھار کی ادائیگی سے انکار کا سوچا بھی نہیں۔ ایسی سوچ ممکن بھی نہیں تھی کہ اس طرح نہ صرف اس کا منہ کالا ہوتا بلکہ اس کے آباؤ اجداد کے نام پر بھی دھبہ لگ جاتا۔ اس طرح وہ نقد اور محنت، ہر ممکن طور پر ادھار کی ادائیگی کرتا رہا اور اسے علم تھا کہ کبھی اس ادھار کو ادا نہیں کر پائے گا اور یہ اس کے بیٹے کو منتقل ہو جائے گا۔

    بدھو سے پتہ چلا کہ بنیے کے دیہات میں ایک وکیل بھی رہتا ہے، میں نے اس کا نام اور پتہ لیا اور بدھو کو کام پر لوٹ جانے کا کہا اور اسے یقین دلایا کہ میں بنیے کا معاملہ سنبھالتا ہوں۔ اس کے بعد وکیل سے طویل خط و کتابت شروع ہو گئی۔ وکیل مضبوط اعصاب کا برہمن تھا جسے بنیے سے نفرت تھی کہ بنیے نے اسے گھر سے باہر بلا کر اس کی بے عزتی کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے۔ وکیل نے بتایا کہ بہی کھاتا جو وراثت میں ملا تھا، وہ عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا کہ اس پر لگے انگوٹھوں والے افراد مر چکے ہیں۔

    بنیے نے بدھو کو دھوکہ دے کر اس سے نئے کاغذ پر دستخط کرائے جس کے مطابق بدھو نے بنیے سے پچیس فیصد شرح سود پر ڈیڑھ سو روپے ادھار لیے تھے۔ وکیل نے بتایا کہ اس کاغذ کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے کہ بدھو اس کی تین قسطیں ادا کر چکا تھا اور ان قسطوں کے ثبوت کے طور پر اس کے انگوٹھے بھی لگے تھے۔ جب میں نے وکیل کو پورے ادھار کی رقم اور پچیس فیصد سود کی رقم بھی بھیجی تو بنیے نے سرکاری کاغذ تو دے دیا مگر وہ ذاتی معاہدہ دینے سے انکار کر دیا جس کے مطابق بدھو اور کی بیوی اس کی فصلیں مفت کاٹتے۔

    جب وکیل کے مشورے پر میں نے بنیے کو بیگار کے مقدمے کی دھمکی دی تو پھر جا کر اس نے معاہدہ ہمارے حوالے کیا۔

    جتنی دیر ہماری خط و کتابت ہوتی رہی، بدھو بہت پریشان رہا۔ اس نے مجھ سے اس بارے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر جس طور وہ مجھے دیکھتا تھا، واضح کرتا تھا کہ اس نے طاقتور بنیے کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے مجھ پر شاید بھروسہ غلط کیا ہے۔ اسے یہ بھی فکر ہوگی کہ اگر کسی وقت بنیا آ کر اس سے پوچھے کہ یہ سب کیا ہے تو وہ کیا جواب دے گا۔ ایک روز مجھے مہر لگا ایک موٹا لفافہ ملا جس میں انگوٹھوں کے نشانات سے بھرے کاغذات تھے اور وکیل کی فیس کی ایک رسید بھی شامل تھی اور بدھو کے لیے ایک خط بھی، کہ وہ اب آزاد ہو چکا ہے۔ اس سارے معاملے پر مجھے سوا دو سو روپے ادا کرنے پڑے۔

    اس روز شام کو بدھو کام سے گھر جا رہا تھا کہ میں اسے ملا اور لفافے سے کاغذات نکال کر اسے دیے اور ایک ماچس بھی دی کہ اسے جلا دے۔ اس نے کہا: ‘نہیں صاحب۔ آپ ان کاغذات کو نہ جلائیں۔ آج سے میں آپ کا غلام ہوں اور خدا جانتا ہے کہ ایک روز میں آپ کا ادھار واپس کر دوں گا۔‘ بدھو نہ صرف کم گو تھا بلکہ کبھی مسکرایا بھی نہیں تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ وہ انہیں جلانا نہیں چاہتا تو اپنے پاس رکھ لے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوئے اور جب سیدھا ہو کر گھر جانے کو مڑا تو اس کے کوئلے سے بھرے چہرے سے آنسوؤں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔

    تین نسلوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑا ایک انسان آزاد ہوا مگر لاکھوں ابھی تک قید تھے۔ مگر مجھے اس سے زیادہ کبھی خوشی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی الفاظ بدھو کے خاموش جذبات سے ہوئی تھی جب وہ آنسو بھری آنکھوں سے ٹھوکریں کھاتا اپنی بیوی کو یہ بتانے گیا کہ بنیے کا ادھار اتر چکا ہے اور وہ اب آزاد ہیں۔

  • جم کاربٹ: ماہرِ شکاریات جو ہندوستانیوں کے لیے "دیوتا” تھا

    جم کاربٹ: ماہرِ شکاریات جو ہندوستانیوں کے لیے "دیوتا” تھا

    برطانوی راج کے دوران ہندوستان میں کئی انگریز افسران نے حکومتی اور انتظامی عہدوں پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں جن میں سے بعض اپنی پیشہ ورانہ قابلیت اور صلاحیتوں کے علاوہ شخصی اوصاف کی وجہ سے بھی یہاں کے لوگوں میں مقبول ہوئے۔ جم کاربٹ انہی میں سے ایک تھا۔ اس زمانے میں ہندوستان کے کئی دیہات میں لوگ اسے اپنا مسیحا کہتے تھے اور اکثر اسے دیوتا بھی مانتے تھے۔

    اس دور میں‌ برصغیر میں‌ توہم پرستی عام تھی اور اکثر لوگ اعتقاد کی کم زوری کے سبب ناگہانی آفات، ماورائے عقل یا ایسے واقعات جن کی بظاہر کوئی وجہ سامنے نہ ہو، انھیں جنّات، بھوت پریت یا کسی نادیدہ مخلوق کی کارستانی سمجھ لیتے تھے اور خوف زدہ ہوجاتے تھے۔ یہ باتیں بڑھا چڑھا کر دوسروں کو بتائی جاتیں اور ان کا خوب چرچا ہوتا۔ ہندوستان میں‌ جنگلات کے قریبی دیہاتی جنگلی جانوروں بالخصوص درندوں سے بڑے تنگ تھے جو آبادی پر حملہ کرکے انسانوں کا شکار کر لیتے تھے۔ کبھی وہ اپنے شکار کو دبوچ کر اپنے ساتھ جنگل میں لے جاتے اور کبھی گاؤں والوں کو بھنبھوڑی ہوئی اور مسخ شدہ لاشیں ملتی تھیں۔ جم کاربٹ نے اُن جنگلی درندوں کا مقابلہ کیا اور کئی آدم خور شیر اور تیندوے ہلاک کیے اور لوگوں میں توہم پرستی کو دور کرنے کی کوشش کی۔

    جم کاربٹ ایک مشہور شکاری، مہم جُو اور مصنّف تھا۔ وہ ہندوستان میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین برطانوی تھے۔ یہ جوڑا بسلسلۂ ملازمت برطانیہ سے نینی تال آیا تھا اور یہیں 25 جولائی 1875 کو جم کاربٹ نے آنکھ کھولی۔ جم کاربٹ کا بچپن ہمالیہ پہاڑ کی ترائی میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے ”کالا ڈھنگی“ میں بسر ہوا۔ اس نے ہندوستان کے باشندوں کے درمیان دیہی ماحول میں پرورش پائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ شروع ہی سے فطرت کا دلدادہ تھا۔ جنگلی حیات میں دل چسپی کے سبب وہ جنگلات میں فوٹو گرافی کا شوق پورا کرتے ہوئے اپنا وقت گزارتا تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد جم کاربٹ کینیا جا بسا اور وہیں 19 اپریل 1955 میں 79 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پائی۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی جم کاربٹ نے اپنی چھٹی کتاب مکمل کی تھی۔

