Tag: جنسی ہراسمنٹ

  • "الومیناتی سے وابستہ” شخص گھناؤنے جرم میں گرفتار، بیوی بچے بازیاب

    "الومیناتی سے وابستہ” شخص گھناؤنے جرم میں گرفتار، بیوی بچے بازیاب

    کراچی: شہر قائد کے ضلع وسطی میں پولیس نے بین الاقوامی خفیہ تنظیم”الومیناتی سے وابستہ” ہونے کے دعویدار شخص کو گھناؤنے جرم میں گرفتار کر کے اس کے قبضے سے اس کی بیوی اور بچے بازیاب کرا لیے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ سینٹرل وومن پولیس نے رضویہ سوسائٹی ناظم آباد اپارٹمنٹ میں ایک چھاپا مار کارروائی میں طاہر نامی جنونی کو گرفتار کیا ہے، اور اس کی بیوی اور 4 بچوں کو بازیاب کرا لیا۔

    ایس ایچ او وومن ارم امجد نے بتایا کہ ملزم طاہر کے مطابق وہ بین الاقوامی الومیناٹی تنظیم سے وابستہ ہے، ملزم نے ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ وہ ٹیچر ہے، اس نے اعتراف کیا کہ اس کو ای میل کے ذریعے ٹاسک ملتا تھا، اور ہر ٹاسک کی ویڈیو بنا کر واپس ای میل کرنا ہوتی تھی۔

    پولیس افسر نے بتایا کہ گرفتار ملزم نے ٹاسک ملنے پر اپنی ہی بیوی پر تشدد کیا اور ویڈیو بنائی، بیوی کے جسم پر تشدد کے باعث زخم آئے، ملزم کو اگلا ٹاسک اپنی بیٹی کی ویڈیو بنانے کا ملا تھا۔

    ایس ایچ او وومن نے انکشاف کیا کہ ملزم طاہر خفیہ تنظیم کے کہنے پر جنسی ہراسانی، تشدد اور دیگر شرمناک کام کرتا رہا، پولیس کو اس کے خلاف متاثرہ خاتون کی بہن کی جانب سے درخواست ملی تھی، جس پر پولیس نے چھاپا مار کر طاہر کو گرفتار کیا۔

    پولیس حکام کے مطابق ملزم طاہر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، اور اس کے قبضے سے ایک لیپ ٹاپ اور دیگر اشیا برآمد کی گئی ہیں۔ ملزم سے مزید تفتیش بھی کی جا رہی ہے۔

  • خواتین سائنس دانوں کو بھی کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا سامنا، رپورٹ میں بڑا انکشاف

    خواتین سائنس دانوں کو بھی کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا سامنا، رپورٹ میں بڑا انکشاف

    پیرس: ایک سروے رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ خواتین سائنس دان بھی کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی سے محفوظ نہیں ہیں، پوری دنیا میں نصف سائنس داں خواتین کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

    جمعرات کو شائع ہونے والی ایک سروے رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تمام خواتین سائنس دانوں کی نصف تعداد کو کام کی جگہ پر اپنے کیریئر کے دوران کسی نہ کسی موقع پر جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔

    اے ایف پی کے مطابق 49 فی صد خواتین سائنس دانوں نے سروے کے دوران رپورٹ کیا کہ ان کے ساتھ ذاتی طور پر ہراسانی کا کم از کم ایک واقعہ پیش آیا ہے، 2017 میں ’می ٹو تحریک‘ کے بعد نصف کے قریب کیسز رپورٹ ہوئے۔

    یہ سروے لوریئل فاؤنڈیشن اور بین الاقوامی ادارے اپسوس پولنگ فرم نے کیا ہے، جس میں 65 فی صد خواتین کا کہنا تھا کہ ہراسانی نے ان کے کیریئر پر منفی اثر ڈالا، پانچ میں سے ایک متاثرہ خاتون نے اپنے ادارے کو ہراسانی کے بارے میں رپورٹ کیا۔

    یہ سروے ان خواتین سے ہوا جو سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی سمیت مختلف شعبوں میں کام کرتی ہیں، اور وہ دنیا بھر میں 50 سے زیادہ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

    ایک چوتھائی خواتین نے کہا کہ انھیں غیر مناسب طریقے سے اور بار بار لڑکی، گڑیا یا بے بی کہہ کر پکارا گیا اور توہین کی گئی۔ 24 فی صد نے کہا کہ ذاتی یا جنسی زندگی کے بارے میں بھی بار بار سوال پوچھے گئے جس سے بے چینی پیدا ہو جاتی۔ زیادہ تر ہراسانی کے کیسز خواتین کے کیریئر کے آغاز میں ہوئے۔

    پانچ میں سے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ انھوں نے خود کو کام کے ادارے میں محفوظ محسوس نہیں کیا، جب کہ 65 فی صد کے قریب خواتین نے کہا کہ کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی سے نمٹنے کے لیے خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔

    واضح رہے کہ لوریئل فاؤنڈییشن جو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے، اور خواتین سائنس دانوں کی مدد کرتا ہے، فاؤنڈیشن نے اکیڈیمک اور تحقیقی اداروں سے مطالبہ کیا کہ ہراسانی کے خلاف زیرو ٹالیرنس کی پالیسی اختیار کی جائے۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں سائنسی محققین میں سے صرف 33 فی صد خواتین ہیں اور سائنس کے شعبے میں چار فی صد خواتین نے نوبل انعام جیتا ہے۔

  • جنوبی افریقہ میں خواتین فیکٹری ورکرز سے زبردستی جنسی روابط قائم کرنے کا انکشاف

    جنوبی افریقہ میں خواتین فیکٹری ورکرز سے زبردستی جنسی روابط قائم کرنے کا انکشاف

    جنوبی افریقہ میں برانڈڈ گارمنٹس کی فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کو زبردستی جنسی روابط قائم کرنے پر مجبور کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے جس کے بعد مذکورہ برانڈز متحرک ہوگئے۔

