Tag: جنوری وفات

  • ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کی برسی

    علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے ماہر کی حیثیت سے احمد حسن دانی کا شمار عالمی شہرت یافتہ شخصیات میں ہوتا ہے۔ ایک دانش ور اور ماہرِ لسانیات کے طور پر بھی ان کا نام پاکستان میں‌ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس نابغۂ روزگار شخصیت کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    احمد حسن دانی 20 جون 1920ء کو کشمیر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اردو، عربی اور فارسی زبان سیکھنے کے ساتھ اپنی تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کیے تو والد کا تبادلہ ناگ پور ہوگیا۔ وہاں‌ اسکول میں ہندی اور سنسکرت بھی سیکھنے کا موقع ملا۔ اس نے ان کے اندر زباں فہمی کا شوق اور دل چسپی کو بڑھایا اور بعد میں احمد حسن دانی نے مرہٹی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ اسی خصوصیت کی بنا پر انھیں ماہرِ لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔ احمد حسن دانی کو تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے شعبے میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔

    پروفیسر احمد حسن دانی نے 1944ء میں گریجویشن کے بعد ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ان کی دل چسپی اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے انھیں محکمۂ آثارِ قدیمہ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کر دیا گیا۔ اس زمانے میں مشہور انگریز ماہر ٹیمر ویلر بنارس یونیورسٹی گئے تو وہاں ان کی ملاقات نوجوان احمد حسن دانی ہوئی جو ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔ انھوں نے اس انگریز ماہر کے زیرِ نگرانی ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کی کھدائی میں حصّہ لیا۔ اس کے بعد برٹش انڈیا کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیے گئے۔ حکومت نے ان کی دل چسپی اور کام میں مہارت کو دیکھتے ہوئے انھیں شہرۂ آفاق عمارت تاج محل میں تعینات کر دیا۔ تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل ہی میں پروفیسر دانی نے محسوس کر لیا تھا کہ آثارِ قدیمہ سے متعلق معلومات عوام تک پہنچانے کے لیے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950ء میں انھوں نے وریندر میوزیم راج شاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر نشانیاں دریافت کیں جو آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    برصغیر کی تقسیم ہوئی تو احمد حسن دانی پاکستان آگئے اور ان کی پہلی تقرری مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ 1948ء میں انھوں نے سر مور ٹیمر کے ساتھ مل کر ایک کتاب تصنیف کی: ’’پاکستان کے پانچ ہزار سال۔‘‘

    ڈاکٹر دانی 1947ء سے 1949ء تک محکمۂ آثارِ قدیمہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور بعد میں محکمے کے سپرنٹنڈنٹ انچارج بنائے گئے۔ انھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے میں تدریسی فرائض بھی سَر انجام دیے۔

    پھر جنرل محمد ایوب خان کے دور میں پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ آثارِ قدیمہ بنایا گیا تو اس کی سربراہی پروفیسر احمد حسن دانی کو دی گئی۔ اس حیثیت میں انھوں نے پشاور اور وادیٔ سوات میں اور دیگر علاقوں میں کھدائی کا کام کروایا اور یہاں سے نوادرات اور آثار برآمد کیے۔

    ڈاکٹر حسن دانی نے لاہور اور پشاور کے عجائب گھروں کو بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ وہ مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور 1980ء میں ریٹائر ہو گئے۔

    انھوں نے ساری عمر سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کئی مقامی زبانوں اور لہجوں پر عبور رکھتے تھے۔ 26 جنوری 2009ء کو ڈاکٹر حسن دانی اسلام آباد میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

    ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی ستائش کی تمنّا اور صلے کی پروا کے بغیر اپنے کام میں مگن رہے، ان کی تحقیقی و علمی مساعی کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ احمد حسن دانی کو ان کی اعلٰی خدمات کے صلے ميں حکومت پاکستان نے ستارۂ امتياز اور ہلالِ امتياز سے نوازا جب کہ اُن کے علم و بصیرت کا شہرہ مغربی دنیا میں ہوا تو امریکا، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ جرمنی اور اٹلی میں بھی انھیں اعلیٰ ترین تعلیمی، تدریسی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد حسن دانی کو آکسفورڈ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں رہتے ہوئے وہاں کام کرنے اور پڑھانے کی پیشکش کی گئی، لیکن وطن کی محبت میں انھوں نے انکار کردیا۔

    ان کی تصانیف پچاس سے زائد اور ان کے مضامین ان گنت ہیں جن میں ہسٹری آف ناردرن ایریاز آف پاکستان، رومانس آف دی خیبر پاس، چلاس: دی سٹی آف نانگا پربت، ٹھٹھہ: اسلامک آرکیٹکچر شامل ہیں۔ ڈاکٹر حسن دانی کئی کتابوں کے شریک مصنّف بھی رہے۔

  • ونسٹن چرچل: لاکھوں ہندوستانیوں کا ‘قاتل’ ایک مدبّر اور زیرک سیاست داں‌

    سَر ونسٹن چرچل کو دنیا ایک مدبّر اور زیرک سیاست داں تسلیم کرتی ہے۔ گیارہ برس تک برطانیہ کے وزیرِ اعظم رہنے والے چرچل عوام کے ہیرو بھی ہیں، لیکن برصغیر میں انھیں سخت متعصب اور لاکھوں انسانوں کی موت کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

    چرچل علم و فنون کے دلدادہ ہی نہیں‌ ایک مصنّف اور مصوّر بھی تھے۔ ان کی زندگی اور تخلیق و فن کے بارے میں‌ جاننے سے پہلے ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم خیرخواہ اور مصلح سر سیّد احمد خان کی وہ تحریر پڑھیے جس میں وہ تعصّب اور قوم پرستی کو بدترین قرار دیتے ہیں اور اسی تعصب نے ہندوستان میں‌ عوام کو بدترین حالات سے دوچار کیا تھا۔ سر سیّد احمد خان لکھتے ہیں:

