Tag: جنوری وفیات

  • منشی سجاد حسین:‌ اردو صحافت و ادب میں مزاح اور ظرافت نگاری کا بڑا نام

    منشی سجاد حسین:‌ اردو صحافت و ادب میں مزاح اور ظرافت نگاری کا بڑا نام

    اردو زبان کے معروف ناول نگار اور لکھنؤ سے نکلنے اردو کے مشہور ہفت روزہ اودھ پنچ کے مدیر منشی سجاد حسین کو آج کون جانتا ہے۔ اردو ادب اور صحافت کی دنیا کا یہ نام بڑا ہی نہیں بلکہ وہ نام تھا جس کے تخلیق کردہ کرداروں کو برطانوی ہندوستان اور تقسیم کے بعد بھی قارئین میں مقبولیت حاصل رہی۔

    منشی سجاد حسین ڈپٹی کلکٹر منصور علی کا کوروی کے بیٹے تھے۔ وہ 1856ء میں کاکوری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ اس کے بعد انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور مختلف قسم کے کام انجام دیے۔ فیض آباد چلے گئے اور کچھ دنوں تک فوجیوں کو اردو پڑھاتے رہے، پھر لکھنؤ واپس آکر 7 جنوری 1877ء میں اردو کا مشہور مزاحیہ اخبار اودھ پنچ نکالا۔ اس اخبار میں مزاحیہ اور طنزیہ مضامین کے علاوہ نظمیں اور غزلیں بھی شائع ہوتی تھیں۔ اودھ پنچ نے اردو نثر میں طنز و ظرافت کی روش کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس اخبار کی وجہ سے سرزمین ہند پر کئی نئے رسالوں کے لیے زمین ہموار ہوئی اور بعد میں اسی طرز پر اخبار نکالے گئے۔ اس اخبار نے مزاحیہ نگارشات کی اشاعت اور فروغ میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

    منشی سجاد حسین ایک صحافی کے علاوہ ادیب اور ناول نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی تصانیف میں حاجی بغلول، طرح دار لونڈی، پیاری دنیا، احمق الذین، میٹھی چھری، کایا پلٹ اور حیات شیح چلی نمایاں ہیں۔ منشی سجاد حسین اپنے مزاح کی وجہ سے بہت مشہور تھے اور ان کے مضامین ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کرلیتے تھے۔ مگر ان کا شمار اعلیٰ پائے کے ناول نگاروں میں بھی ہوتا ہے جو مزاحیہ ہی ہیں۔ ان کی زبان لکھنؤ کی بول چال کی زبان ہے اور اسی لیے ان کے کردار بھی عوام میں گویا اجنبی نہیں‌ رہے تھے۔ ان کے تخلیق کردہ کرداروں میں مقبول ترین ان کے ناول کا کردار حاجی بغلول ہے۔

    منشی سجاد کی تحریروں میں ہمیں مقصدیت ملتی ہے اور وہ سماج میں ناہمواریوں اور بدلتے ہوئے معاشی و معاشرتی پہلوؤں کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے اس پر تنقید کرتے رہے۔ حاجی بغلول منشی سجاد حسین کا وہ لازوال کردار ہے جسے ہر دور میں ناقدین نے سراہا اور ان کے ناولوں کو پسند کیا ہے۔

    منشی سجاد حسین فالج کی بیمای کے سبب 22 جنوری 1915ء کو انتقال کر گئے تھے۔

  • محمد حسین آزاد کا تذکرہ جنھیں اردو ادب میں آبِ حیات نے جاودانی عطا کی

    محمد حسین آزاد کا تذکرہ جنھیں اردو ادب میں آبِ حیات نے جاودانی عطا کی

    کیسے کیسے گوہرِ نایاب مٹی ہوگئے اور کیا نابغۂ روزگار شخصیات تھیں جو رزقِ خاک ہوئیں۔ وہ ادیب و شاعر جن کے فن کی عظمت کا تذکرہ اور قلم کی رفعت کا شہرہ کبھی ہر طرف ہوتا تھا، آج بتدریج ان کا نام ذہن سے اترتا جاتا ہے۔ یہ تذکرہ اردو کے صاحبِ طرز انشاء پرداز، بلند پایہ ادیب اور شاعر محمد حسین آزادؔ کا ہے جن کا آج یوم‌ِ وفات ہے۔ جب بھی اردو ادب کی تاریخ، اور اہلِ قلم کے فن و اسلوب کو موضوع بنایا جائے گا، اپنے زمانے کے اس بے مثل ادیب کا تذکرہ ضرور کیا جائے گا۔

