Tag: جناح کیپ

  • وائسرائے ہند کی اہلیہ نے والدہ کے نام خط میں قائدِ‌اعظم کے حوالے سے کیا لکھا تھا؟

    وائسرائے ہند کی اہلیہ نے والدہ کے نام خط میں قائدِ‌اعظم کے حوالے سے کیا لکھا تھا؟

    مسلمانانِ ہند کے عظیم قائد اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی نفاست پسندی اور خوش پوشاکی ضربُ المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔

    قائدِاعظم محمد علی جناح کی نفاست پسندی اور جامہ زیبی نے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ چمسفورڈ اور لارڈ ہارڈنگ بھی متاثر تھے اور متعدد مواقع پر اس کا اعتراف بھی کیا۔ برطانوی دور کے ایک اور ہندوستانی حاکم لارڈ ریڈنگ کی اہلیہ نے تو اپنی والدہ کے نام ایک خط میں لکھا: ’’بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کو عموماً خوش لباسی اور جامہ زیبی میں لائیڈ جارج تصور کیا جاتا ہے۔‘‘

    اگر بات کی جائے ہندوستان کے عام مسلمانوں کی تو وہ روایتی ملبوس اور اس دور کی قدروں کو اہمیت دیتے تھے اور کپڑے کی بنی ہوئی ٹوپی سے سَر ڈھانپتے تھے جسے شرافت اور تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جب سلطنتِ عثمانیہ اور تحریکِ خلافت کا شہرہ ہوا تو ان کی اکثریت نے مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد پر اپنے لباس میں ترکی ٹوپی بھی شامل کرلی تھی۔

    قائدِ اعظم نے ہمیشہ کوٹ، پتلون، ٹائی اور فلیٹ ہیٹ ہی استعمال کیا، لیکن مسلم لیگ کے راہ نما اور تحریکِ آزادی کے قائد بعد میں اچکن اور تنگ پاجامہ، شیروانی جیسے روایتی ملبوس کے ساتھ ایک مخصوص ٹوپی پہن کر جلسوں اور مختلف اہم تقاریب میں‌ شریک ہونے لگے اور ان کے زیرِ استعمال قراقلی ٹوپی اتنی مشہور ہوئی کہ جناح کیپ کے نام سے مشہور ہوگئی۔

    یہ دراصل دنبے کی ایک خاص نسل قراقلی کی کھال سے تیّار کی جاتی ہے اور اسی سے موسوم ہے۔ اس جانور کی یہ مخصوص کھال افغانستان اور بیرونِ ملک سے منگوا کر متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں بھی اس سے قراقلی ٹوپی تیّار اور استعمال کی جاتی رہی، لیکن بدلتے ہوئے فیشن اور ملبوسات کے ساتھ اس کا رواج بھی ختم ہو چکا ہے۔

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح جب اپنے عمدہ اور خوب صورت ملبوس کے ساتھ یہ ٹوپی پہننے لگے تو لوگوں نے اسے بہت پسند کیا اور اسے جناح کیپ ہی کہنا شروع کردیا اور اکثریت نے اسے اپنے لباس کا حصّہ بنایا۔

  • قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ایک نفیس و دل چسپ پہلو

    قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ایک نفیس و دل چسپ پہلو

    ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے طویل اور ناقابلِ فراموش جدوجہد میں نہ صرف قائدِ اعظم محمد علی جناح کی بے لوث قیادت ایک اہم تاریخی موضوع ہے بلکہ آزادی کے متوالوں کے محبوب لیڈر محمد علی جناح کی سحر انگیز اور نفیس شخصیت سے بھی نئی نسل کو واقف کرانا ضروری ہے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ تعلیم و قابلیت، قیادت کی اہلیت کے ساتھ کون سے عوامل ہیں جن کی بنا پر ان کے قائد کو ایک باوقار، پُراعتماد اور ہمہ اوصاف شخصیت کہا جاتا ہے۔

    برصغیر پاک و ہند کے عظیم سیاسی مدبّر، قابل وکیل اور مسلمانانِ ہند کے قائد خوش پوشاک اور نفیس انسان مشہور تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ قائدِ اعظم کی خوش پوشاکی ان کی شخصیت کا ایسا جزو تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس کا اعتراف ان کے سیاسی حریف اور مخالفین بھی کرتے ہیں۔

    قائد اعظم محمدعلی جناح کراچی میں پیدا ہوئے جو اس وقت بھی ساحلی شہر ہونے کی بنا پر اہم تجارتی مرکز تھا اور یہاں نہ صرف مختلف اقوام کے لوگ رہتے تھے بلکہ انگریز بھی آباد تھے۔ یہاں کی مخصوص مقامی آبادی انگریزی زبان و ثقافت سے کسی قدر واقف اور ان کے طور طریقوں اور لباس سے بھی مانوس ہوگئے تھے۔

    محمد علی جناح کے والد جناح پونجا تجارت پیشہ تھے اور اسی حوالے سے انگریزوں سے رابطہ اور واسطہ پڑتا رہتا تھا۔ اس لیے وہ نہ صرف انگریزی زبان جانتے تھے بلکہ ان کا لباس بھی کوٹ، پتلون اور ٹائی پر مشتمل تھا۔ اسی ماحول میں قائدِ اعظم بھی رہے اور شروع ہی سے انگریزی لباس زیبِ تن کیا۔ 1892ء میں وہ انگلستان چلے گئے اور تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے بیرسٹر بنے۔ لندن میں قیام کے دوران کوٹ، پتلون اور ٹائی کے استعمال کے ساتھ اس لباس کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے بھی آشنا ہوئے۔

    لندن سے واپس آکر بمبئی میں بہ طور پیشہ وکالت کا آغاز کیا۔ وہاں پارسیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی آبادی نہ صرف با اثر اور متمول تھی بلکہ انگریزوں سے قریبی روابط رکھتی تھی اور انگریزی لباس پہنتی تھی اور محمد علی جناح بھی یہی لباس پہنتے رہے۔

    آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلمانوں کے راہ بر و قائد بننے اور 1937 کے بعد محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے اجلاسوں، کانفرنسوں اور عوامی اجتماعات میں اچکن اور تنگ پاجامہ پہن کر شرکت کرنا شروع کردی تھی، اور مؤرخین کے مطابق بعد میں شیروانی کا استعمال شروع کیا۔

    اگست 1947ء کے بعد پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے بانی پاکستان نے آزادی کی تقریبات میں شیروانی، شلوار اور جناح کیپ پہن کر شرکت کی تھی۔