    امریکا کے 3 بڑے ملبوسات برانڈز نے لیسوتھو فیکٹریز میں جنسی استحصال کے خلاف کریک ڈاؤن پر زور دیا ہے، مذکورہ فیکٹریز میں خواتین کو نوکری پر رہنے کے لیے جنسی روابط قائم کرنے پر مجبور کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔

    معروف برانڈز لیوائی اسٹراس اینڈ کمپنی، کونتور برانڈز جو رینگلر اور لی جینز کی بھی مالک ہیں اور دی چلڈرنز پلیس نے جنوبی افریقہ کے چھوٹے سے ملک میں 5 فیکٹریوں سے جنسی ہراسانی کے خاتمے کے لیے معاہدہ کیا جہاں 10 ہزار خواتین ان برانڈز کے لیے کپڑے تیار کرتی ہیں۔

    ورکر رائٹز کنزورشیم (ڈبلیو آر سی) کی سینیئر پروگرام ڈائریکٹر رولا ابی مورچڈ کا کہنا تھا کہ یہ معاہدے دیگر کپڑوں کا کاروبار کرنے والے اداروں کے لیے ہراسانی اور تشدد کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مثالی ہیں۔

    ڈبلیو آر سی کی تحقیقات کے مطابق تائیوان کی عالمی جینز بنانے والی کمپنی نیئن ہسنگ ٹیکسٹائل کی ملکیت میں امریکی برانڈز کے لیے جینز بنانے والی 3 فیکٹریوں میں خواتین کو اپنے سپروائزرز سے روزانہ جنسی روابط قائم کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے تاکہ ان کی نوکری برقرار رہے۔ یہ کمپنی افریقی ملک میں گارمنٹ کے شعبے میں مزدوروں کی ایک تہائی تعداد رکھتی ہے۔

    ڈبلیو آر سی نے ایک خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ میرے ڈپارٹمنٹ میں تمام خواتین کے ساتھ سپروائزر نے جنسی روابط قائم کیے ہیں، خواتین کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال ہے، اگر آپ انکار کریں تو آپ کو نوکری نہیں ملے گی یا آپ کے کنٹریکٹ کی تجدید نہیں کی جائے گی۔

    نیئن ہسنگ سے طے کیے گئے معاہدے کے مطابق 5 ٹریڈ یونین اور 2 خواتین کے حقوق کے ادارے سمیت ایک خود مختار کمیٹی ان شکایات کو دیکھے گی اور خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرے گی۔ نیئن ہسنگ خود مختار سول سوسائٹی کے اراکین کو بھی فیکٹریوں تک رسائی فراہم کرے گی جہاں وہ مزدوروں سے بات کریں گے اور مینیجرز سے شکایت لانے والے مزدوروں کو روکنے سے منع کریں گے۔

    جینز بنانے والوں کا کہنا تھا کہ ہم مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں۔ ’ہمارا ماننا ہے کہ اس معاہدے سے طویل المدتی تبدیلی آئے گی اور ان فیکٹریوں میں ایک مثبت ماحول پیدا ہوگا جو یہاں کام کرنے والے تمام لوگوں کے لیے مثبت اثر چھوڑ جائے گا‘۔

  • جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    خواتین جب باہر نکلتی ہیں تو انہیں اپنی حفاظت کا سب سے بڑا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ مرد ساتھیوں کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات عام ہیں اور اس کے لیے مختلف ممالک میں کئی قوانین اور بل بھی پاس کیے جا چکے ہیں۔

    اگر ان واقعات کی روک تھام نہ کی جائے تو یہ بڑے حادثات کا سبب بن جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں

    ملازمت کی جگہوں جیسے آفس یا فیکٹریز کے علاوہ بھی جب خواتین باہر نکلتی ہیں تو انہیں کئی خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ خطرات اس وقت اور بڑھ جاتے ہیں جب گھر واپسی کے دوران رات ہوجائے اور خواتین کو اکیلے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا پڑے۔

    اسی طرح بلند و بالا عمارات میں لفٹ کے اندر بھی خواتین کے ساتھ زیادتی یا جنسی ہراسگی کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔

    ان واقعات سے بچنے کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے جو ہر باہر نکلنے والی خاتون کو اپنانے چاہئیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ احتیاطی تدابیر کیا ہیں۔

    گھر میں اکیلی ہوں اور کوئی اجنبی گھس آئے

    6

    ماہرین کے مطابق اس وقت بچاؤ کا سب سے بہترین حل کچن کی طرف بھاگنا ہے۔ صرف آپ ہی جانتی ہیں کہ آپ کے کچن میں چھری، کانٹے اور تیز مصالحہ جات جیسے لال مرچ یا ہلدی وغیرہ کہاں رکھے ہیں۔ یہ سب بچاؤ کے لیے بہترین ہتھیار ثابت ہوسکتے ہیں۔

    اگر اس کا موقع نہ ملے تو کچن میں موجود برتن حملہ آور کی طرف پھینکنا شروع کردیں۔

    رات کے اوقات میں لفٹ استعمال کرتے ہوئے

    5

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ رات کے وقت تنہا ہیں اور آپ کو کسی بلند عمارت میں لفٹ استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے تو لفٹ میں داخل ہو کر تمام بٹنز دبا دیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کو تیرہویں منزل پر جانا ہے تو ایک سے لے کر 13 تک تمام منزلوں کے بٹن دبا دیں۔ ایسے موقع پر کوئی بھی شخص ایسی لفٹ میں کوئی غلط حرکت کرنے سے باز رہے گا جو ہر منزل پر رک رہی ہو اور اس کا دروازہ کھل رہا ہو۔