    جم کاربٹ کو ماہرِ‌ شکاریات بھی کہا جاتا ہے جس نے کئی ایسے درندوں کو ہلاک کیا تھا جنھیں دوسرے شکاری نہیں‌ مار سکے تھے۔ 1907 سے 1938 کے دوران جم کاربیٹ نے مشہور ہندوستانی علاقے چمپاوت میں ایک آدم خور شیرنی، ردر پریاگ کا تیندوا، چوگڑھ کی آدم خور شیرنیوں اور پانار میں بھی اس تیندوے کو شکار کیا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کئی انسانوں کو ہڑپ کرچکا ہے۔ اس وقت کے ریکارڈ کے مطابق یہ وہ درندے تھے جن کے حملوں میں مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ جم کاربٹ کو کماؤں کے علاقے میں خاص طور پر لوگوں سے بہت عزّت اور پیار ملا۔ وہاں کے لوگ اسے سادھو مانتے تھے۔ اس کی وجہ جم کاربٹ کا مقامی لوگوں سے اچھا برتاؤ اور ان کے لیے ہم دردی، خلوص اور نیک نیتی بھی تھی۔

    دو دہائی تک محکمۂ ریلوے سے وابستہ رہنے والا جم کاربٹ پہلی جنگِ عظیم کے دوران فرانس میں فوجی عہدے دار کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکا تھا۔ وہ ایک سخت کوش انسان تھا اور خطرے کا سامنا کرنا گویا اس کا مشغلہ۔ جم کاربٹ نے اپنی جوانی میں کئی شکار کیے اور وہ بے خطر جنگلات میں داخل ہوجاتا تھا لیکن بڑی عمر میں‌ بھی وہ اسی طرح بھرپور توانائی اور جوش و جذبے سے ان درندوں کو ٹھکانے لگاتا رہا جن کی وجہ سے مقامی لوگ خوف زدہ رہتے تھے۔ 51 برس کی عمر میں جم کاربٹ نے ”روپریاگ “ میں ایک آدم خور کو ہلاک کیا اور جس وقت اس نے ”ٹھاک“ کے ایک درندے کو ٹھکانے لگایا تو وہ 63 برس کا تھا۔

    جم کاربٹ ایک مصنّف بھی تھا۔ اس نے ہندوستان کے باشندوں، درندوں کے حملے اور آدم خوری کے واقعات کے ساتھ اپنی مہم جوئی اور شکار کی تفصیلات بھی رقم کی اور اس کی کتابوں کا بشمول اردو دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ جم کاربٹ کے شکار کی یہ داستانیں بہت مقبول ہوئیں اور آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    اس کا پورا نام ایڈورڈ جیمز کاربٹ تھا جس کی تحریروں میں اکثر مقامات پر ایک ”میگی“ نامی خاتون کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ اس کی ازحد مخلص اور جاں نثار بہن تھیں۔ میگی بھی تقسیمِ ہند کے بعد اپنے بھائی کے ساتھ ہی کینیا چلی گئی تھیں۔ جم کاربٹ نے شادی نہیں کی تھی۔ اس نے اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل کینیا میں نیئیری کے مقام پر ایک بڑے اور بلند و بالا درخت پر نہایت خوبصورت، محفوظ اور آرام دہ کاٹیج تعمیر کروایا تھا اور ان کی جانب سے ملکہ الزبتھ اور پرنس فلپس کو اس کاٹیج میں ایک رات قیام کرنے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔

    جم کاربٹ نے ایک سوانح عمری بھی لکھی تھی جس کے مختلف زبانوں میں‌ تراجم ہوئے اور اردو میں بھی یہ سوانح عمری بہت شوق سے پڑھی گئی۔ مغربی مصنفین نے بھی جم کاربٹ پر بہت کچھ لکھا ہے جس میں مارٹن بوتھ کی کتاب بھی شامل ہے۔ وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں، ’’جم ایک ماہر شکاری ہی نہیں، بہترین فوٹوگرافر بھی تھا۔ وہ جس قدر اپنی بندوق پر فخر کرتا تھا اسی قدر اپنے کیمروں پر بھی فخر کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ کیمرہ رکھتا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ وہ کیمرے کے بغیر گھر سے نکلا ہو۔ اس نے نہ صرف جنگلی حیات کی تصویر کشی کی بلکہ دریاؤں، دیہات، قدرتی خوبصورت مناظر، آسیب زدہ گھاٹیوں اور جنگل میں لگی آگ کی بھی تصویر کشی کی۔ اس نے شیروں کی جو تصویریں لیں ان کا شمار بہترین تصویروں میں ہوتا ہے۔ آرام کی غرض سے لیٹے شیر، وحشت ناک غراتے شیر، اپنے شکار کو گرفت میں لیے شیر۔ ایسی تصویریں پہلے کبھی نہیں لی گئی تھیں۔‘‘ مارٹن کہتے ہیں ’’جم کو جنگلات سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ فوٹو گرافی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو جنگل کی افادیت اور اس کے حسن سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘

  • بنشی کا قصّہ جس کی آواز سننے والے پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے!

    بنشی کا قصّہ جس کی آواز سننے والے پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے!

    اردو زبان کے قارئین کی بڑی تعداد جن میں‌ نوجوان اور بڑے بوڑھے سبھی شامل ہیں، ان کی شکاریات کے موضوع پر تحریروں میں‌ دل چسپی یکساں‌ رہی ہے۔ دنیا بھر میں جنگل کی کہانیاں‌ اور خاص طور پر ماہر شکاریوں کی آپ بیتیاں‌ بہت شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    یہاں ہم ہندوستان کے جنگلوں کے ایک ماہر شکاری جم کاربٹ کی مقبولِ عام کتاب جنگل کہانی سے ایک باب نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    جم کاربٹ کی یہ کتاب Jungle Lore کے نام سے شایع ہوئی تھی جس کا ترجمہ بشمول اردو مختلف زبانوں‌ میں‌ کیا گیا۔ اس کتاب میں جم کاربٹ نے بتایا ہے کہ اس نے جنگل اور مختلف قبائل کے درمیان رہ کر ان کی زبان کیسے سیکھی اور شکار کے طریقے یا درندوں کے بارے میں کیا کچھ جانا۔ اس کے علاوہ اس دوران کیا دل چسپ واقعات پیش آئے، اپنی اور اپنے ساتھیوں کی کچھ شرارتیں اور اپنے دوستوں کی ذہانت و معصومیت کے قصّے بھی لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کتاب بتاتی ہے کہ ہندوستان بالخصوص دیہات میں‌ بھوت پریت، چڑیل اور بدروحوں پر لوگ کتنا یقین رکھتے ہیں اور کیسے بلاتحقیق جھوٹے قصوں کو تسلیم کرکے ڈرتے رہتے ہیں۔ اُس زمانے میں کئی انگریز یہاں رہتے تھے اور جنگلات میں فاریسٹ‌ آفیسر اور کار پرداز کے طور پر ڈیوٹی بھی انجام دیتے تھے۔ یہ اسی نوعیت کے مختلف واقعات اور مقامی لوگوں کے ساتھ جنگل میں جم کاربٹ کے وقت گزارنے کی روداد ہے۔

