Tag: جنوری وفات

  • بمل رائے: ایک عظیم ہدایت کار جو اعلیٰ‌ انسانی اقدار پر یقین رکھتا تھا

    بمل رائے: ایک عظیم ہدایت کار جو اعلیٰ‌ انسانی اقدار پر یقین رکھتا تھا

    بمل رائے نے ہندی سنیما کو کئی یادگار فلمیں دیں جو میل کا پتھر ثابت ہوئیں۔ وہ ایسے عظیم فن کار تھے جو اعلیٰ انسانی قدروں پر یقین رکھتے تھے اور انھوں نے بامقصد و تعمیری سوچ کے ساتھ فلمیں‌ بنائیں۔

    بمل رائے ممبئی میں‌ 7 جنوری 1966ء کو چل بسے تھے۔ ان کی عمر 56 سال تھی۔ ان کا تعلق سو پور سے تھا جو آج بنگلہ دیش کا حصّہ ہے۔

    بمل رائے نے 1909ء کو ایک زمین دار گھرانے میں آنکھ کھولی اور والد کی وفات کے بعد کنبے کی ذمہ داریاں ان پر آن پڑیں۔ تقیسمِ ہند کے بعد انھوں نے نوجوانی میں‌ کلکتہ کا رخ کیا جہاں‌ فلمیں‌ بنائی جاتی تھیں۔ بمل رائے باصلاحیت اور نہایت ذہین تھے۔ بمل رائے فلمی ہدایت کار بننے سے قبل ایک فوٹو گرافر کی حیثیت سے مشہور ہوچکے تھے۔ وہ اپنے کام میں‌ ماہر تھے اور اسی کی بدولت فلمی دنیا میں‌ قسمت نے ان پر یاوری کی اور ان کے سفر کا آغاز اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ہوا، اس حیثیت میں کام کرکے انھوں نے اپنے علم اور تجربے میں اضافہ کیا۔ بعد میں بمبئی چلے گئے جہاں‌ فلمی صنعت عروج پارہی تھی۔ اس شہر میں‌ انھوں نے بھرپور انداز سے اپنے فنی اور تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ وہ بنگلہ اور ہندی سنیما کے کامل ہدایت کاروں میں شمار ہوئے۔

    دو بیگھا ان کی وہ فلم تھی جس نے زمین داروں اور ساہو کاروں کے ساتھ ایک کسان کی زندگی کو پردے پر پیش کیا۔ اس فلم نے تہلکہ مچا دیا۔ انھیں‌ عالمی فلمی میلے اور مقامی فلمی صنعت کے کئی ایوارڈ دیے گئے۔

    بنگلہ فلموں کے بعد ہندی سنیما میں‌ انھوں نے سماجی موضوعات پر ایسی شان دار فلمیں دیں‌ جن کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ وہ نظریاتی آدمی تھے اور اپنے فن کو بامقصد اور تعمیری انداز میں‌ پیش کرنا جانتے تھے۔ بمل رائے ذات پات کے مخالف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فلموں میں محکوم اور پسے ہوئے طبقات اور استحصال کا شکار افراد کی زندگی کو پیش کیا۔

    اس عظیم ہدایت کار نے اپنی فلموں کے ذریعے سماجی انقلاب لانے کی کوشش اور ناانصافیوں کی نشان دہی کرتے رہے۔ وہ فلم کی چکاچوند اور جگمگاتی ہوئی دنیا میں اپنے مقصد کو فراموش کرکے شہرت اور دولت کے پیچھے نہیں‌ بھاگے۔

    پرنیتا، دیو داس، سجاتا، پرکھ، بندنی اور مدھومتی وغیرہ بمل رائے کی شان دار فلمیں ہیں۔

  • یومِ وفات: "سیّد محمد جعفری کی مزاحیہ شاعری ماند پڑنے والی نہیں”

    یومِ وفات: "سیّد محمد جعفری کی مزاحیہ شاعری ماند پڑنے والی نہیں”

    سیّد محمد جعفری اردو شاعری میں ایسے مزاح گو مشہور ہیں جنھیں صاحبِ اسلوب کہا جاتا ہے اور جن کا کلام فنی اعتبار سے نہایت بلند ہے۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، لیکن ان مزاحیہ شاعری بھی ماند پڑنے والی نہیں جس کا ایک سبب یہ ہے کہ سیّد محمد جعفری نے جن طبقات اور مسائل کو موضوع بنایا، وہ آج بھی برقرار ہیں۔

