Tag: جنرل الیکشن 2024

  • عام الیکشن: ماضی کے چند مشہور سیاسی اتحاد

    عام الیکشن: ماضی کے چند مشہور سیاسی اتحاد

    پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل اُسی وقت شروع ہوگیا تھا جب آزادی کے بعد پاکستان لگ بھگ دس برس کا ہوچکا تھا۔

    دوسری طرف وطنِ عزیز کے عوام نے گزشتہ برسوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے وہ ”اتحاد“ بھی دیکھے ہیں جو عام انتخابات سے قبل تشکیل پاتے ہیں اور پھر ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ مختلف نظریات و خیالات کی حامل جماعتوں کی یہ اتحادی سیاست انتخابی اکھاڑے کے لیے ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ کے نام پر بھی ”گنجائش“ نکالتی رہی ہے۔

    پاکستان میں آٹھ فروری کو عام انتخابات کے حوالے سے سیاسی اجتماعات اور امیدواروں کی انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ اس مناسبت سے ہم یہاں ماضی کے چند بڑے سیاسی اتحادوں کا ذکر کر رہے ہیں۔

    جگتو فرنٹ 1954
    متحدہ پاکستان میں 1954 سے اتحاد کی سیاست نے جنم لیا تھا۔اس وقت کے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت سے شکایت رہی کہ انہیں برابر کا شہری اورسیاسی عمل اور جمہوریت میں حصہ دار تسلیم نہیں کیا جاتابلکہ اس کے برعکس ان پر یک طرفہ فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں۔ اس کے خلاف مشرقی پاکستان نے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور 1954 میں ”جگتو فرنٹ“ کے نام سے پہلا سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ اس میں عوامی لیگ، کراشک سرامک پارٹی، نظام اسلامی پارٹی اور گنا تنتری دل شامل تھیں۔ جگتو فرنٹ میں شامل مولوی فضل حق نے اس پلیٹ فارم سے اپنے مطالبات سامنے رکھے تھے،جن میں مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

    جگتو فرنٹ نے 1954 کے صوبائی انتخابات میں زبردست کام یابی حاصل کی اور حکومت بنانے میں کام یاب ہوا۔ لیکن قلیل مدت میں جگتو فرنٹ کی حکومت کو غیرجمہوری حربوں سے ختم کردیا گیا اور حکومت ختم ہونے کے بعد جگتو فرنٹ میں الزامات اور شکایات کا وہ شور اٹھا جس نے اس کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔

    قومی جمہوری محاذ (این۔ ڈی۔ ایف)
    1958 میں وطن عزیز پر پہلے فوجی آمر خودساختہ فیلڈمارشل جنرل محمد ایوب خان قابض ہوکر ملک کی سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ اپنے دور اقتدار کو طول دینے کے لیے انہوں نے اپنی مرضی کی جمہوریت کو پنپنے دیا اور بنیادی جمہوریت کے نام سے اپنا نظام پیش کیا۔ پہلے مارشل لا کے چار سال بعد 1962 میں فوجی آمریت کے خلاف سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے ”قومی جمہوری محاذ“ کے نام سے سیاسی اتحادبنانے کا اعلان 6 اکتوبر 1962 کو کیا۔ قومی جمہوری محاذ میں سردار بہادر، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، ممتاز دولتانہ، غلام علی تالپور اور یوسف خٹک جیسے سیاست داں شامل ہوئے۔ اس اتحاد کا مقصد اور مطالبہ آمریت کی رخصتی اور جمہوریت کی بحالی تھا۔ قومی جمہوری محاذ بھی اپنی سیاسی جدوجہد کے ثمرات سے محروم رہا اور 1963 میں اتحاد کے روح رواں حسین شہید سہروردی کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔

    مشترکہ حزب اختلاف اتحاد
    ایوبی آمریت کے خلاف 1964 میں ”مشترکہ حزب اختلاف اتحاد“ وجود میں آیا۔ 21 جولائی 1964 میں سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی قیام گاہ پر اس اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس اتحاد میں عوامی لیگ، نظام اسلامی پارٹی، جماعت اسلامی اور کونسل مسلم لیگ شامل تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی بھی اس موقع پر شریک تھی۔ اس اتحاد نے آمریت کے خلاف اور محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں انتخابی مہم چلائی۔ لیکن جنرل ایوب خان جیت گئے اور فاطمہ جناح کوشکست ہوئی۔ صدارتی انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کا انتخاب عمل میں آیاتو اس اتحاد نے 15 نشستیں جب کہ ایوب خان کی مسلم لیگ 120 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھی یہ اتحاد خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکا اور یہ انتخابی اتحادآپس کے اختلافات کے باعث تحلیل ہوگیا۔

