Tag: جنوری وفات

  • سیماب اکبر آبادی: قادرالکلام شاعر جن کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے

    سیماب اکبر آبادی: قادرالکلام شاعر جن کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے

    قادرُ الکلام شاعر سیماب اکبر آبادی کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور مشہور و معروف گلوکاروں نے ان کا کلام گایا۔

    اردو زبان کے ممتاز شاعر سیماب اکبر آبادی نے غزل کے ساتھ دیگر اصنافِ سخن مثلاً قصیدہ، رباعی، مثنوی، مرثیہ، سلام، نوحہ میں فکری و فنّی التزام کے ساتھ متعدد بامقصد تجربات بھی کیے اور بہت سراہے گئے۔ آج سیماب اکبر آبادی کا یومِ‌ وفات ہے۔ 31 جنوری 1951ء کو ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ سیماب اکبر آبادی کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔

    اکبر آباد، آگرہ میں‌ 5 جون 1880ء کو پیدا ہونے والے سیماب کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو استاد داغ دہلوی کے شاگرد ہوئے۔ مشقِ سخن کے بعد ایک وقت آیا جب خود سیماب کے ڈھائی ہزار تلامذہ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔

    وہ کچھ عرصہ ریلوے میں ملازم رہے، لیکن زبان و ادب کی خدمت کے خیال سے مستعفی ہو کر آگرہ میں ’’قصرُ الادب‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ ایک ہفتہ وار پرچہ ’’تاج‘‘ اور ایک ماہ نامہ پرچہ ’’شاعر‘‘ نکالا اور شعروادب کو فروغ دیا۔ علّامہ سیماب اکبر آبادی کی تصانیف کی تعداد 300 کے لگ بھگ ہے۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے قرآنِ پاک کا منظوم ترجمہ وحئ منظوم کے نام سے مکمل کیا تھا۔

    سیماب اکبر آبادی کی شاعری ان کے مخصوص اور منفرد لب و لہجہ کے سبب خاصی مقبول ہوئی۔ نیرنگیِ خیال، شستہ و پاکیزہ، پُراثر شاعری اور زبان و بیان کی نزاکتوں اور لطافتوں سے آراستہ کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔

    ان کی تصانیف میں ’’کلیمِ عجم‘‘، ’’سدرۃُ المنتہیٰ‘‘، ’’لوحِ محفوظ‘‘، ’’ورائے سدرہ‘‘، ’’کارِ امروز‘‘، ’’ساز و آہنگ‘‘، ’’الہامِ منظوم‘‘(مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ) ’’وحئ منظوم‘‘(قرآن مجید کا منظوم ترجمہ) ’’عالمِ آشوب‘‘ (رباعیات)، ’’تغیّرِ غم‘‘(سلام و مراثی)، ’’شعر انقلاب‘(انقلابی نظمیں) شامل ہیں۔

    سیمابؔ کے اشعار موجودہ دور اور آج کے شاعرانہ مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا شعر دیکھیے۔

    کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
    جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

    دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
    اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

    دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا
    دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے

  • ظ انصاری: اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    ظ انصاری: اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    ظ انصاری نے اردو زبان و ادب کو کئی علمی و تحقیقی مضامین اور تخلیق و تراجم پر مشتمل یادگار کتابیں دیں۔ وہ ایک ادیب، محقّق، ادبی نقّاد اور بہترین مترجم تھے جنھیں صاحبِ اسلوب قلم کار اور اردو ادب میں فکر و دانش کی روایت کا امین کہا جاسکتا ہے۔

    آج ظ انصاری کا یومِ وفات ہے۔ وہ عربی، فارسی اور انگریزی کے علاوہ روسی زبان بھی جانتے تھے۔ اور ان زبانوں‌ سے کئی تراجم کے علاوہ اور اردو زبان و ادب اپنے علمی و تحقیقی مضامین سے مالا مال کیا۔ اردو روسی لغت مرتب کی۔ ماسکو میں قیام کے دوران انھوں نے بلاشبہ نہایت معیاری کام کیا۔ وہاں وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لائق سمجھے گئے۔ بعد میں ظ انصاری نے بمبئی یونیورسٹی میں روسی زبان بھی پڑھائی۔

    31 جنوری 1991ء کو ظ انصاری نے ممبئی میں وفات پائی۔ ان کا مکمل نام ظلِّ حسنین نقوی تھا۔ ادب کی دنیا میں‌ انھیں‌ اختصارِ نام کے ساتھ شہرت ملی اور ظ انصاری نے اپنے حصّہ کا کام بخوبی کیا، ان کا وطن سہارن پور تھا جہاں 6 فروری 1925ء کو پیدا ہوئے۔

    ظ انصاری حصولِ تعلیم کے بعد دہلی آئے اور وہاں ایک روزنامے سے منسلک ہوئے۔ اس زمانے کے ایک ہفتہ وار اخبار کے مدیر سید سبطِ حسن تھے، یہ کمیونسٹ پارٹی کا اخبار تھا۔ ظ انصاری اس کی مجلسِ ادارت میں شامل ہوگئے۔ اس دور میں ترقی پسند نظریہ اور فکر کے پرچارک لکھاریوں کو گرفتار کرکے پابندِ سلاسل کیا جارہا تھا اور ظ انصاری بھی گرفتار بھی ہوئے۔ وہ کمیونزم کے نظری پیرو کار تھے، لیکن بعد میں مایوس ہوگئے۔ اس وقت آزادیٔ وطن کی بھی ہر طرف گونج سنائی دے رہی تھی جس میں کمیونسٹ پارٹی کا بھی خاصا دخل تھا۔ ظ انصاری گرفتار ہوئے تو حالت کچھ ایسی نہ تھی کہ جیل جائیں تو ان کے بال بچّوں کا سلسلۂ معاش جاری رہ سکے۔ اس لیے انھوں‌ نے گورنمنٹ سے مصالحت کے بعد جیل سے رہائی حاصل کر لی تھی اور پھر صرف صحافت اور ادبی مشاغل تک محدود ہوگئے۔ شاعری بھی ظ انصاری کا ایک حوالہ ہے۔