    سیّد محمد جعفری 7 جنوری 1976ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے 27 دسمبر 1905ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقے بھرت پور کے ایک ذی علم گھرانے میں آنکھ کھولی۔والد بسلسلہ ملازمت لاہور چلے آئے جہاں سیّد محمد جعفری کا بچپن گزرا اور اسی شہر میں تعلیم و تربیت پائی۔ میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اور کیمیا کے مضمون میں‌ بی ایس سی (آنرز) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں ایم اے (فارسی) اور ایم او اے (ماسٹر آف اورینٹل) اورینٹل کالج لاہور سے پاس کیا۔ میو اسکول آف آرٹس لاہور سے مصوّری اور سنگ تراشی کی تعلیم حاصل کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سیّد محمد جعفری کو مرکزی محکمۂ اطلاعات میں اہم منصب پر فائز کردیا گیا۔ اسی دوران ایران میں بحیثیت پریس اور کلچرل اتاشی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ اس سے قبل برطانوی ہند کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارے پریس انفامیشن ڈیپارٹمنٹ، دہلی سے وابستگی کے بعد کراچی، لاہور، تہران اور ایران میں خدمات انجام دے چکے تھے۔

    سیّد محمد جعفری نے سیاسی اور سماجی موضوعات پر لگ بھگ 900 نظمیں تحریر کیں۔ ان کے یہاں کلاسیکی شاعری کی تمام التزامات نظر آتے ہیں، خصوصاً غالب اور اقبال کے جن مصرعوں کی تضمین کی ہے اس کی اردو شاعری میں مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس ممتاز مزاح گو شاعر کے کلام کی سب سے بڑی خوبی نکتہ سنجی ہے اور یہ شاعری شادابی اور شگفتگی کا آئینہ ہے۔ انھوں‌ نے تضمین اور تحریف کے ساتھ مختلف موضوعات کو اپنی مزاحیہ شاعری میں سمیٹا ہے۔

    سیّد محمد جعفری کی وفات کے بعد ان کی شاعری کے دو مجموعے شوخیٔ تحریر، تیر نیم کش اور بعد میں کلیات شائع ہوئی۔ امتحان کے عنوان سے ان کی ایک مزاحیہ نظم یہاں ہم نمونۂ کلام کے طور پر نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    "امتحان”
    امتحاں سر پر ہے لڑکے لڑکیاں ہیں اور کتاب
    ڈیٹ شیٹ آئی تو گویا آ گیا یوم الحساب

    صرف اک کاغذ کے پرزے سے ہوا یہ انقلاب
    خود بہ خود ہر اک شرارت کا ہوا ہے سد باب

    پہلے تھیں وہ شوخیاں جو آفت جاں ہو گئیں
    ”لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں”

    وقت رٹنے کے لیے کم رہ گیا زیادہ ہے کام
    سال بھر جن کو نہ دیکھا وہ خلاصے نیک نام

    سامنے رکھے ہیں ان کو جھک کے کرتے ہیں سلام
    ان کی پوجا ہی میں سارا وقت ہوتا ہے تمام

    ٹیلی ویژن بھی نہیں غائب ہوئے ہیں سارے کھیل
    ڈال کر کولہو میں بچوں کو نکالو ان کا تیل

    آج کل بھولے ہوئے ہیں سب الیکشن اور ڈیبیٹ
    پریکٹیکل کی کاپیوں کے آج کل بھرتے ہیں پیٹ

    حاضری اب کون بولے کون اب آئے گا لیٹ
    کالج اور اسکول ہیں سنسان خالی ان کے گیٹ

    بند ہے کمرے کے اندر گردش لیل و نہار
    کیا خبر آئی خزاں کب کب گئی فصل بہار

    امتحاں کا بھوت ہے یا ہے قیامت کا سماں
    امی اور ابا سے چھپ کر رو رہی ہیں لڑکیاں

    کہتے ہیں لڑکے کیا کرتے تھے جو اٹکھیلیاں
    ”یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں”

    اب ہرن کی طرح سے بھولے ہوئے ہیں چوکڑی
    اس قدر رٹنا پڑا ہے جل اٹھی ہے کھوپڑی

    حال پر بچوں کے ہیں بے حد پریشاں والدین
    ساتھ میں اولاد کے ان کا اڑا جاتا ہے چین

