Tag: جنوری وفات

  • محسن بھوپالی:‌ اردو شاعری کا ایک بڑا نام

    محسن بھوپالی:‌ اردو شاعری کا ایک بڑا نام

    اردو ادب میں محسن بھوپالی کا نام ایسے شاعر کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا جس نے خود کو رائج اصنافِ سخن میں طبع آزمائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے تخلیقی جوہر اور کمالِ‌ فن سے کوچۂ سخن کو نکھارا اور اسے ایک نئی صنف ’’نظمانے‘‘ سے آراستہ کیا۔ آج اردو زبان کے ممتاز شاعر محسن بھوپالی کی برسی ہے۔

    محسن بھوپالی نے اردو زبان میں غزل جیسی معتبر اور مقبول صنفِ سخن میں اپنے جذبات اور احساسات کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا اور ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔ انھوں نے اپنی شاعری سے عام قارئین کی توجہ حاصل کی اور ہم عصر شعرا سے بھی داد پائی۔ اردو ادب کے نقّادوں نے بھی محسن بھوپالی کے فنِ‌ شاعری کو سراہا ہے۔ محسن بھوپالی 17 جنوری 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    محسنؔ بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ انھوں نے 1932ء میں بھوپال کے قریب واقع ہوشنگ آباد کے ایک قصبے سہاگپور میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی ملازمت کا سلسلہ 1993ء تک جاری رہا۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    زمانۂ طالبِ علمی کے بعد نوکری کا آغاز ہوا، تب بھی محسن بھوپالی ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے رہے۔ ان کی شاعری بھی مختلف اخبارات، ادبی رسائل کی زینت بنتی رہی جس نے انھیں باذوق حلقوں میں‌ متعارف کروایا۔ مقامی سطح پر منعقدہ مشاعروں میں شرکت اور علمی و ادبی حلقوں میں پہچان بنانے والے محسن بھوپالی کو کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں سے بھی مشاعرہ پڑھنے کی دعوت ملنے لگی اور ان کا کلام ہم عصر شعراء اور باذوق سامعین نے بہت پسند کیا۔ بطور شاعر جلد ہی ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے محسن بھوپالی نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کے مجموعہ ہائے کلام شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت کے عنوان سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتابوں میں قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    یہ منفرد اعزاز بھی محسنؔ بھوپالی کو حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے کی تھی اور کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریبِ رونمائی تھی جس کے دعوت نامے بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    کئی مشہور اور زباں زدِ عام اشعار کے خالق محسنؔ بھوپالی کا یہ قطعہ بھی ان کی پہچان بنا۔

    تلقینِ صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو میں ’’نظمانہ‘‘ وہ صنفِ سخن ہے جس کے موجد محسنؔ بھوپالی نے افسانہ نگاری بھی کی تھی۔ انھوں نے آزاد نظم کی ہیئت میں ایک تجربہ کیا اور اپنی ایجاد کو تخلیقی وفور کے ساتھ وجود بخشا جو اخبارات اور رسائل و جرائد میں ’’نظمانے‘‘ کے طور پر شایع ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ’’نظمانے‘‘ کو ہم افسانے کی منظوم اور مختصر شکل کہہ سکتے ہیں۔

    محسن بھوپالی کی شاعری ان کی فکر و دانش اور وسیع مطالعہ کے ساتھ معاشرے کے مختلف طبقات پر ان کی گہری نظر اور قوّتِ مشاہدہ کا عکس ہے۔

    انھوں نے معاشرتی موضوعات کے ساتھ سیاسی حالات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کی مثال ان کا یہ قطعہ بھی ہے۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    محسن بھوپالی نے جاپانی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کا اسلوب منفرد اور کلام شستہ و رواں ہے۔ محسن بھوپالی کی شاعری انسانی جذبات و احساست کے ساتھ اُن مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے جس سے عام آدمی کی طرح ایک شاعر بھی متأثر ہوتا ہے۔

    محسن بھوپالی کراچی کے علاقے پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ابراہیم اشک: بولی وڈ کا معروف گیت نگار

    ابراہیم اشک: بولی وڈ کا معروف گیت نگار

    ابراہیم اشک کو بولی وڈ فلم کہو نہ پیار سے بطور گیت نگار بے مثال شہرت ملی۔ اس فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور ابراہیم اشک کا نام بولی وڈ میں ہر طرف گونجنے لگا۔ ابراہیم اشک کا بطور نغمہ نگار سفر بھی اسی فلم کی بدولت آگے بڑھا۔

    ابراہیم اشک بھارت کے ان شاعروں اور اہلِ‌ قلم شخصیات میں‌ شامل تھے جو اردو اور ہندی دونوں زبانو‌ں میں‌ لکھتے رہے۔ 16 جنوری 2022ء کو ابراہیم اشک ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    شاعری کے ساتھ ابراہیم اشک کہانی اور ٹی وی ڈراموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھتے تھے۔ صحافت ان کا پیشہ رہا اور انھوں نے بھارت کے متعدد اردو اخبارات میں کام کیا۔

    ابراہیم اشک اپنی موت سے پہلے ہفتہ بھر علالت کے باعث ممبئی کے نواح میں ایک اسپتال میں علاج کی غرض سے داخل رہے۔ ابراہیم اشک کرونا وائرس کا شکار ہوگئے تھے۔

    ابراہیم اشک جن کا اصل نام ابراہیم خاں غوری تھا، وہ معروف بھارتی شعرا میں سے ایک تھے۔ ابراہیم اشک نے متعدد شعری اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں غزل اور نظم کے علاوہ دوہے اور گیت شامل ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میں الہام اور آگہی قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم اشک نے شاعری کے علاوہ ادبی تنقید بھی لکھی۔ اقبال اور غالب پر ان کی کتابیں ان کی ثروت مند تنقیدی فکر کا ثبوت ہیں۔

    اجین، مدھیہ پردیش میں 20 جولائی 1951ء کو ابراہیم اشک نے آنکھ کھولی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم اجین میں ہی مکمل ہوئی، بعد میں ابراہیم اشک نے ہندی ادبیات میں ایم اے کیا۔

    اردو شاعری کا آغاز کیا تو ابراہیم غوری نے اپنا تخلّص اشک اختیار کیا۔ بولی وڈ کی فلموں کہو نہ پیار ہے، کوئی مل گیا، جانشین، اعتبار، آپ مجھے اچھے لگنے لگے، کوئی میرے دل سے پوچھے کے گیتوں‌ نے ابراہیم اشک کو شہرت اور مقام دیا۔ ان کے نغمات فلمی صنعت کے معروف گلوکاروں کی آواز میں آج بھی سنے جاتے ہیں۔

