Tag: جنسی زیادتی

  • اوباش نوجوان کی گونگی بہری ذہنی مریضہ لڑکی سے زیادتی

    اوباش نوجوان کی گونگی بہری ذہنی مریضہ لڑکی سے زیادتی

    مریدکے:آبادی ٹپیالہ میں اوباش نوجوان نے گونگی بہری ذہنی مریضہ لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنا دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی یتیم عاصمہ گھر میں اکیلی تھی، بھائی بھابی مزدوری کرنے کھیتوں میں گئے تھے۔

    پولیس کے مطابق نامعلوم اوباش گھر میں داخل ہوا، ذہنی معذور لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بناکر فرار ہوگیا، زیادتی کی شکار لڑکی کے بھائی کی درخواست پر کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

    دوسری جانب کراچی میں بھتیجی سے زیادتی کرنے والے شخص نے جرم کا اعتراف کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق تھانہ اسٹیل ٹاؤن کی حدود میں بچی سے زیادتی کیس میں اپنی بھتیجی سے زیادتی کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے ویران جگہ پر اپنی بھتیجی کو حوس کانشانہ بنایا تھا اور بچی کی نشان دہی پر ملزم کو گرفتار کیا گیا۔

    زیادتی کا جھوٹا کیس دائر کرنے والی لڑکی کے ساتھ قسمت کا عجیب کھیل

    ملزم عثمان شیخ نے بچی سے زیادتی کا اعتراف کرتے ہوئے بیان دیا کہ میں بہک گیا تھا مجھ سے بڑی غلطی ہوئی ہے۔

  • فرانسیسی سینیٹر جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار

    فرانسیسی سینیٹر جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار

    فرانس کے سینیٹر جوئل گوریو کو اپنی ساتھی خاتون سینیٹر کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کے الزام میں 48 گھنٹے کے لیے گرفتار کیا گیا۔

    غیرملکی میڈیا کے مطابق 66 سالہ جوئل گوریو کو خاتون سینیٹر سے زیادتی کی کوشش کے الزام میں حراست میں لیا گیا تاہم 48 گھنٹوں بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ جوئل گوریو پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے گھر پر خاتون سینیٹر سینڈرین جوسو کو دیے جانے والے مشروب میں نشہ آور گولی ملائی جس کے بعد ان کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ وہاں سے چلی گئیں۔

    جوئل گوریو کے وکیل نے کہا ہے کہ وہ خاتون سینیٹر کے ساتھ زیادتی کا ارادہ نہیں رکھتے تھے اور انہوں نے سینڈرین جوسو سے معافی بھی مانگ لی ہے، یہ سب غلطی سے ہوا۔

    ان کے وکیل نے کہا ہے کہ جوئل گوریو ایک ایماندار اور قابلِ احترام شخص ہیں جو اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کو بحال کریں گے چاہے اس میں زیادہ وقت ہی کیوں نہ لگے۔

    رپورٹ کے مطابق خاتون سینیٹر سے زیادتی کی کوشش کے الزام کے بعد انہیں پارٹی سے بھی معطل کردیا گیا۔

  • خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے بعد خود کشی کا رنگ دیے جانے کا انکشاف، رپورٹ

    خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے بعد خود کشی کا رنگ دیے جانے کا انکشاف، رپورٹ

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبہ کے پی کے میں ایک سال میں 22 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 43 کا ریپ ہوا جب کہ 19 نے مبینہ طور پر خود کشی کی۔

    خیبر پختون خوا سمیت ملک بھر میں خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات آئے دن رونما ہو رہے ہیں، خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، اور حکومت سے ان واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل پر بات تو کی جاتی ہے، حکومت قانون سازی بھی کرتی ہے، لیکن پھر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

    عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر شبینہ ایاز نے بتایا کہ ہیومن رائٹس کمیشن رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں 22 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، خواتین پر تشدد کے واقعات بھی تواتر کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں، خیبر پختون خوا میں گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ مختلف طریقوں سے خواتین کے ہراسانی کے واقعات میں بھی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے خواتین میں ذہنی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور خود کشی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    قتل یا خود کشی؟

    شبینہ ایاز نے بتایا کہ سوات اور چترال میں خاص طور پر خواتین میں خودکشی اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پیش آ رہے ہیں، اور گزشتہ 5 ماہ کے دوران 19 خواتین نے خود کشی کی ہے، لیکن پولیس تفتیش کے دوران پتا چلا کہ مبینہ خود کشی کرنے والی بیش تر خواتین کو قتل کیا گیا ہے، جو تشویش کا باعث ہے۔ شبینہ ایاز نے بتایا کہ خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے اور جب تشدد میں خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں تو پھر ان کو خود کشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔

    قوانین موجود پھر بھی واقعات میں اضافے کی وجہ کیا؟

    پشاور ہائیکورٹ کی وکیل اور سماجی کارکن مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ 2021 میں خیبر پختون خوا اسمبلی سے گھریلو تشدد کا بل پاس ہوا ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ جسم ہو اور اس میں روح نہ ہو، کیوں کہ اس ایکٹ کی روح ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹیز ہے لیکن ابھی تک یہ کمیٹیز نوٹیفائی نہیں ہوئیں، جس کی وجہ سے خواتین کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    انھوں نے کہا کسی خاتون پر تشدد ہوتا ہے اور وہ پولیس اسٹیشن جا کر ایف آئی آر درج کرنا چاہتی ہے تو پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی، زیادہ سے زیادہ پولیس روزنامچہ درج کر دیتی ہے اور ایک دو دن بعد اس شخص کی ضمانت ہو جاتی ہے اور پھر مسئلہ اور بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ تشدد کرنے والا جب جیل سے واپس گھر آتا ہے تو خاتون پر اور بھی تشدد شروع کر دیتا ہے اور اس طرح بات قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے، اس کا سدباب صرف پروٹیکشن کمیٹیز ہیں۔

    خواتین کے ساتھ ساتھ پولیس بھی قانون سے بے خبر

    سماجی کارکن صائمہ منیر نے بتایا کہ قوانین تو بنائے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، پارلیمنٹرین اسمبلی سے بل منظور کرتے ہیں اس پر عمل درآمد کرانا بھول جاتے ہیں۔ صائمہ منیر نے بتایا کہ گھریلو تشدد بل کو منظور ہوئے 2 سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے لیکن آج تک اس قانون کے تحت ایک بھی کیس تھانے میں درج نہیں ہوا کیوں کہ خواتین کو اس قانون کے بارے میں علم ہی نہیں ہے اور نہ پولیس کو پتا ہے کہ یہ قانون کیا ہے۔

    مہوش محب کاکاخیل ایڈووکیٹ بھی صائمہ منیر کی بات سے اتفاق کرتی ہیں، انھوں نے بتایا کہ قانون بنایا جاتا ہے لیکن قانون سازی کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہوتا، گھریلو تشدد بل اسمبلی سے منظور ہوا ہے لیکن پولیس کو اس کے بارے میں کچھ معلومات نہیں ہیں۔ اب پولیس کو اس حوالے سے ٹریننک دی جا رہی ہے کہ اگر کوئی خاتون تشدد کا شکار ہوئی ہے تو اس ایکٹ کے تحت ملزمان کو چارج کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ خواتین کے مسائل پر ہونے والی قانون سازی پر صوبے کے مختلف پولیس لائنز جا کر اہلکاروں کو لیکچر بھی دے رہی ہیں۔

    مہوش کے مطابق تشدد کی روک تھام اس وقت تک مشکل ہے جب تک لوگوں کو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس سے آگاہی نہ ہو، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی خاتون پر تشدد کیا جاتا ہے تو وہ پہلے تو اس کی رپورٹ درج نہیں کرتی اور اگر کوئی خاتون رپورٹ درج کرنا چاہے تو پھر پولیس اس کی رپورٹ نہیں لیتی، جب تک معاشرے میں اس کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہوگی یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔

    جرم ثابت ہونے پر سزا کتنی ہوگی؟

    گھریلو تشدد کے قانون کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے ملزم کو کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ 5 سال تک سزا ہوگی، اس کے علاوہ جرم ثابت ہونے پر جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا، اگر کوئی شوہر اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے اور بیوی اس کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتی تو ملزم خاتون کو خرچہ بھی دے گا اور اگر بچے بھی ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بچوں کا خرچ بھی وہی مرد برداشت کرے گا۔

    ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹیز کیوں ضروری ہیں اور یہ کام کیسے کریں گی؟

    جب کوئی خاتون تشدد کا شکار ہوتی ہے تو وہ پہلے ڈسٹرکٹ کمیٹی کو شکایت درج کرے گی، پروٹیکشن کمیٹی پہلے فریقین کے درمیان مصالحت سے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرے گی، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک جرگہ میں ہوتا ہے کہ بات چیت سے مسئلے کا حل نکالا جائے۔

