Tag: جنوری وفات

  • یومِ‌ وفات: قلم، ٹائپ رائٹر اور ڈاک کے لفافے جان اپڈائیک کا رومانس تھے

    یومِ‌ وفات: قلم، ٹائپ رائٹر اور ڈاک کے لفافے جان اپڈائیک کا رومانس تھے

    گھر میں رائٹنگ ٹیبل پر رکھے ٹائپ رائٹر میں اسے عجیب کشش محسوس ہوتی تھی۔ قلم اور کورے کاغذ گویا اپنی جانب کھینچتے اور ڈاک کے خاکی لفافوں کا بھید جاننے کے لیے وہ بے چین ہوجاتا تھا۔ اس کا محبوب مشغلہ ان لفافوں پر درج نام اور مختلف پتے پڑھنا تھا۔ یہ جان اپڈائیک کی زندگی کے ابتدائی دن تھے۔

    اس کے والد اسکول ٹیچر اور والدہ ادیب تھیں۔ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابیں گھر میں موجود تھیں اور اپڈائیک کو اکثر ان کی زبانی علمی و ادبی مباحث سننے کا موقع ملتا تھا۔ اسی ماحول کا اثر تھا کہ اس نے کتابوں کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔

    ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد وہ اس قابل ہوگیا کہ بچّوں کا ادب پڑھ سکے۔ اسی مطالعے نے اس کم عمر کے تخیل کو مہمیز دی اور ایک دن اس نے قلم تھام کر اپنے جذبات اور احساسات کو نظم کر دیا۔ نوعمر اپڈائیک نے اس پہلی کاوش کے بعد ایک مختصر مضمون بھی لکھ ڈالا۔ یہ تخلیقی کاوشیں والدین کے سامنے رکھیں تو وہ بہت خوش ہوئے اور بیٹے کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ بعد کے برسوں میں خصوصاً والدہ کی راہ نمائی میں جان اپڈائیک نے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا اور وہ وقت بھی آیا جب دنیا بھر میں وہ اپنے نظریۂ ادب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے مشہور ہوگئے۔

    جان اپڈائیک کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کے بچپن کی لفظی جھلکیاں آپ کی نظر سے گزری ہیں، جو یقیناً عام بچّوں کے مقابلے میں بہت مختلف تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپڈائیک روانی سے نہیں بول سکتے تھے اور ایک ایسے مرض میں بھی مبتلا تھے جس میں جلد کی رنگت سفید ہوجاتی ہے اور چہرے پر سرخ نشانات پڑجاتے ہیں، مگر والدین کی بھرپور توجہ اور ہمّت افزائی نے انہیں کسی بھی قسم کے احساسِ کم تری سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ اپڈائیک اپنے قلمی سفر کی ابتدا سے متعلق لکھتے ہیں۔

    ’’میں نے اپنی ماں کو ہمیشہ رائٹنگ ٹیبل پر لکھنے پڑھنے میں مشغول پایا۔ شعور کی سرحدوں کو چُھوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک رائٹر کے طور پر شناخت کی جاتی ہیں۔ انہوں نے میرے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا اور ہر قدم پر میری راہ نمائی کی۔ میرا تخلیقی سفر انہی دنوں کی اُس حوصلہ افزائی اور مدد کا نتیجہ ہے۔‘‘

    18 مارچ 1932ء کو آنکھ کھولنے والے جان اپڈائیک نے ہر بچّے کی طرح ابتدائی عمر میں مہم جوئی پر مبنی کہانیوں، طلسماتی اور تجسُس سے بھرپور اسٹوریز میں دل چسپی لی۔ ذرا شعور آیا تو خود بھی مختلف موضوعات پر لکھنے لگے اور جب باقاعدہ قلم تھاما تو پہلے اپنے رہائشی علاقے ریڈنگ کے طرزِ زندگی پر ناول لکھا۔ اپڈائیک کی تخلیقات اپنے متنوع موضوعات اور منفرد اسلوبِ نگارش کی بدولت قارئین میں مقبول ہوئیں۔ ان کے عام موضوعات سماجی اقدار اور امریکی شہری تھے جب کہ شارٹ اسٹوریز اور ناولوں میں انہوں نے خاص طور پر مڈل کلاس طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا۔

    عظیم ناول نگار، شاعر اور نقّاد جان اپڈائیک کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی رویّوں اور الجھنوں کے ساتھ سماجی سطح پر شکست و ریخت کی عکاسی کی گئی ہے۔ اپڈائیک کی تخلیقی انفرادیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان قدروں اور روایات کی پابندی نہیں کی جو حقائق سے چشم پوشی پر اکساتی ہیں اور کسی بھی معاشرے کو تنگ نظری کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ خاص طور پر اخباری مضامین ان کی قوتِ مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی عمدہ مثال ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے معاشرے اور عام لوگوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ رواں اور سادہ طرزِ تحریر کے باعث نقاد اور اپڈائیک کے ہم عصر بھی ان کے معترف نظر آئے۔ ناقدین کے مطابق اپڈائیک نے انگریزی ادب میں روایت اور نام نہاد اصولوں کی پاس داری کرنے کے بجائے متحرک زندگی کا ساتھ دیا اور اسی خوبی کی بنیاد پر صفِ اوّل کے تخلیق کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

