Tag: جنوری وفات

  • یومِ‌ وفات: نام وَر افسانہ نگار سعادت منٹو کو کیا شکایت تھی؟

    یومِ‌ وفات: نام وَر افسانہ نگار سعادت منٹو کو کیا شکایت تھی؟

    آج اردو کے نام ور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا یومِ وفات ہے۔ منٹو نے سماج کے طاقت وَر اور بااختیار طبقات کی ناراضی مول لینے میں‌ ہچکچاہٹ یا کم زوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے مخصوص ذہنیت کے حامل اور روایتی سوچ رکھنے والوں کو بھی نہ چھوڑا، اس نے اپنی تحریروں میں انفرادی اور اجتماعی بے حسی اور منافقت کا پردہ چاک کیا۔

    یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ادب کی دنیا میں‌ فراڈ اور کوتاہیوں کو بیان نہ کرتا اور تخلیق کاروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو موضوع نہ بناتا۔ اس نے "مجھے شکایت ہے” کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو ہم یہاں‌ نقل کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے منٹو کا مختصر تعارف ملاحظہ کیجیے۔

    اس افسانہ نگار اور فکشن رائٹر نے 11 مئی 1912ء کو سمرالہ، ضلع لدھیانہ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم امرتسر سے حاصل کی اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وقت گزارا، مگر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور واپس امرتسر آگئے۔ لکھنے لکھانے کا شوق تھا۔ ادب، فلم اور صحافت میں نام کمایا۔ ابتدا میں انھوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں فلمی صحافت سے وابستہ ہوئے اور کئی رسالوں کی ادارت کی۔ افسانہ نگاری کے ساتھ انھوں نے فلموں کی کہانیاں اور مکالمے، خاکے بھی تحریر کیے اور تقسیم کے بعد لاہور چلے آئے۔ منٹو کا نام ان کی جنس نگاری اور ہجرت کے موضوعات کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ جب کہ ان کی حقیقت پسندی، صداقت پروری، جرأت و بے باکی اردو ادب میں مثال رکھتی ہے۔ وہ 18 جنوری 1955ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئے تھے۔ منٹو میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    مرحوم کا مضمون پیشِ‌ خدمت ہے: "مجھے شکایت ہے ان لوگوں سے جو اردو زبان کے خادم بن کر ماہانہ، ہفتہ یا روزانہ پرچہ جاری کرتے ہیں اور اس ’’خدمت‘‘ کا اشتہار بن کر لوگوں سے روپیہ وصول کرتے ہیں مگر ان مضمون نگاروں کو ایک پیسہ بھی نہیں دیتے، جن کے خیالات و افکار ان کی آمدن کا موجب ہوتے ہیں۔

    مجھے شکایت ہے ان ایڈیٹروں سے جو ایڈیٹر بھی ہیں اور مالک بھی۔ جو مضمون نگاروں کی بدولت چھاپے خانے کے مالک بھی ہیں لیکن جب ایک مضمون کا معاوضہ دینا پڑ جائے تو ان کی روح قبض ہو جاتی ہے۔

    مجھے شکایت ہے ان سرمایہ داروں سے جو ایک پرچہ روپیہ کمانے کے لیے جاری کرتے ہیں اور اس کے ایڈیٹر کو صرف پچیس یا تیس روپے ماہوار تنخواہ دیتے ہیں۔ ایسے سرمایہ دار خود تو بڑے آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن وہ ایڈیٹر جو خون پسینہ ایک کر کے ان کی دولت میں اضافہ کرتے ہیں، آرام دہ زندگی سے ہمیشہ دور رکھے جاتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے ان ناشروں سے جو کوڑیوں کے دام تصانیف خریدتے ہیں اور اپنی جیبوں کے لیے سیکڑوں روپے اکٹھے کر لیتے ہیں۔ جو سادہ لوح مصنفین کو نہایت چالاکی سے پھانستے ہیں اور ان کی تصانیف ہمیشہ کے لیے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے ان سرمایہ دار جہلا سے جو روپے کا لالچ دے کر غریب اور افلاس زدہ ادیبوں سے ان کے افکار حاصل کرتے ہیں اور اپنے نام سے انہیں شائع کرتے ہیں۔

