Tag: جنوبی کوریا

  • جنوبی کوریا کا جان لیوا حادثے کے بعد طیاروں سے متعلق اہم فیصلہ

    جنوبی کوریا کا جان لیوا حادثے کے بعد طیاروں سے متعلق اہم فیصلہ

    جنوبی کوریا کی حکومت طیارے کے المناک حادثے کے بعد تباہ ہونے والے ماڈل کے تمام طیاروں کی چھان بین کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اتوار کو جنوبی کوریا میں طیارے کے جان لیوا حادثے نے لوگوں کو حیران و مضطرب کردیا تھا، حکومت نے ملک کے جنوب مغرب میں ایک ہوائی اڈے پر گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے ماڈل کی چھان بین کا ارادہ ظاہر کیا ہے، چھ ملکی ایئر لائنز کے پاس ایسے 101 طیارے ہیں۔

    اندرون ملک اڑنے والے تمام طیاروں کی چھان بین کی جائے گی، جنوبی کوریا کے حکام ان طیاروں کے انجنوں کے ساتھ ساتھ لینڈنگ گیئر کا بھی معائنہ کرنا چاہتے ہیں۔

    یہ بوئنگ 737 طیارہ بنکاک سے جاتے ہوئے مُوان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں 179 افراد مارے گئے تھے۔

    جنوبی کوریا کی بجٹ ائیر لائن جیجو ایئر کے زیر انتظام چلنے والے اس طیارے میں 181 افراد سوار تھے، صرف دو افراد حادثے میں زندہ بچے ہیں۔

    ملکی حکام کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر کو جزوی نقصان پہنچا ہے، نیوز ایجنسی نے جنوبی کوریا کے تحقیقاتی بورڈ کے ایک رکن کے حوالے سے بتایا ہے کہ ریکارڈر کو ڈی کوڈ کرنے میں ایک ماہ لگ سکتا ہے۔

    حکام نے بتایا کہ امریکی نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کا عملہ چھان بین میں شامل ہو گا تاکہ فلائٹ ڈیٹا اور طیارے سے حاصل کیے گئے کاک پٹ وائس ریکارڈرز کا تجزیہ کیا جا سکے، امریکی حکام کے ساتھ مل کر حادثے کی تحقیقات کی جائے گی۔

  • جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سک کے خلاف عدالت کا بڑا فیصلہ

    جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سک کے خلاف عدالت کا بڑا فیصلہ

    سئول: عدالت نے جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سک یول کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق مارشل لگانے پر جنوبی کوریا کی عدالت نے سابق صدر یون سک یول کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے تحقیقات کے لیے یون سک یول کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔

    جنوبی کوریا میں پہلی بار کسی سابق صدر کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں، مارشل لا بغاوت تھا یا نہیں، ان کے خلاف اس کی تحقیقات جاری ہے۔ یون سک یول پولیس اور کرپشن انویسٹی گیشن یونٹ کے سوالوں کے جوابات نہیں دے رہے تھے۔

    یون سک یول نے 3 دسمبر کو مارشل لا نافذ کیا تھا، لیکن اپوزیشن اور عوام کے ملک گیر احتجاج پر صرف 6 گھنٹے بعد حکم نامہ واپس لے لیا تھا۔ یون سک یول 14 دسمبر کو پارلیمنٹ میں مواخذے کے بعد معزول کر دیے گئے تھے۔

    جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ کے تمام 300 اراکین نے یون سک یول کے خلاف مواخذے پر ووٹنگ میں حصہ لیا تھا اور 204 ارکان نے ان کے مواخذے کے لیے ووٹ دیا تھا۔

    صدر یون کے وکیل نے گرفتاری کے خلاف عدالت میں کہا تھا کہ وارنٹ کی درخواست غلط ہے، اور انسداد بدعنوانی ایجنسی کے پاس بغاوت کے الزامات کی تحقیقات کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔

  • کیا جنوبی کوریا کے سابق صدر یون کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جائیں گے؟

    کیا جنوبی کوریا کے سابق صدر یون کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جائیں گے؟