    رات کے وقت رکشہ یا ٹیکسی میں سفر کرتے ہوئے

    4

    رات کے وقت رکشہ یا ٹیکسی میں سفر کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کریں۔

    گاڑی کا رجسٹریشن نمبر نوٹ کرلیں۔

    اس کے بعد اپنے کسی قریبی عزیز یا دوست کو فون ملائیں اور ایسی زبان میں جو ڈرائیور سمجھ سکے، یہ تمام معلومات فراہم کردیں۔

    اگر کوئی آپ کا فون نہیں اٹھا رہا تب بھی ایسے ہی ظاہر کریں کہ آپ فون پر کسی سے بات کر رہی ہیں۔

    اب ڈرائیور جان جائے گا کہ اس کی تمام معلومات کسی شخص کے پاس ہیں اور اگر آپ کو کوئی بھی نقصان پہنچا تو وہ سخت مشکل میں پڑجائے گا۔

    اس طریقہ سے ایک ممکنہ مجرم آپ کا محافظ بن جائے گا کیونکہ آپ کو صحیح سلامت آپ کی مطلوبہ جگہ پر پہنچانے کی ذمہ داری اس کی ہوگی۔

    سفر کرتے ہوئے ڈرائیور اجنبی راستوں پر لے جائے تو کیا کریں

    اگر رکشہ یا ٹیکسی میں سفر کرتے ہوئے آپ کو لگے کہ ڈرائیور نے کسی اجنبی اور سنسان جگہ گاڑی موڑ لی ہے تو ایسی صورت میں اپنے بیگ کے ہینڈل یا ڈوپٹے / اسکارف کو ڈرائیور کی گردن کے ساتھ لپیٹ کر پوری قوت کے ساتھ پیچھے کھینچیں۔ چند ہی سیکنڈز میں اس کا دم گھٹنے لگے گا اور وہ بے یار و مددگار ہوجائے گا۔

    اگر آپ کے پاس ہینڈل والا پرس یا ڈوپٹہ نہیں ہے تو یہی عمل ڈرائیور کے کالر کے ساتھ انجام دیں۔ اس کی شرٹ کا اوپری بٹن یا گلا بالکل یہی نتائج دے گا۔

    سنسان راستے پر کوئی شخص گھورے

    ایسی صورت میں کسی قریب موجود اے ٹی ایم پر چلی جائیں۔ اے ٹی ایم سینٹرز میں عموماً 24 گھنٹے سیکیورٹی گارڈ موجود ہوتے ہیں۔ اگر سیکیورٹی گارڈ نہیں ہے تب بھی وہاں سی سی ٹی وی کیمرہ لازماً موجود ہوگا۔

    اب مجرم کیمرے میں اپنی شناخت ہونے کے ڈر سے اپنے غلط ارادے سے باز رہے گا۔

    شور مچائیں

    1

    یاد رکھیں غلط حرکت کرنے والا شخص کبھی نہیں چاہتا کہ وہ پکڑا جائے۔ جیسے ہی وہ آپ کی طرف غلط ارادے سے بڑھے زور زور سے چیخنا چلانا شروع کردیں۔

    اسی طرح جنسی طور پر ہراساں کرنے والے شخص سے بھی بلند آواز سے باز پرس کرنا یا ڈانٹ دینا اسے اپنے ارادے سے باز رکھ سکتا ہے۔

    مزید کیا احتیاط کی جاسکتی ہے

    ایک احتیاط جو بچوں کو بتائی جاتی ہے آپ بھی اس پر عمل کریں۔ اجنبی افراد یا ایسے افراد جن سے آپ سڑک یا بس میں پہلی بار ملے ہوں اور ان سے چند منٹ گفتگو کی ہو، کبھی بھی پانی، جوس یا کھانے کی اشیا نہ قبول کریں۔

    اگر کسی دکان سے پانی کی بوتل یا جوس لے رہی ہوں اور وہ سیل نہ ہو، کھلا ہوا ہو تو اسے بھی واپس کردیں اور اس جگہ سے دور چلی جائیں۔

    اپنے موبائل میں ایسی سیٹنگ رکھیں کہ ایک بٹن دبانے پر ایک ہنگامی پیغام آپ کے گھر کے کسی فرد کو فوری چلا جائے۔ کسی خطرے کو محسوس کرتے ہی اس بٹن کو دبا دیں۔

    مزید پڑھیں: بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کے اقدامات

    کالی مرچوں کا اسپرے جو بآسانی بازار سے دستیاب ہوگا ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں۔ یہ آپ کو کسی قانون شکنی پر مجبور نہیں کرے گا اور کسی خطرے کی صورت میں آپ کی جان بھی بچائے گا۔

    باہر نکلتے ہوئے ذہنی طور ہنگامی صوتحال کے لیے تیار رہیں تاکہ آپ الرٹ رہ سکیں۔

    رات کو بلا ضرورت اکیلے باہر نکلنے سے بھی گریز کریں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جنسی ہراسمنٹ میں ملوث چینی پروفیسر کا اعلیٰ ترین اعزاز واپس لے لیا گیا

    جنسی ہراسمنٹ میں ملوث چینی پروفیسر کا اعلیٰ ترین اعزاز واپس لے لیا گیا

    بیجنگ: چین کی وزارت تعلیم نے طلبا کو جنسی ہراساں کرنے کے معاملے پر ایک پروفیسر کو حکومت کی جانب سے دیا جانے والا معتبر ترین اعزاز واپس لینے کا حکم جاری کردیا۔