    ظ انصاری نے جہاں روزناموں اور مختلف رسائل سے منسلک رہتے ہوئے تخلیق و تراجم کا کام انجام دیا وہیں بالخصوص روس کے دارالترجمہ میں کام کرتے ہوئے ظ انصاری کے قلم سے روسی ادیبوں کی کہانیوں اور ناولوں کے خوب عمدہ تراجم سامنے آئے۔ ظ انصاری نے مولانا آزاد، غالب، میر، خسرو، اقبال اور انیس پر بھی اپنا تحقیقی کام پیش کیا۔

    ظ انصاری نے علمی و تحقیقی کاموں کے دوران کارل مارکس، اینجلس کی منتخب تصانیف بھی اردو میں منتقل کیں۔ اس کے علاوہ دستووسکی، چیخوف، اور پشکن کے ناولوں کا ترجمہ اور جدید روسی شاعری کو بھی اردو میں منظوم کیا۔ ان کی متعدد تصانیف میں سے اہم اور چند قابلِ ذکر نام ’’مثنوی کا سفر نامہ‘‘، ’’کانٹوں کی زبان‘‘، ’’کہی ان کہی‘‘، ’’کتاب شناسی‘‘، ’’اقبال کی تلاش‘‘، ’’غالب شناسی‘‘، ’’کمیونزم اور مذہب‘‘، ’’ورق ورق‘‘ ہیں۔

  • ثریّا: فلم انڈسٹری کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی فن کار

    ثریّا: فلم انڈسٹری کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی فن کار

    ثریّا جمال شیخ کو تقسیم سے قبل ممبئی کی فلمی دنیا میں اور بعد میں بھارتی سنیما میں ثرّیا کے نام سے خوب شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی۔ وہ بیک وقت اداکاری اور گلوکاری کے شعبے میں کام یاب ہوئیں اور نام و مقام ہی نہیں پایا بلکہ خوب دولت بھی کمائی۔ ’پیار کی جیت‘ ’بڑی بہن‘ اور ’دلگی‘ جیسی ہٹ فلموں کے بعد ثریّا گھر گھر مقبول ہوگئی تھیں۔

    ثرّیا نے 15 جون 1929ء کو گوجرانوالہ (پاکستان) میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں ان کا فلمی سفر ابتدائی عمر میں‌ ہی شروع ہوا اور بعد میں وہ اپنے وقت کی مقبول اداکارہ اور پلے بیک سنگر کے طور پر مشہور ہوئیں۔ اداکارہ اور گلوکارہ31 جنوری 2004ء کو ثرّیا وفات پاگئی تھیں۔

    1937ء میں ثریّا نے پہلی بار چائلڈ ایکٹریس کے طور پر کیمرے کا سامنا کیا تھا۔1941ء میں ہدایت کار نانو بھائی وکیل کی نظر کم عمر ثریّا پر پڑی تو انھوں نے اپنی فلم تاج محل میں ممتاز محل کا کردار سونپ دیا اور ثریّا بڑے پردے پر سب کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ بطور اداکارہ ثریّا کی دیگر فلموں میں پھول، انمول گھڑی، تدبیر، عمر خیام، پروانہ، پیار کی جیت، بڑی بہن، دل لگی، وارث، مرزا غالب اور رستم و سہراب شامل ہیں۔

    اداکارہ ثریّا نے ایک دہائی تک ہندی فلم نگری پر راج کیا۔ ان کا شمار اس وقت کی کام یاب ترین اداکاراؤں‌ میں‌ میں کیا جاتا ہے۔ ثریّا نے کُل 68 فلموں‌ میں‌ اداکاری کی اور تین سو سے زائد گانے اپنی آواز میں‌ ریکارڈ کروائے۔ ہندی سنیما میں مشہور ہیرو راج کپور اور دیو آنند ان سے تقریباً پانچ چھ سال بڑے تھے۔ وہ ثریا کے بچپن کے ساتھی بھی تھے اور ہمسائے بھی۔ راج کپور اس زمانے میں آل انڈیا ریڈیو بمبئی میں بچّوں کے پروگراموں میں حصّہ لیتے تھے۔ انھوں نے ثریا کو بھی آل انڈیا ریڈیو پر جانے کا مشورہ دیا۔ اس زمانے میں زیڈ اے بخاری بمبئی ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ ثریا کو انھوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور پھر یوں ہوا کہ ریڈیو پر ثریا کی آواز نے نوشاد علی کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ پھر ثرّیا نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ ایک کے بعد ایک فلم ان کو ملتی گئی، اپنے وقت کے تمام بڑے بڑے ہیروز کے ساتھ انھوں نے کام کیا اور گلوکاری سے فلموں کو مزید مقبول بنایا۔ لوگ آج بھی ثریا کے گائے ہوئے گیت شوق سے سنتے ہیں۔ قدرت نے ثرّیا کو سُروں کی پہچان اور دل کش آواز گویا پیدائش کے وقت ہی دے دی تھی۔ ثرّیا کی آواز قدرت کا عطیہ تھی۔ ثریّا نے فلم نگری میں موسیقی اور اداکاری کا شوق خوب پورا کیا۔

    اداکارہ اور گلوکارہ ثریّا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں۔ تقسیم کے بعد ان کے خاندان کے تمام لوگ اور قریبی عزیز پاکستان چلے آئے، لیکن ثریّا نے ممبئی میں رہنا پسند کیا اور آخری سانس تک ایک اپارٹمنٹ میں تنہا زندگی گزار دی۔ انھوں نے شادی نہیں‌ کی۔ ثریّا کی دیکھ بھال اُن کے پڑوسی کرتے تھے۔ کہتے ہیں وہ اپنے زمانے کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ تھیں جس نے بطور گلوکارہ بھی کئی بڑے ناموں سے داد سمیٹی۔ ثریا چالیس اور پچاس کی دہائیوں میں بھارتی فلموں کی اتنی ہی مقبول اداکارہ تھیں جتنے راجیش کھنّہ 1960 اور 70 کی دہائیوں میں رہے۔ وہ کئی برس تک بولی وڈ میں سب سے زیادہ معاوضہ پانے والی اداکارہ بھی رہیں۔