    دورانِ تعلیم جان اپڈائیک ایک مقامی روزنامہ ’’ریڈنگ ایگل‘‘ سے بہ طور کاپی بوائے منسلک ہوگئے۔ یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوئی اور اس عرصے میں ان کا ادبی ذوق اور رجحان خوب پروان چڑھا۔ 1950ء میں اپڈائیک نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور انگریزی ادب میں گریجویشن کیا۔ فائن آرٹس میں گہری دل چسپی کے باعث انہوں نے اسکیچ اورکارٹون بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اپڈائیک کی حسِ مزاح بھی تیز تھی۔ وہ اپنے فن اور اِسی مہارت کو کام میں لائے اور معاشرتی مسائل اور خامیوں کو طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا۔ مقامی اخبارات میں ان کے کارٹون شایع ہوئے جو بہت پسند کیے گئے۔ فائن آرٹ میں یہی دل چسپی انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی لے گئی جہاں اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں شارٹ اسٹوریز، اخباری مضامین اور شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور ایک قلم کار کی حیثیت سے ان کی پہچان کا سفر شروع ہوگیا۔

    انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے دوران اُن کی ملاقات امریکی قلم کاروں ای بی وہائٹ اور کیتھرائن وہائٹ سے ہوئی جنہوں نے اپڈائیک کی تخلیقات کی ستائش کے بعد ’’نیویارکر‘‘ کے لیے لکھنے کی دعوت دی۔ چند ماہ بعد اپڈائیک امریکا لوٹے اور نیویارکر کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس معروف جریدے میں 1954ء میں پہلی بار ان کی ایک اسٹوری چھپی اور پھر یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ اب اپڈائیک کا فن اور ان کا اسلوب بھی اس دور کی ادبی بیٹھکوں میں زیرِ بحث آنے لگا تھا۔ مطالعہ اپڈائیک کے ذہن کو اجالتا اور فکر لکھنے پر آمادہ کرتی رہی۔ شاعر اور کہانی کار کے بعد وہ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ یہ کمال اور ہمہ جہتی ان کے وسیع مطالعے اور تجزیاتی فکر کا نتیجہ تھی۔

    جان اپڈائیک کی شارٹ اسٹوریز اور ناولوں کا چرچا امریکا اور بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔ قارئین کے ساتھ انگریزی ادب کے ناقدین بھی ان کے کمالِ فن کا اعتراف کرچکے تھے۔ اپڈائیک گویا مقبولیت کے ہفت خواں طے کر رہے تھے، لیکن قارئین کے ذہنوں کے پردے پر ان کے محبوب مصنف کا ابھرنے والا خاکہ ابھی بے رنگ تھا۔ وہ اپڈائیک کے حالاتِ زندگی اور نظریات کی بابت کم جانتے تھے۔ اپڈائیک نے 1989ء میں اپنی خود نوشت لکھ کر اس خاکے میں رنگ بھر دیے۔ طرزِ تحریر ایسا کہ قاری ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنا نہ چاہے۔ یوں واقعات کے تسلسل، روانی اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ذات آشنائی کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔

    جان اپڈائیک نے اپنے گردوپیش کے مسائل اور واقعات کو اپنے الفاظ اور اسلوب کا پیراہن عطا کیا اور ان پر کہانیاں بُنیں۔ ان کی تخلیقات متوسط طبقے اور اس کی مجبوریوں پر مصنف کی گرفت اور گہرے مشاہدے کی بہترین مثال ہیں۔

    اپڈائیک مصلحت پسند نہیں رہے اور ہمیشہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے امریکا کے مضافات کی زندگی کے ایسے پہلوؤں پر بات کی جنہیں اُس دور میں ناگفتہ سمجھا جاتا تھا، لیکن انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کے ناولوں کا موضوع اخلاقی پستی، اقدار کی پامالی اور معاشرتی پیچیدگیوں کے علاوہ جنسی رویّے بھی رہے۔ اس کی ایک مثال ناول Couples ہے جو 1968ء میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول کا موضوع بوسٹن اور نواح کی زندگی تھی۔ یہ بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ اسی ناول کے بعد وہ مشہورِ زمانہ امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ کی کور اسٹوری بنے۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان پر نسل پرستی اور زن بیزاری کی تہمت بھی دھری گئی۔ اپڈائیک نے ان الزامات کو مسترد کردیا۔ وہ اپنے نظریۂ ادب اور فلسفے پر ڈٹے رہے۔ ان کا ناول Bech is Back منظرِ عام پر آیا تو ٹائم میگزین نے ایک بار پھر اس پر اسٹوری شایع کی۔ یہ 1983ء کی بات ہے۔

    اپڈائیک کا پہلا ناول Poorhouse Fair تھا اور 1958ء میں نظموں کا پہلا مجموعہ The Carpentered Hen کے نام سے شایع ہوا۔ اس عرصے میں ان کی شارٹ اسٹوریز نیویارکر کا حصّہ بنتی رہیں جو انگریزی ادب کا شاہ کار تسلیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بعد میں کئی ناول لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں امریکا اور عالمی سطح پر کئی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ان کی زندگی کا آخری ناول 2008ء میں منظرِ عام پر آیا اور اگلے برس 27 جنوری کو پھیپھڑوں کے سرطان کے باعث جان اپڈائیک نے زندگی ہار دی۔

    (مترجم: عارف عزیز)

  • سماج کے مختلف روپ اور طبقاتی تضاد کو عیاں‌ کرنے والے ضیا سرحدی

    سماج کے مختلف روپ اور طبقاتی تضاد کو عیاں‌ کرنے والے ضیا سرحدی

    ضیا سرحدی کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ مارکسی نظریات سے متاثر ایسے ہدایت کار اور کہانی نویس تھے جس نے اپنی فکر اور نظریات کو اپنی فلموں میں اس خوبی سے سمویا کہ وہ شاہ کار ثابت ہوئیں۔ انھوں نے سماج کے مختلف روپ اور طبقاتی تضادات کو سنیما پر پیش کیا۔