    بلند پایہ اور صاحبِ طرز انشا پرداز، ناقد، محقق، شاعر اور صحافی محمد حسین آزادؔ کے فن اور ان کی شخصیت پر بات کرنے کو دفتر درکار ہے۔ ان کی ادبی تخلیقات اور اور زبان و ادب کے لیے خدمات کے کئی پہلو اور بہت سے گوشے تشنۂ تحقیق ہیں۔ جدید نثر کے معمار اور جدید نظم کی داغ بیل ڈالنے والے آزاد نے نیرنگِ خیال جیسی تصنیف کی شکل میں‌ اردو تنقید کو نقشِ اوّل عطا کیا۔ اپنے منفرد و بے مثل اسلوب کے ساتھ آزاد نے اس کتاب میں قدیم تذکروں کے مروجہ انداز سے انحراف کیا ہے۔ اسے نثر کا اعلیٰ نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ آگے ہم آبِ‌ حیات و دیگر کتابوں کا تذکرہ کریں گے، لیکن پہلے ان کے حالاتِ زیست پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    محمد حسین آزاد جنگ آزادی میں بغاوت کے بعد شہادت پانے والے پہلے ہندوستانی صحافی مولوی محمد باقر کے اکلوتے فرزند تھے۔ مولوی باقر اردو کے پہلے اخبار ‘دہلی اردو اخبار’ کے مالک اور ایڈیٹر تھے اور انگریز سامراج کے خلاف مضامین لکھتے اور شایع کرتے تھے۔ 1857 میں جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد جھوٹے الزام میں مولوی باقر کو گرفتار کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ محمد باقر تھا ظاہر ہے علمی و ادبی شخصیت تھے استاد ذوق کے دوست تھے۔ اور یوں آزادؔ کو ابتدائی تعلیم و تربیت کے لیے ذوق جیسے شاعر کی صحبت کے سایٔہ عاطفت نصیب ہوا۔ انہی سے موصوف نے شعر گوئی اور فنِ عروض سیکھا۔ عربی اور فارسی اپنے والد سے سیکھی تھی اور بعد میں دہلی کالج میں داخلہ لیا۔ شاعری کا شوق تو بچپن ہی میں ہوگیا تھا اور ذوقؔ کے ساتھ بڑے بڑے مشاعروں میں جاتے جہاں استاد شعراء کو سنتے تھے۔ والد کی شہادت کے بعد انھیں گھر بار چھوڑنا اور دہلی سے لکھنؤ فرار ہونا پڑا۔ املاک ضبط کر لی گئی۔ اور لکھنؤ میں رشتے داروں کے پاس رہنا پڑا۔ 1864ء میں ٹھوکریں کھانے کے بعد تلاش روزگار میں لاہور کا رخ کیا۔ ایک پوسٹ آفس میں عارضی ملازمت بھی کی۔ محکمہ تعلیم میں نوکری بھی کی اور انگریزوں کو اردو بھی پڑھائی۔ برطانوی دور کی حکومتِ پنجاب نے ان سے اردو کی درسی نصابی کتابیں بھی لکھوائیں۔ آزاد پر جب قسمت مہربان ہوئی تو گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی فارسی پڑھانے کی ذمہ داری مل گئی۔ معاشی حالات بہتر ہوئے تو آزاد کی ادبی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع ملا اور حالی کے ساتھ آزاد کا بھی جدید نظم کے موجدوں‌ میں‌ شمار ہوا۔ انھوں نے ایران، بخارا اور کابل کا سفر بھی کیا۔

    آزادؔ کو ان کے تعلیمی و تصنیفی اور سرکاری کارناموں کی وجہ سے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آغا محمد باقر لکھتے ہیں کہ: ‘‘۱۸۸۷ء میں مولانا آزاد ؔ کو ملکہ وکٹوریا کی جوبلی کے موقعہ پرتعلیمی اور ادبی خدمات کے صلے میں شمس العلماء کا خطاب ملا۔’’