    گرچہ ہے تعلیم اور رٹنے میں بعد المشرقین
    سوچتے ہیں وہ کہ اچھا ذہن ہے خالق کی دین

    کیا خبر تھی اس طرح جی کا زیاں ہو جائے گا
    ”یعنی یہ پہلے ہی نذر امتحاں ہو جائے گا”

    رات بھر جاگیں گے وہ جو سال بھر سوتے رہے
    کاٹنے جاتے ہیں گندم گرچہ جو بوتے رہے

    کیا توقع ان سے رکھیں فیل جو ہوتے رہے
    نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے

    نقش فریادی ہے ان کی شوخی تحریر کا
    معرکہ ہوتا ہے اب تدبیر کا تقدیر کا

    جو سوال امپارٹینٹ آتا ہے ہر اک باب میں
    غور سے دیکھا ہے اس کو دن دہاڑے خواب میں

    ہو گیا ہوں اس لیے بد نام میں اصحاب میں
    آؤٹ کر ڈالا ہے پیپر عالم اسباب میں

    کچھ تو ہے آخر جو گیس پیپر میں آیا یاد تھا
    جس نے پیپر سیٹ کیا ہے وہ مرا استاد تھا

  • پاکستانی فن کاروں کی حمایت پر بھارت میں تنقید کا سامنا کرنے والے اوم پوری کا تذکرہ

    پاکستانی فن کاروں کی حمایت پر بھارت میں تنقید کا سامنا کرنے والے اوم پوری کا تذکرہ

    تھیٹر پر اداکاری کے ساتھ 1970ء کے عشرے میں اوم پوری نے مراٹھی فلم میں کردار نبھا کر اپنے جس فلمی سفر کا آغاز کیا تھا وہ بعد میں‌ ہندی سنیما سے ہالی وڈ تک دراز ہوگیا۔ انھوں نے چند پاکستانی فلموں میں بھی اداکاری کی تھی۔ اوم پوری 2017ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    ہالی وڈ میں انھیں ’سٹی آف جوائے‘، ’وولف‘ اور ’دی گھوسٹ اینڈ دی ڈارک نیس‘ جیسی فلموں میں کام کرتے دیکھا گیا۔ اوم پوری نے ’ایسٹ اِز ایسٹ‘ ، ’دی پیرول آفیسر‘ سمیت متعدد برطانوی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 2014ء میں‌ انھوں نے ’دی ہنڈرڈ فُٹ جرنی‘ میں‌ کام کیا تھا جب کہ مشہورِ‌ زمانہ فلم ’گاندھی‘ میں انھوں نے یادگار پرفارمنس دی تھی۔

    اوم پوری 1950ء میں بھارتی ریاست ہریانہ کے شہر انبالہ کے ایک پنجابی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے پُونے کے فلم اینڈ ٹیلی وژن انسٹیٹیوٹ سے گریجویشن کی اور 1973ء میں نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں داخلہ لیا۔

    ان کا شمار ایسے فن کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے آرٹ اور کمرشل فلموں کے کئی کرداروں کو یادگار بنا دیا۔ وہ ’آکروش‘، ’ماچس‘، ’گُپت‘، ’دھوپ‘ اور ’بجرنگی بھائی جان‘ جیسی کام یاب ہندی فلموں میں‌ نظر آئے۔ اوم پوری مشکل کردار نبھانے کے لیے تیّار رہتے تھے۔ انھیں بالی وڈ میں ہرفن مولا شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔

    اوم پوری تھیٹر کے اداکار تھے۔ فلم نگری میں آنے سے قبل وہ تھیٹر پر کئی ڈرامے کرچکے تھے۔ اوم پوری کو ان کی بہترین اداکاری پر دو نیشنل فلم ایوارڈز سمیت کئی اعزازات دیے گئے۔ سنجیدہ کرداروں کے ساتھ انھوں نے ہلکے پھلکے تفریحی اور مزاحیہ کردار بھی نہایت خوبی سے نبھائے اور شائقینِ سنیما کے دلوں میں‌ جگہ پائی۔

