Tag: جنوری وفات

  • عبدالماجد دریا بادی: صاحبِ‌ طرز ادیب، جیّد صحافی اور مفسّرِ قرآن کا تذکرہ

    عبدالماجد دریا بادی بیسویں صدی کے بے مثل ادیب صحافی اور مفسرِ قرآن تھے جو اپنے اسلوبِ نگارش کے سبب بھی ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے۔ ان کی تصانیف اردو زبان و ادب اور برصغیر میں تہذیب و ثقافت کا بڑا سرمایہ ہیں۔ آج اس ادیب اور صحافی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس نام ور ادیب اور صحافی کا پسندیدہ موضوع فلسفہ اور تاریخ رہا ہے۔ انہوں نے فلسفے سے متعلق کتابوں کے ترجمے بھی کیے اور خود بھی کتابیں لکھیں۔ ان کے اسلوب نگارش کو بھی قدرومنزلت کی نظر سے دیکھا گیا۔

    بدقسمتی سے ہماری نئی نسل ان شخصیات کے نام اور کام سے ناواقف ہے جنھوں‌ نے اپنی زندگی کے کئی سال فکر و اصلاحِ معاشرہ اور اردو زبان کو نکھارنے کے لیے قلم کی مزدوری کی۔ عبدالماجد دریا بادی نے اپنی تحریر اور تقریر، اپنے قول و عمل سے دین و ملّت کو فائدہ پہنچانے کے لیے بھی خوب کام کیا جس کے لیے انھیں‌ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    عبدالماجد دریا بادی 1892ء میں ضلع بارہ بنکی کے علاقے کے مشہور قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا مفتی تھے جنھوں نے اس دور میں‌ انگریز سرکار کے خلاف فتویٰ پر دستخط کیے تھے اور اس جرم میں انھیں حوالۂ زنداں کیا گیا تھا۔ عبدالماجد دریا بادی نے اردو، فارسی اور عربی گھر پر ہی سیکھی۔ پھر سیتا پور کے ایک اسکول میں داخلہ لیا اور میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے لکھنؤ گئے اور بی۔ اے کی سند حاصل کی۔ ان کے والڈ ڈپٹی کلکٹر تھے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ماحول سازگار تھا۔ والد کے انتقال کے بعد معاش کی خاطر حیدر آباد دکن چلے گئے تھے۔ وہیں انھوں‌ نے مشہور کتاب ’’فلسفۂ جذبات لکھ کر علمی و ادبی حلقوں‌ میں‌ اپنی پہچان بنائی۔ اس وقت تک اردو میں فلسفے کے موضوع پر بہت کم لکھا گیا تھا۔ مولانا نے اسے اپنا موضوع بنایا اور طبع زاد تحریروں کے علاوہ بعض اہم کتابوں کے تراجم بھی انھوں نے کیے۔ مکالماتِ برکلے کو عبدالماجد دریا بادی کا اہم کارنامہ کہا جاتا ہے۔

    مولانا کے گھر کا ماحول مذہبی تھا اور والد کی نظر میں‌ علم و ادب کی بڑی اہمیت تھی۔ اسی فضا میں عبد الماجد دریا بادی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے سنِ شعور کو پہنچے۔ تعلیم و تربیت اور مطالعہ کے باعث وہ نوعمری میں لکھنے لکھانے کے علاوہ اس قابل ہوچکے تھے کہ کسی مسئلہ اور معاملے میں اپنی فکر اور رائے قائم کرتے اور اس کا خوبی سے اظہار بھی کرتے تھے۔ کئی تنظیموں سے وابستہ ہوئے اور اپنے اساتذہ و حلقۂ ہائے احباب سے نظریاتی اور فکری راہ نمائی حاصل کرتے ہوئے جیّد شخصیات میں‌ اپنا شمار کروایا۔ وہ اس وقت کے سیاسی اور سماجی حالات میں جنم لینے والی تحاریک اور کئی انجمنوں تلے متحرک رہے۔ تحریکِ خلافت، رائل ایشیاٹک سوسائٹی، لندن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ندوۃُ العلماء، لکھنؤ، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ جیسے ذہن ساز ادارے اور انجمنوں کے ساتھ انھوں نے خوب کام کیا۔ عبدالماجد دریا بادی علمِ دین کا شغف بھی رکھتے تھے۔ انھوں‌ نے اردو اور انگریزی میں بھی قرآن کی جامع تفسیر لکھی۔

    مولانا نے 6 جنوری 1977ء کو وفات پائی تھی۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ طالبِ علمی کے زمانے ہی سے ایک دل پذیر شخصیت کے حامل تھے۔ ایک محنتی طالبِ علم جس میں اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی لگن رہی۔ وہ ابتدائی عمر ہی سے دینی کتب کے علاوہ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابوں، علمی و ادبی رسائل اور جرائد کے مطالعہ کے شوق نے انھیں بھی قلم کار بنا دیا۔

    عبدالماجد دریا بادی کا اسلوب نہایت خوش سلیقہ ہے۔ وہ دل نشیں پیرائے میں فلسفیانہ انداز اپناتے ہوئے اپنے قارئین کو سوچنے سمجھنے اور سیکھنے پر آمادہ کر لیتے ہیں۔ اسی وصف کی بنا پر وہ اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور ناقد و مصلح بھی مشہور ہوئے۔ عبدالماجد دریا بادی نے 1925ء میں اپنی صحافت کا باقاعدہ آغاز ‘صدق’ کے اجرا سے کیا۔ اس کے ساتھ وہ اداریہ اور مستقل کالم بھی لکھنے لگے۔ مختلف عنوانات پر ان کے مضامین مختلف اخبار اور رسائل کی زینت بنے اور قارئین میں‌ بہت مقبول ہوئے۔ ان تحریروں نے مصنّف کو ہندوستان بھر میں‌ پہچان دی۔

