Tag: جناح

  • تقسیم کے بعد پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستیں

    تقسیم کے بعد پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستیں

    1857ء کی جنگ آزادی اور ہندوستان کی تقسیم تک برصغیر میں جہاں‌ سیاست داں، دانش ور اور بااثر سماجی شخصیات دن رات تحریکِ‌ آزادی میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئے، وہیں‌ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اکابرین نے اس وقت کی اسلامی ریاستوں کے سربراہوں اور نوابین کو بھی قائل کیا اور انھیں مسلمانوں کی الگ مملکت کے حصول کی جدوجہد میں شامل کیا۔

    یہ ایک تاریخی اور اہم موضوع ہے جس پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ہندوستانی اہل قلم شخصیات کے علاوہ انگریز مؤرخین اور دوسرے غیر ملکی محققین نے بھی اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن تقسیم ہند کے لیے آزادئ ہند ایکٹ 1947ء متعارف کروایا گیا تھا جس کے تحت تقسیم کے معاملات طے ہونے تھے۔ اس وقت ہندوستان میں 562 شاہی ریاستیں تھیں جو زیادہ تر اپنے ریاستی معاملات میں آزاد تھیں اور مختلف معاہدوں اور شرائط کے تحت برطانوی سامراج نے ان پر اپنا اثر رسوخ قائم کر رکھا تھا۔ راجے، مہاراجے، شہزادے، نواب یا امیر اپنے فیصلوں میں آزاد تھے۔ ان ریاستوں کو بہت حد تک خود مختاری بہرحال حاصل رہی، لیکن کچھ ریاستوں کو نیم خود مختاری حاصل تھی۔ اس کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہے، لیکن دیکھا جائے تو یہ یہ شاہی ریاستیں انتظامی، قانونی اور جغرافیائی طور پر تین درجوں میں تقسیم رہی تھیں۔ ان میں لگ بھگ 150 ریاستیں برطانوی حکومت سے معاہدے کے بعد قانونی و انتظامی امور پر مکمل اختیار رکھتی تھیں۔ اور یہ ریاستِ جموں و کشمیر، ریاست بہاولپور، ریاست جے پور، جونا گڑھ اور حیدر آباد دکن وغیرہ تھیں۔ دوسرے درجے کی ریاستوں کے چند داخلی معاملات میں برطانوی سامراج کو اختیارات حاصل تھے۔ اور تیسرے درجے کی تقریباً‌ 300 ایسی ریاستیں تھیں جو بلحاظِ رقبہ کم تھیں اور خود مختار بھی نہ تھیں۔

    پاکستان سے کل 13 ریاستوں نے الحاق کیا۔ ان میں پہلے تذکرہ کرتے ہیں ریاست بہاولپور کا جو 150 فرسٹ کلاس ریاستوں میں سے ایک اور رقبے کے لحاظ سے بڑی تھی۔ یہی نہیں‌ اس کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جو معیشت کے اعتبار سے بھی خوش حال تھی۔ ریاست بہاولپور کے سربراہ مسلمان تھے اور اس وقت اس کی 83 فیصد آبادی مسلمان تھی۔ یوں اس مسلم اکثریتی ریاست کا رقبہ 17226 مربع میل بتایا جاتا تھا۔ ریاست بہاولپور کے نواب کی قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات ہوئی جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ نہرو نے نواب صاحب کو بھارت میں شامل ہونے کی پیشکش کرتے ہوئے خاص عہدہ اور ریاست کی حیثیت کا یقین دلایا تھا۔ لیکن نواب آف بہاولپور نے انکار کر دیا۔

    قیام پاکستان کے بعد مالی مشکلات کے موقع پر نواب آف بہاولپور نے اپنا ذاتی سونا بینک آف انگلینڈ میں بطور ضمانت جمع کروایا اور اس کے بعد پاکستان کو کرنسی چھاپنے کی اجازت ملی۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کی سہولیات عام کرنے کے لیے زمین دینے اور مالی امداد کا سلسلہ جاری رکھا۔