  • سچترا سین: پہلی ہندوستانی اداکارہ جس نے عالمی فلمی میلے میں ایوارڈ وصول کیا

    سچترا سین: پہلی ہندوستانی اداکارہ جس نے عالمی فلمی میلے میں ایوارڈ وصول کیا

    یہ اس اداکارہ کا تذکرہ ہے جس نے فلمی پردے پر اپنی غیرمعمولی مقبولیت کے زمانہ میں انڈسٹری کو چھوڑ دیا تھا اور 82 سال کی عمر میں‌ اپنی وفات تک وہ فلمی ستاروں کی کسی تقریب یا میڈیا کے سامنے نہیں آنے سے گریزاں رہیں۔

    سچترا سین بھارتی فلمی صنعت میں بنگالی اور ہندی فلموں کی مشہور اداکارہ تھیں۔ 17 جنوری 2014ء کو سچترا سین کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    یہ 1978ء کی بات ہے جب سچترا سین نے فلموں اور عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کی، اور صحافیوں کو انٹرویو دینا بھی چھوڑ دیا۔ وہ اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق ایک روحانی تنظیم سے وابستہ ہوگئی تھیں۔ سچترا سین اپنے فلمی زمانۂ عروج میں شوہر سے علیحدگی اختیار کرچکی تھیں۔ ان کی اکلوتی بیٹی، مون مون سین بھی فلمی اداکارہ ہے۔

    ’آندھی‘ وہ فلم تھی جس نے سچترا سین کو شہرت دی۔ گلزار صاحب کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں وہ سنجیو کمار کے ساتھ نظر آئی تھیں۔ اس فلم کے گانے بہت مشہور ہوئے اور آج بھی بہت شوق سے سنے جاتے ہیں۔ فلم کام یاب بھی رہی اور اس پر کچھ تنازع بھی رہا۔ فلم میں ان کو ایک سیاسی لیڈر کے طور دکھایا گیا تھا۔ اس فلم کا نغمہ ’تیرے بنا زندگی سے شکوہ تو نہیں‘ اور تم آگئے ہو نور آگیا‘ سدا بہار نغموں کی فہرست میں شامل ہیں۔

    سچترا سین نے 1952ء میں بنگالی فلم سے اپنا کریئر شروع کیا تھا۔ فلم تھی ‘شیش کوتھائے’ مگر یہ پردے کی زینت نہیں‌ بن سکی۔ سچترا نے بنگالی کے ساتھ کئی کام یاب ہندی فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی اصل شناخت بنگالی فلمیں ہی تھیں۔ سنہ 1955ء میں اداکارہ سچترا سین نے بمل رائے کی ہندی فلم دیو داس میں کام کیا۔ سال 1966ء میں وہ ہندی فلم بمبئی کا بابو میں سدا بہار ہیرو دیو آنند کے ساتھ نظر آئیں۔بنگلہ فلموں میں سچترا سین اور اتم کمار کی جوڑی خاصی مقبول ہوئی۔ ان دونوں نے ایک ساتھ "ہر نوسر، ساگریکا، چووا پووا اور اگنی پریکشا” جیسی فلمیں کیں۔ ان کی مشہور فلموں میں "دیپ جیلے جائی اور اترپھالگنی” شامل ہیں۔ 1961ء کی بنگالی زبان میں رومانوی اسٹوری "سپتپدی” کے نام سے آئی جس میں سچترا سین نے اپنی اداکاری سے شائقین کے دل جیت لیے۔ اسے بے حد پذیرائی ملی اور فلم 1963ء میں ماسکو کے فلمی میلے میں پہنچی۔ اداکارہ سچترا سین کو اس فلم کی بہترین اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا۔ وہ کسی بین الاقوامی سطح‌ کی فلمی تقریب میں ایوارڈ پانے والی پہلی ہندوستانی اداکارہ تھیں۔

    1963ء کی فلم بنگالی فلم سات پاکے باندھا میں بھی سچترا سین نے غضب کی اداکاری کی۔ یہ فلم بھی ماسکو فلم فیسٹیول میں پیش کی گئی اور اداکارہ سچترا سین کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    1978 میں سچترا سین ایک بنگالی فلم کے بعد اسکرین اور عوامی تقریبات سے دور ہو گئی تھیں۔ کولکتہ میں رہائش پذیر سچترا سین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 2005ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ وصول کرنے کے لیے دعوت پر بھی اداکارہ انکار کر دیا تھا۔

    اداکارہ سچترا سین 1931ء میں مغربی بنگال کے بیربھوم ضلع کے ایک گاؤں پنا میں پیدا ہوئیں جو آج بنگلہ دیش کا حصّہ ہے۔ ان کا اصل نام اوما تھا۔ ہائی اسکول میں تعلیم کے بعد ہی 1947ء میں ان کی شادی کلکتہ کے ایک نوجوان دیباناتھ سین سے ہوگئی تھی۔

    اداکارہ نے ہندی فلم ’مسافر‘ اور ’چمپا کلی‘ میں بھی کام کیا تھا جو ناکام رہیں۔ وہ دلیپ کمار کے ساتھ بھی کام کرچکی تھیں۔

  • یومِ‌ وفات: چاند نگر کے انشاء جی کی باتیں

    یومِ‌ وفات: چاند نگر کے انشاء جی کی باتیں

    "بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے، ابنِ انشاء کا کاٹا سوتے میں بھی مسکراتا ہے۔” آج کئی ادبی جہات کے حامل اور چاند نگر کے مالک ابنِ انشاء کی برسی ہے۔

    ابنِ انشاء کے لیے ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرنے اور ان کے قلم کے لیے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والی کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ اردو طنز و مزاح کے سرخیل سمجھے جانے والے مشتاق احمد یوسفی ہیں۔

    اردو نظم اور نثر پر حاوی ہوجانے والے ابنِ‌ انشاء نے شاعری، مزاحیہ نثر، سنجیدہ مضامین، کالم، سفر نامے لکھے اور غیرملکی ادب سے تراجم بھی کیے۔ ابن انشاء ایک بلند پایہ کالم نگار، مصنّف، مترجم، مزاح نگار اور شاعر تھے اور اہم بات یہ ہے کہ ان کی ہر تحریر ان کے منفرد اسلوب اور موضوع کی وجہ سے بہت مقبول ہوئی۔ انشاء جی کے قارئین اور مداحوں کی بڑی تعداد ادبی رسائل، اخبار اور کتابیں‌ ان کی تحریر پڑھنے کے لیے خریدا کرتی تھی۔ شاعری کے علاوہ سفر ناموں، تراجم اور مختلف مضامین پر ان کی تصنیف اور تالیف کردہ کتب اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر انور سدید نے سفرناموں پر مبنی اپنی ایک کتاب میں انشاء جی کے اسلوب اور طرزِ بیان پر لکھا ہے، ’’چلتے ہو تو چین چلیے ‘‘،’’دنیا گول ہے‘‘،’’ابن بطوطہ کے تعاقب میں ‘‘اور”آوارہ گرد کی ڈائری‘‘میں ابن انشا ایک ایسے بنجارے کے روپ میں سامنے آتے ہیں جو گرد و پیش پر بیگانہ روی سے نظر ڈالتا ہے لیکن در حقیقت اس کی آنکھ اشیاء کے باطن کو ٹٹولتی ہے اور ہمیں ان کے ماضی اور حال سے آشنا کرتی چلی جاتی ہے۔

