Tag: جنوبی افریقہ

  • کرونا کی نئی قسم کا فوری پتا لگانے پر سزا دی جا رہی ہے: جنوبی افریقہ

    کرونا کی نئی قسم کا فوری پتا لگانے پر سزا دی جا رہی ہے: جنوبی افریقہ

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ نے شکوہ کیا ہے کہ اب تک کے سب سے خطرناک کووِڈ وائرس اومیکرون کا فوری سراغ لگانے پر اسے سراہے جانے کی بجائے سزا دی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم سامنے آنے کے بعد دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے افریقہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگائی گئی ہے، وزرات خارجہ نے اسے جنوبی افریقہ کو سزا دینے کے مترادف قرار دے دیا ہے۔

    جنوبی افریقی وزارت خارجہ نے کہا کہ ہمیں کرونا کی نئی قسم کا فوری پتا لگانے کی سزا دی جا رہی ہے، حالاں کہ شان دار سائنس کو اسے سراہنا چاہیے نہ کہ سزا نہیں دینی چاہیے۔

    وزارت نے نشان دہی کی ہے کہ اومیکرون دنیا کے دیگر حصوں میں بھی دریافت ہوئی تھی، ان میں سے کسی بھی کیس کا جنوبی افریقہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن ان ممالک کے ساتھ رویہ جنوبی افریقہ سے واضح طور پر مختلف ہے۔

    کرونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ کے خلاف موڈرنا ویکسین کی بوسٹر شاٹ

    جنوبی افریقہ نے کہا ہے کہ دنیا کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ ہم بھی وبا سے نمٹنے کے لیے بہتر اقدامات کر رہے ہیں، ہمیں دنیا کی بہترین سائنسی کمیونٹی کی حمایت حاصل ہے، اور ٹیسٹ کی صلاحیت بہترین ہے۔

    واضح رہے کہ نئے ویریئنٹ کا پتا جنوبی افریقی سائنس دانوں نے لگایا ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کرونا کی نئی قسم کو باعث تشویش قرار دیتے ہوئے اسے omicron کا نام دیا، اس ویریئنٹ کا تکنیکی نام B.1.1.529 ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس نئی قسم میں کووِڈ نائنٹین نے وسیع سطح پر اپنی ہیئت اور شکل تبدیل کر لی ہے، جس سے اس وائرس میں بار بار انفیکشن ہونے کا خطرہ دیگر تمام اقسام سے زیادہ ہو گیا ہے۔

    اب تک امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، بھارت اور کینیڈا نے جنوبی افریقہ سے آنے والے مسافروں پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی ہیں۔

  • 16 ہزار فٹ کی بلندی پر اسکائی ڈائیورز کے ساتھ دل دہلادینے والی صورتحال

    16 ہزار فٹ کی بلندی پر اسکائی ڈائیورز کے ساتھ دل دہلادینے والی صورتحال

    اسکائی ڈائیونگ کرنا رونگٹے کھڑے کردینے والا تجربہ ہوسکتا ہے لیکن اگر ایسے موقع پر طیارے میں بھی کوئی تکنیکی خرابی واقع ہوجائے تو یہ تجربہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔

    جنوبی افریقہ میں کچھ اسکائی ڈائیورز کے ساتھ ایسی ہی صورتحال پیش آئی، 9 کے قریب اسکائی ڈائیورز طیارے سے چھلانگ لگانے والے تھے جب طیارہ بے قابو ہونا شروع ہوا۔

    طیارہ اس وقت فضا میں 16 ہزار فٹ کی بلندی پر تھا۔

    اس موقع پر ڈائیورز نے اپنے حواس بحال رکھے اور طیارے سے نکل کر چھلانگ لگا دی، ڈائیورز کے نکلتے ہی طیارہ قلابازیاں کھاتا ہوا تیزی سے نیچے جانے لگا۔

    اسکائی ڈائیورز کے طیارے سے کود جانے کے بعد بھی طیارے میں پائلٹ سمیت مزید کچھ افراد موجود تھے۔