    مسئلے کا حل نہیں نکلتا تو پھر کمیٹی متاثرہ خاتون کا بیان لے گی اور دوسرے فریق کو نوٹس جاری کرے گی، کمیٹی میں ایک سیکریٹری ہوگا جس کی اپنی ذمہ داریاں ہوں گی، جتنے سروس فراہم کرنے والے سرکاری اور نجی ادارے ہوں گے ان کی ایک ڈائریکٹری کمیٹی میں ہوگی، کسی بھی متاثرہ خاتون کو مدد کی ضرورت ہوگی تو سیکریٹری ان کو فراہمی کے لیے اقدامات کرے گا، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کمیٹیز ہے نہیں، کمیٹیز نوٹیفائی ہو جاتی ہیں تو خواتین کو بڑی آسانی ہوگی۔

    بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟

    ریجنل ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن شبینہ ایاز نے بتایا کہ مختلف تنازعات کے حل کے لیے تھانوں کی سطح پر قائم مصالحتی کمیٹیوں (ڈی آرسیز) میں خواتین نمائندگی بڑھانی چاہیے اور ضم اضلاع میں بھی فوری طور پر ڈی آرسیز قائم ہونی چاہیئں، تاکہ ضم اضلاع میں خواتین کو درپیش وراثت اور دیگر مسائل کے حل کے لیے اقدامات اٹھائے جا سکیں۔

    الیکشن وقت پر نہیں ہوتے تو کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر ہو سکتی ہے

    خواتین کی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی رہنما صائمہ منیر نے بتایا کہ اب اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہے ہیں، اب الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں، اگر فوری الیکشن نہیں ہوتے اور نگران حکومتیں قائم رہتی ہیں تو اس سے گھریلو تشدد بل کے تحت کمیٹیوں کی تشکیل میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ خواتین کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت، ضلعی انتظامیہ، محکمہ پولیس سمیت تمام متعلقہ اداروں کے درمیان کوآرڈی نیشن بڑھانے کی ضرورت ہے۔

  • بھارت میں چھری کی نوک پر کم عمر لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کا ہولناک واقعہ

    بھارت میں چھری کی نوک پر کم عمر لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کا ہولناک واقعہ

    حیدرآباد: بھارتی شہر حیدرآباد میں چھری کی نوک پر ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ اس کے گھر کے اندر اجتماعی عصمت دری کا ہولناک واقعہ پیش آیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق حیدرآباد کے علاقے نندن ونم کالونی میں اتوار کی صبح ایک 15 سالہ لڑکی کو تین افراد نے اس کے گھر میں گھس کر مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، جن میں سے ایک علاقے کا بدنام جرائم پیشہ بھی شامل تھا۔

    متاثرہ نابالغ لڑکی نے پیر کو پولیس کو بیان دیا کہ صبح گھر میں 7 افراد زبردستی داخل ہوئے اور اسے اور اس کے بھائیوں کو چھری کی نوک پر دھمکایا، گھر میں گھسنے والے افراد گانجا کے نشے میں دھت تھے۔

    رپورٹ کے مطابق ملزمان میں سے تین نے لڑکی کو گھر کے اوپر حصے میں لے جا کر باری باری عصمت دری کی، اور پھر فرار ہو گئے، حملہ آوروں نے لڑکی کے بھائیوں پر تشدد بھی کیا اور اسے گھر سے باہر نکال دیا تھا۔ علاقے کے لوگوں نے واقعے کے خلاف احتجاج بھی کیا جس میں انھوں نے گانجا کے پھیلاؤ کو روکنے کا بھی مطالبہ کیا۔

    پولیس نے جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ (POSCO) ایکٹ 2012 کے تحت مقدمہ درج کر کے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے، جب کہ متاثرہ لڑکی کو طبی معائنے کے لیے روانہ کیا گیا۔ علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ ملزمان کی تلاش کے لیے 7 پولیس ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، جب کہ 6 مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے، جن سے تفتیش جاری ہے۔

    پولیس حکام کے مطابق یہ افسوسناک انکشاف بھی ہوا کہ لڑکی اور اس کے دو بھائیوں کو ان کا باپ چھوڑ کر جا چکا ہے جب کہ ان کی ماں خود کشی کر چکی ہے، اور مذکورہ مکان میں وہ اکیلے رہ رہے تھے۔