  • لاہور کا چیلسی لکھنے والے حکیم احمد شجاع کون تھے؟

    لاہور کا چیلسی لکھنے والے حکیم احمد شجاع کون تھے؟

    آج حکیم احمد شجاع کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ انشا پرداز، افسانہ نگار، شاعر اور ڈراما نویس کی حیثیت سے اردو ادب میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔

    4 جنوری 1969ء کو لاہور میں وفات پانے والے حکیم احمد شجاع کی پیدائش کا سن 1896ء ہے۔ انھوں نے لاہور سے میٹرک اور ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کیا۔ میرٹھ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی اور شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔

    1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہوئے اور وہاں سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ وہ مجلسِ زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔

    حکیم احمد شجاع کو اردو کے صفِ اوّل کے ڈرامہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانے اور ناول ہی نہیں فلموں کا اسکرپٹ بھی لکھا۔ ان کا طرزِ تحریر منفرد اور اسلوب شان دار تھا۔ خوں بہا کے نام سے ان کی ایک خود نوشت بھی شایع ہوئی۔ حکیم احمد شجاع نے لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی تاریخ کو لاہور کا چیلسی کے نام سے رقم کیا۔

    وہ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • انگریزی کے مشہور شاعر اور نقّاد ٹی ایس ایلیٹ کا تذکرہ

    انگریزی کے مشہور شاعر اور نقّاد ٹی ایس ایلیٹ کا تذکرہ

    1917ء سے 1964ء تک ٹی۔ ایس ایلیٹ انگریزی ہی نہیں عالمی ادب میں‌ بھی ایک عظیم شاعر اور نقّاد کے طور پر پہچان بنانے میں‌ کام یاب رہا۔ وہ 4 جنوری 1965ء کو 77 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوگیا تھا

    انگریزی زبان کا یہ مشہور شاعر اور نقّاد 1888ء میں‌ سینٹ لوئیس، امریکا میں پیدا ہوا۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کا پروفیسر مقرر ہوگیا۔ 1915ء میں وہ برطانیہ چلا گیا اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

    ٹی ایس ایلیٹ نے 1922ء میں ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا جو آٹھ سال بعد ہو گیا۔ اسے 1948ء میں ادب کا نوبل پرائز دیا گیا۔ اگرچہ اس کے افکار اور مضامین پر اسے کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن ادب پر اس کی تنقید کے اثرات کم نہیں‌ ہوئے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں شاعری کا پروفیسر مقرر ہو گیا۔ اس وقت تک وہ اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کے سبب مشہور ہوچکا تھا۔ اس نے متعدد منظوم ڈرامے لکھے اور اپنے تنقیدی نظریات کے سبب دنیا بھر میں‌ نام کمایا۔

    اس نے اپنے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں تنقیدی مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے اور جب ”روایت اور انفرادی صلاحیت“ کے عنوان سے مضمون سامنے آیا تو اس نے کئی مباحث کو جنم دیا۔ اس کی تحریروں میں مذہب اور معاشرے کی تہذیبی و اخلاقی اقدار کو اہمیت دی گئی ہے۔ ایلیٹ روایت کا دلدادہ تھا۔ اسے رومانوی شاعری سے نفرت تھی۔

    معروف ادیب، محقّق اور نقّاد جمیل جالبی نے لکھا کہ ”ایلیٹ سے میری دل چسپی کا سبب یہ ہے کہ اس نے تنقید میں فکر کو جذب کر کے اسے ایک نئی قوّت دی ہے، اس لیے ان کی تنقید تاثراتی نہیں ہے اور اس کا طرزِ تحریر، تجزیہ و تحلیل حد درجہ سائنٹفک ہے۔ وہ اپنے خوب صورت جمے ہوئے انداز میں ٹھنڈے ٹھنڈے باوقار طریقے سے بات کرتا ہے۔ قدیم شعراء میں سے چند کو خاص دل چسپی کا محور بنا لیتا ہے۔ اور وہ ایسے شعراء ہیں جنھوں نے ماضی سے شدّت کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑا ہے۔“

  • البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو نے 1913ء میں الجزائر میں‌ آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہاں فرانسیسی قابض تھے اور طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد یہاں کے عوام نے آزادی حاصل کی تھی۔

