Tag: جنوری انتقال

  • شمسُ‌ العلماء تاجور نجیب آبادی کا تذکرہ

    شمسُ‌ العلماء تاجور نجیب آبادی کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب میں جہاں تاجور نجیب آبادی کا نام ایک باکمال شاعر اور نثر نگار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، وہاں ان کا ایک حوالہ صحافت بھی ہے۔

    آج تاجور نجیب آبادی کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھوں نے ’اردو مرکز‘ کے نام سے تصنیف و تالیف کا ادارہ بھی قائم کیا تھا اور اس میں زبان و ادب پر نمایاں‌ کام انجام پائے۔

    تاجور 2 مئی 1894 کو نینی تال میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن نجیب آباد(یوپی) تھا۔ فارسی و عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند سے درس نظامیہ کی تکمیل کی۔ 1915 میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کئے۔ 1921 میں دیال سنگھ کالج لاہور میں فارسی اور اردو کے استاد کی حیثیت سے تقرر ہوا تھا۔ 30 جنوری 1951 کو تاجور نجیب آبادی لاہور میں وفات پاگئے۔

    اردو زبان میں ’ہمایوں‘ اور ’مخزن‘ وہ رسائل تھے جن کے ذریعے انھوں نے ادبی صحافت کو معیار کی بلندی پر پہنچایا۔ ’ادبی دنیا‘ اور ’شاہکار‘ جیسے رسائل بھی انہی کے جاری کردہ تھے۔ تاجور نجیب آبادی کی برسی کی مناسبت سے یہاں ہم مشہور شاعر، ادیب اور صحافی عبدالمجید سالک کا تحریر کردہ شخصی خاکہ پیش کر رہے ہیں جو اس نابغۂ روزگار کی وفات کے بعد لکھا گیا تھا۔ یہ شخصی خاکہ سالک صاحب کی کتاب یارانِ کہن میں شامل ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:‌

    نجیب آباد کے مولوی احسان اللہ خاں تاجور (پیدائش: 2 مئی 1894، وفات: 30 جنوری 1951) نے نو سال دیو بند کے دارالعلوم میں بسر کر کے علومِ دینی میں فراغتِ تحصیل کی سند حاصل کی تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا علم و فضل حصولِ معاش میں معاون نہ ہوگا۔ کسی مسجد میں پیش امام بننا، ختمِ درود پڑھنا اور جنازے کی نمازیں پڑھانا نہ مولوی تاجور کے ذوق کو گوارا تھا نہ اس سے قوتِ لا یموت باآسانی میسر آسکتی تھی۔ وہ شاعر آدمی تھے، اور شاعری کے جراثیم جس شخص کے ذہن میں پرورش پارہے ہوں اس کا علمائے دین کی صف میں کھڑے ہونا اور اپنی زندگی میں زہد و تقوی کا اہتمام کرنا بے حد دشوار ہے۔ اس احساس کے ماتحت انہوں نے فیصلہ کیا کہ پنجاب جاکر مشرقی امتحانات پاس کیے جائیں اور مدرّسی کا پیشہ اختیار کیا جائے۔ چنانچہ 1915ء میں لاہور پہنچ کر اورینٹیل کالج میں داخل ہوگئے۔

    دیال سنگھ اسکول میں
    مولانا تاجور استاذی رسا رام پوری کے شاگرد تھے، اس لیے میرے ساتھ خواجہ تاشی کے تعلقات رکھتے تھے۔ ہماری خط کتابت جاری تھی، فانوسِ خیال میں ان کا ایک مکتوب بھی شائع ہوچکا تھا۔ جب 1915ء کے اواخر میں مَیں نے لاہور میں مولوی سید ممتاز علی کے ہاں ملازمت اختیار کی تو مولانا تاجور سے پہلی دفعہ نیاز حاصل ہوا۔ وہ اس زمانے میں اورینٹیل کالج کے ہاسٹل میں رہتے تھے، جو شاہی مسجد اور قلعہ کے درمیانی کمروں میں قائم ہوا تھا۔ منشی فاضل کا امتحان پاس کر کے تاجور صاحب دیال سنگھ ہائی اسکول میں اورینٹیل ٹیچر ہوگئے۔ اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر لالا رگھوناتھ سہائے نہایت باوضع، غیر متعصب اور بلند اخلاق آدمی تھے، اور مولانا تاجور ان کی خوبیوں کے اس قدر گرویدہ تھے کہ انہیں فرشتہ کہا کرتے تھے، رگھو ناتھ سہائے جیسے ہندوؤں کے حسنِ سلوک ہی کا نتیجہ تھا کہ مولانا تاجور کے مخلصانہ روابط زندگی بھر ہندوؤں اور سکھوں ہی کے ساتھ رہے۔ مسلمان اکابر میں سے صرف دو تین ہی سے مولانا کی رسم و راہ رہی۔

    مخزن کی ایڈیٹری
    رسالہ "مخزن” سر عبدالقادر کے قبضے سے نکل کر ایک ریٹائرڈ تحصیل دار غلام رسول صاحب کی ملکیت میں منتقل ہوگیا، جن کے انتقال کے بعد ان کے بھائی ظہورالدین اس کو چلاتے رہے۔ مولانا تاجور نے مخزن کی ایڈیٹری قبول کر لی، زمانے کی کیفیت دیکھیے کہ مدیر "مخزن” کی حیثیت سے مولانا تاجور کی تنخواہ پندرہ روپے ماہانہ تھی۔ اور جن دنوں مولانا کھانا بھی ظہور الدین صاحب ہی کے ہاں کھاتے، ان دنوں نقد صرف پانچ روپے ملتے۔ جب مولانا موسم گرما کی تعطیلات میں نجیب آباد چلے جاتے تو "مخزن” کی ایڈیٹری کا پشتارہ میرے کاندھوں پر رکھ جاتے اور میں بلا معاوضہ اس خدمت کو انجام دیتا۔

    ہمایوں میں
    مولانا تاجور زبان کی سوجھ بوجھ خاصی رکھتے تھے اور غزل بہت اچھی کہتے تھے۔ ان ہی دنوں جسٹس شاہ دین مرحوم نے انہیں یاد فرمایا۔ کیونکہ میاں بشیر احمد نے "ہمایوں” جاری کر دیا تھا اور انہیں صرف ایک مدیر معاون ہی کی ضرورت نہ تھی، بلکہ وہ ابتدائی عربی کتابیں بھی پڑھنا چاہتے تھے۔ مولانا تاجور میاں بشیر احمد صاحب کے رفیق کار بن گئے اور "ہمایوں” کو حسنِ ترتیب کے ساتھ بلند معیار پر مرتب کرنا شروع کر دیا۔ تاجور صاحب کی یہ تمام ادبھی مصروفیتیں اپنی مستقل ملازمت کے علاوہ تھیں۔ دیال سنگھ ہائی اسکول کی ٹیچری سے ترقی کر کے وہ دیال سنگھ کالج میں فارسی کے لکچرر مقرر ہوگئے تھے۔ لیکن ادبی رسالوں کا مرتب کرنا اور نوجوانوں کو نثر ونظم میں اصلاح دینا ان کا دائمی مشغلہ رہا۔ اسی سلسلے میں انہوں نے ایک انجمن ارباب علم کی بنیاد رکھی، جس کے پر رونق مشاعرے ایس پی ایس کے ہال میں ہونے لگے۔ مولانا تاجور کے احباب اور ان کے شاگرد اس مشاعرے میں ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے۔ اور میں بھی اکثر اپنا کلام انہی مشاعروں میں پڑھتا تھا۔

    بزمِ ادب
    کچھ مدت جب جب حفیظ جالندھری لاہور کے ادبی افق پر نمودار ہوئے تو ہم نے ان کا تعارف بھی انجمن اربابانِ علم ہی کے اسٹیج پر کرایا اور حفیظ کی پہلی نظمیں اسی انجمن کے مشاعروں میں پڑھی گئیں۔ لیکن حفیظ کی روز افزوں ہر دلعزیزی سے مولانا کچھ کھٹک سے گئے، ادھر وہ کوتاہی ظرف میں مبتلا ،ادھر یہ زود رنج، نتیجہ یہ ہوا کہ کشمکش شروع ہوگئی اور حفیظ صاحب نے جھٹ ایک ‘بزم ادب پنجاب’ کی بنا ڈالی اور مجھے اس کا صدر مقرر کر کے پہلے مشاعرے کا اعلان کر دیا، اب تاجور صاحب بے حد پریشان ہوئے، انجمن ارباب علم کے مشاعرے بہت دبلے ہوگئے اور سالک و حفیظ کے دوستوں نے بزم ادب کو چار چاند لگا دیے۔ لیکن یہ حفیظ صاحب کا ایک عارضی سا جوش تھا جو چند روز میں ٹھنڈا پڑ گیا اور بزم ادب درہم برہم ہوگئی۔

    کانگریسیوں کا ہنگامہ
    اس سے قبل 1923ء میں مولانا تاجور نے ایک مشاعرہ رائے بہادر دولت رام کالیہ بیرسٹر فیروز پور کی صدارت میں منعقد کیا۔ رائے بہادر حکومت کے نہایت خوشامدی اور کانگریس کے دشمن واقع ہوئے تھے اور قومی تحریک ابھی باقی تھی۔ ہزاروں مجاہدین حریت جیل خانوں میں مقید تھے۔ اس لیے کانگریسیوں اور دوسرے آزادی پسندوں کو ایک ادبی انجمن کی طرف سے ایک ٹوڈی کی اس عزت افزائی پر بہت غصہ آیا، اور کانگریسی رضا کاروں نے مشاعرے میں ابتری پید اکرنی شروع کر دی۔ اتنے میں مَیں ایس پی ایس کے ہال میں پہنچ گیا۔ چونکہ حال ہی میں سیاسی قید سے رہا ہوکر آیا تھا اس لیے پرزور تالیوں سے میرا خیر مقدم کیا گیا۔ مولانا تاجور نے مجھے اسٹیج پر بٹھایا کانگرسیوں کی حرکت کا قصہ سنایا اور کہا کہ آپ ذرا سی کوشش سے اس مشاعرے کو کام یاب بناسکتے ہیں۔ خیر۔ مَیں اٹھا، ایک دو لطیفے سنا کر مجلس کو شگفتہ کردیا۔ پھر اپنا کلام سنایا اور دوسرے شعراء کو پڑھوایا۔ کانگرسیوں نے میرے لحاظ کی وجہ سے اس کے بعد شور نہ مچایا۔