    ضیا سرحدی کو بچپن ہی میں فلموں کا شوق پیدا ہوگیا تھا جو نوعمری میں‌ ان کا عشق بن گیا اور جب وہ مارکسی فلسفے سے آشنا ہوئے تو زندگی کو الگ ہی انداز سے دیکھنے لگے۔تب لگ بھگ 20 سال کی عمر میں وہ پشاور سے سفر کر کے بنگال پہنچ گئے جہاں ہدایت کار، اسکرپٹ رائٹر اور اداکار کے طور پر شہرت حاصل کی۔

    ہندوستان میں ”ہم لوگ” اور ”فٹ پاتھ” جیسی شاہ کار فلمیں ضیا سرحدی ہی کی دین تھیں۔ انھوں نے 27 جنوری 1997ء کو وفات پائی۔ پاکستان کے اس ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 912ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام فضل قادر سیٹھی تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار خیّام سرحدی ان کے فرزند اور مشہور موسیقار رفیق غزنوی داماد تھے۔

    ضیا سرحدی گریجویشن کرنے کے بعد 1933ء میں بمبئی چلے گئے تھے اور وہاں اپنے وقت کے عظیم ہدایت کار محبوب کے ساتھ کہانی نگار کی حیثیت سے کام شروع کا آغاز کیا تھا۔ اس زمانے میں‌ انھوں‌ نے "دکن کوئن، من موہن، جاگیردار، مدھر ملن، پوسٹ مین جیسی فلمیں‌ کے لیے ہدایت کاری اور اسکرپٹ رائٹنگ کی۔

    1958ء میں ضیا سرحدی پاکستان آگئے جہاں رہ گزر کے نام سے ایک فلم بنائی جو کام یاب نہ ہوسکی۔ انھوں نے فلم "لاکھوں میں ایک، غنڈہ، اور نیا سورج کی کہانی لکھی تھی، لیکن ان میں سے بھی دو مکمل نہ ہوسکیں۔ تاہم لاکھوں‌ میں ایک اپنے شان دار مکالموں اور بہترین اسکرپٹ کی وجہ سے سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ یہاں انھیں قید و بند جھیلنے کے ساتھ فضا میں اس گھٹن کا احساس بھی ہوتا رہا جس میں ان کی تخلیقی صلاحیت اور فکر ماند پڑ رہی تھی، تب وہ بیرونِ ملک چلے گئے اور بعد میں اسپین منتقل ہوئے اور وہیں وفات پائی۔ انھیں پشاور میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کا تذکرہ

    ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کا تذکرہ

    احمد حسن دانی ماہرِ‌ آثارِ قدیمہ و علمِ بشریات تھے۔ انھوں نے تاریخ داں اور دانش وَر کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل کی۔ آج اس نابغۂ روزگار کا یومِ وفات ہے۔

    وہ 20 جون 1920ء کو کشمیر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اردو، عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ والد کا تبادلہ ناگ پور ہوا تو اسکول میں ہندی اور سنسکرت بھی سیکھنے کا موقع ملا اور بعد میں مرہٹی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ انھیں اسی خصوصیت کی بنا پر ماہرِ لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔ انھیں‌ لسانیات، تاریخ اور آثار قدیمہ کے مضامین میں سند سمجھا جاتا ہے۔

    پروفیسر احمد حسن دانی نے 1944ء میں گریجویشن کے بعد ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ان کی دل چسپی اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے انھیں محکمۂ آثارِ قدیمہ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کردیا گیا۔ اس زمانے میں مشہور انگریز ماہر ٹیمر ویلر بنارس یونیورسٹی گئے تو وہاں ان کی ملاقات نوجوان احمد حسن دانی ہوئی جو ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔ انھوں نے اس انگریز ماہر کے زیرِ نگرانی ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کی کھدائی میں حصّہ لیا۔ اس کے بعد برٹش انڈیا کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیے گئے۔ حکومت نے ان کی دل چسپی اور کام میں مہارت کو دیکھتے ہوئے انھیں شہرۂ آفاق عمارت تاج محل میں تعینات کر دیا۔ تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل ہی میں پروفیسر دانی نے محسوس کر لیا تھا کہ آثارِ قدیمہ سے متعلق معلومات عوام تک پہنچانے کے لیے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950ء میں انھوں نے وریندر میوزیم راج شاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر نشانیاں دریافت کیں جو آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    برصغیر کی تقسیم ہوئی تو وہ پاکستان آگئے اور ان کی پہلی تقرری مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ 1948ء میں انھوں نے سر مور ٹیمر کے ساتھ مل کر ایک کتاب تصنیف کی: ’’پاکستان کے پانچ ہزار سال۔‘‘

    ڈاکٹر دانی 1947ء سے 1949ء تک محکمۂ آثارِ قدیمہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور بعد میں محکمے کے سپرنٹنڈنٹ انچارج بنائے گئے۔ انھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے میں تدریسی فرائض بھی سَر انجام دیے۔

    پھر جنرل محمد ایوب خان کے دور میں پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ آثارِ قدیمہ بنایا گیا تو اس کی سربراہی پروفیسر احمد حسن دانی کو دی گئی۔ اس حیثیت میں انھوں نے پشاور اور وادیٔ سوات میں اور دیگر علاقوں میں کھدائی کا کام کروایا اور یہاں سے نوادرات اور آثار برآمد کیے۔

    ڈاکٹر حسن دانی نے لاہور اور پشاور کے عجائب گھروں کو بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ وہ مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور 1980ء میں ریٹائر ہو گئے۔

    انھوں نے ساری عمر سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کئی مقامی زبانوں اور لہجوں پر عبور رکھتے تھے۔ 26 جنوری 2009ء کو ڈاکٹر حسن دانی اسلام آباد میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

    ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی ستائش کی تمنّا اور صلے کی پروا کے بغیر اپنے کام میں مگن رہے، ان کی تحقیقی و علمی مساعی کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ احمد حسن دانی کو ان کی اعلٰی خدمات کے صلے ميں حکومت پاکستان نے ستارۂ امتياز اور ہلالِ امتياز سے نوازا جب کہ اُن کے علم و بصیرت کا شہرہ مغربی دنیا میں ہوا تو امریکا، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ جرمنی اور اٹلی میں بھی انھیں اعلیٰ ترین تعلیمی، تدریسی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد حسن دانی کو آکسفورڈ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں رہتے ہوئے وہاں کام کرنے اور پڑھانے کی پیشکش کی گئی، لیکن وطن کی محبت میں انھوں نے انکار کردیا۔

    احمد حسن دانی کی تصانیف پچاس سے زائد اور ان کے مضامین ان گنت ہیں جن میں ہسٹری آف ناردرن ایریاز آف پاکستان، رومانس آف دی خیبر پاس، چلاس: دی سٹی آف نانگا پربت، ٹھٹھہ: اسلامک آرکیٹکچر شامل ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے شریک مصنّف بھی تھے۔

  • روحی بانو: شاید کوئی اس پری چہرہ اداکارہ کے لیے کچھ نہیں‌ کرسکتا تھا

    روحی بانو: شاید کوئی اس پری چہرہ اداکارہ کے لیے کچھ نہیں‌ کرسکتا تھا

    شائستہ آداب، مہذّب، نہایت سلجھی ہوئی اور باوقار روحی بانو ایک منجھی ہوئی اداکارہ تھیں‌ جنھوں نے فن کی دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ٹیلی ویژن ڈراموں میں انھوں نے جو کردار نبھائے وہ لازوال ثابت ہوئے اور پاکستان میں ایک نسل ان کے فن کی معترف اور پرستار ہے۔

    پھر دنیا کے اسٹیج پر اُن کی زندگی کا وہ کھیل شروع ہوا جس کی تکمیل میں روحی بانو کی باقی ماندہ عمر تمام ہو گئی۔ 25 جنوری 2019ء تک جاری رہنے والے اس کھیل کی چند جھلکیاں ہی اتنی درد انگیز اور کرب ناک تھیں‌ کہ دیکھنے والوں کا کلیجہ پھٹ گیا۔

    اداکارہ کی پرستار نسل ہی نہیں، بعد میں ان کے ڈراموں کی ریکارڈنگ دیکھنے والی نسل نے بھی فاؤنٹین ہاؤس میں پڑی ہوئی اور گلبرگ کی سڑکوں پر مجنونانہ انداز میں پھرتی روحی بانو کا دکھ شدّت سے محسوس کیا۔ سبھی افسردہ و ملول رہے۔ وہ نفیسائی الجھنوں کا شکار تھیں اور عدم تحفظ کا شکار بھی۔

    یہ سب ان کی نجی زندگی کے نشیب و فراز اور صدمات کی وجہ سے تھا۔ پہلے ازدواجی زندگی کی ناکامی کے دکھ نے انھیں گھائل کیا اور بعد میں جواں سال بیٹے کی موت نے اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ یوں روحی بانو دماغی مریض بن گئیں۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے حالات اور مشکلات بیان کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی تھی کہ انھیں قبضہ مافیا سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ چند سال قبل ان پر نامعلوم افراد کی جانب سے تشدد کی خبر بھی سامنے آئی تھی۔ ایک پری چہرہ، خوش گفتار اور تعلیم یافتہ مہذّب خاتون کو نیم پاگل یا مجنونانہ انداز میں سڑکوں پر پھرتا دیکھنا ان کے ساتھی فن کاروں اور چاہنے والوں‌ کے لیے باعثِ کرب تھا، لیکن شاید کوئی ان کے لیے کچھ نہیں‌ کرسکتا تھا۔

    پاکستان کی نام وَر اداکارہ اور پُرکشش شخصیت کی مالک روحی بانو نے 10 اگست 1951ء کو ممبئی میں آنکھ کھولی تھی۔ اُن کے والد کا نام اللہ رکھا تھا جو ہندوستان کے مانے ہوئے طلبہ نواز تھے۔ والد نے دوسری شادی کی تو والدہ روحی بانو اور دوسرے بچّوں کو لے کر پاکستان چلی آئیں۔ یہاں لاہور میں روحی بانو نے اپنی تعلیم مکمل کی اور نفسیات کے مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ ان کی دو شادیاں ہوئیں جو ناکام رہیں۔ ان کا اکلوتا بیٹا ناگہانی موت کا شکار ہوا اور روحی بانو کا کہنا تھا کہ اسے جائیداد کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔

    روحی بانو کا شمار اُن فن کاروں میں ہوتا تھا جنھوں نے پاکستان میں ٹی وی کا آغاز دیکھا اور پھر اس کے عروج اور مقبولیت میں‌ اپنا حصّہ ڈالا۔ 1970ء اور 1980ء کے عشروں میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی روحی بانو نے ٹیلی ویژن کے ساتھ سلور اسکرین پر بھی شان دار پرفارمنس سے فلم بینوں کے دل جیتے۔ انھوں نے اپنے وقت کے ممتاز ڈرامہ نگاروں اشفاق حسین، منو بھائی، بانو قدسیہ، انور سجاد اور حسینہ معین کی کہانیوں میں اپنے کردار نبھائے۔

    اداکارہ کے سپر ہٹ ڈراموں میں کرن کہانی، کانچ کا پُل، زیر زبر پیش، ایک محبت سو افسانے، دروازہ، دھند، زرد گلاب، سراب، پکّی حویلی شامل ہیں۔ ان کی قابلِ ذکر فلموں میں پالکی، امنگ، انسان اور فرشتہ، راستے کا پتھر، انوکھی، گونج اٹھی شہنائی، خدا اور محبت، دشمن کی تلاش، ضمیر، آج کا انسان اور دیگر کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ روحی بانو نے وحید مراد، محمد علی، آصف رضا میر، غلام محی الدین اور سدھیر کے ساتھ فلموں میں اپنے کردار ادا کیے۔ اسی طرح ٹیلی ویژن پر اپنے وقت کے باکمال فن کاروں کے ساتھ انھوں نے اپنی جان دار اداکاری سے ناظرین کو اپنا مداح بنایا۔

