Tag: جنوری فوتیدگی

  • کاغذی گھاٹ والی خالدہ حسین کا تذکرہ

    کاغذی گھاٹ والی خالدہ حسین کا تذکرہ

    خالدہ حسین نے کہا تھا، ’کئی کہانیاں ایسی ہیں جو میں لکھنا چاہتی ہوں، مگر یوں لگتا ہے جیسے میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اسی طرح کاغذ پر آجائیں، لیکن بہر طور لکھوں گی۔‘

    11 جنوری 2019ء کو خالدہ حسین اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ انھوں نے 1954ء میں قلم تھاما اور کہانیاں لکھنا شروع کیں، لیکن ادبی حلقہ اور سنجیدہ قارئین 60ء کی دہائی میں ان کے نام سے واقف ہوئے۔ خالدہ حسین نے اپنے ابتدائی دور کی کہانیاں چند غیر معروف رسائل کو بھیجیں جو شائع ہوئیں اور اس وقت وہ دسویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ بعد میں ان کی تخلیقات معروف جرائد کی زینت بنیں اور تب عظیم افسانہ نگار غلام عباس، قرۃُ العین حیدر اور اس دور کے دیگر اہم نام ان کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب خالدہ حسین نے ان سے اپنے فن اور اسلوب کی داد پائی۔

    18 جولائی 1938ء کو لاہور میں پیدا ہونے والی خالدہ حسین کا خاندانی نام خالدہ اصغر تھا۔ ان کے والد ڈاکٹر اے جی اصغر انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں وائس چانسلر کے عہدے پر فائز تھے۔ اپنے بچپن اور ماحول کے بارے میں خالدہ حسین بتاتی تھیں کہ ان کی زندگی کا ابتدائی دور نہایت حسین اور خوش گوار تھا، اساتذہ ہی نہیں بلکہ عزیز و اقارب اور احباب سبھی اچھّے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ گھر میں لکھنے پڑھنے کا رجحان تھا، ماحول ادبی تھا۔ سبھی مطالعے کے عادی تھے اور مختلف موضوعات پر مباحث کے بھی۔ خالدہ حسین کے مطابق ان کی سہیلیاں بھی باذوق تھیں اور لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھا کرتی تھیں۔ ایسے میں لکھنے لکھانے کی تحریک کیوں نہ پیدا ہوتی۔

    پاکستان کی اس ممتاز افسانہ نگار کی پسندیدہ مصنف قرۃُ العین حیدر تھیں۔ انھوں نے عالمی ادب بھی پڑھا اور جنون کی حد تک مطالعہ کی عادی رہیں۔ وہ کافکا کے بعد روسی ادیب ترگنیف، ٹالسٹائی اور دوستوفسکی سے متاثر ہوئیں۔

    خالدہ حسین ادب کی مختلف اصناف میں نت نئے تجربات، ادبی تحریکوں سے بھرپور آگاہی رکھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا قلم تمام موضوعات کو بخوبی سمیٹتا رہا۔

    ان کی کہانیوں اور افسانوں کی طرف چلیں تو ’پہچان‘، ’دروازہ‘، ’مصروف عورت‘، ’خواب میں ہنوز‘، ’میں یہاں ہوں‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ خالدہ حسین نے ایک ناول بھی لکھا جس کا عنوان ’کاغذی گھاٹ‘ تھا۔ تاہم اسے وہ توجہ اور پذیرائی نہ مل سکی جس کی توقع تھی۔

    ان کی ایک کہانی ’سواری‘ نے اردو کی صفِ اوّل کی ادیب قرۃُ العین حیدر کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ یہ ایک ایسی کہانی تھی جس میں سماج اور ثقافت کے تمام رنگ شامل تھے۔ اس طویل کہانی کی فضا مابعد الطبیعاتی ہے۔ یہ کہانی ایٹم کے پلنے اور اس سے اٹھنے والے تعفن اور اس کے متاثرین کی زندگی پر لکھی گئی ہے۔ اس کا پلاٹ یہ ہے کہ ایک سواری گزرتی ہے جس سے تعفن اٹھتا ہے اور لوگ اس تعفن سے بیمار پڑجاتے ہیں۔ 3 کرداروں کے ساتھ کچرا ڈمپ کرنے والے گڑھے اور اس تعفن پر خالدہ حسین نے کیفیات اور صورتِ حال کو جس طرح بیان کیا ہے وہ نہایت متاثر کن ہے۔