    مولانا تاجور اس داغ کو دھونے اور انجمن ارباب علم کو بدنامی اور غیر ہر دلعزیزی سے بچانے کے لیے بے حد مضطرب تھے۔ وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے خدا کے لئے آئندہ اجلاس کی صدارت آپ کر دیجیے۔ مَیں نے قبول کیا اور اخباروں میں اعلان ہوگیا۔ دوسرے ہی دن ڈاکٹر ستیہ پال سکریٹری کانگریس کمیٹی کا ایک خط مجھے موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ مولوی تاجور نے رائے عامہ کی توہین کی ہے، اور کانگریس کی دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ جب تک اس توہین کی تلافی نہ ہوجائے آپ مشاعرے کی صدارت نہ کریں۔ میں نے جواب میں لکھ دیا، کہ آپ یقین رکھیے میں کسی حالت میں کانگریس اور رائے عامہ کی توہین کو محض صدارت مشاعرہ کی خاطر برداشت نہ کروں گا اور انتہائی کوشش کروں گا کہ مولانا تاجور معقول رویہ اختیار کریں۔ آپ بھی اپنے کارکنوں اور رضا کاروں کو ہدایت کر دیں کہ بیکار شور و غوغا سے محترز رہیں۔

    مشاعرہ کام یاب ہوا
    مشاعرے سے پہلے میں نے مولانا تاجور کو اس امر پر آمادہ کرلیا کہ وہ انعقادِ مجلس کے آغاز ہی میں اسٹیج پر آکر معقول الفاظ میں معذرت کردیں، اور اعلان کر دیں کہ انجمنِ اربابِ علم اگرچہ سیاست سے بے تعلق ہے لیکن اپنی قومی انجمن کانگرس اور آزادی ہند کے نصب العین کی کسی توہین کو روا نہ رکھے گی۔ مشاعرہ ہوا، اور میں نے دیکھا کہ اس میں بہت سی گاندھی ٹوپیاں موجود ہیں۔ میں الگ بیٹھا رہا۔ جب مولانا تاجور اپنی معذرت پڑھ چکے اور تجویز صدارت ہوگئی، تو میں آکر کرسی صدارت پر بیٹھ گیا۔ اس پر جلسے نے بے حد خوشنودی اور جوش و خروش کا اظہار کیا۔ میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ دیش بندھو چترنجن داس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے بڑے بڑے جرنیلوں میں سے تھے اور اس کے علاوہ بنگلہ زبان کے نہایت شیوا شاعر تھے، خود ڈاکٹر ٹیگور ان کی شاعری کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ دیش بندھو داس کے اعزاز میں انجمن اربابِ علم کے اس مشاعرے کے حاضرین سر و قد کھڑے ہو کر دو منٹ کی خاموشی اختیار کریں۔ اس کے بعد مشاعرے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔ غرض فضا بالکل صاف ہو گئی، گاندھی ٹوپیاں جو اس لیے جمع تھیں کہ ضرورت پڑے تو مولوی تاجور پر پل پڑیں نہایت سکون سے مشاعرہ سنتی رہیں اور انجمنِ اربابِ علم اس آفت سے بچ گئی۔

    فیروز پور کا مشاعرہ
    1926ء میں ڈاکٹر اقبال پنجاب کی مجلس قانون ساز کے ممبر منتخب ہوئے۔ تو بعض مقامات سے انہیں دعوتیں آنے لگیں کہ تشریف لائے کیونکہ لوگ آپ کی زیارت کے خواہاں ہیں۔ فیروز پور میں میاں تصدق حسین خالد اے سی تھے، وہ ایک دن لاہور آئے اور ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر گزارش کی کہ آپ فلاں تاریخ کو فیروز پور آئیے۔ آپ کا جلوس نکالا جائے گا۔ آپ کی صدارت میں ایک مشاعرہ کیا جائے گا۔ اور شام کو گارڈن پارٹی دی جائے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جلوس میرے ذوق کے خلاف ہے۔ مشاعرے کی صدارت میری جگہ سالک صاحب کریں گے اور میں پارٹی میں شامل ہو جاؤں گا۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب نے مجھے بلوایا اور حکم دیا کہ آپ فلاں تاریخ فیروز پور جاکر مشاعرے کی صدارت کریں۔ میں نے سر تسلیم خم کیا، گھر واپس آکر حفیظ صاحب کو بلایا اور کہا کہ کل صبح چند شعراء کو ساتھ لیجیے۔ اور میرے ساتھ فیروز پور چلیے۔ وہ اٹھ کر پنڈت ہری چند اختر کی طرف چلے گئے، سردار اودے سنگھ شائق وکیل فیروز پور تاجور صاحب کے شاگرد تھے۔ اور اہلِ فیروز پور کی طرف سے شعراء کو لے جانے کے لیے لاہور آئے ہوئے تھے۔ دوسرے دن صبح کو ہم لوگ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ مولانا تاجور بھی پنڈت کیفی دہلوی، میلا رام وفا، منوہر سہائے انور، دین محمد فاخر وغیرہ کو ساتھ لے کر جارہے ہیں۔ یہ واقعہ اس لیے بیان کررہا ہوں کہ حفیظ صاحب کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے مولانا نے مجھ سے سلسلہ کلام و سلام بند کر دیا تھا اور وہ مجھے اپنا حریف سمجھتے تھے۔ اس قافلہ شعراء کی ترتیب بھی اسی سلسلے میں کی گئی تھی، چونکہ میں پہلی دفعہ بیرون لاہور کسی مشاعرے میں گیا تھا اور پھر علامہ اقبال کا نام زد صدر تھا۔ اس لیے فیروز پور میں میری آؤ بھگت بہت تپاک سے کی گئی اور مولانا تاجور چونکہ روز کے آنے جانے والے تھے، اس لئے ان کی طرف توجہ نسبتاً کم رہی۔ اس لیے مولانا نے سردار اودے سنگھ شائق کی کوٹھی پر جا کر اپنے آدمیوں کی ایک خفیہ کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی کہ مشاعرے کی صدارت پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی دہلوی کریں۔ کیونکہ وہ سب کے بزرگ ہیں اور سالک صاحب کو بھی ان کے نام سے اختلاف نہ ہوگا۔ لیکن پیشتر اس کے کہ مجھ سے استصواب کیا جاتا، میاں تصدق حسین خالد نے کہہ دیا کہ جس شخص کے اعزاز میں آج کی تقریب ہورہی ہے جب اسی نے مشاعرے کی صدارت کے لیے اپنا قائم مقام نامزد کر رکھا ہے تو پھر ہم کیونکر کسی دوسرے آدمی کا نام لے سکتے ہیں۔ غرض تاجور قافلہ مجبوراً مشاعرے میں شریک ہوا، اور مشاعرے کے اواخر میں مَیں نے حفیظ جالندھری سے پہلے کیفی، تاجور، وفا اور انور کو پڑھوایا۔ جب حفیظ کھڑے ہوئے تو یہ قافلہ چلے جانے کے لیے پر تولنے لگا، جانتے تھے کہ صدر بے ڈھب آدمی واقع ہوا ہے۔ سرِ مشاعرہ دو تین چوٹیں کردے گا اس لیے پنڈت کیفی کو میرے پاس بھیجا کہ صدر جلسہ اجازت دیں تو ہم لوگ چلے جائیں۔ شہر میں کچھ کام ہے۔ پنڈت جی کے ارشاد پر میں کیا عرض کرسکتا تھا۔ بخوشی اجازت دے دی، اور یہ لوگ چلے گئے۔

    مولانا کی ادبی صحافت
    اس میں شک نہیں کہ مولانا تاجور نے اپنی دیو بندی تعلیم سے نہ کوئی فائدہ خود اٹھایا نہ دوسروں کو پہنچایا۔ انہوں نے عمر بھر فارسی پڑھا کر معاش پیدا کی اور اردو ادب و شعر کی خدمت میں مصروف رہے۔ مولانا کی تصانیف صرف چند غزلوں نظموں اور رسالوں تک محدود ہیں۔ ان کے اسکولی اور کالجی شاگردوں کے علاوہ زبان و فن میں بھی ان کے تلامذہ کی تعداد کافی ہے۔ جن کی اکثریت ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل تھی۔ انہوں نے”مخزن” اور "ہمایوں” کی ادارت کی۔ اس کے بعد "ادبی دنیا” اور شاہکار جاری کیے۔ بچّوں کا رسالہ "پریم” جاری کیا، غرض پوری زندگی ادب، شعرا و صحافت میں صرف کی۔ سر سکندر حیات خان کی وزارت کے زمانے میں راجا نرندر ناتھ اور بعض دوسرے ہندو بزرگوں کی تحریک پر حکومت پنجاب نے مولانا کو شمس العلماء کا خطاب دلوایا۔ لیکن مولانا کو بڑھاپے میں دو پلے پلائے فرزندوں کے انتقال کا جو صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ اس کے بعد ان کی صحت بالکل سنبھل نہ سکی۔ جسم تو پہلے ہی دہرا تھا لیکن آخری عمر میں بہت بھاری ہوگئے تھے اور پیٹ میں سانس نہ سماتا تھا۔ بعض دوسرے عوارض بھی لاحق ہوگئے تھے، آخر چھیاسٹھ برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔

    سلام کلام کی تجدید
    لکھ چکا ہوں کہ مجھ سے سلسلہ کلام منقطع تھا لیکن اس انقطاع کے باوجود ہم دونوں کے قلوب ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف تھے۔ اور تکدر کا کہیں نام بھی نہ تھا، یہ محض ضد اور وضع کا معاملہ تھا۔ جس کی وجہ سے ہم مصالحت نہ کرسکے۔ سچ پوچھیے تو یہ ہم دونوں کی حماقت تھی، انتقال سے چند ماہ پیشتر ایک دن یونیورسٹی کے دفتر کے سامنے کھڑے تھے، سر پر ترکی ٹوپی، بھری سی ترشی ہوئی داڑھی جس میں با قاعدہ خضاب کرتے تھے۔ شیروانی اور آڑا پاجامہ پہنے۔ ہاتھ میں ایک چھڑی لیے کھڑے تھے۔ مجھے انہیں دیکھ کر کشش ہوئی، اور کیوں نہ ہوتی، مدۃُ العمر کے دوست، ہم ذوق، استاد بھائی اور راہ ادب کے ہمسفر تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر بے تکلف اپنی چھڑی سے ان کی توند پر ٹہوکا دیا اور کہا "کیا حال ہے مولوی!” یہ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اور مجھے بڑے زور سے لپٹا لیا۔ کہنے لگے: "کم بخت! ساری عمر ضد میں ضائع کر دی۔” میں نے کہا۔ میں اور ضد؟ کیا میں کوئی نجیب آبادی روہیلا ہوں کہ ضد پر پوری عمر قربان کردوں۔ یہ سب تمہارا اڑیل پنا تھا، ورنہ میں تو ہر وقت ملنے کے لیے تیار تھا۔ اس کے بعد ادھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں اور پرانے دوستوں کی باتوں میں جو خاص لذّت اور خاص اشارات ہوتے ہیں وہ اہلِ ذوق سے پوشیدہ نہیں، اس کے بعد دو تین دفعہ اسی طرح سرِ راہ ملے یہاں تک کہ ایک دن یہ سن کر دل بیٹھ گیا کہ تاجور بھی رخصت ہوئے۔

    پنڈت ہری چند اختر میر کا یہ شعر یوں پڑھا کرتے تھے۔
    اے حبِّ جاہ والو جو آج تاجور ہے
    کل اس کو دیکھنا تم نے تاج ہے نہ وَر ہے

    انہوں نے بھی مولانا تاجور کی موت کی خبر سنی تو پندرہ منٹ تک بالکل مبہوت بیٹھے رہے۔ اور پھر مولانا کی محبّت، ان کی عداوت، ان کے جھگڑوں، ان کے رسالوں، ان کے شعر اور ان کی ایڈیٹری کی باتیں جو چلیں تو گھنٹوں گزر گئے۔

  • پروفیسر احمد علی: پیارا آدمی، نڈر ادیب اور ساٹھ فی صد چینی!

