Tag: جنوری انتقال

  • امانت لکھنوی: سبز پری اور شہزادہ گلفام کا قصّہ گو

    ہندوستان میں نکڑ ناٹک اور تھیٹر کا ایک مقصد اصلاحِ معاشرہ بھی تھا اور یہی کھیل تماشے کسی دور میں عوام کی تفریح کا واحد ذریعہ تھے۔ اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے ڈرامہ ‘اندر سبھا” لکھ کر شہرت پائی۔ آج امانت لکھنوی کا یومِ وفات ہے جن کے ڈرامے کو اردو کا اوّلین ناٹک کہا جاتا ہے۔

    تھیٹر کا سلسلہ اس دور میں‌ انگریزوں نے شروع کیا تھا جو پہلے نوابوں، امراء کا شوق بنا اور پھر عام ہندوستانی بھی اس سے محظوظ ہونے لگے۔ مشہور ہے کہ امانت لکھنوی نے اندر سبھا، اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی فرمائش پر 1853ء میں تحریر کیا تھا۔ یہ اردو کا ایک مقبول ناٹک تھا جو اس زمانے کے رواج کے مطابق سیدھا سادہ اور منظوم ہے۔ امانت لکھنوی جن کا نام اردو کے پہلے عوامی ڈرامہ کے مصنّف کے طور پر ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا، شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل اور دوسری اصناف سخن بالخصوص واسوخت اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کی وجہِ شہرت ڈرامہ اندر سبھا ہی ہے۔

    امانت لکھنوی کا اصل نام آغا حسن تھا۔ ان کے اجداد ایران سے لکھنؤ آئے تھے۔ امانت 1825ء میں ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور تحصیلِ علم کے شوق کے ساتھ اپنے زمانے کے مروجہ علوم میں استعداد بڑھائی، لیکن نوجوانی میں‌ ایک بیماری کی وجہ سے ان کی زبان بند ہو گئی تھی۔ بعد میں‌ قوتِ گویائی واپس آ گئی، لیکن زبان میں لکنت برقرار رہی۔

    امانت لکھنوی نوعمری میں شاعری کا شوق رکھتے تھے اور میاں دلگیر کے شاگرد بنے۔ استاد نے امانت تخلص تجویز کیا۔ ان کا ایک دیوان "خزائنُ الفصاحت” بھی موجود ہے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ شاعری میں امانت نے اپنے عہد کے مقبولِ عام اور پسندیدہ انداز کو اپنایا۔

    امانت کا ڈرامہ اردو کا وہ پہلا عوامی ڈرامہ تھا جو چھپنے سے پہلے ہندوستان بھر میں مقبول ہوا اور اشاعت کے بعد دور در تک اس کی شہرت پھیل گئی۔ اس کے کئی نسخے شہروں شہروں کتب خانوں کی زینت بنے اور جب بمبئی میں تھیٹر کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو اندر سبھا کو بار بار اسٹیج کیا گیا۔ اس کی طرز پر بے شمار ڈرامے اردو میں لکھے گئے۔

    اردو کے اس اوّلین ناٹک کا پلاٹ اور اس کے کرداروں کو ایک نظر میں‌ دیکھا جائے تو یہ راجہ اندر، اس کے دربار کی رقاصہ سبز پری اور شہزادہ گلفام کی بڑی دل چسپ اور نہایت پُراثر کہانی ہے۔ سبز پری ہندوستان کے شہزادے گلفام پر فریفتہ ہو جاتی ہے اور کالے دیو کے ذریعے ملاقات کا پیغام دیتی ہے، اس کے اظہارِ محبت پر شہزادہ شرط یہ رکھتا ہے کہ وہ اسے راجہ اندر کے دربار کی سیر کرائے۔ سیر کے دوران دونوں پکڑے جاتے ہیں۔ شہزادے کو قید کر لیا جاتا ہے اور پری کو جلا وطن۔پھر پری شہزادے کو قید سے نکالنے اور اسے اپنانے کی خاطر بڑے جتن کرتی ہے۔ یہ منظوم ڈراما 830 اشعار پر محیط ہے جس کے آٹھ کردار ہیں۔