    سئول: جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سک یول کے وارنٹ گرفتاری کے لیے حکام نے عدالت میں درخواست دائر کر دی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی یونٹ نے پیر کو معزول صدر یون سک یول کے خلاف عدالتی وارنٹ گرفتاری کی درخواست دائر کر دی ہے۔

    جنوبی کوریا کے قانون نافذ کرنے والے حکام مواخذے کے شکار صدر یون سک یول کو حراست میں لینا چاہتے ہیں، تاکہ اس بات کی تحقیقات کی جا سکے کہ آیا 3 دسمبر کو ان کا قلیل مدتی مارشل لا کا حکم نامہ بغاوت کے مترادف تھا یا نہیں۔

    کرپشن انوسٹیگیشن آفس نے تصدیق کی ہے کہ اس نے سئول ویسٹرن ڈسٹرکٹ کورٹ سے وارنٹ کی درخواست کی ہے، کہ وہ یون سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور بغاوت کو منظم کرنے کے الزام میں پوچھ گچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    دوسری طرف صدر یون کے وکیل نے گرفتاری کی کوشش کی مذمت کی اور اسی عدالت میں اس کے خلاف چیلنج دائر کیا، اور یہ دلیل دی کہ وارنٹ کی درخواست غلط ہے، وکیل نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انسداد بدعنوانی ایجنسی کے پاس بغاوت کے الزامات کی تحقیقات کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔

    ایک ہفتے میں طیاروں کے 4 ہولناک حادثات نے دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا

    مارشل لا لگانے پر یون کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا فیصلہ عدالت کرے گی، واضح رہے کہ جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سک یول 14 دسمبر کو مارشل لا کے مختصر اعلان پر پارلیمنٹ میں مواخذے کے بعد معزول کر دیے گئے تھے۔

    جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ کے تمام 300 اراکین نے یون سک یول کے خلاف مواخذے پر ووٹنگ میں حصہ لیا تھا اور 204 ارکان نے ان کے مواخذے کے لیے ووٹ دیا تھا۔

  • جنوبی کوریا میں لینڈنگ کے دوران طیارہ حادثے میں ہلاک افراد کی تعداد 124 ہوگئی

    جنوبی کوریا میں لینڈنگ کے دوران طیارہ حادثے میں ہلاک افراد کی تعداد 124 ہوگئی

    جنوبی کوریا کے موان ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے دوران مسافر طیارے کو حادثہ پیش آیا، جس میں ہلاکتوں کی تعداد 124 ہوگئی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق طیارے کو حادثہ لینڈنگ گیئر میں خرابی کے باعث پیش آیا، طیارہ رن وے سے اتر کر اطراف میں لگی باڑ سے ٹکرا گیا، جس سے طیارے میں آگ لگ گئی۔

    رپورٹ کے مطابق طیارے میں 175 مسافر اور عملے کے 6 ارکان سوار تھے، حادثے کے بعد دو افراد کو زندہ نکال لیا گیا ہے، جبکہ ایمرجنسی عملے نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے طیارے میں بھڑکنے والی آگ پر قابو پا لیا، جبکہ حادثے کے مقام پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں، حادثے کا شکار مسافر طیارہ تھائی لینڈ کے شہر بنکاک سے واپس آرہا تھا۔

    ایوی ایشن حکام اور ماہرین نے حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہیں، حادثہ موان ایئرپورٹ پر پیش آیا، جو جنوبی کوریا کا ایک مصروف اور اہم ہوائی اڈہ ہے۔

  • جنوبی کوریا : مضبوط جمہوریت آمریت کا راستہ کیسے روکتی ہے؟

    جنوبی کوریا : مضبوط جمہوریت آمریت کا راستہ کیسے روکتی ہے؟

    جنوبی کوریا میں مارشل لاء کے اعلان اور اس کے چند گھنٹوں بعد ہی شدید عوامی ردعمل کے بعد اس فیصلے کا واپس ہوجانا زندہ قوم اور جمہوریت کی بہتری مثال ہے۔