    "لڑکیاں جن کی عمریں آٹھ سے اٹھارہ کے درمیان میں تھیں، لکڑی سے بنے پل کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں جو کالا ڈھنگی میں دریائے بور پر بنایا گیا تھا۔ ہم پوری توجہ سے ڈینسی کی بھوت پریت کی کہانیاں سن رہے تھے۔ سڑک کے درمیان میں آگ جل رہی تھی جو آس پاس موجود لکڑیاں جمع کر کے جلائی گئی تھی اور اب آگ میں محض دہکتے کوئلے ہی باقی بچے تھے۔ تاریکی چھا رہی تھی اور ڈینسی نے اپنی خوفناک کہانیاں سنانے کے لیے بہترین وقت چنا تھا۔ ایک لڑکی اپنی سہیلی سے کہہ رہی تھی "بار بار پیچھے مڑ کر مت دیکھو۔ مجھے ڈر لگتا ہے”۔

    ڈینسی آئرش النّسل تھا اور جن بھوتوں پر پوری طرح اعتقاد رکھتا تھا۔ اس لیے جب وہ ایسی کہانیاں سناتا تو سماں باندھ دیتا تھا۔ اس رات کی کہانیاں بگڑے چہروں، کڑکڑاتی ہڈیوں، دروازوں کا پراسرار طور پر کھلنا بند ہونا اور پرانی عمارتوں میں سے سیڑھیوں سے خودبخود آوازیں آنا شامل تھیں۔ چونکہ میں نے کبھی آسیب زدہ پرانی عمارتیں نہیں دیکھی تھیں، اس لیے مجھے ڈینسی کی کہانیوں سے کوئی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ جب ڈینسی نے رگوں میں خون جما دینے والی ایک کہانی پوری کی ہی تھی کہ ہمارے سروں کے اوپر سے ایک بوڑھا اُلّو ہو ہو کرتا ہوا شکار کی تلاش میں نکلا۔ یہ الّو سارا دن بیلوں سے گھرے درخت پر اونگھتا رہتا تھا جہاں اسے کوّے اور دیگر پرندے تنگ نہیں کر سکتے تھے۔ یہ درخت ہلدو کا تھا جو برسوں پہلے آسمانی بجلی گرنے سے جل گیا تھا اور ہم سب جو تتلیاں پکڑنے یا غلیل سے شکار کھیلنے آتے تھے، اسے بخوبی پہچانتے تھے۔ اُلّو کی آواز کو بعض ناواقف افراد شیر کی دھاڑ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اُلّو کی آواز کا جواب نہر کے دوسرے کنارے پر موجود اس کی مادہ نے دیا۔ افزائشِ نسل کے علاوہ دونوں اُلّو الگ الگ رہتے تھے۔ اُلّو کی آواز سنتے ہی ڈینسی نے جن بھوتوں کی کہانیاں ختم کر دیں اور بنشی کی کہانیاں شروع کر دیں۔ ڈینسی کو جن بھوت سے بھی زیادہ اعتقاد بنشی پر تھا۔ ڈینسی کے مطابق بنشی ایک عورت کی بد روح ہے جو گھنے جنگلوں میں رہتی ہے اور اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ محض اس کی آواز سننے سے سننے والے اور اس کے پورے خاندان پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے۔ اگر بنشی پر نظر پڑ جائے تو پھر اس بدقسمت فرد کی موت لازمی ہو جاتی ہے۔ بنشی سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ وہ جنگلوں میں پائی جاتی تھی اور میں تتلیوں اور پرندوں کے انڈوں کی تلاش میں جنگلوں میں مٹرگشت کرتا تھا۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ آئرلینڈ میں پائی جانی والی بنشیاں کیسی ہوتی ہیں لیکن مجھے یہ پتہ تھا کہ وہ دو کیسی بنشیاں ہیں جن کی آواز اس نے کالا ڈھنگی کے جنگلوں میں سنی تھی۔ ایک بنشی کے بارے بعد میں بات کرتے ہیں۔ دوسری بنشی کو ہمالیہ کے دامن اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں رہنے والے چڑیل کے نام سے جانتے ہیں۔

    بد ارواح میں چڑیل کو سب سے برا سمجھا جاتا ہے اور یہ عورت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ الٹے پیروں والی یہ چڑیل کسی انسان کو اپنا شکار چن لیتی ہے اور پھر سانپ کی طرح اسے مسمرائز کر کے اس کا شکار کرتی ہے۔ اس سے بچاؤ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ سے آنکھوں کو ڈھک کر اور اگر گھر کے اندر ہوں تو کمبل کو سر تک تان لیا جائے۔

    غار میں رہنے والے انسان چاہے جیسے بھی ہوں، موجودہ دور کا انسان دن کی مخلوق ہے۔ دن کی روشنی میں ہمیں آسانی رہتی ہے اور ہم میں سے اکثر لوگ کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ دن کی روشنی میں چند گھنٹے قبل والی تاریکی کی باتوں پر ہمیں ہنسی آتی ہے۔ جب دن کی روشنی ختم ہوتی ہے اور رات کا اندھیرا ہر طرف چھا جاتا ہے اور ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیتا تو ہمارا تخیل عجب تماشے دکھانے لگ جاتا ہے۔ جب تخیل کے ساتھ مافوق الفطرت عناصر پر اندھا اعتقاد بھی ساتھ شامل ہو تو عجب نہیں کہ گھنے جنگلوں سے گھرے دیہات میں رات کے وقت لوگوں کا خون خشک ہونے لگ جاتا ہے کہ ان کے پاس سواری کے نام پر اپنی ٹانگیں اور روشنی کے نام پر محض مشعلیں ہوتی ہیں۔

    کئی کئی ماہ ان لوگوں کے ساتھ رہنے اور ان کی زبان بولنے کے سبب ڈینسی کے اپنے توہمات پر مقامی پہاڑی لوگوں کے توہمات کا گہرا غلاف بھی چڑھ چکا تھا۔ ہمارے دیہاتی ہوں یا کہ ڈینسی، ان کی بہادری میں کوئی شک نہیں لیکن مافوق الفطرت پر ان کا اعتقاد انہیں چڑیل یا بنشی کے بارے تحقیق کرنے سے روکتا ہے۔ برسوں میں کماؤں میں رہا اور جنگل میں سیکڑوں راتیں گزاریں، مجھے چڑیل کی آواز تین بار سنائی دی ہے جو ہمیشہ رات کو آتی تھی اور ایک بار اسے دیکھا بھی ہے۔

    مارچ کا مہینہ تھا۔ سرسوں کی بہترین فصل کٹ چکی تھی اور ہمارے کاٹیج کے آس پاس پورا گاؤں خوش تھا۔ سارے مرد، عورتیں اور بچے گا بجا رہے تھے۔ چاند کی گیارہویں یا بارہویں تاریخ تھی اور رات کو بھی دن جیسا سماں تھا۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے اور میگی اور میں رات کا کھانا کھانے ہی لگے تھے پر سکون رات میں اچانک چڑیل کی آواز آئی اور اسے سنتے ہی دیگر تمام آوازیں تھم گئیں۔ صحن کے دائیں کونے پر اور ہمارے کاٹیج سے پچاس گز دور ہلدو کا درخت ہے۔ نسل در نسل گدھوں، عقابوں، بازوں، چیلوں، کوؤں اور دیگر پرندوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اوپری شاخوں کی کھال اتر گئی ہے اور اوپری شاخیں مر چکی ہیں۔ ہمارا بیرونی دروازہ شمالی سرد ہوا سے بچاؤ کی خاطر بند تھا، کو کھول کر میں اور میگی برآمدے میں نکلے اور عین اسی وقت چڑیل پھر بولی۔ یہ آواز ہلدو کے درخت سے آئی تھی اور اس کی سب سے بلند شاخ پر چڑیل بیٹھی تھی۔