    مصنّف کی متعدد کتابیں اور کئی تنقیدی، تاثراتی اور اصلاحی مضامین لائقِ‌ مطالعہ ہیں۔ عبدالماجد دریا بادی کی آپ بیتی بھی اردو زبان میں‌ ایک بہترین کتاب ہے جسے آج بھی نہایت دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ قرآن و سنت، سیرت و تفسیر کے علاوہ سفر نامے، علمی مضامین، فلسفہ اور نفسیات پر عبدالماجد دریا بادی کی کتابوں کی تعداد 50 سے زائد ہے۔ وہ ایک اچھے مترجم بھی تھے اور کئی کتابیں ان کے ترجمہ کی مہارت اور زبانوں پر ان کے عبور کی بہترین مثال ہیں۔

    مولانا نے متعدد اردو اخبارات کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ ان میں ہمدم، ہمدرد اور حقیقت قابلِ ذکر ہیں۔

  • آر ڈی برمن: ایک باکمال سنگیت کار کا تذکرہ

    ستّر کی دہائی میں ہندوستان کی فلمی موسیقی میں آر ڈی برمن کے کمالِ فن کا شہرہ ہوا تھا اور اس کے بعد آنے والی فلموں میں ان کی لطافت سے بھرپور موسیقی اور روایت سے جڑے خوب صورت تجربات نے انھیں بہترین فلمی موسیقار ثابت کیا۔

    آر ڈی برمن 4 جنوری 1994ء کو انتقال کرگئے تھے۔ 1971ء کی ایک کام یاب فلم ’کٹی پتنگ‘ سے آر ڈی برمن کی پہچان کا اصل سفر شروع ہوا تھا جس میں ’یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے‘ اور ’یہ جو محبت ہے ان کا ہے کام‘ جیسے گیت شامل تھے جنھیں آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ان گیتوں‌ کے موسیقار کا اصل نام راہل دیو برمن تھا۔ یہ گیت بھی آپ نے شاید سن رکھا ہو، ’’چرا لیا ہے تم نے جو دل کو…..۔‘‘ یہ سدا بہار گیت ہندوستان ہی نہیں‌ پاکستان میں‌ بھی بہت مقبول ہوا۔

    آر ڈی برمن کلکتہ میں‌ 27 جون 1939ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک مشہور موسیقار کے بیٹے تھے اور شروع ہی سے راگ راگنیوں، ساز و انداز سے مانوس تھے۔ آر ڈی برمن نے بھی موسیقی کے شوق کو اپنا فن اور پیشہ بنایا۔ ان کے والد ایس ڈی برمن تھے۔ اپنے والد سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ آر ڈی برمن نے استاد علی اکبر خان سے سرود کی تربیت حاصل کی۔

    آر ڈی برمن کو پنچم دا کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ انھیں یہ نام اداکار اشوک کمار کو موسیقی کے پانچ سُر’ سارے گا ما پا ‘ سنانے پر دیا گیا تھا۔ آر ڈی برمن نے فلمی کیریئر کا آغاز اپنے والد کے ساتھ بطور معاون موسیقار کیا تھا۔ ان کی اس وقت کی سپر ہٹ فلموں‌ میں ’’چلتی کا نام گاڑی (1958) اور کاغذ کے پھول (1959) شامل ہیں۔ بہ طور موسیقار آر ڈی برمن نے 1961ء میں فلم ’’چھوٹے نواب‘‘ سے کام شروع کردیا تھا، لیکن شہرت حاصل کرنے کے لیے انھیں خاصا انتظار کرنا پڑا۔ انھیں بہ طور موسیقار 1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم بھوت بنگلہ سے کچھ پہچان ضرور ملی تھی، لیکن فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے وہ 10 برس تک محنت کرتے رہے۔

    آر ڈی برمن کو 1972ء میں‌ فلم انڈسٹری میں خاصا کام ملا اور وہ فلم سیتا اور گیتا، میرے جیون ساتھی، بامبے ٹو گوا جیسی کئی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دینے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی طرح‌ آندھی، دیوار، اور خوشبو جیسی کئی کام یاب فلموں میں ان کی موسیقی میں کئی گیتوں نے شائقینِ سنیما کو دیوانہ کردیا۔ یہ ابتدائی کام یابیاں ان کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوئیں اور تب آر ڈی برمن نے مشرق و مغرب کی موسیقی کے امتزاج سے دھنیں تیّار کرنے کا تجربہ کر کے خود کو منوایا۔ ان کے یہ گیت بھی سپر ہِٹ ثابت ہوئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ پہلی مرتبہ ممبئی فلم انڈسٹری میں ویسٹرن میوزک کو کلاسیکی موسیقی کے ساتھ ملا کر اپنی دھنوں سے عروج دینا ہی تھا جس نے انھیں اپنے کام میں یکتا اور بے مثال ثابت کیا۔

    فلم پیاسا کے گانے” سَر جو تیرا چکرائے” کی دھن بھی آر ڈی برمن نے ترتیب دی تھی، وہ ماؤتھ آرگن بجانے میں مہارت رکھتے تھے اور گانا "ہے اپنا دل تو آوارہ” میں انھوں نے اس کا مظاہرہ کر کے اپنے مداحوں کو حیران کر دیا تھا۔

    آر ڈی برمن کا کئی گلوکاروں کے ساتھ وقت گزرا اور کئی سدا بہار گیت تخلیق ہوئے، لیکن آشا بھوسلے نے فلمی گائیکی کے لیے آر ڈی برمن کی دھنوں پر ہی ان کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ شریکِ حیات کے طور پر بھی انہی کا انتخاب کیا۔ آر ڈی برمن کی پہلی بیوی ان سے علیحدگی اختیار کرچکی تھیں اور مشہور گلوکارہ ان کی دوسری بیوی تھیں۔