    پاکستان جمہوری اتحاد
    ملک میں تیسرا سیاسی اتحاد 1967 میں بنایا گیا اور یہ بھی جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف تھا۔اس میں قومی جمہوری محاذ، کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، عوامی لیگ اور نظام اسلام پارٹی شامل تھیں۔ 1969 میں صدر ایوب کے خلاف تحریک عروج پر تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس تحریک میں پاکستان جمہوری اتحاد نے ”جمہوری مجلس عمل“ کا نام اپنا لیا جس میں 8 سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ حالا ت ابتر ہوگئے اور آخر کار جنرل ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا، لیکن یحییٰ خان ملک پر قابض ہوگیا او راس کے بعد جمہوری مجلس عمل تتر بتر ہوگئی۔

    متحدہ جمہوری محاذ
    1970 کے عام انتخابات کا انعقاد جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ”متحدہ جمہوری محاذ“ کا قیام عمل میں آیا۔ متحدہ جمہوری محاذ میں پاکستان جمہوری پارٹی، کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علما اسلام شامل تھیں۔ 23 مارچ1973 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اس اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس موقع پرفائرنگ کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا جس میں 17 افرادجاں بحق ہوئے۔متحدہ جمہوری محاذ نے سول نافرمانی کا اعلان کیاجوناکام رہی۔ بعدازاں متحدہ جمہوری محاذ منقسم ہوگیا۔

    پاکستان قومی اتحاد
    1977 میں پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیاجو9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل تھا۔اس میں مسلم لیگ (پگاراصاحب)، جماعت اسلامی، تحریک استقلال، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (ہزاروی)، جمعیت علمائے اسلام (مفتی محمود)، این ڈی پی، خاکسار تحریک، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم کانفرنس شامل تھیں۔ اس و قت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ میں عام انتخابات کا اعلان کیا تھا جس سے قبل جنوری میں پاکستان قومی اتحاد تشکیل دیاگیا۔ اس اتحاد نے ایک انتخابی نشان پر الیکشن میں امیدوار کھڑے کیے لیکن کوئی نمایاں کام یابی حاصل نہ کرسکا۔ پاکستان قومی اتحاد نے ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعدآمرانہ حکومت میں شامل ہوکر اپنا وجود کھو دیا۔

    تحریکِ‌ بحالیِ جمہوریت (‌ایم آر ڈی)
    6 فروری 1981 کو ایم آرڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کے نام سے نیا سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ ایک مرتبہ پھر نظریاتی طور پر یکسر جدا جماعتیں جن کی تعداد نو تھی، اس اتحاد میں شامل ہوئیں۔ان میں تحریک استقلال، پاکستان ری پبلکن پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، این ڈی پی، جمعیت علمائے پاکستان، مسلم لیگ، مسلم کانفرنس، نیشنل لبریشن فرنٹ اور مزدور کسان پارٹی شامل تھیں۔ پھر جمعیت علمائے اسلام نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی اور 1984 میں عوامی تحریک بھی ایم آرڈی کا حصہ بنی۔ 1988 میں انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایم آرڈی میں پھوٹ پڑگئی اور اس کا خاتمہ ہوگیا۔

    کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی
    بابائے سیاست کے لقب سے مشہور ہونے والے نواب زادہ نصراللہ خان نے مذکورہ سیاسی اتحاد، پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ اس اتحاد میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ ایم کیو ایم بھی شامل تھی۔ 1990 میں بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد یہ اتحاد بھی منتشر ہوگیا۔

    اس کے علاوہ بھی ماضی میں کئی بڑے چھوٹے سیاسی اور انتخابی اتحاد تشکیل دیے جاتے رہے ہیں۔ اس میں 1998 میں پاکستان عوامی اتحاد، 1999میں نواز حکومت کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا قیام جب کہ 2000 میں مشرف کی آمریت کے خلاف ”اتحاد برائے بحالی جمہوریت“ (اے۔آر۔ ڈی) وجود میں آیا تھا۔ 2002 متحدہ مجلس عمل تشکیل پایا تھاجس میں مذہبی جماعتیں شامل تھیں اور بعد میں متحدہ مجلس عمل سیاسی اتحاد سے انتخابی اتحاد میں تبدیل ہوگیاتھا۔نیشنل الائنس 2002 میں تشکیل دیا گیا جو جنرل پرویز مشرف کی حامی جماعتوں پر مشتمل تھا۔