    مختلف آوازوں کو آپ لکھ کر ظاہر کر سکتے ہیں جیسے کوئی، ٹیپ ٹیپ کی آواز جو ہُدہُد پیدا کرتا ہے، لیکن چڑیل کی آواز کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس کوئی الفاظ نہیں۔ اگر میں ایسا کہوں کہ انتہائی اذیت کا شکار انسان چیخ رہا ہو یا کوئی روح انتہائی تکلیف میں ہو تو اس سے بات واضح نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم نے یہ آوازیں کبھی سنی ہی نہیں۔ نہ ہی یہ آواز جنگل کی کسی آواز سے ملتی جلتی تھی کیونکہ یہ آواز ہماری دنیا کی لگتی ہی نہیں تھی اور اسے سنتے ہی رگوں میں خون جمنے اور دل کی دھڑکن رکنے لگ جاتی تھی۔ یہ آواز میں نے پہلے بھی کئی بار سنی تھی اور میرا اندازا تھا کہ یہ کوئی مہاجر الّو ہے کیونکہ ہمارے مقامی الّوؤں کی آوازیں میرے لیے اجنبی نہیں تھیں اور میں انہیں بخوبی پہچانتا ہوں۔ کمرے میں گھس کر میں نے وہ دوربین اٹھائی جو پہلی جنگ عظیم میں میں دشمن کے توپ خانے کو تلاش کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا تھا اور بہترین قسم کی دوربین تھی۔ اس دوربین کی مدد سے میں نے اس پرندے کا بغور جائزہ لیا۔ آپ کو اس نیت سے بتا رہا ہوں کہ شاید آپ اس پرندے کو مجھ سے بہتر جانتے ہوں:

    اس پرندے کی جسامت سنہرے عقاب سے تھوڑی سی چھوٹی تھی۔ نسبتاً لمبی ٹانگوں پر سیدھا کھڑا تھا۔ دُم نسبتاً چھوٹی لیکن الّو سے بڑی تھی۔ الّو جیسا گول سر نہیں تھا اور نہ ہی الو جیسی چھوٹی گردن۔ سَر پر کوئی تاج یا سینگ نہیں تھے۔ جب یہ بولا، جیسا کہ ہر نصف منٹ بعد بولتا تھا، سر کو آسمان کی جانب بلند کر کے اور پوری چونچ کھول کر بولتا تھا۔ پورا جسم کالے رنگ کا تھا لیکن عین ممکن ہے کہ گہرا بھورا ہو جو چاندنی میں مجھے سیاہ دکھائی دیا۔

    میرے پاس 28 بور کی شاٹ گن رکھی تھی لیکن یہ پرندہ اس کی مار سے دور بیٹھا تھا اور رائفل استعمال کرنے سے مجھے جھجھک ہو رہی تھی کہ چاندنی رات میں رائفل کا نشانہ اس طرح کے پرندے پر لینا بہت مشکل ہوتا ہے اور اگر نشانہ خطا جاتا تو جہاں تک رائفل کی آواز جاتی، لوگوں کو یقین ہو جاتا کہ چڑیل پر رائفل کی گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔ بیس بار بولنے کے بعد اس پرندے نے پر کھولے اور اڑ کر اندھیرے میں نظروں سے غائب ہو گیا۔

    ساری رات گاؤں پر خاموشی رہی اور اگلے دن کسی نے بھی چڑیل کا ذکر نہیں کیا۔ جیسا کہ مجھے بچپن میں کنور سنگھ نے سمجھایا تھا کہ جنگل میں شیر کا نام کبھی مت لینا، ورنہ شیر سے لازمی ٹاکرا ہو گا۔ اسی وجہ سے پہاڑی علاقے کے لوگ چڑیل کا ذکر نہیں کرتے۔

    کالا ڈھنگی میں سردیاں بسر کرنے والے دونوں خاندانوں کے بچوں کی کل تعداد 14 تھی۔ میرا چھوٹا بھائی اتنا چھوٹا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ گھر سے باہر رات کو بون فائر یا تالاب میں نہانے کے لیے نہیں آ سکتا تھا، اس لیے اسے شمار کرنا فضول ہے۔ میں ان 14 بچوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ سب سے چھوٹا لڑکا ہونے کی وجہ سے مجھے ہر وہ کام کرنا پڑتا تھا جو مجھے سخت ناپسند تھے۔ مثلاً ہمارے بچپن میں لڑکیاں جب ہماری جاگیر کے کنارے والی نہر پر نہانے جاتیں تو کسی لڑکے کو ساتھ لازمی جانا پڑتا تھا۔ لڑکیاں اتوار چھوڑ ہر روز نہانے جاتی تھیں۔ اس بات کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اتوار کو کیوں نہ نہایا جائے۔ لڑکیوں کے شب خوابی کے لباس اور تولیے اٹھانا بھی میری ذمہ داری ہوتی تھی کیونکہ اُن دنوں تیراکی کے لباس نہیں ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ جب لڑکیاں نہا رہی ہوں تو نزدیکی پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے مردوں سے انہیں خبردار کرنا بھی میری ذمہ داری ہوتی تھی۔ نہر پختہ تھی اور دس فٹ چوڑی اور تین فٹ گہری تھی۔ جہاں اس نہر سے ہماری جاگیر کو آبپاشی کا پانی جاتا، اس جگہ سر ہنری ریمزے کے حکم پر نہر کو کھود کر چند گز کے لیے چھ فٹ گہرا کر دیا گیا تھا۔ ہر روز جب لڑکیاں نہانے کو جاتیں تو مجھے حکم ملتا کہ کسی لڑکی اس گہری جگہ ڈوبنے نہ دوں۔ کاٹن کے پتلے شب خوابی کے لباس پہن کر جب تین فٹ گہرے پانی میں پیر پھسلے یا اچانک بیٹھنا ہو تو سارا لباس ہوا بھرنے کے بعد سطح پر تیرنے لگ جاتا تھا اور ہر لڑکی پانی میں پہنچتے ہی یہی کچھ کرتی تھی۔ جب بھی ایسا ہوتا، اور یہ بار بار ہوتا تھا، مجھے سخت حکم تھا کہ دوسری جانب دیکھنے لگ جاؤں۔

    جب میں لڑکیوں کی نگرانی کر رہا ہوتا اور بوقتِ ضرورت دوسری جانب دیکھتا تو اس وقت دوسرے لڑکے نہر کے ایک سرے پر موجود گہرے تالاب میں نہا رہے ہوتے اور غلیل سے درختوں سے پھول گراتے یا پرندوں کا شکار کرنے کی کوشش کرتے۔ سیمل کے درختوں پر پرندے اور گلہریاں کھانے سے زیادہ پھول نیچے گراتے جو بعد میں جنگلی سور اور ہرن کھاتے۔ پیپل کے درخت پر بیٹھا الّو ہمیشہ اتنا محتاط رہتا کہ کبھی بھی اس پر غلیل سے حملہ نہیں کیا جا سکتا تھا پھر بھی لڑکے اس پر غلہ چلا دیتے۔ بڑے تالاب پر پہنچتے ہی مقابلہ شروع ہو جاتا کہ کون سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑتا ہے۔ اس مقصد کے لیے گھر میں بنی دستی بنسیاں اور دھاگوں کی ریلیں استعمال ہوتی تھیں۔ جب مچھلی پکڑنے والی پیسٹ ساری ختم ہو جاتی یا پانی میں گر جاتی اور چند ہی مچھلیاں پکڑی گئی ہوتیں تو پھر کپڑے اتار کر سارے ہی تالاب میں نہانے کے لیے چھلانگیں مارتے اور مقابلہ ہوتا کہ دوسرے کنارے کو پہلے کون پہنچے گا۔ جب سارے لڑکے ان دلچسپ مشغلوں میں مصروف ہوتے، میں ان سے ایک میل دور بیٹھا لڑکیوں کی جھڑکیان سن رہا ہوتا کہ اپنے خیالات میں مگن ہونے کی وجہ سے میں لڑکیوں کو پاس سے گزرتے ہوئے کسی دیہاتی کا بتانا بھول جاتا تھا۔ تاہم اس بیگار کا ایک مثبت پہلو یہ بھی تھا کہ مجھے لڑکیوں کے سارے خفیہ منصوبے پہلے سے پتہ چل جاتے جو وہ لڑکوں کے خلاف بالعموم اور ڈینسی اور نیل فلیمنگ کے خلاف بالخصوص بناتیں۔