    خوش قسمتی سے پائلٹ نے کچھ دیر بعد طیارے کو سنبھال لیا اور بحفاظت اسے لینڈ کروانے میں کامیاب رہا۔ دوسری جانب اسکائی ڈائیورز بھی بحفاظت زمین پر اتر گئے۔

  • جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور قسم دریافت

    جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور قسم دریافت

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی ایک اور نئی قسم دریافت کی گئی ہے جو اب تک کئی ممالک میں پہنچ چکی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی افریقہ میں سائنسدانوں نے کرونا وائرس کی ایک نئی قسم کو دریافت کیا ہے جس میں متعدد تشویشناک میوٹیشنز موجود ہیں۔

    سائنسدانوں کی جانب سے جاری تحقیقی مقالے کے مطابق سی 1.2 نامی اس نئی قسم کو سب سے پہلے مئی میں جنوبی افریقہ کے 2 صوبوں ماپو مالانگا اور خاؤٹنگ میں دریافت کیا گیا تھا۔

    کرونا کی یہ قسم اب تک افریقہ، اوشیانا، ایشیا اور یورپ کے 7 دیگر ممالک میں بھی دریافت کی جا چکی ہے۔

    سائنسدانوں نے بتایا کہ کرونا کی اس نئی قسم میں موجود میوٹیشنز زیادہ تیزی سے پھیلنے اور اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت جیسی صلاحیتوں سے منسلک ہیں، یہ بات اہم ہے کہ یہ نئی قسم تشویشناک میوٹیشنز کے مجموعے پر مبنی ہے۔

    کرونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث اس کی قسم ڈیلٹا نمودار ہوئی جسے سب سے پہلے بھارت میں دریافت کیا گیا تھا، جو اب دنیا بھر میں بالا دست قسم بنتی جارہی ہے۔

    عام طور پر وائرس کی نئی اقسام میں ہونے والی میوٹیشنز کے مدنظر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ویرینٹس آف انٹرسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔

    اگر وہ زیادہ متعدی یا بیماری کی شدت بڑھانے کا باعث ثابت ہو تو انہیں تشویشناک اقسام میں شامل کردیا جاتا ہے، سی 1.2 جنوبی افریقہ میں 2020 کی وسط میں کرونا کی پہلی لہر کا باعث بننے والی قسم سی 1 میں تبدیلیوں سے ابھری ہے۔

    کوازولو نیٹل ریسرچ انوویشن اینڈ سیکونسنگ پلیٹ فارم اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار کمیونیکل ڈیزیز کی مشترکہ تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے بارے میں بتایا گیا۔

  • بچے کو بچانے کے لیے مادہ گینڈا شیرنی کے مدمقابل آگئی

    بچے کو بچانے کے لیے مادہ گینڈا شیرنی کے مدمقابل آگئی

    ماں کی محبت وہ لازوال قوت ہے جو اپنے بچے کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے، اپنے بچے کو خطرے میں دیکھتے ہوئے ماں بڑے سے بڑے خطرے سے لڑ جاتی ہے۔

    ایسی ہی ایک ویڈیو سوشل میڈیا صارفین کو حیرت میں مبتلا کیے ہوئے ہے جس میں ایک مادہ گینڈا اپنے بچے کو بچانے کے لیے شیرنی کے مدمقابل آجاتی ہے۔

    جنوبی افریقہ کے نیشنل پارک میں ریکارڈ کی گئی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے مادہ گینڈا اپنے بچے کے ساتھ جنگل میں چہل قدمی کر رہی ہے جبکہ سامنے سے ایک شیرنی آتی دکھائی دے رہی ہے۔

    بظاہر دونوں پرسکون ہو کر اپنی راہ چلتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ایک موقع پر شیرنی گینڈے کے بچے کے کچھ قریب آجاتی ہے جس پر مادہ گینڈا بھڑک کر حملے کی نیت سے شیرنی کی طرف بڑھتی ہے۔