    1985ء اور بعد کے برسوں‌ میں‌ آر ڈی برمن کی جگہ فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے نئے موسیقاروں کی خدمات حاصل کرنا شروع کردی تھیں اور آر ڈی برمن کا چار دہائی سے زیادہ عرصہ پر محیط فلمی کیریئر سمٹتا چلا گیا۔ انھوں‌ نے تین سو سے زائد ہندی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی جب کہ بنگلہ، تیلگو اور مراٹھی فلموں کے لیے بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ آر ڈی برمن نے بہترین موسیقار کے تین فلم فیئر ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔

  • امانت لکھنوی: سبز پری اور شہزادہ گلفام کا قصّہ گو

    ہندوستان میں نکڑ ناٹک اور تھیٹر کا ایک مقصد اصلاحِ معاشرہ بھی تھا اور یہی کھیل تماشے کسی دور میں عوام کی تفریح کا واحد ذریعہ تھے۔ اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے ڈرامہ ‘اندر سبھا” لکھ کر شہرت پائی۔ آج امانت لکھنوی کا یومِ وفات ہے جن کے ڈرامے کو اردو کا اوّلین ناٹک کہا جاتا ہے۔

    تھیٹر کا سلسلہ اس دور میں‌ انگریزوں نے شروع کیا تھا جو پہلے نوابوں، امراء کا شوق بنا اور پھر عام ہندوستانی بھی اس سے محظوظ ہونے لگے۔ مشہور ہے کہ امانت لکھنوی نے اندر سبھا، اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی فرمائش پر 1853ء میں تحریر کیا تھا۔ یہ اردو کا ایک مقبول ناٹک تھا جو اس زمانے کے رواج کے مطابق سیدھا سادہ اور منظوم ہے۔ امانت لکھنوی جن کا نام اردو کے پہلے عوامی ڈرامہ کے مصنّف کے طور پر ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا، شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل اور دوسری اصناف سخن بالخصوص واسوخت اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کی وجہِ شہرت ڈرامہ اندر سبھا ہی ہے۔

    امانت لکھنوی کا اصل نام آغا حسن تھا۔ ان کے اجداد ایران سے لکھنؤ آئے تھے۔ امانت 1825ء میں ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور تحصیلِ علم کے شوق کے ساتھ اپنے زمانے کے مروجہ علوم میں استعداد بڑھائی، لیکن نوجوانی میں‌ ایک بیماری کی وجہ سے ان کی زبان بند ہو گئی تھی۔ بعد میں‌ قوتِ گویائی واپس آ گئی، لیکن زبان میں لکنت برقرار رہی۔

    امانت لکھنوی نوعمری میں شاعری کا شوق رکھتے تھے اور میاں دلگیر کے شاگرد بنے۔ استاد نے امانت تخلص تجویز کیا۔ ان کا ایک دیوان "خزائنُ الفصاحت” بھی موجود ہے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ شاعری میں امانت نے اپنے عہد کے مقبولِ عام اور پسندیدہ انداز کو اپنایا۔

    امانت کا ڈرامہ اردو کا وہ پہلا عوامی ڈرامہ تھا جو چھپنے سے پہلے ہندوستان بھر میں مقبول ہوا اور اشاعت کے بعد دور در تک اس کی شہرت پھیل گئی۔ اس کے کئی نسخے شہروں شہروں کتب خانوں کی زینت بنے اور جب بمبئی میں تھیٹر کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو اندر سبھا کو بار بار اسٹیج کیا گیا۔ اس کی طرز پر بے شمار ڈرامے اردو میں لکھے گئے۔

    اردو کے اس اوّلین ناٹک کا پلاٹ اور اس کے کرداروں کو ایک نظر میں‌ دیکھا جائے تو یہ راجہ اندر، اس کے دربار کی رقاصہ سبز پری اور شہزادہ گلفام کی بڑی دل چسپ اور نہایت پُراثر کہانی ہے۔ سبز پری ہندوستان کے شہزادے گلفام پر فریفتہ ہو جاتی ہے اور کالے دیو کے ذریعے ملاقات کا پیغام دیتی ہے، اس کے اظہارِ محبت پر شہزادہ شرط یہ رکھتا ہے کہ وہ اسے راجہ اندر کے دربار کی سیر کرائے۔ سیر کے دوران دونوں پکڑے جاتے ہیں۔ شہزادے کو قید کر لیا جاتا ہے اور پری کو جلا وطن۔پھر پری شہزادے کو قید سے نکالنے اور اسے اپنانے کی خاطر بڑے جتن کرتی ہے۔ یہ منظوم ڈراما 830 اشعار پر محیط ہے جس کے آٹھ کردار ہیں۔

    انیسویں صدی کے آخر میں اردو تھیٹر نے فروغ پایا تو اس زمانے میں‌ اردو ڈرامے بھی لکھے گئے جس میں آغا حشر کاشمیری کا نام سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ڈرامے کو ایک نیا موڑ دیا اور اسے فنی خصوصیات کا حامل بنایا۔ لیکن اندر سبھا کی اہمیت اور مقبولیت ہمیشہ قائم رہی۔ اردو کے ابتدائی دور اور بعد میں آنے والوں نے اسے بہترین ڈرامہ اور لازوال منظوم قصّہ کہا ہے۔ عبد الحلیم شرر کے بقول اندر سبھا کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کے علمی، تمدنی مذاقوں کے باہمی میل جول کی اس سے بہتر یادگار نہیں ہو سکتی۔ زبان و بیان کی بنیاد پر جائزہ لیں تو اندر سبھا میں ایسے اشعار بہ کثرت ملیں گے جن میں الفاظ اور بندش کی چستی، استعارے، تشبیہات اور تخیل عروج پر ہے۔

    اردو ادب میں جب بھی ڈرامہ کی ابتدا اور اس کے ارتقا کی بات ہوگی اندر سبھا اور امانت کا تذکرہ ضرور ہوگا۔ امانت لکھنوی نے کم عمر پائی اور 3 جنوری 1859ء
    کو جوانی میں انتقال کیا۔