    سب سے بڑی شکایت مجھے ان ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں سے ہے جو اخباروں اور رسالوں میں بغیر معاوضے کے مضمون بھیجتے ہیں۔ وہ کیوں اس چیز کو پالتے ہیں جو ایک کھیل بھی ان کے منہ میں نہیں ڈالتی۔ وہ کیوں ایسا کام کرتے ہیں جس سے ان کو ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا۔ وہ کیوں ان کاغذوں پر نقش و نگار بناتے ہیں جو ان کے لیے کفن کا کام بھی نہیں دے سکتے۔

    مجھے شکایت ہے…… مجھے شکایت ہے…… مجھے ہر اس چیز سے شکایت ہے جو ہمارے قلم اور ہماری روزی کے درمیان حائل ہے۔ مجھے اپنے ادب سے شکایت ہے جس کی کنجی صرف چند افراد کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ ادب کی کنجی پریس ہے۔ جس پر چند ہوس پرست سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ چند ایسے تاجروں کا قبضہ ہے جو ادب سے اتنے ہی دور ہیں جتنے کہ وہ تجارت کے نزدیک۔ مجھے اپنے ہم پیشہ ادیبوں سے شکایت ہے جو چند افراد کی ذاتی اغراض اپنے قلم سے پوری کرتے ہیں، جو ان کے جائز اور ناجائز مطالبے پر اپنے دماغ کی قاشیں پیش کر دیتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے۔ مجھے اپنے آپ سے بھی شکایت ہے۔ اس لیے کہ میری آنکھیں بہت دیر کے بعد کھلی ہیں۔ بڑی دیر کے بعد یہ مضمون میں لکھنے بیٹھا ہوں جو آج سے بہت پہلے مجھ لکھ دینا چا ہیے تھا۔

  • محمد حسن عسکری: اردو تنقید کے معمار کا تذکرہ

    محمد حسن عسکری: اردو تنقید کے معمار کا تذکرہ

    محمد حسن عسکری کو اردو تنقید کے معماروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نقّاد، مترجم اور افسانہ نگار تھے جن کا کام نہایت وقیع اور مستند ہے۔ ان کے نگارشات کے پس منظر میں اردو تنقید نے کئی محاذ سر کیے اور نئی دنیا بسائی۔

    18 جنوری 1978ء کو اردو تنقید نگاری کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ ان کی غیرمعمولی تحریریں اور تنقیدی مضامین اردو زبان و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

    محمد حسن عسکری قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آئے تھے، کچھ عرصے بعد وہ کراچی منتقل ہوگئے اور ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے شعبے سے وابستگی اختیار کرلی، وہ تمام عمر تدریس کے ساتھ تخلیقی کاموں اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

    محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی سند لی۔ یہاں انھیں فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔

    بطور ادبی تخلیق کار انھوں نے ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر انگریزی سے ایک ترجمہ تھا جو 1939ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شایع ہوئے۔ 1943ء میں انھوں نے یہ کالم لکھنے کا آغاز کیا جس کا عنوان جھلکیاں تھا۔

    انھوں نے تنقید کے ساتھ افسانہ نگاری بھی کی۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    بحیثیت نقّاد اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے فرانسیسی ادب سے اردو تراجم کیے جو ان کی زبان و بیان پر گرفت کا ثبوت ہیں۔

    وہ کراچی میں دارالعلوم کورنگی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • گرامو فون پر نغمہ ریکارڈ کروانے والی پہلی ہندوستانی گوہر جان کا تذکرہ

    گرامو فون پر نغمہ ریکارڈ کروانے والی پہلی ہندوستانی گوہر جان کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے اوائل میں جب گرامو فون ریکارڈ تیار کرنے والی کمپنیاں‌ ایشیائی ممالک کی طرف متوجہ ہوئیں اور مقامی گلوکاروں‌ کی آوازیں ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو گوہر جان پہلی ہندوستانی مغنّیہ تھیں‌ جنھیں اس مشین پر اپنی آواز ریکارڈ کروانے کا موقع ملا۔ وہ اپنے زمانے کی مشہور کلاسیکی گلوکارہ اور مقبول رقاصہ تھیں جنھوں نے 1930ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    1898ء میں جب لندن کی ایک کمپنی نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ گرامو فون ریکارڈنگ مہم شروع کی، تو اس کام کے لیے یہاں ایک ایجنٹ کا انتخاب کرتے ہوئے فریڈرک ولیم گیسبرگ نامی ایک ماہر کو بھی کلکتہ بھیجا گیا۔ اس انگریز ماہر نے مختلف شخصیات کی مدد سے ہندوستان میں موسیقی کی محافل اور تھیٹروں تک رسائی حاصل کی اور گلوکاروں کو سنا، تاہم اسے کوئی آواز نہ بھائی، لیکن اس کی یہ کھوج اور بھاگ دوڑ رائیگاں نہیں گئی۔ گوہر جان کی آواز اُن دنوں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں گونج رہی تھی۔ وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھیں۔