    ملک میں مارشل لاء کے نفاذ اور بعد میں اس فیصلے کی واپسی کیسے ہوئی اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے تما م صورتحال بیان کرتے ہوئے اپنا تجزیہ پیش کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس تاریخی واقعے کا آغاز 3 دسمبر کو ہوا جب جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے ملک میں جمہوریت کا بوریا بستر گول کرتے ہوئے ماشل لاء کے نفاذ کا اعلان کیا لیکن چند ہی گھنٹوں کے اندر شکست خوردہ صدر نے شدید عوامی ردعمل اور پارلیمنٹ کے ووٹ کو تسلیم کیا اور اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے مارشل لا کے خاتمے کا حکم جاری کر دیا۔

    ماشل لاء کے نفاذ سے قبل قوم سے خطاب میں انھوں نے اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف رویے کا ذکر کیا اور پھر کہا کہ وہ مارشل لا نافذ کر رہے ہیں تاکہ تباہی پھیلانے والے ریاست مخالف عناصر کو کچلا جا سکے، جس کے بعد عوام سڑکوں پر نکل آئے۔

    اور آج آخر کار سابق صدر کو یہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ ان کیخلاف مواخذے کی تحریک بھی کامیاب ہوئی اور انہیں اس عہدے سے علیحدہ کردیا گیا۔

    اس واقعے کے دو محرکات تھے پہلا یہ کہ فیصلے کیخلاف عوام بڑی تعداد میں گھروں سے باہر نکل آئے، اور سڑکوں پر آکر یہ حکومت کو پیغام دیا کہ کسی بھی قاسم کی آمریت کو قبول نہیں کریں گے۔

    دوسری جانب سیاستدانوں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا صدارتی تقریر سننے کے بعد وہ رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے فوری طور پر پارلیمنٹ پہنچے اور ووٹ کا حق استعمال کرکے اس اقدام کا رستہ روکا۔

    اس بعد دنیا نے دیکھا کہ کس طرح فوج پیچھے ہٹی اور صدر کو مارشل لاء کا فیصلہ واپس لینا پڑا، یہی نہیں 7 دسمبر کو صدر نے قوم سے اپنی غلطی کی معافی مانگی۔ لیکن ان کا معافی مانگنا کافی نہیں تھا جس کے بعد ان کا مواخذہ کرنے کی تحریک شروع کی گئی۔

    پہلی بار یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی جس کے بعد صدر یون سک یول نے 12 دسمبر کو ایک بار پھر مارشل لاء کے نفاذ کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے اس کا دفاع کیا۔ لیکن آج ان ہی کی جماعت کے ووٹ سے ان کا مواخذہ ہوگیا۔اس تمام صورت حال میں دس دن لگے۔

    مواخذے کی تحریک

    جموبی کوریا کی پارلیمنٹ نے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کی ناکام کوشش کرنے والے صدر کیخلاف مواخذے کے حق میں فیصلہ کیا، پارلیمنٹ کے 300قانون سازوں میں سے 204 اراکین نے مواخذے کے حق میں جبکہ 85 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق ووٹنگ کے بعد صدر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، اور اب آئینی عدالت اس کیس کا جائزہ لے رہی ہے جبکہ جنوبی کوریا کے وزیر اعظم کو قائم مقام صدر کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔

    اگر آئینی عدالت ان کی برطرفی کی حمایت کرتی ہے تو سابق صدر یون سک یول جنوبی کوریا کی تاریخ کے دوسرے صدر بن جائیں گے جو مواخذے کا شکار ہوں گے۔

    اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق رائے دہی کے وقت پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر تقریباً دو لاکھ شہری جمع ہوگئے اور وہ بھی سابق صدر کے مواخذے کی حق میں شدید نعرے بازی کررہے تھے۔

    اس کے برعکس اسی مقام پر سابق صدر کے حق میں نکالی جانے والی ریلی کے شرکاء کی تعداد 30ہزار کے لگ بھگ بتائی جارہی ہے۔

    جمعے کے روز جاری ہونے والے گیلپ کوریا کے سروے کے مطابق سابق صدر کی پسندیدگی کی ریٹنگ 11فیصد تک گرگئی تھی۔ سروے کے نتائج کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ملک کے 75فیصد عوام ان کے مواخذے کی حمایت کرتے ہیں۔