    بیجنگ کی بائہنگ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے مطابق مذکورہ پروفیسر کے بارے میں تحقیقات کے بعد علم ہوا کہ وہ جنسی طور پر ہراساں کرنے والے رویے کے حامل رہے جو پیشہ وارانہ اخلاقیات اور ادارے کے ضابطہ اخلاق کی سخت خلاف ورزی تھی۔

    چین ژیاؤ نامی اس پروفیسر کو یونیورسٹی میں ان کے عہدے سے بھی برطرف کردیا گیا ہے۔

    پروفیسر کے خلاف تحقیقات کا آغاز اس وقت ہوا جب یونیورسٹی کی ایک سابق طالبہ نے الزام عائد کیا کہ پروفیسر نے 13 سال قبل انہیں ایک آن لائن بلاگ کے ذریعے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی جو انٹرنیٹ پر بہت وائرل ہوا۔

    تحقیقات کے بعد وزارت تعلیم کی جانب سے جاری کردہ احکامات کے مطابق مذکورہ پروفیسر سے ’ینگتزی ریور اسکالر‘ کا اعزاز واپس لے لیا گیا جو تدریس کے شعبے میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کو دیا جاتا ہے۔

    پروفیسر کو اعزاز کے ساتھ دی گئی رقم بھی واپس لے لی گئی ہے۔

    وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور طلبا کی جانب سے ایسے رویے اختیار کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی جو اخلاقیات کی حدوں کو پار کریں، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ پروفیسر کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا گیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • می ٹو: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    می ٹو: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    چند دن قبل ہالی ووڈ کے معروف فلم پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن پر بالی ووڈ کی کئی اداکاروں نے یکے بعد دیگرے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا جس نے ہالی ووڈ انڈسٹری سمیت دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔

    معروف ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی سمیت اب تک ہالی ووڈ کی 20 سے زائد اداکارؤں نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ جب وہ اپنے کیرئیر کے ابتدائی دور میں تھیں تب ہاروی نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی، 2 اداکاراؤں نے ہاروی پر ریپ کا الزام بھی لگایا۔

    اداکاراؤں کے ان الزامات کے بعد امریکا اور برطانیہ کے تمام تحقیقاتی ادارے متحرک ہوگئے اور ہاروی وائنسٹن کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئیں۔

    ہاروی نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک فلم ساز ادارہ ’میرا مکس فلمز‘ بنایا تھا، اس ادارے نے ہاروی سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا، جبکہ اس کے نام پر بنے دوسرے ادارے ’دی وائنسٹن‘ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بھی اسے برطرف کر دیا ہے۔

    یہی نہیں بلکہ آسکر اور بافٹا ایوارڈز کی تنظیموں نے بھی اپنی جیوری سے ہاروی کی رکنیت معطل کر دی ہے۔

    جنسی ہراسمنٹ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کا آغاز ہوگیا جس کے تحت دنیا بھر کی خواتین نے آواز اٹھائی کہ وہ زندگی میں کس مرحلے پر جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنیں۔

    یہ ہیش ٹیگ پڑوسی ملک بھارت میں بھی بے حد مقبول ہوا اور بھارتی اداکارہ ودیا بالن اور ریچا چڈھا سمیت متعدد خواتین نے اس معاملے پر آواز اٹھائی کہ انہیں کس عمر میں، کن حالات میں اور کس طرح جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا گیا۔

    تاہم پاکستان میں اس مہم کو اتنی پذیرائی نہ مل سکی۔ ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ آسکر ایوارڈ یافتہ فلمساز شرمین عبید چنائے کی کچھ متنازعہ ٹوئٹس نے معاملے کو ایک اور رنگ دے دیا اور ہراسمنٹ کا لفظ ہر مرد و خواتین کے منہ سے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں سنا جانے لگا جس نے اس معاملے کی حساسیت کو کم کردیا۔

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز نے مختلف شعبہ جات کی چند خواتین سے رابطہ کیا اور ان سے ان کے کیریئر میں ہونے والے جنسی ہراسمنٹ کے تجربات کے بارے میں پوچھا۔

    عافیہ سلام ۔ صحافی / سماجی کارکن

    مختلف سماجی اداروں سے منسلک عافیہ سلام اس بارے میں کہتی ہیں کہ پاکستان میں دراصل جنسی ہراسمنٹ کا مطلب غلط لیا جاتا ہے۔ ’جب آپ خود کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو لوگ انتہا پر پہنچ کر سوچتے ہیں کہ آپ کے ساتھ جسمانی طور چھیڑ چھاڑ یا زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے‘۔

    شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی خواتین کی اکثریت نے اس معاملے میں اپنی آواز اٹھانے سے گریز کیا۔ بقول عافیہ سلام کے، جب انہوں نے ’می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا تو ان کی اپنی بیٹی نے پریشان ہو کر ان سے پوچھا، ’یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ کیا واقعی آپ کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے‘۔

    تب عافیہ نے ہراسمنٹ کی صحیح لفظوں میں تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ جنسی ہراساں کرنے کا مطلب جنسی زیادتی نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’جنسی ہراسمنٹ اور جنسی حملہ دو الگ چیزیں ہیں، جنسی حملہ کرنا تشدد کے زمرے میں آتا ہے جبکہ جنسی طور پر ہراساں ہونا ایک عام بات ہے اور بدقسمتی سے شاید ہی کوئی پاکستانی عورت اس ہراسمنٹ سے محفوظ رہی ہو‘۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    عافیہ سلام کا کہنا ہے کہ ہر وہ شے جو آپ کو عدم تحفظ کا احساس دے، ہراسمنٹ ہے۔ ’اب یہ ہراسمنٹ خواتین کی طرف سے خواتین کے لیے، اور مردوں کی طرف سے مردوں کے لیے بھی ہوسکتی ہے، لیکن جب جنس مخالف کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ جنسی ہراسمنٹ کہلاتی ہے‘۔