  • جیتے گا بھئی جیتے گا…(چند مقبول انتخابی نعرے)

    جیتے گا بھئی جیتے گا…(چند مقبول انتخابی نعرے)

    انتخابی مہم کے دوران جہاں عوام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی زبانی ان کا منشور اور اپنے حق میں مختلف وعدے سنتے ہیں، وہیں ان جلسوں میں نت نئے نعرے بھی عوام کے کانوں میں پڑتے ہیں۔ انتخابات سے قبل گلی کوچوں کی دیواروں پر بھی یہی نعرے دکھائی دیتے ہیں۔

    آٹھ فروری کو پاکستانی شہری عام انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے اور الیکشن کے نتائج کی بنیاد پر نئی حکومت قائم ہو گی۔ ملک بھر میں سیاسی جلسے اور امیدواروں کی انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ عوام کے مسائل، مشکلات اور مطالبات آج بھی لگ بھگ وہی ہیں جنھیں حل کرنے کا وعدہ اور یقین دہانیاں یہ سیاسی جماعتیں ماضی میں بھی انتخابات کے موقع پر کرواتی رہی ہیں۔ گزشتہ کئی برس کے دوران عوام کے ان "بہی خواہوں” نے بلاشبہ ایک کام بڑی ‘درد مندی’ سے کیا اور وہ ہے عوام کے حق میں قانون سازی اور اداروں کی سطح پر عوام کے مفاد میں اصلاحات۔

    مختلف ادوارِ حکومت میں قانون سازی اور اصلاحات کا مقصد شہریوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانا، سہولیات کی فراہمی کا عمل تیز کرنا اور اسے مؤثر بنانا، سرکاری اداروں میں ہر سطح پر عملے کی کارکردگی بہتر بناتے ہوئے رشوت ستانی اور بدعنوانی کا راستہ مسدود کرنا، اداروں میں خرچ اور آمدن میں شفافیت کو یقینی بنانا اور ہر شہری کو معلومات تک رسائی کا حق دینا رہا ہے۔ لیکن یہ امر تعجب خیز بھی ہے اور عوام کے ساتھ ایک مذاق بھی کہ آج کئی سال گزر جانے کے باوجود بھی ان قوانین اور اصلاحات کے وسیعُ البنیاد مؤثر اور قابلِ ذکر نتائج سامنے نہیں آسکے۔

    یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب سیاست داں، جاگیر دار اور مراعات یافتہ طبقہ اس فرسودہ نظام کو لپیٹ کر حقیقی معنوں میں‌ ملک اور عوام کی ترقی و خوش حالی چاہیں گے۔

    عام انتخابات سے قبل آج پھر سیاست دانوں کی دھواں دھار تقریروں اور کارکنوں کے نعروں نے پاکستان کے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی ہے۔ ماضی میں بھی انتخابی جلسوں میں ایسے ہی نعرے گونجتے رہے ہیں اور ان میں سے چند نعرے بہت مقبول ہوئے تھے۔ یہ تحریر انہی مقبول سیاسی نعروں کے بارے میں ہے۔