    دوسری طرف ریاست سوات تھی جس کا قیام 1849ء میں عمل میں آیا تھا اور وہاں اخند حکمران ہوئے۔ یہ ریاست موجودہ ریاست خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی۔ والیٔ سوات میاں گل عبدالودود نے بطور مقتد ر حکم ران الحاق کی دستاویز قائد اعظم محمد علی جناح کو بھیجی تھی جس کی قبولیت کے بعد ریاست کا الحاق پاکستان سے ہوا۔ اسی طرح ریاست چترال جس کا محل وقوع بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اور اس کی مشرقی حدود گلگت بلتستان سے ملتی ہیں جب کہ ریاست کی شمال مغربی سرحد افغانستان کے صوبوں سے ملی ہوئی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد چترال کے مہتر (نواب)، مہتر مظفر الملک تھے اور ریاست چترال پاکستان میں شامل ہوئی۔ اس کے لیے 1948ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے دستاویز پر دستخط کیے۔ سندھ میں ایک زرخیز ریاست خیر پور تھی اور یہ زرعی پیداوار کے لیے اس وقت بہت اہمیت کی حامل تھی۔ میر غلام حسین تالپور نے ریاست خیر پور کے حکمران کے نمائندے کے طور پر پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ دوسری طرف بلوچستان کی کچھ چھوٹی ریاستیں جن میں‌ مکران، خاران اور لسبیلہ شامل تھیں پاکستان میں شامل ہوگئیں۔

    ریاست جونا گڑھ اور مناودر کی بات کریں تو جنوری 1945ء میں قائداعظم نے مناودر کے علاقے بانٹوا کا دورہ کیا تھا۔ حاجی موسیٰ لوائی اپنی کتاب عکسِ بانٹوا میں لکھتے ہیں کہ یہ ان کا کاٹھیاواڑ کا پہلا دورہ تھا۔ قائداعظم کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ تقسیم ہند کے وقت ریاست کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور بھارت نے جارحیت کی اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر اس پر قبضہ کر لیا۔ آج بھی نواب خاندان اسے پاکستان کا حصہ تصور کرتے ہیں اور اس پر قانونی چارہ جوئی کی ہے۔ ریاست امب کے علاوہ ریا ستِ دیر، ہنزہ و نگر بھی پاکستان کا حصہ بنیں۔

    اگر ان ریاستوں کے الحاق کا مطالعہ کیا جائے تو اس حوالے سے کچھ تنازعات بھی سامنے آتے ہیں اور یہ پاکستان مخالف برطانوی افسر شاہی اور بھارت کے پروپیگنڈے کی وجہ سے ہے جب کہ مختلف ریاستوں کے حکمرانوں پر یہ بات واضح تھی کہ ان کا مستقبل صرف پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں ہے اور وہاں کی مسلمان اکثریت جناح صاحب کو اپنا قائد مانتی ہے۔ تاریخِ پاکستان یہ ثابت کرتی ہے کہ ان ریاستوں نے پاکستان کی تسخیر کو ناممکن بنایا اور ان ریاستوں کے غیور شہریوں نے ہمیشہ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔

  • بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کی نفاست پسندی اور جامہ زیبی

    بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کی نفاست پسندی اور جامہ زیبی

    برصغیر کی تاریخ میں جہاں تقسیمِ ہند وہ موضوع ہے جسے ایک نہایت ہنگامہ خیز جدوجہد کے اختتام پر ایک عظیم ہجرت اور ناقابلِ‌ فراموش یادوں کے تسلسل میں ہر دور میں ضبطِ تحریر میں‌ لایا جاتا رہے گا اور محمد علی جناح کا نام ایک عظیم سیاسی لیڈر کے طور پر ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔

    پاکستان ہی نہیں‌ بلکہ تاریخِ عالم میں محمد علی جناح صرف ہندوستان کی سیاست کا ایک ناقابلِ فراموش کردار ہی نہیں‌ ہیں‌ بلکہ ان کی کرشماتی شخصیت بھی اکثر زیرِ بحث رہتی ہے۔ اور بانیِ پاکستان کی نفاست پسندی اور خوش پوشاکی ضربُ المثل رہی ہے۔

    اس دور کے مسلمان قائدین اور محمد علی جناح کے رفقاء ہی نہیں کانگریس کے بڑے بڑے نام اور سیاسی راہ نما کے ساتھ ساتھ انگریز وائسرائے بھی قائد اعظم سے متاثر ہوئے اور ان کی نفاست پسندی کے معترف رہے ہیں۔