    لیکن اس سے پہلے ہی شیرنی وہاں سے دور ہو جاتی ہے اور راستہ بدل کر فرار ہوجاتی ہے۔

    سوشل میڈیا صارفین نے اس ویڈیو پر حیرانی کا انتظار کیا، کچھ صارفین کا کہنا تھا کہ مادہ گینڈے کے ڈیل ڈول سے ظاہر ہے کہ وہ شیرنی پر حاوی ہوسکتی ہے چنانچہ شیرنی نے راستہ بدلنے میں ہی عافیت جانی، ورنہ اسے اپنی جان کے لالے پڑ جاتے۔

  • دوران کرتب نشانہ خطا ہوگیا، تیر بازی گر کی پیشانی میں پیوست

    دوران کرتب نشانہ خطا ہوگیا، تیر بازی گر کی پیشانی میں پیوست

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقا میں اسٹیج پر دوران کرتب ایک شعبدہ باز کا چلایا گیا تیر سچ میں دوسرے کی پیشانی میں پیوست ہو گیا، جس پر اسے شدید زخمی حالت میں ایمرجنسی میں اسپتال لے جایا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کرتب کے دوران ایک شعبدہ باز کی معمولی غلطی دوسرے کے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہوتے رہ گئی، جنوبی افریقا میں دو شعبدے بازوں کی معروف جوڑی کی جانب سے کرتب کے دوران پھینکا جانے والا تیر غلطی سے دوسرے جادوگر کی پیشانی پر جا لگا، جسے دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔

    لائی لاؤ اور برینڈن پیل کی جوڑی دنیا بھر میں مقبول ہے، لائی لاؤ کو ’ون کریزی چائنا‘ بھی کہا جاتا ہے، لائی لاؤ اپنے ساتھی کے چلائے گئے تیر کا اس وقت نشانہ بنا جب وہ جنوبی افریقا کے علاقے ماکھنڈا میں نیشنل آرٹس فیسٹیول میں اپنے فن کا مظاہرہ کررہے تھے۔

    جیسے ہی برینڈن نے تیر چلایا، اس کا نشانہ خطا ہوگیا، اور تیر لاؤ لائی کی پیشانی میں پیوست ہوگیا، جسے دیکھ کر لوگ سکتے میں آ گئے اور بعض افراد رونے لگے، کچھ لوگوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا ہو گیا ہے۔

    منتظمین نے فوری طور پر لاؤ کو اسپتال پہنچایا اور اس کے بعد پورا ہال خالی کرا دیا، جب کہ انتظامیہ کے بعض لوگ تماشائیوں کو تسلی دیتے رہے۔

    متاثرہ شعبدے باز کو فوری طبی امداد پہنچائی گئی اور سر پر تین ٹانکے لگائے گئے، ڈاکٹرز نے بتایا کہ خوش قسمتی سے تیر نے کھوپڑی کو نہیں توڑا ورنہ لائی لاؤ کی جان کے لالے پڑ سکتے تھے۔

    واقعے سے متعلق بات کرتے ہوئے جادوگر برینڈن نے کہا کہ یہ ایک بصری دھوکا تھا، جو کبھی بھی جان لیوا ثابت نہیں ہوا، شاید اس بار ہماری خاص کمان ’کراس بو‘ میں کوئی گڑبڑ ہوئی ہے۔

  • کیا کرونا وائرس کے ماخذ کی سائنس دانوں کی تلاش میں سیاست دان رکاوٹ ہیں؟

    کیا کرونا وائرس کے ماخذ کی سائنس دانوں کی تلاش میں سیاست دان رکاوٹ ہیں؟

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقا کے وبائی امراض کے ایک نامور ماہر نے کہا ہے کہ مغربی ممالک کے سیاست دان کرونا وائرس کے ماخذ کی تلاش کی کوششوں میں دخل اندازی نہ کریں۔