    ڈینسی اور نیل دونوں ہی آئرش النسل تھے اور یہی ان کی واحد مشترکہ خاصیت تھی۔ ڈینسی پستہ قد، بالوں سے بھرا اور کسی ریچھ کی مانند طاقتور تھا تو نیل بیدِ مجنون کی مانند نازک اور پھول کی مانند کمزور تھا۔ ڈینسی رائفل ہاتھ میں لیے جنگل میں پیدل شیروں کا تعاقب کر کے شکار کرتا تھا تو نیل کو جنگل کے نام سے ہی بخار چڑھ جاتا تھا اور اس نے کبھی بندوق بھی نہیں چلائی تھی۔ ان میں ایک اور مشترکہ بات بھی تھی کہ دونوں ہی ایک دوسرے سے پوری طرح نفرت کرتے تھے کہ دونوں ہی بیک وقت ساری لڑکیوں پر عاشق تھے۔ ڈینسی کا باپ ایک جنرل تھا جس کی خواہش تھی کہ ڈینسی فوج میں جائے اور ڈینسی کے انکار پر اسے عاق کر دیا تھا۔ ڈینسی میرے بڑے بھائیوں کے ساتھ سرکاری اسکول میں پڑھتا تھا اور ابھی اس کی محکمہ جنگلات کی ملازمت کی چھٹیاں چل رہی تھیں اور اسے توقع تھی کہ جلد ہی پولیٹکل سروس میں اسے جگہ مل جائے گی۔ نیل میرے بڑے بھائی ٹام کے ماتحت ڈاکخانے میں کام کرتا تھا۔ اگرچہ دونوں ہی کسی لڑکی سے شادی کے قابل نہیں تھے لیکن پھر بھی ان کی باہمی نفرت اور لڑکیوں سے محبت عروج پر تھیں۔

    نہر کنارے بیٹھ کر لڑکیوں کی باتوں سے پتہ چلا کہ نیل پچھلی بار جب کالاڈھنگی آیا تو بہت مغرور ہو گیا تھا اور اس نے خوامخواہ فرض کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ ڈینسی بہت شرمیلا اور جھجھک رہا تھا۔ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے نیل کو بے عزت کرنا اور ڈینسی کو آگے لانا ضروری تھا لیکن تھوڑا سا۔ اگر زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی تو ڈینسی بھی فرض کرنے لگ جائے گا۔ اب فرض کرنے سے کیا مراد تھی، مجھے نہ تو پتہ تھا اور نہ ہی مجھے اچھا لگا کہ پوچھتا۔ ایک ہی تیر سے دو شکار کرنے کی نیت سے انہوں نے سوچا کہ دونوں کے ساتھ کوئی حرکت کی جائے۔ کئی منصوبے بنے لیکن آخر جس منصوبے پر اتفاق ہوا، اس میں میرے بڑے بھائی ٹام کی مدد درکار تھی۔ سردیوں میں نینی تال کے ڈاک خانے میں کام بہت ہلکا ہوتا تھا اور ٹام کی عادت تھی کہ وہ نیل کو ہر دوسرے ہفتے ہفتے کی شام سے پیر کی صبح تک کی چھٹی دے دیا کرتا تھا۔ یہ چھٹی وہ کالا ڈھنگی میں موجود دونوں میں سے کسی ایک خاندان کے ساتھ گزارتا تھا اور اپنی طبعیت اور اچھی آواز کی وجہ سے ہمیشہ اسے خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے ٹام کو بذریعہ خط یہ کہا گیا کہ نیل کو ہفتے کی شام کو کسی نہ کسی بہانے سے دیر تک روک کر بھیجا جائے تاکہ پندرہ میل کا سفر طے کر کے جب وہ کالاڈھنگی پہنچے تو رات ہو رہی ہو۔ مزید ٹام نیل کو یہ بھی بتائے کہ اس کی آمد میں تاخیر کی وجہ سے وہ اسے بتا دے کہ عین ممکن ہے کہ لڑکیاں اس کی تاخیر سے پریشان ہو کر شاید اس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوں۔ مزید یہ بھی طے کیا گیا کہ ڈینسی اپنے شکار کردہ ریچھوں میں سے ایک کی کھال پہن کر لڑکیوں کے ساتھ نینی تال کی طرف دو میل جا کر سڑک کے ایک تنگ موڑ کے پیچھے جا کر چھپ جائے۔ جب نیل پہنچے تو ڈینسی اس پر کسی ریچھ کی طرح حملہ کرے گا اور ریچھ کو دیکھتے ہی نیل بھاگ کر سیدھا لڑکیوں کی بانہوں میں جا سمائے گا جو اس کی کہانی سن کر اس کی بزدلی پر ہنسیں گی اور جب ڈینسی بھی اپنی کھال اتار کر آن پہنچے گا تو خوب لطف رہے گا۔ ڈینسی نے اس منصوبے پر اعتراض کیا تو اسے بتایا گیا کہ اس کے سینڈوچ میں دو ہفتے قبل جو لال رنگ کی دھجی نکلی تھی اور جس کی وجہ سے اسے پکنک پر سخت شرمندگی ہوئی تھی، وہ نیل نے تجویز کی تھی۔

    کالا ڈھنگی سے نینی تال کی سڑک پر آمد و رفت سورج غروب ہوتے ہی رک جاتی تھی اور مطلوبہ دن ڈینسی ایک ریچھ کی کھال پہن کر لڑکیوں کے ساتھ مطلوبہ مقام کو چل دیا۔ راستے میں کبھی وہ دو پیروں تو کبھی چاروں پر چلتا۔ چونکہ شام کافی گرم تھی اور ڈینسی نے اپنے کپڑوں کے اوپر کھال پہنی تھی اس لیے بے چارہ پسینے میں شرابور تھا۔ دوسری طرف نینی تال میں نیل کو ایک کے بعد دوسرا کام دیا جا رہا تھا حتیٰ کہ اس کے عام طور پر روانگی کا وقت بھی گزر گیا۔ کافی دیر بعد جب ٹام نے اسے اجازت دی تو جانے سے قبل ٹام نے اس کے ہاتھ میں ایک دو نالی بندوق اور دو کارتوس بھی پکڑا دیے اور بتایا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کام آئیں گے۔ نینی تال سے کالاڈھنگی کا راستہ سارا بالعموم اترائی ہے اور ابتدائی آٹھ میل مزروعہ زمینوں سے ہو کر گزرتے ہیں اور پھر اس سے آگے عین کالاڈھنگی تک سارا راستہ گھنے جنگل سے گزرتا ہے۔ ڈینسی اور لڑکیاں اپنی اپنی جگہوں پر پہنچ گئیں اور جب روشنی کم ہونے لگی تھی کہ سڑک سے نیل کے گانے کی آواز آئی۔ شاید اپنا حوصلہ بڑھانے کے لیے وہ گا رہا تھا۔ آواز قریب سے قریب ہوتی چلی آئی اور لڑکیوں نے بعد میں بتایا کہ انہوں نے نیل کو کبھی اتنا اچھا گاتے نہیں سنا تھا۔ جب نیل اس موڑ پر پہنچا جس کے پیچھے ڈینسی اس کا منتظر تھا، ڈینسی نے پیروں پر کھڑا ہو کر ریچھ کی طرح آواز نکالی۔ عین اسی وقت نیل نے بندوق چھتیائی اور سیدھا ڈینسی پر دو فائر کر دیے۔ دھوئیں کے بادل نے نیل کے سامنے پردہ سا تان دیا اور جب وہ بھاگا تو اسے "ریچھ” کے نیچے کھائی میں لڑھکنے کی آواز آنے لگی تھی۔ عین اسی وقت لڑکیاں بھاگ پر اس جگہ پہنچیں۔ لڑکیوں کو دیکھتے ہی نیل نے اپنی بندوق لہرائی اور بتایا کہ ابھی ابھی اس نے ایک بہت بڑے ریچھ کو مار ڈالا ہے جس نے اس پر حملہ کیا تھا۔ جب لڑکیوں نے پوچھا کہ ریچھ کہاں گیا تو نیل نے بے پروائی سے نیچے کھائی کی طرف بندوق سے اشارہ کیا کہ ادھر ہے۔ پھر اپنے شکار کو دیکھنے کے لیے نیل نے نیچے اترنے کا سوچا اور لڑکیوں سے بھی کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلیں کہ ریچھ تو کب کا مر چکا ہے۔ تاہم لڑکیوں نے سختی سے انکار کیا اور کہا کہ اسے اکیلے ہی جانا ہو گا۔ لڑکیوں کے بہتے آنسوؤں سے نیل کو بہت خوشی ہوئی کہ لڑکیاں اس کے بچ نکلنے پر کتنی خوش ہو رہی ہیں۔ خیر وہ نیچے اترا۔ ڈینسی نے نیل سے اور نیل نے ڈینسی سے کیا کہا اور کیا نہیں، اس بارے کوئی معلومات نہیں لیکن جب کافی دیر بعد دونوں اوپر پہنچے تو ڈینسی نے بندوق جبکہ نیل نے ریچھ کی کھال اٹھائی ہوئی تھی۔ ڈینسی بے چارہ سینے پر دو گولیاں کھا کر سیدھا نیچے گرا لیکن ریچھ کی کھال نے اسے چوٹوں سے بچا لیا۔ جب نیل سے پوچھا گیا کہ بھئی تمہارے پاس بندوق کیسے آئی کہ جس سے ایک مہلک حادثہ ہوتے ہوتے بچا۔ اس نے بتایا کہ یہ بندوق اور کارتوس اسے ٹام نے دیے تھے۔ ساری ذمہ داری ٹام کی غائب دماغی پر ڈال دی گئی۔

