Tag: جنت

  • زمین پر جنت! 32 افراد والا جزیرہ نئے مکینوں کی تلاش میں

    زمین پر جنت! 32 افراد والا جزیرہ نئے مکینوں کی تلاش میں

    ایڈنبرا: اسکاٹ لینڈ کے ایک جزیرے سے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہاں صرف 32 افراد رہائش پذیر ہیں، اور جزیرے کو اب نئے مکینوں کی تلاش ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسکاٹ لینڈ کے ضلع لوکابر کے ایک جزیرے کی آبادی اس وقت صرف 32 افراد پر مشتمل ہے، اور نئے مکینوں کے لیے جزیرے پر نئی تعمیرات کی جا رہی ہیں۔

    اس سلسلے میں جزیرے کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ جزیرے پر جو مکانات بنائے جا رہے ہیں، اس کے منصوبے میں اسکاٹ لینڈ کی حکومت بڑا تعاون کر رہی ہے۔

    کیا آپ نے کسی دور دراز جزیرے پر خاموش اور پر سکون زندگی کا تصور کیا ہے، جہاں آپ روزانہ ساحل پر لہروں کو سر پٹختا دیکھ سکیں، اگر یہ آپ کا خواب ہے تو اب یہ پورا ہو سکتا ہے، رم نامی یہ اسکاٹش جزیرہ اپنے مکینوں کی تعداد بڑھانا چاہتا ہے اور جزیرے کی جانب سے نئے مکینوں کے لیے اپیل کی گئی ہے۔

    رم جزیرے پر موجود اکلوتے گاؤں کنلوخ کا قلعہ

    جزیرہ رم (Rum) چاہتا ہے کہ باہر والے ان نئے مکانوں کے لیے درخواستیں دیں جو جزیرے کے واحد گاؤں کنلوخ میں تعمیر ہو رہے ہیں، جزیرے پر زیادہ لوگوں کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے بالخصوص بچوں کی جنھیں اسکول میں داخل کیا جا سکے، جزیرے پر موجود لوگوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ایسے نوجوان جوڑے جزیرے پر منتقل ہونا چاہیں گے جو صحت مند اور پرسکون ماحول چاہتے ہیں۔

    ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ جزیرے پر ایک ہی پرائمری اور نرسری اسکول ہے، اب جہاں بچوں کی ضرورت ہے، بتایا گیا ہے کہ جزیرے کی آبادی میں صرف 6 بچے شامل ہیں۔

    جزیرے پر تمام گھروں میں انتہائی اعلیٰ معیار کا فائبر براڈبینڈ موجود ہے، جزیرے پر ملازمتوں کے بھی وسیع مواقع ہیں جن میں سے بچوں کی دیکھ بھال، خوراک کی تیاری، ہاؤس مینٹی نینس، فش فارمنگ، سمندری اور پہاڑی سیاحت کے شعبے شامل ہیں۔

    جزیرے پر جو گھر بنائے جا رہے ہیں وہ ایکو ہوم یعنی ماحول دوست گھر ہیں اور یہ دو بیڈرومز پر مشتمل ہیں۔

  • آج کا کراچی جبر کے شکار کراچی کے مقابلے میں جنت ہے: فواد چوہدری

    آج کا کراچی جبر کے شکار کراچی کے مقابلے میں جنت ہے: فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے آج کے کراچی کو ماضی میں جبر کے شکار کراچی کے مقابلے میں جنت قرار دے دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اپنے ایک ٹویٹ میں فواد چوہدری نے نجی ٹی وی چینل کے مقتول رپورٹر ولی خان بابر کیس سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ولی خان بابر کا اصل قاتل تو لندن بیٹھا ہے لیکن آلہ کار کی گرفتاری نے یاد کرایا کہ کراچی پر کیسا مافیا راج کرتا تھا۔

    انھوں نے لکھا کہ آج کا کراچی اس جبر کے شکار کراچی کے مقابلے میں جنت ہے، کراچی نے بہت لہو دیکھا ہے، برطانیہ کو پاکستان کے مجرم حوالے کرنے چائیں تاکہ اصل شیطان انجام کو پہنچیں۔

    یاد رہے گزشتہ روز صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں بتایا کہ نجی ٹی وی چینل کے صحافی ولی بابر پر گولی چلانے والے قاتل کو گرفتار کر لیا گیا ہے، ولی بابر کو 13 جنوری 2011 کو لیاقت آباد میں قتل کیا گیا تھا۔

    کراچی، صحافی ولی بابر پر گولی چلانے والا قاتل گرفتار

    کراچی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ولی بابر قتل کیس میں 8 ملزمان نامزد تھے، ایک ملزم لیاقت علی واقعے کے ایک سال بعد مارا گیا تھا، تحقیقات میں ذیشان عرف شانی نے 4 قتل کا اعتراف کیا۔