    انسان کی خصلتوں میں سے تعصّب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصّب گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصّب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصّب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیوں کہ اس کا تعصّب اُس کے برخلاف بات سننے، سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچّی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔

    اگر بات کی جائے چرچل کے متعصّب ہونے کی تو ایک موقع پر اس نے کہا تھا کہ اسے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ اس نے نہ صرف یہاں کے لوگوں سے نفرت بلکہ ہندوستان کے مذاہب کے لیے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے باوجود اس زمانے کے نو آبادیاتی دور اور برطانوی حکومت کے بارے میں متضاد آرا پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مغربی مصنّفین ہی نہیں‌ اس وقت کے ہندو اور مسلمان بھی برطانوی حکومت سے متعلق مختلف جذبات اور خیالات رکھتے تھے۔

    کہا جاتا ہے کہ چرچل کی مدبّرانہ سوچ نے دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک بڑی مخالف طاقت جرمنی کی شکست میں اہم کردار ادا کیا اور بعض مصنّفین نے لکھا ہے کہ چرچل نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کی سیاسی اور جغرافیائی تاریخ کچھ مختلف ہوتی، لیکن اس کے باوجود ونسٹن چرچل کی شخصیت متنازع بھی ہے۔

    برطانوی راج میں طوفان اور سیلاب کے ساتھ بنگال میں شدید قحط سے اموات اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام میں چرچل کا کردار بھی موضوعِ بحث رہا ہے۔

    بنگال میں قحط سے ہلاکتوں اور لاکھوں انسانوں کے متاثر ہونے کا زمانہ وہی ہے جب برطانیہ میں ونسٹن چرچل پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوا۔ نوآبادیات پر متعدد برطانوی اور ہندوستانی تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ اعلیٰ افسران نے اپنی حکومت کو تحریری طور پر قحط کی تباہ کاریوں اور لاکھوں انسانی زندگیوں کو درپیش خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے خوراک اور دوسری امداد کی درخواست کی تھی، لیکن انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔

    ایک خیال یہ ہے کہ چرچل نے جان بوجھ کر لاکھوں ہندوستانیوں کو بھوکا مرنے دیا۔ یہ بات ہے 1942ء کی جب سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث بنگال میں قحط پڑ گیا تھا اور خوراک نہ ملنے سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے، اُس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم کا خیال تھا کہ مقامی سیاست دان بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کی بہتر مدد کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت کے اسی رویّے نے بدترین حالات پیدا کر دیے تھے۔ اسے امریکیوں کے استحصال کا ذمہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ چرچل میں برطانوی ہونے کے ناتے خود کو برتر خیال کرتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی دیگر اقوام اور ان کے مذاہب کے احترام سے بے نیاز تھا۔

    ونسٹن چرچل 30 نومبر 1874ء کو آکسفورڈ شائر میں پیدا ہوئے۔ کم و بیش دس سال برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والے چرچل نے 24 جنوری 1965ء کو لندن میں وفات پائی۔

    سیاست میں قدم رکھنے سے قبل چرچل نے ہندوستان کی شمال مغربی سرحد اور پھر جنوبی افریقہ میں سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ 1901ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کا رکن بنے اور بعد میں‌ خزانہ، داخلہ اور پھر وزارتِ عظمٰی کا منصب سنبھالا تھا۔

    چرچل برطانیہ میں کنزرویٹو اور لبرل پارٹی کا حصّہ رہے اور عملی سیاست کے ساتھ تصنیف و تالیف کا مشغلہ بھی اپنائے رکھا۔ چرچل متعدد کتب کے مصنّف تھے۔ یہی نہیں‌ بلکہ انھیں‌ ایک مصوّر کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے کئی فن پارے تخلیق کیے جن میں‌ چرچل کے ہاتھ کا ایک شاہ کار فن پارہ مسجدِ کتبیہ کا تھا جو مراکش کی مشہور جامع مسجد ہے۔ یہ مسجد 1184ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ پینٹنگ چرچل نے دوسری عالمی جنگ کے دوران سابق امریکی صدر روز ویلٹ کے لیے بنائی تھی۔ یہ فن پارہ امریکی اداکارہ انجیلینا جولی کی ملکیت تھا جو انھوں نے دو سال قبل ایک کروڑ 15 لاکھ ڈالر (ایک ارب 80 کروڑ روپے) میں نیلام کر دیا۔ چرچل کی یہ پینٹنگ ٹاور آف کتبیہ کے نام سے محفوظ ہے۔ اس میں‌ مسجد کے مینار اور ارد گرد کی منظر کشی کی گئی ہے۔

    کہتے ہیں‌ کہ اس مسجد کے ساتھ لگ بھگ دو ڈھائی سو کتابوں کی دکانیں موجود تھیں‌ جس کی وجہ سے اسے مسجدِ کتبیہ پکارا جانے لگا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس دور میں مراکش کے لوگ بھی علم و فنون کا شوق رکھتے تھے۔

    سر ونسٹن چرچل کو 1953ء میں ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔

  • کندن لال سہگل: پُرسوز آواز کے لیے مشہور گلوکار کا تذکرہ

    یہ ہندوستان کے بٹوارے سے کئی سال پہلے کی بات ہے جب فلمی صنعت کا مرکز کولکتہ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں کندن لال سہگل کی آواز میں فلمی گیت بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ شائقینِ سنیما نے انھیں بڑے پردے پر بہ طور اداکار بھی کام کرتے دیکھا اور سراہا۔