  • راستہ بھٹکنے والی لڑکی کے ساتھ حیوانیت  کی انتہا

    راستہ بھٹکنے والی لڑکی کے ساتھ حیوانیت کی انتہا

    بھارت میں خواتین سے جنسی جرائم کے واقعات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے، ایک اور افسوسناک واقعے میں راستہ بھٹکنے والی لڑکی کے ساتھ حیوانیت کی انتہا کردی گئی۔

    بین القوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سادھو نے راستہ بھٹکنے والی لڑکی کو مندر میں پناہ دینے سے انکار کردیا، ایک خاتون نے ہمدردی کے ناطے لڑکی کو پناہ تو دیدی لیکن خاتون کے شوہر نے لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اس کے بعد اسے گھر سے باہر پھینک دیا۔

    یہ افسوسناک واقع بہار کے گوپال گنج کے علاقے میں پیش آیا، لڑکی کی عمر 14 سال بتائی جارہی ہے، واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی اور لڑکی کو اسپتال منتقل کیا۔

    پولیس ذرائع کے مطابق لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی دادی کے ہمراہ کسی رشتہ دار سے ملنے گئی تھی، جب واپسی ہوئی تو راستہ بھٹک گئی۔

    پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ لڑکی نے مندر میں پناہ لینے کی کوشش کی مگر وہاں موجود سادھو نے صاف انکار کردیا، جس کے بعد وہ ادھر اُدھر بھٹکنے لگی، ایک خاتون نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ لڑکی کو اپنے گھر میں پناہ دے دی۔

    خاتون نے لڑکی کو اپنے گھر میں نہانے اور آرام کرنے کا کہا اور وہاں سے چلی گئی، جبکہ خاتون کا شوہر بھی اس وقت گھر ہی میں موجود تھا، مذکورہ شخص کی جانب سے لڑکی سے درندگی کی گئی جس کے باعث لڑکی بیہوش ہوگئی، ملزم نے لڑکی کو بیہوشی کی حالت میں گھر کے نزدیک باہر پھینک دیا۔

    زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی کی حالت نازک بتائی جارہی ہے، مذکورہ لڑکی کا بیان ریکارڈ کرکے طبی معائنے کے لئے بھیج دیا گیا ہے، جبکہ پولیس کی جانب سے ملزم کی تلاش میں چھاپے مارے جارہے ہیں۔

  • ایران نے خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے 5 مجرموں کو پھانسی پر لٹکا دیا

    ایران نے خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے 5 مجرموں کو پھانسی پر لٹکا دیا

    اسلامی جمہوریہ ایران نے گزشتہ سال خاتون کو اغوا کرکے اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے 5 مجرموں کو پھانسی دیدی۔

    ایرانی میڈیا کے مطابق ایرانی عدلیہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ ملک کے شمال مغربی شہر میں 5 قیدیوں کو جنسی زیادتی کیس میں پھانسی دی گئی ہے۔

    عدلیہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کردی بیان میں کے مطابق مجرموں نے مئی 2022 میں ایک خاتون کو اغوا کرکے اسے اجتماعی زیاتی کا نشانہ بنایا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق پولیس نے واقعے کے 4 روز کے بعد ہی مجرموں کو گرفتار کرلیا تھا، ملزمان پہلے بھی کئی مقدمات میں پولیس کو مطلوب تھے۔

    ایرانی عدلیہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ملزمان کو حق دفاع کا پورا موقع فراہم کیا گیا اور ملزمان کی سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی سماعت میں بھی قانونی تقاضوں کو مکمل کیا گیا۔

    بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں بھی ملزمان کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا تھا جس کے بعد آج سزا پر عمل درآمد کردیا گیا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بھی مختلف اوقات میں بیوٹی پارلر آنے والی 10 خواتین کو نشہ آور دوا پلا کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے 3 ملزمان کو پھانسی دی گئی تھی۔

  • لاہور: خواتین سے زیادتی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ، ایک ہی دن 4 خواتین نشانہ بن گئیں

    لاہور: خواتین سے زیادتی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ، ایک ہی دن 4 خواتین نشانہ بن گئیں

    لاہور: پنجاب کے شہر لاہور میں خواتین سے زیادتی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہو گیا ہے، ایک ہی دن میں سفاک ملزمان نے 4 خواتین کو درندگی کا نشانہ بنا ڈالا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور میں خواتین کے خلاف جنسی حملوں کے واقعات بڑھ گئے ہیں، مختلف علاقوں میں جنسی درندوں نے چار خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، جس پر پولیس نے الگ الگ پرچے کاٹ لیے ہیں، تاہم کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا ہے۔