    ابن انشا کی شخصیت میں سرشار کے سیلانی اور میر امن کے درویش دونوں کی خصوصیات جمع تھیں، چنانچہ ان کے شوق کی کمی بھی نہیں تھی، اور وحشت کا توڑا بھی نہیں تھا۔ فقط سبب کی حاجت ہوتی تھی۔ اور یہ سبب کتابی دنیا کی کوئی غیر ملکی کانفرنس مدت مدید کا وقفہ ڈالے بغیر پیدا کر دیتی تھی۔ ابن انشا کے بیشتر سفر سرکاری نوعیت کی کانفرنسوں کی بدولت ہی ظہور میں آئے اور سفروں کا حال اخباری ضرورتوں کے لیے لکھا گیا۔

    ابن انشا کی منفرد خوبی ملکی اور غیر ملکی عادات کے درمیان موازانہ، رواں تبصرہ اور قول محال کی بوالعجبی ہے۔

    ابن انشا نے اپنے سفر ناموں میں عام قاری کی دلچسپی کے لئے معلوماتی مواد فراہم کرنے تاریخی واقعات بیان کرنے اور شخصیات کی سوانح نگاری کا فریضہ ادا کرنے کی کاوش بھی کی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید مزید لکھتے ہیں، انشا کے طنز میں فطری نفاست ہے اور اس کا مزاج غیر جذباتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جملوں کے بین السطور معانی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

    ابنِ انشاء کو سرطان کے مرض نے ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ وہ علاج کی غرض سے لندن گئے تھے جہاں 11 جنوری 1978ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ابنِ انشاء کی میّت کراچی لائی گئی اور اسی شہر میں پاپوش کے قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔

    ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ وہ 15 جون 1927ء کو ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا اور بعد میں باتیں انشاء جی کا قلمی نام اپنا لیا۔ وہ روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی اور بعد میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور طویل عرصہ تک نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    شاعر اور ادیب ابنِ انشا کا پہلا مجموعۂ کلام ’’چاند نگر‘‘ تھا۔ اس کے بعد ان کے شعری مجموعے ’’اس بستی کے ایک کوچے‘‘ میں اور ’’دلِ وحشی‘‘ کے نام سے سامنے آئے۔ ابنِ انشاء نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ شاعری اور نثر دونوں‌ میں انھوں‌ نے بچّوں کی دل چسپی اور ذہنی سطح‌ کے مطابق ان کی تربیت اور فکری راہ نمائی کی۔ متعدد کتب کا اردو ترجمہ کیا اور خوب صورت سفرنامے لکھے جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔ ان میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر شامل ہیں۔ مرحوم کی دیگر کتابوں میں اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی اور قصّہ ایک کنوارے کا بہت مقبول ہوئیں۔ ابنِ انشاء کے خطوط بھی ان کے اسلوب اور دل چسپ انداز کے سبب ادبی حلقوں اور ان کے قارئین میں مقبول ہوئے۔ یہ خطوط کتابی شکل میں موجود ہیں۔

    ابنِ انشاء نے شاعری تو اسکول کے زمانے سے ہی شروع کردی تھی لیکن اصل نکھار اس وقت آیا جب تقسیم ہند کے بعد وہ لاہور آئے، لاہور اس زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ تھا اور ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی، ادبی مباحث، مشاعرے، ادبی مجالس اور مختلف تنظیموں کے ہفتہ وار اجلاس میں تخلیقات پر بات کی جاتی تھی جس میں شرکت نے انشاء کے ادبی رجحانات اور ان کے افکار پر بھی اثر ڈالا۔ ابنِ‌ انشاء ملکی ادب کے ساتھ عالمی سطح پر شہرت رکھنے والے تخلیق کاروں کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے رہے اور سیکھنے سکھانے کا سفر جاری رکھا۔

    ابنِ انشا کی ایک مشہور غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع ہے:

    کل چودھویں‌ کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا
    کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا

    اس غزل کو پاکستان اور بھارت کے کئی گلوکاروں نے گایا اور ان کی یہ غزل بھی مشہور ہوئی۔

    انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
    وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

    اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی
    جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

    شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے میں
    کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا

    اس حُسن کے سچّے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
    جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

    اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
    یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

    اُس روز جو ان کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
    اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

    جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بَن میں نہ جا بسرام کرے
    دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

    ابنِ انشا نے محض 51 برس کی عمر میں‌ یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ وہ اپنے ہم عصر تخلیق کاروں اور باذوق حلقوں‌ میں‌ بھی مقبول تھے۔ انھوں نے اپنے ہم عصر تخلیق کاروں اور مختلف علمی و ادبی شخصیات کی زندگی کے بعض واقعات بھی تحریر کیے جو پُرلطف بھی ہیں اور کسی شخصیت کی کم زوریوں یا خوبیوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح ابنِ‌ انشاء پر بھی ان کے ہم عصروں نے مضامین لکھے۔ ہم ممتاز مفتی کی کتاب اور اوکھے لوگ سے ابنِ انشا کے ایک عشق کا قصّہ یہاں نقل کر رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ابنِ انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا، ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا تھا جو پہلے ہی کسی اور کی ہو چکی تھی اور شادی شدہ اور بچّوں والی تھی جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہم دردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔

    جس سے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔

    مواقع تو ملے، مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی، اس کی ہمّت نہ پڑی۔ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا: ’’یار اُسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔‘‘

    اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی پھر عاشق کا جلال جاگتا، وہ کہتا: ’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘

    محبوبہ تیز طرّار تھی، دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔ اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔ انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔

    دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔

    ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔ میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تنخواہ لگ جائے گی۔

    انشا بولا۔ ’’مفتی جی، تمہیں پتا نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا، شہرت دی، زندگی دی!‘‘ انشا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔

    اب انشاء جی کے قلم سے نکلی ایک تحریر بھی پڑھ لیجیے۔ یہ شگفتہ تحریر اردو کے اس بے مثال تخلیق کار کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ابنِ‌ انشاء لکھتے ہیں:

    ایک روز فیض صاحب نے صبح صبح مجھے آن پکڑا۔

    کہا: ” ایک کام سے آیا ہوں۔ ایک تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یورپ میں آج کل آرٹ کے کیا رجحانات ہیں۔ اور آرٹ پیپر کیا چیز ہوتی ہے؟ دوسرے میں واٹر کلر اور آئل پینٹنگ کا فرق معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ٹھمری اور دادرا کا فرق بھی چند لفظوں میں بیان کر دیں تو اچھا ہے۔”

    میں نے چائے پیتے پیتے سب کچھ عرض کر دیا۔ اٹھتے اٹھتے پوچھنے لگے۔ "ایک اور سوال ہے۔ غالب کس زمانے کا شاعر تھا اور کس زبان میں لکھتا تھا؟” وہ بھی میں نے بتایا۔ اس کے کئی ماہ بعد تک ملاقات نہ ہوئی۔ ہاں اخبار میں پڑھا کہ لاہور میں آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر ہوگئے ہیں۔ غالباً اس نوکری کے انٹرویو میں اس قسم کے سوال پوچھے جاتے ہوں گے۔

  • افسانوی شہرت کے حامل اداکار سلطان راہی کا تذکرہ

    افسانوی شہرت کے حامل اداکار سلطان راہی کا تذکرہ

    1980 کے عشرے میں اسکرین پر گنڈاسا تھامے سلطان راہی کا زور چلتا تھا۔ وہ بڑی اسکرین پر چھائے ہوئے تھے اور مشکل نظر آتا تھا کہ اگلے کئی برسوں میں کوئی زبردست آئے گا اور سلطان راہی کی اس سلطنت کو اپنے زورِ دست سے زیر و زبر کر دے گا، لیکن ایک ناگہانی واقعے نے اس خیال کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ سلطان راہی 9 جنوری 1996ء کو گولی کا نشانہ بن گئے اور راہیٔ ملکِ عدم ہوئے۔ آج سلطان راہی کی برسی ہے۔

    پنجابی فلموں کے سلطان نے اس دنیا سے کوچ کیا تو اُن کی 54 فلمیں زیرِ تکمیل تھیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں سلطان راہی اور بھارت میں وریند ایکشن فلموں کی جان تھے اور دونوں ہی اندھی گولی کا نشانہ بنے۔ وریندر بھارتی فلم انڈسٹری کے مشہور ہیرو دھرمیندر کے کزن تھے۔

    فروری 1979ء میں نام وَر فلم ساز سرور بھٹی اور ہدایت کار یونس ملک کی فلم ’مولا جٹ‘ بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ فلم کے دو مرکزی کردار سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی تھے۔ اس فلم میں سلطان راہی کو ایک نیک سیرت انسان اور مصطفیٰ قریشی کو ایک بدمعاش کے روپ میں‌ پیش کیا گیا تھا۔ اس فلم نے کام یابی کا وہ ریکارڈ قائم کیا جس کی انڈسٹری میں مثال نہیں ملتی۔ باکس آفس پر فلم اس قدر ہٹ ہوئی کہ مسلسل ڈھائی سال زیرِ نمائش رہی اور لوگوں‌ نے متعدد بار بڑے پردے پر یہ فلم دیکھی۔


    مشہور فلمی رسالہ "شمع” (نئی دہلی) میں "ستاروں کی دنیا” کے عنوان سے یونس دہلوی کا مقبولِ عام کالم "مسافر” کے قلمی نام سے شایع ہوتا تھا۔ انھوں نے 1990ء کے شمارے میں اپنے اس کالم میں پاکستان کی مشہور فلم "مولا جٹ” کا ذکر کیا تھا۔ یونس دہلوی لکھتے ہیں:

    "10 مارچ 1990ء کو مسافر کا اچانک ہی لاہور جانا ہو گیا۔ دانہ پانی کا اٹھنا سنتے تھے، مگر اس روز مسافر اس محاورے پر پورا ایمان لے آیا۔ اس وقت پاکستان کے شہرۂ آفاق فلم ساز سرور بھٹی کی شہرۂ آفاق فلم "مولا جٹ” کی نمائش کا موقع تھا۔”

    "ہندوستان میں اگر ریکارڈ توڑ فلم "شعلے” بنی ہے تو پاکستان میں ریکارڈ توڑ ہی نہیں کرسی توڑ فلم "مولا جٹ” بنی۔ کرسی توڑ اس لیے کہ ‘مولا جٹ’ لاہور میں مشترکہ 216 ویں ہفتہ میں چل رہی تھی کہ حکومتِ وقت نے اس پر پابندی لگا کر اتار دیا۔”

    "مولاجٹ 9 فروری 1979ء کو لاہور کے شبستان سنیما میں ریلیز ہوئی تھی اور 3 فروری 1981ء کو 104 ویں ہفتہ میں تھی کہ اس طرح سنیما سے اُچک لی گئی جیسے باغ میں کھلنے والا سب سے خوب صورت پھول اچک لیا جاتا ہے۔”

    "بات کورٹ کچہری تک گئی۔ ہائی کورٹ نے 27 دن کی کارروائی کے بعد 55 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا اور حکومت کے اس فعل کو غیر قانونی قرار دیا۔”

    "25 اپریل 1981ء کو "مولا جٹ” کو پھر سے کرسیاں توڑنے اور ریکارڈ توڑنے کے لیے آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ اچانک 18 مئی 1981ء کو مارشل لا قوانین کے تحت فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی۔ اس طرح ‘مولا جٹ’ کی آزادی ختم ہو گئی۔”

    "پاکستان سے مارشل لا گیا تو سرور بھٹی نے ‘مولا جٹ’ کی حبسِ بے جا کے خلاف عدالت کے دروازے کھٹکھٹائے اور 9 مارچ 1990ء کو ایک بار پھر ‘مولا جٹ’ کا راج آ گیا۔ اس بار ‘مولا جٹ’ لاہور کے دس سنیما گھروں میں ایک ساتھ ریلیز کی گئی۔”

    یونس دہلوی آگے لکھتے ہیں‌، "‘مولا جٹ’ چوں کہ ریکارڈ توڑ اور کرسی توڑ فلم تھی اس لیے منٹ منٹ پر تالیاں اور سیٹیاں بج رہی تھیں۔”