    نئے فن کاروں کے لیے اکیڈمی کا درجہ رکھنے والی روحی بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ علاج کی غرض سے ترکی کے شہر استنبول میں‌ مقیم تھیں اور وہاں ایک اسپتال میں دس روز وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد دنیائے فانی سے کوچ کیا۔

  • غزالہ رفیق کا تذکرہ جنھیں‌ ہم بھول گئے…

    غزالہ رفیق کا تذکرہ جنھیں‌ ہم بھول گئے…

    پاکستان کی معروف فن کار غزالہ رفیق نے 24 جنوری 1977ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    نئی نسل کے لیے یہ نام اجنبی اور وہ ان کے فنی سفر سے بھی یقیناً ناواقف ہے۔ غزالہ رفیق خداداد صلاحیتوں‌ کی مالک تھیں۔ انھوں نے گلوکاری اور صدا کاری کے علاوہ اداکارہ کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    غزالہ رفیق کا اصل نام بلقیس انصاری تھا۔ وہ 1939ء میں سندھ کے شہر قنبر علی خان میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ یوں انھیں جو ماحول میسر آیا اس میں‌ وہ پڑھنے لکھنے اور فنِ گائیکی کی طرف مائل ہوگئیں۔ خوش نصیبی تھی کہ غزالہ رفیق کی صلاحیتوں کو اس دور کے نام وَر براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری نے بھانپ لیا اور تب ان کی فرمائش پر غزالہ نے ریڈیو پاکستان کے کراچی سینٹر کے لیے گانے ریکارڈ کروائے۔ یہ 1957ء کی بات ہے۔

    اس کے بعد غزالہ کو ریڈیو پاکستان کے کئی اردو پروگراموں کی میزبانی بھی کرنے کا موقع ملا جن میں صبح دم دروازۂ خاور کھلا، سامعین میں بہت مقبول ہوا۔ اسی عرصے میں انھوں نے کئی ڈراموں کے لیے صدا کاری بھی کی۔

    غزالہ رفیق نے امرائو بندو خاں اور ماسٹر محمد ابراہیم سے موسیقی کی تربیت حاصل کی تھی۔ انھوں‌ نے ایک سندھی فلم میں بھی کام کیا جب کہ کراچی ٹیلی وژن کے لیے ہدایت کار عبدالکریم بلوچ کے پہلے سندھی سیریل زینت میں بھی مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد انھیں متعدد اردو ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کے یادگار ڈراموں میں گڑیا گھر، پت جھڑ کے بعد، میں کون ہوں اے ہم نفسو، آخری موم بتی اور مرزا غالب سرِ فہرست ہیں۔ غزالہ رفیق نے سندھی ڈراموں عمر ماروی، سسی پنوں، نوری جام تماچی میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے اور ناظرین نے انھیں سراہا۔

  • ہندوستانیوں سے نفرت کرنے والے ونسٹن چرچل کو دنیا سیاسی مدبّر تسلیم کرتی ہے

    ہندوستانیوں سے نفرت کرنے والے ونسٹن چرچل کو دنیا سیاسی مدبّر تسلیم کرتی ہے

    ونسٹن چرچل کو دنیا اعلٰی درجے کا مدبّر تسلیم کرتی ہے، لیکن اسے سخت متعصّب اور انتہائی قدامت پرست سیاست دان بھی کہا جاتا ہے۔ مغرب کا یہ پامرد سپاہی اور سیاسی ہیرو برصغیر میں‌ لاکھوں انسانوں کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

    تعصّب کیا بلا ہے اور اگر کسی قوم کا حکم ران اس کا شکار ہو تو اس کے کیا ہولناک نتائج سامنے آتے ہیں، اس کا اندازہ‌ آپ سر سیّد احمد خان کے ایک مضمون کے چند پارے پڑھ کر بخوبی کرسکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں،

    انسان کی خصلتوں میں سے تعصّب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصّب گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصّب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصّب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیوں کہ اس کا تعصّب اُس کے برخلاف بات سننے، سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچّی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔

    اگر بات کی جائے چرچل کے متعصّب ہونے کی تو ایک موقع پر اس نے کہا تھا کہ اسے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ اس نے نہ صرف یہاں کے لوگوں سے نفرت بلکہ ہندوستان کے مذاہب کے لیے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے باوجود اس زمانے کے نو آبادیاتی دور اور برطانوی حکومت کے بارے میں متضاد آرا پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مغربی مصنّفین ہی نہیں‌ اس وقت کے ہندو اور مسلمان بھی برطانوی حکومت سے متعلق مختلف جذبات اور خیالات رکھتے تھے۔

    کہا جاتا ہے کہ چرچل کی مدبّرانہ سوچ نے دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک بڑی مخالف طاقت جرمنی کی شکست میں اہم کردار ادا کیا اور بعض مصنّفین نے لکھا ہے کہ چرچل نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کی سیاسی اور جغرافیائی تاریخ کچھ مختلف ہوتی، لیکن اس کے باوجود ونسٹن چرچل کی شخصیت متنازع بھی ہے۔

    برطانوی راج میں طوفان اور سیلاب کے ساتھ بنگال میں شدید قحط سے اموات اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام میں چرچل کا کردار بھی موضوعِ بحث رہا ہے۔