    تفصیلات کے مطابق چینی میڈیا سے ایک انٹرویو میں وبائی امراض کے نامور ماہر پروفیسر سلیم عبدالکریم نے مغربی ممالک کے سیاست دانوں پر زور دیا ہے کہ وہ کووِڈ 19 وائرس کے ماخذ کی تلاش میں دخل اندازی نہ کریں تاکہ سائنس دان بنا کسی رکاوٹ کے وائرس کے ماخذ کی تلاش کر سکیں۔

    انھوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) مختلف ممالک کے سائنس دانوں کے ساتھ مل کر وائرس کے ماخذ کے بارے میں مشترکہ تحقیق کے لیے کوشاں ہے، جب کہ چین وائرس کے ماخذ کی تلاش میں عالمی ادارہ صحت کے ساتھ تعاون کرنے والا پہلا ملک ہے، چین نے عالمی ادارہ صحت سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے۔

    واضح رہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ نے خفیہ ادارے کو وائرس کے ماخذ کی تلاش پر مامور کیا ہے، اور لوگوں کو تشویش ہے کہ امریکا چین کے ساتھ سیاسی اختلاف کو وائرس کے ماخذ کی تلاش میں شامل کر رہا ہے، سلیم کریم کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو سائنسی پیمانے پر اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔

    خیال رہے کہ تاحال متعدد تحقیقی نتائج ثابت کرتے ہیں کہ چین کے شہر ووہان میں وبا کے پھیلاؤ سے قبل ہی دنیا کے متعدد خطوں بشمول یورپ اور امریکا میں ملتی جلتی علامات دیکھی گئی ہیں۔

    جنوبی افریقا کے وبائی امراض کے ماہر سلیم کریم نے کہا کہ وائرس کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہے، ہمیں الزام تراشی کی بجائے سائنس کی بنیاد پر اس معاملے کی تفتیش کرنی چاہیئے، وبا بدستور پھیل رہی ہے، امید ہے کہ کچھ سیاست دان بالخصوص امریکی سیاست دان عالمی ادارہ صحت کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔

  • جنوبی افریقا نے بھی چین کی سائنوویک ویکسین کی منظوری دے دی

    جنوبی افریقا نے بھی چین کی سائنوویک ویکسین کی منظوری دے دی

    جوہانسبرگ: جنوبی افریقا نے بھی کرونا وائرس کے خلاف چین کی تیار کردہ سائنوویک ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی افریقی وزیر صحت نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ حکام نے چین کی تیار کردہ سائنوویک کرونا ویکسین کے مقامی سطح پر استعمال کی منظوری دے دی ہے۔

    جنوبی افریقا کو کرونا وائرس کی وبا کی تیسری اور بہت خطرناک لہر کا سامنا ہے، اسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں، جب کہ ملک میں کرونا انفیکشن سے مرنے والوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ کر 60 ہزار ہو چکی ہے۔

    وزیر صحت مامولوکو کوبائی نے اپنے بیان میں کہا کہ میں ریگولیٹری حکام کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ایمرجنسی کو سمجھتے ہوئے اقدام اٹھایا اور کرونا ویکسین کے لیے رجسٹریشن کی درخواستوں کے لیے درکار وقت کو بھی کم سے کم رکھا۔

    یاد رہے کہ جون 2020 میں چینی کمپنی سائنوویک کی ’کروناویک‘ کے نام سے ویکسین چین میں ہنگامی استعمال کے لیے منظور ہونے والی پہلی ویکسین تھی، اس کے بعد 5 فروری 2021 کو اس کی مشروط مارکیٹنگ کی اجازت بھی دی گئی۔

    یکم اپریل 2021 کو کروناویک کی بڑی مقدار میں پیداوار کے لیے مینوفیکچرنگ فیسلٹی کے تیسرے فیز کی تکمیل کی گئی اور اس نے کام بھی شروع کر دیا، جس سے اس کی سالانہ پیداواری صلاحیت 2 ارب ڈوزز سے بھی بڑھ گئی، اور اب تک سائنوویک کمپنی 40 ممالک اور علاقوں کو کروناویک فراہم کر چکی ہے۔