    پولیس رپورٹ کے مطابق کوٹ لکھپت کے علاقے اٹاری سروبہ میں پٹواری نے خاتون کو ساتھی کے ہمراہ مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا، اور فحش ویڈیو بنا کر 16 لاکھ ‏روپے بھی ہتھیا لیے، خاتون فرد بنوانے پٹوار خانے گئی ہوئی تھی۔

    قائد اعظم ‏انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے میں ایک شخص نے نوکری کا جھانسہ دے کر جواں سال لڑکی سے زیادتی کر ڈالی۔

    شاد باغ کے علاقے میں نوید اور اس کی بیوی گھر میں موجود تھے، نامعلوم ملزم دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوا، نوید کو سر پر ڈنڈے مار کر زخمی کیا اور ہاتھ پاؤں باندھ دیے، ملزم بیوی سے زیادتی کر کے فرار ہو گیا۔

    ادھر نواب ٹاﺅن میں 3 ملزمان نے ایک جواں سال لڑکی کو اجتماعی ‏زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، پولیس نے تمام ‏واقعات کے الگ الگ مقدمات درج کر لیے ہیں تاہم کسی ملزم کو گرفتار نہیں کر سکی۔

  • زیادتی کی متاثرہ کشمیری خواتین 75 سالوں سے انصاف کی منتظر

    زیادتی کی متاثرہ کشمیری خواتین 75 سالوں سے انصاف کی منتظر

    بھارت ہر دور میں تحریکِ آزادیِ کشمیر کو دبانے کے لیے اجتماعی زیادتی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں برہنہ بھارتی جمہوریت کا سب سے بڑا شکار کشمیری خواتین رہی ہیں، زیادتی کی متاثرہ یہ کشمیری خواتین گزشتہ 75 سالوں سے انصاف کی منتظر ہیں۔

    کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1989 سے 2020 تک 11224 کشمیری خواتین بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہیں، صرف 1992 میں 882 کشمیری خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں۔

    1994 کی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج اجتماعی زیادتی کو خوف پھیلانے اور اجتماعی سزا کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے، بھارتی فوج مجاہدین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے طور پر لوٹ مار قتلِ عام اور جنسی زیادتی کرتی ہے۔

    ایشیا واچ کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک ہفتے میں 44 ماورائے عدالت قتل اور 15 جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے، سزا اور جزا کے نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھارتی فوج کی پُر تشدد کاروائیاں برسوں سے جاری ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ 75 سال گزرنے کے باوجود زیادتی میں ملوث کسی کردار کو سزا نہیں دی گئی۔

    ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فورسز نے 11 سے 60 سال تک کی خواتین کو بھی نہ بخشا، بھارتی حکومت کی طرف سے کُھلی چھوٹ کے نتیجے میں بھارتی افواج بلا خوف و خطر جنسی زیادتی کے جرائم میں ملوث ہیں۔

    1996 میں ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج ’’ریپ‘‘ کو تحریک آزادی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے، بایان بورڈ آف ڈائریکٹرز کی 2005 کی رپورٹ کے مطابق کشمیری خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، شب ماتھوڑ کے مطابق ’’ریپ‘‘ کشمیر میں بھارتی حکمت عملی کا اہم جز ہے۔

    کاؤنسل فار سوشل ڈیویلپمینٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں کو زیادتی پر اُکسانے میں Armed Forces Special Power ایکٹ کا مرکزی کردار ہے، دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق 1979 سے 2020 تک میجر رینک کے 150 سے زائد بھارتی فوجی افسران منظم انداز میں جنسی زیادتی میں ملوث ہیں۔

    23 فروری 1991 کو 4 راجپوتانہ رائفل کے جوانوں نے ضلع کپواڑہ کے گاؤں کنن پوش پورہ میں 100 سے زائد کشمیری خواتین سے زیادتی کی، 17 مارچ 1991 کو چیف جسٹس جموں و کشمیر کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے 53 کشمیری خواتین نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے عصمت دری کا اعتراف کیا، 15 سے 21 مارچ 1991 کے دوران ہونے والے طبی معائنوں میں 32 کشمیری خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی ثابت ہوئی۔

    1992 میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی شائع کردہ رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ ’’کنن پوش پورہ سانحے میں بھارتی فوج کے خلاف اجتماعی زیادتی کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں۔‘‘