    جنوبی کوریا کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے صدر یون سک یول کے مواخذے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سئول کی سڑکوں پر ہزاروں افراد جشن منا رہے ہیں۔ آئینی عدالت کے پاس مواخذے پر فیصلہ دینے کے لیے اب 6 ماہ کا وقت ہے۔

  • جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف مارشل لا لگانے پر مواخذے کی دوسری تحریک کامیاب ہو گئی

    جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف مارشل لا لگانے پر مواخذے کی دوسری تحریک کامیاب ہو گئی

    سئول: جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف مارشل لا لگانے پر مواخذے کی دوسری تحریک کامیاب ہو گئی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مارشل لا میں ملوث جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے خلاف مواخذے کی دوسری تحریک پر ووٹنگ کامیاب ہو گئی، صدر کو ان کے فرائض سے معطل کر دیا گیا۔

    اب عدالت فیصلہ کرے گی کہ صدر کو عہدے سے ہٹایا جائے یا نہیں، صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک کے حق میں 300 اراکین میں سے 204 ارکان نے ووٹ دیے۔

    جنوبی کوریا کی حکمران جماعت کے پارلیمنٹیرینز نے صدر کے خلاف مواخذے پر ووٹ دینے کے لیے اتفاق کر لیا تھا، مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنے والے جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے خلاف تقریباً 2 لاکھ سے زائد مظاہرین دارالحکومت سئول میں پارلیمنٹ بلڈنگ کے باہر مظاہرے میں شریک ہوئے۔

    جنوبی کوریا کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے صدر یون سک یول کے مواخذے کے حق میں ووٹ دینے کے بعد سئول کی سڑکوں پر ہزاروں افراد جشن منا رہے ہیں۔ وزیر اعظم قائم مقام صدر کے طور پر کام کریں گے، جب کہ آئینی عدالت کے پاس مواخذے پر فیصلہ دینے کے لیے اب 6 ماہ کا وقت ہے۔

    روس نے فرار کے وقت بشار الاسد کے طیارے کو حملے سے بچانے کے لیے کیا کیا؟

    یون سک یول نے مختصر مدت کے مارشل لا کے اعلان کے ساتھ ملک کو سیاسی بحران میں ڈال دیا تھا، گزشتہ ہفتے کے آخر میں مواخذے کی ووٹنگ سے وہ بچ گئے تھے، ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن وہ اقتدار سے چمٹے رہے، یون اور ان کے اتحادی اس وقت بغاوت کے الزامات کے تحت زیر تفتیش ہیں، اور ان میں سے کئی پر سفری پابندی عائد کی گئی ہے۔

  • جنوبی کوریا کے صدر پر بیرون ملک سفر پر پابندی لگ گئی

    جنوبی کوریا کے صدر پر بیرون ملک سفر پر پابندی لگ گئی

    سئول: جنوبی کوریا نے اپنے صدر پر بیرون ملک سفر پر پابندی لگا دی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول پر مارشل لا لگانے کی ناکام کوشش پر ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جنوبی کوریا میں قیادت کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے اور صدر سے استعفے کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں۔

    وزارت انصاف کے حکام نے بتایا کہ مارشل لانافذ کرنے پر صدر یون سک یول پر غیر ملکی سفر پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا، جس پر فوری عمل درآمد کر دیا گیا ہے۔

    حکمران پارٹی پی پی پی نے صدر یون سک یول سے خارجہ اور دیگر ریاستی امور کے اختیارات چھین کر وزیر اعظم کو تفویض کر دیے ہیں، کورین صدر کے خلاف غیر آئینی اقدام پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

    جنوبی کوریا کے وزیر دفاع گرفتار

    ہفتے کے روز صدر کے مواخذے کے لیے ووٹنگ ہو رہی تھی تاہم یون کی پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) نے ووٹنگ سے قبل چیمبر سے واک آؤٹ کر لیا، تحریک ناکام ہونے کے بعد ان پر بغاوت کے ساتھی ہونے کا الزام لگایا گیا۔

    پارٹی کے رہنما ہان ڈونگ ہون نے کہا کہ یون کو خارجہ اور دیگر ریاستی امور سے باہر رکھا جائے گا، اور وزیر اعظم ہان ڈک سو اس وقت تک حکومتی امور کو دیکھیں گے جب تک یون آخر کار ایک طرف نہیں ہٹ جاتے۔ صدارتی اختیار وزیر اعظم کو سونپنے کے فیصلے نے ایشیا کی چوتھی بڑی معیشت کو آئینی بحران میں دھکیل دیا ہے۔