    اردو ادب کو اپنی تخلیقات سے مالا مال کرنے والے محمد حسین آزاد کی شاہ کار اور یادگار تصانیف کا مختصر تعارف باذوق قارئین خاص طور پر ادب کے طلبہ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    آغاز کرتے ہیں قصصِ ہند سے جو تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ اس تصنیف میں پہلا حصہ ماسٹر پیارے لال آشوب کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کا تیسرا حصہ کرنل ہالرائیڈ کے ایما پر سر رشتۂ تعلیم پنجاب کے اراکین نے ترتیب دیا اور قصصِ ہند کا دوسرا حصہ محمد حسین آزادؔ کا پہلا ادبی اور علمی کارنامہ ہے۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک آزادؔ نے کسی مستقل تصنیف کی طرف توجہ نہیں کی۔ عتیق اﷲ لکھتے ہیں کہ: ’’قصصِ ہند میں کسی خاص عہد یا ہندوستان کی مکمل و مبسوط تاریخ کو موضوع نہیں بنایا گیا ہے بلکہ محض ان چیدہ چیدہ تاریخی شخصیات ہی پر خاص توجہ کی گئی ہے۔ جو مختلف وجہ سے توجہ طلب رہی ہیں۔آزاد نے انہیں بڑی بے تکلف اور حکائی زبان میں اد اکرنے کی سعی کی ہے۔ آزاد نے بڑی حد تک معروضیت کا بھی خیال رکھا ہے ۔ ‘‘

    قصصِ ہند میں محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، علاء الدّین، ہمایوں، اکبر، نور جہاں، شاہ جہاں، اورنگ زیب، شیوا جی وغیرہ وغیرہ کے کچھ حالات و واقعات کا ذکر ہے۔ اس میں آزاد نے ہندوستان کے کچھ مشہور قصوں کہانیوں کو عام فہم زبان میں بیان کیا ہے۔

    اب چلتے ہیں آبِ حیات کی طرف جسے مولانا محمد حسین آزادؔ کی شاہکار اور بہترین تصنیف شمار کیا گیا۔ اس میں مشہور شعراء کے حالات مع نمونۂ کلام اور مصنّف دل چسپ انداز میں تنقید کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس سے قبل اس قسم کا تذکرہ کسی نے نہیں لکھا تھا۔ آب حیات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے آزاد نے ایک جدید طرز کی تذکرہ نگاری کا آغاز کیا۔ گنجینۂ معلومات ہونے کے علاوہ اس کتاب کی خوبی اس کی بے مثال طرزِ عبارت ہے کہ جس کی نقل کی سب کوشش کرتے آئے ہیں۔

    آزادؔ نے اس کتاب کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ شاعر کے واقعاتِ حیات اور ان کی سرگزشت قلم بند کرنے میں آزاد کے پر لطف اوردل چسپ اسلوب بیان اور ان کی محاکاتی صلاحیتوں نے اسے بڑا دل پذیر بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں کہ ’’آب حیات محض اردو شاعری کی تاریخ ہی نہیں بلکہ ایک توانا، متحرک اور زندگی سے لبریز دستاویز ہے جو عہد ماضی کو از سر نو زندہ کرکے ہماری آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔‘‘

    ناقدین کا کہنا ہے کہ آبِ حیات کے اسلوب میں جو نزاکت اور سادگی موجود ہے وہ بہت کم انشا پردازوں سے صادر ہوئی اور اگرچہ اس میں کئی تذکرے غلط واقعات کے ساتھ ہیں اور یہ ثابت ہوچکا ہے، مگر اس کتاب کی ادبی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

    اسی طرح دربارِ اکبری کو ایک عالیشان تصنیف کہا جاتا ہے جس میں آزاد ؔ نے بادشاہ اکبر کے عہد اور ان کے اراکینِ سلطنت کا حال درج کیا ہے۔ اس کتاب میں آزاد ؔ نے عہد اکبری کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ تمام مناظر جیتی جاگتی تصاویر کی طرح آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ اس کتاب کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی ہو چکا ہے۔