    چونکہ سوموار کو سرکاری تعطیل تھی اس لیے ٹام اتوار کی رات کو آن پہنچا تاکہ چھٹی گھر پر گزار سکے۔ فوراً ہی اسے ناراض لڑکیوں نے گھیر لیا کہ اس نے نیل کو بندوق اور کارتوس کیوں دیے تھے جس سے ڈینسی کی زندگی خطرے میں پڑی۔ ٹام نے آرام سے ساری باتیں سنیں۔ جب لڑکیاں اس جگہ پہنچیں جب نیل کے فائر سے ڈینسی کھائی میں جا گرا تو لڑکیاں اس کی بے وقت موت پر رونے لگیں تھیں کہ ٹام قہقہے لگانے لگا اور پھر اس نے بتایا کہ جب اسے خط ملا تو اسے احساس ہوا کہ شرارت ہونے لگی ہے۔ اس لیے اس نے کارتوسوں سے گولیاں نکال کر آٹا بھر دیا تھا۔ اس سارے مذاق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈینسی مزید شرمیلا ہو گیا جبکہ نیل کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔

  • بنیے کا ادھار

    بنیے کا ادھار

    ‘میرا ہندوستان‘ جم کاربٹ کی تصنیف ہے جو ایک شکاری تھے اور برطانوی راج میں‌ متعدد آدم خور شیروں اور تیندوؤں کو ہلاک کرکے شہرت پائی۔ جم کوربٹ نے اس زمانے کے حالات و واقعات اور اپنی مہمّات پر کتب بھی یادگار چھوڑی ہیں۔

    یہاں‌ ہم جم کاربٹ کی مذکورہ کتاب کا انتساب نقل کرتے ہوئے، اس کے ساتھ بدھو کے عنوان سے وہ قصّہ بھی نقل کررہے ہیں‌ جس سے اس دور میں ساہو کاروں کی سفاکی اور غریب و مجبور انسانوں کی درد ناک زندگی ہمارے سامنے آتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘میرا ہندوستان‘ میں، مَیں نے اس ہندوستان کے بارے بات کی ہے جو میں جانتا ہوں اور جس میں چالیس کروڑ انسان آباد ہیں اور ان میں نوّے فیصد انتہائی سادہ، ایمان دار، بہادر، وفادار اور جفاکش ہیں اور روزانہ عبادت کرتے ہیں اور انہیں اور ان کی ملکیت کا تحفظ حکومتِ وقت کا کام ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی محنت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہ لوگ بلاشبہ غریب ہیں اور انہیں ‘ہندوستان کے بھوکے عوام‘ کہا جاتا ہے اور ان کے درمیان میں نے زندگی گزاری ہے اور مجھے ان سے محبت ہے اور یہ کتاب میں ان لوگوں سے منسوب کرتا ہوں جو ہندوستان کے غریب ہیں۔

    ………..
    بدھو ذات کا اچھوت تھا اور جتنے سال وہ میرے پاس کام کرتا رہا، ایک بار بھی نہیں مسکرایا کہ اس کی زندگی اتنی مشکل تھی۔ اس کی عمر پینتیس برس تھی اور لمبا اور دبلا تھا۔ اس کی بیوی اور دو بچّے بھی اس کے ساتھ تھے جب وہ میرے پاس ملازمت کے لیے آیا۔

    چوں کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ کام کرے، سو میں نے اسے واحد ممکن کام پر لگا دیا جو براڈ گیج سے میٹر گیج والی بوگیوں میں کوئلے کی منتقلی تھا۔ دونوں بوگیوں میں چار فٹ کی ڈھلوان ہوتی تھی اور کوئلہ کچھ تو پھینک کر اور کچھ ٹوکریوں میں اٹھا کر منتقل کیا جاتا تھا۔ یہ کام انتہائی دشوار تھا کہ پلیٹ فارم پر چھت نہیں تھی۔ سردیوں میں یہ لوگ شدید سردی میں کام کرتے اور اکثر کئی کئی روز مسلسل بارش میں بھیگتے رہتے اور گرمیوں میں اینٹوں کے پلیٹ فارم اور دھاتی بوگیوں سے نکلنے والی شدید گرمی ان کے ننگے پیروں پر چھالے ڈال دیتی۔ اپنے بچّوں کے لیے روٹی کے حصول کی خاطر نوارد کے ہاتھوں میں بیلچہ انتہائی ظالم اوزار ہے۔ پہلے روز کے کام کے بعد کمر درد سے ٹوٹ رہی ہوتی ہے اور ہتھلیاں سرخ ہو چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے روز ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں اور کمر کا درد اور بھی شدید تر ہو جاتا ہے۔ تیسرے روز چھالے پھٹ جاتے ہیں اور ان میں پیپ پڑ جاتی ہے اور کمر سیدھی کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہفتے یا دس دن انسان محض ہمّت کے بل بوتے پر کام جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے سے بتا رہا ہوں۔

    بدھو اور اس کی بیوی انہی مراحل سے گزرے اور اکثر انہیں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور بمشکل خود کو گھسیٹ کر وہ اس کوارٹر تک جاتے جو میں نے انہیں رہائش کے لیے دیا تھا۔ میں نے انہیں کئی بار بتایا کہ یہ کام ان کے بس سے باہر ہے اور وہ کوئی دوسرا اور نسبتاً آسان کام دیکھیں، مگر بقول بدھو، اس نے آج تک اتنے پیسے نہیں کمائے تھے، سو میں نے انہیں کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ مگر ایک دن آ گیا کہ ان کی کمر کا درد ختم ہو گیا اور وہ کام سے جاتے ہوئے اتنے خوش ہوتے جتنا کام پر آتے ہوئے ہوتے تھے۔اُس وقت میرے پاس دو سو افراد کوئلے کی منتقلی کے لیے کام کر رہے تھے کہ کوئلے کی مقدار بہت زیادہ تھی اور کوئلہ ہمیشہ گرمیوں میں زیادہ بھیجا جاتا ہے۔