    سلطان راہی کا اصل نام سلطان محمد تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1934 اور جائے پیدائش پاکستان کا شہر راولپنڈی ہے۔ ان کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا۔ سلطان راہی نے اسی ماحول میں ابتدائی تعلیم و تربیت کے ساتھ قرآنِ پاک مع تفسیر پڑھا۔ کم عمری میں‌ سلطان راہی کو فلموں میں دل چسپی پیدا ہوگئی اور یہ شوق اتنا بڑھا کہ وہ فلم میں کام کرنے کا خواب دیکھنے لگے۔ اسی شوق کے ہاتھوں ایک روز راولپنڈی سے لاہور چلے آئے اور اسٹیج ڈراموں سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔ سلطان راہی نے جس ڈرامے میں‌ پہلی مرتبہ مرکزی کردار نبھایا وہ ’شبنم روتی رہی‘ تھا۔ اس ڈرامے کے بعد ان کی رسائی فلم نگری تک ہوئی اور وہ ایکسٹرا کے کردار نبھانے لگے۔ فلمی صنعت میں اس وقت سنتوش کمار، درپن، لالہ سدھیر، مظہر شاہ کا بڑا نام تھا۔ ایکسٹرا کے طور پر کام کرتے ہوئے سلطان راہی کو بڑے کردار کی تلاش تھی۔ باغی، ہیرسیال اور چند دیگر فلموں میں ایکسٹرا کا کردار ادا کرنے کے بعد وہ ایم سلیم کی پنجابی فلم ’امام دین گوہاویا‘ میں ایک مختصر کردار ادا کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی زمانے میں ان کی وہ فلمیں‌ بھی ریلیز ہوئیں جن میں‌ سلطان راہی نے معمولی کردار ادا کیے تھے۔ 1971ء میں سلطان راہی کو ہدایت کار اقبال کاشمیری کی فلم ’بابل‘ میں ایک بدمعاش کا ثانوی کردار ملا اور یہی ان کی فلمی زندگی میں بڑی تبدیلی کا سبب بن گیا۔

    برصغیر پاک و ہند کی پنجابی زبان میں فلمیں لاہور کے علاوہ کولکتہ اور ممبئی میں بھی بنائی جاتی رہیں اور تقسیم سے پہلے ریلیز ہوئیں لیکن ہیر رانجھا کو لاہور میں بننے والی پہلی ناطق پنجابی فلم کہا جاتا ہے۔ ابتدائی دور کی پنجابی فلمیں ہلکی پھلکی رومانوی اور نغماتی فلمیں ہوتی تھیں جو عام طور پر پنجاب کی خالص لوک داستانوں سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، سہتی مراد اور دلا بھٹی کے علاوہ ہندوؤں کی دیو مالائی داستانوں اور بدیسی قصے کہانیوں پر مبنی ہوتی تھیں۔

    1950ء کی دہائی میں پاکستان میں پنجابی فلمیں بننے لگیں جن میں عام طور پر رومانوی اور نغماتی فلموں کے علاوہ معاشرتی موضوعات کو فلمایا گیا تھا۔ اس دور میں بہت بڑی بڑی پنجابی فلمیں سامنے آئیں۔ لیکن پھر زمانہ بدل گیا اور کہتے ہیں‌ کہ وحشی جٹ سے پنجابی فلموں میں گنڈاسا کلچر شروع ہوا۔

    اب سماجی اور رومانی فلموں کی جگہ پُرتشدد مناظر اور ایکشن سے بھرپور فلمیں شائقین کی توجہ کا مرکز بن رہی تھیں۔ 1979 میں پاکستانی فلمی صنعت میں انقلابی تبدیلی فلم ساز سرور بھٹی اور ہدایت کار یونس ملک کی فلم ’مولا جٹ‘ کی صورت میں‌ آئی۔ اس فلم نے باکس آفس پر کام یابیوں کے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس فلم کی نمائش ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران ہوئی تھی جس کا ذکر یونس دہلوی کے مضمون میں‌ آیا ہے۔ سلطان راہی نے ستّر کی دہائی کے آغاز پر بشیرا اور وحشی جٹ جیسی فلموں سے اپنے کیریئر کی سمت تو گویا طے کرلی تھی لیکن یہ نہیں‌ جانتے تھے کہ اس کی انتہا کیا ہوگی۔ لیکن فلم مولا جٹ کی بے مثال کام یابی نے یہ طے کر دیا۔ اس کے بعد سطان راہی کی پانچ فلمیں ایک ہی دن ریلیز ہوئیں۔ یہ 12 اگست 1981ء کی بات ہے جب شیر خان، سالا صاحب، چن وریام، اتھرا پُتر اور ملے گا ظلم دا بدلہ کے نام سے فلمیں ریلیز ہوئیں اور ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا۔ ’شیر خان‘ اور ’سالا صاحب‘ نے ڈبل ڈائمنڈ جوبلی (دو سو ہفتے) اور ’چن وریام‘ نے سنگل ڈائمنڈ جوبلی مکمل کی۔

    صحافی اور محقق و ادیب عارف وقار لکھتے ہیں کہ اسّی کے عشرے میں پنجابی فلمیں حاوی نظر آئیں۔ اس دوران سلطان راہی کی آسمان کو چھوتی مقبولیت کے سبب لالی وڈ میں اردو کی 223 فلموں کے مقابلے میں پنجابی کی 370 پکچرز ریلیز ہوئیں۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں جب پاکستانی فلم انڈسٹری کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور فلمی صنعت کا شیش محل زمین بوس ہو چکا تھا تب بھی ماضی کی اس شان دار عمارت کا کچھ حصّہ ایک مضبوط ستون کے سہارے کھڑا رہ گیا تھا۔ اور یہ ستون سلطان راہی کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، جو سن پچاس کی دہائی میں ایک ایکسٹرا بوائے کے طور پر آیا تھا اور ترقی کی منازل طے کرتا ہوا پہلے ولن اور پھر ہیرو کے طور پر ساری صنعت پر چھا گیا تھا۔ لیکن اس کی موت سے وہ آخری ستون بھی کھسک گیا اور فلمی صنعت کی رہی سہی عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔

    سلطان راہی لاہور میں شاہ شمس قادری کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • بمل رائے: فلمی دنیا کا ساحر

    بمل رائے: فلمی دنیا کا ساحر

    ہندوستانی سنیما کو بمل رائے نے کئی یادگار فلمیں دیں جو اس نگری میں آنے والے فن کاروں‌ کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوئیں۔ بمل رائے ایک ایسے عظیم فن کار تھے جو اعلیٰ انسانی اقدار پر یقین رکھتے تھے اور بامقصد تفریح کے قائل تھے۔ اسی سوچ کے ساتھ وہ بطور ہدایت کار سنیما میں مصروف رہے۔ سات جنوری 1966ء کو بمل رائے ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ اس فلم ساز اور ہدایت کار کی عمر 56 سال تھی۔