    اور بات کی جائے نیرنگِ خیال جو کہ محمد حسین آزادؔ کے تمثیلی مضامین کا مجموعہ ہے تو اس کا اسلوب اور طرز بیان نہایت دل نشیں ہے۔ یہ۱۸۸۰ء میں دو حصّوں میں شائع ہوا۔ ان مضامین میں آزادؔ نے تمثیل نگاری سے کام لیا ہے۔ یہ مضامین ہلکی پھلکی اور شگفتہ مضمون نگاری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان میں آزاد ؔ نے انگریزی ادب سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔

    ان کے علاوہ سخندانِِ فارس آزاد کے مختلف مقالات کا مجموعہ ہے جو فارسی زبان و ادب سے متعلق ہیں۔ فارسی ادب کے تعلق سے یہ کتاب بہت ہی دل چسپ ہے جس کے دو حصّے ہیں۔ ایک کتاب نگارستانِ فارس بھی ہے جو ایران اور ہندوستان کے فارسی شعراء کا ایک مختصر تذکرہ ہے۔

    آزاد نے نہ صرف اردو نثر کو نیا انداز دیا بلکہ اردو نظم کو بھی ایک نئی شکل و صورت عطا کی تھی۔ انھوں نے تذکرہ نگاری میں منفرد اور اچھوتا انداز اپنایا اور نئی تنقید کی شمع روشن کی۔ محمد حسین آزادؔ 5 مئی 1830ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ جب چار برس کے تھے تو والدہ کا انتقال ہو گیا اور پھر والد کی شہادت ہوئی۔ بعد میں‌ لاہور میں انھیں دو بڑے صدمات مزید سہنا پڑے اور وہ مخبوط الحواس ہوگئے۔ ان کی زندگی کے آخری کئی برس جنون اور دیوانگی کی حالت میں گزرے۔ اس کی وجہ اہلیہ اور بیٹی کی ناگہانی موت کا صدمہ تھا اور 22 جنوری 1910ء کو لاہور ہی میں انتقال کر گئے۔ ان کا مزار داتا گنج کے قریب ہے۔

  • عسکری میاں ایرانی: پاکستان میں منی ایچر آرٹ کا بڑا نام

    عسکری میاں ایرانی: پاکستان میں منی ایچر آرٹ کا بڑا نام

    فنِ مصوّری کا ایک معروف نام عسکری میاں ایرانی کا ہے، جن کا خاص موضوع منی ایچر آرٹ رہا ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل عسکری میاں ایرانی نے اس میڈیم میں خوب جم کر کام کیا اور ان کے فن پارے آج بھی مختلف آرٹ گیلریز کی زینت ہیں۔ آج عسکری میاں ایرانی کی برسی ہے۔

    مصوری کی دنیا میں عسکری میاں ایرانی کا نام ایسے پاکستانی کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے منی ایچر آرٹ کو بڑی لگن اور سنجیدگی سے آگے بڑھایا اور فن پارے تخلیق کیے۔ اس فن سے متعلق محققین کا خیال ہے کہ گیارھویں اور بارھویں صدی عیسوی میں کتابوں میں شامل تصویروں سے جس مصوری کا آغاز ہوا تھا وہ آگے چل کر مِنی ایچر آرٹ کی شکل میں سامنے آئی۔ ہندوستان میں مغلیہ دور اور پھر برطانوی راج میں بھی مصوری کی اس صنف یعنی مِنی ایچر آرٹ پر توجہ نہیں‌ دی گئی، جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1980ء میں جا کر نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر پیٹنگز کو عجائب گھروں سے آرٹ گیلریوں تک پہنچانا شروع کیا تھا۔ 1982ء میں پہلی مرتبہ نیشنل کالج آف آرٹس نے مِنی ایچر آرٹ کا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا۔ اس فن کے استاد بھی بہت اس زمانے میں‌ گنے چنے تھے۔