    انیسویں صدی کے آخر میں اردو تھیٹر نے فروغ پایا تو اس زمانے میں‌ اردو ڈرامے بھی لکھے گئے جس میں آغا حشر کاشمیری کا نام سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ڈرامے کو ایک نیا موڑ دیا اور اسے فنی خصوصیات کا حامل بنایا۔ لیکن اندر سبھا کی اہمیت اور مقبولیت ہمیشہ قائم رہی۔ اردو کے ابتدائی دور اور بعد میں آنے والوں نے اسے بہترین ڈرامہ اور لازوال منظوم قصّہ کہا ہے۔ عبد الحلیم شرر کے بقول اندر سبھا کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کے علمی، تمدنی مذاقوں کے باہمی میل جول کی اس سے بہتر یادگار نہیں ہو سکتی۔ زبان و بیان کی بنیاد پر جائزہ لیں تو اندر سبھا میں ایسے اشعار بہ کثرت ملیں گے جن میں الفاظ اور بندش کی چستی، استعارے، تشبیہات اور تخیل عروج پر ہے۔

    اردو ادب میں جب بھی ڈرامہ کی ابتدا اور اس کے ارتقا کی بات ہوگی اندر سبھا اور امانت کا تذکرہ ضرور ہوگا۔ امانت لکھنوی نے کم عمر پائی اور 3 جنوری 1859ء
    کو جوانی میں انتقال کیا۔

  • پاکستان کے ممتاز سائنس داں رضی الدّین صدیقی کی برسی

    پاکستان کے معروف سائنس داں ڈاکٹر رضی الدّین کو ماہرِ‌ تعلیم اور ادبی شخصیت ہی نہیں ان کے عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے جینئس اور باکمال تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ایک وسیع المطالعہ، قابل اور ذہین انسان تھے جن کو اساتذہ نے بھی بہت عزّت اور احترام دیا اور ان کی علمی استعداد، قابلیت اور کردار کے معترف رہے۔ آج ڈاکٹر رضی الدّین کی برسی ہے۔

    محمد رضی الدّین صدیقی نے ہندوستان میں مرفہ الحال ریاست حیدرآباد دکن میں 7 اپریل 1905ء کو آنکھ کھولی تھی۔ عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم کی تعلیم حاصل کر کے دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔

    وہ طبیعیات اور ریاضی کے مضمون میں‌ بہت دل چسپی لیتے تھے اور بعد میں انھیں ایک ماہرِ طبیعیات اور ریاضی داں کی حیثیت سے شہرت ملی، لیکن لسانیات کے ساتھ ادب بھی ان کی دل چسپی کا مضمون رہا۔ انھوں نے عربی اور فارسی میں اقبالیات کے موضوع پر تحقیقی اور تخلیقی کام بھی کیا۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ایک ہی وقت میں کئی علوم میں درجۂ کمال پر فائز تھے۔

    ڈاکٹر رضی الدّین کو کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ وہ داخلے کے امتحان میں اوّل آئے اور کیمبرج میں فزکس کے نوبل انعام یافتہ پال ڈیراک کے شاگردوں میں شامل رہے۔ انہی دنوں فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کے بھی شاگرد ہوئے اور انھوں‌ نے اپنے قابل طالبِ علم کی علمی میدان میں خوب راہ نمائی کی۔ کیمبرج سے ماسٹرز کرنے کے بعد ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی گئے اور اس زمانے میں آئن اسٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ سے بھی تعلیم حاصل کی۔

    پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے مشورے پر ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ اپنے تحقیقی مقالے لکھے جو ممتاز جرائد میں شائع ہوئے۔ 1931ء میں وہ حیدرآباد دکن واپس لوٹے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔ 1950ء میں رضی الدّین صدیقی پاکستان آگئے۔