  • پاکستان کے ممتاز سائنس داں رضی الدّین صدیقی کی برسی

    پاکستان کے معروف سائنس داں ڈاکٹر رضی الدّین کو ماہرِ‌ تعلیم اور ادبی شخصیت ہی نہیں ان کے عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے جینئس اور باکمال تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ایک وسیع المطالعہ، قابل اور ذہین انسان تھے جن کو اساتذہ نے بھی بہت عزّت اور احترام دیا اور ان کی علمی استعداد، قابلیت اور کردار کے معترف رہے۔ آج ڈاکٹر رضی الدّین کی برسی ہے۔

    محمد رضی الدّین صدیقی نے ہندوستان میں مرفہ الحال ریاست حیدرآباد دکن میں 7 اپریل 1905ء کو آنکھ کھولی تھی۔ عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم کی تعلیم حاصل کر کے دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔

    وہ طبیعیات اور ریاضی کے مضمون میں‌ بہت دل چسپی لیتے تھے اور بعد میں انھیں ایک ماہرِ طبیعیات اور ریاضی داں کی حیثیت سے شہرت ملی، لیکن لسانیات کے ساتھ ادب بھی ان کی دل چسپی کا مضمون رہا۔ انھوں نے عربی اور فارسی میں اقبالیات کے موضوع پر تحقیقی اور تخلیقی کام بھی کیا۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ایک ہی وقت میں کئی علوم میں درجۂ کمال پر فائز تھے۔

    ڈاکٹر رضی الدّین کو کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ وہ داخلے کے امتحان میں اوّل آئے اور کیمبرج میں فزکس کے نوبل انعام یافتہ پال ڈیراک کے شاگردوں میں شامل رہے۔ انہی دنوں فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کے بھی شاگرد ہوئے اور انھوں‌ نے اپنے قابل طالبِ علم کی علمی میدان میں خوب راہ نمائی کی۔ کیمبرج سے ماسٹرز کرنے کے بعد ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی گئے اور اس زمانے میں آئن اسٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ سے بھی تعلیم حاصل کی۔

    پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے مشورے پر ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ اپنے تحقیقی مقالے لکھے جو ممتاز جرائد میں شائع ہوئے۔ 1931ء میں وہ حیدرآباد دکن واپس لوٹے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔ 1950ء میں رضی الدّین صدیقی پاکستان آگئے۔

    ایک قابل سائنس دان اور استاد ہونے کے علاوہ وہ انگریزی ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور اس کا مطالعہ کرنے کے ساتھ اردو اور فارسی ادب کو بھی خوب پڑھا، یہی نہیں بلکہ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود ڈاکٹر صاحب اپنے دور میں‌ اقبال شناس کے طور پر بھی سامنے آئے اور ان کی دو تصانیف اقبال کا تصور زمان و مکان اور کلام اقبال میں موت و حیات بھی شایع ہوئیں۔ 1937ء میں کوانٹم مکینکس پر انھوں نے اپنے لیکچرز کو کتابی صورت میں شایع کروایا۔ اس کتاب میں نظریۂ اضافیت خصوصی اور جنرل تھیوری آف ہیملٹن ڈائنامکس پر بھی مضامین شامل تھے۔ اس کتاب کو ان کے اساتذہ نے بہت سراہا اور سائنس کے طلبا کے لیے مفید قرار دیا۔

    حکومتِ پاکستان نے 1960ء میں رضی الدّین صدیقی کو ستارۂ امتیاز اور 1981ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ انھیں کئی ملکی اور غیرملکی جامعات نے بھی اعزازات دیے اور سائنس کے میدان میں‌ ان کے کام کو سراہا۔ ڈاکٹر صاحب متعدد جامعات اور تعلیمی اداروں میں مناصب پر فائز رہے۔ 2 جنوری 1998ء کو رضی الدّین صدیقی انتقال کرگئے تھے۔

  • شاہد حمید:‌ اردو زبان و ادب کا محسن

    شاہد حمید:‌ اردو زبان و ادب کا محسن

    شاہد حمید کا شمار اردو کے اہم ترین مترجمین میں ہوتا تھا۔ ماہرِ لسانیات اور مصنّف شاہد حمید نے غیرملکی ادب سے نہایت معتبر اور وقیع کتب کو اردو میں‌ ڈھالا اور ترجمے جیسے فن کی آب یاری کی جس کے لیے زبان و بیان پر مہارت ہی نہیں بڑی محنت اور ریاضت، توجہ اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔

    شاہد حمید نے 29 جنوری 2018ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ ان کی عمر 90 برس تھی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    جالندھر کے شاہد حمید 1928ء میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور آئے جہاں‌ گورنمنٹ کالج سے انگریزی میں ایم اے کیا اور تدریس کا پیشہ اختیار کر لیا۔ 1988ء میں بہ حیثیت مدرس ریٹائر ہوگئے۔ فکشن کے تراجم ساتھ ان کا ایک اور اہم کام دو ہزار صفحات پر مشتمل انگریزی اردو ڈکشنری تھی۔

    انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے معروف نقاد شمیم حنفی نے کہا تھا: یقین کرنا مشکل ہے کہ ہزاروں صفحوں پر پھیلا ہوا یہ غیرمعمولی کام ایک اکیلی ذات کا کرشمہ ہے۔ ممتاز فکشن نگار نیّر مسعود نے انھیں ایک حیرت خیز آدمی قرار دیا تھا۔