    یکم جون 2021 کو عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے بھی سائنوویک کی کرونا ویکسین کو ہنگامی استعمال کے لیے منظور کر لیا، اور یہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے منظوری حاصل کرنے والی سائنوفارم کے بعد دوسری چینی ویکسین بنی۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق ویکسین کے ٹرائلز کے نتائج میں دیکھا گیا کہ جن لوگوں کو یہ ویکسین لگائی گئی، ان میں اس نے 51 فی صد میں علاماتی کرونا وائرس بیماری کو روکا، جب کہ شدید کرونا انفیکشن اور اسپتال داخلوں کو روکنے میں یہ 100 فی صد مؤثر ثابت ہوئی۔

  • سرمایہ کاری کا جھانسا دے کر دو بھائی اربوں ڈالر مالیت کے بٹ کوائن لے اڑے

    سرمایہ کاری کا جھانسا دے کر دو بھائی اربوں ڈالر مالیت کے بٹ کوائن لے اڑے

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقا میں دو بھائی سرمایہ کاری کا جھانسا دے کر اربوں ڈالر مالیت کے بٹ کوائن لے کر غائب ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق دو جنوبی افریقی بھائی مبینہ طور پر 3 ارب 60 کروڑ ڈالر مالیت کے بٹ کوائن لے کر بھاگ گئے ہیں، بٹ کوائن ان کے کرپٹو کرنسی انویسٹمنٹ پلیٹ فارم پر رکھوائے گئے تھے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق متاثرین نے ایک قانونی فرم سے مدد مانگ لی ہے، متاثرین کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری کمپنی ایفریکرپٹ کے مالکان امیر کاجی اور رئیس کاجی بٹ کوائنز لے کر کہیں غائب ہو چکے ہیں۔

    قانونی فرم نے دنیا بھر میں کرپٹو ایکسچینجز کو خبردار کر دیا ہے کہ ان کے پلیٹ فارمز پر کوئی ڈیجیٹل کرنسی فروخت کرنے آ سکتا ہے۔

    کہا جا رہا ہے کہ دونوں بھائی 69 ہزار بٹ کوائنز لے کر برطانیہ بھاگ گئے ہیں، سافٹ ویئر کمپنی بلومبرگ کے مطابق اس مسئلے کے آثار اپریل سے نظر آنا شروع ہو گئے تھے، جب ایفریکرپٹ نے کلائنٹس کو نقصان سے متعلق خبردار کیا، حالاں کہ اس وقت بٹ کوائن بلندی پر جا رہا تھا۔

    ایفریکرپٹ نے کلائنٹس سے یہ بھی کہا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے حکام کو خبردار نہ کریں، اس سے نقصان کی بحالی کا سلسلہ سست ہونے کا خطرہ ہے۔ بلومبرگ کے مطابق قانونی کارروائی سے روکنے کا اعلان ہی معاملہ مشکوک ہونے کی نشانی تھی، دراصل ایفریکرپٹ کے کلائنٹس مبینہ نقصان کی خبر آنے سے 7 دن قبل اپنے اپنے پلیٹ فارمز تک رسائی کھو چکے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق کیپ ٹاؤن کی قانونی فرم بھی بھاگے ہوئے بھائیوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے، اور جنوبی افریقی پولیس کے خصوصی یونٹ ہاکس کو رپورٹ درج کرا دی گئی ہے، جو منظم جرائم کی تفتیش کرتی ہے۔

    واضح رہے کہ دو برسوں میں یہ جنوبی افریقی کرپٹو کرنسی سرمایہ کاروں کو پہنچنے والا دوسرا بڑا نقصان ہے، اس سے قبل ایک ٹریڈنگ پلیٹ فارم کے سی ای او جوہان اسٹینبرگ 23 ہزار بٹ کوائنز لے غائب ہو گیا تھا۔