    بنگال میں قحط سے ہلاکتوں اور لاکھوں انسانوں کے متاثر ہونے کا زمانہ وہی ہے جب برطانیہ میں ونسٹن چرچل پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوا۔ نوآبادیات پر متعدد برطانوی اور ہندوستانی تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ اعلیٰ افسران نے اپنی حکومت کو تحریری طور پر قحط کی تباہ کاریوں اور لاکھوں انسانی زندگیوں کو درپیش خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے خوراک اور دوسری امداد کی درخواست کی تھی، لیکن انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔

    ایک خیال یہ ہے کہ چرچل نے جان بوجھ کر لاکھوں ہندوستانیوں کو بھوکا مرنے دیا۔ یہ بات ہے 1942ء کی جب سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث بنگال میں قحط پڑ گیا تھا اور خوراک نہ ملنے سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے، اُس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم کا خیال تھا کہ مقامی سیاست دان بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کی بہتر مدد کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت کے اسی رویّے نے بدترین حالات پیدا کر دیے تھے۔ اسے امریکیوں کے استحصال کا ذمہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ چرچل میں برطانوی ہونے کے ناتے خود کو برتر خیال کرتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی دیگر اقوام اور ان کے مذاہب کے احترام سے بے نیاز تھا۔

    ونسٹن چرچل 30 نومبر 1874ء کو آکسفورڈ شائر میں پیدا ہوا۔ اس نے کم و بیش دس سال برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر گزارے اور 24 جنوری 1965ء کو لندن میں انتقال کر گیا۔ اس کی عمر 90 برس تھی۔

    وہ سیاست میں آنے سے قبل ہندوستان کی شمال مغربی سرحد اور پھر جنوبی افریقا میں سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کام کرچکا تھا۔ وہ 1901ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کا رکن بنا اور بعد میں‌ خزانہ، داخلہ سمیت وزارتِ عظمٰی کا منصب سنبھالا۔

    ونسٹن چرچل برطانیہ میں کنزرویٹو اور لبرل پارٹی کا حصّہ رہا اور سیاست کے ساتھ اس نے متعدد کتب بھی تصنیف کیں۔ وہ مصوّر بھی تھا اور کئی فن پارے تخلیق کیے۔ 1953ء میں چرچل نے ادب کا نوبل انعام وصول کیا تھا۔

  • جارج آرویل کا ”اینیمل فارم“ اور ”1984ء“ !

    جارج آرویل کا ”اینیمل فارم“ اور ”1984ء“ !

    ایرک آرتھر بلیئر کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے اور ان کا کنبہ ہندوستان کی ریاست بہار میں‌ مقیم تھا۔ ایرک یہیں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک سال کے تھے جب اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان گئے اور کبھی ہندوستان واپس نہیں‌ لوٹے، لیکن کئی برس بعد ایرک آرتھر بلیئر کو ان کے قلمی نام جارج آرویل سے ہندوستان بھر میں‌ پہچانا گیا۔ وہ ناول نگار، صحافی اور نقّاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    1903ء میں برطانوی راج میں پیدا ہونے والے جارج آرویل بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جنھوں‌ نے کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا اور قلم کی طاقت کو آزماتے ہوئے قابلِ‌ ذکر تصانیف قارئین کے سامنے رکھیں۔

    1933ء سے 1939ء کے درمیان ان کی یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں، لیکن 1945ء میں ان کا سیاسی تمثیلی ناول ”اینیمل فارم“ دنیا بھر میں‌ ان کی وجہِ شہرت بنا۔ برطانوی مصنف کا یہ ناول علامت نگاری کی عمدہ مثال ہے جس میں ایک فارم میں بسنے والے جانور اپنے استحصال سے بیزار ہو کر اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں اور پھر فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس کہانی کو دنیا بھر میں پسند کیا گیا اور ناول کا اردو اور متعدد دیگر زبانوں میں‌ ترجمہ کیا جاچکا ہے۔

    اسی طرح 1949ء میں انھوں نے ایک خیالی دنیا پر ”1984“ کے عنوان سے ناول سپردِ قلم کیا جو شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔ آرویل نے اس ناول میں ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا کا عالم یہ ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی سوچ یا تصوّر نہین رکھ سکتے جو حکومت کی نظر میں قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ سوچ جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گی، اس کڑے پہرے داری نظام میں گرفت میں‌ آجائے گی اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ الغرض یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔

    انگریزی کے اس مشہور مصنّف اور صحافی نے 21 جنوری 1950ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ بند کرلی تھیں۔

  • جب سندھ کے 20 سالہ میٹرک پاس نوجوان کو پھانسی دی گئی!

    جب سندھ کے 20 سالہ میٹرک پاس نوجوان کو پھانسی دی گئی!

    ’ہیمو کو صبح سویرے پھانسی دے دی گئی۔ شام کو ورثا نے اس کی لاش وصول کی۔ آزادی کے اس متوالے کی عمر 20 برس تھی۔ اسے یونین جیک سے نفرت تھی۔ وہ انگریز راج کا مخالف اور سرکار کا باغی تھا۔

    21 جنوری 1943ء کو ہیمو کالانی کو پھانسی دی گئی تھی جس کے خلاف تعلیمی اداروں میں طلبا اور سندھ کے شہروں میں عوام نے احتجاج کیا۔ آخری رسومات کی ادائیگی پرانے سکھر میں انجام پائی اور اسے اگنی سنسار کیا گیا۔

    ہیمو کالانی تحریکِ آزادی کے کم عمر کارکنوں میں شامل تھا۔ اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا جس کے بعد وہ پھانسی گھاٹ پہنچ گیا۔