    کمپنی کے نمائندے کو گوہر جان کو سننے کا موقع ملا اور اس نے ملاقات کر کے انھیں ریکارڈنگ کی پیش کش کردی جو بامعاوضہ تھی۔ 14 نومبر 1902ء کو کلکتے میں گوہر جان کو ریکارڈنگ کے لیے بلایا گیا۔ اس مغنیہ نے راگ جوگیا میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    26 جون 1873ء کو اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والی گوہر جان کا پیدائشی نام انجلینا یووارڈ تھا، اور وہ ایک برطانوی کی اولاد تھی، لیکن اس کی ماں وکٹوریہ ہیمنگز جو ایک کلاسیکی رقاصہ اور گلوکارہ تھی، اس نے بعد شوہر سے طلاق کے بعد جب ایک مسلمان سے شادی کی تو اسلام قبول کرلیا اور اپنی بیٹی انجلینا کو گوہر جان کا نام دے دیا۔

    انھوں نے استاد کالے خان، استاد وزیر خان اور استاد علی بخش جرنیل سے رقص اور موسیقی کی تربیت حاصل کی اور کتھک رقص کے ساتھ ساتھ غزل، ٹھمری، کجری، ترانہ اور دادرا کی اصناف پر عبور حاصل کیا۔ 1911ء میں انھیں دہلی دربار میں جارج پنجم کی تاج پوشی کے موقع پر نغمہ سرا ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

    کہتے ہیں کہ گرامو فون ریکارڈنگ کے لیے گوہر جان صبح 9 بجے زیورات سے لدی پھندی اپنے سازندوں کے ساتھ ہوٹل پہنچی تھیں جہاں‌ انھیں‌ بلایا گیا تھا۔ یہ تین منٹ کی ریکارڈنگ تھی جو گوہر جان اور ان کے سازندوں کے لیے ایک نہایت اہم اور یادگار موقع تھا۔ ریکارڈ پر لیبل لگانے میں آسانی کی غرض سے اور محفوظ کی گئی آواز کی شناخت کے لیے انگریزی زبان میں گوہر جان نے مخصوص جملہ ‘مائی نیم از گوہر جان’ بھی ادا کیا تھا۔

  • آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جو اپنے فکاہیہ کالموں کی بدولت دنیا بھر میں پہچانے گئے

    آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جو اپنے فکاہیہ کالموں کی بدولت دنیا بھر میں پہچانے گئے

    آرٹ بکوالڈ کو کالم نگار کے طور پر ان کے موضوعات اور اسلوب نے دنیا بھر میں‌ شہرت دی۔ 1970ء کی دہائی میں امریکا میں‌ ان کے لاکھوں مداح تھے۔ ان کے کالم پانچ سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونے والی ان کی تحریروں میں سیاست اور سماج پر گہرا طنز ملتا ہے جس نے انھیں ہم عصروں سے جداگانہ شناخت دی۔

    اس امریکی فکاہیہ نگار کا سنِ پیدائش 1925ء ہے۔ انھوں نے نیویارک کے ایک یہودی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ آرٹ بکوالڈ نے لگ بھگ 40 برس تک کالم نگاری کی اور تیس سے زائد کتابوں کے مصنّف بنے۔ ان کی تحریروں میں سیاسی طنز کے ساتھ مختلف موضوعات پر ان کی رائے اور منفرد تبصرے ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور جرائد کی زینت بنتے تھے۔ اپنے زمانے میں امریکی صحافت میں نصف صدی تک آرٹ بکوالڈ کا نام سیاسی طنز نگار کے طور پر گونجتا رہا۔

    بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں اس وقت شائع ہوا جب وہ پیرس میں رہائش پزیر تھے۔ امریکا لوٹنے پر انھوں نے اپنے کالموں میں طنز و مزاح کا وہ انداز اپنایا جس نے عام لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ وہ خاص طور امریکا کے اعلیٰ طبقے کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے تھے۔ بکوالڈ نے واشنگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو اپنی تحریر کا اس خوب صورتی سے موضوع بنایا کہ سیاست اور سماج کے مختلف طبقات میں مقبول ہوگئے۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے نمایاں تبصرے پر پلٹزر انعام بھی دیا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر اپنے مقدمے میں دعویٰ کیا تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ نے نو لاکھ ڈالر جیتے۔ اس مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے قانون میں تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کا بنیادی خیال پیش کرنے والے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ارد گرد بکھرے ہوئے موضوعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے اور اپنے مختصر جملوں میں چونکا دینے والی باتیں کر جاتے تھے ان کا طرزِ بیان سیدھا دل میں اتر جاتا اور ان کا طنز مزاح کی چاشنی میں‌ ڈھل کر نہایت بلیغ اور وسیع شکل اختیار کرجاتا۔ بکوالڈ کی یہ شہرت اور شناخت آج بھی قائم ہے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اپنے تخلیقی صلاحیت اور قلم کی انفرادیت کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔

  • اردو زبان کے مقبول شاعر محسن بھوپالی کی برسی

    اردو زبان کے مقبول شاعر محسن بھوپالی کی برسی

    محسن بھوپالی نے اردو میں‌ رائج اصنافِ سخن کو ندرتِ خیال کے ساتھ اپنے اسلوب ہی سے نہیں سجایا بلکہ اسے ایک نئی صنف نظمانے بھی دی جسے ان کے ہم عصر شعرا اور نقّادوں نے بھی سراہا۔ وہ اردو کے مقبول شاعر تھے۔

    آج محسن بھوپالی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 17 جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ وہ 1932ء میں بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگپور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کرلی۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    تعلیم کے ساتھ ان کا ادب اور شاعری سے تعلق مضبوط تر ہوتا رہا اور ان کا کلام مختلف ادبی جریدوں اور اخبارات میں‌ شایع ہونے لگا۔ کراچی اور ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں میں محسن بھوپالی نے شرکت کی اور اپنے کلام پر خوب داد پائی۔ انھوں نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    محسن بھوپالی کا یہ قطعہ ان کی پہچان بن گیا تھا۔

    تلقین صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    ان کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہوا۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو کے اس مقبول شاعر کو کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی اختراع ہیں

    یومِ وفات: ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی اختراع ہیں

    ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی اختراع ہیں۔ انھیں مصوّرِ مشرق بھی کہا جاتا ہے۔ آج پاکستان کے اس ممتاز مصوّر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1975ء میں وفات پاگئے تھے۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی کا یومِ پیدائش 21 ستمبر 1897ء ہے۔ ان کا تعلق لاہور سے تھا۔ ان کے بزرگ شاہجہاں دور میں مشہور معمار رہے تھے۔ 1914ء میں میو اسکول آف آرٹس، لاہور سے امتحان پاس کرنے والے عبدالرّحمٰن چغتائی نے استاد میراں بخش سے فنِ مصوّری میں استفادہ کیا۔ وہ رنگوں اور موقلم کے ساتھ تخلیقی کام کرنے لگے اور ساتھ ہی میو اسکول میں تدریس کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔

    1919ء میں لاہور میں ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش منعقد ہوئی جس نے عبدالرّحمٰن چغتائی کو باقاعدہ فنی سفر شروع کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے بعد انھوں نے اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ماڈرن ریویو میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ ان کی یہ تصاویر شایع ہوئیں اور چغتائی صاحب کا فن شائقین اور ناقدین کے سامنے آیا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔

    عبدالرّحمن چغتائی نے اسی زمانے میں فنِ مصوّری میں اپنے اس جداگانہ اسلوب کو اپنایا جو بعد میں‌ چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی پہچان و شناخت بن گیا۔ وہ دو روایتو ں کے امین تھے، ایک طرف ترک، ایرانی اور مغل مصوری تھی تو دوسری جانب ہندوستانی مصوری کی بنیاد پر مبنی بنگالی آرٹ تھا، جس کا سرا دو ہزار سال پہلے کے ایلورا اور اجنتا کے غاروں میں بنائی گئی تصاویر سے جا ملتا ہے۔ یہ اسکول آف آرٹ اٹھارہویں صدی کے درمیان سے لے کر انیسویں صدی کے آغاز تک ہندوستانی مصوری کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا، جب کہ شوخ رنگوں والی ترکی اور ایرانی مصوری کے اثرات جب منی ایچر میں منتقل ہوئے تو ان کے اثر سے چغتائی بھی نہ بچ سکے۔ اسی لیے ہمیں چغتائی کے اسلوب میں دونوں فن ملے جلے نظر آتے ہیں۔