    بمل رائے کا تعلق سو پور سے تھا جو آج بنگلہ دیش کا حصّہ ہے۔ انھوں نے 1909ء کو ایک زمین دار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد کی وفات کے بعد کنبے کی ذمہ داریاں ان پر آن پڑیں۔ تقیسمِ ہند کے بعد نوجوان بمل رائے کلکتہ چلے گئے جہاں فلمی صنعت میں قدم رکھا۔ بمل رائے باصلاحیت اور نہایت ذہین تھے۔ وہ ہدایت کار بننے سے قبل ایک فوٹو گرافر کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں کام کرکے اپنی صلاحیتوں کو منوا چکے تھے۔ بمل رائے اپنے کام میں‌ ماہر تھے اور کیمرے کے پیچھے ان کی فن کارانہ صلاحیتوں اور نظر کا تال میل غضب کا تھا۔ اسی کی بدولت فلمی دنیا میں‌ قسمت نے ان پر یاوری کی اور ان کے سفر کا آغاز اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ہوگیا۔ اس حیثیت میں کام کرکے بمل رائے نے اپنے علم اور تجربے میں اضافہ کیا۔ بعد میں بمبئی چلے گئے جہاں‌ فلمی صنعت میں کام اور مواقع بہت تھے۔ اس شہر میں‌ بمل رائے نے بھرپور انداز سے اپنے فنی اور تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ وہ بنگلہ اور ہندی سنیما کے کامل ہدایت کاروں میں شمار ہوئے۔

    دو بیگھا ان کی وہ فلم تھی جس نے زمین داروں اور ساہو کاروں کے ساتھ ایک کسان کی زندگی کو پردے پر پیش کیا۔ اس فلم نے تہلکہ مچا دیا۔ انھیں‌ عالمی فلمی میلے اور مقامی فلمی صنعت کے کئی ایوارڈ دیے گئے۔ اس فلم کو کلاسیک میں شمار کیا جاتا ہے۔

    بنگلہ فلموں کے بعد ہندی سنیما میں‌ انھوں نے سماجی موضوعات پر ایسی شان دار فلمیں دیں‌ جن کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ وہ نظریاتی آدمی تھے اور اپنے فن کو بامقصد اور تعمیری انداز میں‌ پیش کرنا جانتے تھے۔ بمل رائے ذات پات کے مخالف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فلموں میں محکوم اور پسے ہوئے طبقات اور استحصال کا شکار افراد کی زندگی کو پیش کیا۔

    اس عظیم ہدایت کار نے اپنی فلموں کے ذریعے سماجی انقلاب لانے کی کوشش اور ناانصافیوں کی نشان دہی کرتے رہے۔ وہ فلم کی چکاچوند اور جگمگاتی ہوئی دنیا میں اپنے مقصد کو فراموش کرکے شہرت اور دولت کے پیچھے نہیں‌ بھاگے۔

    پرنیتا، دیو داس، سجاتا، پرکھ، بندنی اور مدھومتی وغیرہ بمل رائے کی شان دار فلمیں ہیں۔

  • فیض لدھیانوی اور نیا سال

    فیض لدھیانوی اور نیا سال

    فیض لدھیانوی اردو کے پختہ گو اور خوش فکر شعراء میں سے ایک ہیں‌ جن کی ایک نظم بہت مشہور ہے، لیکن ہم نام ہونے کی وجہ سے یہ نظم فیض‌ احمد فیض‌ سے منسوب ہوگئی۔ ان کی یہ نظم ہر سال کے آغاز پر سوشل میڈیا پر ضرور نمایاں‌ ہوتی ہے۔

    اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے
    ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے

    روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
    آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی

    آسمان بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمیں
    ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں

    اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
    کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے

    تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
    ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی

    بے سبب لوگ کیوں دیتے ہیں مبارک باديں
    غالباً بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں

    تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
    فیضؔ نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی

    عام لوگ ہی نہیں‌ باذوق قارئین بھی لاعلمی کی بنیاد پر بطور شاعر اس نظم کے ساتھ فیض احمد فیض‌ کا نام لکھ دیتے ہیں۔ یہ نظم فیض لدھیانوی کی ہے جنھوں‌ نے طویل عمر پائی اور 6 جنوری 1995ء میں لاہور میں‌ انتقال کیا۔

    خواجہ فیض لدھیانوی کی شاعری دینی، اخلاقی اور تعمیری پہلوؤں سے متصف ہے۔ وہ مشرقی تہذیب کے دلدادہ اور قومی احساسِ تفاخر سے سرشار تھے۔ ان کا مقصدِ شاعری اس وقت کے ہندوستانی نوجوانوں کی راہ نمائی اور ان میں جذباتِ عالیہ پیدا کرنا تھا۔ خواجہ فیض لدھیانوی کا مطمحِ نظر اخلاقیات اور قومیات رہا لیکن انھوں‌ نے دیگر موضوعات زندگی اور سماجی شعور کو بھی اپنے کلام میں پیش کیا ہے۔ ان کی غزلیں اور مختلف موضوعات پر نظمیں‌ سادگی، جوش اور تخلیل سے لبریز ہیں۔ خواجہ فیض لدھیانی نے خاص طور پر بچّوں‌ کی تعلیم و تربیت کی غرض سے مختلف موضوعات پر نظمیں اور اشعار بھی لکھے جنھیں ان کے دور کے بڑے بڑے شعراء اور ادیبوں‌ نے سراہا ہے۔

    خواجہ فیض لدھیانوی 1911 میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے آبائی علاقہ کی نسبت اپنے نام کے ساتھ جوڑی اور ادب کی دنیا میں فیض‌ لدھیانوی مشہور ہوئے۔ بچوں کی بہار، قیمتی باتیں، ذوقیات اور دیگر عنوانات سے ان کی متعدد کتابیں شایع ہوئیں۔

    فیض‌ لدھیانوی کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے

    غریبی کس بلا کا نام ہے ان کی بلا جانے
    خدا ہے جن کی دولت جن کا شیوہ زر پرستی ہے
    ………….
    عقل گم ہے دل پریشاں ہے نظر بیتاب ہے
    جستجو سے بھی نہیں ملتا سراغ زندگی

  • ہمالیہ والا: ایک ‘ولن’ کا تذکرہ

    ہمالیہ والا: ایک ‘ولن’ کا تذکرہ

    تقسیمِ‌ ہند سے قبل فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے والے فن کاروں‌ میں ایک نام ہمالیہ والا بھی تھا جو بٹوارے کے بعد پاکستان آگئے اور یہاں‌ کئی فلموں‌ میں اپنی اداکاری سے شائقینِ‌ سنیما کے دل جیتے۔ ہمالیہ والا کو پاکستانی فلموں میں زیادہ تر ولن اور عیّاش شخص کے کرداروں میں دیکھا گیا۔