    پاکستان میں عام انتخابات پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ سب سے پہلے مارچ 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہوئے، جس کے بعد دسمبر 1951ء میں سرحد کی اسمبلی کے لیے نمائندوں کا انتخاب کیا گیا۔ دو سال بعد مئی 1953ء میں سندھ اسمبلی معرضِ وجود میں آئی۔ پھر 1954ء میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے۔ تاہم اس وقت انتخابات میں ووٹنگ کی شرح اور معیار خاصا پست رہا تھا۔ ایک نئے ملک کی حیثیت سے اس وقت کئی انتظامی مسائل اور رکاوٹیں‌ بھی تھیں۔ تاہم انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اکثر حلقوں نے اسے غیر شفاف قرار دیا تھا۔ ان انتخابات کے لیے ”جھرلو“ کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی جو دھاندلی اور جعل سازی کے معنوں میں مستعمل ہے۔ 1954ء میں پاکستان کی دوسری قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی لیکن 1958ء میں اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے سیاسی بساط لپیٹ کر ملک میں پہلا مارشل لا لگا دیا۔ ایوب خان نے 1965ء میں صدارتی انتخابات کرائے، جس میں صدر کا انتخاب ان کے دیے ہوئے بنیادی جمہوری نظام (بی ڈی سسٹم) کے نمائندوں نے کیا۔ 2 جنوری 1965ء کو ان انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے مابین انتخابی معرکہ ہوا اور تاریخ بتاتی ہے کہ فاطمہ جناح کو دھونس اور دھاندلی کی مدد سے شکست دی گئی۔ محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین اور ایوب خان کا انتخابی نشان پھول تھا۔ اس مناسبت سے بڑے شہروں اور قصبات کی دیواروں پر یہ شعر نعرے کی صورت میں لکھا دکھائی دیتا تھا، ”ایک شمع جلی جل جانے کو، ایک پھول کِھلا مرجھانے کو۔“

    دوسری طرف ایوب خان کی حمایت میں پوسٹر پر جو نعرہ درج تھا، وہ تھا، ”ملّت کا محبوب…. ایّوب ایّوب۔“ یہیں سے سیاسی جلسوں میں کارکنوں اور انتخابی مہمّات کے دوران عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے نعرے بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہوتا ہے۔

    1970ء کے انتخابات کو مبصرین نے غیرجانب دار قرار دیا تھا۔ اس کے لیے انتخابی مہم کے دوران کئی منفرد اور پُرکشش نعرے سامنے آئے جن میں ایک سیاسی نعرہ پیپلز پارٹی نے دیا جو آج بھی گونج رہا ہے۔ یہ نعرہ ہے ”روٹی، کپڑا اور مکان۔“ اسی طرح پیپلز پارٹی میں پنجاب کی تنظیم کے صدر شیخ محمد رشید جنھیں اس وقت بابائے سوشلزم بھی کہا جاتا تھا، انھوں نے ”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ یہ نعرہ بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب جھکاؤ رکھنے والوں میں بہت مقبول ہوا تھا۔ اسی انتخابی مہم میں ذوالفقار علی بھٹو نے ”طاقت کا سرچشمہ عوام“ کا جذباتی نعرہ دے کر بھی لوگوں کی توجہ حاصل کی تھی۔

    70 کے ان انتخاب میں بہت سی ایسی نظمیں بھی عوامی جلسوں اور کارکنوں کے اجتماعات میں پڑھی جاتی تھیں جن کے اشعار یا مصرع نعروں کی صورت میں مجمع میں بلند ہوتے اور ماحول کو گرما دیتے۔ اُس وقت پاکستان پیپلز پارٹی ایک نئی جماعت کے طور پر ابھر رہی تھی۔ پارٹی کے بانی لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو نے عوام سے انتخابی اخراجات پورے کرنے کے لیے امدادی رقم کی اپیل بھی کی تھی۔ یہ اپیل بھی نعرے کی شکل میں کی گئی اور عوام کو اس طرح‌ متوجہ کیا گیا، ”بھٹو کو ووٹ دو، پی پی کو نوٹ دو“۔

    جماعتِ اسلامی کے کارکن اپنے سیاسی مخالفین کو اس طرح للکارتے تھے، ”لاؤ ترازو، تول کے دیکھو، ساڈا پلہ بھاری ہے۔ “ 1970ء ہی کے الیکشن میں علاّمہ شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان انتخابی نشان ”چابی“ پر دنگل میں اتری تھی۔ جے یو پی کے کارکن اس نشان کی مناسب سے یہ نعرہ لگاتے تھے، ”چابی، جنّت کا تالا کھولے گی“۔

    بعد میں 1977ء کے انتخابات کا شور ہوا تو اس وقت نو جماعتوں نے ”پاکستان قومی اتحاد“ کے نام سے جڑنے کے بعد انتخابی مہم شروع کی۔ ان کا انتخابی نشان ”ہَل“تھا، اور جلسوں میں ”ہل نے مچا دی ہلچل ہلچل“ کا نعرہ گونجنے لگا۔ جولائی 1977ء میں ضیاءُ الحق کے مارشل لا اور بھٹو کی پھانسی کے بعد آج تک ہر الیکشن میں پیپلز پارٹی کا ایک مقبول نعرہ ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ رہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب آمریت کے خلاف میدان میں تھیں اور انتخابی اکھاڑے میں اتریں تب ان کے جلسوں میں نعرہ بھی سنا گیا، بھٹو کی تصویر، بے نظیر بے نظیر۔