    یہاں ہم لارڈ چمسفورڈ اور لارڈ ہارڈنگ کا تذکرہ کر رہے ہیں جنھوں نے محمد علی جناح کی نفاست پسندی اور جامہ زیبی کا کئی مواقع پر اعتراف کیا۔ لارڈ چمسفورڈ ہندوستان کے وائسرائے بھی رہے ہیں۔ ہندوستان میں برطانوی دور کے ایک اور منتظم لارڈ ریڈنگ تھے جن کی اہلیہ نے اپنی والدہ کے نام ایک خط میں مسلمانانِ ہند کے عظیم لیڈر کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا: ’’بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کو عموماً خوش لباسی اور جامہ زیبی میں لائیڈ جارج تصور کیا جاتا ہے۔‘‘

    اگر بات کی جائے ہندوستان کے عام مسلمانوں کی تو وہ روایتی ملبوس اور اس دور کی قدروں کو اہمیت دیتے تھے۔ یہاں کے مسلمان کپڑے کی بنی ہوئی ٹوپی سے سَر ڈھانپتے تھے جسے شرافت اور تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جب سلطنتِ عثمانیہ اور تحریکِ خلافت کا شہرہ ہوا تو ان کی اکثریت نے مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد پر اپنے لباس میں ترکی ٹوپی کو بھی شامل کرلیا۔

    قائدِ اعظم لندن میں اور دورِ وکالت میں ہمیشہ کوٹ، پتلون، ٹائی اور فلیٹ ہیٹ ہی استعمال کرتے رہے، لیکن بعد میں مسلم لیگ کے راہ نما اور تحریکِ آزادی کے اس عظیم قائد نے اچکن اور تنگ پاجامہ، شیروانی جیسے ملبوس کے ساتھ ایک مخصوص ٹوپی پہننا شروع کی اور جلسوں اور مختلف تقاریب میں‌ اسی لباس میں شریک ہونے لگے۔ مسلمانوں نے اپنے قائد کے اس انداز کو بہت پسند کیا اور قائدِ‌اعظم کی وہ قراقلی ٹوپی عوام میں اتنی مقبول ہوئی کہ سب اسے جناح کیپ کہنے لگے۔

    یہ ٹوپی دراصل دنبے کی ایک خاص نسل قراقلی کی کھال سے تیّار کی جاتی ہے اور اسی سے موسوم ہے۔ اس جانور کی یہ مخصوص کھال افغانستان اور بیرونِ ملک سے منگوا کر متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں بھی قراقلی ٹوپی کی تیّاری کے لیے استعمال کی جاتی رہی، لیکن وقت کے ساتھ اس کا رواج ختم ہو گیا۔

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح سے اپنی والہانہ محبّت اور ان سے عقیدت و احترام کے اظہار کے لیے اس دور میں ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت جناح کیپ پہن کر جلسوں اور تقاریب میں شریک ہوتی تھی۔

  • آزادی اور تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردینے والی خواتین

    آزادی اور تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردینے والی خواتین

    تحریکِ پاکستان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ مسلمان خواتین نے بھی ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اور قربانیاں دیں جن کے تذکرے کے بغیر جدوجہِدِ آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔

    ان میں مسلم اکابرین اور زعما کے گھرانوں کی خواتین اور ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والی عام عورتیں شامل ہیں جنھوں نے جلسے جلوس، احتجاجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور آزادی کی تحریک کے لیے گرفتاریاں دیں اور اپنے جان و مال کا نذرانہ پیش کیا۔

    ہندوستان کی تاریخ کی عظیم تحریک جس کے اختتام پر ہم نے پاکستان حاصل کیا، محترمہ فاطمہ جناح، امجدی بانو بیگم، سلمیٰ تصدق حسین، بی اماں، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم گیتی آراء، بیگم جہاں آرا شاہنواز اور بے شمار خواتین کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہے۔

    ان خواتین کا لازوال کردار، عظمت و حوصلہ اور مسلمانوں کے لیےعلیحدہ ریاست حاصل کرنے کا جذبہ مردوں سے کسی طور کم نہ تھا، بلکہ ان میں سے اکثر ایسی خواتین تھیں جنھوں نے تحریکی ذمہ داریاں اور کام انجام دینے کے ساتھ اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کیں اور اپنے قول و عمل سے آزادی کے سفر اور تحریکِ پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔

    یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی چند خواتین کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں۔