    اداکار ہمالیہ دراز قد، بارعب اور باوقار شخصیت کے مالک تھے جن کا اصل نام محمد افضل الدّین تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1919ء اور تعلق اترکھنڈ کے دارالحکومت دہرہ دون سے تھا۔ ہمالیہ والا کا نام اس لیے پڑا کہ ان کے بھائیوں کی ایک کمپنی "ہمالیہ ڈرگ” کے نام سے تھی۔ وہ اسی نسبت سے ہمالیہ والا مشہور ہوگئے۔ ہمالیہ والا نے فلمی دنیا چھوڑنے کے بعد لاہور کے واپڈا ہاؤس میں ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھول لیا تھا۔ وہ پراپرٹی کے کاروبار سے بھی منسلک رہے۔ اداکارہ ہمالیہ والا نے تقسیمِ ہند سے قبل کی ایک معروف گلوکارہ امیر بائی کرناٹکی اور بعد میں اداکارہ بیگم پروین سے شادی کی تھی۔ یکم جنوری 1984ء کو ہمالیہ والا انتقال کر گئے تھے۔

    1949ء میں پاکستانی فلم شاہدہ میں ہمالیہ والا نے ایک دولت مند کا منفی کردار نبھایا۔ انھوں‌ نے مغرور اور عیاش شخص کے روپ میں سنیما بینوں سے خوب داد سمیٹی۔

    تقسیمِ ہند سے قبل ہمالیہ والا نے متحدہ ہندوستان کی فلمی صنعت میں ایک درجن سے زائد فلموں میں کام کیا اور پاکستان آنے کے بعد انھوں نے دو درجن سے زیادہ فلمیں کیں۔ فلمی تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمالیہ والا کی پہلی فلم 1942ء میں ‘کس کی بیوی’ کے نام سے ریلیز ہوئی تھی۔ ابتدائی چند فلموں میں وہ چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آئے۔

    قیامِ پاکستان سے قبل ہمالیہ والا کی پہلی قابلِ ذکر کی بات کی جائے تو یہ فلم زینت تھی جو 1945ء میں سید شوکت حسین رضوی کی بطور فلم ساز اور ہدایت کار ایک کام یاب فلم تھی۔ اس میں ہمالیہ والا ولن تھے۔ اسی سال ریلیز ہونے والی ہدایت کار محبوب خان کی تاریخی فلم ہمایوں میں ہمالیہ والا کو قدرے بہتر رول ملا جو شاہِ وقت کے معتمد ہوتے ہیں۔

    1946ء میں اداکار ہمالیہ والا نے نام وَر ہدایت کار اے آر کار دار کی ایک تاریخی فلم شاہ جہاں میں بھی بادشاہ کے قابلِ بھروسا ساتھی کا کردار ادا کیا تھا جس کا نام جوالا سنگھ ہوتا ہے۔ 1947ء میں ہدایت کار محبوب خان کی فلم اعلان میں بھی ہمالیہ والا کو ولن کا کردار سونپا گیا۔ وہ اس روپ میں پوری فلم پر چھائے رہے۔ اس میں منور سلطانہ ہیروئن تھیں۔ فلم میں ہیروئن کی شادی ہیرو کے بجائے ہمالیہ والا یعنی ولن سے ہو جاتی ہے۔ وہ ایک عیّاش آدمی ہوتا ہے اور جوئے کی لت میں سب کچھ جھونک دیتا ہے۔

    پاکستان میں 1953ء میں فلم غلام ایک متاثر کن فلم ثابت ہوئی تھی اور اس میں بھی ہمالیہ والا نے مرکزی منفی کردار نبھایا۔ یہ کردار ایسا تھا جو دولت کے حصول کے لیے ہر کام کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اگلے سال ہدایتکار انور کمال پاشا کی شاہکار فلم گمنام میں ہمالیہ والا کو ایک ہوٹل کے خود غرض مالک کا کردار ملا اور انھوں نے اپنی اداکاری سے شائقین کو متاثر کیا۔ پاکستان کی ایک شاہکار فلم سات لاکھ میں بھی ہمالیہ والا نے منفی کردار نبھایا۔ پاکستانی فلموں میں ہمالیہ والا کے یادگار کرداروں میں 1958ء کی ہدایت کار انور کمال پاشا کی تاریخی اور نغماتی فلم انارکلی کو کوئی نہیں بھول سکتا۔ اس میں ہمالیہ والا نے اکبر اعظم کا کردار ادا کیا تھا۔

  • نقش لائل پوری: ایک بھولا بسرا نام جس کے فلمی گیت آج بھی سنے جاتے ہیں

    نقش لائل پوری: ایک بھولا بسرا نام جس کے فلمی گیت آج بھی سنے جاتے ہیں

    ایک زمانہ تھا جب ہندوستان اور پاکستان میں فلمی صنعت اپنا عروج دیکھ رہی تھی۔ اس وقت جہاں کئی فن کاروں کو آگے بڑھنے کا موقع مل رہا تھا، وہیں قابل اور باصلاحیت تخلیق کار بھی نام و مقام بنا رہے تھے۔ اگر اس زمانے کے گیت نگاروں کی بات کی جائے تو ان میں کئی بڑے نام شامل ہیں جن کے گیت بہت سی فلموں کی کام یابی کی وجہ بنے۔ فلمی نغمہ نگاروں کی اس کہکشاں میں ایک نقش لائل پوری بھی تھے جنھوں‌ نے بولی وڈ کو خوب صورت نغمات دیے۔

    نقش لائل پوری کے لکھے ہوئے بہت سے گیت ہندوستانی فلموں‌ کی کام یابی اور مقبولیت کا سبب بنے۔ وہ غزل کے بھی بہت اچھے شاعر تھے۔ اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ ہر اچھا غزل گو شاعر اچھی فلمی شاعری نہیں کر سکتا، لیکن نقش لائل پوری اور پاکستان میں قتیل شفائی، تنویر نقوی، سیف الدین سیف، حبیب جالب اور منیر نیازی وہ نام ہیں جنھوں نے غزل اور نظم کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی گیت نگاری کی۔