    ایک قابل سائنس دان اور استاد ہونے کے علاوہ وہ انگریزی ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور اس کا مطالعہ کرنے کے ساتھ اردو اور فارسی ادب کو بھی خوب پڑھا، یہی نہیں بلکہ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود ڈاکٹر صاحب اپنے دور میں‌ اقبال شناس کے طور پر بھی سامنے آئے اور ان کی دو تصانیف اقبال کا تصور زمان و مکان اور کلام اقبال میں موت و حیات بھی شایع ہوئیں۔ 1937ء میں کوانٹم مکینکس پر انھوں نے اپنے لیکچرز کو کتابی صورت میں شایع کروایا۔ اس کتاب میں نظریۂ اضافیت خصوصی اور جنرل تھیوری آف ہیملٹن ڈائنامکس پر بھی مضامین شامل تھے۔ اس کتاب کو ان کے اساتذہ نے بہت سراہا اور سائنس کے طلبا کے لیے مفید قرار دیا۔

    حکومتِ پاکستان نے 1960ء میں رضی الدّین صدیقی کو ستارۂ امتیاز اور 1981ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ انھیں کئی ملکی اور غیرملکی جامعات نے بھی اعزازات دیے اور سائنس کے میدان میں‌ ان کے کام کو سراہا۔ ڈاکٹر صاحب متعدد جامعات اور تعلیمی اداروں میں مناصب پر فائز رہے۔ 2 جنوری 1998ء کو رضی الدّین صدیقی انتقال کرگئے تھے۔

  • یومِ‌ وفات: شوخی اور ترنگ او پی نیّر کے گیتوں کی پہچان ہیں!

    یومِ‌ وفات: شوخی اور ترنگ او پی نیّر کے گیتوں کی پہچان ہیں!

    او پی نیّر البیلے موسیقار تھے دلوں میں‌ گداز اور سماعتوں میں رَس گھولنے والی ان کی دھنیں کئی فلموں کی مقبولیت کا سبب بنیں۔ 2007ء میں آج ہی کے دن انھوں نے زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا تھا۔

    ممبئی میں‌ مقیم او پی نیّر 81 سال کے تھے۔ وہ 16 جنوری 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔بالی وڈ کو کئی یادگار گیت دینے والے اس موسیقار کا اصل نام اوم کار پرساد نیّر تھا۔ موسیقی کا جنون ایسا تھا کہ تعلیم بھی مکمل نہ کی اور آل انڈیا ریڈیو، جالندھر سے اپنے کیریئر کا آغاز کردیا۔ محنتی اور بااصول او پی نیّر بعد میں فلم نگری میں آئے تو ’کنیز‘ کے لیے پسِ پردہ موسیقی دی، مگر ان کی پہچان گرودت کی فلم ’ آر پار‘ بنی۔ اس فلم کے نغمے بہت مقبول ہوئے۔ اس کے بعد ان کے پاس گویا فلمیں قطار میں‌ رہنے لگیں، لیکن او اپی نیّر تعداد کو معیار پر ترجیح دینے والوں میں‌ سے نہیں‌ تھے، اور سال میں ایک سے زیادہ فلم کے لیے موسیقی دینے سے گریز کرتے تھے۔

    ’اڑیں جب جب زلفیں تیری‘، ’بابو جی دھیرے چلنا‘ اور ’لے کے پہلا پہلا پیار‘ جیسے نغموں کے اس خالق کی اصول پسندی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے اپنے فن پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا اور کئی لافانی نغمات فلم نگری کو دے گئے۔

    ’تم سا نہیں دیکھا‘، ’ہاوڑا برج‘، ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ ، ’کشمیر کی کلی‘، ’میرے صنم‘، ’سونے کی چڑیا‘، ’پھاگن‘، ’باز‘، ’ایک مسافر ایک حسینہ‘ ان کی چند فلمیں تھیں جن کے گیتوں کو بے مثال مقبولیت ملی۔

    ’نیا دور‘ وہ فلم تھی جس کی موسیقی ترتیب دینے پر انھیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    1949ء میں اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے اس موسیقار کی پہچان اُن کے سریلے گیت تھے۔ ان کے ہم عصر موسیقاروں کے برعکس ان کے گیتوں سے شوخی، چلبلا پن اور مستی جھلکتی ہے جس نے شائقینِ سنیما اور سامعین کو بہت محظوظ کیا۔ خود او پی نیّر زندہ دل اور خوش مزاج مشہور تھے۔

  • ‘یادوں کی سرگم’ اور آزاد منش مظفّر علی سیّد!