    مادرِ ملت محترمہ فاطمہ علی جناح
    تحریکِ پاکستان میں اگر خواتین کے نمایاں اور فعال کردار کی بات کی جائے تو جہاں اپنے بھائی اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی طرح مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے خود ایک سیاسی مدبّر اور قائد کی حیثیت سے صفِ اوّل میں مرد راہ نماؤں کے ساتھ نظر آئیں، وہیں ان کا ایک بڑا کارنامہ ہندوستان میں خواتین میں آزادی کا شعور بیدار کرنا اور بڑی تعداد کو مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھا کرنا تھا۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث اور انتھک جدوجہد ایک مثال ہے جس نے انھیں برصغیر کی تاریخ میں ممتاز کیا۔

    محترمہ فاطمہ علی جناح پیشے کے اعتبار سے دندان ساز تھیں جو برصغیر کے طول و عرض میں خواتین میں علیحدہ مسلم ریاست سے متعلق شعور بیدار کرنے اور مسلمانوں کو منظّم و متحرک کرنے کے لیے دن رات میدان عمل میں رہیں۔ تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی خدمات ایک سنہرا اور روشن باب ہیں۔

    بی امّاں
    اس عظیم خاتون کا نام ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا جنھوں نے اپنے عزیز از جان بیٹوں کو اسلام کا پرچم سربلند رکھنے اور آزادی کی خاطر گردن کٹوا لینے کا درس دیا اور خود بھی جدوجہدِ‌ آزادی کے حوالے سے میدانِ‌ عمل میں متحرک اور فعال رہیں۔ بی امّاں نے گھر گھر جاکر عورتوں میں سیاسی شعور اور انگریزوں سے آزادی کی جوت جگائی اور انھیں‌ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ و خبردار کیا۔

    بی امّاں کا اصل نام آبادی بانو تھا۔ وہ عظیم سیاسی راہ نما مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ تھیں جنھیں دنیا جوہر برادران کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کی امارت اور خلافت کے یہ متوالے جیل کی قید اور صعوبتیں جھیلتے تو بی امّاں کی تلقین اور ان کا حکم یاد کرتے کہ بیٹا خلافت کے لیے جان دے دینا اور آزادی کا خواب دیکھنا مت ترک کرنا، چاہے گردن ہی تن سے جدا کیوں نہ کردی جائے۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ناقابل فراموش کردار ادا کرنے والی بی امّاں تعلیم یافتہ نہ تھیں لیکن ایک آزاد مملکت کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے جلسے جلوس سے لے کر چند کانفرنسوں کی صدارت بھی بخوبی کی۔ انھوں نے خواتین میں جذبہ حرّیت بیدار کرتے ہوئے انھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے نمایاں کام کیا۔

    بیگم رعنا لیاقت علی خان
    بیگم رعنا لیاقت علی خان معاشیات کے مضمون میں ڈگری یافتہ تھیں اور انھوں نے تحریکِ پاکستان جناح کمیٹی میں بطور اقتصادی مشیر خدمات سرانجام دیں۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی رفیق حیات تھیں۔

    انھوں نے قرار دادِ پاکستان کے مسودے کی تیاری کے دوران چند کلیدی نکات بتائے تھے۔ انھیں تحریکِ پاکستان کی کارکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    بیگم جہاں آرا شاہنواز
    آزادی کی جدوجہد کا ایک نمایاں کردار بیگم جہاں آرا شاہنواز ہیں۔ آپ مسلمانوں کی نمائند ہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا نام تجویز کرنے والے عظیم سیاسی راہ نما سر میاں محمد شفیع کی صاحبزادی تھیں۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز کو اس جماعت کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور انھوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

    بیگم زری سرفراز
    بیگم زری سرفراز نہ صرف تحریک پاکستان کی ایک سرگرم کارکن تھیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں‌ خواتین کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے بھی کوشاں رہیں اور اس حوالے سے بہت کام کیا۔ بیگم زری سرفراز 1940ء کے تاریخ ساز جلسے میں شریک ہوئی تھیں۔ انھوں نے مردان میں مسلم لیگ خواتین کی داغ بیل ڈالی جب کہ 1945ء میں برصغیر کی مسلم لیگی خواتین کی کانفرنس منعقد کروانے کا سہرا بھی آپ ہی کے سَر ہے۔ انھوں نے 1947ء میں سول نافرمانی اور وائسرائے کے پشاور کے دورے کے موقع پر احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی تھی۔