    مسعود اشعر نے مرحوم سے متعلق لکھا، "اس کی عملی زندگی کا آغاز تو ایک استاد کی حیثیت سے ہوا تھا۔ پاکستان آکر اس نے سب سے پہلے ایک اسکول میں ہی نوکری کی تھی۔ پھر وہ ایسا استاد بنا کہ کئی اخباروں میں کام کرنے کے باوجود ہمیشہ استاد ہی رہا۔ اس کے استاد ہونے کی یہ حیثیت اس کے ترجموں میں بھی نظر آتی ہے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، وہ اپنے ترجموں کی وجہ سے ہی علمی اور ادبی حلقوں میں مشہور ہوا۔ لیکن یہ ترجمے ایسے نہیں جیسے دوسرے ترجمہ کرنے والے کرتے ہیں۔ یہ ایک استاد کے ترجمے ہیں۔ اب وہ ٹالسٹائی کے ناول وار اینڈ پیس کا ترجمہ ہو، یا دوستوسکی کے ناولوں برادر کرامازوف اور کرائم اینڈ پنشمنٹ کا، یا جین آسٹن کے ناول پرائڈ اینڈ پریجوڈائس کا، یہ صرف ترجمہ ہی نہیں ہے بلکہ ان ناولوں میں جہاں تاریخی واقعات کا حوالہ آیا ہے، یا عیسائی عقیدے کا ذکر ہے، یا پھر کسی علاقے کا بیان ہے، یا کسی تاریخی خاندان کے احوال ہیں، وہاں ترجمہ کر نے والا یہ استاد اپنے پڑھنے والے پر ہی نہیں چھوڑ دیتا کہ وہ خود ہی اس کے متعلق معلومات حاصل کرتا پھرے بلکہ وہ بڑی عرق ریزی سے تحقیق کرتا ہے اور پورے کے پورے صفحے حاشیوں سے بھر دیتا ہے۔”

    شاہد حمید کو کلاسیکی لٹریچر کو اردو کے قالب میں ڈھالنے پر ملکہ حاصل تھا۔ انھوں نے ناولوں کی تاریخ کے تین بڑے شاہ کاروں کا ترجمہ کیا، جنھیں ناقدین نے معیاری اور نہایت معتبر ٹھہرایا۔ ان ناولوں کا ترجمہ کرنے میں انھوں نے کئی برس صرف کیے۔ انھوں نے جسٹس گارڈر کے ناول سوفی کی دنیا اور ہیمنگ وے کے شاہ کار ’’بوڑھا اور سمندر‘‘ کو بھی اردو کا روپ دیا۔

    ان کی یادداشتوں‌ پر مبنی کتاب بھی ’’گئے دن کی مسافت’‘ کے عنوان سے شایع ہوچکی ہے۔

  • یومِ‌ وفات: شوخی اور ترنگ او پی نیّر کے گیتوں کی پہچان ہیں!

    یومِ‌ وفات: شوخی اور ترنگ او پی نیّر کے گیتوں کی پہچان ہیں!

    او پی نیّر البیلے موسیقار تھے دلوں میں‌ گداز اور سماعتوں میں رَس گھولنے والی ان کی دھنیں کئی فلموں کی مقبولیت کا سبب بنیں۔ 2007ء میں آج ہی کے دن انھوں نے زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا تھا۔

    ممبئی میں‌ مقیم او پی نیّر 81 سال کے تھے۔ وہ 16 جنوری 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔بالی وڈ کو کئی یادگار گیت دینے والے اس موسیقار کا اصل نام اوم کار پرساد نیّر تھا۔ موسیقی کا جنون ایسا تھا کہ تعلیم بھی مکمل نہ کی اور آل انڈیا ریڈیو، جالندھر سے اپنے کیریئر کا آغاز کردیا۔ محنتی اور بااصول او پی نیّر بعد میں فلم نگری میں آئے تو ’کنیز‘ کے لیے پسِ پردہ موسیقی دی، مگر ان کی پہچان گرودت کی فلم ’ آر پار‘ بنی۔ اس فلم کے نغمے بہت مقبول ہوئے۔ اس کے بعد ان کے پاس گویا فلمیں قطار میں‌ رہنے لگیں، لیکن او اپی نیّر تعداد کو معیار پر ترجیح دینے والوں میں‌ سے نہیں‌ تھے، اور سال میں ایک سے زیادہ فلم کے لیے موسیقی دینے سے گریز کرتے تھے۔

    ’اڑیں جب جب زلفیں تیری‘، ’بابو جی دھیرے چلنا‘ اور ’لے کے پہلا پہلا پیار‘ جیسے نغموں کے اس خالق کی اصول پسندی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے اپنے فن پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا اور کئی لافانی نغمات فلم نگری کو دے گئے۔

    ’تم سا نہیں دیکھا‘، ’ہاوڑا برج‘، ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ ، ’کشمیر کی کلی‘، ’میرے صنم‘، ’سونے کی چڑیا‘، ’پھاگن‘، ’باز‘، ’ایک مسافر ایک حسینہ‘ ان کی چند فلمیں تھیں جن کے گیتوں کو بے مثال مقبولیت ملی۔

    ’نیا دور‘ وہ فلم تھی جس کی موسیقی ترتیب دینے پر انھیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    1949ء میں اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے اس موسیقار کی پہچان اُن کے سریلے گیت تھے۔ ان کے ہم عصر موسیقاروں کے برعکس ان کے گیتوں سے شوخی، چلبلا پن اور مستی جھلکتی ہے جس نے شائقینِ سنیما اور سامعین کو بہت محظوظ کیا۔ خود او پی نیّر زندہ دل اور خوش مزاج مشہور تھے۔

  • ‘یادوں کی سرگم’ اور آزاد منش مظفّر علی سیّد!

    ‘یادوں کی سرگم’ اور آزاد منش مظفّر علی سیّد!