    فلمی دنیا میں سہگل نے اپنی دل سوز آواز کے سبب جلد اپنی پہچان بنا لی اور ان کے مداحوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ لوگ انھیں سننا پسند کرتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ موسیقی اور گلوکاری میں کوئی کندن لال سہگل کا استاد نہیں‌ رہا بلکہ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی۔

    انھیں فلمی صنعت میں کے ایل سہگل کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ گلوکار سہگل رندِ بلا نوش بھی تھے اور شراب نوشی کی لت نے انھیں زیادہ عرصہ جینے نہیں‌ دیا۔ سہگل 1947ء میں آج ہی کے دن جگر کے عارضے کے سبب دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے زندگی کی صرف 42 بہاریں ہی دیکھیں، لیکن ان کی آواز آج بھی زندہ ہے۔

    1904ء میں کندن لال سہگل جموں کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد امر چند سہگل تحصیل دار تھے اور مہاراجہ جموں و کشمیر کے ملازم تھے۔ والد کو اپنے بیٹے کے گانے کا شوق قطعاً پسند نہیں تھا، لیکن والدہ کیسر دیوی جو خود بھجن اور لوک گیت گایا کرتی تھیں، اپنے بیٹے کے شوق کو ہوا دیتی رہیں۔ ماں بیٹا اکثر گھنٹوں بیٹھ کر گیت گاتے اور مناجات پڑھتے۔ سہگل کی عمر دس سال تھی جب ایک تہوار کے موقع پر انھوں نے رام لیلا میں سیتا جی کا رول ادا کیا۔ برسوں بعد کندن لال سہگل کلکتہ کے نیو تھیٹر سے وابستہ ہوگئے اور خود کو "سیگل کشمیری” کے نام سے متعارف کروایا۔ انھوں نے اپنے کام کے بارے میں گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ تھیٹر میں اپنا نام بھی سہگل کے بجائے سیگل بتاتے تھے۔

    یہ 1938ء کی بات ہے جب سہگل نے جالندھر میں مقیم اپنی ماں کو رقم منی آرڈر کی۔ تب انھیں معلوم ہوا کہ بیٹا فن کار بن گیا ہے۔ بعد میں وہ کلکتہ اور بمبئی میں گلوکار کے طور پر مشہور ہوگئے اور انھیں ایک اداکار کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    کے۔ ایل۔ سہگل نے موسیقی کی تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی، لیکن جمّوں ہی کے صوفی پیر سلمان یوسف کے سامنے اکثر ریاض کرتے تھے۔

    کہتے ہیں سہگل نے وصیت کی تھی کہ ان کی ارتھی اٹھاتے ہوئے یہ گانا بجایا جائے جس کے بول تھے: جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے

    سہگل کی شادی آشا رانی سے ہوئی تھی جو ہماچل کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی باسی تھیں۔ ان کی زندگی کا ایک قصّہ مشہور ہے کہ سہگل صاحب کی نئی فلم چنڈی داس ریلیز ہوئی تو ان دنوں وہ نئے نئے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے تھے۔ ایک روز سہگل اپنی اہلیہ اور گھر والوں کے ساتھ فلم دیکھنے آئے۔ وہاں ان کے پرستاروں نے انھیں پہچان لیا اور لوگ ان سے ملنے آتے رہے۔ اس لیے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے۔

    اس فلم میں بطور اداکار سہگل صاحب کی شادی کا منظر بھی تھا۔ جب پردے پر یہ سین دکھایا جارہا تھا تو سہگل صاحب اپنی نشست پر موجود نہیں تھے اور ان کی بیوی کو یہ منظر حقیقی محسوس ہوا۔ سہگل صاحب بعد میں‌ آشا رانی کو مشکل سے یہ سمجھانے میں کام یاب ہوئے کہ وہ فلم تھی، اور اس کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں۔ اہلیہ کو یقین دلانے کی غرض سے وہ انھیں اسٹوڈیو بھی لے گئے جہاں‌ اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ سہگل صاحب کی نواسی پرمندر چوپڑا کی زبانی مشہور ہوا۔ انھیں یہ بات آشا رانی نے بتائی تھی جو ان کی نانی اور سہگل صاحب کی بیوی تھیں۔

    کندن لال سہگل نے کلکتہ میں ٹائپ رائٹر بنانے والی کمپنی میں سیلز مین کی نوکری بھی کی تھی۔ اسی زمانے میں ان کی ملاقات نیو تھیٹر کے بانی بی۔ این۔ سرکار سے ہوئی اور انھوں نے سہگل کی آواز کو بہت پسند کیا۔ بعد میں انھیں نیو تھیٹر کے ساتھ بطور گلوکار وابستہ ہونے کی پیشکش کی اور وہ اچھے معاوضے پر ان کے ساتھ کام کرنے لگے۔

    نیو تھیٹر میں منجھے ہوئے فن کاروں اور موسیقاروں نے سہگل کے فن کو نکھارنے میں مدد دی۔ انہی موسیقاروں کی بنائی ہوئی دھنوں پر سہگل نے وہ نغمے گائے جو ہندوستان بھر میں‌ ان کی پہچان بنے۔ ان میں‌ فلم دیو داس کا یہ نغمہ ’دکھ کے دن اب بیتت ناہی، اور ’بالم آئے بسو میرے من میں یا فلم اسٹریٹ سنگر کا یہ گیت ’بابل مورا نہیئر چھوٹل جائے شامل ہیں۔

    نیو تھیٹر کی فلموں کے لیے انھوں نے اداکاری بھی کی اور رفتہ رفتہ شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔ انھوں نے اس زمانے کی مشہور بنگالی فلم دیو داس میں ایک معمولی کردار ادا کیا تھا اور گانے بھی گائے تھے، لیکن جب یہی فلم ہندی میں بنائی گئی تو کندن لال سہگل نے دیو داس کا مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد میں وہ بمبئی چلے گئے اور رنجیت اسٹودیو سے وابستہ ہوئے جہاں متعدد کام یاب فلمیں ان کے حصّے میں‌ آئیں۔