    ثریا اپنے زمانے میں اتنی مقبول تھیں کہ بمبئی میں ان کے گھر کے سامنے ان کے پرستاروں کا ہجوم رہتا تھا اور وہ ثریّا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں وہاں کھڑے رہتے تھے۔ یہی صورت حال ثریا کی فلموں کے پریمیئر شو پر بھی ہوتی تھی۔ مشہور ہے کہ دیو آنند ثریّا سے عشق کرتے تھے اور ایک مرتبہ ان کو انگوٹھی بھی دی تھی جو ان سے رشتہ استوار کرنے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے لیکن ثریّا کی نانی نے ایسا نہ ہونے دیا۔ تب دیو آنند نے شادی کرلی مگر ثریّا نے تنہا عمر گزار دی۔

  • ماسٹر عبداللہ: جداگانہ اسلوب کا حامل موسیقار

    ماسٹر عبداللہ: جداگانہ اسلوب کا حامل موسیقار

    پاکستان کی فلمی صنعت کو جو صاحبِ طرز موسیقار ملے اور جن کی فلمی گیتوں کی دھنیں لازوال ثابت ہوئیں، ان میں‌ ماسٹر عبداللہ کا نام نمایاں‌ ہے۔ ہم عصر موسیقاروں کے مقابلے میں‌ ماسٹر عبداللہ کو فنِ‌ موسیقی میں ان کے جداگانہ انداز نے امتیازی شہرت دی۔

    آج اس لیجنڈری موسیقار کی برسی ہے۔ ماسٹر عبداللہ 31 جنوری 1994ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔

    ماسٹر عبداللہ نے انور کمال پاشا کی فلم سورج مکھی سے فلمی دنیا میں‌ قدم رکھا تھا۔ اس فلم میں او میرے گورے گورے راجہ وہ گانا تھا جو بہت مقبول ہوا۔ ماسٹر عبداللہ کی دھنوں میں خالص راگ راگنیوں کا وہ رچاؤ شامل تھا جس نے فلمی دنیا میں انھیں‌ شہرت اور مقام دیا۔ اگرچہ اس زمانے میں پنجابی فلموں کی کہانی کی کام یابی میں گیتوں‌ کا زیادہ عمل دخل نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر ماسٹر عبداللہ نے زیادہ پنجابی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی اور وہ ایسے باکمال فن کار تھے جنھیں اس میں بڑی کام یابی نصیب ہوئی۔ ان کے بڑے بھائی ماسٹر عنایت حسین بھی ایک مستند اور قابلِ احترام موسیقار تھے۔ ماسٹر عبداللہ کو بریک تھرو فلم ملنگی (1965) کے سپر ہٹ گیت "ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں۔” سے ملا تھا۔

    پاکستان کے اس نام ور موسیقار کا فلمی کیریئر تیس سال پر محیط رہا جس میں ماسٹر عبداللہ نے 51 فلموں کے لیے دھنیں ترتیب دیں۔ ان میں‌ اردو کی چند فلمیں اور باقی پنجابی زبان میں‌ فلمیں‌ شامل تھیں۔

    ماسٹر عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں‌ فلم ٹیکسی ڈرائیور، بابل، نظام، شریف بدمعاش، بدل گیا انسان، اک سی چور، ہرفن مولا، دلیر خان، لاڈو، میدان، کمانڈو، وارث، شہنشاہ، پیار دی نشانی، رنگی، اکھ لڑی بدو بدی، کشمکش، رستم، ہیرا پتّھر، دل ماں دا، قسمت اور ضدّی کے نام سرِفہرست ہیں۔ آخرالذّکر فلم کا یہ گیت تیرے نال نال وے میں رہنا اور اسی طرح ایک اور فلم دنیا پیسے دی کا یہ گانا چل چلیے دنیا دی اوس نکرے آج بھی پنجابی سنیما کے زمانۂ عروج کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔

    فلم انڈسٹری کو کئی بے مثال دھنیں دینے والے موسیقار ماسٹر عبداللہ نے اپنے کمالِ فن سے اس وقت کے مشہور گلوکاروں‌ کو بھی متأثر کیا اور وہ ماسٹر عبداللہ کی دھنوں‌ پر اپنی آواز ریکارڈ کروانے کے خواہش مند رہے۔ ماسٹر عبداللہ کی دھنوں پر شہنشاہِ غزل مہدی حسن، میڈم نور جہاں، مالا، تصور خانم اور دیگر بڑے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    ماسٹر عبداللہ نے اعلیٰ‌ درجے کی موسیقی ترتیب دی اور فلم واہ بھئی واہ، لاڈو، ملنگی، کمانڈر، زندگی، رنگو جٹ کی شان دار کام یابی کی ایک وجہ ماسٹر عبداللہ کی موسیقی بھی تھی۔ یہ درست ہے کہ پنجابی فلمیں گیتوں کی بنیاد پر کم ہی کام یاب ہوئی ہیں، لیکن مذکورہ فلموں کے گیتوں کو بھی شائقین نے سراہا تھا۔

    فلمی صنعت نے ماسٹر عبداللہ کو نگار ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات سے نوازا تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب ان کا وقت گزر گیا تو فلم انڈسٹری میں کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہ تھا اور ماسٹر عبداللہ نے بڑی مشکل سے گزر اوقات کیا اور اپنے دن پورے کرکے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ غربت اور دمے کے مرض نے اس باکمال موسیقار کو لاچار کر دیا تھا۔

  • بیرم خان: مغل خاندان کا وہ اعلیٰ منصب دار جسے تکبّر لے ڈوبا

    بیرم خان: مغل خاندان کا وہ اعلیٰ منصب دار جسے تکبّر لے ڈوبا

    ہندوستان میں مغلیہ دور کے سپاہ سالار بیرم خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ بادشاہ اکبر کا اتالیق رہا اور یہی بیرم خان شاہی خاندان کا ایسا وفادار بھی تھا جس نے اس وقت مغل اقتدار کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا جب بادشاہ ہمایوں آگرہ سے فرار ہونے پر مجبور ہوگیا تھا۔

    بیرم خان کا تذکرہ تاریخ کے صفحات میں بیرم بیگ کے نام سے بھی کیا گیا۔ وہ ایک سپہ سالار، ایک مدبّر اور ہوشیار درباری ہی نہیں بلکہ علم و ادب کا رسیا بھی تھا۔ اسے ترکی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ بیرم خان نے دونوں زبانوں میں شاعری بھی کی۔ اس نے شاہی دربار میں کئی عالم اور اہلِ قلم شخصیات کو جگہ دے رکھی تھی۔

