Tag: جنوری اموات

  • نقش لائل پوری: ایک بھولا بسرا نام جس کے فلمی گیت آج بھی سنے جاتے ہیں

    نقش لائل پوری: ایک بھولا بسرا نام جس کے فلمی گیت آج بھی سنے جاتے ہیں

    ایک زمانہ تھا جب ہندوستان اور پاکستان میں فلمی صنعت اپنا عروج دیکھ رہی تھی۔ اس وقت جہاں کئی فن کاروں کو آگے بڑھنے کا موقع مل رہا تھا، وہیں قابل اور باصلاحیت تخلیق کار بھی نام و مقام بنا رہے تھے۔ اگر اس زمانے کے گیت نگاروں کی بات کی جائے تو ان میں کئی بڑے نام شامل ہیں جن کے گیت بہت سی فلموں کی کام یابی کی وجہ بنے۔ فلمی نغمہ نگاروں کی اس کہکشاں میں ایک نقش لائل پوری بھی تھے جنھوں‌ نے بولی وڈ کو خوب صورت نغمات دیے۔

    نقش لائل پوری کے لکھے ہوئے بہت سے گیت ہندوستانی فلموں‌ کی کام یابی اور مقبولیت کا سبب بنے۔ وہ غزل کے بھی بہت اچھے شاعر تھے۔ اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ ہر اچھا غزل گو شاعر اچھی فلمی شاعری نہیں کر سکتا، لیکن نقش لائل پوری اور پاکستان میں قتیل شفائی، تنویر نقوی، سیف الدین سیف، حبیب جالب اور منیر نیازی وہ نام ہیں جنھوں نے غزل اور نظم کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی گیت نگاری کی۔

    نقش لائل پوری فلمی صنعت کے ایک ایسے نغمہ نگار ہیں جنھیں بہت جلد فراموش کر دیا گیا اور اکثر جب ہم ہندوستان اور پاکستان کے فلمی گیت نگاروں کا تذکرہ پڑھتے ہیں تو یہ نام کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ نقش لائل پوری 24 فروری 1928 ء کو لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں پیدا ہوئے اور علاقہ کی یہی نسبت اپنے نام سے جوڑے رکھی۔ ان کا اصلی نام جسونت رائے شرما تھا۔ ان کے والد مکینیکل انجینئر تھے اور چاہتے تھے ان کا بیٹا بھی انجینئر بنے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ وہ آٹھ برس کے تھے جب والدہ چل بسیں اور والد نے دوسری شادی کی تو باپ اور بیٹے کے تعلقات خراب ہو گئے۔ نقش لائل پوری لاہور آگئے، لیکن تقسیمِ ہند کے بعد وہ اور ان کا خاندان لکھنؤ ہجرت کر گیا۔ شاعری کا آغاز وہ کرچکے تھے اور اسی زمانے میں جسونت رائے شرما نے اپنا فلمی نام نقش لائل پوری رکھ لیا تھا۔ 1950ء میں گیت نگاری کے ارادے نقش نے ممبئی کا رخ کیا۔ یہاں وہ دی ٹائمز آف انڈیا میں‌ بطور پروف ریڈر کام کرنے لگے جس نے انھیں فلمی صنعت تک رسائی دی۔ اسی زمانے میں انھوں نے شادی کر لی۔ پھر ممبئی میں ان کی ملاقات ہدایت کار جگدیش سیٹھی سے ہوئی جنھوں نے نقش لائل پوری کو اپنی فلم ’’جگّو‘‘ کے نغمات لکھنے کا موقع دیا۔ نقش کے لکھے ہوئے تمام گیت مقبول ہوئے اور خاص طور پر یہ نغمہ ’’اگر تیری آنکھوں سے آنکھیں ملا دوں‘‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ 1970 ء تک نقش لائل پوری بولی وڈ میں اپنے قدم جمانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ اس کے بعد ان کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ ایک موقع پر موسیقار جے دیو نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ٹی وی سیریل کے لیے سونگ لکھیں اور اس میں‌ بھی نقش لائل پوری کام یاب ہوئے، انھوں نے پچاس ٹی وی ڈراموں کے گیت تحریر کیے۔ نقش لائل پوری نے ہندی کے علاوہ پنجابی فلموں‌ کے لیے بھی گیت نگاری کی۔