    سہگل نے فلمی نغموں کے علاوہ غزلیں بھی گائیں۔ انھیں غالب سے والہانہ شغف تھا اور غالب کو بہت دل سے گایا۔ سہگل کی آخری فلم پروانہ تھی جو 1947ء میں غالباً ان کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔

    ہندوستانی فلمی صنعت کے اس مشہور گلوکار نے جالندھر میں‌ اپنا سفرِ زیست تمام کیا۔

  • غلام ربانی آگرو:‌ افسانہ نگار، محقق اور ادبی اداروں کے معمار

    غلام ربانی آگرو سندھی اور اردو زبان کے معروف ادیب، افسانہ نگار اور محقق تھے جنھوں نے کئی ادبی اداروں کے لیے خدمات انجام دیں اور تصنیف و تالیف میں بھی مشغول رہے۔

    آج غلام ربانی آگرہ کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی کے علاوہ سیکریٹری سندھی ادبی بورڈ، ڈائریکٹر جنرل اکادمی ادبیات پاکستان اور ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی حیثیت سے بھی کئی برس تک کام کیا۔ وہ ادب اور ادبی اداروں کے لیے اپنی علمی کاوشوں اور خدمات کے لیے مشہور رہے ہیں۔ غلام ربانی آگرو کے ادبی سفر کا آغاز پاکستان بننے کے بعد 1955ء میں افسانہ نگاری سے ہوا۔ سندھی زبان میں ان کی کہانیاں اور افسانے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیسویں صدی میں سندھ کی تہذیب اور روایات کے ساتھ یہاں کا ماحول کیسا تھا۔ انھوں نے سندھ کے دیہات سے تعلق رکھنے والے عام لوگوں کو اپنے افسانوں اور کہانیوں‌ میں پیش کیا۔ ان کی یہ کہانیاں انگریزی، جرمن، چینی، ہندی اور روسی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں اور ان افسانوں کا مجموعہ ’’آبِ حیات‘‘ کے عنوان سے 1960ء میں شائع ہوا۔

    بحیثیت ایڈیٹر ’’سہ ماہی مہران‘‘ اور بچوں کے ماہنامے ’’گل پُھل‘‘ کے لیے کام کرنے کے ساتھ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی رہے جن میں ’’جھڑاگل گلاب جا‘‘، ’’سندھ جابر بحر پہاڑ‘‘، ماڑھوں شہر بھنبھور جا‘‘، ’’سندھی ادب تی ترقی پسند تحریک جو اثر‘‘، ’’خط غبار‘‘ (خطوط کا مجموعہ)، ’’بھارت میں اردو: ایک جائزہ‘‘، ’’سندھ میں پکھین جو شکار‘‘ شامل ہیں۔

    غلام ربانی آگرو 5 نومبر 1933ء کو سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کے گاؤں محمد خان آگرو میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد، سندھ میں مکمل کی اور پھر کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔

    18 جنوری 2010ء کو غلام ربانی آگرو حیدرآباد میں‌ وفات پاگئے۔

  • اردو تنقید کو مغربی دانش سے روشناس کرانے والے محمد حسن عسکری کا تذکرہ

    اردو تنقید نگاری میں محمد حسن عسکری صاحب کی حیثیت ایک معمار کی ہے جن کی تحریریں غیرمعمولی اور منفرد ہیں۔ افسانہ نگاری اور تراجم کے علاوہ وہ اسلامی ادب کی نظریہ سازی میں بھی مشغول رہے۔ یہ ان کی زندگی کے آخری برسوں کی بات ہے۔ آج اردو زبان کے صفِ‌ اوّل کے اس نقّاد کی برسی ہے۔

    اردو زبان و ادب نے محمد حسن عسکری کی فکر اور تنقید کی بدولت کئی محاذ سَر کیے جس نے ان کے ہم عصروں کو بھی متأثر کیا۔ ان کا شمار ایسے بلند پایہ نقّادوں‌ میں ہوتا ہے جنھوں نے جدید مغربی رجحانات کو اردو داں طبقے میں متعارف کرایا اور ادب کا دامن وسیع کیا۔

    محمد حسن عسکری انگریزی ادب کے استاد بھی تھے۔ وہ درویش صفت اور سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے جس سے متعلق ایک واقعہ ممتاز ادیب اور نقّاد سجاد باقر رضوی کی زبانی پڑھیے:

    ’’عسکری صاحب کو کئی بار کالج کی پرنسپلی کی پیش کش ہوئی، مگر وہ ہمیشہ انکار کر دیتے۔ کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے، پرنسپل صاحب چھٹّی پر گئے تو انہیں بہ جبر و اکراہ چند دنوں کے لیے پرنسپل کا کام کرنا پڑا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ پرنسپل کی کرسی پر نہیں بیٹھتے۔ ساتھ کے صوفے پر بیٹھ کر کاغذات نمٹاتے ہیں۔

    ایک صاحب سے نہ رہا گیا، پوچھا: ”عسکری صاحب! آپ کرسی پر کیوں نہیں بیٹھتے؟“

    یار پھسلتی ہے۔“ عسکری صاحب نے کرسی کی مختصر مگر جامع تعریف کی۔‘‘

    محمد حسن عسکری 18 جنوری 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آئے تھے اور کچھ عرصہ لاہور میں گزارنے کے بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے استاد مقرر ہوئے اور تدریس کا یہ سلسلہ تاعمر جاری رہا۔ انھوں نے تدریس کے ساتھ اردو اور انگریزی زبان میں کئی مضامین سپردِ قلم کیے جو تنقید کے میدان میں اردو کا بڑا سرمایہ ہیں۔