  • جنوبی کوریا کی خوبصورت خاتون اوّل کے بارے میں‌ انکشاف

    جنوبی کوریا کی خوبصورت خاتون اوّل کے بارے میں‌ انکشاف

    سئول: آخر کار جنوبی کوریا کے صدر نے مارشل لا لگانے پر قوم سے معافی مانگ لی ہے، ایسے میں خاتونِ اوّل کا تذکرہ بھی میڈیا رپورٹس کی زینت بننے لگا ہے، اور صدر مملکت کی اہلیہ ’کِم کیون ہی‘ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہی مارشل لا کا اعلان کے پیچھے اصل محرک ہے۔

    کم کیون ہی اپنے پُر تعیش طرز زندگی کے لیے جانی جاتی ہیں، وہ یانگ پیونگ شہر میں پیدا ہوئیں، اور ان کا ابتدائی نام ’کم میونگ سی‘ تھا، لیکن بعد میں انھوں نے 2008 میں اپنا نام بدل کر کم کیون ہی رکھ لیا۔

    کِم کیون ماضی میں کئی تنازعات کا شکار رہ چکی ہیں، 2019 میں ان پر ٹیکس ادا نہ کرنے کے الزامات لگے، وہ آرٹ کی نمائشوں کی میزبانی کے لیے رشوت وصول کرنے کے الزام میں بھی زیر تفتیش رہیں، 2021 میں معلوم ہوا کہ انھوں نے 2007 اور 2013 کے درمیان تدریسی ملازمتوں کے لیے درخواست دیتے ہوئے اپنے سی وی میں غلط معلومات درج کیں، جس پر بعد میں انھوں نے عوامی طور پر معافی مانگی۔

    خاتون اوّل اسٹاک ہیرا پھیری کے تنازع میں بھی الجھی رہیں، ان پر الزام لگا کہ وہ ڈوئچے موٹرز کے ساتھ 63.6 بلین وان اسٹاک ہیرا پھیری میں شریک تھیں، تاہم ان پر فرد جرم عائد نہیں ہوئی کیوں کہ ان کے خلاف ناکافی ثبوت تھے۔

    مجھے معاف کر دیں، دوبارہ مارشل لا نہیں لگاؤں گا، صدر جنوبی کوریا

    دل چسپ بات یہ ہے کہ انھیں اکثر ’کم کیون رِسک‘ بھی کہا جاتا ہے، یعنی یہ کہ ان تنازعات کی وجہ سے وہ اپنے شوہر کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ان کی والدہ چوئی یون سن کو رئیل اسٹیٹ فراڈ ثابت ہونے پر 2023 میں ایک سال کی سزا سنائی گئی، جب کہ 2013 سے 2015 تک میڈیکل لائسنس کے بغیر نرسنگ ہوم چلانے کے الزامات سے بری کیا گیا تھا۔

    2022 میں جب خاتون اوّل 30 لاکھ وان مالیت کے کرسچن ڈائر بیگ کا تحفہ قبول کر رہی تھیں، تو خفیہ طور پر ان کی تصویر کھینچی گئی، جس نے عوامی حلقوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی۔

  • عوام مجھے معاف کر دیں، دوبارہ مارشل لا نہیں لگاؤں گا، صدر جنوبی کوریا

    عوام مجھے معاف کر دیں، دوبارہ مارشل لا نہیں لگاؤں گا، صدر جنوبی کوریا

    سئول: جنوبی کوریا کے صدر یون سُک یول نے ملک میں مارشل لا لگانے پر قوم سے معافی مانگ لی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوبی کوریا کے سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں صدر یون سُک یول نے مارشل لا لگانے پر قوم سے معافی مانگتے ہوئے کہا عوام مجھے معاف کر دیں، دوبارہ مارشل لا نہیں لگاؤں گا۔