    چراغ حسن حسرت، صوفی تبسم، خواجہ منظور حسین، محمد حسن عسکری اور ن۔ م راشد جیسے علم و ادب کے درخشاں ستاروں پر شخصی مضامین اور ان کے خاکے پہلے بھی لکھے گئے، لیکن خاکہ نگار کا قلم ‘محتاط’ رہا ہے جب کہ مظفّر علی سیّد نے بڑی بے باکی سے اپنے ممدوح کی شخصیت کو کریدا اور اس کے اندرون اور بیرون کو بلاکم و کاست قاری کے سامنے پیش کرنے میں‌ کام یاب ہوئے۔

    مظفّر علی سیّد کو اردو زبان کے ممتاز نقّاد، محقّق اور مترجم تھے جنھیں آج ہی کے دن سنہ 2000 میں دستِ اجل نے ہم سے چھین لیا تھا۔ پاکستان میں وہ شہر لاہور کے باسی تھے، لیکن ان کا تعلق امرتسر سے تھا جہاں وہ 1929ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔

    مظفّر علی سیّد کا بڑا حوالہ تنقید نگاری ہے۔ خاکوں پر مشتمل ان کی کتاب ‘یادوں کی سرگم’ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی شخصیت کیسی پُر پیچ اور تہ در تہ ہوتی ہے جس میں غور اور مطالعہ کرنے سے ہم پر پرتیں کھلتی ہی چلی جاتی ہیں۔

    مشہور ہے وہ ایک آزاد منش انسان تھے اور اپنی اکثر تحریریں اور مضامین سنبھال کر نہیں رکھ سکے، لیکن مظفر علی سیّد کا جنتا بھی علمی و ادبی کام اور تصنیف و تالیف کردہ کتب سامنے آئی ہیں، وہ قابل توجہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں ‘تنقید کی آزادی’ اور تراجم میں ‘فکشن، فن اور فلسفہ’ اور ‘پاک فضائیہ کی تاریخ’ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے نام ور ادیب مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے نام سے مرتب کیے تھے۔ اس کے علاوہ شخصی خاکے، معلوماتِ عامّہ پر کتاب جب کہ فکشن، فن اور فلسفہ ان کے ڈی ایچ لارنس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے ممتاز ادیب، شاعر، محقق اور مترجم سیّد عابد علی عابد کی کتاب پر تنقید بھی لکھی تھی۔

    اردو زبان و ادب کی دو قد آور شخصیات کے درمیان ایک مکالمہ پڑھیے جس سے معلوم ہو گاکہ دورِ جوانی میں مرحوم نقّاد کا علمی و ادبی ذوق شوق کیسا تھا، یہ دل چسپ مکالمہ نام وَر ادیب اور ناول نگار انتظار حسین کی زبانی کچھ یوں‌ ہے: عسکری صاحب ایک روز کہنے لگے کہ "یار ایک عجب نوجوان ہے۔ میں مال روڈ سے کسی وقت بھی گزروں وہ کتابیں بغل میں دابے کسی طرف سے آن پہنچتا ہے اور پھر عالمانہ انداز میں ادب پر گفتگو شروع کر دیتا ہے۔”

    میرے کان کھڑے ہوئے۔ پوچھا "کیا حلیہ ہے اس کا۔”

    "عینک لگاتا ہے۔ کچھ گول مٹول سا ہے۔ بغل میں کتابیں ہوتی ہیں۔”

    "میں سمجھ گیا۔” میں نے اعتماد سے کہا "وہ گورنمنٹ کالج کا طالبِ علم ہے مظفّر علی سیّد۔”

    "یار بہت عالمانہ گفتگو کرتا ہے۔”

  • ممتاز مستشرق اور اردو زبان و ادب کی دلدادہ این میری شمل کا تذکرہ

    ممتاز مستشرق اور اردو زبان و ادب کی دلدادہ این میری شمل کا تذکرہ

    ممتاز مستشرق، ماہرِ اقبالیات اور جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل کو برصغیر پاک و ہند میں اردو زبان سے ان کی محبّت اور شعر و ادب سے لگاؤ کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے مضمون نگاری کے ساتھ اردو زبان کے کئی ادبا اور شعرا کی تخلیقات کا جرمن میں ترجمہ کیا۔

    ڈاکٹر این میری شمل کا تعلق جرمنی سے تھا۔ وہ 1922ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ 19 سال کی عمر میں انھوں نے ‘مملوک خاندان کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام’ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ این میری شمل نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ وہ جرمن اور انگریزی زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔

    اس جرمن مستشرق نے پاکستان کے ممتاز ادیب اور مؤرخ و محقق پیر علی محمد راشدی، پیر حسامُ الدّین راشدی، غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔

    وہ کئی کتابوں‌ کی مصنّف تھیں۔ مسلم ممالک کی تاریخ اور تہذیب سے لے کر شعر و سخن تک این میری شمل کی کاوشوں سے جرمن زبان میں‌ کئی کتابیں منتقل ہوئیں اور یہ کام ان کی لگن و محنت کا نتیجہ تھا‌۔ تاہم ان پر تنقید بھی جاتی ہے جس کی وجہ اہلِ زبان نہ ہونے کے سبب ان کی تحریروں میں‌ اغلاط یا کمی بیشی ہے، اس کے باوجود ان کے کام کو اہمیت دی گئی ہے وہ پاکستان کی مقامی زبانوں‌ سے بھی واقف تھیں‌ جن میں‌ سندھی، پنجابی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں ان کی دل چسپی بہت زیادہ تھی اور انھوں نے مسلمان صوفی شعرا اور علما کی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔

    وہ متعدد بار پاکستان آئیں جہاں علمی و ادبی سرگرمیوں میں وقت گزارا۔ ڈاکٹر شمل 1992ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر خود مسلمان اسکالروں نے بہت زیادہ نہیں لکھا تھا۔

    ان کی زندگی کا سفر 26 جنوری 2003ء کو تمام ہوا۔ جہانِ ادب اور سرکاری سطح پر بھی علمی و ادبی کاوشوں کے اعتراف میں انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ لاہور میں ایک شاہ راہ بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔

  • مغل شہنشاہ نصیر الدّین ہمایوں، موٹو اور اس کی بھینس!

    مغل شہنشاہ نصیر الدّین ہمایوں، موٹو اور اس کی بھینس!