    غلام نبی میمن کے مطابق ولی بابر پر براہ راست گولی چلانے والا ذیشان عرف شانی تھا، صحافی کے قتل کا ماسٹر مائنڈ فیصل موٹا تھا، قاتل نے بتایا ولی بابر کو مارنے کی وجہ اے این پی کے لیے کام کرنا تھا، ولی بابر ایم کیو ایم مخالف اسٹوری پر بھی کام کر رہا تھا۔

  • بادشاہ کے حکم پر باغ سے پھل چننے والے تین وزیر

    بادشاہ کے حکم پر باغ سے پھل چننے والے تین وزیر

    ایک بادشاہ نے اپنے تین وزیروں کو دربار میں بلاکر حکم دیا کہ ایک ایک تھیلا لے کر الگ الگ باغات میں جائیں اور مختلف اچھےاچھے پھل اکٹھے کریں۔

    وزیروں کو اس پر تعجب تو ہوا مگر حکم کی تعمیل میں تینوں الگ الگ باغوں میں چلے گئے۔

    پہلے وزیر کی کوشش تھی کہ بادشاہ کے لیے اس کی پسند کے مزے دار اور تازہ پھل جمع کرے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔

    دوسرے کا خیال تھا کہ بادشاہ ایک ایک پھل اس تھیلے سے نکال کر خود نہیں دیکھے گا اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کرے گا کہ اس کے لائے ہوئے پھل کیسے ہیں۔ اسے بس پھلوں سے اپنا تھیلا بھرنے کی جلدی تھی۔ اس نے ہر قسم کے تازہ، گلے سڑے اور کچے پھلوں سے اپنا تھیلا بھر لیا۔

    ادھر تیسرا وزیر باغ میں یہ سوچتا ہوا داخل ہوا کہ بادشاہ سلامت کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ تھیلے سے پھل نکال نکال کر دیکھے۔ وہ صرف بھرے ہوئے تھیلے پر نظر ڈالے گا۔ اس نے پھل توڑنے اور ان کی مختلف اقسام چننے اور تازہ پھل جمع کرنے کی زحمت نہ کی اور تھیلے میں گھاس، پتے بھر لیے اور اس طرح جان چھڑائی۔ اس نے اپنا بہت سا وقت بھی بچا لیا تھا۔

    اگلے روز بادشاہ نے تینوں وزرا کو پھلوں سے بھرے ہوئے تھیلوں سمیت دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
    بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ تینوں کو ان کے تھیلوں سمیت ایک ماہ کے لیے کسی دور دراز مقام پر قید کر دو۔
    سب حیران تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے مگر لب کشائی کی جرأت نہ کرسکے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور تینوں وزیر ایک ایسی جیل میں قید کر دیے گئے جہاں ان کے پاس کھانے پینے کو بھی کچھ نہ تھا۔ ہاں، ان کے اس تھیلے میں وہی کچھ تھا، جو انھوں نے جمع کیا تھا۔ ان کی قید کی مدت ایک ماہ تھی۔

    پہلا وزیر جس نے اچھے اچھے اور عمدہ پھل جمع کیے تھے، وہ مزے سے اپنے ان سے اپنا پیٹ بھرتا رہا۔
    دوسرا وزیر جس نے خاص کوشش اور محنت نہیں کی تھی اور ہر قسم کے تازہ اور کچے پھل جمع کرلیے تھے۔ اسے مشکل پیش آئی۔ چند روز تازہ پھل کھا لیے لیکن بعد میں گلے سڑے اور کچے پھلوں پر گزارہ کرنا پڑا جس کے نتیجے میں وہ بیمار ہوگیا۔

    تیسرا وزیر نہایت کاہل، کام چور اور چالاک بھی تھا اور ظاہر ہے اس کے تھیلے میں صرف گھاس اور باغ کا کچرا ہی تھا۔ وہ چند روز بعد ہی بھوک سے مر گیا۔

    یہ حکایت بیان کرنے والے بزرگ فرماتے ہیں کہ ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اس دنیا میں کیا جمع کر رہے ہیں جو ایک خوش نما باغ کی طرح ہے۔ اور ہم موت سے قبل جس جگہ جائیں گے وہاں گویا یہ جمع شدہ مال یعنی ہمارے اعمال ہی ہمیں راحت و تسکین پہنچائیں گے تو ہمیں خود ہی فیصلہ کرنا ہے کہ یہ کیسے عمدہ اور بہترین ہونے چاہییں۔ اسی طرح وہی اپنے بادشاہ یعنی کائنات کے حقیقی مالک اور اپنے خالق کے سامنے اور اس کے دربار میں باحفاظت اور عزت سے پہنچ سکے گا جس نے نیکیاں کی ہوں گی اور اس کے اعمال عمدہ ہوں گے۔