    ‘یادوں کی سرگم’ اور آزاد منش مظفّر علی سیّد!

    چراغ حسن حسرت، صوفی تبسم، خواجہ منظور حسین، محمد حسن عسکری اور ن۔ م راشد جیسے علم و ادب کے درخشاں ستاروں پر شخصی مضامین اور ان کے خاکے پہلے بھی لکھے گئے، لیکن خاکہ نگار کا قلم ‘محتاط’ رہا ہے جب کہ مظفّر علی سیّد نے بڑی بے باکی سے اپنے ممدوح کی شخصیت کو کریدا اور اس کے اندرون اور بیرون کو بلاکم و کاست قاری کے سامنے پیش کرنے میں‌ کام یاب ہوئے۔

    مظفّر علی سیّد کو اردو زبان کے ممتاز نقّاد، محقّق اور مترجم تھے جنھیں آج ہی کے دن سنہ 2000 میں دستِ اجل نے ہم سے چھین لیا تھا۔ پاکستان میں وہ شہر لاہور کے باسی تھے، لیکن ان کا تعلق امرتسر سے تھا جہاں وہ 1929ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔

    مظفّر علی سیّد کا بڑا حوالہ تنقید نگاری ہے۔ خاکوں پر مشتمل ان کی کتاب ‘یادوں کی سرگم’ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی شخصیت کیسی پُر پیچ اور تہ در تہ ہوتی ہے جس میں غور اور مطالعہ کرنے سے ہم پر پرتیں کھلتی ہی چلی جاتی ہیں۔

    مشہور ہے وہ ایک آزاد منش انسان تھے اور اپنی اکثر تحریریں اور مضامین سنبھال کر نہیں رکھ سکے، لیکن مظفر علی سیّد کا جنتا بھی علمی و ادبی کام اور تصنیف و تالیف کردہ کتب سامنے آئی ہیں، وہ قابل توجہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں ‘تنقید کی آزادی’ اور تراجم میں ‘فکشن، فن اور فلسفہ’ اور ‘پاک فضائیہ کی تاریخ’ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے نام ور ادیب مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے نام سے مرتب کیے تھے۔ اس کے علاوہ شخصی خاکے، معلوماتِ عامّہ پر کتاب جب کہ فکشن، فن اور فلسفہ ان کے ڈی ایچ لارنس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے ممتاز ادیب، شاعر، محقق اور مترجم سیّد عابد علی عابد کی کتاب پر تنقید بھی لکھی تھی۔

    اردو زبان و ادب کی دو قد آور شخصیات کے درمیان ایک مکالمہ پڑھیے جس سے معلوم ہو گاکہ دورِ جوانی میں مرحوم نقّاد کا علمی و ادبی ذوق شوق کیسا تھا، یہ دل چسپ مکالمہ نام وَر ادیب اور ناول نگار انتظار حسین کی زبانی کچھ یوں‌ ہے: عسکری صاحب ایک روز کہنے لگے کہ "یار ایک عجب نوجوان ہے۔ میں مال روڈ سے کسی وقت بھی گزروں وہ کتابیں بغل میں دابے کسی طرف سے آن پہنچتا ہے اور پھر عالمانہ انداز میں ادب پر گفتگو شروع کر دیتا ہے۔”

    میرے کان کھڑے ہوئے۔ پوچھا "کیا حلیہ ہے اس کا۔”

    "عینک لگاتا ہے۔ کچھ گول مٹول سا ہے۔ بغل میں کتابیں ہوتی ہیں۔”

    "میں سمجھ گیا۔” میں نے اعتماد سے کہا "وہ گورنمنٹ کالج کا طالبِ علم ہے مظفّر علی سیّد۔”

    "یار بہت عالمانہ گفتگو کرتا ہے۔”

  • مغل شہنشاہ نصیر الدّین ہمایوں، موٹو اور اس کی بھینس!