    بیرم خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترکی النّسل تھا۔ اس کی جائے پیدائش وسطیٰ بدخشاں کا علاقہ بتایا جاتا ہے۔ بیرم خان کے باپ کا نام سیفالی بیگ بہارلو اور اس کے دادا جنبالی بیگ تھے اور یہ دونوں مغل شہنشاہ بابر کی فوج میں ملازم تھے۔ بیرم خان نے بھی اپنے دادا اور باپ کی طرح فوج اور سپاہ گری کو اپنایا۔ شاہی فوج میں اس کی کارکردگی اور خدمات نے نہ صرف اس کے مناصب میں اضافہ کیا بلکہ وہ وقت کے ساتھ دربار میں نمایاں اور مقبول ہوتا گیا۔بیرم خان 16 سال کی عمر میں بابر کی فوج میں شامل ہوا تھا اور کئی سال کے دوران اس نے فوج میں مختلف عہدوں پر رہتے ہوئے مغلوں کی کئی لڑائیوں‌ اور معرکوں میں فتح دلوائی۔ مؤرخین کے مطابق جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران روانہ ہوا تو بیرم خان بھی اس کے ہمراہ تھا۔ جب ہمایوں ایران سے فوج لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو بیرم خان بادشاہ کی فوج کا سپہ سالار تھا۔بادشاہ ہمایوں نے بیرم خان کو ’خانِ خاناں‘‘ کا لقب دیا تھا جس کے معنی بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔

    بادشاہ اکبر کے دور میں‌ بھی بیرم خان نے حکومت کے استحکام کے لیے ناقابلِ‌ فراموش خدمات انجام دیں۔ وہ اکبر کو سازشوں سے آگاہ کرنے کے علاوہ اس کے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو بطور مشیرِ خاص بروئے کار لاتا رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ بیرم خان ہی تھا جس نے اکبر کے خلاف اکثر مہم جوئی ناکام بنائی۔ لیکن پھر یہی اکبر اس کے خلاف ہوگیا۔ اس کے اسباب میں بیرم خان کا مغرور ہوجانا، اقربا پروری اور بعض ایسے فیصلے تھے جنھیں بادشاہ نے سرکشی اور بیرم خان کا اپنی حد سے تجاوز کرنا سمجھا۔ اس پر بیرم خان کے حاسدین نے بھی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بادشاہ کے سامنے پیش کیا اور بیرم خان کے خلاف بھڑکانے میں کام یاب رہے۔ مغل خاندان اور بادشاہت کے لیے اس کی گراں قدر خدمات اور کارناموں‌ کی وجہ سے اکبر نے اسے اپنی شاہی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوجانے کی پیشکش کی تھی لیکن اس موقع پر بھی بیرم خان نے ہوش کے بجائے جوش سے کام لیا جس کی تفصیل تاریخ کچھ یوں بتاتی ہے۔

    بیرم خان کا سنہ پیدائش 1501ء ہے۔ مغل خاندان کے اس وفادار کو 31 جنوری 1561ء کو قتل کر دیا گیا تھا۔ مؤرخ عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کا سلسلۂ نسب جہاں شاہ ولد قرا یوسف تک پہنچتا ہے۔ ہمایوں کے انتقال کے وقت اکبر کی عمر صرف چودہ برس تھی، لیکن بیرم خان نے اکبر کے اتالیق کی حیثیت سے اسے مسند اقتدار پر بٹھانے کے بے مثال کردار ادا کیا۔ کہنے کو تو اکبر بادشاہ تھا لیکن مؤرخین کہتے ہیں‌ کہ بادشاہت پانچ سال تک عملی طور پر بیرم خان کے ہاتھ میں تھی اور وہ ہمیشہ ایک وفادار سرپرست کی حیثیت سے امورِ سلطنت چلاتا رہا۔ اکبر 19 برس کا ہوا تو بیرم خان نے امورِ مملکت سے خود کو الگ کر لیا۔ بیرم خان نے پانی پت کی دوسری جنگ میں مغل فوج کی قیادت بھی کی۔ یہ 1556ء کی بات ہے۔

    شاہانِ وقت سے قربت کے سبب درباری بیرم خان سے حسد کرتے تھے۔ لیکن بیرم خان سے بھی کچھ غلطیاں‌ بھی سرزد ہوئی تھیں‌ جس نے اس کی وفاداری کو مشکوک اور ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ کچھ مؤرخین کے نزدیک 1560ء میں اس کا زوال شروع ہوگیا اور اس کی وجہ اپنے اعزاء کو نوازنا تھا۔ جب اکبر نے بیرم خان کو سبک دوش کرنے کا فیصلہ کیا تو دونوں میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ غیر متوقع طور پر بیرم خان نے اکبر کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کردیا اور اس کے خلاف فوجی بغاوت کر دی جس میں اسے شکست ہوئی۔ لیکن اس کی مغل خاندان سے وفاداری اور طویل رفاقت کی بنا پر اکبر نے اس کو بخش دیا۔ اکبر نے بیرم خان کو پیش کش کی کہ یا تو دربار سے رخصت لے کر باقی زندگی عیش سے گزار دے یا پھر حج کرنے مکہّ معظمہ چلا جائے۔ بیرم خان نے حج پر جانے کو ترجیح دی اور گجرات کے راستہ سے حرمین شریفین جانےکا قصد کیا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ وہ راستے میں پٹن میں‌ چند دن ٹھیرا۔ ایک روز وہ سیر و تفریح کی غرض سے نکلا۔ وہ جس علاقہ میں تھا، وہاں ایک مبارک خان لوحانی نامی شخص بھی موجود تھا جس کا باپ ماچھی وارہ کی جنگ میں بیرم خان کے کسی سپاہی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اتفاق سے وہ اپنے چالیس افغان ساتھیوں کے ہمراہ اسی مقام پر سیر و تفریح کے لیے آیا ہوا تھا۔ مبارک خان کو جب علم ہوا کہ بیرم خان یہا‌ں موجود ہے تو اس نے ملاقات کا پیغام بھجوایا اور جب وہ بیرم خان کی اجازت سے اس کے پاس پہنچا تو موقع پاکر اس کی پشت پر خنجر مار دیا۔ اس کا یہ وار ہلاکت خیز ثابت ہوا۔ خنجر سینے کے آر پار ہوچکا تھا۔ بیرم خان موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں‌ کہ بیرم خان کو مقبرۂ شیخ حسام الدّین کے احاطہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ میر علی شیر قانع کا بیان ہے کہ بیرم خان کی لاش پٹن سے دہلی لائی گئی اور اسے امانتاً دفنایا گیا۔ بعد ازاں اس کی وصیت کے مطابق اس کی لاش کو مشہد لے جایا گیا اور وہاں‌ تدفین کی گئی۔