    پروفیسر احمد علی: پیارا آدمی، نڈر ادیب اور ساٹھ فی صد چینی!

    پروفیسر احمد علی پاکستان کے معروف ادیب، نقّاد اور دانش وَر تھے جنھوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں مختلف اہم موضوعات پر کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ پروفیسر احمد علی نے قرآن پاک کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔

    اردو دنیا کے ممتاز شاعر، ادیب اور جیّد صحافی چراغ حسن حسرت بھی پروفیسر احمد علی کے بے تکلف دوستوں میں شامل تھے۔ ان قد آور شخصیات کی نوک جھونک اور آپس میں ہنسی مذاق بھی بڑا لطف دیتی ہے۔ پروفیسر صاحب کی شکل و صورت پر حسرت نے ایک موقع کی مناسبت سے بڑی دل چسپ بات کی تھی جسے اردو کے نام وَر مزاح گو شاعر ضمیر جعفری نے رقم کیا ہے۔ آج پروفیسر احمد علی کی برسی پر یہ قصّہ مرحوم کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرشد (ضمیر جعفری چراغ حسن حسرت کو مرشد کہتے تھے) کے دوست مشہور ادیب پروفیسر احمد علی ہندوستان سے چین جا رہے تھے۔ ان کا جہاز شب کے چند گھنٹوں کے لیے سنگا پور میں رک رہا تھا۔ مرشد ایک مدت سے ان کی راہ تک رہے تھے اور ان کے چند گھنٹوں کے قیام کو پُرلطف بنانے کے لیے کوئی پورے تین شب و روز کی مصروفیت طے کر چھوڑی تھی۔

    لیکن اتفاق دیکھیے کہ جس شام احمد علی وہاں پہنچے ہیں، مرشد کو سو کر جاگنے، جاگ کر اٹھنے، اٹھ کر تیار ہونے اور پھر دو تین ساغر برائے ملاقات پینے میں اتنی دیر ہوگئی کہ جب ہم لوگ جہاز پر پہنچے تو پروفیسر صاحب شہر کی گشت پر نکل چکے تھے۔ اب انھیں ڈھونڈھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جاوید نے کہا کہ اتنے بڑے اجنبی، پُراسرار شہر میں اندھا دھند تلاش سے کون مل سکتا ہے۔ لیکن مرشد بہت پُرامید تھے۔

    فرمایا۔ ‘‘کیوں نہیں ملے گا۔ مجھے معلوم ہے احمد علی کو کہاں ہونا چاہیے۔ میرے بھائی میں احمد علی کو جانتا ہوں۔’’ تلاش شروع ہوئی تو احمد علی کو جہاں جہاں ہونا چاہیے تھا، ایک ایک مقام پر چھان مارا مگر وہ خدا معلوم کہاں غائب ہوگئے تھے۔

    کوئی بارہ بجے کے قریب مرشد یہ کہہ کر کہ ذرا تازہ دم ہوکر ابھی پھر نکلتے ہیں، ایک چینی ریسٹورنٹ میں گھس گئے اور وہاں جام و مینا سے نہ معلوم کیا سرگوشیاں ہوئی کہ خیالات کا دھارا احمد علی کو پا سکنے کی رجائیت کی طرف سے یک بارگی احمد علی کو نہ پا سکنے کی قنوطیت کی طرف مڑ گیا۔ بولے:

    ‘‘مولانا یہ احمد علی تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔’’

    ‘‘کیوں؟’’ہم نے پوچھا۔

    ‘‘مولانا چینیوں کے اس شہر میں احمد علی کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ سامنے کے رخ سے احمد علی بھی ساٹھ فی صدی چینی معلوم ہوتا ہے اور چینیوں کے انبوہ میں کسی چینی سے آپ خط کتابت تو کرسکتے ہیں، اسے شناخت نہیں کرسکتے۔ اب اس کو جہاز پر ہی پکڑیں گے۔’’

    پھر وہیں بیٹھے بیٹھے مرشد نے جو احمد علی کی باتیں شرع کی ہیں کہ وہ کتنا پیارا آدمی ہے، کتنا نڈر ادیب ہے، کتنا قیمتی دوست ہے تو درمیان میں ہماری وقفہ بہ وقفہ یاد دہانیوں کے بعد جب ریستواراں سے اٹھ کر آخر جہاز پر پہنچے تو جہاز ہانگ کانگ کو روانہ ہوچکا تھا۔

    بعد میں خط کتابت سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب نے بھی اس شب اپنے آپ کو سنگا پور پر چھوڑ رکھا تھا۔

    اردو اور انگریزی زبان کے معروف افسانہ اور ناول نگار، نقّاد، مترجم پروفیسر احمد علی 14 جنوری 1994ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق دہلی سے تھا۔ 1910ء میں پیدا ہونے والے پروفیسر احمد علی نے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ ان کا ایک افسانہ، اردو افسانوں کے مشہور اور متنازع مجموعے انگارے میں بھی شامل تھا۔ افسانوں کے اس مجموعے کی مزید اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

    پروفیسر احمد علی کی تصانیف میں ہماری گلی، شعلے اور قید خانہ کے علاوہ انگریزی زبان میں لکھی گئیں Muslim China، Ocean of Night، The Golden Tradition، Twilight in Delhi اور Of Rats and Diplomats شامل ہیں۔ انھوں نے انگریزی زبان میں ناول کے علاوہ کئی موضوعات پر مضامین بھی سپردِ قلم کیے۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے پروفیسر احمد علی کو ستارۂ قائداعظم عطا کیا گیا تھا۔

  • کندن لال سہگل: پُرسوز آواز کے لیے مشہور گلوکار کا تذکرہ

    یہ ہندوستان کے بٹوارے سے کئی سال پہلے کی بات ہے جب فلمی صنعت کا مرکز کولکتہ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں کندن لال سہگل کی آواز میں فلمی گیت بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ شائقینِ سنیما نے انھیں بڑے پردے پر بہ طور اداکار بھی کام کرتے دیکھا اور سراہا۔

    فلمی دنیا میں سہگل نے اپنی دل سوز آواز کے سبب جلد اپنی پہچان بنا لی اور ان کے مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ لوگ انھیں سننا پسند کرتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ موسیقی اور گلوکاری میں کوئی کندن لال سہگل کا استاد نہیں‌ رہا بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔

    انھیں فلمی صنعت میں کے ایل سہگل کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ گلوکار سہگل رندِ بلا نوش بھی تھے اور شراب نوشی کی لت نے انھیں زیادہ عرصہ جینے نہیں‌ دیا۔ سہگل 1947ء میں آج ہی کے دن جگر کے عارضے کے سبب دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے زندگی کی صرف 42 بہاریں ہی دیکھیں، لیکن ان کی آواز آج بھی زندہ ہے۔

    1904ء میں کندن لال سہگل جموں کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد امر چند سہگل تحصیل دار تھے اور مہاراجہ جموں و کشمیر کے ملازم تھے۔ والد کو اپنے بیٹے کے گانے کا شوق قطعاً پسند نہیں تھا، لیکن والدہ کیسر دیوی جو خود بھجن اور لوک گیت گایا کرتی تھیں، اپنے بیٹے کے شوق کو ہوا دیتی رہیں۔ ماں بیٹا اکثر گھنٹوں بیٹھ کر گیت گاتے اور مناجات پڑھتے۔ سہگل کی عمر دس سال تھی جب ایک تہوار کے موقع پر انھوں نے رام لیلا میں سیتا جی کا رول ادا کیا۔ برسوں بعد کندن لال سہگل کلکتہ کے نیو تھیٹر سے وابستہ ہوگئے اور خود کو "سیگل کشمیری” کے نام سے متعارف کروایا۔ انھوں نے اپنے کام کے بارے میں گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ تھیٹر میں اپنا نام بھی سہگل کے بجائے سیگل بتاتے تھے۔

    یہ 1938ء کی بات ہے جب سہگل نے جالندھر میں مقیم اپنی ماں کو رقم منی آرڈر کی۔ تب انھیں معلوم ہوا کہ بیٹا فن کار بن گیا ہے۔ بعد میں وہ کلکتہ اور بمبئی میں گلوکار کے طور پر مشہور ہوگئے اور انھیں ایک اداکار کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    کے۔ ایل۔ سہگل نے موسیقی کی تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، لیکن جمّوں ہی کے صوفی پیر سلمان یوسف کے سامنے اکثر ریاض کرتے تھے۔

    کہتے ہیں سہگل نے وصیت کی تھی کہ ان کی ارتھی اٹھاتے ہوئے یہ گانا بجایا جائے جس کے بول تھے: جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے

    سہگل کی شادی آشا رانی سے ہوئی تھی جو ہماچل کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی باسی تھیں۔ ان کی زندگی کا ایک قصّہ مشہور ہے کہ سہگل صاحب کی نئی فلم چنڈی داس ریلیز ہوئی تو ان دنوں وہ نئے نئے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے تھے۔ ایک روز سہگل اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے ساتھ فلم دیکھنے آئے۔ وہاں ان کے پرستاروں نے انھیں پہچان لیا اور لوگ ان سے ملنے آتے رہے۔ اس لیے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے۔