    مغل شہنشاہ نصیر الدّین ہمایوں، موٹو اور اس کی بھینس!

    نصیر الدّین ہمایوں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدّین بابر کا بیٹا تھا۔ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر شہنشاہِ‌ ہند کی حیثیت سے تخت نشیں ہوا۔

    وہ 1508ء میں‌ پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں کا نام ماہم بیگم تھا۔ ہمایوں نے ترکی، فارسی اور عربی زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔ وہ فلسفہ، علمِ نجوم و فلکیات میں خصوصی دل چسپی رکھا تھا۔ 20 سال کی عمر میں وہ بدخشاں کا گورنر مقرر ہوا اور فوج کے ساتھ لڑائیوں میں بھی شریک رہا۔ 1530ء میں‌ وہ شہنشاہِ‌ ہند بنا، لیکن سلطنت کو سنبھال نہ سکا۔ اس کے مختلف اسباب ہیں۔ ہمایوں 1556ء میں‌ آج ہی کے دن اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    کہتے ہیں اس کی موت سیڑھیوں سے گرنے کے سبب واقع ہوئی تھی۔ اسی مناسبت سے مشہور یورپی مؤرخ لین پول نے لکھا،“ اس نے تمام عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھا کر مرا۔“ یہاں‌ ہم اردو کے ممتاز نقّاد اور ادیب شکیل الرّحمٰن کی نصیر الدّین ہمایوں سے متعلق ایک کہانی نقل کررہے ہیں جو دراصل بچّوں کے لیے لکھی گئی تھی۔ انھوں نے ہندوستان کے کئی بادشاہوں سے متعلق واقعات کو بچّوں کے لیے نہایت دل چسپ انداز میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہندوستان کے مشہور مغل بادشاہ ہمایوں کی امّاں کا نام ماہم بیگم تھا، ہمایوں کے والد شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی رفیقۂ حیات کو شادی کے بعد ہی سے ماہم کہنا شروع کر دیا تھا یعنی ’چاند۔’ بہت ہی خوب صورت تھیں نا ہمایوں کی امّاں، اسی لیے! ننھا ہمایوں بیمار ہوتا تو لگتا امّاں بی خود بیمار ہو گئی ہیں، دن رات اپنے پیارے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی تھیں، آگرہ کے لوگ ماہم بیگم کی بہت عزّت کرتے تھے اور سب اُنھیں پیار سے امّاں کہتے تھے۔

    امّاں ماہم بیگم بھی شہر کے لوگوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ہر تہوار پر، وہ تہوار ہندوؤں کا ہو یا مسلمانوں کا، پورے قلعے پر چراغ روشن کراتیں، مٹھائیاں تقسیم کراتیں، شہر بھر کے بچّوں کو بلاتیں تاکہ وہ ننّھے ہمایوں کے پاس آ کر کھیلیں اور خوب مٹھائیاں کھائیں۔

    اماّں ماہم بیگم کو بچّوں سے بے حد پیار تھا، قلعے میں جو بچّے آتے اُن میں ایک بہت ہی پیارا سا بچّہ تھا موٹو۔ بہت موٹا تھا اور خوب کھاتا تھا اسی لیے اس کا نام موٹو ہو گیا تھا۔ امّاں ماہم بیگم اور ہمایوں دونوں موٹو کو بہت پسند کرتے تھے۔ ننھّا موٹو اکثر آتا اور ہمایوں کے ساتھ کھیلتا، دونوں دوست بن گئے تھے۔ ہاں، ہمایوں اکثر کہتا ’’موٹو کھانا کم کھایا کر ورنہ پیٹ پھٹ جائے گا۔‘‘