    نقش لائل پوری نے معروف فلم ساز اور ہدایت کار بی آر چوپڑا کی فلم ’’چیتنا‘‘ کے لیے بھی گیت تحریر کیے اور بہت سادہ زبان میں خوب صورت شاعری کی جو بہت پسند کی گئی۔

    فلمی گیت نگار کی حیثیت سے نقش لائل پوری نے چوروں کی بارات، چیتنا، سرکس کوئن، خاندان، درد، دل ناداں، تمہارے لیے، کاغذ کی ناؤ، دل کی راہیں اور کئی فلموں‌ کے لیے بہت خوب صورت شاعری کی۔

    ان کی وجہِ شہرت جو گیت بنے ان میں زیادہ تر ستّر کی دہائی کی فلموں‌ میں‌ شامل تھے۔ رسم الفت کو نبھائیں، الفت میں زمانے کی، پیار کا درد ہے، اور ریکارڈ مقبولیت حاصل کرنے والا گیت یہ ملاقات اک بہانہ ہے……..پیار کا سلسلہ پرانا ہے بھی اسی شاعر کی تخلیق ہے۔

    22 جنوری 2017 ء کو نقش لائل پوری چل بسے۔ ممبئی میں اپنے گھر پر وفات پانے والے نقش لائل پوری 88 سال کے تھے۔

  • ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کی برسی

    علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے ماہر کی حیثیت سے احمد حسن دانی کا شمار عالمی شہرت یافتہ شخصیات میں ہوتا ہے۔ ایک دانش ور اور ماہرِ لسانیات کے طور پر بھی ان کا نام پاکستان میں‌ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس نابغۂ روزگار شخصیت کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    احمد حسن دانی 20 جون 1920ء کو کشمیر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اردو، عربی اور فارسی زبان سیکھنے کے ساتھ اپنی تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کیے تو والد کا تبادلہ ناگ پور ہوگیا۔ وہاں‌ اسکول میں ہندی اور سنسکرت بھی سیکھنے کا موقع ملا۔ اس نے ان کے اندر زباں فہمی کا شوق اور دل چسپی کو بڑھایا اور بعد میں احمد حسن دانی نے مرہٹی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ اسی خصوصیت کی بنا پر انھیں ماہرِ لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔ احمد حسن دانی کو تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے شعبے میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔

    پروفیسر احمد حسن دانی نے 1944ء میں گریجویشن کے بعد ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ان کی دل چسپی اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے انھیں محکمۂ آثارِ قدیمہ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کر دیا گیا۔ اس زمانے میں مشہور انگریز ماہر ٹیمر ویلر بنارس یونیورسٹی گئے تو وہاں ان کی ملاقات نوجوان احمد حسن دانی ہوئی جو ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔ انھوں نے اس انگریز ماہر کے زیرِ نگرانی ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کی کھدائی میں حصّہ لیا۔ اس کے بعد برٹش انڈیا کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیے گئے۔ حکومت نے ان کی دل چسپی اور کام میں مہارت کو دیکھتے ہوئے انھیں شہرۂ آفاق عمارت تاج محل میں تعینات کر دیا۔ تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل ہی میں پروفیسر دانی نے محسوس کر لیا تھا کہ آثارِ قدیمہ سے متعلق معلومات عوام تک پہنچانے کے لیے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950ء میں انھوں نے وریندر میوزیم راج شاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر نشانیاں دریافت کیں جو آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    برصغیر کی تقسیم ہوئی تو احمد حسن دانی پاکستان آگئے اور ان کی پہلی تقرری مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ 1948ء میں انھوں نے سر مور ٹیمر کے ساتھ مل کر ایک کتاب تصنیف کی: ’’پاکستان کے پانچ ہزار سال۔‘‘

    ڈاکٹر دانی 1947ء سے 1949ء تک محکمۂ آثارِ قدیمہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور بعد میں محکمے کے سپرنٹنڈنٹ انچارج بنائے گئے۔ انھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے میں تدریسی فرائض بھی سَر انجام دیے۔

    پھر جنرل محمد ایوب خان کے دور میں پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ آثارِ قدیمہ بنایا گیا تو اس کی سربراہی پروفیسر احمد حسن دانی کو دی گئی۔ اس حیثیت میں انھوں نے پشاور اور وادیٔ سوات میں اور دیگر علاقوں میں کھدائی کا کام کروایا اور یہاں سے نوادرات اور آثار برآمد کیے۔