    ہندوستان اُس دور میں سامانِ تجارت برآمد کر رہا تھا سو غلّے، افیون، نیل، کھالوں اور ہڈیوں سے بھری ویگنیں کلکتہ جاتیں اور واپسی پر ان میں کوئلہ لدا ہوتا اور کانوں سے کوئلہ آتا۔ اس میں سے پانچ لاکھ ٹن موکمہ گھاٹ سے گزرتا۔

    ایک روز بدھو اور اس کی بیوی کام پر نہ آئے۔ کوئلے والے مزدوروں کے نگران چماری نے بتایا کہ انہیں پوسٹ کارڈ ملا اور وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ جتنی جلدی ممکن ہوا، لوٹ آئیں گے۔ دو ماہ بعد دونوں لوٹے اور اپنے کوارٹر میں رہنے اور کام کرنے لگے۔ اگلے سال تقریباً اسی وقت یہ لوگ پھر غائب ہو گئے۔ تاہم اب ان کی صحت بہتر ہو گئی تھی۔ اس بار وہ لوگ تین ماہ غائب رہے اور واپسی پر تھکے ماندہ اور پریشان حال آئے۔ میری عادت ہے کہ جب تک مشورہ نہ لیا جائے یا کوئی اپنے حالات خود نہ بتائے، میں اپنے عملے کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہندوستانیوں کے لیے یہ دکھتی رگ ہوتی ہے۔ اس لیے مجھ علم نہ ہو سکا کہ ہر سال پوسٹ کارڈ ملنے پر بدھو کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ میرے ملازمین کی ڈاک ان کے نگرانوں کو دے دی جاتی تھی جو متعلقہ بندے کو پہنچاتے تھے۔ اس لیے میں نے چماری کو ہدایت کی کہ جب بھی بدھو کو اگلا پوسٹ کارڈ ملے، وہ بدھو کو میرے پاس بھیج دے۔ نو ماہ بعد جب کوئلے کی آمد و رفت معمول سے زیادہ تھی اور ہر آدمی اپنی بساط سے بڑھ کر کام کر رہا تھا، بدھو پوسٹ کارڈ لیے میرے کمرے میں داخل ہوا۔ پوسٹ کارڈ کی زبان مجھے نہیں آتی تھی سو میں نے بدھو سے کہا کہ وہ پڑھ کر سنائے۔ تاہم وہ خواندہ نہیں تھا اس لیے اس نے بتایا کہ چماری نے پڑھ کر اسے سنایا تھا کہ اس کے مالک کی فصل تیار تھی اور وہ فوراً اسے بلا رہا تھا۔ پھر بدھو نے اس روز مجھے اپنی کہانی سنائی جو ہندوستان کے لاکھوں غریبوں کی کہانی ہے۔

    ‘میرا دادا کھیت مزدور تھا اور اس نے گاؤں کے بنیے سے دو روپے ادھار لیے تھے۔ بنیا نے ایک روپیہ ایک سال کے سود کے طور پر پیشگی رکھوا لیا اور میرے دادا سے بہی کھاتے پر انگوٹھا لگوا لیا (حساب کتاب کا کھاتہ)۔ جب بھی ممکن ہوا، میرا دادا چند آنے سود کے نام پر ادا کرتا رہا۔ دادا کی وفات پر یہ ادھار میرے باپ کو منتقل ہوا اور اُس وقت تک یہ ادھار پچاس روپے بن چکا تھا۔ اس دوران بوڑھا بنیا بھی مر گیا اور اس کے بیٹے نے اس کی جگہ سنبھالی اور کہا کہ چونکہ ادھار بہت بڑھ گیا ہے، سو نئے سرے سے معاہدہ کرنا ہوگا۔ میں نے یہ معاہدہ کیا اور چونکہ میرے پاس اسٹامپ پیپر کے لیے پیسے نہیں تھے، سو بنیے کے بیٹے نے وہ بھی سود اور اصل رقم کے ساتھ لکھ لیے جو اب ایک سو تیس روپے سے زیادہ تھا۔ بنیے کے بیٹے نے ایک شرط پر سود کی شرح پچیس فیصد کرنے کی پیشکش کی کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہر سال اس کی فصلیں کاٹنے کے لیے آیا کروں۔ جب تک سارا ادھار اتر نہ جائے، ہمیں یہ کام کرتے رہنا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق مجھے اور میری بیوی کو بنیے کی فصلیں مفت میں کاٹنی ہوتی ہیں جو الگ کاغذ پر لکھا گیا تھا اور اس پر میرا انگوٹھا لگایا گیا۔ ہر سال کام کے بعد بنیے کا بیٹا کاغذ کی پشت پر حساب کتاب کر کے میرے انگوٹھے لگواتا ہے۔ علم نہیں کہ ادھار اب کتنا بڑھ چکا ہوگا کیونکہ میں نے ابھی تک کوئی پیسہ واپس نہیں کیا۔ اب چونکہ میں آپ کے پاس کام کر رہا ہوں، سو میں نے پانچ، سات اور تیرہ، کل مل ملا کر پچیس روپے ادا کیے ہیں۔‘

    بدھو نے کبھی اس ادھار کی ادائیگی سے انکار کا سوچا بھی نہیں۔ ایسی سوچ ممکن بھی نہیں تھی کہ اس طرح نہ صرف اس کا منہ کالا ہوتا بلکہ اس کے آبا و اجداد کے نام پر بھی دھبہ لگ جاتا۔ اس طرح وہ نقد اور محنت، ہر ممکن طور پر ادھار کی ادائیگی کرتا رہا اور اسے علم تھا کہ کبھی اس ادھار کو ادا نہیں کر پائے گا اور یہ اس کے بیٹے کو منتقل ہو جائے گا۔

    بدھو سے پتہ چلا کہ بنیے کے دیہات میں ایک وکیل بھی رہتا ہے، میں نے اس کا نام اور پتہ لیا اور بدھو کو کام پر لوٹ جانے کا کہا اور اسے یقین دلایا کہ میں بنیے کا معاملہ سنبھالتا ہوں۔ اس کے بعد وکیل سے طویل خط کتابت شروع ہو گئی۔ وکیل مضبوط اعصاب کا برہمن تھا جسے بنیے سے نفرت تھی کہ بنیے نے اسے گھر سے باہر بلا کر اس کی بے عزتی کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے۔ وکیل نے بتایا کہ بہی کھاتا جو وراثت میں ملا تھا، وہ عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا کہ اس پر لگے انگوٹھوں والے افراد مر چکے ہیں۔ بنیا نے بدھو کو دھوکہ دے کر اس سے نئے کاغذ پر دستخط کرائے جس کے مطابق بدھو نے بنیا سے پچیس فیصد شرح سود پر ڈیڑھ سو روپے ادھار لیے تھے۔ وکیل نے بتایا کہ اس کاغذ کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے کہ بدھو اس کی تین قسطیں ادا کر چکا تھا اور ان قسطوں کے ثبوت کے طور پر اس کے انگوٹھے بھی لگے تھے۔ جب میں نے وکیل کو پورے ادھار کی رقم اور پچیس فیصد سود کی رقم بھی بھیجی تو بنیا نے سرکاری کاغذ تو دے دیا مگر وہ ذاتی معاہدہ دینے سے انکار کر دیا جس کے مطابق بدھو اور کی بیوی اس کی فصلیں مفت کاٹتے۔