  • ونسٹن چرچل: ایک زیرک سیاست داں اور سفاک و ناپسندیدہ شخصیت

    ونسٹن چرچل: ایک زیرک سیاست داں اور سفاک و ناپسندیدہ شخصیت

    ونسٹن چرچل کو دنیا ایک مدبّر اور زیرک سیاست داں اور سفاک حکم راں کہتی ہے۔ چرچل کو سخت متعصب، موقع پرست اور احساسِ برتری کا شکار بھی کہا جاتا ہے جس نے دوسری قوموں کی معاشرت اور مذاہب کی نہ صرف تحقیر کی بلکہ ان کے حوالے سے بے رحم اور سفاک ثابت ہوا۔ چرچل کی اکثر تقاریر اس کی کوتاہ بینی اور پست ذہنیت کا بھی ثبوت ہیں۔

    تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سَر ونسٹن چرچل گیارہ برس تک برطانیہ کا وزیرِ اعظم اور وہاں کے عوام کا ہیرو بھی رہا، لیکن برصغیر کی بات کی جائے تو یہاں وہ ایک سفاک حکم راں سمجھا جاتا ہے جو لاکھوں انسانوں کی موت کا ذمہ دار بھی تھا۔

    اس سے قطع نظر اگر چرچل کے ذوق و شوق کی بات کی جائے تو وہ علم و فنون کا دلدادہ تھا۔ چرچل خود بھی ایک مصنّف اور بہترین مصوّر تھا۔ اس برطانوی سیاست داں اور لیڈر کے بارے میں‌ مزید جاننے سے پہلے سر سیّد احمد خان کی ایک تحریر پڑھیے:

    "انسان کی خصلتوں میں سے تعصّب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصّب گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصّب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصّب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیوں کہ اس کا تعصّب اُس کے برخلاف بات سننے، سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچّی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔”

    سر سیّد جیسے عظیم لیڈر اور مصلح قوم نے تعصّب اور قوم پرستی کو بدترین قرار دیا ہے اور چرچل اسی کا شکار تھا جس نے بالآخر ہندوستان میں‌ عوام کو بدترین حالات سے دوچار کیا۔ ایک موقع پر چرچل نے کہا تھا کہ اُسے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ اس نے ہندوستان میں‌ بسنے والوں کو وحشی قوم کہا تھا۔ وہ یہاں کے لوگوں ہی سے متنفر نہیں‌ تھا بلکہ ہندوستان کے مختلف مذاہب کے لیے بھی اس نے اپنی بیزاری اور شدید ناپسندیدگی ظاہر کی تھی۔ تاہم نو آبادیاتی دور میں برطانوی حکومت کے بارے میں متضاد آرا پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مغربی مصنّفین ہی نہیں‌ اُس وقت کے بعض ہندو اور مسلمان راہ نما بھی برطانوی حکومت میں مختلف منصب پر فائز رہتے ہوئے چرچل کے اقدامات کو بُرا نہیں سمجھتے۔

    دنیا دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی جرمنی کے خلاف فتح کو چرچل کی دور اندیشی اور مدبّرانہ سوچ اور حکمتِ عملی کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔ بعض سیاسی مبصرین، مؤرخین نے لکھا ہے کہ چرچل نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کی سیاسی اور جغرافیائی تاریخ کچھ مختلف ہوتی، لیکن اس کے باوجود ونسٹن چرچل کی شخصیت آج بھی اکثر لوگوں کے لیے ناپسندیدہ ہے۔

    برطانوی راج میں طوفان اور سیلاب کے ساتھ بنگال میں شدید قحط سے اموات اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام میں چرچل کا کردار بھی موضوعِ بحث رہا ہے۔ بنگال میں قحط سے ہلاکتوں اور لاکھوں انسانوں کے متاثر ہونے کا زمانہ وہی ہے جب برطانیہ میں ونسٹن چرچل پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوا۔ نوآبادیات پر متعدد برطانوی اور ہندوستانی تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ اعلیٰ افسران نے اپنی حکومت کو تحریری طور پر قحط کی تباہ کاریوں اور لاکھوں انسانی زندگیوں کو درپیش خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے خوراک اور دوسری امداد کی درخواست کی تھی، لیکن انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔

    کہا یہ بھی جاتا ہے کہ چرچل نے جان بوجھ کر لاکھوں ہندوستانیوں کو بھوکا مرنے دیا۔ یہ بات ہے 1942ء کی جب سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث بنگال میں قحط پڑ گیا تھا اور خوراک نہ ملنے سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے، اُس وقت برطانوی وزیرِاعظم کا خیال تھا کہ مقامی سیاست دان بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کی بہتر مدد کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت کے اس رویّے کے باعث بنگال میں صورتِ حال بگڑتی گئی اور ایک انسانی المیہ نے جنم لیا۔ چرچل کو امریکیوں کے استحصال کا ذمہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل ونسٹن چرچل خود کو ایک برطانوی ہونے کے ناتے دنیا کی دیگر اقوام سے برتر خیال کرتا تھا اور اس بے جا احساسِ تفاخر نے اسے اپنے جیسے ہی کروڑوں انسانوں‌ کی عزّتِ نفس کو مجروح کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔ اس کی نظر میں دنیا کی دیگر اقوام کا احترام نہیں رہا تھا۔

    ونسٹن چرچل 30 نومبر 1874ء کو آکسفورڈ شائر میں پیدا ہوا۔ وہ کم و بیش دس سال برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہا اور 24 جنوری 1965ء کو لندن میں‌ چل بسا تھا۔