    کامیو شمالی افریقہ میں‌ پلا بڑھا اور پھر فرانس چلا گیا جہاں جرمنی کے قبضے کے بعد وہ خاصا متحرک رہا اور ایک اخبار کا مدیر بن گیا۔ اس کی مادری زبان فرانسیسی تھی۔ اسی زبان میں اس نے ناول نگاری سے صحافت تک اپنا تخلیقی سفر بھی طے کیا اور ایک فلسفی کی حیثیت سے بھی شہرت پائی۔ اس نے ناولوں کے ساتھ متعدد مضامین لکھے اور کتابیں‌ تصنیف کیں۔ اسے 1957ء میں‌ ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    البرٹ کامیو فرانسیسی نژاد اور ہسپانوی والدین کی اولاد تھا۔ اس نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور کم عمری میں اپنے والد کو کھو دیا۔ اسے مختلف کام کر کے گزر بسر کرنا پڑی۔

    ’’اجنبی‘‘ اس کا پہلا ناول تھا جس کی اشاعت نے اسے دنیا بھر میں شہرت دی۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی داستان تھی جسے اچانک اپنی ماں کے مر جانے کی خبر ملتی ہے۔ وہ اس خبر کو سننے کے بعد سے اپنی ماں کی تدفین تک تمام معاملات سے جذباتی طور پر قطعی لاتعلق رہتا ہے۔

    کامیو کے اس ناول کو دو عالمی جنگوں کے فوراََ بعد یورپ میں پھیلی انسانی زندگی، معاشرتی رشتوں اور ریاستی معاملات پر لوگوں کے بے تعلق ہوجانے کا مؤثر ترین اظہار ٹھہرایا گیا۔ وہ ایک ایسے ناول نگار کے طور پر دنیا میں‌ مشہور ہوا جس نے فلسفے کو نہایت خوبی سے اپنی کہانیوں میں‌ پیش کیا اور اسے مؤثر و قابلِ‌ قبول بنایا۔ اس نے الجیریا میں‌ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران ٹی بی جیسے مرض سے بھی مقابلہ کیا۔ اس وقت یہ مرض خطرناک اور جان لیوا تصوّر کیا جاتا تھا اور لوگ ایسے مریضوں‌ سے دور رہتے تھے۔ غربت اور ان حالات نے اسے فلسفے کے زیرِ اثر رشتوں اور تعلقات کو کھوجنے پر آمادہ کیا اور اس نے اپنے تخلیقی شعور سے کام لے کر ان مسائل کو اجاگر کیا۔

    ’’متھ آف سی فس‘‘ میں کامیو نے لایعنیت کا فلسفہ پیش کیا۔ ناول کی صورت میں اس فلسفے کی اطلاقی شکل ’’اجنبی ‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ کامیو کا ناول ’’طاعون‘‘ بھی دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس کے ڈرامے اور ناولوں کے ساتھ فلسفے پر مبنی تصانیف نے علمی اور ادبی حلقوں‌ کو بہت متاثر کیا۔

    فرانس کے اس فلسفی اور ناول نگار نے 4 جنوری 1960ء کو ایک حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا تھا۔

  • ہندوستان کی آزادی کے متوالے مولانا محمد علی جوہر کی برسی

    ہندوستان کی آزادی کے متوالے مولانا محمد علی جوہر کی برسی

    آج مولانا محمد علی جوہر کا یومِ وفات ہے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے بے لوث خدمت گار، تحریکِ خلاف کے متوالے اور جدوجہدِ آزدی کے راہ نما تھے۔

    4 جنوری 1931ء کو وفات پانے والے مولانا محمد علی جوہر کا تعلق رام پور سے تھا۔ وہ 10 دسمبر 1878ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1898ء میں گریجویشن اور اوکسفرڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے جہاں سیاسی اور سماجی میدان میں تبدیلیاں اور مختلف تحاریک کا زور تھا۔ اس وقت انھیں محسوس ہوا کہ قلم کی طاقت اور اخبار کے زور پر ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنا ہو گی اور تب انھوں نے صحافت کا آغاز کیا۔ ان کے انگریزی اخبار کامریڈ کو کو ہندوستان بھر میں شہرت ملی۔

    اسی زمانے میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو مولانا محمد علی جوہر اس سے وابستہ ہوگئے اور عملی سیاست شروع کی۔