    موٹو کے باپ کا نام ہیرا تھا جو دودھ فروخت کیا کرتا تھا اور اُسی سے گزارا کرتا تھا، ننھّے موٹو کی سب سے اچھی سواری بھینس تھی، وہ دن بھر بھینس کے اوپر بیٹھ کر اپنے پتا جی کی بھینسوں کو چراتا تھا، ندی پار جو کھیت تھا موٹو وہیں اپنی بھینسوں کو چراتا تھا اور ننّھا ہمایوں اور اس کی امّاں ماہم بیگم دونوں قلعے کے اوپر سے بہت دور سے اسے دیکھتے اور خوش ہوتے تھے۔ موٹو کو قلعے میں اتنا پیار ملا کہ اس کے آنے جانے کی کسی قسم کی رکاوٹ نہ تھی۔ وہ جب چاہتا ننھّے ہمایوں سے ملنے آ جاتا، امّاں ماہم بیگم اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتیں، اسی طرح کہ جس طرح اپنے بیٹے ہمایوں کو کھلاتی تھیں۔

    آہستہ آہستہ ہمایوں اور موٹو دونوں بڑے ہوتے گئے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا، ایک دن ہمایوں نے ضد کی کہ وہ موٹو کے ساتھ کھیت پر جائے گا اور موٹو کی طرح کسی بھینس پر بیٹھے گا۔ ہمایوں شہزادہ تھا۔ بہت اچھا گھڑ سوار بن رہا تھا، لیکن بھینس پر بھی بیٹھنا چاہتا تھا۔ امّاں ماہم بیگم نے اجازت دے دی، ہمایوں بہت خوش ہو گیا۔ چند سپاہیوں کی نگرانی میں کھیت پر پہنچا۔ موٹو اپنی بھینس پر لیٹا مستی مار رہا تھا۔ موٹو ہمایوں کو دیکھ کر بہت خوش ہو گیا۔ بھینس سے نیچے اتر آیا اور سپاہیوں کی مدد سے ہمایوں بھینس پر چڑھ گیا۔ اب تو اس کی خوشی مت پوچھو، اسے یہ سواری بہت اچھی لگ رہی تھی۔ موٹو دوسری بھینس پر بیٹھ گیا اور دونوں مست کھیلتے رہے۔ جب خوب کھیل چکے تو اپنی اپنی بھینسوں سے نیچے اترے۔

    ایسا ہوا بچّو کہ ہمایوں جیسے نیچے اترا ایک زہریلے سانپ نے اسے ڈس لیا اور ہمایوں کی حالت خراب ہونے لگی۔ سپاہیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ موٹو نے جب اپنے دوست کی یہ حالت دیکھی تو فوراً اپنی قمیص پھاڑ ڈالی اور ہمایوں کی ٹانگ پر زخم کے اوپر نیچے دو پٹیاں کس کر باندھ دیں تاکہ زہر نہ پھیلے۔ موٹو کی تیزی اور چستی دیکھ کر سپاہی بھی حیران رہ گئے۔

    ہمایوں کو قلعہ لایا گیا۔ موٹو بھی ساتھ ساتھ آیا۔ شاہی حکیم صاحب آئے، انھوں نے علاج کیا اور ہمایوں اچھا ہو گیا۔ شاہی حکیم صاحب نے امّاں ماہم بیگم سے کہا ’’اگر موٹو نے اس وقت ہمایوں کے پاؤں پر پٹیاں نہ باندھی ہوتیں تو زہر پورے جسم میں پھیل جاتا۔ یہ بھینس والا موٹو بہت ذہین اور ہوشیار ہے۔‘‘

    امّاں ماہم بیگم اور شہنشاہ بابر دونوں موٹو سے بہت خوش ہوئے۔ موٹو کو اپنے قلعے میں رکھ لیا، اس کی تعلیم تربیت کا انتظام کیا اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا شروع کیا۔

    جب شہنشاہ بابر کا انتقال ہو گیا اور ہمایوں بادشاہ بنا تو امّاں ماہم بیگم نے ہمایوں کو یاد دلایا کہ کس طرح کھیت میں ناگ نے اسے کاٹا تھا اور کس طرح موٹو نے پٹیاں باندھ کر اس کی زندگی بچائی تھی۔ ہمایوں کو واقعہ یاد تھا، وہ موٹو کو بہت پیار کرتا تھا اور اسے اپنا دوست سمجھتا تھا۔ ہمایوں نے پوچھا ’’امّاں بیگم میں موٹو کے لیے کیا کروں؟‘‘