    مصوّرِ مشرق نے اسلامی، ہندو، بدھ ازم، مغل اور پنجاب کے موضوعات پر فن پارے تخلیق کیے۔ ان کی تصاویر آج بھی دنیا کی ممتاز آرٹ گیلریوں میں آویزاں ہیں۔ علّامہ اقبال، پکاسو اور ملکہ الزبتھ دوم جیسی شخصیات بھی ان کے فن کی معترف تھیں۔ 1924ء کی ویمبلے نمائش میں لاکھوں شائقین نے ان کے فن پاروں کو دیکھا اور سراہا۔

    1928ء میں مرقعِ چغتائی شایع ہوا جس میں عبدالرّحمٰن چغتائی نے غالب کے کلام کی کینوس پر تشریح کی تھی۔ گویا انھوں نے شاعری کو رنگوں سے آراستہ کیا تھا اور یہ اردو میں اپنے طرز کی پہلی کتاب تھی جسے بڑی پذیرائی ملی۔ 1935ء میں غالب کے کلام پر مبنی ان کی دوسری کتاب نقشِ چغتائی شایع ہوئی۔ یہ کتاب بھی بے حد مقبول ہوئی۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی موقلم ہی نہیں‌ قلم بھی تھامے رہے۔ انھوں نے افسانہ نگاری کی اور دو افسانوی مجموعے شایع کروائے۔

  • سلطان غیاث الدّین بلبن کا تذکرہ جسے قتل کے الزام میں عدالت میں‌ پیش ہونا پڑا

    سلطان غیاث الدّین بلبن کا تذکرہ جسے قتل کے الزام میں عدالت میں‌ پیش ہونا پڑا

    سلطان غیاث الدّین بلبن کا دورِ حکم رانی 1266ء سے شروع ہوتا ہے جو 1286ء میں اپنی وفات تک دہلی میں خاندانِ‌ غلاماں کا بہترین منتظم اور سلطان رہا۔ کہتے ہیں غیاث الدّین ایک زاہدِ بے ریا، انصاف پسند حکم راں اور ایسا سلطان تھا جو طریقِ جہاں بانی سے بخوبی واقف تھا۔

    سلطان میں خوفِ خدا اور اس کی انصاف پسندی کا ایک واقعہ یوں مشہور ہے کہ تیر اندازی کی مشق ہو رہی تھی۔ سلطان نے بھی نشانہ باندھا، ناگاہ ایک تیر تربیتی احاطے سے باہر سے گزرتے ہوئے کسی بچّے کو لگا جو موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ سلطان کو اس حادثے کی خبر نہ ہوئی، لیکن بچّے کی ماں قاضیِ شہر کے پاس چلی گئی اور ازروئے قانونِ شریعت داد رسی چاہی۔ قاضی نے سلطان کو طلب کرلیا اور ایک دُرہ مسندِ قضا کے نیچے چھپا کر رکھ دیا۔ سلطان نے حکم کی تعمیل کی اور ایک چھوٹی سی تلوار بغل میں چھپا کر قاضی کے سامنے پیش ہوگیا۔ سلطان غیاث الدین پر قتل کا جرم ثابت ہو گیا اور اسے قصاص میں قتل کرنے کا حکم جاری ہوتا ہے۔

    یہ منظر دیدنی تھا، سلطان ایک لاچار ملزم کی حیثیت سے کھڑا تھا۔ مستغثہ ممتا کی ٹیس کی وجہ سے سلطان پر خشمگیں نظریں گاڑی ہوئی تھی۔ سب کو لگا کہ سلطان اب تھوڑی دیر کا مہمان ہے اور جرم کی پاداش میں اس پر حدِ شرعی لاگو ہونے والی ہے۔ یکایک خاتون نے خون بہا کے عوض سلطان کو موت کے بے رحم شکنجے سے چھڑانے کا فیصلہ کیا۔