    ڈاکٹر حسن دانی نے لاہور اور پشاور کے عجائب گھروں کو بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ وہ مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور 1980ء میں ریٹائر ہو گئے۔

    انھوں نے ساری عمر سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کئی مقامی زبانوں اور لہجوں پر عبور رکھتے تھے۔ 26 جنوری 2009ء کو ڈاکٹر حسن دانی اسلام آباد میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

    ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی ستائش کی تمنّا اور صلے کی پروا کے بغیر اپنے کام میں مگن رہے، ان کی تحقیقی و علمی مساعی کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ احمد حسن دانی کو ان کی اعلٰی خدمات کے صلے ميں حکومت پاکستان نے ستارۂ امتياز اور ہلالِ امتياز سے نوازا جب کہ اُن کے علم و بصیرت کا شہرہ مغربی دنیا میں ہوا تو امریکا، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ جرمنی اور اٹلی میں بھی انھیں اعلیٰ ترین تعلیمی، تدریسی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد حسن دانی کو آکسفورڈ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں رہتے ہوئے وہاں کام کرنے اور پڑھانے کی پیشکش کی گئی، لیکن وطن کی محبت میں انھوں نے انکار کردیا۔

    ان کی تصانیف پچاس سے زائد اور ان کے مضامین ان گنت ہیں جن میں ہسٹری آف ناردرن ایریاز آف پاکستان، رومانس آف دی خیبر پاس، چلاس: دی سٹی آف نانگا پربت، ٹھٹھہ: اسلامک آرکیٹکچر شامل ہیں۔ ڈاکٹر حسن دانی کئی کتابوں کے شریک مصنّف بھی رہے۔

  • کندن لال سہگل: پُرسوز آواز کے لیے مشہور گلوکار کا تذکرہ

    یہ ہندوستان کے بٹوارے سے کئی سال پہلے کی بات ہے جب فلمی صنعت کا مرکز کولکتہ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں کندن لال سہگل کی آواز میں فلمی گیت بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ شائقینِ سنیما نے انھیں بڑے پردے پر بہ طور اداکار بھی کام کرتے دیکھا اور سراہا۔

    فلمی دنیا میں سہگل نے اپنی دل سوز آواز کے سبب جلد اپنی پہچان بنا لی اور ان کے مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ لوگ انھیں سننا پسند کرتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ موسیقی اور گلوکاری میں کوئی کندن لال سہگل کا استاد نہیں‌ رہا بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔

    انھیں فلمی صنعت میں کے ایل سہگل کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ گلوکار سہگل رندِ بلا نوش بھی تھے اور شراب نوشی کی لت نے انھیں زیادہ عرصہ جینے نہیں‌ دیا۔ سہگل 1947ء میں آج ہی کے دن جگر کے عارضے کے سبب دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے زندگی کی صرف 42 بہاریں ہی دیکھیں، لیکن ان کی آواز آج بھی زندہ ہے۔

    1904ء میں کندن لال سہگل جموں کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد امر چند سہگل تحصیل دار تھے اور مہاراجہ جموں و کشمیر کے ملازم تھے۔ والد کو اپنے بیٹے کے گانے کا شوق قطعاً پسند نہیں تھا، لیکن والدہ کیسر دیوی جو خود بھجن اور لوک گیت گایا کرتی تھیں، اپنے بیٹے کے شوق کو ہوا دیتی رہیں۔ ماں بیٹا اکثر گھنٹوں بیٹھ کر گیت گاتے اور مناجات پڑھتے۔ سہگل کی عمر دس سال تھی جب ایک تہوار کے موقع پر انھوں نے رام لیلا میں سیتا جی کا رول ادا کیا۔ برسوں بعد کندن لال سہگل کلکتہ کے نیو تھیٹر سے وابستہ ہوگئے اور خود کو "سیگل کشمیری” کے نام سے متعارف کروایا۔ انھوں نے اپنے کام کے بارے میں گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ تھیٹر میں اپنا نام بھی سہگل کے بجائے سیگل بتاتے تھے۔