    ان کا تعلق الٰہ آباد سے تھا جہاں وہ 5 نومبر 1919ء کو پیدا ہوئے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی سند لی۔ یہاں حسن عسکری صاحب کو فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرّار حسین جیسے بلند پایہ تخلیق کاروں اور اساتذہ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا جس نے حسن عسکری کی فکری راہ نمائی کی اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید نکھرنے کا موقع ملا۔

    بطور ادبی تخلیق کار انھوں نے ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر دراصل انگریزی زبان سے ترجمہ کی گئی تھی۔ یہ 1939ء کی بات ہے۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر انھوں نے اپنے دو طویل مضامین شایع کروائے۔ 1943ء میں انھوں نے بعنوان جھلکیاں کالم لکھنے کا آغاز کردیا۔

    محمد حسن عسکری نے ادبی تنقید لکھنے کے ساتھ افسانہ نگاری بھی کی۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    انگریزی زبان و ادب پر محمد حسن عسکری کی گہری نظر تھی اور ان کا مطالعہ بھی خوب تھا جس نے انھیں تنقید کے میدان میں خوب فائدہ پہنچایا۔ انھوں نے کئی عالمی شہرت یافتہ ادیبوں کی تخلیقات انگریزی زبان میں پڑھی تھیں اور ان کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا جو زبان و بیان پر ان کی گرفت کا ثبوت ہیں۔ فرانسیسی ادب کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنے مضامین میں فرانسیسی ادبیات سے استفادہ کرنے پر بھی اصرار کیا۔

    ’’وقت کی راگنی‘‘ ان کی وہ کتاب تھی جس نے بتایا کہ محمد حسن عسکری بنیادی طور پر شعریات کے احاطے میں داخل ہو کر نئے نکات پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی کتاب کے کئی مضامین ہمیں مغربی ادب کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں‌ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیرملکی ادیبوں کے اسلوب اور ان کی رمزیات پر محمد حسن عسکری کی گہری نظر تھی۔ ان مضامین میں ’’جنگِ عظیم دوم کے بعد برطانوی ادب‘‘، ’’جوئیس کا طرزِ تحریر‘‘، ’’فرانس کے ادبی حلقوں کی دو بحثیں‘‘، ’’یورپ کے چند ذہنی رجحانات‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

    محمد حسن عسکری زندگی کے آخری برسوں میں اسلامی شعور اور اس کے زیرِ اثر مباحث اور فکر کا اظہار کرنے لگے تھے اور اپنی تحریروں میں انھوں نے جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ کئی مغربی تصورات نے دین کے سلسلے میں بہت سی کئی گمراہیاں پیدا کی ہیں۔

    اردو کے اس نام وَر نقاد کو دارالعلوم کورنگی، کراچی کے احاطہ میں موجود شہرِ خموشاں میں لحد نصیب ہوئی۔

  • محسن بھوپالی: اردو کے مقبول شاعر اور ’’نظمانے‘‘ کے موجد

    محسن بھوپالی اردو کے اُن شعراء میں سے تھے جنھوں نے خود کو رائج اصنافِ سخن میں طبع آزمائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے تخلیقی جوہر اور کمالِ‌ فن نے کوچۂ سخن کی رونق میں ’’نظمانے‘‘ کی صورت خوب صورت اضافہ بھی کیا۔ آج محسن بھوپالی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس مقبول شاعر نے غزل جیسی معتبر اور معروفِ عام صنفِ سخن کو اپنی فکر اور ندرتِ خیال کے ساتھ اس طرح سجایا کہ ہم عصر شعرا سے بھی داد پائی اور نقّادوں نے بھی ان کے فن کو سراہا۔ محسنؔ بھوپالی کی شاعری نے علمی و ادبی حلقوں کی پذیرائی اور ہر سطح پر باذوق قارئین سے قبولیت کی سند پائی۔ 17 جنوری 2007ء کو محسن بھوپالی نے اس دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔

    محسنؔ بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ انھوں نے 1932ء میں بھوپال کے قریب واقع ہوشنگ آباد کے ایک قصبے سہاگپور میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی ملازمت کا سلسلہ 1993ء تک جاری رہا۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    ملازمت اور حصولِ تعلیم کے دوران محسن بھوپالی کا ادب اور شاعری سے تعلق مضبوط تر ہوتا رہا اور ان کی شاعری مختلف اخبارات، ادبی رسائل کی زینت بنتی رہیں۔ انھیں علمی و ادبی حلقوں میں پہچان ملی تو کراچی اور ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں میں شرکت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور وہ عوام میں بطور شاعر مشہور ہوگئے۔ محسن بھوپالی نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کے مجموعہ ہائے کلام شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت کے عنوان سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتابوں میں قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    یہ منفرد اعزاز بھی محسنؔ بھوپالی کو حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے کی تھی اور یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریبِ رونمائی تھی جس کے دعوت نامے بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    کئی مشہور اور زباں زدِ عام اشعار کے خالق محسنؔ بھوپالی کا یہ قطعہ بھی ان کی پہچان بنا۔

    تلقینِ صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو میں ’’نظمانہ‘‘ وہ صنفِ سخن ہے جس کے موجد محسنؔ بھوپالی نے افسانہ نگاری بھی کی تھی۔ انھوں نے آزاد نظم کی ہیئت میں ایک تجربہ کیا اور اپنی ایجاد کو تخلیقی وفور کے ساتھ وجود بخشا جو اخبارات اور رسائل و جرائد میں ’’نظمانے‘‘ کے طور پر شایع ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ’’نظمانے‘‘ کو ہم افسانے کی منظوم اور مختصر شکل کہہ سکتے ہیں۔