    قاضی صاحب کو اطلاع دی گئی اور مقدمے سے فراغت کے بعد قاضی نے سلطان کی تعظیم کی اور اسے مسند پر بٹھایا۔ سلطان نے بغل میں چھپائی ہوئی تلوار نکالی اور بولا، ’’قاضی صاحب اگر آپ قانونِ شریعت کی سرمو خلاف ورزی کرتے تو اس تلوار سے آپ کی گردن اُڑا دیتا۔‘‘ قاضی سراج الدین نے مسند کے نیچے چھپایا ہوا دُرہ نکالا اور فرمایا، ’’اے سلطان! اگر آج آپ شریعت کی حد سے ذرا بھی تجاوز کرتے تو اس دُرے سے آپ کی کھال اتار دیتا، آج ہم دونوں کے امتحان کا دن تھا۔‘‘

    تاریخ کے صفحات میں غیاث الدّین بلبن کا سنِ پیدائش 1200ء لکھا ہے۔ وہ 13 جنوری 1287ء کو وفات پا گیا تھا۔ بلبن سلطنتِ دہلی پر حکومت کرنے والے خاندانِ غلاماں کا آٹھواں سلطان تھا۔ وہ ایک ترک تھا اور بطور غلام ہندوستان لایا گیا تھا جو شہروں شہروں اور بازار میں خرید و فروخت کے بعد سلطان التمش تک پہنچا تھا۔ التمش نے اسے مقربین میں شامل کیا اور ایک وقت آیا کہ بلبن بھی دہلی کے تحت پر بیٹھا اور حکم رانی کی۔ اس نے اپنے دور میں فتوحات سے زیادہ اپنے پیش رو کے زیرِ نگیں علاقوں پر مکمل کنٹرول رکھا اور امرا اور سرداروں کا زور توڑ کر مرکزی حکومت کو مضبوط کیا۔ بغاوتوں کو سختی سے کچل کر ملک میں امن و امان قائم کیا اور سلطنت کو منگولوں کے حملے سے بچایا۔

    بلبن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک مدبّر، بہادر اور انصاف پسند بادشاہ تھا۔ علما و فضلا کا قدر دان تھا۔ رعایا کے لیے بڑا فیاض تھا۔

    غیاث الدین بلبن کا مقبرہ مہرولی، نئی دہلی، ہندوستان میں دریافت ہوا۔ یہ مقبرہ اسلامی فنِ تعمیر میں تاریخی اہمیت کی حامل عمارت ہے۔

  • خطروں سے کھیلنے والی میری این ایوانز کا تذکرہ جنھیں نادیہ کے نام سے شہرت ملی

    خطروں سے کھیلنے والی میری این ایوانز کا تذکرہ جنھیں نادیہ کے نام سے شہرت ملی

    میری این ایوانز المعروف نادیہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی وومن اسٹنٹ تھیں۔ انھیں بے خوف نادیہ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ انھوں‌ نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی خطرناک مناظر عکس بند کروائے تھے۔

    وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے ایسے اسٹنٹ کیے جنھیں بظاہر بہادر اور مضبوط اعصاب کے مالک مرد بھی شاید کرنے سے انکار کردیتے، لیکن نادیہ نے فلمی دنیا کے لیے حقیقی خطروں کا سامنا کیا اور خوب شہرت پائی۔ وہ 1930ء اور 1940ء کے عشرے میں ہندوستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔

    نادیہ نے ہیروئن یا کسی دوسرے اہم کردار کی جگہ گھڑ سواری کی، پہاڑیوں پر جان بچانے کے لیے بھاگیں، کود کر باڑ عبور کی۔ اسی طرح تیز رفتار ٹرین میں فائٹنگ کے مناظر عکس بند کرواتی اور ندی یا دریا عبور کرکے پار پہنچنے کی کوشش کرتی دکھائی دیں۔ انھوں نے فلم کے سین کی ڈیمانڈ کے لیے خطرناک جانوروں کا سامنا کیا، گھوڑے کی پیٹھ سے چھلانگ لگائی، تلوار چلائی اور انھیں فضا میں ہوائی جہاز سے بھی لٹکتا ہوا دیکھا گیا۔ انھوں نے نہایت سنسنی خیز اور جان کو خطرے میں‌ ڈال دینے والے سین کیے جس پر انھیں ’اسنٹنٹ کوئن‘ کہا جانے لگا تھا۔