    اس فلم میں بطور اداکار سہگل صاحب کی شادی کا منظر بھی تھا۔ جب پردے پر یہ سین دکھایا جارہا تھا تو سہگل صاحب اپنی نشست پر موجود نہیں تھے اور ان کی بیوی کو یہ منظر حقیقی محسوس ہوا۔ سہگل صاحب بعد میں‌ آشا رانی کو مشکل سے یہ سمجھانے میں کام یاب ہوئے کہ وہ فلم تھی، اور اس کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں۔ اہلیہ کو یقین دلانے کی غرض سے وہ انھیں اسٹوڈیو بھی لے گئے جہاں‌ اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ سہگل صاحب کی نواسی پرمندر چوپڑا کی زبانی مشہور ہوا۔ انھیں یہ بات آشا رانی نے بتائی تھی جو ان کی نانی اور سہگل صاحب کی بیوی تھیں۔

    کندن لال سہگل نے کلکتہ میں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں سیلز مین کی نوکری بھی کی تھی۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات نیو تھیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے ہوئی اور انھوں نے سہگل کی آواز کو بہت پسند کیا۔ بعد میں انھیں نیو تھیٹر کے ساتھ بطور گلوکار وابستہ ہونے کی پیشکش کی اور وہ اچھے معاوضے پر ان کے ساتھ کام کرنے لگے۔

    نیو تھیٹر میں منجھے ہوئے فن کاروں اور موسیقاروں نے سہگل کے فن کو نکھارنے میں مدد دی۔ انہی موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر سہگل نے وہ نغمے گائے جو ہندوستان بھر میں‌ ان کی پہچان بنے۔ ان میں‌ فلم دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہی، اور ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے شامل ہیں۔

    نیو تھیٹر کی فلموں کے لیے انھوں نے اداکاری بھی کی اور رفتہ رفتہ شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔ انھوں نے اس زمانے کی مشہور بنگالی فلم دیو داس میں ایک معمولی کردار ادا کیا تھا اور گانے بھی گائے تھے، لیکن جب یہی فلم ہندی میں بنائی گئی تو کندن لال سہگل نے دیو داس کا مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد میں وہ بمبئی چلے گئے اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہوئے جہاں متعدد کام یاب فلمیں ان کے حصّے میں‌ آئیں۔

    سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ انھیں غالب سے والہانہ شغف تھا اور غالب کو بہت دل سے گایا۔ سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947ء میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔

    ہندوستانی فلمی صنعت کے اس مشہور گلوکار نے جالندھر میں‌ اپنا سفرِ زیست تمام کیا۔

  • اردو تنقید کو مغربی دانش سے روشناس کرانے والے محمد حسن عسکری کا تذکرہ

    اردو تنقید نگاری میں محمد حسن عسکری صاحب کی حیثیت ایک معمار کی ہے جن کی تحریریں غیرمعمولی اور منفرد ہیں۔ افسانہ نگاری اور تراجم کے علاوہ وہ اسلامی ادب کی نظریہ سازی میں بھی مشغول رہے۔ یہ ان کی زندگی کے آخری برسوں کی بات ہے۔ آج اردو زبان کے صفِ‌ اوّل کے اس نقّاد کی برسی ہے۔

    اردو زبان و ادب نے محمد حسن عسکری کی فکر اور تنقید کی بدولت کئی محاذ سَر کیے جس نے ان کے ہم عصروں کو بھی متأثر کیا۔ ان کا شمار ایسے بلند پایہ نقّادوں‌ میں ہوتا ہے جنھوں نے جدید مغربی رجحانات کو اردو داں طبقے میں متعارف کرایا اور ادب کا دامن وسیع کیا۔

    محمد حسن عسکری انگریزی ادب کے استاد بھی تھے۔ وہ درویش صفت اور سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے جس سے متعلق ایک واقعہ ممتاز ادیب اور نقّاد سجاد باقر رضوی کی زبانی پڑھیے:

    ’’عسکری صاحب کو کئی بار کالج کی پرنسپلی کی پیش کش ہوئی، مگر وہ ہمیشہ انکار کر دیتے۔ کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے، پرنسپل صاحب چھٹّی پر گئے تو انہیں بہ جبر و اکراہ چند دنوں کے لیے پرنسپل کا کام کرنا پڑا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ پرنسپل کی کرسی پر نہیں بیٹھتے۔ ساتھ کے صوفے پر بیٹھ کر کاغذات نمٹاتے ہیں۔

    ایک صاحب سے نہ رہا گیا، پوچھا: ”عسکری صاحب! آپ کرسی پر کیوں نہیں بیٹھتے؟“

    یار پھسلتی ہے۔“ عسکری صاحب نے کرسی کی مختصر مگر جامع تعریف کی۔‘‘

    محمد حسن عسکری 18 جنوری 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آئے تھے اور کچھ عرصہ لاہور میں گزارنے کے بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے استاد مقرر ہوئے اور تدریس کا یہ سلسلہ تاعمر جاری رہا۔ انھوں نے تدریس کے ساتھ اردو اور انگریزی زبان میں کئی مضامین سپردِ قلم کیے جو تنقید کے میدان میں اردو کا بڑا سرمایہ ہیں۔

    ان کا تعلق الٰہ آباد سے تھا جہاں وہ 5 نومبر 1919ء کو پیدا ہوئے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی سند لی۔ یہاں حسن عسکری صاحب کو فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرّار حسین جیسے بلند پایہ تخلیق کاروں اور اساتذہ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا جس نے حسن عسکری کی فکری راہ نمائی کی اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید نکھرنے کا موقع ملا۔

    بطور ادبی تخلیق کار انھوں نے ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر دراصل انگریزی زبان سے ترجمہ کی گئی تھی۔ یہ 1939ء کی بات ہے۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر انھوں نے اپنے دو طویل مضامین شایع کروائے۔ 1943ء میں انھوں نے بعنوان جھلکیاں کالم لکھنے کا آغاز کردیا۔

    محمد حسن عسکری نے ادبی تنقید لکھنے کے ساتھ افسانہ نگاری بھی کی۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    انگریزی زبان و ادب پر محمد حسن عسکری کی گہری نظر تھی اور ان کا مطالعہ بھی خوب تھا جس نے انھیں تنقید کے میدان میں خوب فائدہ پہنچایا۔ انھوں نے کئی عالمی شہرت یافتہ ادیبوں کی تخلیقات انگریزی زبان میں پڑھی تھیں اور ان کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا جو زبان و بیان پر ان کی گرفت کا ثبوت ہیں۔ فرانسیسی ادب کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنے مضامین میں فرانسیسی ادبیات سے استفادہ کرنے پر بھی اصرار کیا۔

    ’’وقت کی راگنی‘‘ ان کی وہ کتاب تھی جس نے بتایا کہ محمد حسن عسکری بنیادی طور پر شعریات کے احاطے میں داخل ہو کر نئے نکات پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی کتاب کے کئی مضامین ہمیں مغربی ادب کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں‌ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیرملکی ادیبوں کے اسلوب اور ان کی رمزیات پر محمد حسن عسکری کی گہری نظر تھی۔ ان مضامین میں ’’جنگِ عظیم دوم کے بعد برطانوی ادب‘‘، ’’جوئیس کا طرزِ تحریر‘‘، ’’فرانس کے ادبی حلقوں کی دو بحثیں‘‘، ’’یورپ کے چند ذہنی رجحانات‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

    محمد حسن عسکری زندگی کے آخری برسوں میں اسلامی شعور اور اس کے زیرِ اثر مباحث اور فکر کا اظہار کرنے لگے تھے اور اپنی تحریروں میں انھوں نے جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ کئی مغربی تصورات نے دین کے سلسلے میں بہت سی کئی گمراہیاں پیدا کی ہیں۔

    اردو کے اس نام وَر نقاد کو دارالعلوم کورنگی، کراچی کے احاطہ میں موجود شہرِ خموشاں میں لحد نصیب ہوئی۔

  • لیوس کیرول: ایک مقبول ناول نگار جو ماہرِ ریاضی بھی تھا

    لیوس کیرول کا بچّوں‌ کے لیے تخلیق کردہ محیّرالعقول اور دل چسپ واقعات پر مبنی ناول بعنوان ’ایلس ان ونڈر لینڈ‘ (Alice’s Adventures in Wonderland) 1865ء میں شایع ہوا تھا۔ یہ کہانی کتابی شکل میں اپنے قارئین اور بعد میں‌ فلمی پردے پر شائقینِ سنیما میں بھی مقبول ہوئی۔

    اس ناول کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے آج بھی بچّے ہی نہیں بڑے بھی نہایت شوق سے پڑھتے ہیں جب کہ اس کی اشاعت کو ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اِس مدّت میں ایلس ان ونڈر لینڈ پر مبنی کئی ڈرامے اور فلمیں اسکرین کی زینت بنیں۔ ناول کے مصنّف لیوس کیرول نے 14 جنوری 1898ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    لیوس کیرول کا اصل نام چارلس ڈاج سن تھا۔ لیکن وہ اپنے قلمی نام سے پہچانے گئے۔ لیوس کیرول کا تعلق برطانیہ سے تھا جہاں انھوں نے 27 جنوری 1832ء کو آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے وہ اساتذہ میں ذہین طالبِ علم کی حیثیت سے پہچانے گئے۔ ان کی دل چسپی کا مضمون ریاضی تھا اور وہ اس کے ماہر بنے۔ بعدازاں آکسفورڈ میں‌ ریاضی کے استاد مقرر ہوئے۔ انھوں نے اپنے علمی ذوق و شوق اور تحقیق و اختراع سے کام لے کر ریاضی اور سائنس کے متعدد بنیادی اصول اور قاعدے سکھانے کے طریقے بھی ایجاد کیے۔ وہ علم و فنون کے بھی دلدادہ تھے اور اسی شوق نے انھیں لکھنے کی جانب مائل کیا۔

    لیوس کیرول نے شارٹ اسٹوریز لکھیں اور شاعری بھی کی جب کہ مذکورہ ناول نے انھیں دنیا بھر میں شہرت دی۔ وہ فوٹو گرافی اور مصوّری کا بھی شوق رکھتے تھے اور ایک آرٹسٹ کی حیثیت سے یہ ہنر بھی آزمایا۔