    ہیمو کا پورا نام ہیمن داس کالانی تھا جس کے والد تعمیراتی ضروریات کا سامان یعنی ریتی بجری کی دکان چلاتے تھے۔ سکھر کے اس نوجوان کو پیار سے ’ہیمو‘ پکارا جاتا تھا۔ ہمیو کا سنِ پیدائش 1922ء یا 1923ء ہے۔ اس نے دورانِ تعلیم کشتی لڑنے کا شوق بھی پورا کیا۔ اس کے چچا ڈاکٹر منگھا رام کالانی طلبہ تنظیم سوراج سنہا سے وابستہ تھے۔ ہمیو پر ان کا بڑا اثر تھا۔ جدوجہدِ آزادی اور تحاریک کا سلسلہ زوروں پر تھا اور ہمیو اپنے چچا کی باتوں اور ان کی انقلابی فکر سے متاثر ہو کر انگریزوں سے نفرت اور انقلاب میں کشش محسوس کرنے لگا تھا۔

    وہ وقت بھی آگیا جب ہیمو کالانی ایک تخریبی منصوبے اور بغاوت کے الزام میں گرفتار ہوا۔ وہ سکھر کے قریب ریلوے لائن اکھاڑنے کے جرم میں گرفتار ہوا۔ اس پٹڑی سے اسلحے سے بھری ٹرین کو گزرنا تھا۔ ہیمو کا مقدمہ مارشل لا ٹریبونل حیدرآباد ہیڈ کوارٹر منتقل کیا گیا۔ جہاں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر میجر جنرل رچرڈسن نے ہیمو کالانی کی عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کردیا۔

    ہیمو کالانی کے ساتھ اس واردات میں اس کے دیگر باغی ساتھی بھی شریک تھے، جن کے نام اس انقلابی نے ظاہر نہیں کیے اور بیان دیا کہ اس نے اکیلے ہی یہ کام کیا تھا۔ انگریز دور میں سندھ سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کا نام اور اس کا تذکرہ آج شاذ ہی ہوتا ہے، اور یہ اس لیے بھی کہ تقسیم کے بعد آزادی کے ہیروز اور انقلابیوں کا بھی بٹوارا ہوگیا، لیکن تاریخ کے صفحات میں ہیمو کالانی کا نام اور آزادی کے لیے اس کی قربانی کا ذکر ضرور موجود ہے۔

  • دلاور فگار کا تذکرہ جو "صرف ظرافت نگار ہیں!”

    دلاور فگار کا تذکرہ جو "صرف ظرافت نگار ہیں!”

    کراچی میں‌ پاپوش کے قبرستان میں دلاور فگار کی قبر کے کتبے پر ان کا یومِ‌ وفات 21 جنوری 1998ء درج ہے۔ یہ وہی دلاور فگار ہیں جنھیں شہنشاہِ طنز و مزاح کہا جاتا ہے۔ آج اردو کے مقبول مزاح گو شاعر کی برسی ہے۔

    اردو شاعری میں طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار نے نہایت خوبی سے عام آدمی کے مسائل کو قہقہوں کی پوشاک پہناتے ہوئے اربابِ‌ حلّ و عقد پر طنز کے تیر برسائے اور ایک تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی ذمے داری پوری کی۔ دلاور فگار کا مزاح سخت اور کھردرا نہیں‌ بلکہ یہ خوش دلی اور خوش مذاقی پر منبی ہے۔ ان کے طنزیہ اشعار بھی تہذیب اور شرافت کے پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔ ان کا یہ مشہور قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

    حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
    کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
    میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی، مجھ سے پوچھ
    لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

    یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انھوں نے شباب بدایون کے تخلّص سے سنجیدہ شاعری بھی کی اور ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ 1954ء شایع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام حادثہ تھا۔ بعد میں انھوں نے تخلّص ہی نہیں اپنا ذوق و طرزِ شاعری ہی بدل لیا اور طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار مشہور ہوئے۔ وہ اس وقت تک بھارت میں مقیم تھے۔

    ان کا خاندانی نام دلاور حسین تھا۔ 1928ء میں بدایوں کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ 1942ء میں ہائی اسکول کے امتحان کام یاب ہوئے۔ والد مقامی اسلامیہ اسکول میں استاد تھے۔ دلاور حسین اس وقت اعلٰی تعلیم حاصل نہیں کرسکے لیکن بعد میں ایم اے کے سند یافتہ ہوگئے۔ کم عمر تھے جب ایک ڈاک خانے میں کام کرنے لگے تھے۔ اسی زمانے میں علم و ادب کا شوق ہوا اور شاعری شروع کی اور بدایوں کے مشاعروں میں پہچان بنانے لگے مگر شباب بدایوں کے نام سے۔ وہ لہک لہک کر اپنی غزلیں سنایا کرتے تھے۔

    دس جماعتیں پڑھ لینے کے چار سال بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور بریلی کالج گئے جہاں سے معلّمی کا ڈپلومہ بھی لے لیا اور والد کے سایۂ عاطفت سے محرومی کے بعد 1950ء میں ٹیچنگ شروع کردی۔ 1953ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد معاشیات میں ایم اے۔ 1966ء انھوں نے اردو میں ایم اے کیا اور فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ یہ ان کا بھارت میں تعلیمی اور ادبی سفر تھا جس کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں مقیم ہوئے۔

    کراچی میں دلاور فگار کو عبد اﷲ ہارون کالج میں بحیثیت لیکچرار اردو پڑھانے کا موقع ملا۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض اس وقت وہاں پرنسپل تھے۔ شہرِ قائد کے مشاعروں میں دلاور فگار شریک ہوتے اور اپنی مزاحیہ شاعری سے سامعین کو قہقہے لگانے پر ہی مجبور نہیں کرتے بلکہ انھیں مسائل کا ادراک کرواتے اور آمادہ کرتے کہ وہ اپنے لیے غوروفکر کریں۔