    نصیر الدّین ہمایوں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدّین بابر کا بیٹا تھا۔ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر شہنشاہِ‌ ہند کی حیثیت سے تخت نشیں ہوا۔

    وہ 1508ء میں‌ پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں کا نام ماہم بیگم تھا۔ ہمایوں نے ترکی، فارسی اور عربی زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔ وہ فلسفہ، علمِ نجوم و فلکیات میں خصوصی دل چسپی رکھا تھا۔ 20 سال کی عمر میں وہ بدخشاں کا گورنر مقرر ہوا اور فوج کے ساتھ لڑائیوں میں بھی شریک رہا۔ 1530ء میں‌ وہ شہنشاہِ‌ ہند بنا، لیکن سلطنت کو سنبھال نہ سکا۔ اس کے مختلف اسباب ہیں۔ ہمایوں 1556ء میں‌ آج ہی کے دن اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    کہتے ہیں اس کی موت سیڑھیوں سے گرنے کے سبب واقع ہوئی تھی۔ اسی مناسبت سے مشہور یورپی مؤرخ لین پول نے لکھا،“ اس نے تمام عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھا کر مرا۔“ یہاں‌ ہم اردو کے ممتاز نقّاد اور ادیب شکیل الرّحمٰن کی نصیر الدّین ہمایوں سے متعلق ایک کہانی نقل کررہے ہیں جو دراصل بچّوں کے لیے لکھی گئی تھی۔ انھوں نے ہندوستان کے کئی بادشاہوں سے متعلق واقعات کو بچّوں کے لیے نہایت دل چسپ انداز میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہندوستان کے مشہور مغل بادشاہ ہمایوں کی امّاں کا نام ماہم بیگم تھا، ہمایوں کے والد شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی رفیقۂ حیات کو شادی کے بعد ہی سے ماہم کہنا شروع کر دیا تھا یعنی ’چاند۔’ بہت ہی خوب صورت تھیں نا ہمایوں کی امّاں، اسی لیے! ننھا ہمایوں بیمار ہوتا تو لگتا امّاں بی خود بیمار ہو گئی ہیں، دن رات اپنے پیارے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی تھیں، آگرہ کے لوگ ماہم بیگم کی بہت عزّت کرتے تھے اور سب اُنھیں پیار سے امّاں کہتے تھے۔

    امّاں ماہم بیگم بھی شہر کے لوگوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ہر تہوار پر، وہ تہوار ہندوؤں کا ہو یا مسلمانوں کا، پورے قلعے پر چراغ روشن کراتیں، مٹھائیاں تقسیم کراتیں، شہر بھر کے بچّوں کو بلاتیں تاکہ وہ ننّھے ہمایوں کے پاس آ کر کھیلیں اور خوب مٹھائیاں کھائیں۔

    اماّں ماہم بیگم کو بچّوں سے بے حد پیار تھا، قلعے میں جو بچّے آتے اُن میں ایک بہت ہی پیارا سا بچّہ تھا موٹو۔ بہت موٹا تھا اور خوب کھاتا تھا اسی لیے اس کا نام موٹو ہو گیا تھا۔ امّاں ماہم بیگم اور ہمایوں دونوں موٹو کو بہت پسند کرتے تھے۔ ننھّا موٹو اکثر آتا اور ہمایوں کے ساتھ کھیلتا، دونوں دوست بن گئے تھے۔ ہاں، ہمایوں اکثر کہتا ’’موٹو کھانا کم کھایا کر ورنہ پیٹ پھٹ جائے گا۔‘‘

    موٹو کے باپ کا نام ہیرا تھا جو دودھ فروخت کیا کرتا تھا اور اُسی سے گزارا کرتا تھا، ننھّے موٹو کی سب سے اچھی سواری بھینس تھی، وہ دن بھر بھینس کے اوپر بیٹھ کر اپنے پتا جی کی بھینسوں کو چراتا تھا، ندی پار جو کھیت تھا موٹو وہیں اپنی بھینسوں کو چراتا تھا اور ننّھا ہمایوں اور اس کی امّاں ماہم بیگم دونوں قلعے کے اوپر سے بہت دور سے اسے دیکھتے اور خوش ہوتے تھے۔ موٹو کو قلعے میں اتنا پیار ملا کہ اس کے آنے جانے کی کسی قسم کی رکاوٹ نہ تھی۔ وہ جب چاہتا ننھّے ہمایوں سے ملنے آ جاتا، امّاں ماہم بیگم اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتیں، اسی طرح کہ جس طرح اپنے بیٹے ہمایوں کو کھلاتی تھیں۔

    آہستہ آہستہ ہمایوں اور موٹو دونوں بڑے ہوتے گئے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا، ایک دن ہمایوں نے ضد کی کہ وہ موٹو کے ساتھ کھیت پر جائے گا اور موٹو کی طرح کسی بھینس پر بیٹھے گا۔ ہمایوں شہزادہ تھا۔ بہت اچھا گھڑ سوار بن رہا تھا، لیکن بھینس پر بھی بیٹھنا چاہتا تھا۔ امّاں ماہم بیگم نے اجازت دے دی، ہمایوں بہت خوش ہو گیا۔ چند سپاہیوں کی نگرانی میں کھیت پر پہنچا۔ موٹو اپنی بھینس پر لیٹا مستی مار رہا تھا۔ موٹو ہمایوں کو دیکھ کر بہت خوش ہو گیا۔ بھینس سے نیچے اتر آیا اور سپاہیوں کی مدد سے ہمایوں بھینس پر چڑھ گیا۔ اب تو اس کی خوشی مت پوچھو، اسے یہ سواری بہت اچھی لگ رہی تھی۔ موٹو دوسری بھینس پر بیٹھ گیا اور دونوں مست کھیلتے رہے۔ جب خوب کھیل چکے تو اپنی اپنی بھینسوں سے نیچے اترے۔