    لیوس کیرول نے نوعمری میں شارٹ اسٹوریز لکھنا شروع کیں اور ساتھ ہی نظمیں‌ بھی کہنے لگے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات مقامی جرائد کو بھیجیں تو مدیران نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور کہانیاں شایع ہونے لگیں۔ 1854ء سے 1856ء کے دوران مصنّف کی حیثیت سے ان کی تحریروں کو قومی سطح کے اخبارات اور رسائل میں جگہ ملی۔ لیوس کیرول اپنی تخلیقات میں طنز اور مزاح کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

    مصنّف کے مشہور ناول ایلس ان ونڈرلینڈ کو نقاد حیران کن ادبی شہ پارہ تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو قاری کو حیران کن دنیا میں لے جاتی ہے۔ اس میں‌ ایک معصوم لڑکی خرگوش کے بِل میں گر جاتی ہے، اور پھر وہ ایک انوکھی دنیا میں پہنچ جاتی ہے جہاں‌ اسے عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ اسے پڑھتے پڑھتے قاری بھی ایک بہت مختلف دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ اپنے ناول کی اوّلین اشاعت میں کیرول نے اپنے ہی تیّار کردہ تصویری خاکے شامل کیے تھے۔

  • معروف فیچر نگار ریاض بٹالوی کا تذکرہ

    کوچۂ صحافت میں ریاض بٹالوی اپنی مستند، جامع اور معلومات افزا تحریروں کے سبب پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ان صحافیوں میں‌ سے تھے جنھوں نے فیچر نگاری میں زورِ قلم دکھایا اور منفرد پہچان بنائی۔ ریاض بٹالوی 2003ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

    ایک زمانہ تھا جب اخبارات اور رسائل کثیر تعداد میں شایع ہوتے تھے اور انھیں وہ قارئین میسر تھے جو باخبر رہنے کے ساتھ اپنے ذوق و شوق اور دل چسپی کی تحریریں پڑھنا پسند کرتے تھے۔ اخبارات کے رنگین صفحات یا میگزین میں فیچر اور تفصیلی رپورٹیں شایع ہوتی تھیں‌ جن کو بڑی توجہ اور شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ فیچر نگاری صحافتی تحریروں کی اہم اور توانا قسم تھی اور اسے تخلیقی صحافت مانا جاتا تھا۔ ریاض بٹالوی اسی میدان میں معروف ہوئے۔

    ریاض بٹالوی نے اپنے فنِ تحریر میں مہارت سے کام لے کر کئی فیچر اور خصوصی مضامین قارئین کو دیے جس کے لیے ان کا علم، وسیع مشاہدہ اور تجربہ و تحقیق بھی قابلِ ذکر ہے۔انھوں نے ادبی پیرائے میں معیاری فیچر قارئین کے سامنے پیش کیے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اردو صحافت میں ریاض بٹالوی کا سفر کئی دہائیوں تک جاری رہا اور علم و تحقیق پر مبنی ان کے خصوصی مضامین بالخصوص مشرق کی زینت بنے جو اپنے زمانے کا ایک مشہور روزنامہ تھا۔ ریاض بٹالوی کا تعلق متحدہ پنجاب کے ضلع گورداسپور سے تھا۔ وہ قصبہ بٹالہ میں 5 فروری 1937ء کو پیدا ہوئے، ان کا نام ریاضُ الحسن رکھا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ان کا خاندان ہجرت کر کے گجرات آ بسا تھا۔

    انھوں نے زندگی میں کئی مشکلات کا سامنا کیا اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کے لیے تگ و دو شروع کر دی۔ مقامی سطح پر صحافت سے وابستہ ہوئے لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔ بعد میں گجرات سے نکلنے والے مختلف علاقائی اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا، اور پھر انھوں نے تخلیقی سفر کا آغاز کرتے ہوئے افسانے تحریر کیے۔ اس کے ساتھ ریاض بٹالوی نے صحافت کو مستقل پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا اور راولپنڈی چلے گئے جہاں اس دور کے معروف صحافی اور تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کے ”کوہستان“ سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔ یہاں انھوں نے کام کیا اور سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا، لیکن 1963ء میں لاہور سے ”روزنامہ مشرق“ کا آغاز ہوا تو ریاض بٹالوی اس اخبار سے وابستہ ہوگئے۔

    ریاض بٹالوی نے ایّوب خان کے دور میں فیچر نگاری کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں افسانوی انداز اپنایا جسے بہت پذیرائی ملی۔ ان کی مقبولیت بڑھتی گئی اور اخبارات میں ریاض بٹالوی کی تحریروں کو نمایاں کرکے شایع کیا جانے لگا۔ اردو صحافت میں فیچر نگاری کو ریاض بٹالوی کی بدولت ایک نئی فضا میں پرواز کرنے کا موقع ملا۔ ریاض بٹالوی اپنے ساتھیوں سے موضوعات پر مشاورت کرتے اور مدیرِاعلیٰ کی منظوری کے بعد اس کے لیے مواد اکٹھا کرنے نکل جاتے، اس کے لیے وہ فیچر نگار کی حیثیت سے لوگوں سے ملتے، مختلف مقامات پر جاتے اور جو حقائق اور معلومات اکٹھی کرتے انھیں افسانوی انداز میں‌ سپردِ قلم کر دیتے۔ ریاض بٹالوی کا باتصویر فیچر اخبارات میں نمایاں‌ جگہ پاتا۔ انھوں نے سلگتے ہوئے مسائل اور حساس موضوعات پر بڑی محنت اور لگن سے کام کیا اور اپنے فیچر منفرد اسلوب میں قارئین تک پہنچائے۔ یہ فیچر باقاعدگی سے ”ایک حقیقت، ایک افسانہ“ کے عنوان سے شایع ہوتے تھے۔

    پاکستان کے اس نام ور صحافی اور مقبول فیچر نگار کو حکومتِ پاکستان نے 1986ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ مشرق کے علاوہ ریاض بٹالوی نے کئی اخبارات کے لیے کالم اور فیچر لکھے۔ تاہم رونامہ مشرق کے ساتھ ان کا تعلق تیس سال سے زائد عرصہ تک رہا۔

    ریاض بٹالوی کو لاہور میں میکلوڈ روڈ کے مومن پورہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • چاند نگر کے انشا جی!

    انشاؔ جی ہے نام اِنہی کا چاہو تو اِن سے ملوائیں
    اِن کی روح دہکتا لاوا ہم تو اِن کے پاس نہ جائیں
    یہ جو لوگ بنوں میں پھرتے جوگی بیراگی کہلائیں
    اِن کے ہاتھ ادب سے چومیں اِن کے آگے سیس نوائیں
    نہ ان کی گدڑی میں تانبا پیسہ نہ منکے مالائیں
    پریم کا کاسہ روپ کی بھکشا، گیت،غزل، دوہے، کویتائیں

    ان اشعار کے خالق فقیرانہ مزاج کے حامل ابنِ انشا ؔہیں جو دوچار برس نہیں تقریباً چار دہائیوں تک اپنی بے نظیر تخلیقی صلاحیتوں، اور ادب کی متنوع اصناف پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے ادب کے بے تاج بادشاہ بنے رہے۔

    ابنِ انشاءؔ کی تاریخِ ولادت میں اختلاف ہے، اس ضمن میں آپ خود تحریر کرتے ہیں کہ ”پیدائش ضلع جالندھر(مشرقی پنجاب) کے ایک دیہاتی کاشت کار گھرانے میں ہوئی۔ اس گھرانے میں تعلیم نہیں تھی۔ فقط والد صاحب نے چوتھی جماعت تک پڑھا تھا۔ پیدائشی نام شیر محمد ہے جو راجپوت ہونے کی نسبت سے شیر محمد خان ہو گیا۔پیدائش کی قطعی تاریخ معلوم نہیں۔ دیسی تاریخوں کا جو حساب معلوم ہوا۔ اس سے اساڑھ مہینے کی پہلی تاریخ کا دن 15جون1927ء معلوم ہوتا ہے۔“

    گویا ابنِ انشا ؔایک ایسے گھرانے کے فرد تھے جہاں تعلیم عام نہ تھی لیکن فطری ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ابنِ انشانے ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ 1946ء میں گریجویشن کرنے کے بعدامپیریل کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ اور پرسا انسٹی ٹیوٹ دہلی میں ایک رسالے کی ادارت سے وابستہ ہو گئے۔ بعد ازاں آپ نے آل انڈیا ریڈیو میں بحیثیت مترجم کام کرنے کی درخواست کی، جلد ہی آپ کا تقرر بھی ہو گیا، لیکن تقسیمِ ہند کی وجہ سے آپ نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیااس کی بابت یوں رقمطراز ہیں:

    ”ادھر دلی کی فضا بکھرنے لگی۔ ایک روز تو چند سکھ کرپانیں باندھے ہمارے کمرے میں دندناتے چلے آئے،آخر ہم نے دلی سے کنارہ کیااور اپنے گاؤں انبالہ پہنچ کر اگلے ہی دن پاکستان کی راہ لی۔“

    پاکستان میں ابنِ انشاکا مسکن لاہور تھا۔ آپ ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1949ء میں ریڈیو پاکستان لاہور خبروں کا یونٹ کراچی منتقل ہونے کے بعدابنِ انشانے بھی رختِ سفر باندھا اور کراچی میں سکونت اختیار کر کے ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہو گئے،اس دوران آپ نے اردو کالج میں ایم اے کے لیے داخلہ لے لیا۔یہاں کالج کے مجلہ ”برگِ گل“ کے مدیر بنے۔

    اردو کالج کے بانی بابائے اردو سے اپنے تعلق کے حوالے سے ڈاکٹر خلیل الرحمٰن اعظمی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ”مولوی صاحب سے میرا تعلق 1952ء سے ہے۔اس سال میں نے اردو کالج سے ایم اے پاس کیا۔امتحانوں سے فارغ ہو کر ڈان اخبار میں مضامین کا سلسلہ شروع کیا۔پہلا مضمون قدرتاً مولوی صاحب پر تھا۔یہ مضمون رسمی نہیں تھا کچھ عجب سا مسخرہ پن لیے تھا، بہر حال مولوی صاحب کو وہ بہت پسند آیا۔اور اُنہوں نے مجھے خط لکھا۔میری زبان وبیان کی تعریف کی۔ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں بدقسمت اُن کے پیار سے محروم تھا۔ اُنہوں نے حد سے زیادہ توجہ اورعنایت سے نوازا اور برابر آنے کو کہا۔“