    اپریل 2018 میں کاکٹھوعہ میں ہندو انتہا پسند نے مسلمانوں سے زمین خالی کرنے کی خاطر 8 سالہ بچی کو 7 دن مندر میں زیادتی کا نشانہ بنایا، زیادتی کے بعد اس بچی کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ 19 اپریل 2023 کو BJP کے رہنما نے ضلع بارہ مولہ میں ایک خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا، 10 اکتوبر 1992 کو 22 گرینیڈیئر کے جوانوں نے ضلع پونہ کے علاقہ شوکیاں میں 9 خواتین کو اجماعی زیادتی کا شکار بنایا۔

    کشمیری عدالتوں میں 1000 سے زائد زیادتی کے مقدمات زیر التوا ہیں، کیا G-20 ممالک کا کشمیر میں عصمت دری اور انسان دشمن بھارتی نظریہ کو فراموش کرتے ہوئے سرینگر کے اجلاس میں شرکت کرنا انسانیت کی تذلیل نہیں؟

  • دلخراش واقعہ: سوتیلے باپ کی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی

    دلخراش واقعہ: سوتیلے باپ کی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی

    بھارتی ریاست اترپردیش میں سوتیلے باپ نے اپنی بارہ سالہ بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناڈالا، پولیس نے قبیح فعل کرنے والے ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ریاست اترپردیش کے مظفر نگر میں سوتیلے باپ نے انسانیت کو شرمادیا، درندہ صفت شخص نے اپنی بارہ سالہ سوتیلی بیٹی کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا، واقعہ رونما ہونے کے بعد علاقے میں سنسنی پھیل گئی ہے اور مقامی افراد نے ملزم کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

    مذکورہ بچی کی والدہ نے پولیس کو رپورٹ درج کراتے ہوئے دلخراش واقعہ بیان کیا، خاتون نے بتایا کہ میرے پہلے شوہر کا چند سال قبل انتقال ہوگیا تھا اس کے بعد میں نے دوسری شادی کی، میرے پہلے شوہر سے ایک بارہ سالہ لڑکی اور چھ سالہ بیٹا ہے۔

    خاتون نے پولیس کو دئیے گئے بیان میں بتایا کہ میں محنت مزدوری کرتے ہوئے اپنے خاندان کا پیٹ پال رہی ہوں، خاتون نے الزام عاید کیا کہ جب میں نے اپنی بیٹی کی طبیعت خرابی پر ڈاکٹر کو دکھایا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔

    خاتون کے مطابق میں نے اعتماد میں لیکر بچی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرے کام پر جانے کے بعد سوتیلا باپ زبردستی جنسی زیادتی کرتا تھا اور کسی کو بتانے پر جان سے مارنے کی دھمکی دیتا۔

    پولیس نے خاتون کی روداد پر ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے اس گرفتار کرلیا گیا ہے۔

  • لڑکی سے جنسی زیادتی ہوئی، سی ویو میں خاتون ڈاکٹر کی خود کشی سے متعلق ایف آئی آر درج

    کراچی: سی ویو کے قریب سمندر میں کود کر خود کشی کرنے والی نوجوان ڈاکٹر سارہ ملک کی موت کے واقعے کی ایف آئی آر لڑکی کے والد ابرار احمد کی مدعیت میں درج کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں سی ویو کے قریب دو دریا کے مقام پر سارہ ملک نامی نوجوان فزیوتھراپسٹ نے دو دن قبل خود کشی کر لی تھی، جن کی لاش آج صبح ریسکیو ٹیم کو ملی۔

    ساحل تھانے کی پولیس کے مطابق لڑکی کی خود کشی کیس میں ڈیفنس میں قائم جانوروں کے اسپتال کے مالک اور ایک خاتون ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

    اس واقعے کا مقدمہ لڑکی کے والد کی مدعیت میں ساحل تھانے میں درج کر لیا گیا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لڑکی سے مبینہ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔

    سی ویو کے قریب سمندر سے 2 روز تلاش کے بعد خاتون ڈاکٹر کی لاش مل گئی

    ایف آئی آر کے مطابق سارہ ملک جمعے کی دوپہر گھر سے ڈیوٹی کے لیے نکلی تھی، وہ ڈیفنس نشاط کمرشل میں قائم جانوروں کے اسپتال میں ڈاکٹر تھی، اور اسپتال کے مالک سے خاتون کا کافی عرصے سے تعلق تھا۔

    مقدمے میں لکھا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر لگتا ہے کہ سارہ ملک نے ذہنی دباؤ میں آ کر خود کشی کی۔ پولیس حکام کے مطابق لڑکی کا پوسٹ مارٹم جناح اسپتال میں کیا جائے گا، اور واقعے کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش جاری ہے۔