    یہ 1938ء کی بات ہے جب سہگل نے جالندھر میں مقیم اپنی ماں کو رقم منی آرڈر کی۔ تب انھیں معلوم ہوا کہ بیٹا فن کار بن گیا ہے۔ بعد میں وہ کلکتہ اور بمبئی میں گلوکار کے طور پر مشہور ہوگئے اور انھیں ایک اداکار کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    کے۔ ایل۔ سہگل نے موسیقی کی تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، لیکن جمّوں ہی کے صوفی پیر سلمان یوسف کے سامنے اکثر ریاض کرتے تھے۔

    کہتے ہیں سہگل نے وصیت کی تھی کہ ان کی ارتھی اٹھاتے ہوئے یہ گانا بجایا جائے جس کے بول تھے: جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے

    سہگل کی شادی آشا رانی سے ہوئی تھی جو ہماچل کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی باسی تھیں۔ ان کی زندگی کا ایک قصّہ مشہور ہے کہ سہگل صاحب کی نئی فلم چنڈی داس ریلیز ہوئی تو ان دنوں وہ نئے نئے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے تھے۔ ایک روز سہگل اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے ساتھ فلم دیکھنے آئے۔ وہاں ان کے پرستاروں نے انھیں پہچان لیا اور لوگ ان سے ملنے آتے رہے۔ اس لیے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے۔

    اس فلم میں بطور اداکار سہگل صاحب کی شادی کا منظر بھی تھا۔ جب پردے پر یہ سین دکھایا جارہا تھا تو سہگل صاحب اپنی نشست پر موجود نہیں تھے اور ان کی بیوی کو یہ منظر حقیقی محسوس ہوا۔ سہگل صاحب بعد میں‌ آشا رانی کو مشکل سے یہ سمجھانے میں کام یاب ہوئے کہ وہ فلم تھی، اور اس کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں۔ اہلیہ کو یقین دلانے کی غرض سے وہ انھیں اسٹوڈیو بھی لے گئے جہاں‌ اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ سہگل صاحب کی نواسی پرمندر چوپڑا کی زبانی مشہور ہوا۔ انھیں یہ بات آشا رانی نے بتائی تھی جو ان کی نانی اور سہگل صاحب کی بیوی تھیں۔

    کندن لال سہگل نے کلکتہ میں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں سیلز مین کی نوکری بھی کی تھی۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات نیو تھیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے ہوئی اور انھوں نے سہگل کی آواز کو بہت پسند کیا۔ بعد میں انھیں نیو تھیٹر کے ساتھ بطور گلوکار وابستہ ہونے کی پیشکش کی اور وہ اچھے معاوضے پر ان کے ساتھ کام کرنے لگے۔

    نیو تھیٹر میں منجھے ہوئے فن کاروں اور موسیقاروں نے سہگل کے فن کو نکھارنے میں مدد دی۔ انہی موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر سہگل نے وہ نغمے گائے جو ہندوستان بھر میں‌ ان کی پہچان بنے۔ ان میں‌ فلم دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہی، اور ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے شامل ہیں۔

    نیو تھیٹر کی فلموں کے لیے انھوں نے اداکاری بھی کی اور رفتہ رفتہ شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔ انھوں نے اس زمانے کی مشہور بنگالی فلم دیو داس میں ایک معمولی کردار ادا کیا تھا اور گانے بھی گائے تھے، لیکن جب یہی فلم ہندی میں بنائی گئی تو کندن لال سہگل نے دیو داس کا مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد میں وہ بمبئی چلے گئے اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہوئے جہاں متعدد کام یاب فلمیں ان کے حصّے میں‌ آئیں۔

    سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ انھیں غالب سے والہانہ شغف تھا اور غالب کو بہت دل سے گایا۔ سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947ء میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔

    ہندوستانی فلمی صنعت کے اس مشہور گلوکار نے جالندھر میں‌ اپنا سفرِ زیست تمام کیا۔

  • عظیم مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی اور پتنگ بازی

    عبدالرّحمٰن چغتائی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ فنِ‌ مصوّری میں انھوں نے اسلامی، ہندو، بدھ ازم، مغل اور پنجاب کی زندگی کو اس تسلسل اور کمال سے پیش کیاکہ مصوّرِ مشرق کہلائے۔ چغتائی صاحب کی تصاویر دنیا کی مشہور آرٹ گیلریوں میں موجود ہیں۔