    محسن بھوپالی کی شاعری ان کی فکر و دانش اور وسیع مطالعہ کے ساتھ معاشرے کے مختلف طبقات پر ان کی گہری نظر اور قوّتِ مشاہدہ کا عکس ہے۔

    انھوں نے معاشرتی موضوعات کے ساتھ سیاسی حالات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کی مثال ان کا یہ قطعہ بھی ہے۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    محسن بھوپالی نے جاپانی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کا اسلوب منفرد اور کلام شستہ و رواں ہے۔ محسن بھوپالی کی شاعری انسانی جذبات و احساست کے ساتھ اُن مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے جس سے عام آدمی کی طرح ایک شاعر بھی متأثر ہوتا ہے۔

    کراچی میں وفات پانے والے محسن بھوپالی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • لیوس کیرول: ایک مقبول ناول نگار جو ماہرِ ریاضی بھی تھا

    لیوس کیرول کا بچّوں‌ کے لیے تخلیق کردہ محیّرالعقول اور دل چسپ واقعات پر مبنی ناول بعنوان ’ایلس ان ونڈر لینڈ‘ (Alice’s Adventures in Wonderland) 1865ء میں شایع ہوا تھا۔ یہ کہانی کتابی شکل میں اپنے قارئین اور بعد میں‌ فلمی پردے پر شائقینِ سنیما میں بھی مقبول ہوئی۔

    اس ناول کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے آج بھی بچّے ہی نہیں بڑے بھی نہایت شوق سے پڑھتے ہیں جب کہ اس کی اشاعت کو ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اِس مدّت میں ایلس ان ونڈر لینڈ پر مبنی کئی ڈرامے اور فلمیں اسکرین کی زینت بنیں۔ ناول کے مصنّف لیوس کیرول نے 14 جنوری 1898ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    لیوس کیرول کا اصل نام چارلس ڈاج سن تھا۔ لیکن وہ اپنے قلمی نام سے پہچانے گئے۔ لیوس کیرول کا تعلق برطانیہ سے تھا جہاں انھوں نے 27 جنوری 1832ء کو آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے وہ اساتذہ میں ذہین طالبِ علم کی حیثیت سے پہچانے گئے۔ ان کی دل چسپی کا مضمون ریاضی تھا اور وہ اس کے ماہر بنے۔ بعدازاں آکسفورڈ میں‌ ریاضی کے استاد مقرر ہوئے۔ انھوں نے اپنے علمی ذوق و شوق اور تحقیق و اختراع سے کام لے کر ریاضی اور سائنس کے متعدد بنیادی اصول اور قاعدے سکھانے کے طریقے بھی ایجاد کیے۔ وہ علم و فنون کے بھی دلدادہ تھے اور اسی شوق نے انھیں لکھنے کی جانب مائل کیا۔

    لیوس کیرول نے شارٹ اسٹوریز لکھیں اور شاعری بھی کی جب کہ مذکورہ ناول نے انھیں دنیا بھر میں شہرت دی۔ وہ فوٹو گرافی اور مصوّری کا بھی شوق رکھتے تھے اور ایک آرٹسٹ کی حیثیت سے یہ ہنر بھی آزمایا۔

    لیوس کیرول نے نوعمری میں شارٹ اسٹوریز لکھنا شروع کیں اور ساتھ ہی نظمیں‌ بھی کہنے لگے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات مقامی جرائد کو بھیجیں تو مدیران نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور کہانیاں شایع ہونے لگیں۔ 1854ء سے 1856ء کے دوران مصنّف کی حیثیت سے ان کی تحریروں کو قومی سطح کے اخبارات اور رسائل میں جگہ ملی۔ لیوس کیرول اپنی تخلیقات میں طنز اور مزاح کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

    مصنّف کے مشہور ناول ایلس ان ونڈرلینڈ کو نقاد حیران کن ادبی شہ پارہ تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو قاری کو حیران کن دنیا میں لے جاتی ہے۔ اس میں‌ ایک معصوم لڑکی خرگوش کے بِل میں گر جاتی ہے، اور پھر وہ ایک انوکھی دنیا میں پہنچ جاتی ہے جہاں‌ اسے عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ناول کی خوبی یہ ہے کہ اسے پڑھتے پڑھتے قاری بھی ایک بہت مختلف دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ اپنے ناول کی اوّلین اشاعت میں کیرول نے اپنے ہی تیّار کردہ تصویری خاکے شامل کیے تھے۔

  • معروف فیچر نگار ریاض بٹالوی کا تذکرہ

    کوچۂ صحافت میں ریاض بٹالوی اپنی مستند، جامع اور معلومات افزا تحریروں کے سبب پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ان صحافیوں میں‌ سے تھے جنھوں نے فیچر نگاری میں زورِ قلم دکھایا اور منفرد پہچان بنائی۔ ریاض بٹالوی 2003ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

    ایک زمانہ تھا جب اخبارات اور رسائل کثیر تعداد میں شایع ہوتے تھے اور انھیں وہ قارئین میسر تھے جو باخبر رہنے کے ساتھ اپنے ذوق و شوق اور دل چسپی کی تحریریں پڑھنا پسند کرتے تھے۔ اخبارات کے رنگین صفحات یا میگزین میں فیچر اور تفصیلی رپورٹیں شایع ہوتی تھیں‌ جن کو بڑی توجہ اور شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ فیچر نگاری صحافتی تحریروں کی اہم اور توانا قسم تھی اور اسے تخلیقی صحافت مانا جاتا تھا۔ ریاض بٹالوی اسی میدان میں معروف ہوئے۔