    انہوں نے اپنے تجربات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ عمر کے اس حصے میں جب زندگی اپنی تمام تر آسائشوں سے بھرپور سے ہے، ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ ’نوجوانی میں کالج، یونیورسٹی کے لیے بسوں میں لٹک کر بھی سفر کیا ہے، بس اسٹاپ پر کھڑے ہو کر بسوں کا انتظار بھی کیا ہے، اس وقت اندازہ ہوتا تھا کہ عورت ہونا کتنا مشکل ہے‘۔

    باہر نکلنے والی خواتین کو گھورے جانا بھی نہایت پریشان کرتا ہے۔ اس بارے میں عافیہ کا کہنا تھا، ’خواتین کو گھورنے کے لیے تو شکل و صورت، اور عمر کی کوئی قید نہیں۔ پاکستان میں شعوری یا لا شعوری طور پر خواتین کو گھورے جانا بدقسمتی سے ایک نہایت عام بات بن چکی ہے، لیکن جو اس گھورنے کی ہراسمنٹ کا شکار ہورہی ہوتی ہیں کوئی ان سے جا کر پوچھے، ایسے وقت میں دل چاہتا ہے کہ انسان کہیں کسی کمرے میں چھپ کر بیٹھ جائے اور کبھی باہر نہ نکلے‘۔

    خواتین کو گھورنا ہماری عادت ہے

    صوبہ پنجاب، اقوام متحدہ برائے خواتین (یو این ویمن) کے تعاون سے مختلف شہروں کے عوامی مقامات کو خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں چند روز قبل پنجاب حکومت اور یو این وومین کا ایک ایونٹ منعقد ہوا جس میں اس سلسلے میں کی جانے والی کوشوں کے بارے میں حاضرین کو آگاہ کیا گیا۔

    تقریب کے دوران پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آف وومین کی چیئرمین فوزیہ وقار نے بتایا، ’ایک بار ایک نو عمر لڑکا مجھے گھور رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ تم آخر دیکھ کیا رہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا، کچھ خاص نہیں، بس خواتین کو گھورنا ہماری عادت ہے‘۔

    گویا یہ کام نا چاہتے ہوئے لاشعوری طور پر سرزد ہوتا ہے جو خواتین کا باہر نکلنا عذاب بنا دیتا ہے۔

    حتیٰ کہ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی جہاں خواتین کے بغیر برقعہ اور نقاب کے باہر نکلنے پر پابندی ہے، وہاں بھی لوگ برقع میں ملبوس خواتین کو گھورنے سے باز نہیں آتے۔ کسی انگریز نے اس صورتحال کا مشاہدہ کیا تو اسے بی ایم او ۔ بلیک موونگ آبجیکٹ کا نام دے ڈالا۔

    مرد کا ساتھ ہونا ضروری

    عافیہ سلام نے کہا کہ آج کی اکیسویں صدی میں بھی بعض اوقات آپ کو باہر نکلنے کے لیے کسی مرد کا ساتھ چاہیئے ہوتا ہے چاہے وہ آپ کا 10 سالہ بھائی ہی کیوں نہ ہو۔

    انہوں نے کہا، ’اکثر لڑکیاں فلم دیکھنے کے لیے جاتے ہوئے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جاتی ہیں تاکہ وہ اس سیٹ پر بیٹھے جس کے دوسری طرف کوئی مرد موجود ہو۔ راشن لینے جارہے ہیں تو دکان داروں کی غیر ضروری چھیڑ چھاڑ اور گفتگو سے بچنے کے لیے بھی کسی مرد کا ساتھ ضروری ہے‘۔

    ان کے مطابق وہ تمام حالات جو آپ کو مردوں کی موجودگی میں غیر آرام دہ، غیر محفوظ اور ذہنی طور پر پریشان کرے، ہراسمنٹ کے زمرے میں آتی ہے۔ ’چاہے وہ خاتون کی موجودگی میں مردوں کی آپس میں معنی خیز گفتگو ہو، خاتون سے براہ راست ذو معنی گفتگو ہو، بلا سبب دیکھنا ہو یا بغیر کسی ضرورت کے بات کرنا ہو۔ یہ ہراسمنٹ کا ابتدائی مرحلہ ہے‘۔

    دیگر مرحلوں میں دفاتر میں خواتین کے کاموں میں بلا وجہ مین میخ نکالنا، کسی ذمہ داری کے لیے مردوں کو صرف اس لیے ترجیح دینا کہ ’خواتین کیا کرسکتی ہیں‘، میٹنگز میں خواتین کی بات نہ سننا، اور اس کے بعد براہ راست خاتون کی ذات کو نشانہ بنانا، برا بھلا کہنا، خواتین کو کمتر محسوس کروانا آجاتے ہیں۔

    مزید دیگر مرحلوں میں خواتین ملازمین کا استحصال کرنا، ان کی سہولیات جیسے تنخواہ، تعطیلات وغیرہ میں خلل ڈالنا، انہیں جان بوجھ کر دیر تک دفتر میں بٹھائے رکھنا شامل ہے۔

    عافیہ کا کہنا تھا کہ پہلے کے زمانے اور تھے، پہلے جب دو دوست یا دو بھائی آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کا انداز گفتگو اور الفاظ الگ ہوتے ہیں، لیکن اسی وقت ان کے بیچ کوئی خاتون یا ان کی بہن آجاتی تو ان کا انداز گفتگو بالکل مختلف اور تمیز دار ہوجاتا تھا، ’مگر اب یہ صورتحال خال ہی نظر آتی ہے‘۔

    عافیہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب نئی نسل میں لڑکا اور لڑکی میں کوئی تخصیص ہی نہیں رہی، اکثر لڑکیاں بھی اپنے مرد دوستوں یا کولیگز کے ساتھ نامناسب انداز گفتگو اور گالیوں سے بھرپور خراب زبان میں گفتگو کرتی ہیں اور پھر آگے چل کر یہی عادت جنسی ہراسمنٹ کے زمرے میں جا پہنچتی ہے۔

     مرد بھی ہراسمنٹ کا شکار

    عافیہ کا کہنا تھا کہ ہراسمنٹ کی یہ صورتحال صرف خواتین یا لڑکیوں کے ساتھ ہی پیش نہیں آتی بلکہ کم عمر لڑکے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ’اپنے ملازمین، بڑے کزنز، استادوں کی طرف سے لڑکوں کو ہراس کیا جانا بھی عام بات ہے جو ان پر منفی ذہنی اثرات مرتب کرتا ہے جو تاعمر ان کے ساتھ رہتے ہیں‘۔

    ان کے مطابق ’خواتین تو پھر اس معاملے میں کسی سے مدد لے سکتی ہیں، لڑکے بیچارے تو شرمندگی کے مارے کسی کو بتا ہی نہیں سکتے۔ وہ ساری عمر نہیں بتا پاتے کہ ان کے ساتھ بچپن میں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے‘۔

    ڈاکٹر آزادی فتح ۔ استاد

    یونیورسٹی میں باشعور طلبہ و طالبات کو پڑھاتے ہوئے ایک خاتون استاد کو کس قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر آزادی فتح کہتی ہیں کہ اپنے کولیگز کی طرف سے بہت کم ایسی شکایات ہوتی ہیں، تاہم نوجوان طلبا کی جانب سے بے حد ہراسمنٹ کا سامنا ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر آزادی جامعہ کراچی اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں بطور لیکچرر اپنی ذمہ داریاں انجام دے چکی ہیں۔

    ان کے مطابق طالب علموں کی جانب سے بعض اوقات جملے کسے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ پیش آتی ہے جب کوئی طالبہ حال ہی میں اپنی تعلیم مکمل کر کے اسی یونیورسٹی میں بطور معلمہ اپنے فرائض انجام دینے لگتی ہے۔ اب اسے ان لڑکوں کو پڑھانا ہے جو صرف ایک سال قبل تک اس کے کلاس فیلوز یا جونیئرز تھے، تو ایسی صورت میں وہ اپنے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ کو درگزر کرنا ہی بہتر سمجھتی ہے۔

    ڈاکٹر آزادی نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے سبب اب استاد اور طالب علم کا تعلق صرف درسگاہ تک محدود نہیں رہا، ’اب سوشل میڈیا پر آپ کے طلبا بھی آپ کے دوست ہیں جو آپ کی تصاویر پر کمنٹس کرتے ہیں اور بعد ازاں اسے کلاس میں بھی بتاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ طالب علم میسجز کر کے پرسنل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چیز استاد اور مذکورہ شاگرد کے درمیان ایک لکیر کھینچ دیتی ہے اور اب وہ معلمہ اس شاگرد کے ساتھ خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدم تحفظ کا یہ احساس آپ کو خواتین کولیگز کی جانب سے بھی ہوتا ہے جب وہ دیکھتی ہیں کہ آپ پراعتماد ہیں، اور مرد و خواتین کولیگز سے ایک ہی لہجے میں بات کر رہی ہیں، ایسے میں دیگر کولیگز کا کہنا ہوتا ہے، ’کیا بات ہے بہت ہنس ہنس کر باتیں ہورہی ہیں‘۔

    ڈاکٹر آزادی کے مطابق یہ رویہ آپ کو ذہنی طور پر بے سکون کردیتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے پاتے۔

    ڈاکٹر سارہ خرم ۔ ڈاکٹر

    اس بارے میں جب ہم نے طب کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر سارہ خرم سے بات کی انہوں نے طب کے شعبے میں موجود کئی اخلاقی اصول و قوانین کے بارے میں بتایا۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ جب ایک مریض ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آتا ہے تو وہ اس کو اپنی تمام تفصیلات دے دیتا ہے۔

    ان کے مطابق ’ایسے کئی کیسز ہوچکے ہیں جب میڈیکل پروفیشنلز نے ان معلومات کا غلط استعمال کیا۔ یہ ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے‘۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا ہے کہ جب مریض اپنی بیماری و دیگر تمام تفصیلات اپنے طبی ماہر کو بتاتا ہے کہ تو وہ معلومات اس کے پاس امانت ہوتی ہیں۔ مریض اپنے ڈاکٹر کو ان تمام محسوسات و کیفیات سے آگاہ کردیتا ہے جو وہ عموماً کسی سے نہیں کہتا۔ ’اب ڈاکٹر کو مریض کے نجی معاملات پر اخلاقی دسترس حاصل ہوجاتی ہے اور اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ان معلومات کو اپنے پاس راز ہی رکھے‘۔

    اسی طرح انہوں نے کہا کہ جب کوئی خاتون کسی مرد ڈاکٹر یا مرد کسی خاتون ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو ڈاکٹر کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں صرف ڈاکٹر ہی بن کر چیک کرے، مرد یا عورت بن کر نہیں۔ یہ اصول اس وقت بے حد ضروری ہے جب آپ مریض کے جسم کو چیک کر رہے ہیں۔

    بینش گل ۔ ایئر ہوسٹس

    اس حوالے سے جب ایک فضائی میزبان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنی ایئرلائن کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں ذاتی طور پر جنسی ہراسمنٹ کا تجربہ ہوچکا ہے۔