    خالدہ حسین نے اس کہانی میں علامت اور واقعہ نگاری کے امتزاج سے قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ تاہم خالدہ حسین کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ اساطیر کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں اور یہ آمیزش افسانے کا حُسن بڑھا دیتی ہے۔ بلاشبہ انہوں نے معاشرتی مسائل کو تخلیقی انداز میں بیان کیا اور انہیں کسی خاص فکر یا نظریے کے تحت بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔ ان کے بیشتر افسانے اور کہانیاں متوسط درجے کے گھرانوں کی عکاس ہیں۔ ان کے تمام کردار ان جذبات اور کیفیات سے لبریز ہیں جو ہمارے گرد عام ہیں۔

    ‘رہائی’ اور ‘تیسرا پہر’ کے علاوہ ‘جزیرہ’ اور ‘ابنِ آدم’ مہذب دنیا کی جانب سے فلسطین، عراق اور دیگر خطوں پر ظلم اور ناانصافی مسلط کرنے کی داستان ہیں۔ اسی طرح ‘سلسلہ’ اور ‘میں یہاں ہوں’ جیسی کہانیاں ایک قسم کی روحانی وارداتوں کا بیان ہیں۔

    ناقدین کے نزدیک وہ خوب علامتی یا تجریدی افسانہ لکھتی تھیں، مگر خود خالدہ حسین کی نظر میں ایسا نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کہانیوں میں استعارہ اور علامت ہوگی، مگر اس پر معنویت غالب ہے۔

  • نذرُ السلام کا تذکرہ جو "شاہ خرچ” مشہور تھے!

    نذرُ السلام کا تذکرہ جو "شاہ خرچ” مشہور تھے!

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور کا ایک نام نذرُ الاسلام بھی ہے جو اعلیٰ دماغ اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے ہدایت کار تھے جنھوں نے کم مگر نہایت معیاری فلمیں‌ بنائیں۔ وہ فلم نگری میں‌ "دادا” مشہور تھے۔

    نذر الاسلام کلکتہ میں‌ 1939ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد ڈھاکا چلے گئے اور پھر وہاں چند فلمیں بنانے کے بعد لاہور آ بسے۔ اسی شہر میں 11 جنوری 1994ء کو وفات پائی اور پیوندِ خاک ہوئے۔

    نذرُ السلام "شاہ خرچ” بھی تھے۔ جو شاٹ پسند نہ آتا، اسے دوبارہ فلماتے اور اپنے کام کو خاصا وقت دیتے۔ وہ کم گو بھی تھے اور بہت زیادہ سوچنے کے عادی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کام بڑا ستھرا اور معیاری ہوتا تھا۔ وہ اپنی اسی بلند خیالی کے اعتبار سے دوسرے ہدایت کاروں سے الگ نظر آتے ہیں۔ وہ فوٹوگرافی اور میوزک کو بہت سمجھتے تھے، بالخصوص گانوں کی پکچرائزیشن اور اس کی کٹنگ میں انھیں کمال حاصل تھا۔

    وہ نیو تھیٹرز کلکتہ کے دبستان کے نمائندہ ہدایت کار تھے۔ ان کی فنی زندگی کا آغاز ڈھاکا سے بطور تدوین کار ہوا تھا۔ چند بنگالی فلموں کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے بعد جب وہ پاکستان آئے تو یہاں فلم ساز الیاس رشیدی کے ساتھ فلمی سفر شروع کیا۔ ان کی فلموں میں حقیقت، شرافت، آئینہ، امبر، زندگی، بندش، نہیں ابھی نہیں، آنگن، دیوانے دو، لو اسٹوری، میڈم باوری کے نام سرفہرست ہیں۔ یہ وہ فلمیں تھیں جنھیں باکس آفس پر زبردست کام یابی ملی۔

    بطور ہدایات کار نذرُ الاسلام کی آخری فلم لیلیٰ تھی۔ یہ ان کی وفات کے بعد نمائش پذیر ہوئی تھی۔