    ریاض بٹالوی نے اپنے فنِ تحریر میں مہارت سے کام لے کر کئی فیچر اور خصوصی مضامین قارئین کو دیے جس کے لیے ان کا علم، وسیع مشاہدہ اور تجربہ و تحقیق بھی قابلِ ذکر ہے۔انھوں نے ادبی پیرائے میں معیاری فیچر قارئین کے سامنے پیش کیے جو بہت مقبول ہوئے۔

    اردو صحافت میں ریاض بٹالوی کا سفر کئی دہائیوں تک جاری رہا اور علم و تحقیق پر مبنی ان کے خصوصی مضامین بالخصوص مشرق کی زینت بنے جو اپنے زمانے کا ایک مشہور روزنامہ تھا۔ ریاض بٹالوی کا تعلق متحدہ پنجاب کے ضلع گورداسپور سے تھا۔ وہ قصبہ بٹالہ میں 5 فروری 1937ء کو پیدا ہوئے، ان کا نام ریاضُ الحسن رکھا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ان کا خاندان ہجرت کر کے گجرات آ بسا تھا۔

    انھوں نے زندگی میں کئی مشکلات کا سامنا کیا اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کے لیے تگ و دو شروع کر دی۔ مقامی سطح پر صحافت سے وابستہ ہوئے لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔ بعد میں گجرات سے نکلنے والے مختلف علاقائی اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا، اور پھر انھوں نے تخلیقی سفر کا آغاز کرتے ہوئے افسانے تحریر کیے۔ اس کے ساتھ ریاض بٹالوی نے صحافت کو مستقل پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا اور راولپنڈی چلے گئے جہاں اس دور کے معروف صحافی اور تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کے ”کوہستان“ سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔ یہاں انھوں نے کام کیا اور سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا، لیکن 1963ء میں لاہور سے ”روزنامہ مشرق“ کا آغاز ہوا تو ریاض بٹالوی اس اخبار سے وابستہ ہوگئے۔

    ریاض بٹالوی نے ایّوب خان کے دور میں فیچر نگاری کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں افسانوی انداز اپنایا جسے بہت پذیرائی ملی۔ ان کی مقبولیت بڑھتی گئی اور اخبارات میں ریاض بٹالوی کی تحریروں کو نمایاں کرکے شایع کیا جانے لگا۔ اردو صحافت میں فیچر نگاری کو ریاض بٹالوی کی بدولت ایک نئی فضا میں پرواز کرنے کا موقع ملا۔ ریاض بٹالوی اپنے ساتھیوں سے موضوعات پر مشاورت کرتے اور مدیرِاعلیٰ کی منظوری کے بعد اس کے لیے مواد اکٹھا کرنے نکل جاتے، اس کے لیے وہ فیچر نگار کی حیثیت سے لوگوں سے ملتے، مختلف مقامات پر جاتے اور جو حقائق اور معلومات اکٹھی کرتے انھیں افسانوی انداز میں‌ سپردِ قلم کر دیتے۔ ریاض بٹالوی کا باتصویر فیچر اخبارات میں نمایاں‌ جگہ پاتا۔ انھوں نے سلگتے ہوئے مسائل اور حساس موضوعات پر بڑی محنت اور لگن سے کام کیا اور اپنے فیچر منفرد اسلوب میں قارئین تک پہنچائے۔ یہ فیچر باقاعدگی سے ”ایک حقیقت، ایک افسانہ“ کے عنوان سے شایع ہوتے تھے۔

    پاکستان کے اس نام ور صحافی اور مقبول فیچر نگار کو حکومتِ پاکستان نے 1986ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ مشرق کے علاوہ ریاض بٹالوی نے کئی اخبارات کے لیے کالم اور فیچر لکھے۔ تاہم رونامہ مشرق کے ساتھ ان کا تعلق تیس سال سے زائد عرصہ تک رہا۔

    ریاض بٹالوی کو لاہور میں میکلوڈ روڈ کے مومن پورہ قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری کی برسی

    یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے بعد ریڈیو سے قیامِ پاکستان کا جو اعلان نشر ہوا تھا، وہ کس کا لکھا ہوا تھا۔ یہ حفیظ ہوشیار پوری تھے۔

    محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
    تری محفل میں‌ لیکن ہم نہ ہوں گے

    حفیظ ہوشیار پوری کی یہ مشہور غزل مہدی حسن کی آواز میں‌ کئی دہائیوں سے مقبول ہے۔ آج بھی باذوق اور موسیقی کے رسیا اس کلام کو بہت ذوق و شوق سے سنتے ہیں۔ 10 جنوری 1973ء کو اردو کے ممتاز شاعر حفیظ ہوشیار پوری انتقال کرگئے تھے۔

    حفیظ ہوشیار پوری کا اصل نام شیخ عبدالحفیظ سلیم تھا۔ وہ 5 جنوری 1912ء کو دیوان پورہ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے تھے، مگر اپنے آبائی وطن ہوشیار پور کی نسبت سے حفیظ ہوشیار پوری کہلائے۔ تقسیم کے بعد لاہور اور پھر کراچی آگئے تھے

    میٹرک، اسلامیہ ہائی اسکول، ہوشیار پور کیا اور 1933ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں بی اے اور اگلے ہی تعلیمی سال میں ایم کیا، اس کے بعد حفیظ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے تھے۔ یہی نوکری قیامِ پاکستان کے بعد جاری رہی اور وہ ریڈیو پاکستان کے لیے علمی و ادبی مشاغل میں مصروف رہے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے اپنی شاعری کا آغاز کیا تو ابتدا میں نظمیں بھی لکھیں اور منظوم تراجم بھی کیے، مگر ان کی شناخت ان کی غزل گوئی اور تاریخ گوئی بنی۔ حفیظ ہوشیار پوری کا مجموعۂ کلام ’’مقام غزل‘‘ کے عنوان سے ان کی وفات کے بعد شائع ہوا تھا۔ حفیظؔ دس گیارہ برس کی عمرسے ہی اردو اور فارسی میں شعر کہنے لگے تھے اور انھوں نے تاریخ گوئی میں اپنی شناخت قائم کر لی تھی۔