    نادیہ کا جنم آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں سن 1908 میں ہوا تھا۔ ان کے والد برطانوی اور ماں یونان نسل کی تھیں۔ ان کے والد کا نام اسکاٹ مین ہربرٹ ایوانز تھا۔ وہ برطانوی فوج میں رضاکار تھے۔ میری 1913ء میں کم عمری ممبئی میں آئیں جب ان کے والد برطانوی فوجی کی حیثیت سے لڑ رہے تھے۔ 1915ء میں پہلی جنگِ عظیم میں محاذ پر بھیجے گئے اور وہاں‌ لڑائی کے دوران مارے گئے۔ تب نادیہ کی والدہ پشاور منتقل ہوگئیں۔ یہاں اپنے قیام کے دوران نادیہ نے گھڑ سواری اور رقص میں مہارت حاصل کی۔ وہ 1928ء میں ممبئی چلی گئیں‌ جہاں ابتدا میں سرکس میں کام کیا اور وہیں‌ انھیں نادیہ کا نام دیا گیا۔

    فلم ساز جمشید بومنا ہومی واڈیا (جے بی ایچ) نے انھیں بڑے پردے پر چھوٹا سا کردار دیا اور وہ 1933ء میں پہلی بار فلم ’دیش دیپک‘ میں نظر آئیں۔ نادیہ ایک مضبوط جسم کی مالک اور خاصی پھرتیلی تھیں جنھوں نے سرکس سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور اسی بنیاد پر مسٹر واڈیا نے ان کی شخصیت کے مطابق ایک فلم ’ہنٹر والی‘ بنائی، اور نادیہ کو مرکزی کردار سونپا۔ اس فلم میں وہ ایک شہزادی بنی تھیں‌، جو اپنے والد کی سلطنت میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف لڑتی ہے۔ یہ فلم ہٹ ہوئی۔ نادیہ نے اپنے فلمی کیریئر کے دوران کل 38 فلموں میں کردار ادا کیے اور مختلف اسٹنٹ کیے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کے زیادہ تر کردار ناانصافی کے خلاف اور عورت کے حق کے لیے لڑائی والے تھے، جس نے نادیہ کو ہندوستانیوں‌ سے توجہ اور محبّت سمیٹنے کا موقع دیا اور وہ صرف اداکارہ ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سماجی کارکن کے طور پر بھی دیکھی گئیں۔

    نادیہ نے فلم ساز ہومی واڈیا سے شادی کی تھی۔ وہ 8 جنوری 1908ء کو پیدا ہوئی تھیں اور ممبئی میں 9 جنوری 1996ء کو وفات پائی۔

  • نذرُ السلام کا تذکرہ جو "شاہ خرچ” مشہور تھے!

    نذرُ السلام کا تذکرہ جو "شاہ خرچ” مشہور تھے!

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور کا ایک نام نذرُ الاسلام بھی ہے جو اعلیٰ دماغ اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے ہدایت کار تھے جنھوں نے کم مگر نہایت معیاری فلمیں‌ بنائیں۔ وہ فلم نگری میں‌ "دادا” مشہور تھے۔

    نذر الاسلام کلکتہ میں‌ 1939ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد ڈھاکا چلے گئے اور پھر وہاں چند فلمیں بنانے کے بعد لاہور آ بسے۔ اسی شہر میں 11 جنوری 1994ء کو وفات پائی اور پیوندِ خاک ہوئے۔

    نذرُ السلام "شاہ خرچ” بھی تھے۔ جو شاٹ پسند نہ آتا، اسے دوبارہ فلماتے اور اپنے کام کو خاصا وقت دیتے۔ وہ کم گو بھی تھے اور بہت زیادہ سوچنے کے عادی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کام بڑا ستھرا اور معیاری ہوتا تھا۔ وہ اپنی اسی بلند خیالی کے اعتبار سے دوسرے ہدایت کاروں سے الگ نظر آتے ہیں۔ وہ فوٹوگرافی اور میوزک کو بہت سمجھتے تھے، بالخصوص گانوں کی پکچرائزیشن اور اس کی کٹنگ میں انھیں کمال حاصل تھا۔