    بحیثیت سیاست داں اپنا سفر شروع کرنے سے قبل چرچل ہندوستان کی شمال مغربی سرحد اور پھر جنوبی افریقہ میں ایک سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکا تھا۔ 1901ء میں چرچل پہلی بار پارلیمنٹ کا رکن بنا اور بعد میں‌ وزارتِ‌ خزانہ اور داخلہ میں خدمات انجام دیں اور بعد میں وہ وزارتِ عظمٰی کے منصب پر فائز ہوا۔

    چرچل برطانیہ کی کنزرویٹو اور لبرل پارٹی کا حصّہ رہا اور عملی سیاست کے ساتھ تصنیف و تالیف کا شغل بھی جاری رکھا۔ وہ متعدد کتب کا مصنّف تھا۔ چرچل نے بطور مصوّر کئی فن پارے تخلیق کیے جن میں‌ ایک فن پارہ اس کا شاہکار مانا جاتا ہے جو مراکش کی مشہور جامع مسجد، مسجدِ کتبیہ کا ہے۔ یہ مسجد 1184ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ پینٹنگ چرچل نے دوسری عالمی جنگ کے دوران سابق امریکی صدر روز ویلٹ کے لیے بنائی تھی۔ چرچل کی بنائی ہوئی یہ تصویر عالمی شہرت یافتہ امریکی اداکارہ انجیلینا جولی کی ملکیت تھا جسے چند سال قبل ہی ایک کروڑ 15 لاکھ ڈالر (ایک ارب 80 کروڑ روپے) میں نیلام کیا گیا۔ چرچل کی اس کی پینٹنگ کو ٹاور آف کتبیہ کے نام سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس فن پارے میں‌ چرچل نے مسجد کے مینار اور ارد گرد کی منظر کشی کی ہے۔ کہتے ہیں‌ کہ اس مسجد کے ساتھ لگ بھگ دو ڈھائی سو کتابوں کی دکانیں موجود تھیں‌ اور اسی مناسبت سے اسے مسجدِ کُتبیہ پکارا جانے لگا تھا۔

    برطانیہ کی اس ممتاز مدبّر اور باتدبیر مگر متنازع شخصیت کو 1953ء میں ادب کا نوبیل انعام بھی دیا گیا تھا۔ چرچل کی زندگی کے مختلف ادوار کا احاطہ کرنے کے لیے کئی ابواب باندھنا ہوں گے، کیوں کہ بطور برطانوی وزیر مختلف جنگوں اور محاذوں کے دوران وہ اپنی رائے، بعض فیصلوں‌ اور احکامات کی وجہ سے بھی نمایاں‌ ہوا اور وزیراعظم کے منصب پر رہتے ہوئے اس نے بہت اہم اور ایسے فیصلے کیے جن کا تعلق برطانویوں اور دوسرے ممالک میں بسنے والوں کی زندگی سے تھا اس کے علاوہ وہ اپنے قلم اور مُوقلم کے ذریعے بھی اپنے نظریات اور افکار کا اظہار کرتا رہا جس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔

  • عابد علی عابد: ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت

    عابد علی عابد: ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت

    دمِ رخصت وہ چپ رہے عابد
    آنکھ میں‌ پھیلتا گیا کاجل

    عابد علی عابد کا یہ شعر خیال کی نزاکت کی عمدہ مثال اور کیفیت کا بہترین اظہار ہے۔ نابغۂ روزگار عابد علی عابد 20 جنوری 1971ء کو انتقال کرگئے تھے۔ سیّد عابد علی عابد ہمہ جہت قلم کار تھے۔ انھیں قدرت نے متنوع صلاحیتیں عطا کی تھیں۔ وہ شاعر ہی نہیں، نقّاد، ڈراما نگار، ناول نویس اور بہترین مترجم بھی تھے۔

    عابد صاحب نے طبع زاد اور تراجم پر مشتمل کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں‌۔ انھوں نے کئی موضوعات پر جمع و تدوین کا کام بھی نہایت خوبی سے انجام دیا ہے۔ وہ ایک خوب صورت شاعر تو تھے ہی، لیکن اردو ادب میں جن شخصیات نے وسیع تر ادبی، سماجی اور تہذیبی آگہی کے ساتھ تنقید لکھی ہے ان میں عابد علی عابد کا نام سرِفہرست ہے۔ اردو، فارسی اور انگریزی زبان و ادبیات سے عابد علی عابد خوب واقف تھے۔ تدریس ان کا پیشہ تھا اور اس شعبے میں وہ ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔

    عابد علی عابد 17 ستمبر 1906ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔ لاہور سے ایل ایل بی تعلیم حاصل کی اور وکالت کا آغاز کیا لیکن پھر ادبی ذوق انھیں پنجاب یونیورسٹی تک لے آیا جہاں سے فارسی میں ایم اے کیا اور دیال سنگھ کالج لاہور میں اسی زبان کے پروفیسر مقرر ہوگئے۔ حکیم احمد شجاع کے رسالے ’’ہزار داستاں‘‘ سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تھا۔ دیال سنگھ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مجلسِ ترقیٔ ادب سے وابستہ ہوئے اور اس کے سہ ماہی جریدے ’’صحیفہ‘‘ کی ادارت بھی کی۔

    اُن کی کتب کی اشاعت کا سلسلہ باقاعدہ طور پر 1923ء سے شروع ہوا جب ان کی پہلی نثری کتاب ’’حجاب زندگی اور دوسرے افسانے‘‘ کے عنوان سے چھپی۔ پھر افسانوں ہی کی دوسری کتاب ’’قسمت اور دوسرے افسانے‘‘ شائع ہوئی، ناولٹ ’’شمع ‘‘ 1947ء میں چھپا۔ بعد ازاں دکھ سکھ اور سہاگ اور ڈراموں کا ایک مجموعہ ’’ یَدِ بیضا‘‘ کے نام سے چھپا۔ اس کے علاوہ ’’روپ متی، بازبہادر، بھی شہور ڈراما ہے‘‘ یہ سب نثری کتب افسانوں اور ڈراموں پر مشتمل تھیں جو پہلے چھپ گئیں، بنیادی شناخت شاعری تھی مگر شعری مجموعہ 1955ء میں شایع ہو سکا اور اس مجموعے کی اشاعت نے بطور شاعر عابد علی عابد کو زبردست پذیرائی اور پہچان دی۔