    امّاں بیگم نے کہا، ’’موٹو کو اپنا ذاتی سپہ سالار بنا لو، وہ تمھارا سچّا دوست ہے۔‘‘

    ہمایوں نے فوراً حکم نامہ جاری کیا۔ موٹو شہنشاہ ہمایوں کا ذاتی سپہ سالار بن گیا۔ امّاں بیگم بہت خوش ہوئیں اور اپنے دونوں بیٹوں کو خوب پیار کیا۔

    ہمایوں نے موٹو سے کہا، ’’دیکھو موٹو کھانا زیادہ کھاؤ گے تو اور بھی موٹے ہو جاؤ گے، دوڑ میں سپاہی آگے نکل جائیں گے اور سپہ سالار پیچھے رہ جائے گا۔‘‘ سب ہنسنے لگے۔

    جانتے ہو بچوّ، یہی موٹو سپہ سالار بساون کے نام سے مشہور ہوا اور جانے کتنے دشمنوں کو شاہی فوج کا سردار بن کر شکست دی۔ ہمایوں اور بساون عرف موٹو کے پیار کی کہانی بھلا کون بھول سکتا ہے!

  • منگولوں کو شکست دینے والا سلطان علاؤ الدّین خلجی محسن کُش بھی تھا!

    منگولوں کو شکست دینے والا سلطان علاؤ الدّین خلجی محسن کُش بھی تھا!

    علاؤ الدّین خلجی کی تاج پوشی کے موقع پر سلطنتِ دہلی کے دارُالحکومت میں‌ واقع شاہی محل میں‌ جشن کا ماحول تھا۔ 1296ء کو زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد علاؤ الدّین خلجی 1316ء میں اپنی وفات تک ہندوستان پر راج کرتا رہا۔ اس نے 4 جنوری کو دارِ فانی سے کوچ کیا۔

    تاریخ کے اوراق الٹیے تو معلوم ہوگا کہ علاؤ الدّین خلجی نے بھی اقتدار کے حصول کے لیے سازش رچی اور اپنے چچا جو اس کے سسر بھی تھے، ان کو قتل کروانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ ایک طرف وہ بہترین حکم ران اور دوسری جانب محسن کُش بھی مشہور ہوا۔

    مؤرخین نے خلجی خاندان کے اس دوسرے اور طاقت ور سلطان کی پیدائش کا سنہ 1266ء اور مقام دہلی لکھا ہے۔ وہ اس وقت کے بادشاہ جلال الدّین کے بڑے بھائی شہاب الدین مسعود کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس کا اصل نام علی گرشپ تھا جسے اس کے چچا جو اس وقت خلجی حکم ران تھے، نے بڑے ناز و نعم سے پالا۔

    علاؤ الدّین خلجی کو کم عمری ہی میں‌ تیر اندازی، نیزہ بازی، شکار اور گھڑ سواری کا شوق تھا۔ اس نے سپاہ گری میں مہارت حاصل کی اور بادشاہ کی نظر میں‌ اہمیت اختیار کرتا گیا۔ نوجوان علاؤ الدّین خلجی کو کڑہ کی بغاوت کو فرو کرنے کے لیے بھیجا گیا جس میں کام یابی کے بعد اسے وہاں کا گورنر بنا دیا گیا۔ بعد میں بادشاہ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی اپنے اس بھتیجے سے کردی۔

    مؤرخین نے علاؤ الدین خلجی کو انتظامی ذہانت سے مالا مال، باتدبیر اور حوصلہ مند حکم ران بھی لکھا ہے جس نے مضبوط اور منظّم فوج کے ساتھ کئی بغاوتوں کو کچلا اور کام یابی سے حکومت کی۔ جب منگولوں نے دہلی سلطنت کو روندنے کے لیے پیش قدمی کی تو سلطان ہی نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور بدترین شکست دی۔

    ایک جنگی مہم کے بعد اس نے ایک سازش کے تحت بادشاہ کو قتل کروا دیا اور اس کی جگہ تخت سنبھالا۔ علاؤ الدّین نے کام یابی سے حکومت کی لیکن بعد میں‌ اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور خلجی خاندان کا زوال ہوا۔