    وہ نیو تھیٹرز کلکتہ کے دبستان کے نمائندہ ہدایت کار تھے۔ ان کی فنی زندگی کا آغاز ڈھاکا سے بطور تدوین کار ہوا تھا۔ چند بنگالی فلموں کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے بعد جب وہ پاکستان آئے تو یہاں فلم ساز الیاس رشیدی کے ساتھ فلمی سفر شروع کیا۔ ان کی فلموں میں حقیقت، شرافت، آئینہ، امبر، زندگی، بندش، نہیں ابھی نہیں، آنگن، دیوانے دو، لو اسٹوری، میڈم باوری کے نام سرفہرست ہیں۔ یہ وہ فلمیں تھیں جنھیں باکس آفس پر زبردست کام یابی ملی۔

    بطور ہدایات کار نذرُ الاسلام کی آخری فلم لیلیٰ تھی۔ یہ ان کی وفات کے بعد نمائش پذیر ہوئی تھی۔

  • یومِ وفات: نام وَر ادیب اور شاعر ابنِ انشا کو بطور مزاح نگار زیادہ شہرت ملی

    یومِ وفات: نام وَر ادیب اور شاعر ابنِ انشا کو بطور مزاح نگار زیادہ شہرت ملی

    اردو ادب میں‌ ابنِ انشا کو ان کی تخلیقات کی بدولت جو مقام حاصل ہے، اس میں وہ نظم اور نثر دونوں اصناف پر حاوی نظر آتے ہیں۔ ایک طرف شاعری، بالخصوص ان کی نظموں اور دوسری جانب ان کی مزاحیہ تحریروں نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ کالم نویسی اور سفرنامہ نگاری ان کا ایک ایسا مستند حوالہ ہے جو ان کے منفرد اسلوب کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے۔ آج ابنِ انشا کا یومِ وفات ہے۔

    سرطان کے مرض نے ابنِ انشا کو ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا تھا وہ علاج کی غرض سے لندن میں تھے جہاں 11 جنوری 1978ء کو ان کے انتقال کے بعد میّت کراچی لائی اور اس شہر میں ابنِ انشا سپردِ خاک کیے گئے۔

    ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ وہ 15 جون 1927ء کو ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا تھا اور بعد میں باتیں انشا جی کے نام سے لکھنے لگے، وہ روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی اور بعد میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور طویل عرصہ تک نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    ابنِ انشا کا پہلا مجموعۂ کلام ’’چاند نگر‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں ’’اس بستی کے ایک کوچے‘‘ میں اور ’’دلِ وحشی‘‘ شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے شاعری بھی کی اور نثر بھی لکھی۔ متعدد کتب کا اردو ترجمہ کیا اور خوب صورت سفرنامے بھی لکھے جن میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر شامل ہیں۔

    مرحوم کی دیگر کتابوں میں اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی اور قصّہ ایک کنوارے کا بہت مقبول ہوئیں۔ مکتوبات بھی ان کے اسلوب اور دل چسپ انداز کے سبب قارئین میں مقبول تھے اور ابنِ انشا کے خطوط کتابی شکل میں بھی شایع ہوئے۔

    ابنِ انشا کی یہ غزل بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
    وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

    اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی
    جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

    شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے میں
    کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا

    اس حُسن کے سچّے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
    جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

    اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
    یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

    اُس روز جو ان کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
    اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

    جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بَن میں نہ جا بسرام کرے
    دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

    ابنِ انشا نے محض 51 برس کی عمر میں‌ یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ وہ اپنے اہلِ قلم احباب میں بھی بہت پسند کیے جاتے تھے۔ ادیبوں اور شاعروں کی زندگی کے بعض واقعات پُرلطف بھی ہیں اور ان کی شخصیت کی کم زوریوں یا خوبیوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ یہاں ہم ممتاز مفتی کی کتاب اور اوکھے لوگ سے ابنِ انشا سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں۔

    "احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ابنِ انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا، ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا تھا جو پہلے ہی کسی اور کی ہو چکی تھی اور شادی شدہ اور بچّوں والی تھی جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہم دردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ جس سے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔

    مواقع تو ملے، مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی، اس کی ہمّت نہ پڑی۔ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا: ’’یار اُسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔‘‘

    اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی پھر عاشق کا جلال جاگتا، وہ کہتا: ’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘

    محبوبہ تیز طرّار تھی، دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔ اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔ انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔

    دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔

    ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔ میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تنخواہ لگ جائے گی۔

    انشا بولا۔ ’’مفتی جی، تمہیں پتا نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا، شہرت دی، زندگی دی!‘‘ انشا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