    آج اس عظیم مصوّر کی برسی ہے۔ وہ 17 جنوری 1975ء کو لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی ہی اخترا ع اور ان کے کمالِ فن کا نمونہ ہیں۔

    پاکستان کے عظیم مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی نے 21 ستمبر 1897ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔1914ء میں میؤ اسکول آف آرٹس لاہور سے ڈرائنگ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد استاد میراں بخش سے مصوّری کے اسرار و رموز سیکھے اور پھر میؤ اسکول میں ہی تدریس کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ 1919ء میں جب انھوں نے ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش میں شرکت کی تو اپنے فن کی پذیرائی نے بڑا حوصلہ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے فن پارے کلکتہ کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجے جنھیں بہت سراہا گیا۔ یوں چغتائی کا پہلا شاہکارِ فن 1919ء میں وجود میں آیا اور دنیائے مصوری میں ان کی آمد کا شور بھی ہوا۔ چغتائی صاحب نے اس فن میں جداگانہ اسلوب اور فن کارانہ روش اختیار کی اور یہ اس قدر مشہور ہوا کہ اس اسلوب کو ’’چغتائی آرٹ ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ انھوں نے اقبال اور غالب کی شاعری کو اپنے فن کی بدولت نقشِ‌ دل پذیر بنا دیا۔ ان کی یہ کاوش ہم عصروں میں چغتائی صاحب کی انفرادیت اور امتیاز بن گئی۔ ناقدین نے چغتائی صاحب کو دو روایتوں کا امین کہا ہے جو ایک طرف ترک، ایرانی اور مغل مصوری پر مبنی تھا تو دوسری جانب ہندوستانی مصوری کی بنیاد پر مبنی بنگالی آرٹ تھا۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی کی برسی پر ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہم ریاض احمد کی کتاب سے چند یادیں نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گی۔ وہ لکھتے ہیں:

    "چغتائی صاحب سرورق بنانے کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ یہ کام اس نیّت سے کرتے تھے کہ ان کے فن کی زکوٰۃ نکلتی رہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل برصغیر بھر سے جو فرمائش بھی انہیں ملی، انہوں نے اس کا احترام کیا اور سرورق بنا کر بھجوا دیا۔

    جان، انجان کی بات ہی نہیں تھی۔ اس پر میں نے کئی لوگوں کو حیران ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی چغتائی صاحب ان کی کتاب کا سرورق بنا دیں گے۔ اور وہ بھی بلا معاوضہ! لوگ سمجھتے تھے وہ کم از کم ہزاروں روپے مانگیں گے۔

    چغتائی صاحب ع کے بھی بے حد شوقین تھے۔ ہمیشہ سفید رنگ کی ایک خاص سائز کی پتنگ اڑاتے تھے۔ ہوا کا رُخ ہمارے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی پتنگ کو دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے کہ چغتائی صاحب شوق پورا کر رہے ہیں۔

    کبھی میں ابا جی (نذیر احمد چودھری) کی طرف سے سرورق بنانے کے لیے کہنے جاتا یا ان کے وعدے کے مطابق سرورق لینے کے لیے جاتا تو دروازے پر لگی گھنٹی بجاتا۔ وہ تیسری منزل کی کھڑکی کھول کر نیچے جھانکتے، مجھے دیکھتے اور کھڑکی بند کر کے خود سیڑھیاں اتر کر نیچے تشریف لاتے۔ ایسا وہ اس صورت میں کرتے تھے جب سرورق کے بارے میں کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی۔ بصورتِ دیگر سرورق ایک چھینکے میں رکھ کر نیچے لٹکا دیتے تھے۔ سبزی بھی وہ یونہی خریدا کرتے تھے۔

    چغتائی صاحب تکلفات سے بے نیاز تھے۔ وہ اکثر بنیان اور دھوتی پہنے ہوتے۔ آخر میں انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا، شاید آسانی کی خاطر، کہ سرورق کو کلر اسکیم نہیں لگاتے تھے۔ مجھے کہتے: ”ریاض، بلاک بن جائے تو چار چھ پروف نکال لانا، اسی وقت رنگ لگا دوں گا۔ تُو نے کون سا دور سے آنا ہے۔ سامنے ہی تو پریس ہے۔“ میں کہتا: ”جی بہتر۔“