    انھوں نے کہا مارشل لا مایوسی کے باعث لگایا، اس فیصلے کی ذمہ داری لیتا ہوں، مجھے افسوس ہے کہ میرے اقدام سے عوام میں غم و غصہ پیدا ہوا۔ صدر نے کہا ’’میں مارشل لا کے اعلان سے متعلق اقدامات کی سیاسی اور قانونی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش نہیں کروں گا۔‘‘

    یون نے کہا ’’میں اپنے عمل کے لیے دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہوں، اور میں سیدھے الفاظ میں کہوں گا کہ دوسرے مارشل لا جیسی کوئی صورت حال نہیں ہوگی۔‘‘

    مارشل لا کیوں لگایا؟ جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف پولیس نے بغاوت کی تحقیقات شروع کر دی

    تاہم معافی مانگنے کے باوجود انھوں نے عہدے سے استعفی نہیں دیا، جس پر عوام نے صدر کی معافی کو مسترد کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    دارالحکومت سئول میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور صدر یون سے فوری استعفی کا مطالبہ کر رہے ہیں، دوسری طرف اپوزیشن کی جانب سے آج پارلیمنٹ میں جنوبی کوریا کے صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک پر ووٹنگ ہوگی۔

    یاد رہے کہ 3 دسمبر کو جنوبی کوریا کے صدر نے ملک میں مارشل لا لگانے کا اعلان کیا تھا، جس پر عوام کے احتجاج کے بعد 2 گھنٹے میں فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

  • جنوبی کوریا کا مارشل لاء اور ہمارا وطن

    جنوبی کوریا کا مارشل لاء اور ہمارا وطن

    تحریر: ارسلان سید

    جنوبی کوریا میں صدر نے گذشتہ دنوں مارشل لاء کا نفاذ کیا مگر پھر اپوزیشن پارلیمنٹ میں متحرک ہوئی اور مشترکہ قرار داد منظور کرکے صدریون سیک یول کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جس کے نتیجے میں صرف 6 گھنٹے بعد ہی مارشل لاء ختم کردیا گیا۔ یہ شاید جدید دور کی تاریخ کا مختصر ترین مارشل لاء ہے۔ تاہم یہ سلسلہ صرف یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اپوزیشن نے صدر یون سیک یول کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا۔ یہ مثال صرف ترقی یافتہ ممالک میں ہی دیکھی جاسکتی ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں ایسے پارلیمانی احتساب کا تصور کرنا بھی محال ہے۔

    جنوبی کوریا جس کی معشیت مضبوط ہے، اس کی کل جی ڈی پی کا 50 فیصد برآمدات پر انحصار کرتا ہے جس کی مالیت 644 بلین امریکی ڈالر ہے لیکن اقتصادی طور پر مستحکم معشیت کے ہوتے ہوئے بھی جنوبی کوریا کو مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ارسطو جو آج کل دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ اقتصادی طور پر مضبوط ملک اندرونی طور پر کبھی سیاسی عدم استحکام کا شکار نہیں ہوتے، جنوبی کوریا کے حالیہ مارشل لاء نے ان کے مفروضوں کو غلط ثابت کردیا ہے۔ جنوبی کوریا کے صدر یوک سیک یول نے سرکاری ٹیلی ویژن پر خطاب میں مارشل لاء کا جواز روایتی حریف شمالی کوریا کی جانب سے یوکرین جنگ میں روس کی حمایت کرنے اور ممکنہ جارحیت کے خطرے اور اپوزیشن کے احتجاج کو قرار دیا۔ ( دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جنوبی کوریا کے صدر نے بھی وہی روایتی راگ الاپا کہ ‘احتجاج’ سے قومی سلامتی کو خطرہ ہے)۔