    اُدھر ضیاءُ الحق کے "مداح” بھی کم نہیں تھے۔ صدارتی ریفرنڈم کے زمانے میں ضیاءُ الحق کی حمایت میں جلسوں میں ”مردِ مومن مردِ حق، ضیاءُ الحق ضیاءُ الحق“ کا نعرہ بہت مقبول تھا۔ ملک بھر میں گلی کوچوں کی دیواریں اس مدح سرائی کا "بار” اٹھائے ہوئے تھیں۔ ضیاء دور میں پیپلز پارٹی کے کارکنان نہ جھکنے والی بے نظیر، نہ بکنے والی بے نظیر کے نعرے لگاتے تھے۔ ضیاءُ الحق کے فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد 1988ء میں عام انتخابات کرائے گئے تو بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ اس سے قبل بے نظیر جب ضیا دور میں لاہور آئی تھیں تو ”بے نظیر آئی ہے، انقلاب لائی ہے اور جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا“ جیسے نعرے کارکنوں کی زبان پر ہوتے تھے۔ اس سے دو سال قبل وجود میں آنے والے اسلامی جمہوری اتحاد نے 1990 کے الیکشن میں سائیکل کے انتخابی نشان کے ساتھ یہ نعرہ لگایا تھا، ”اپنی قسمت آپ بنائیں سائیکل پر مہر لگائیں۔“ نواز شریف کے کارکنوں کا نعرہ تھا،”میاں نے مچا دی ہلچل۔‘ آئی جے آ ئی کے نو جماعتوں والے اتحاد نے اپنے انتخابی نشان سائیکل کی مناسبت سے عوام کو ایک نعرہ ”نو ستارے سائیکل نشان، جیوے جیوے پاکستان“ دیا تھا۔

    2002ء میں عام انتخابات ہوئے اور پرویز مشرف ملک کے صدر بنے تو عوام نے ایک نیا نعرہ ”سب سے پہلے پاکستان“ سنا۔ آج یہ نعرہ ملکی سالمیت اور بقا کے حوالے سے کسی نہایت اہم اور بڑے فیصلے کے بعد الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ حکم رانوں کی زبان سے ادا ہوتا رہتا ہے۔

    پیپلز پارٹی نے 2008ء کے عام انتخابات میں ”علم، روشنی، سب کو کام۔ اور وہی پرانا مگر نہایت مقبول نعرہ اضافہ کے ساتھ یعنی ”روٹی، کپڑا اور مکان مانگ رہا ہے ہر انسان“ لگایا تھا۔ اس الیکشن میں نواز شریف کے انتخابی نشان شیر کی مناسبت سے سب سے مقبول نعرہ ”دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا“ تھا۔ اس وقت کے مقبول نعروں میں قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں بھی تھا، اس کے بعد جب آصف علی زرداری نے بحیثیت صدر پاکستان حلف اٹھایا تو عوام نے”ایک زرداری سب پر بھاری“ کا دل چسپ نعرہ بھی سنا۔

    کراچی اور شہری سندھ میں مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہونے والی جماعت نے انتخابی مہمات میں وہ نعرے نہیں لگائے جو ہر زبان اور قومیت کے لوگوں کو فوری اپنی جانب کھینچ لیتے، لیکن قائد کے فرمان پر جان بھی قربان ہے، ہم نہ ہوں ہمارے بعد الطاف الطاف اور حق کی کھلی کتاب الطاف، الطاف متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان کے مقبول نعرے رہے۔

    1990ء اور 2002ء کے الیکشن میں طاہر القادری کی جماعت ”پاکستان عوامی تحریک“ کا نعرہ ”جرأت و بہادری طاہر القادری“ تھا، اور بعد میں ان کی جانب سے نعرہ ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ“ لگایا گیا۔ پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا مقبول نعرہ ”سب سے پہلے پاکستان‘ ہی رہا۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے ”انصاف، انسانیت، خود داری“ کے علاوہ ”تبدیلی کا نشان عمران خان“ کا نعرہ بلند کیا تھا۔