    رفتہ رفتہ بابائے اُردو سے ابنِ انشا کا تعلقِ خاطردوستی میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ انجمن کے معاملات میں بابائے اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ابنِ انشا کو بہت قلق تھا چونکہ طبعاً آپ حساس اور منصف مزاج تھے اس لیے اس ضمن میں ابنِ انشا کی مساعی جمیلہ لائق صد ستائش اور قابلِ قدر ہے۔ ابنِ انشا کی کاوشیں بار آور ہوئیں اور حق بہ حقدار رسید کے مصداق انجمن بابائے اُردو کے حوالے کر دی گئی، 1950ء میں ریڈیو کی ملازمت ترک کر کے ابنِ انشا پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سیکریٹریٹ میں بحیثیت سینئر مترجم فائز ہو گئے۔ 1952 ء میں آپ محکمہ دیہات سے منسلک ہوئے تو محکمے سے جاری ہونے والے جریدے ”پاک سرزمین“ کی ادارت کی اور رسالے کے معیار پر خصوصی توجہ دی۔ 1960ء میں روزنامہ امروز کے لیے کالم نگاری کی۔ مولانا چراغ حسن حسرت کی رحلت کے بعد روزنامہ امروز کراچی کے ایڈیشن کی ذمہ داری ابنِ انشاکو سونپ دی گئی۔ 1965ء میں روزنامہ انجام کے لیے کالم لکھے۔ 1966ء میں روزنامہ جنگ میں کالم نگاری کا آغاز کیا جو تادمِ مرگ جاری رکھا۔ انشا جی کے شگفتہ اور پر مغز کالم عوام و خواص دونوں میں یکساں مقبول اور پسند کیے جاتے تھے۔ 1961ء میں پاکستان کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر مطبوعات کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا تو آپ نے زرعی تحقیقاتی ادارے کی مطبوعات کو جدید طرز کے مطابق استوار کیا۔ اسی دوران بیلجیم میں ہونے والے عالمی مشاعروں کے اجتماع میں پاکستان کی نمائندگی کی اور کئی یورپی ممالک کا دورہ کیا، یہ سفر آپ کی سفرنامہ نگاری کے لیے سنگِ میل ثابت ہُوا۔ ”دنیا گول ہے“ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: ”یوں تو ہماری آوارگی 1961ء کے سفرِ یورپ سے شروع ہوتی ہے اور1963 ء میں ہم ایران سے فارسی بولتے ہوئے 1964 ء میں لنکا سے وہاں کی ملاحت مآبوں پر جان چھڑکتے ہوئے لوٹے تھے۔ لیکن1966،1967 اور1968 ہمارے لیے سیاحت کے بھرپور سال تھے۔ یورپ اور پچھم ہماری وحشت کے صحرا تھے۔“

    بلا شبہ ابن انشا کی اس سیاحت کے طفیل پاکستانی ادب میں آوارہ گرد کی ڈائری، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے، دُنیا گول ہے، نگری نگری پھرا مسافر جیسے خوش طبع سفر ناموں کا اضافہ ہُوا۔ دورانِ سیاحت پیش آنے والے تجربات، واقعات، مشاہدات اور ذاتی احساسات ابنِ انشا نے اپنے سفر ناموں میں جس طرز سے بیان کیے آپ کا وہ اسلوب قارئین کے لیے دلنشین ٹہرا۔ قارئین آپ کے سفر ناموں کا انتظار کرتے اور آپ کے شگفتہ اور چبھتے ہوئے فقروں سے خوب لطف اندوز ہوتے۔ ”دنیا گول ہے ” کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

    ”ہم اس دھرتی کا گز بنے بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑاآئے لیکن ہمیں تو ہرچیز چپٹی ہی نظرآئی۔ دنیا سے زیادہ تو ہم خود گول ہیں کہ پیکنگ سے لڑھکے تو پیرس پہنچ گئے اور کوپن ہیگن سے پھسلے تو کولمبو میں آکر رکے بلکہ جکارتا پہنچ کر دم لیا۔“

    1961ء میں بیلجیم کا سفر ابنِ انشا کے لیے اس طرح وسیلۂ ظفر ثابت ہُوا کہ سفر سے واپسی پر آپ کو نیشنل بک سینٹر کے مرکزی ڈائریکٹر کا منصب عطا کیا گیا۔ اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد ابنِ انشا نے پاکستانی کتب کی ترقی اور فروغ کے لیے مثالی خدمات انجام دیں۔اور محض پاکستان ہی میں نہیں بیرونِ ممالک میں بھی خوش اسلوبی اور ذمہ داری سے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستانی مطبوعات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ یونیسکو کی جانب سے کتابوں کی ترقی و فروغ کے لیے جاپان کے شہر ٹوکیو میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں ابنِ انشا نے پاکستان کی بھرپور نمائندگی کی۔ کانفرنس کے تمام شرکاء میں آپ کو خوب پذیرائی ملی۔ 1967 میں انقرہ میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں ایک بار پھر ابنِ انشا کو پاکستان کی نمائندگی کا فرض سونپا گیا۔ آپ نے اپنا فرض عمدگی سے نبھایا۔ 1967 ہی میں آپ نے تین ماہ کے تربیتی ورکشاپ کے لیے یورپ اور مشرقی وسطیٰ کا سفر کیا۔ عالمی سطح پر ہونے والی ادبی کانفرنسوں میں شرکت کر کے ابنِ انشا نے پاکستان کے کامیاب نمائندہ ہونے کا حق ادا کر دیا۔ آپ کی ان ہی ادبی خدمات کے پیشِ نظر آپ کو 1977 میں لندن کے سفارتخانے میں فائز کیا گیا۔ جہاں اردو مخطوطات کو محفوظ کر کے اُن کی مائیکرو فلم حاصل کرنے کی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی۔ آپ نے اپنا یہ فرض بھی حسبِ سابق نہایت خوش اسلوبی اور ذمہ داری سے نبھایا گو کہ یہ وہ زمانہ تھا جب آپ علاج کی غرض سے لندن گئے تھے لیکن آپ کے جذبۂ شوق اور کتاب دوستی کو ہر شے پر سبقت حاصل رہی۔

    بحیثیت مزاح نگار ابنِ انشانے منفرد انداز اختیار کیا۔ انشا جی کی حسِ مزاح آ پ کے سفرناموں، کالموں، مکاتیب، مضامین میں نمایاں طور پر جلوہ گر ہے۔ اردو کی آخری کتاب، خمار گندم، قصہ ایک کنوارے کا طنز ومزاح پر مبنی آپ کے مضامین کے مجموعے ہیں۔ ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی رقمطراز ہیں، ”بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ اردو مزاح کے سنہری دور میں جی رہے ہیں۔ سادگی و پر کاری شگفتگی و بے ساختگی میں وہ اپنا حریف نہیں رکھتے۔ اُن کی تحریر ہماری ادبی زندگی میں ایک سعادت اور نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔“

    بلا شبہ ابنِ انشاکے قلم سے پھوٹنے والے مزاح کے چشموں سے قارئین سیراب بھی ہوتے ہیں اور شاداب و سرشار بھی۔ آ پ کے مضامین کا مجموعہ ”اُردو کی آخری کتاب“ محض 192 صفحات پر مشتمل ہے۔ لیکن یہ چھوٹی سی کتاب جو ضخیم بھی نہیں اپنے اندر اتنی وسعتیں لیے ہوئے ہے کہ اس میں ایک جہاں آباد ہے۔ یہ باتصویر کتاب ایک روزنامچہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مضمون کے آخر میں مضمون سے متعلق سوالات پڑھ کر اس پر اسکول ڈائری کا بھی گماں ہوتا ہے۔ انشا جی نے جس ہنرمندی سے یہ منفرد اسلوب برتا ہے یقیناً لائقِ ستائش ہے۔ طنز و مزاح کے پیرائے میں بڑے قرینے سے تاریخی معلومات مہیا کر دیں۔ کتاب کے آغاز میں ابنِ انشا قارئین کو خبردارکر دیتے ہیں کہ ”یہ کتاب صرف بالغوں کے لیے ہے۔ ذہنی بالغوں کے لیے۔ معمر نابالغوں کے لیے نہیں۔“

    ابنِ انشا بہترین مترجم تھے، ترجمہ نگاری میں آپ کے جوہر خوب کھل کر سامنے آئے۔ آپ نے کئی شعری و نثری تخلیقات کے ترجمے کیے۔ نکولس کے ناول کاترجمہ ”محبوبہ“ کے نام سے شائع ہُوا۔ ایڈگر ایلن پو سے ابنِ انشا بہت متاثر تھے۔ آپ نے پو کی تخلیقات کا ترجمہ کیا۔ ادارہ مطبوعات فرنیکلن میں مترجم کے فرائض ادا کرتے ہوئے متعدد کتب کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ چینی نظموں کے انگریزی تراجم آپ کو ایسے بھائے کہ اردو میں نہ صرف ان کا ترجمہ کر ڈالا بلکہ ”ٹھنڈا پربت“ کے نام سے تراجم کا مجموعہ بھی شائع کر دیا۔ ادارۂ مطبوعات پاکستان کے لیے پاکستان کی علاقائی شاعری کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔

    ابن انشا کے مکتوبات میں بھی بذلہ سنجی، ذاتی زندگی اور نظریہ حیات نمایاں ہیں۔ اپنے قریبی دوست ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی کو لکھتے ہیں: ”آپ کا کرم نامہ ملا،۔آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کا میں مستحق تو نہیں، لیکن آپ کے الفاظ سے بوئے وفا آتی ہے، اس لیے قبول کر کے ممنون ہوں۔“

    یوں توابنِ انشا کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ لیکن اپنے ذاتی تجربات اور احساسات کی ترجمانی کے لیے شاعری کی صنف آپ کا بہترین انتخاب ہے۔ شاعری آپ کو اپنے دہقان باپ منشی خان سے وراثت میں ملی جو پنجابی زبان میں شاعری کرتے تھے۔ ابنِ دہقان نے شعر و ادب میں ابنِ انشا کے نام سے خوب نام کمایا۔ 1942ء میں لدھیانہ اسکول میں تعلیم کے دوران شعر گوئی کا آغاز کیا۔ مکتوبات میں دوستوں سے شاعری کی زبان میں گفتگو کرتے۔

    اپنی چھوٹی بہن بلقیس بانو کے لیے جو کہ ابھی بچی ہی تھیں آپ شاعری کرتے اور پھر بالآخر ان تمام نظموں پر مبنی ایک شعری مجموعہ ”بلو کا بستہ“ شائع ہو گیا۔ بچوں کا دل موہ لینے والا سہل اور دلچسپ اسلوب۔ ایک شعر نذرِ قارئین ہے:
    اُردو نہ جانو انگلش نہ جانو
    کہتی ہو خود کو بلقیس بانو