    تاریخ کے ماہرین نے اسے امورِ سلطنت میں قابل اور بہترین لکھا ہے۔ کہتے ہیں اس کے دور میں‌ بازاروں‌ پر انتظامیہ کا مکمل کنٹرول تھا، معاشی اصلاحات اور ایک منظّم محصول پالیسی تھی جو ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کا توڑ کرتی تھی۔ اس سے عوام کو براہِ راست فائدہ پہنچانا مقصود تھا، جب کہ ایک بڑا کارنامہ منگولوں کو کچلنا تھا۔

    سلطان کہلانے والے علاؤ الدّین خلجی کی زندگی کے آخری ایّام بیماری کے سبب بستر پر گزرے جہاں ان کا معتمدِ خاص ملک کافور تخت سے لے کر جانشینی تک کے معاملات نمٹانے میں پیش پیش رہا۔

  • پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی کا تذکرہ

    پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی کا تذکرہ

    ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی ایک سائنس دان اور ماہرِ تعلیم ہی نہیں‌ ادبی شخصیت اور ایسے اسکالر تھے جنھوں‌ نے ہر مضمون میں اپنی ذہانت، قابلیت اور استعدادا سے اساتذہ کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کے لیے اپنے اس لائق فائق شاگرد کو کسی ایک مضمون کا ماہر قرار دینا آسان نہ تھا۔ آج ڈاکٹر رضی الدّین کی برسی ہے۔

    ان کا پورا نام محمد رضی الدّین صدیقی تھا اور وطن حیدرآباد دکن جہاں انھوں‌ نے 7 اپریل 1905ء میں آنکھ کھولی۔ عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم کی تعلیم حاصل کرکے حیدرآباد دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا جہاں‌ اعلیٰ تعلیم بھی اردو زبان میں دی جاتی تھی۔

    وہ طبیعیات اور ریاضی کے ماہر تھے، لیکن لسانیات کے ساتھ ادب بھی ان کا مضمون رہا جس میں انھوں نے عربی اور فارسی میں اپنی قابلیت اور اقبالیات کے موضوع میں‌ تحقیقی اور تخلیقی کام کیا۔

    ڈاکٹر رضی الدّین کو کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ وہ داخلے کے امتحان میں اوّل آئے اور کیمبرج میں فزکس کے نوبل انعام یافتہ پال ڈیراک کے شاگردوں میں شامل رہے۔ انہی دنوں وہ فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کی نظروں میں آگئے اور انھوں‌ نے اپنے مضمون میں اس ہونہار اور نہایت قابل طالبِ علم کی راہ نمائی کی۔ کیمبرج سے ماسٹرز کرنے کے بعد ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی گئے اور اس زمانے میں آئن اسٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ سے بھی تعلیم حاصل کی۔

    پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے مشورے پر ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ اپنے تحقیقی مقالے لکھے جو ممتاز جرائد میں شائع ہوئے۔ 1931ء میں وہ حیدرآباد دکن واپس لوٹے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔ 1950ء میں وہ پاکستان آگئے۔

    ایک عظیم سائنس دان اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ انگریزی کلاسک کا بڑا حصہ ان کے زیرِ مطالعہ رہا جب کہ اردو اور فارسی ادب میں غالب، اقبال، حافظ اور شیرازی کو نہ صرف پڑھا بلکہ اقبال شناسی میں ماہر سمجھے گئے۔ اقبالیات کے موضوع پر ان کی دو تصانیف اقبال کا تصور زمان و مکان اور کلام اقبال میں موت و حیات شایع ہوئیں۔

    حکومتِ پاکستان نے 1960ء میں انھیں ستارۂ امتیاز اور 1981ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ کئی ملکی اور غیرملکی جامعات نے بھی انھیں اعزازات دیے۔ دنیائے سائنس کا یہ معتبر نام 2 جنوری 1998ء کو ہمیشہ کے ہم سے جدا ہوگیا۔