    حفیظؔ فلسفہ کے طالب علم رہے اور یہی وجہ ہے کہ شاعری میں فلسفیانہ مسائل سے دامن نہیں بچا سکے لیکن ان کی غزل، فلسفیانہ موشگافیوں کا چیستاں نہیں۔ ان کے ہاں‌ جو فلسفیانہ خیالات ملتے ہیں وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اسے بیزار نہیں کرتے۔ حفیظؔ کی غزل اسلوبی لحاظ سے بھی روایتی غزل سے منسلک ہے۔ انھوں نے کلاسیکی انداز سے کبھی صرفِ نظرنہ کیا۔ آسان زبان، سلاست و روانی، مشکل ثقیل و کرخت الفاظ سے گریز نے ان کی غزل کو عام فہم بنا دیا ہے۔

    طویل عرصہ علیل رہنے والے حفیظ ہوشیار پوری کو ان کی وفات کے بعد کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کے لوحِ مزار پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے۔

    سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہوگئے
    بارِ امانتِ غم ہستی اتار کے

  • اوم پوری: وہ اداکار جو غربت کے خلاف اعلانِ جنگ چاہتا تھا!

    اوم پوری بالی وڈ کے ان اداکاروں‌ میں سے تھے جنھیں مشکل کردار ادا کرنے کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے زیادہ تر آرٹ فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ شائقینِ‌ سنیما نے انھیں‌ سنجیدہ اور مزاحیہ کرداروں‌ میں ہمیشہ پسند کیا اور ان کی اداکاری کو سراہا۔ اوم پوری 2017ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    66 سال کی عمر میں‌ وفات پانے والے اوم پوری کی موت کے بعد شبہ ظاہر کیا گیا کہ ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔ اوم پوری کے سَر پر چوٹ کے نشان تھے، جب کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے واقع ہوئی تھی۔

    اوم پوری نے آکروش، گپت، جانے بھی دو یارو، چاچی 420، مالا مال ویکلی جیسی فلموں میں‌ شان دار پر اداکاری کی۔ بڑے پردے پر ان کی آخری فلم ‘گھایل ریٹرنز’ تھی۔

    بولی وڈ میں‌ اوم پوری ہر فن مولا مشہور تھے۔ انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز مراٹھی فلم ‘گھاسی رام کوتوال’ سے کیا تھا۔ یہ فلم سنہ 1976ء میں شائقین کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    اوم پوری نے فلم آرٹ کی باقاعدہ تعلیم ‘فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا’ سے حاصل کی تھی۔ ماقبل انھوں نے دہلی کے ‘نیشنل اسکول آف ڈراما’ سے اداکاری کی تربیت لی تھی۔

    وہ بولی وڈ کے ان فن کاروں‌ میں‌ شامل تھے جنھیں‌ پاکستان آنے کا بھی موقع ملا اور یہاں‌ انھوں‌ نے فلموں‌ میں‌ کام کیا۔ اوم پوری کا شمار ان اداکاروں میں ہوتا ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔ وہ کہتے تھے کہ دونوں ممالک کو غربت کے خلاف جنگ لڑنا چاہیے۔

    اوم پوری 18 اکتوبر 1950ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن انتہائی غربت اور مشکلات سے لڑتے ہوئے گزرا۔ انھوں‌ نے محض چھے سال کی عمر میں‌ ایک چائے والے کے پاس کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح‌ چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے وہ زندگی کی گاڑی کھینچتے رہے اور بڑے ہوگئے۔ اوم پوری کو اسی زمانہ میں‌ ایک وکیل کے یہاں بطور منشی کام مل گیا، لیکن اس وقت تک وہ اسٹیج اور اداکاری کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔ ایک مرتبہ وہ ڈرامہ میں حصّہ لینے کی وجہ سے وکیل کے دفتر نہیں‌ جاسکے اور یوں نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن کسی طرح ایک کالج میں ڈراموں میں حصّہ لیتے رہے۔ یہیں ان کی ملاقات ہرپال اور نینا توانا سے ہوئی جن کے طفیل انھوں نے پنجاب اسٹیج تھیٹر تک رسائی حاصل کی۔

    اوم پوری نے مقامی تھیٹر پر چھوٹے موٹے کردار نبھانے سے اپنا جو سفر شروع کیا تھا، وہ 1976ء میں انھیں مقامی فلم انڈسٹری تک لے گیا۔ پہلی فلم میں اوم پوری نے مرکزی کردار نبھایا۔ یہ مراٹھی ڈرامہ پر بنائی گئی تھی جس میں وہ گھاسی رام کے مرکزی کردار میں کام یاب رہے۔ اس کے بعد بھوک، شاید اور چند دوسری آرٹ فلموں میں اداکاری کی، لیکن خاص توجہ نہ حاصل کرسکے۔ سال 1980ء میں فلم’ آکروش‘ ان کے کیریئر پہلی ہٹ فلم تھی۔ اس میں اوم پوری نے ایک ایسے شخص کا کردار نبھایا تھا جس پر بیوی کے قتل کا الزام لگایا جاتا ہے۔ وہ اپنی پُراثر اداکاری اور بہترین ڈائیلاگ ڈیلیوری کی وجہ سے بہت پسند کیے گئے اور اس پر بہترین معاون اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔ اوم پوری نے پاکستانی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے پاکستانی فلم ‘ایکٹر ان لا’ میں فہد مصطفیٰ کے والد کا کردار ادا کیا تھا۔ آنجہانی اوم پوری نے برطانوی اور ہالی وڈ فلموں میں بھی کام کیا۔