    مولانا کی قابلیت اور ان کے فہم و تدبر نے انھیں اس تنظیم کا دستور مرتب کرنے کا موقع بھی دیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد مولانا محمد علی جوہر نے اپنے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کے ساتھ اس وقت زور پکڑنے والی تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترک موالات میں بڑا فعال کردار ادا کیا۔ مولانا جوہر کی والدہ اماں‌ بی کے نام سے مشہور تھیں۔ انھوں‌ نے ہندوستان میں‌ آزادی کی جدوجہد میں‌ مسلم لیگ کے لیے جلسے اور اس پلیٹ فارم پر خواتین کو اکٹھا کرنے میں‌ اہم کردار ادا کیا اور اپنے بیٹوں‌ کو بھی اسلام اور پاکستان کے نام پر مر مٹنے کا درس دیا۔

    تحریکِ خلافت کے دوران مولانا جوہر پر بغاوت کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔ بظاہر تحریک خلافت ناکام رہی، لیکن اس تحریک کے برصغیر اور یہاں کے مسلمانوں کے مستقبل پر ضرور اثرات مرتب ہوئے۔

    1928ء میں مولانا محمد علی جوہر نے نہرو رپورٹ کے جواب میں تیار کیے جانے والے قائداعظم کے چودہ نکات کی تیاری میں ان کی معاونت کی۔

    وہ ایک انقلابی اور سیاسی راہ نما ہی نہیں‌ بلکہ علم و ادب کے میدان میں‌ بھی اپنی انشا پردازی اور مختلف اصنافِ ادب میں‌ تخلیقات کی وجہ سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ انھیں شعر و ادب سے دلی شغف تھا۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں آزادی کے مضامین اور مجاہدانہ رنگ نظر آتا ہے۔ صحافت، علم و ادب اور جدوجہدِ آزادی کے اس عظیم راہ نما کو بیت المقدس میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ہے۔

    قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
    اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

  • منگولوں کو شکست دینے والا سلطان علاؤ الدّین خلجی محسن کُش بھی تھا!

    منگولوں کو شکست دینے والا سلطان علاؤ الدّین خلجی محسن کُش بھی تھا!

    علاؤ الدّین خلجی کی تاج پوشی کے موقع پر سلطنتِ دہلی کے دارُالحکومت میں‌ واقع شاہی محل میں‌ جشن کا ماحول تھا۔ 1296ء کو زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد علاؤ الدّین خلجی 1316ء میں اپنی وفات تک ہندوستان پر راج کرتا رہا۔ اس نے 4 جنوری کو دارِ فانی سے کوچ کیا۔

    تاریخ کے اوراق الٹیے تو معلوم ہوگا کہ علاؤ الدّین خلجی نے بھی اقتدار کے حصول کے لیے سازش رچی اور اپنے چچا جو اس کے سسر بھی تھے، ان کو قتل کروانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ ایک طرف وہ بہترین حکم ران اور دوسری جانب محسن کُش بھی مشہور ہوا۔

    مؤرخین نے خلجی خاندان کے اس دوسرے اور طاقت ور سلطان کی پیدائش کا سنہ 1266ء اور مقام دہلی لکھا ہے۔ وہ اس وقت کے بادشاہ جلال الدّین کے بڑے بھائی شہاب الدین مسعود کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس کا اصل نام علی گرشپ تھا جسے اس کے چچا جو اس وقت خلجی حکم ران تھے، نے بڑے ناز و نعم سے پالا۔

    علاؤ الدّین خلجی کو کم عمری ہی میں‌ تیر اندازی، نیزہ بازی، شکار اور گھڑ سواری کا شوق تھا۔ اس نے سپاہ گری میں مہارت حاصل کی اور بادشاہ کی نظر میں‌ اہمیت اختیار کرتا گیا۔ نوجوان علاؤ الدّین خلجی کو کڑہ کی بغاوت کو فرو کرنے کے لیے بھیجا گیا جس میں کام یابی کے بعد اسے وہاں کا گورنر بنا دیا گیا۔ بعد میں بادشاہ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی اپنے اس بھتیجے سے کردی۔

    مؤرخین نے علاؤ الدین خلجی کو انتظامی ذہانت سے مالا مال، باتدبیر اور حوصلہ مند حکم ران بھی لکھا ہے جس نے مضبوط اور منظّم فوج کے ساتھ کئی بغاوتوں کو کچلا اور کام یابی سے حکومت کی۔ جب منگولوں نے دہلی سلطنت کو روندنے کے لیے پیش قدمی کی تو سلطان ہی نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور بدترین شکست دی۔