    نقش لائل پوری فلمی صنعت کے ایک ایسے نغمہ نگار ہیں جنھیں بہت جلد فراموش کر دیا گیا اور اکثر جب ہم ہندوستان اور پاکستان کے فلمی گیت نگاروں کا تذکرہ پڑھتے ہیں تو یہ نام کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ نقش لائل پوری 24 فروری 1928 ء کو لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں پیدا ہوئے اور علاقہ کی یہی نسبت اپنے نام سے جوڑے رکھی۔ ان کا اصلی نام جسونت رائے شرما تھا۔ ان کے والد مکینیکل انجینئر تھے اور چاہتے تھے ان کا بیٹا بھی انجینئر بنے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ وہ آٹھ برس کے تھے جب والدہ چل بسیں اور والد نے دوسری شادی کی تو باپ اور بیٹے کے تعلقات خراب ہو گئے۔ نقش لائل پوری لاہور آگئے، لیکن تقسیمِ ہند کے بعد وہ اور ان کا خاندان لکھنؤ ہجرت کر گیا۔ شاعری کا آغاز وہ کرچکے تھے اور اسی زمانے میں جسونت رائے شرما نے اپنا فلمی نام نقش لائل پوری رکھ لیا تھا۔ 1950ء میں گیت نگاری کے ارادے نقش نے ممبئی کا رخ کیا۔ یہاں وہ دی ٹائمز آف انڈیا میں‌ بطور پروف ریڈر کام کرنے لگے جس نے انھیں فلمی صنعت تک رسائی دی۔ اسی زمانے میں انھوں نے شادی کر لی۔ پھر ممبئی میں ان کی ملاقات ہدایت کار جگدیش سیٹھی سے ہوئی جنھوں نے نقش لائل پوری کو اپنی فلم ’’جگّو‘‘ کے نغمات لکھنے کا موقع دیا۔ نقش کے لکھے ہوئے تمام گیت مقبول ہوئے اور خاص طور پر یہ نغمہ ’’اگر تیری آنکھوں سے آنکھیں ملا دوں‘‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ 1970 ء تک نقش لائل پوری بولی وڈ میں اپنے قدم جمانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ اس کے بعد ان کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ ایک موقع پر موسیقار جے دیو نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ٹی وی سیریل کے لیے سونگ لکھیں اور اس میں‌ بھی نقش لائل پوری کام یاب ہوئے، انھوں نے پچاس ٹی وی ڈراموں کے گیت تحریر کیے۔ نقش لائل پوری نے ہندی کے علاوہ پنجابی فلموں‌ کے لیے بھی گیت نگاری کی۔

    نقش لائل پوری نے معروف فلم ساز اور ہدایت کار بی آر چوپڑا کی فلم ’’چیتنا‘‘ کے لیے بھی گیت تحریر کیے اور بہت سادہ زبان میں خوب صورت شاعری کی جو بہت پسند کی گئی۔

    فلمی گیت نگار کی حیثیت سے نقش لائل پوری نے چوروں کی بارات، چیتنا، سرکس کوئن، خاندان، درد، دل ناداں، تمہارے لیے، کاغذ کی ناؤ، دل کی راہیں اور کئی فلموں‌ کے لیے بہت خوب صورت شاعری کی۔

    ان کی وجہِ شہرت جو گیت بنے ان میں زیادہ تر ستّر کی دہائی کی فلموں‌ میں‌ شامل تھے۔ رسم الفت کو نبھائیں، الفت میں زمانے کی، پیار کا درد ہے، اور ریکارڈ مقبولیت حاصل کرنے والا گیت یہ ملاقات اک بہانہ ہے……..پیار کا سلسلہ پرانا ہے بھی اسی شاعر کی تخلیق ہے۔

    22 جنوری 2017 ء کو نقش لائل پوری چل بسے۔ ممبئی میں اپنے گھر پر وفات پانے والے نقش لائل پوری 88 سال کے تھے۔

  • اردو زبان و ادب کی شائق و شیدا جرمن مستشرق این میری شمل کا تذکرہ

    اردو زبان میں محفوظ علمی و ادبی سرمائے کو اپنے فہم اور علمی استعداد کی بنیاد پر دنیا کی کسی زبان میں منتقل کرنے اور شعر و ادب کی ترویج و ترقی میں کردار ادا کرنے والوں میں این میری شمل بھی شامل ہیں جو جرمن مستشرق تھیں۔

    اس جرمن اسکالر کو اردو زبان اور شعر و ادب سے لگاؤ کی وجہ سے پاکستان اور دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر این میری شمل نے کئی اردو ادبا اور شعرا کی تخلیقات کو جرمن زبان میں‌ منتقل کیا تھا۔ این میری شمل کے علاوہ بھی مشرقی علوم و فنون میں دل چسپی رکھنے والے کئی غیرملکی محققین نے بالخصوص ہندوستان میں اردو زبان سیکھنے کے بعد یہاں کے قدیم اور جدید ادب پر اپنی قابلیت اور علمی استعداد کے مطابق مقالے تحریر کیے اور مشاہیر کی کتابوں کا اپنے ملک کی زبان میں‌ ترجمہ کیا۔ این میری شمل نے بھی شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے علاوہ غالب اور کئی مشاہیرِ ادب کی تخلیقات پر علمی اور تحقیق کام کیا اور اس مقصد کے لیے پاکستان بھی آتی جاتی رہیں۔ آج اس جرمن مستشرق کا یومِ وفات ہے۔

    ڈاکٹر این میری شمل کا تعلق جرمنی سے تھا۔ وہ 1922ء میں پیدا ہوئیں۔ 19 سال کی عمر میں انھوں نے ‘مملوک خاندان کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام’ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ این میری شمل نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ وہ جرمن اور انگریزی زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔

    انھوں نے پاکستان کے ممتاز ادیب اور مؤرخ و محقق پیر علی محمد راشدی، پیر حسامُ الدّین راشدی، غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔

    وہ کئی کتابوں‌ کی مصنّف تھیں۔ مسلم ممالک کی تاریخ اور تہذیب سے لے کر شعر و سخن تک این میری شمل کی کاوشوں سے جرمن زبان میں‌ کئی کتابیں منتقل ہوئیں اور یہ کام ان کی لگن و محنت کا نتیجہ تھا‌۔ تاہم ان پر تنقید بھی جاتی ہے جس کی وجہ اہلِ زبان نہ ہونے کے سبب ان کی تحریروں میں‌ اغلاط یا کمی بیشی ہے، اس کے باوجود ان کے کام کو اہمیت دی گئی ہے۔ وہ پاکستان کی مقامی زبانوں‌ سے بھی خاصی واقف تھیں‌ جن میں‌ سندھی، پنجابی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں ان کی دل چسپی بہت زیادہ تھی اور انھوں نے مسلمان صوفی شعرا اور علما کی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔

    این میری شمل متعدد بار پاکستان آئیں جہاں ان کا وقت علمی و ادبی سرگرمیوں میں گزرا۔ وہ 1992ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر خود مسلمان اسکالروں نے بہت زیادہ نہیں لکھا تھا۔

    ڈاکٹر این میری شمل کی زندگی کا سفر 26 جنوری 2003ء کو تمام ہوگیا تھا۔ اردو زبان و ادب اور تاریخ سے متعلق کاوشوں کے اعتراف میں این میری شمل کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ پاکستان کے شہر لاہور میں ایک شاہ راہ بھی این میری شمل کے نام سے موسوم ہے۔