    ابنِ انشا کو انشا جی کا نام آپ کے عزیز دوست جمیل الدین عالی ؔنے دیا جو ایسا مقبول ہوا کہ آپ کی عرفیت ہی بن گیا۔

    زمانۂ طالب علمی میں اختیاری مضمون کے طور پر فارسی اور ہندی کا انتخاب ابنِ انشا کے لیے بہت سود مند ثابت ہُوا۔ بالخصوص آپ کی شاعری جس میں بے تحاشہ ہندی الفاظ اور اصطلاحات اور ان سے جنم لینے والی غنائیت اور اور شیرینی پڑھنے اور سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔

    کبھی اس کے ملن کی آشا نے اک جوت جگائی تھی من میں
    اب من کا اُجالا سنولایا پھر شام ہے من کے آنگن میں

    جمالیاتی حس ابن انشا کی شاعری کا خاصہ ہے۔ انسانی جذبات اور نفسیات پر آپ کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ آپ کی نظم اور غزل دونوں ہی اس ہنر سے آراستہ اور تابندہ ہیں۔ ترقی پسند ہونے کے باوجود وہ گھن گھرج جو ترقی پسند شعراء کی شناخت ہے ابنِ انشا نے اس سے الگ اپنی راہ نکالی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر دیگر ترقی پسند شعراء کی بہ نسبت دھیما لہجہ رکھا۔ اپنی موضوعاتی اور انقلابی شاعری کے ضمن میں ابنِ انشا اپنا نظریہ شعری یوں بیان کرتے ہیں کہ ”اپنے موضوعات کے اعتبار سے یہ نظمیں تبلیغی نہیں بلکہ ذاتی ہیں اور محمد حسن عسکری کے الفاظ میں یہ نظمیں میں نے اپنے اعصاب سے پوچھ کر لکھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض جگہ ان میں تذبذب یا تشائم راہ پاگئے ہیں۔ میں بڑی آسانی سے ان کے انجامیے لوگوں کے حسبِ د ل خواہ رکھ سکتا تھا لیکن پھر وہ اوروں کی نظمیں ہوتیں، میرے جذبات اور میری کمزوریوں کی ترجمان نہیں رہتیں۔“

    ”چاند“ انشا جی کی شاعری کا استعارہ ہے جس کو انشا جی نے اس حسن و خوبی سے اپنے کلام میں برتا ہے کہ چاند کو چار چاند لگا دیے۔ چاند نگر کا یہ باسی، اس بستی کے ایک کوچے کا مکیں، دلِ وحشی کا ہمسفر، اپنی طرز کا منفرد شاعر ہے۔ ابنِ انشا کی شاعرانہ ہنر مندی اگر آپ کی مختصر نظموں میں اپنا رنگ جماتی ہے تو طویل نظموں میں بھی خود کو منواتی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی”انشا جی کی طویل نظمیں اُردو شاعری کا نیا باب ہیں“ بلا شبہ بغداد کی ایک رات، دیوارِ گریہ، یہ بچہ کس کا بچہ ہے، ڈاکٹر کشفی کے قول کی دلیل ہیں۔

    اور جوگی انشا جی بھی تو ایک مسافر تھے۔ راہِ زیست کے مسافر۔ اچھے بھلے ادبی سرگرمیوں میں مصروف تھے معلوم بھی نہ ہُوا کہ کب سرطان جیسا موذی مرض آپ جیسے حلیم الطبع انسان دوست پر حملہ آور ہو گیا۔ آپ کو معلوم ہو گیا لیکن آپ نے اپنی بیماری کو کسی خزانے کی طرح چھپا کر رکھا۔ 1977ء میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوئے وہاں بھی اپنی بیماری سے جنگ لڑتے ہوئے آپ وطنِ عزیز کے ادبی سفیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 29 نومبر1976ء میں ٹوکیو میں قیام کے دوران آپ نے اپنی طویل نظم”عمر کی نقدی“ کہی۔

    گو کہ اس سے قبل ”انشاجی اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا“ کہہ چکے تھے۔ لیکن ”عمر کی نقدی“ الہامی کیفیت میں تخلیق کی جانے والی نظم محسوس ہوتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ابنِ انشا نے بیماری منکشف ہونے کے بعد خود کو زندگی سے دور ہوتا محسوس کیا ہو جب ہی تو آپ نے کہا:

    اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
    اب ہم کو اُدھار کی حاجت ہے
    ہے کوئی جو ساہوکار بنے
    ہے کوئی جو دیون ہار بنے

    11 جنوری 1978ء میں محض اکیاون برس کی عمر میں انشاؔ نام کا دیوانہ جب حقیقت میں اس جہان فانی سے کوچ کر گیا تو ہر آنکھ اشک بار تھی۔

    بے حد روشن اور شرارتی آنکھوں والے انشا جی کی آنکھیں بند ہوئیں تو آپ کے قریبی دوست قتیلؔ شفائی نے اپنے مشترکہ دوستوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:

    تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی ایک بات ہماری بھی مانو
    کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں اُس دیس نہ جاؤ انشا جی
    نہیں صرف قتیلؔ کی بات یہاں کہیں ساحر ؔہے کہیں عالی ؔہے
    تم اپنے پرانے یاروں سے دامن نہ چھڑاؤ انشاؔ جی

    لیکن جانے والا اپنی عمر کی میعاد پوری کر کے چلا گیا۔ یہ کہتے ہوئے کہ

    یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانہ ڈھونڈو
    یاں تو آتے ہیں مسافر سو چلے جاتے ہیں

    بعد از مرگ انہیں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔ ابنِ انشا کا کام اور نام قارئینِ ادب کے دلوں میں ہمیشہ روشن رہے گا۔

  • اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری کی برسی

    یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے بعد ریڈیو سے قیامِ پاکستان کا جو اعلان نشر ہوا تھا، وہ کس کا لکھا ہوا تھا۔ یہ حفیظ ہوشیار پوری تھے۔

    محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
    تری محفل میں‌ لیکن ہم نہ ہوں گے

    حفیظ ہوشیار پوری کی یہ مشہور غزل مہدی حسن کی آواز میں‌ کئی دہائیوں سے مقبول ہے۔ آج بھی باذوق اور موسیقی کے رسیا اس کلام کو بہت ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ 10 جنوری 1973ء کو اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری انتقال کرگئے تھے۔

    حفیظ ہوشیار پوری کا اصل نام شیخ عبدالحفیظ سلیم تھا۔ وہ 5 جنوری 1912ء کو دیوان پورہ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے تھے، مگر اپنے آبائی وطن ہوشیار پور کی نسبت سے حفیظ ہوشیار پوری کہلائے۔ تقسیم کے بعد لاہور اور پھر کراچی آگئے تھے

    میٹرک، اسلامیہ ہائی اسکول، ہوشیار پور کیا اور 1933ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں بی اے اور اگلے ہی تعلیمی سال میں ایم کیا، اس کے بعد حفیظ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے تھے۔ یہی نوکری قیامِ پاکستان کے بعد جاری رہی اور وہ ریڈیو پاکستان کے لیے علمی و ادبی مشاغل میں مصروف رہے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے اپنی شاعری کا آغاز کیا تو ابتدا میں نظمیں بھی لکھیں اور منظوم تراجم بھی کیے، مگر ان کی شناخت ان کی غزل گوئی اور تاریخ گوئی بنی۔ حفیظ ہوشیار پوری کا مجموعۂ کلام ’’مقام غزل‘‘ کے عنوان سے ان کی وفات کے بعد شائع ہوا تھا۔ حفیظؔ دس گیارہ برس کی عمرسے ہی اردو اور فارسی میں شعر کہنے لگے تھے اور انھوں نے تاریخ گوئی میں اپنی شناخت قائم کر لی تھی۔

    حفیظؔ فلسفہ کے طالب علم رہے اور یہی وجہ ہے کہ شاعری میں فلسفیانہ مسائل سے دامن نہیں بچا سکے لیکن ان کی غزل، فلسفیانہ موشگافیوں کا چیستاں نہیں۔ ان کے ہاں‌ جو فلسفیانہ خیالات ملتے ہیں وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اسے بیزار نہیں کرتے۔ حفیظؔ کی غزل اسلوبی لحاظ سے بھی روایتی غزل سے منسلک ہے۔ انھوں نے کلاسیکی انداز سے کبھی صرفِ نظرنہ کیا۔ آسان زبان، سلاست و روانی، مشکل ثقیل و کرخت الفاظ سے گریز نے ان کی غزل کو عام فہم بنا دیا ہے۔

    طویل عرصہ علیل رہنے والے حفیظ ہوشیار پوری کو ان کی وفات کے بعد کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کے لوحِ مزار پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے۔

    سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہوگئے
    بارِ امانتِ غم ہستی اتار کے

  • عبدالماجد دریا بادی: صاحبِ‌ طرز ادیب، جیّد صحافی اور مفسّرِ قرآن کا تذکرہ

    عبدالماجد دریا بادی بیسویں صدی کے بے مثل ادیب صحافی اور مفسرِ قرآن تھے جو اپنے اسلوبِ نگارش کے سبب بھی ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے۔ ان کی تصانیف اردو زبان و ادب اور برصغیر میں تہذیب و ثقافت کا بڑا سرمایہ ہیں۔ آج اس ادیب اور صحافی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس نام ور ادیب اور صحافی کا پسندیدہ موضوع فلسفہ اور تاریخ رہا ہے۔ انہوں نے فلسفے سے متعلق کتابوں کے ترجمے بھی کیے اور خود بھی کتابیں لکھیں۔ ان کے اسلوب نگارش کو بھی قدرومنزلت کی نظر سے دیکھا گیا۔