    اچھا چھپا ہوا سرورق دیکھ کر بے خوش ہوتے تھے اور دل کھول کر داد دیتے تھے۔ بلاک بننے میں بھی کوئی کسر رہ گئی ہوتی تو وہ فوراً بھانپ جاتے اور اس کی نشان دہی فرما دیتے۔”

  • محسن بھوپالی: اردو کے مقبول شاعر اور ’’نظمانے‘‘ کے موجد

    محسن بھوپالی اردو کے اُن شعراء میں سے تھے جنھوں نے خود کو رائج اصنافِ سخن میں طبع آزمائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے تخلیقی جوہر اور کمالِ‌ فن نے کوچۂ سخن کی رونق میں ’’نظمانے‘‘ کی صورت خوب صورت اضافہ بھی کیا۔ آج محسن بھوپالی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس مقبول شاعر نے غزل جیسی معتبر اور معروفِ عام صنفِ سخن کو اپنی فکر اور ندرتِ خیال کے ساتھ اس طرح سجایا کہ ہم عصر شعرا سے بھی داد پائی اور نقّادوں نے بھی ان کے فن کو سراہا۔ محسنؔ بھوپالی کی شاعری نے علمی و ادبی حلقوں کی پذیرائی اور ہر سطح پر باذوق قارئین سے قبولیت کی سند پائی۔ 17 جنوری 2007ء کو محسن بھوپالی نے اس دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔

    محسنؔ بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ انھوں نے 1932ء میں بھوپال کے قریب واقع ہوشنگ آباد کے ایک قصبے سہاگپور میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی ملازمت کا سلسلہ 1993ء تک جاری رہا۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    ملازمت اور حصولِ تعلیم کے دوران محسن بھوپالی کا ادب اور شاعری سے تعلق مضبوط تر ہوتا رہا اور ان کی شاعری مختلف اخبارات، ادبی رسائل کی زینت بنتی رہیں۔ انھیں علمی و ادبی حلقوں میں پہچان ملی تو کراچی اور ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں میں شرکت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور وہ عوام میں بطور شاعر مشہور ہوگئے۔ محسن بھوپالی نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کے مجموعہ ہائے کلام شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت کے عنوان سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتابوں میں قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    یہ منفرد اعزاز بھی محسنؔ بھوپالی کو حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے کی تھی اور یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریبِ رونمائی تھی جس کے دعوت نامے بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    کئی مشہور اور زباں زدِ عام اشعار کے خالق محسنؔ بھوپالی کا یہ قطعہ بھی ان کی پہچان بنا۔

    تلقینِ صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو میں ’’نظمانہ‘‘ وہ صنفِ سخن ہے جس کے موجد محسنؔ بھوپالی نے افسانہ نگاری بھی کی تھی۔ انھوں نے آزاد نظم کی ہیئت میں ایک تجربہ کیا اور اپنی ایجاد کو تخلیقی وفور کے ساتھ وجود بخشا جو اخبارات اور رسائل و جرائد میں ’’نظمانے‘‘ کے طور پر شایع ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ’’نظمانے‘‘ کو ہم افسانے کی منظوم اور مختصر شکل کہہ سکتے ہیں۔

    محسن بھوپالی کی شاعری ان کی فکر و دانش اور وسیع مطالعہ کے ساتھ معاشرے کے مختلف طبقات پر ان کی گہری نظر اور قوّتِ مشاہدہ کا عکس ہے۔

    انھوں نے معاشرتی موضوعات کے ساتھ سیاسی حالات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کی مثال ان کا یہ قطعہ بھی ہے۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    محسن بھوپالی نے جاپانی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کا اسلوب منفرد اور کلام شستہ و رواں ہے۔ محسن بھوپالی کی شاعری انسانی جذبات و احساست کے ساتھ اُن مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے جس سے عام آدمی کی طرح ایک شاعر بھی متأثر ہوتا ہے۔

    کراچی میں وفات پانے والے محسن بھوپالی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ہندوستانیوں سے نفرت کرنے والے ونسٹن چرچل کو دنیا سیاسی مدبّر تسلیم کرتی ہے

    ہندوستانیوں سے نفرت کرنے والے ونسٹن چرچل کو دنیا سیاسی مدبّر تسلیم کرتی ہے

    ونسٹن چرچل کو دنیا اعلٰی درجے کا مدبّر تسلیم کرتی ہے، لیکن اسے سخت متعصّب اور انتہائی قدامت پرست سیاست دان بھی کہا جاتا ہے۔ مغرب کا یہ پامرد سپاہی اور سیاسی ہیرو برصغیر میں‌ لاکھوں انسانوں کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