    ایک جنگی مہم کے بعد اس نے ایک سازش کے تحت بادشاہ کو قتل کروا دیا اور اس کی جگہ تخت سنبھالا۔ علاؤ الدّین نے کام یابی سے حکومت کی لیکن بعد میں‌ اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور خلجی خاندان کا زوال ہوا۔

    تاریخ کے ماہرین نے اسے امورِ سلطنت میں قابل اور بہترین لکھا ہے۔ کہتے ہیں اس کے دور میں‌ بازاروں‌ پر انتظامیہ کا مکمل کنٹرول تھا، معاشی اصلاحات اور ایک منظّم محصول پالیسی تھی جو ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کا توڑ کرتی تھی۔ اس سے عوام کو براہِ راست فائدہ پہنچانا مقصود تھا، جب کہ ایک بڑا کارنامہ منگولوں کو کچلنا تھا۔

    سلطان کہلانے والے علاؤ الدّین خلجی کی زندگی کے آخری ایّام بیماری کے سبب بستر پر گزرے جہاں ان کا معتمدِ خاص ملک کافور تخت سے لے کر جانشینی تک کے معاملات نمٹانے میں پیش پیش رہا۔

  • پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی کا تذکرہ

    پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی کا تذکرہ

    ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی ایک سائنس دان اور ماہرِ تعلیم ہی نہیں‌ ادبی شخصیت اور ایسے اسکالر تھے جنھوں‌ نے ہر مضمون میں اپنی ذہانت، قابلیت اور استعدادا سے اساتذہ کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کے لیے اپنے اس لائق فائق شاگرد کو کسی ایک مضمون کا ماہر قرار دینا آسان نہ تھا۔ آج ڈاکٹر رضی الدّین کی برسی ہے۔

    ان کا پورا نام محمد رضی الدّین صدیقی تھا اور وطن حیدرآباد دکن جہاں انھوں‌ نے 7 اپریل 1905ء میں آنکھ کھولی۔ عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم کی تعلیم حاصل کرکے حیدرآباد دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا جہاں‌ اعلیٰ تعلیم بھی اردو زبان میں دی جاتی تھی۔

    وہ طبیعیات اور ریاضی کے ماہر تھے، لیکن لسانیات کے ساتھ ادب بھی ان کا مضمون رہا جس میں انھوں نے عربی اور فارسی میں اپنی قابلیت اور اقبالیات کے موضوع میں‌ تحقیقی اور تخلیقی کام کیا۔

    ڈاکٹر رضی الدّین کو کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ وہ داخلے کے امتحان میں اوّل آئے اور کیمبرج میں فزکس کے نوبل انعام یافتہ پال ڈیراک کے شاگردوں میں شامل رہے۔ انہی دنوں وہ فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کی نظروں میں آگئے اور انھوں‌ نے اپنے مضمون میں اس ہونہار اور نہایت قابل طالبِ علم کی راہ نمائی کی۔ کیمبرج سے ماسٹرز کرنے کے بعد ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی گئے اور اس زمانے میں آئن اسٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ سے بھی تعلیم حاصل کی۔

    پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے مشورے پر ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ اپنے تحقیقی مقالے لکھے جو ممتاز جرائد میں شائع ہوئے۔ 1931ء میں وہ حیدرآباد دکن واپس لوٹے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔ 1950ء میں وہ پاکستان آگئے۔

    ایک عظیم سائنس دان اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ انگریزی کلاسک کا بڑا حصہ ان کے زیرِ مطالعہ رہا جب کہ اردو اور فارسی ادب میں غالب، اقبال، حافظ اور شیرازی کو نہ صرف پڑھا بلکہ اقبال شناسی میں ماہر سمجھے گئے۔ اقبالیات کے موضوع پر ان کی دو تصانیف اقبال کا تصور زمان و مکان اور کلام اقبال میں موت و حیات شایع ہوئیں۔

    حکومتِ پاکستان نے 1960ء میں انھیں ستارۂ امتیاز اور 1981ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ کئی ملکی اور غیرملکی جامعات نے بھی انھیں اعزازات دیے۔ دنیائے سائنس کا یہ معتبر نام 2 جنوری 1998ء کو ہمیشہ کے ہم سے جدا ہوگیا۔