    ان کے مطابق ایک معاملے کے سلسلے میں انہیں کسی غلطی کا ذمہ دار ٹہرایا گیا تو ان سے اچھوتوں کی طرح برتاؤ کیا جانے لگا۔ دفتر میں کئی مقامات پر ان کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی جبکہ معاملہ اتنا بڑا بھی نہیں تھا۔

    بینش نے بتایا کہ اس شعبے میں آنے والی بعض خواتین ضروت مند بھی ہوتی ہیں جو بحالت مجبوری کام کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے خواتین عملے کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے ان کے ساتھ مرد عملے کی جانب سے بدسلوکی، اور بدزبانی عام ہے۔

    زینب مواز ۔ مصورہ

    زینب مواز ایک مصورہ ہیں اور مختلف اداروں سے آرٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان کے مشہور آرٹ کالج میں تدریسی فرائض بھی انجام دیے۔

    اپنے تجربات کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ اس پیشے میں طاقت کا استعمال عام ہے۔ ’بطور ٹیچر مجھ پر دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ با اثر افراد کے بچوں کو امتحانات میں پاس کروں۔ اس طرح سے ان طلبا کا حق مارا جاتا تھا جو واقعی قابل ہوتے تھے‘۔

    زینب کہتی ہیں کہ ہمارے پاس زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں خواتین کو ہراسمنٹ کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو۔ وہ ہراسمنٹ سینئرز، جونیئرز اور کولیگز کسی کی بھی جانب سے ہوسکتی ہے۔


    مذکورہ بالا تمام خواتین کی متفقہ رائے تھی کہ ہراسمنٹ اب ایسا موضوع نہیں رہا جس سے آنکھیں چرا لی جائیں۔ اس موضوع پر بات کرنے اور اس سے تحفظ کے بارے میں سوچنے کی ازحد ضرورت ہے۔

  • گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست پختونخواہ اسمبلی میں

    گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست پختونخواہ اسمبلی میں

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشدد، جنسی ہراسمنٹ یا کم عمری کی شادی کی شکایات درج کروانے کے لیے ہیلپ لائن قائم کردی گئی۔

    زما آواز یعنی ’میری آواز‘ نامی یہ ہیلپ لائن خواتین کو سہولت فراہم کرے گی کہ وہ اپنے یا کسی اور پر ہوتے گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں درج کروا سکیں۔

    یہ ہیلپ لائن 9212026-091 اسمبلی کے خواتین پارلیمانی کاکس (ڈبلیو پی سی) نے یو ایس ایڈ کے اشتراک سے قائم کی ہے اور یہ ڈبلیو پی سی کے دفتر سے ہی آپریٹ کی جائے گی۔ خیبر پختونخواہ کی خواتین صبح 9 سے شام 5 بجے تک ٹیلی فون کے ذریعہ یہاں اپنی شکایات درج کروا سکیں گی۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    ڈبلیو پی سی کی ایک مقرر کردہ کمیٹی درج کی جانے والی شکایات کا جائزہ لے کر فوری طور پر متعلقہ حکام کو ان پر کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کرے گی۔

    منصوبے میں شامل پختونخواہ کی خواتین ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ اس ہیلپ لائن کے ذریعے نہ صرف خواتین اپنے اوپر ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف شکایات درج کروا سکیں گی، بلکہ وہ اسمبلی میں بیٹھے قانون سازوں کو مشورے اور تجاویز بھی دے سکیں گی کہ خواتین کی فلاح کے لیے مزید کیا اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

    اس ہیلپ لائن کے ذریعہ قانونی مدد کی طلبگار خواتین کو وکلا کی خدمات بھی فراہم کی جاسکیں گی۔

    مزید پڑھیں: آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    صوبہ خیبر پختونخواہ میں خواتین کو گھر سے باہر جنسی ہراسمنٹ اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات سے بچانے کے لیے علیحدہ بس سروس کا منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے۔

    منصوبے کے تحت خیبر پختونخواہ کے 3 ضلعوں پشاور، مردان اور ایبٹ آباد میں خواتین کے لیے علیحدہ بس سروس شروع کی جائے گی۔ صوبائی شعبہ ٹرانسپورٹ کے نمائندگان کے مطابق یہ منصوبہ صوبے میں شروع کیے جانے والے ماس ٹرانزٹ سسٹم کا حصہ ہے۔

  • بھارت میں‌ مسلم خاتون پر جنسی حملہ، ناکامی پر زبان کاٹ دی

    بھارت میں‌ مسلم خاتون پر جنسی حملہ، ناکامی پر زبان کاٹ دی

    بنگلور: بھارتی ریاست کرناٹکا کے شہر بنگلور میں اوباش نوجوانوں نے مسلمان لڑکی کو جنسی ہراساں کرنے کے بعد زبان کاٹ دی اور فرار ہوگئے۔

    اطلاعات کے مطابق بھارتی شہر بنگلور میں نیو ائیر نائٹ پر خواتین پر ہونے والے جنسی حملے کا طوفان تھما نہ تھا کہ ایک اور دل خراش واقعہ پیش آگیا مگر اس بار نشانہ ایک مسلم خاتون بنی جسے گھر جاتے ہوئے جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

    خاتون کی چیخ و پکار کی آواز شاید وہاں کے رہائشی افراد  کو سنائی نہ دی ہو لیکن گلی میں گھومنے والے آوارہ کتوں نے صورت حال کو دیکھ کر ان درندہ صفت افراد پر بھونکنا شروع کردیا جس کے باعث وہ مذکورہ خاتون کی زبان کاٹ کر فرار ہوگئے۔