    ایسا ہوا بچّو کہ ہمایوں جیسے نیچے اترا ایک زہریلے سانپ نے اسے ڈس لیا اور ہمایوں کی حالت خراب ہونے لگی۔ سپاہیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ موٹو نے جب اپنے دوست کی یہ حالت دیکھی تو فوراً اپنی قمیص پھاڑ ڈالی اور ہمایوں کی ٹانگ پر زخم کے اوپر نیچے دو پٹیاں کس کر باندھ دیں تاکہ زہر نہ پھیلے۔ موٹو کی تیزی اور چستی دیکھ کر سپاہی بھی حیران رہ گئے۔

    ہمایوں کو قلعہ لایا گیا۔ موٹو بھی ساتھ ساتھ آیا۔ شاہی حکیم صاحب آئے، انھوں نے علاج کیا اور ہمایوں اچھا ہو گیا۔ شاہی حکیم صاحب نے امّاں ماہم بیگم سے کہا ’’اگر موٹو نے اس وقت ہمایوں کے پاؤں پر پٹیاں نہ باندھی ہوتیں تو زہر پورے جسم میں پھیل جاتا۔ یہ بھینس والا موٹو بہت ذہین اور ہوشیار ہے۔‘‘

    امّاں ماہم بیگم اور شہنشاہ بابر دونوں موٹو سے بہت خوش ہوئے۔ موٹو کو اپنے قلعے میں رکھ لیا، اس کی تعلیم تربیت کا انتظام کیا اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا شروع کیا۔

    جب شہنشاہ بابر کا انتقال ہو گیا اور ہمایوں بادشاہ بنا تو امّاں ماہم بیگم نے ہمایوں کو یاد دلایا کہ کس طرح کھیت میں ناگ نے اسے کاٹا تھا اور کس طرح موٹو نے پٹیاں باندھ کر اس کی زندگی بچائی تھی۔ ہمایوں کو واقعہ یاد تھا، وہ موٹو کو بہت پیار کرتا تھا اور اسے اپنا دوست سمجھتا تھا۔ ہمایوں نے پوچھا ’’امّاں بیگم میں موٹو کے لیے کیا کروں؟‘‘

    امّاں بیگم نے کہا، ’’موٹو کو اپنا ذاتی سپہ سالار بنا لو، وہ تمھارا سچّا دوست ہے۔‘‘

    ہمایوں نے فوراً حکم نامہ جاری کیا۔ موٹو شہنشاہ ہمایوں کا ذاتی سپہ سالار بن گیا۔ امّاں بیگم بہت خوش ہوئیں اور اپنے دونوں بیٹوں کو خوب پیار کیا۔

    ہمایوں نے موٹو سے کہا، ’’دیکھو موٹو کھانا زیادہ کھاؤ گے تو اور بھی موٹے ہو جاؤ گے، دوڑ میں سپاہی آگے نکل جائیں گے اور سپہ سالار پیچھے رہ جائے گا۔‘‘ سب ہنسنے لگے۔

    جانتے ہو بچوّ، یہی موٹو سپہ سالار بساون کے نام سے مشہور ہوا اور جانے کتنے دشمنوں کو شاہی فوج کا سردار بن کر شکست دی۔ ہمایوں اور بساون عرف موٹو کے پیار کی کہانی بھلا کون بھول سکتا ہے!

  • پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    شاکر علی پاکستان کے ممتاز مصوّر تھے جو 27 جنوری 1975ء کو اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے۔ انھیں پاکستان میں تجریدی مصوّری کا بانی کہا جاتا ہے۔ شاکر علی خطّاطی کے فن میں جدّت اور اپنے تجربات کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

    نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے شاکر علی کا وطن رام پور تھا جہاں انھوں نے 6 مارچ 1914ء کو آنکھ کھولی۔ مصوّری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس، بمبئی سے حاصل کی اور بعد میں برطانیہ سے فن مصوّری کا تین سالہ کورس مکمل کیا۔ مصوّری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ وہ کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے زیرِ تربیت بھی رہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں پاکستان آنے کے بعد شاکر علی لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اپنی وفات سے دو برس قبل تک 1973ء اسی عہدے پر فائز رہے۔

    شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارنے کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر نام ور مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔

    پاکستان کے اس نام ور مصور اور خطّاط کی رفاقت میں گزرے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک جگہ ڈاکٹر محمد اجمل لکھتے ہیں: ’’یہ مجھے یاد ہے کہ شاکر علی سے میری پہلی ملاقات غالباً 1949ء میں لندن میں ہوئی تھی۔ یہ بھی مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر مقبول احمد اور مسعود کے توسط سے ہوئی تھی، لیکن بہت جلدی واسطے پیچھے رہ گئے اور بلاواسطہ ہم دوست بن گئے۔

    شاکر علی کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی معصومیت اور بے تکلفی تھی، جو صرف غالباً صحیح اور فطری فن کاروں میں ہوتی ہے۔ جب وہ سلیڈ اسکول میں پڑھتے تھے تو اکثر مجھے اپنے کمرے میں لے جاتے کہ میں ان کی نئی تصویر دیکھوں۔ جب وہ مجھے تصویر دکھاتے تو ان کے چہرے پر خوشی کی ایک سرخ موج دوڑ جاتی اور آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو جاتی۔ بعض اوقات میں تعریف کے ساتھ کوئی تنقیدی فقرہ بھی کہہ دیتا تو وہ کہتے ”یار کہتے تو تم ٹھیک ہو لیکن یہ مجھے اسی طرح اچھی لگتی ہے۔“

    ان سے پوچھتے کہ فن کیا ہوتا ہے؟ فن کار کیا ہوتا ہے تو ان کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا اور وہ کوئی جواب نہ دیتے یا یہ کہہ دیتے، ”یار مجھے نہیں معلوم۔“

    حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا جب کہ 1971ء میں انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔

    شاکر علی لاہور کے گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