    تعصّب کیا بلا ہے اور اگر کسی قوم کا حکم ران اس کا شکار ہو تو اس کے کیا ہولناک نتائج سامنے آتے ہیں، اس کا اندازہ‌ آپ سر سیّد احمد خان کے ایک مضمون کے چند پارے پڑھ کر بخوبی کرسکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں،

    انسان کی خصلتوں میں سے تعصّب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصّب گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصّب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصّب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیوں کہ اس کا تعصّب اُس کے برخلاف بات سننے، سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچّی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔

    اگر بات کی جائے چرچل کے متعصّب ہونے کی تو ایک موقع پر اس نے کہا تھا کہ اسے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ اس نے نہ صرف یہاں کے لوگوں سے نفرت بلکہ ہندوستان کے مذاہب کے لیے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے باوجود اس زمانے کے نو آبادیاتی دور اور برطانوی حکومت کے بارے میں متضاد آرا پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مغربی مصنّفین ہی نہیں‌ اس وقت کے ہندو اور مسلمان بھی برطانوی حکومت سے متعلق مختلف جذبات اور خیالات رکھتے تھے۔

    کہا جاتا ہے کہ چرچل کی مدبّرانہ سوچ نے دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک بڑی مخالف طاقت جرمنی کی شکست میں اہم کردار ادا کیا اور بعض مصنّفین نے لکھا ہے کہ چرچل نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کی سیاسی اور جغرافیائی تاریخ کچھ مختلف ہوتی، لیکن اس کے باوجود ونسٹن چرچل کی شخصیت متنازع بھی ہے۔

    برطانوی راج میں طوفان اور سیلاب کے ساتھ بنگال میں شدید قحط سے اموات اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام میں چرچل کا کردار بھی موضوعِ بحث رہا ہے۔

    بنگال میں قحط سے ہلاکتوں اور لاکھوں انسانوں کے متاثر ہونے کا زمانہ وہی ہے جب برطانیہ میں ونسٹن چرچل پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوا۔ نوآبادیات پر متعدد برطانوی اور ہندوستانی تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ اعلیٰ افسران نے اپنی حکومت کو تحریری طور پر قحط کی تباہ کاریوں اور لاکھوں انسانی زندگیوں کو درپیش خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے خوراک اور دوسری امداد کی درخواست کی تھی، لیکن انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔

    ایک خیال یہ ہے کہ چرچل نے جان بوجھ کر لاکھوں ہندوستانیوں کو بھوکا مرنے دیا۔ یہ بات ہے 1942ء کی جب سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث بنگال میں قحط پڑ گیا تھا اور خوراک نہ ملنے سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے، اُس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم کا خیال تھا کہ مقامی سیاست دان بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کی بہتر مدد کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت کے اسی رویّے نے بدترین حالات پیدا کر دیے تھے۔ اسے امریکیوں کے استحصال کا ذمہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ چرچل میں برطانوی ہونے کے ناتے خود کو برتر خیال کرتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی دیگر اقوام اور ان کے مذاہب کے احترام سے بے نیاز تھا۔

    ونسٹن چرچل 30 نومبر 1874ء کو آکسفورڈ شائر میں پیدا ہوا۔ اس نے کم و بیش دس سال برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر گزارے اور 24 جنوری 1965ء کو لندن میں انتقال کر گیا۔ اس کی عمر 90 برس تھی۔

    وہ سیاست میں آنے سے قبل ہندوستان کی شمال مغربی سرحد اور پھر جنوبی افریقا میں سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کام کرچکا تھا۔ وہ 1901ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کا رکن بنا اور بعد میں‌ خزانہ، داخلہ سمیت وزارتِ عظمٰی کا منصب سنبھالا۔

    ونسٹن چرچل برطانیہ میں کنزرویٹو اور لبرل پارٹی کا حصّہ رہا اور سیاست کے ساتھ اس نے متعدد کتب بھی تصنیف کیں۔ وہ مصوّر بھی تھا اور کئی فن پارے تخلیق کیے۔ 1953ء میں چرچل نے ادب کا نوبل انعام وصول کیا تھا۔