    جب وکیل کے مشورے پر میں نے بنیے کو بیگار کے مقدمے کی دھمکی دی تو پھر جا کر اس نے معاہدہ ہمارے حوالے کیا۔

    جتنی دیر ہماری خط کتابت ہوتی رہی، بدھو بہت پریشان رہا۔ اس نے مجھ سے اس بارے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر جس طور وہ مجھے دیکھتا تھا، واضح کرتا تھا کہ اس نے طاقتور بنیے کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے مجھ پر شاید بھروسہ غلط کیا ہے۔ اسے یہ بھی فکر ہوگی کہ اگر کسی وقت بنیا آ کر اس سے پوچھے کہ یہ سب کیا ہے تو وہ کیا جواب دے گا۔ ایک روز مجھے مہر لگا ایک موٹا لفافہ ملا جس میں انگوٹھوں کے نشانات سے بھرے کاغذات تھے اور وکیل کی فیس کی ایک رسید بھی شامل تھی اور بدھو کے لیے ایک خط بھی، کہ وہ اب آزاد ہو چکا ہے۔ اس سارے معاملے پر مجھے سوا دو سو روپے ادا کرنے پڑے۔

    اس روز شام کو بدھو کام سے گھر جا رہا تھا کہ میں اسے ملا اور لفافے سے کاغذات نکال کر اسے دیے اور ایک ماچس بھی دی کہ اسے جلا دے۔ اس نے کہا: ‘نہیں صاحب۔ آپ ان کاغذات کو نہ جلائیں۔ آج سے میں آپ کا غلام ہوں اور خدا جانتا ہے کہ ایک روز میں آپ کا ادھار واپس کر دوں گا۔‘ بدھو نہ صرف کم گو تھا بلکہ کبھی مسکرایا بھی نہیں تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ وہ انہیں جلانا نہیں چاہتا تو اپنے پاس رکھ لے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوئے اور جب سیدھا ہو کر گھر جانے کو مڑا تو اس کے کوئلے سے بھرے چہرے سے آنسوؤں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔

    تین نسلوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑا ایک انسان آزاد ہوا مگر لاکھوں ابھی تک قید تھے۔ مگر مجھے اس سے زیادہ کبھی خوشی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی الفاظ بدھو کے خاموش جذبات سے ہوئی تھی جب وہ آنسو بھری آنکھوں سے ٹھوکریں کھاتا اپنی بیوی کو یہ بتانے گیا کہ بنیے کا ادھار اتر چکا ہے اور وہ اب آزاد ہیں۔

  • جم کاربٹ کا تذکرہ جنھیں‌ لوگ سادھو کہتے تھے!

    جم کاربٹ کا تذکرہ جنھیں‌ لوگ سادھو کہتے تھے!

    برطانوی دور کے ہندوستان میں گاؤں دیہات کے لوگ جم کاربٹ کو اپنا مسیحا سمجھتے تھے اور اس کی پوجا کرتے تھے۔ اس کی وجہ انسانوں پر حملہ کرنے والے جنگلی درندوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ انھوں نے کئی آدم خور شیروں اور تیندوؤں کو ہلاک کیا جن کی وجہ سے لوگ خوف زدہ رہتے تھے۔

    جم کاربٹ کا وطن ہندوستان تھا جہاں وہ برطانوی راج میں بسنے والے والدین کے گھر 25 جولائی 1875 کو پیدا ہوئے۔ یہ خاندان نینی تال میں سکونت پذیر تھا۔ جم کوربیٹ نے ہمالیہ پہاڑ کی ترائی میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے ”کالا ڈھنگی“ میں اپنا بچپن گزارا۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ جنگلات میں فوٹو گرافی اور شکار کرتے ہوئے گزرا۔ وہ 79 برس کے تھے جب دل کا دور پڑنے سے وفات پائی۔ جم کاربٹ تقسیم ہند کے بعد کینیا چلے گئے تھے جہاں‌ 19 اپریل 1955 کو انتقال کیا۔ انتقال سے قبل وہ اپنی چھٹی کتاب تحریر کرچکے تھے۔ وہ ایک مہم جو، شکاری، فوٹوگرافر اور مصنّف کے طور پر مشہور ہوئے۔

    جم کاربٹ نے بہت سارے ایسے آدم خور ہلاک کیے جنھیں دوسرے شکاری نہیں‌ مار سکے تھے اور ان کی وجہ سے جنگلات کے قریبی دیہات اور آبادیوں میں لوگ خوف زدہ رہتے تھے۔ 1907 سے 1938 کے دوران جم کوربیٹ نے چمپاوت کی آدم خور شیرنی، ردر پریاگ کا آدم خور تیندوا، چوگڑھ کی آدم خور شیرنیاں اور پانار کا آدم خور تیندوا ہلاک کیا۔ ان درندوں نے مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ انسان ہلاک کیے تھے۔ اس شکاری کو کماؤں کے علاقے میں بے پناہ شہرت اور عزّت ملی۔ لوگ انہیں سادھو مانتے تھے۔

    جم کاربٹ نے دو دہائی تک ریلوے کے محکمے میں ملازمت کی۔ وہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران فرانس میں فوجی عہدے دار کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ جم کوربیٹ ایک سخت کوش انسان تھے۔ ”روپریاگ “ کے آدم خور کو ہلاک کرنے کے دنوں میں ان کی عمر 51 برس تھی جب کہ ”ٹھاک کے آدم خور“ کے شکار کے وقت وہ 63 برس کے ہوچکے تھے۔ ان دونوں آدم خور درندوں کے شکار کی داستانیں اور جم کوربیٹ کی تحریریں اردو اور دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے نیئیری، کینیا میں ایک بہت بڑے اور بلند بالا درخت پر ایک نہایت خوبصورت، محفوظ اور آرام دہ کاٹیج تعمیر کروایا تھا جہاں ان کی جانب سے ملکہ الزبتھ اور پرنس فلپس کو ایک رات بسر کرنے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔

    جم جن کا پورا نام ایڈورڈ جیمز کاربٹ تھا، نے شادی نہیں‌ کی تھی۔ ان کی اکثر تحریروں میں ”میگی“ نام کی خاتون کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ ان کی ازحد مخلص اور جاں نثار بہن تھیں۔ میگی بھی اپنے بھائی کے ساتھ ہی ہندوستان چھوڑ کر کینیا چلی گئی تھیں۔ جم کاربٹ کی سوانح عمری ہندوستان میں‌ اردو زبان میں بھی بہت شوق سے پڑھی گئی جب کہ مغرب میں‌ بھی اس شکاری پر بہت کچھ لکھا گیا، جم کاربٹ کی ایک داستانِ حیات مارٹن بوتھ نے لکھی تھی جس میں وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں، جم ایک ماہر شکاری ہی نہیں، بہترین فوٹوگرافر بھی تھا۔ وہ جس قدر اپنی بندوق پر فخرکرتا تھا اسی قدر اپنے کیمروں پر بھی فخر کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ کیمرہ رکھتا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ وہ کیمرے کے بغیر گھر سے نکلا ہو۔ اس نے نہ صرف جنگلی حیات کی تصویر کشی کی بلکہ دریاؤں، دیہات، قدرتی خوبصورت مناظر، آسیب زدہ گھاٹیوں اور جنگل میں لگی آگ کی بھی تصویر کشی کی۔ اس نے شیروں کی جو تصویریں لیں ان کا شمار بہترین تصویروں میں ہوتا ہے۔ آرام کی غرض سے لیٹے شیر، وحشت ناک غراتے شیر، اپنے شکار کو گرفت میں لیے شیر۔ ایسی تصویریں پہلے کبھی نہیں لی گئی تھیں۔ مارٹن کہتے ہیں ’’جم کو جنگلات سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ فوٹو گرافی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو جنگل کی افادیت اور اس کے حسن سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