    جب کہ اپوزیشن کی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کے صدر لی میونگ نے جنوبی کوریا کے صدر کا مواخذہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو کسی بھی مضبوط پارلیمانی جمہوریت کی نشانی ہے۔ اکیسویں صدی میں کوئی ملک تبھی اندرونی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے جب وہاں کا جمہوری نظام مضبوط اور نظام انصاف ہر فرد کیلئے یکساں ہو، ورنہ ایسے معاشرے تقسیم ہو جایا کرتے ہیں۔ عراق، شام، افغانستان، لیبیا، سوڈان، مصر اس کی مثالیں ہیں، جہاں خانہ جنگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مضبوط معشیت مستحکم جمہوریت کی ضمانت دے سکتی ہے، حالیہ تاریخ اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ اگرچہ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کی جانب سے جارحیت کا خطرہ ہے لیکن ابھی تک براہ راست تصادم کی نوبت نہیں آئی اور دونوں ممالک اپنی اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جنوبی کوریا میں بھی اپوزیشن لیڈر لی میونگ پر رواں سال قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے، تاہم وہ محفوظ رہے۔ یون سیوک یول 2022 سے جنوبی کوریا کے صدر ہیں۔ وہ پیپلز پاور پارٹی کا حصہ ہیں اور اپنے حریف لی جے میونگ کو نہایت ہی کم پوائنٹس سے شکست دے کر صدارتی انتخاب جیتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے صدر کیساتھ ساتھ اُن کی اہلیہ کو بھی مختلف تنازعات اور اسکینڈلز کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔ اُن کی اہلیہ پر مبینہ طور پر مہنگے تحائف قبول کرنے کی وجہ سے تنقید ہوتی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے گزشتہ ماہ صدر یون باقاعدہ معافی بھی مانگی تھی۔ لیکن پھر صدارتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صدر جنوبی کوریا یون سیک یول نے اپنی بیوی کے بد عنوانی کے الزامات پر خصوصی کونسل کی تحقیقات کے بل کو ہی ویٹو کر دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ جنوبی کوریا کی عوام کے مجموعی سیاسی شعور نے مارشل لاء کو شکست دی ہے۔ وہاں جمہوری ادارے مضبوط ہیں، احتساب کا نظام رائج ہے، کوئی بھی ادارہ احتساب سے بالاتر نہیں۔ اور ظاہر ہے جنوبی کوریا کا مقابلہ جنوبی ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، نیپال اور مالدیپ شامل ہیں ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔

    ان ممالک میں جمہوریت نام کی چیز کا وجود ہی نہیں ہے، جمہوریت کے لبادے میں نیم مارشل لاء نافذ ہے، میڈیا سینسر شپ کی زنجیروں میں قید ہے، صحافت کا گلا دبانے کیلئے ریاست تمام وسائل بروئے کار لاتی ہے، عوام کے احتجاج کے حق کو طاقت کے ذریعے کچلا جاتا ہے، سیاسی کارکنوں کی لاشیں گرا دی جاتی ہیں، عوامی لیڈر کو قانونی مقدمات اور قید میں رکھا جاتا ہے۔

    پاکستان کے الیکشن ایک مثال ہیں جس میں عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا جاتا ہے اور انتخابی اصلاحات کا وجود ہی نہیں، اور جہاں ملک کی اعلی عدلیہ مقبول سیاسی پارٹی سے اس کا انتخابی نشان ہی واپس لینے کا فیصلہ سنا دیتی ہے، وہاں انتخابات کی شفافیت پر سوال کھڑے نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟ جنوبی کوریا کی اپوزیشن نے تو عوام کے زور بازو پر اپنے صدر کو مارشل لاء ختم کرنے پر مجبور کردیا، ترکی میں جب فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو عوام سڑک پر موجود ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، یہ سیاسی شعور کا اعلی ٰ درجہ ہے۔ اس کیلئے قومیں سالوں کا سفر طے کرتی ہیں، لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں 4 مارشل لاء لگے اور ہر دور میں نہ تو عوام نکلے اور نہ اپوزیشن آمروں کو جمہوریت کا قتل کرنے سے روک سکی، بلکہ رات کی تاریکی میں آمروں کیساتھ مل کر سازشوں کے ذریعے منتخب حکومتوں کو گھر بھیجا جاتا رہا، اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن اس بار طریقہ واردات بدل چکا ہے، پاکستان کے میڈیا، پارلیمنٹ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو جنوبی کوریا کے مختصر مارشل لاء سے سبق سیکھنا چاہیے۔

    (مصنّف گزشتہ نو سال سے بطور پروڈیوسر کرنٹ افیئرز میڈیا میں ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں اور آج کل بطور فری لانس جرنلسٹ کام کررہے ہیں اور یہ تحریر/ بلاگ مصنف کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)