    *یہ پڑھیں : خواتین اپنے ساتھ زیادتی کی خود ذمہ دار ہیں: بھارتی سیاستدان


    مسلم خاتون کو زخمی حالت میں دیکھ کر علاقہ مکینوں نے بنگلور پولیس کو اطلاع دی جس پر پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر خاتون کو اسپتال منتقل کیا۔

    اس سلسلے میں بنگلور پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہے تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔


    *یہ بھی پڑھیں : لڑکیاں اوباش لڑکوں سے بچنے کے لیے مارشل آرٹ سیکھیں، اکشے کمار


    واضح رہے کہ نیو ائیر نائٹ پر بھی بنگلور کی سڑکوں پر جشن منانے والی کئی خواتین پر جنسی حملے کیے گئے تھے جس کے باعث کئی خواتین زخمی ہوگئی تھیں، خواتین پر ہونے والے جنسی حملے کے بعد بنگلور پولیس کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    سلمان خان اور اکشے کمار سمیت بالی ووڈ کے کئی فنکاروں نے سال نو کے موقع پرخواتین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کو بھارت کے لیے بد نما داغ قرار دیا ہے۔

  • عوامی مقامات پر خواتین کی ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے اہم اقدام

    عوامی مقامات پر خواتین کی ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے اہم اقدام

    دنیا بھر میں خواتین پر جنسی حملوں اور عوامی مقامات پر ان کے ساتھ ہراسمنٹ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس نے خواتین اور ان کی بہبود کے لیے کام کرنے والے افراد اور اداروں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    عالمی اداروں کی جانب سے جاری کی جانے والی متعدد رپورٹس کے مطابق دنیا میں ہر 3 میں سے ایک خاتون کو کسی نہ کسی قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا ہے جو صرف جنس کی بنیاد پر اس سے کی جاتی ہے۔ ان میں گھورنے سے لے کر خطرناک جنسی حملوں تک کے واقعات شامل ہیں اور اس میں ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ ممالک کی کوئی قید نہیں۔

    harrasment

    دنیا بھر میں ان واقعات پر قابو پانے کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھارت میں پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین سے چھیڑ چھاڑ کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر بسوں میں پینک بٹن نصب کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا۔

    خواتین پر حملوں سے تحفظ کے لیے ’پینک‘ بٹن *

    یہ پینک بٹن بس میں دروازے کے اوپر لگایا جائے گا جسے دباتے ہی قریبی پولیس اسٹیشن میں ایک ہنگامی پیغام جائے گا اور اس کے بعد پولیس بس میں نصب کیمرے کی براہ راست فوٹیج دیکھ سکے گی۔

    تاہم ان اقدامات کی ایک بہترین مثال جنوبی امریکی ملک ایکواڈور کے دارالحوکمت کیٹو میں دیکھی گئی جہاں شہری ترقیاتی کے لیے ’کیٹو سیف سٹی پروگرام‘ کا آغاز کیا گیا اور اس میں سرفہرست شہر کو خواتین کے لیے محفوط بنانے کا ہدف رکھا گیا۔

    اس منصوبے کے آغاز سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین کی جانب سے ایک سروے کیا گیا تھا جس میں دیکھا گیا کہ 12 ماہ کے دوران شہر کی 68 فیصد خواتین نے عوامی مقامات پر کسی نہ کسی قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا کیا۔

    quito-3

    یو این وومین نے اس کے بعد شہری حکومت، خواتین کے لیے سرگرم عمل متعدد اداروں، اور دیگر متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک بڑے منصوبے پر کام شروع کیا۔

    جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر *

    اس منصوبے کے تحت شہر میں جابجا رضا کارانہ خدمات انجام دینے والی خواتین کو تعینات کیا گیا۔ ان خواتین کو باقاعدہ اتھارٹی دی گئی جس کے بعد یہ خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات کا سدباب کرنے کے لیے اہم طاقت بن گئیں۔

    رضاکارانہ خدمات انجام دینے والی ان اہلکاروں کو اس قسم کے واقعات کی اطلاع بھی دی جا سکتی ہے جس کے بعد سنگین نوعیت کے کیسز میں یہ پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو اطلاع دینے کی مجاز ہوں گی۔

    کیٹو کے میئر ماریشیو روڈز کا کہنا ہے کہ شہر کو خواتین کے لیے محفوظ بنانا ان کی پہلی ترجیح ہے۔ اس ضمن میں شہری حکومت کے تحت 4 شعبوں میں کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ سڑکوں کو خواتین کے لیے محفوظ بنانا، گھریلو تشدد کے واقعات کا سدباب، آفات اور خطرات میں خواتین کو سہولیات کی فراہمی، اور تمام شعبوں میں خواتین کی شراکت داری۔

    quito-2

    انہوں نے بتایا کہ کیٹو کے سیف سٹی منصوبے کے تحت اس بات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ کن مقامات پر خواتین کو ہراسمنٹ کے واقعات کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے ان مقامات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہیں محفوط بنانے کے لیے اقدامات کیے جیسے وہاں روشنیاں نصب کی گئیں اور وہاں کا ماحول بہتر بنایا گیا۔

    زیادتی کا شکار مختاراں مائی کی ریمپ پر واک *

    ایکواڈور میں یو این وومین کی نمائندہ مونی پیزانی کا کہنا ہے کہ خواتین کو ہراسمنٹ اور تشدد کے واقعات اور اس کے سدباب کے لیے آگاہی فراہم کرنے کی از حد ضرورت ہے تاکہ وہ اسے عام سی بات سمجھ کر اسے اپنی زندگی کا حصہ نہ سمجھیں۔

    ماہرین نے کیٹو میں شروع کیے جانے والے اس منصوبے کو بے حد سراہا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے تمام شہروں میں اس قسم کے منصوبے شروع کیے جانے چاہئیں۔