    عابد علی عابد کی تصانیف اصولِ انتقاد، ادب کے اسلوب، شمع، یدِ بیضا، سہاگ، تلمیحاتِ اقبال، طلسمات، میں کبھی غزل نہ کہتا کے نام سے بڑا ادبی خزانہ ہیں۔ انھوں نے ادب کی مختلف اصناف میں‌ اپنا زورِ قلم آزمایا اور خود کو ایک ہمہ جہت، ہمہ پہلو شخصیت کے طور پر منوایا۔

  • معروف افسانہ نگار اپندر ناتھ اشکؔ اور پرچون کی دکان

    معروف افسانہ نگار اپندر ناتھ اشکؔ اور پرچون کی دکان

    متحدہ ہندوستان میں‌ ترقی پسند تحریک کا شور تھا اور اردو ادب پر تازہ فکر اور نئے رجحانات کا سایہ۔ اپندر ناتھ اشکؔ اسی دور میں اردو افسانے کا جھنڈا اٹھائے دکھائی دیے۔ زرخیز ذہن کے مالک اپندر ناتھ اشک نے اپنے قلم کے زور پر خود کو معاشرے کا زبردست نباض ثابت کیا۔ انھیں ہندوستانی معاشرے کا ایک ناصح بھی کہا جاسکتا ہے جس کی کہانیوں پر اخلاقی رنگ غالب ہے۔

    آج افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اپندر ناتھ اشک کا تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ 1996ء میں آج ہی کے دن اشک چل بسے تھے۔

    اپندر ناتھ اشکؔ نے طویل عرصہ تک ادب کے قارئین کو اصلاحی کہانیاں‌ دیں اور اپنے وطن کی معاشرت میں‌ پنپتی خامیوں، اور لوگوں کی کم زوریوں‌ کی نشان دہی کرتے رہے۔ اشکؔ کے موضوعات میں سیاست کو بھی دخل رہا، لیکن یہاں بھی ان کا انداز ناصحانہ نظر آتا ہے اور وہ خرابیوں کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں۔

    اردو زبان کے معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اپندر ناتھ اشکؔ نے پنجابی زبان میں‌ شاعری بھی کی۔ وہ ہندوستان میں اردو زبان و ادب سے وابستہ ایسے اہلِ‌ قلم تھے جسے اپنی قوم، اپنی تہذیب اور روایات کا بڑا درد تھا اور جو اپنے لوگوں کی اصلاح اور ان کی خرابیوں کو دور کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔ اشک 14 دسمبر 1910ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ 1930ء تک وہ لاہور میں مقیم رہے اور پھر ہندوستان چلے گئے۔ ان کے ادبی سفر کا آغاز تو پنجابی شاعری سے ہوا تھا لیکن پھر اشک نے نثر کا سہارا لیا اور مختلف اخبارات اور رسائل میں لکھنے لگے۔ اپندر ناتھ اشکؔ کا پہلا ہندی کہانیوں کا مجموعہ جدائی کی شام کے گیت لاہور سے شائع ہوا تھا۔ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو میں ایک عرصہ گزارا اور جب بمبئی گئے تھے تو وہاں فلم نگری سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو کے لیے اشک کئی ریڈیائی ڈرامے اور اسکرپٹ لکھ چکے تھے اور فلموں میں ان کا یہ تجربہ کام آیا۔ انھوں‌ نے فلمی کہانیاں اور اسکرین پلے تحریر کیے۔

    اپندر ناتھ اشکؔ اپنی تحریروں میں پنجاب کی روزمرہ دیہی زندگی کی عکاسی بڑے خوب صورت انداز میں کرتے ہیں۔ افسانہ نگاری میں ان کی مضبوط گرفت اور زبان کی روانی بہت متاثر کن ہے۔ اشک کے افسانوں میں پاپی، کونپل، پلنگ اور ڈراموں میں ‘چھٹا بیٹا، انجو دیدی اور قید بہت مشہور ہوئے۔

    اپندر ناتھ اشک نے 85 سال کی عمر میں الٰہ آباد میں وفات پائی۔ معروف براڈ کاسٹر، محقّق اور مصنّف رضا علی عابدی نے ان پر ایک مضمون میں لکھا:

    "یہ میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس کا زمانہ تھا۔ اپندر ناتھ اشک الہٰ آباد سے چل کر لندن آئے اور بی بی سی کی تاریخی عمارت’بُش ہاؤس‘ میں تشریف لائے۔ اسی ادارے کی ہندی سروس میں ان کا بیٹا نیلابھ کام کرتا تھا، اس سے کہا کہ مجھے رضا علی عابدی سے ملواؤ۔ وہ باپ کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ یوں لگا جیسے بچپن میں اکٹھے کنچے کھیلنے والا کوئی دوست چلا آیا ہو۔ میں نے چاہا قدموں میں بیٹھوں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سَر پر بٹھالیں۔”

    "واپس الہ آباد چلے گئے مگر وہاں کی خبریں ملتی رہیں۔ پتہ چلا کہ اپندر ناتھ اشک کی کتابوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے اور یہ کہ بددیانت افسر سرکاری اداروں کے لیے ان کی کتابیں نہیں خرید رہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر کوئی اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ اتنے بڑے شاعر اور ادیب کی مالی حالت جواب دینے لگی۔ وہ ٹھہرے سدا کے ادیب اور شاعر۔ معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے باہر آٹے دال کی دکان کھول لی تاکہ اخباروں میں سرخی لگے کہ سرکردہ ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھول لی۔ یہی ہوا۔ اخباروں کو چٹپٹی خبر مل گئی۔ کیسا عجب اتفاق ہوا کہ میں اپنے پروگرام ’جرنیلی سڑک‘ کی تیاری کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر نکلا۔ چونکہ الہ آباد اسی سڑک پر واقع ہے، ایک صبح میں نے خود کو اپندر ناتھ اشک کے گھر پر پایا۔ باہر پرچون کی دکان کھلی ہوئی تھی اور ان کی بیگم کوشلیا سودا سلف بیچ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر کھل اٹھے اور بہت پیارا انٹرویو ریکارڈ کرایا۔”

  • غلام ربانی آگرو: سندھی اور اردو ادب کا ایک معتبر نام

    غلام ربانی آگرو: سندھی اور اردو ادب کا ایک معتبر نام

    آج سندھی اور اردو زبان کے معروف ادیب، افسانہ نگار اور محقق غلام ربانی آگرو کی برسی ہے۔ اپنے ادبی سفر میں تصنیف و تالیف کے علاوہ غلام ربانی آگرو پاکستان میں کئی ادبی اداروں کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔

    غلام ربانی آگرو کے ادبی سفر کا آغاز پاکستان بننے کے بعد 1955ء میں افسانہ نگاری سے ہوا۔ سندھی زبان میں ان کی کہانیاں اور افسانے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیسویں صدی میں سندھ کی تہذیب اور روایات کے ساتھ یہاں کا ماحول کیسا تھا۔ انھوں نے سندھ کے دیہات سے تعلق رکھنے والے عام لوگوں کو اپنے افسانوں اور کہانیوں‌ میں پیش کیا۔ ان کی یہ کہانیاں انگریزی، جرمن، چینی، ہندی اور روسی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں اور ان افسانوں کا مجموعہ ’’آبِ حیات‘‘ کے عنوان سے 1960ء میں شائع ہوا۔

    غلام ربانی آگرو نے سندھ یونیورسٹی کے علاوہ سیکریٹری سندھی ادبی بورڈ، ڈائریکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان اور ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی حیثیت سے بھی کئی برس تک کام کیا۔ وہ ادب اور ادبی اداروں کے لیے اپنی علمی کاوشوں اور خدمات کے لیے مشہور تھے۔

    بحیثیت ایڈیٹر ’’سہ ماہی مہران‘‘ اور بچوں کے ماہنامے ’’گل پُھل‘‘ کے لیے کام کرنے کے ساتھ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی رہے جن میں ’’جھڑاگل گلاب جا‘‘، ’’سندھ جابر بحر پہاڑ‘‘، ماڑھوں شہر بھنبھور جا‘‘، ’’سندھی ادب تی ترقی پسند تحریک جو اثر‘‘، ’’خط غبار‘‘ (خطوط کا مجموعہ)، ’’بھارت میں اردو: ایک جائزہ‘‘، ’’سندھ میں پکھین جو شکار‘‘ شامل ہیں۔

    غلام ربانی آگرو 5 نومبر 1933ء کو سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کے گاؤں محمد خان آگرو میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد، سندھ میں مکمل کی اور پھر کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔

    انھوں نے 18 جنوری 2010ء کو سندھ کے مشہور شہر حیدرآباد میں‌ وفات پائی۔

  • آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار، مقبول کالم نویس

    آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار، مقبول کالم نویس

    آرٹ بکوالڈ (Art Buchwald) دنیا کے اُن چند عالمی شہرت یافتہ اور مقبول طنز نگاروں میں شامل ہیں جو امریکا کے ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت اخبار سے 40 سال تک بطور کالم نویس منسلک رہے۔ انھیں امریکی سماج اور سیاست کا ایک ایسا نکتہ چیں کہا جاسکتا ہے جسے عوام اور خواص میں‌ یکساں احترام اور مقبولیت حاصل رہی۔

    طنز نگار آرٹ بکوالڈ زندہ دل بھی تھے اور باریک بیں بھی۔ انھیں زندگی کا خوب ادراک تھا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے آرٹ بکوالڈ نے جو کچھ سیکھا، وہ اپنے کالموں کی شکل میں‌ اپنے قارئین تک پہنچایا۔

    کالم نویس آرٹ بکوالڈ کی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت نے امریکا، بالخصوص واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو جس خوب صورتی سے اپنی عام تحریروں اور کالموں میں سمویا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ دنیا میں لاکھوں لوگ آرٹ بکوالڈ کے مداح ہیں اور انھیں بہترین طنز نگار مانا جاتا ہے۔

    آرٹ بکوالڈ کا قلم 40 سال تک کالم نگاری میں مصروف رہا اور ان کی 33 کتابیں بھی شایع ہوئیں جنھیں قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کالم نگار کی حیثیت سے آرٹ بکوالڈ نے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات پر گہرا طنز کرتے ہوئے ایسے تیکھے جملے تحریر کیے جس نے سنجیدہ، باشعور امریکی عوام اور اہلِ علم و ادب کو بھی اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ آرٹ بکوالڈ کا ایک مشہور طنزیہ جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘

    ایک سروے کے مطابق صرف امریکا میں آرٹ بکوالڈ کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ ایک عالی دماغ انسان اور طنز نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ عالمی حالات و واقعات میں دل چسپی لینے والے اور باقاعدگی سے انگریزی روزنامے اور مختلف جرائد پڑھنے کے عادی بیرونِ ملک موجود قارئین میں وہ بہت جلد مقبول ہوگئے۔

    اس امریکی طنز نگار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 5 سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی جرائد کے لیے کالم اور مضامین لکھتے رہے۔ آرٹ بکوالڈ کی جو تحریریں‌ واشنگٹن پوسٹ کی زینت بنیں، ان میں زیادہ تر سیاسی پارٹیوں، سیاست دانوں، حکومت اور اپنے معاشرے پر گہرا طنز کیا ہے۔ ان کی یہ تحریریں ثابت کرتی ہیں‌ کہ وہ ایک بیدار مغز انسان تھے اور یہی وصف آرٹ بکوالڈ کو ان کے ہم عصروں میں بھی ممتاز کرتا ہے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اپنے زورِ‌ قلم کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے آرٹ بکوالڈ نے اپنی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے ہی اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت وہ پیرس میں مقیم تھے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا جب انھوں نے اپنے کالموں میں امریکا کے اعلیٰ طبقات اور اشرافیہ پر طنز کرنا شروع کیا۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ ان کا تعلق نیویارک کے ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ آرٹ بکوالڈ کے والد کو کاروبار میں گھاٹا ہوتا رہا جس کے نتیجے میں یہ کنبہ مشکلات میں گھر گیا۔ آرٹ بکوالڈ کو کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے تھے۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کا ایک خاص وصف ارد گرد پھیلے ہوئے عام موضوعات کا انتخاب کرکے اس پر کالم لکھنا تھا۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا اور ان کی تحریریں‌ بامقصد اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھاتی تھیں۔ آج دنیا بھر میں اہلِ قلم آرٹ بکوالڈ کی پیروی کرنے کی کوشش اور ان کے انداز کو اپنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