    عسکری میاں ایرانی 10 جنوری 2004ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا اصل نام عسکری میاں زیدی تھا۔ 30 جنوری 1940ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد عسکری میاں ایرانی لاہور میں رائل پارک کے علاقے میں آن بسے۔ اس دور میں فلمی دنیا میں بڑے بڑے ہورڈنگز اور پوسٹروں کا رواج تھا اور کئی چھوٹے فن کار ہی نہیں ماہر مصور بھی یہ کام کرتے تھے۔ ان کے ساتھ اکثر وہ لوگ بھی ہاتھ بٹاتے تھے جو فنِ مصوّری سیکھنا چاہتے تھے۔ عسکری میاں ایرانی بھی اکثر فلمی پینٹرز کو ہورڈنگ بناتے دیکھتے۔ یہیں سے ان کو مصوّری کا شوق ہوا۔ ابتدائی کوششوں اور اس فن میں دل چسپی لینے کے بعد میں انھوں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے باقاعدہ مصوّری کی تعلیم حاصل کی اور پھر بسلسلۂ روزگار کراچی چلے گئے۔ اس شہر میں ان کا فنی سفر بھی جاری رہا اور عسکری میاں ایرانی نے 1976ء میں نیشنل کالج آف آرٹس میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ وہ سنہ 2000ء تک اس ادارے میں فنِ مصوّری کی تعلیم دیتے رہے اور نئے آرٹسٹوں کی تربیت کی۔ عسکری میاں ایرانی ایک ماہر خطاط بھی تھے۔ فنِ مصوّری میں ان کا خاص موضوع تو منی ایچر پینٹنگ ہی رہا لیکن اسی فن کو اسلامی خطاطی سے ہم آمیز کر کے انھوں نے شہرت بھی پائی۔ 1984ء سے 1992ء تک عسکری میاں ایرانی کے فن پاروں کی نمائش’’نقش کہنہ برنگِ عسکری‘‘ کے نام سے ہوتی رہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے عسکری میاں ایرانی کو 2002ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی دیا اور بعد از مرگ 2006ء میں محکمۂ ڈاک نے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ عسکری میاں ایرانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اردو غزل کی تثلیث اور شاد عظیم آبادی

    اردو غزل کی تثلیث اور شاد عظیم آبادی

    اردو شاعری کا ایک بڑا نام شاد عظیم آبادی کا ہے جن کی آج برسی ہے۔ شاد عظیم آبادی اردو کے ایک اہم شاعر ہی نہیں‌، محقق، تاریخ داں اور اعلیٰ پایہ کے نثر نگار بھی تھے۔

    مشہور نقّاد کلیم الدین احمد نے انھیں اردو غزل کی تثلیث میں میرؔ اور غالبؔ کے بعد تیسرے شاعر کے طور پر شامل کیا۔ مجنوں گورکھپوری کے قلم نے انھیں نم آلودگیوں کا شاعر لکھا۔ علّامہ اقبال بھی ان کی سخن گوئی کے معترف تھے۔ شاد نے اردو غزل کو نئی شناخت دی جس کا اعتراف ان کے ہم عصر اور بعد میں آنے والوں نے بھی کیا۔

    اردو کے ممتاز نقّاد، ادیب اور شاعر شمس الرّحمٰن فاروقی نے لکھا ہے کہ ”شاد کی اہمیت ادبی بھی ہے اور تاریخی بھی۔ تاریخی اس معنی میں کہ جب غزل کے اوپر حملے ہو رہے تھےاور چاند ماریاں ہو رہی تھیں اس زمانہ میں شاد غزل کے علم کو بلند کئے رہے۔ ادبی بات یہ ہوئی کہ کلاسیکی غزل کے کئی رنگوں کو اختیار کر کے انھیں سچّے اور خالص ادب میں پیش کرنا شاد کا کارنامہ ہے۔”

    شاد کی شاعری میں طرزِ ادا اور اسلوب خوب اور پُر وقار ہے اور ان کے اشعار میں‌ جو شیرینی اور دل کشی ہے اس میں‌ شاد عظیم آبادی نے زندگی اور اس کی ناہمواریوں کو بہت بامعنیٰ‌ اور اثرانگیزی سے بیان کیا ہے۔ شاد کے اشعار میں سوز اور کسک ملتی ہے جس کے ساتھ بصیرت افروزی بھی نمایاں ہے۔ شاد عظیم آبادی کا امتیاز کلاسیکی ہنر کو ایک نئی سطح پر آزماتے ہوئے اپنی بات کہنا ہے۔ وہ روایت شکن نہیں بلکہ اس میں‌ توسیع کرنے والے شاعر تھے جن کی انفرادیت ان کا وہ شعور اور خود آگاہی بھی ہے جس سے وہ شعراء‌ کے درمیان اپنی پہچان بناتے ہیں۔