    بدقسمتی سے ہماری نئی نسل ان شخصیات کے نام اور کام سے ناواقف ہے جنھوں‌ نے اپنی زندگی کے کئی سال فکر و اصلاحِ معاشرہ اور اردو زبان کو نکھارنے کے لیے قلم کی مزدوری کی۔ عبدالماجد دریا بادی نے اپنی تحریر اور تقریر، اپنے قول و عمل سے دین و ملّت کو فائدہ پہنچانے کے لیے بھی خوب کام کیا جس کے لیے انھیں‌ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    عبدالماجد دریا بادی 1892ء میں ضلع بارہ بنکی کے علاقے کے مشہور قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا مفتی تھے جنھوں نے اس دور میں‌ انگریز سرکار کے خلاف فتویٰ پر دستخط کیے تھے اور اس جرم میں انھیں حوالۂ زنداں کیا گیا تھا۔ عبدالماجد دریا بادی نے اردو، فارسی اور عربی گھر پر ہی سیکھی۔ پھر سیتا پور کے ایک اسکول میں داخلہ لیا اور میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے لکھنؤ گئے اور بی۔ اے کی سند حاصل کی۔ ان کے والڈ ڈپٹی کلکٹر تھے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ماحول سازگار تھا۔ والد کے انتقال کے بعد معاش کی خاطر حیدر آباد دکن چلے گئے تھے۔ وہیں انھوں‌ نے مشہور کتاب ’’فلسفۂ جذبات لکھ کر علمی و ادبی حلقوں‌ میں‌ اپنی پہچان بنائی۔ اس وقت تک اردو میں فلسفے کے موضوع پر بہت کم لکھا گیا تھا۔ مولانا نے اسے اپنا موضوع بنایا اور طبع زاد تحریروں کے علاوہ بعض اہم کتابوں کے تراجم بھی انھوں نے کیے۔ مکالماتِ برکلے کو عبدالماجد دریا بادی کا اہم کارنامہ کہا جاتا ہے۔

    مولانا کے گھر کا ماحول مذہبی تھا اور والد کی نظر میں‌ علم و ادب کی بڑی اہمیت تھی۔ اسی فضا میں عبد الماجد دریا بادی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے سنِ شعور کو پہنچے۔ تعلیم و تربیت اور مطالعہ کے باعث وہ نوعمری میں لکھنے لکھانے کے علاوہ اس قابل ہوچکے تھے کہ کسی مسئلہ اور معاملے میں اپنی فکر اور رائے قائم کرتے اور اس کا خوبی سے اظہار بھی کرتے تھے۔ کئی تنظیموں سے وابستہ ہوئے اور اپنے اساتذہ و حلقۂ ہائے احباب سے نظریاتی اور فکری راہ نمائی حاصل کرتے ہوئے جیّد شخصیات میں‌ اپنا شمار کروایا۔ وہ اس وقت کے سیاسی اور سماجی حالات میں جنم لینے والی تحاریک اور کئی انجمنوں تلے متحرک رہے۔ تحریکِ خلافت، رائل ایشیاٹک سوسائٹی، لندن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ندوۃُ العلماء، لکھنؤ، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ جیسے ذہن ساز ادارے اور انجمنوں کے ساتھ انھوں نے خوب کام کیا۔ عبدالماجد دریا بادی علمِ دین کا شغف بھی رکھتے تھے۔ انھوں‌ نے اردو اور انگریزی میں بھی قرآن کی جامع تفسیر لکھی۔

    مولانا نے 6 جنوری 1977ء کو وفات پائی تھی۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ طالبِ علمی کے زمانے ہی سے ایک دل پذیر شخصیت کے حامل تھے۔ ایک محنتی طالبِ علم جس میں اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی لگن رہی۔ وہ ابتدائی عمر ہی سے دینی کتب کے علاوہ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابوں، علمی و ادبی رسائل اور جرائد کے مطالعہ کے شوق نے انھیں بھی قلم کار بنا دیا۔

    عبدالماجد دریا بادی کا اسلوب نہایت خوش سلیقہ ہے۔ وہ دل نشیں پیرائے میں فلسفیانہ انداز اپناتے ہوئے اپنے قارئین کو سوچنے سمجھنے اور سیکھنے پر آمادہ کر لیتے ہیں۔ اسی وصف کی بنا پر وہ اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور ناقد و مصلح بھی مشہور ہوئے۔ عبدالماجد دریا بادی نے 1925ء میں اپنی صحافت کا باقاعدہ آغاز ‘صدق’ کے اجرا سے کیا۔ اس کے ساتھ وہ اداریہ اور مستقل کالم بھی لکھنے لگے۔ مختلف عنوانات پر ان کے مضامین مختلف اخبار اور رسائل کی زینت بنے اور قارئین میں‌ بہت مقبول ہوئے۔ ان تحریروں نے مصنّف کو ہندوستان بھر میں‌ پہچان دی۔

    مصنّف کی متعدد کتابیں اور کئی تنقیدی، تاثراتی اور اصلاحی مضامین لائقِ‌ مطالعہ ہیں۔ عبدالماجد دریا بادی کی آپ بیتی بھی اردو زبان میں‌ ایک بہترین کتاب ہے جسے آج بھی نہایت دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ قرآن و سنت، سیرت و تفسیر کے علاوہ سفر نامے، علمی مضامین، فلسفہ اور نفسیات پر عبدالماجد دریا بادی کی کتابوں کی تعداد 50 سے زائد ہے۔ وہ ایک اچھے مترجم بھی تھے اور کئی کتابیں ان کے ترجمہ کی مہارت اور زبانوں پر ان کے عبور کی بہترین مثال ہیں۔

    مولانا نے متعدد اردو اخبارات کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ ان میں ہمدم، ہمدرد اور حقیقت قابلِ ذکر ہیں۔

  • آر ڈی برمن: ایک باکمال سنگیت کار کا تذکرہ

    ستّر کی دہائی میں ہندوستان کی فلمی موسیقی میں آر ڈی برمن کے کمالِ فن کا شہرہ ہوا تھا اور اس کے بعد آنے والی فلموں میں ان کی لطافت سے بھرپور موسیقی اور روایت سے جڑے خوب صورت تجربات نے انھیں بہترین فلمی موسیقار ثابت کیا۔

    آر ڈی برمن 4 جنوری 1994ء کو انتقال کرگئے تھے۔ 1971ء کی ایک کام یاب فلم ’کٹی پتنگ‘ سے آر ڈی برمن کی پہچان کا اصل سفر شروع ہوا تھا جس میں ’یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے‘ اور ’یہ جو محبت ہے ان کا ہے کام‘ جیسے گیت شامل تھے جنھیں آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ان گیتوں‌ کے موسیقار کا اصل نام راہل دیو برمن تھا۔ یہ گیت بھی آپ نے شاید سن رکھا ہو، ’’چرا لیا ہے تم نے جو دل کو…..۔‘‘ یہ سدا بہار گیت ہندوستان ہی نہیں‌ پاکستان میں‌ بھی بہت مقبول ہوا۔

    آر ڈی برمن کلکتہ میں‌ 27 جون 1939ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک مشہور موسیقار کے بیٹے تھے اور شروع ہی سے راگ راگنیوں، ساز و انداز سے مانوس تھے۔ آر ڈی برمن نے بھی موسیقی کے شوق کو اپنا فن اور پیشہ بنایا۔ ان کے والد ایس ڈی برمن تھے۔ اپنے والد سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ آر ڈی برمن نے استاد علی اکبر خان سے سرود کی تربیت حاصل کی۔

    آر ڈی برمن کو پنچم دا کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ انھیں یہ نام اداکار اشوک کمار کو موسیقی کے پانچ سُر’ سارے گا ما پا ‘ سنانے پر دیا گیا تھا۔ آر ڈی برمن نے فلمی کیریئر کا آغاز اپنے والد کے ساتھ بطور معاون موسیقار کیا تھا۔ ان کی اس وقت کی سپر ہٹ فلموں‌ میں ’’چلتی کا نام گاڑی (1958) اور کاغذ کے پھول (1959) شامل ہیں۔ بہ طور موسیقار آر ڈی برمن نے 1961ء میں فلم ’’چھوٹے نواب‘‘ سے کام شروع کردیا تھا، لیکن شہرت حاصل کرنے کے لیے انھیں خاصا انتظار کرنا پڑا۔ انھیں بہ طور موسیقار 1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم بھوت بنگلہ سے کچھ پہچان ضرور ملی تھی، لیکن فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے وہ 10 برس تک محنت کرتے رہے۔

    آر ڈی برمن کو 1972ء میں‌ فلم انڈسٹری میں خاصا کام ملا اور وہ فلم سیتا اور گیتا، میرے جیون ساتھی، بامبے ٹو گوا جیسی کئی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دینے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی طرح‌ آندھی، دیوار، اور خوشبو جیسی کئی کام یاب فلموں میں ان کی موسیقی میں کئی گیتوں نے شائقینِ سنیما کو دیوانہ کردیا۔ یہ ابتدائی کام یابیاں ان کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوئیں اور تب آر ڈی برمن نے مشرق و مغرب کی موسیقی کے امتزاج سے دھنیں تیّار کرنے کا تجربہ کر کے خود کو منوایا۔ ان کے یہ گیت بھی سپر ہِٹ ثابت ہوئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ پہلی مرتبہ ممبئی فلم انڈسٹری میں ویسٹرن میوزک کو کلاسیکی موسیقی کے ساتھ ملا کر اپنی دھنوں سے عروج دینا ہی تھا جس نے انھیں اپنے کام میں یکتا اور بے مثال ثابت کیا۔

    فلم پیاسا کے گانے” سَر جو تیرا چکرائے” کی دھن بھی آر ڈی برمن نے ترتیب دی تھی، وہ ماؤتھ آرگن بجانے میں مہارت رکھتے تھے اور گانا "ہے اپنا دل تو آوارہ” میں انھوں نے اس کا مظاہرہ کر کے اپنے مداحوں کو حیران کر دیا تھا۔

    آر ڈی برمن کا کئی گلوکاروں کے ساتھ وقت گزرا اور کئی سدا بہار گیت تخلیق ہوئے، لیکن آشا بھوسلے نے فلمی گائیکی کے لیے آر ڈی برمن کی دھنوں پر ہی ان کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ شریکِ حیات کے طور پر بھی انہی کا انتخاب کیا۔ آر ڈی برمن کی پہلی بیوی ان سے علیحدگی اختیار کرچکی تھیں اور مشہور گلوکارہ ان کی دوسری بیوی تھیں۔

    1985ء اور بعد کے برسوں‌ میں‌ آر ڈی برمن کی جگہ فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے نئے موسیقاروں کی خدمات حاصل کرنا شروع کردی تھیں اور آر ڈی برمن کا چار دہائی سے زیادہ عرصہ پر محیط فلمی کیریئر سمٹتا چلا گیا۔ انھوں‌ نے تین سو سے زائد ہندی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی جب کہ بنگلہ، تیلگو اور مراٹھی فلموں کے لیے بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ آر ڈی برمن نے بہترین موسیقار کے تین فلم فیئر ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