  • دعوت میں غیر متوقع طور پر شیر کی آمد

    دعوت میں غیر متوقع طور پر شیر کی آمد

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ میں ایک سفاری پارک میں پارٹی کرنے والوں کی اس وقت سانسیں تھم گئیں جب انہوں نے ایک ببر شیر کو اپنے کھانے کی میزوں کے گرد چکر لگاتے دیکھا۔

    جنوبی افریقہ کے جنگلات میں اس نجی گیم ریزرو کا عملہ پارٹی کی تیاری میں مصروف تھا جب انہوں نے ایک شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا۔

    کھانے کی میز پر بھنا ہوا گوشت اور مختلف اقسام کے کھانے رکھے جارہے تھے اور یقیناً اسی کی خوشبو اس شیر کو کھینچ لائی تھی۔

    قریب آ کر اس شیر نے میز کے گرد چکر لگانے شروع کردیے، اس اثنا میں میزبان اور مہمان بھی کھانے کے لیے آ پہنچے جو ایک غیر متوقع مہمان کو دیکھ کر دور رک گئے۔

    شیر نے اطمینان سے میزوں کے گرد چکر لگایا اس کے بعد کسی بھی چیز کو چکھے بغیر وہاں سے واپس روانہ ہوگیا۔

    دعوت کے میزبان کا کہنا تھا کہ ان کے گھر برطانیہ سے کچھ دوست آئے تھے جو ان کے گھر پر قیام پذیر تھے، یہ دعوت انہی کے لیے کی گئی تھی۔

    میزبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اکثر اوقات یہاں شیروں سمیت کئی جانوروں کو دیکھا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ شیر اتنا قریب آگیا تھا۔

    ان کے مطابق ان کے مہمان بھی اس نایاب نظارے سے بے حد حیران اور لطف اندوز ہوئے، یہ ان سب کی زندگی کا ایک یادگار لمحہ تھا۔

  • سمندر سے عجیب و غریب مخلوق برآمد، کمزور دل افراد نہ دیکھیں

    سمندر سے عجیب و غریب مخلوق برآمد، کمزور دل افراد نہ دیکھیں

    جنوبی افریقہ میں سمندر سے ساحل پر آجانے والی عجیب و غریب سمندری حیات نے مقامی افراد کو خوفزدہ کردیا۔

    جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کے ساحل پر چہل قدمی کرتے افراد نے نیلے رنگ کے اس آبی جاندار کو دیکھا جو دیکھنے میں ڈریگن کی طرح ہے۔

    مشہور تصوراتی جانور ڈریگن سے اس کی شباہت کی وجہ سے اسے بلو ڈریگن کہا جاتا ہے جبکہ اسے سمندر کا حسین ترین قاتل بھی مانا جاتا ہے۔

    ان ڈریگنز کی غذا سمندر کے زہریلے جاندار ہیں جنہیں کھانے کے بعد یہ خود بھی زہریلے بن جاتے ہیں، اگر یہ کسی انسان کو ڈنک مار دیں تو وہ متلی اور درد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

    بظاہر دیکھنے میں ڈریگن کی طرح معلوم ہونے والے اس جاندار کے جسم کے دیگر اعضا بھی پرندوں، چھپکلی اور ہشت پا کی طرح ہیں۔

    ان کی جسامت ایک انچ ہوتی ہے جبکہ یہ اوپر سے نیلے اور نیچے سے سفید ہوتے ہیں۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سمندر سے اکثر اوقات مختلف اقسام کی آبی حیات ساحل پر آجاتی ہے تاہم وہ انہیں خالی ہاتھ سے واپس سمندر میں ڈالنے سے پرہیز کرتے ہیں کہ کہیں وہ زہریلے نہ ہوں۔

    مقامی افراد کی جانب سے بلو ڈریگن کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں جو بے حد وائرل ہورہی ہیں۔