    ان کے مزاحیہ شعری مجموعوں میں "انگلیاں فگار اپنی”، "ستم ظریفیاں”، "آداب عرض”، "شامتِ اعمال”، "مطلع عرض ہے”، "خدا جھوٹ نہ بلوائے”، "چراغِ خنداں” اور "کہا سنا معاف کرنا” شامل ہیں۔ مرحوم نے جمی کارٹر کی مشہور تصنیف کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    یہاں ہم ان کی ایک مشہور ترین نظم نقل کررہے ہیں جس پر انھیں ادیبوں اور شعرا نے بھی خوب داد دی اور ان کے فن اور نکتہ رسی کو سراہا۔

    "شاعرِ اعظم”
    کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں
    کہنے لگے کہ آؤ ذرا بحث ہی کریں

    کرنے لگے یہ بحث کہ اب ہند و پاک میں
    وہ کون ہے کہ شاعرِ اعظم جسے کہیں

    میں نے کہا جگرؔ، تو کہا ڈیڈ ہو چکے
    میں نے کہا کہ جوشؔ کہا قدر کھو چکے

    میں نے کہا ندیمؔ تو بولے کہ جرنلسٹ
    میں نے کہا رئیسؔ تو بولے سٹائرسٹ

    میں نے کہا کہ حضرت ماہرؔ بھی خوب ہیں
    کہنے لگے کہ ان کے یہاں بھی عیوب ہیں

    میں نے کہا کچھ اور تو بولے کہ چپ رہو
    میں چپ رہا تو کہنے لگے اور کچھ کہو

    میں نے کہا کہ ساحرؔ و مجروحؔ و جاں نثارؔ
    بولے کہ شاعروں میں نہ کیجے انہیں شمار

    میں نے کہا کلامِ روشؔ لا جواب ہے
    کہنے لگے کہ ان کا ترنم خراب ہے

    میں نے کہا ترنمِ انورؔ پسند ہے
    کہنے لگے کہ ان کا وطن دیو بند ہے

    میں نے کہا کہ ان کی غزل صاف و پاک ہے
    بولے کہ ان کی شکل بڑی خوف ناک ہے

    میں نے کہا کہ یہ جو ہیں محشرؔ عنایتی؟
    کہنے لگے کہ رنگ ہے ان کا روایتی

    میں نے کہا قمرؔ کا تغزل ہے دل نشیں
    کہنے لگے کہ ان میں تو کچھ جان ہی نہیں

    میں نے کہا فرازؔ تو بولے کہ زیر و بم
    میں نے کہا عدمؔ تو کہا وہ بھی کالعدم

    میں نے کہا خمارؔ، کہا فن میں کچّے ہیں
    میں نے کہا کہ شادؔ تو بولے کہ بچّے ہیں

    میں نے کہا کہ طنز نگاروں میں دیکھیے
    بولے کہ سیکڑوں میں ہزاروں میں دیکھیے

    میں نے کہا کہ شاعرِ اعظم ہیں جعفریؔ
    کہنے لگے کہ آپ کی ہے ان سے دوستی

    میں نے کہا ضمیرؔ کے ہیومر میں فکر ہے
    بولے یہ کس کا نام لیا کس کا ذکر ہے

    میں نے کہا کہ یہ جو دلاور فگار ہیں
    بولے کہ وہ تو صرف ظرافت نگار ہیں

    میں نے کہا مزاح میں اک بات بھی تو ہے
    بولے کہ اس کے ساتھ خرافات بھی تو ہے

    میں نے کہا تو شاعرِ اعظم کوئی نہیں
    کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی لازمی نہیں

    میں نے کہا تو کس کو میں شاعر بڑا کہوں
    کہنے لگے کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں

    پایانِ کار ختم ہوا جب یہ تجزیہ
    میں نے کہا ‘حضور’ تو بولے کہ شکریہ

  • اردو ادب کو اپنی تنقیدی بصیرت اور تخلیقات سے مالا مال کرنے والے سیّد عابد علی عابد کا تذکرہ

    اردو ادب کو اپنی تنقیدی بصیرت اور تخلیقات سے مالا مال کرنے والے سیّد عابد علی عابد کا تذکرہ

    اردو میں جن لوگوں نے ایک وسیع تر ادبی ، سماجی اور تہذیبی آگہی کےساتھ تنقید لکھی ہے ان میں ایک نام عابد علی عابد کا بھی ہے۔ عابد علی عابد اردو ہی نہیں فارسی اور انگریزی زبان و ادبیات کے شناسا بھی تھے۔

    وہ 1971ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ سیّد عابد علی عابد ادیب، نقّاد، محقّق، شاعر، مترجم اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے ممتاز تھے۔

    17 ستمبر 1906ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہونے والے عابد علی عابد نے لاہور سے ایل ایل بی تعلیم حاصل کی اور وکالت کرنے لگے لیکن ان کا علمی اور ادبی ذوق انھیں پنجاب یونیورسٹی تک لے آیا جہاں سے فارسی میں ایم اے کیا اور دیال سنگھ کالج لاہور میں اسی زبان کے پروفیسر مقرر ہوگئے۔ حکیم احمد شجاع کے رسالے ’’ہزار داستاں‘‘ سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تھا۔ دیال سنگھ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مجلسِ ترقیٔ ادب سے وابستہ ہوئے اور اس کے سہ ماہی جریدے ’’صحیفہ‘‘ کی ادارت بھی کی۔

    عابد علی عابد کی تصانیف اصولِ انتقاد، ادب کے اسلوب، شمع، یدِ بیضا، سہاگ، تلمیحاتِ اقبال، طلسمات، میں کبھی غزل نہ کہتا کے نام سے شایع ہوئیں۔ بلاشبہ عابد علی عابد نے ادب کی مختلف اصناف میں‌ اپنا زورِ قلم منوایا۔ ان کی تخلیقات میں تنقیدی مضامین کے علاوہ ڈرامے، افسانے اور شاعری سبھی کچھ شامل ہیں۔