    شاد عظیم آبادی 1846ء میں عظیم آباد (پٹنہ) کے ایک رئیس گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید علی محمد تھا۔ ان کے والد سید تفضل حسین کا شمار پٹنہ کے عمائدین میں ہوتا تھا۔ ان کے گھر کا ماحول مذہبی اور ادبی تھا۔ شاد بچپن سے ہی نہایت ذہین تھے اور دس برس کی عمر میں ہی انھوں نے فارسی زبان و ادب پر خاصی دسترس حاصل کر لی تھی۔ اسی زمانے میں‌ شاعری بھی شروع کردی۔ شاد نے سید الطاف حسین فریاد کی شاگردی اختیار کی۔ بطور شاعر شاد کی شہرت کا آغاز اس وقت ہوا جب اس وقت کے معتبر ادبی رسالہ ’’مخزن‘‘ کے مدیر سر عبد القادر سروری پٹنہ آئے اور ان کی ملاقات شاد سے ہوئی۔ وہ شاد کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے اور ان کا کلام اپنے رسالہ میں شائع کرنے لگے۔

    شاد نے غزل کے علاوہ مرثیے، رباعیاں، قطعات، مخمس اور مسدس بھی لکھے۔ وہ اچھے نثر نگار بھی تھے۔ انھوں نے متعدد ناول لکھے جن میں ان کا تحریر کردہ ’’پیر علی‘‘ پہلی جنگ آزادی کے موضوع پر اردو کا پہلا ناول ہے، اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہوا۔ ’’شاد کی کہانی شاد کی زبانی‘‘ ان کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ 1876ء میں پرنس آف ویلز ہندوستان آئے تو انھوں نے شاد سے بہار کی تاریخ لکھنے کی فرمائش کی۔ شاد نے تین جلدوں میں بہار کی تاریخ لکھی۔ ان کی کتاب ’’نوائے وطن‘‘ پر بہار میں خاصا طوفان کھڑا ہوا تھا۔ اس کتاب میں شاد نے عظیم آباد اور بہار کے دوسرے مقامات کے شرفاء کی زبان میں خرابیوں کی نشان دہی کی تھی۔ اس پر بہار کے اخبارات و رسائل میں انھیں‌ کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ شاد سیاسی، ملّی اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔ وہ پٹنہ میونسپلٹی کے رکن اور میونسپل کمشنر بھی رہے۔ 1889ء میں انھیں آنریری مجسٹریٹ بھی نامزد کیا گیا۔ شاد نے ایک آسودہ زندگی گزاری اور مال و دولت کے سبب کئی ملازم ان کے ساتھ ہوتے تھے لیکن زندگی کے آخری ایّام میں انگریز کے وظیفہ خوار رہے۔

    شاد عظیم آبادی نے ساری زندگی تصنیف و تالیف میں گزاری۔ لیکن ان کی صرف دس کتابیں شایع ہوسکیں۔ 8 جنوری 1927ء کو شاد کا انتقال ہو گیا تھا۔

  • محسن بھوپالی: اردو کے مقبول شاعر اور ’’نظمانے‘‘ کے موجد

    محسن بھوپالی اردو کے اُن شعراء میں سے تھے جنھوں نے خود کو رائج اصنافِ سخن میں طبع آزمائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ ان کے تخلیقی جوہر اور کمالِ‌ فن نے کوچۂ سخن کی رونق میں ’’نظمانے‘‘ کی صورت خوب صورت اضافہ بھی کیا۔ آج محسن بھوپالی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس مقبول شاعر نے غزل جیسی معتبر اور معروفِ عام صنفِ سخن کو اپنی فکر اور ندرتِ خیال کے ساتھ اس طرح سجایا کہ ہم عصر شعرا سے بھی داد پائی اور نقّادوں نے بھی ان کے فن کو سراہا۔ محسنؔ بھوپالی کی شاعری نے علمی و ادبی حلقوں کی پذیرائی اور ہر سطح پر باذوق قارئین سے قبولیت کی سند پائی۔ 17 جنوری 2007ء کو محسن بھوپالی نے اس دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔

    محسنؔ بھوپالی کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا۔ انھوں نے 1932ء میں بھوپال کے قریب واقع ہوشنگ آباد کے ایک قصبے سہاگپور میں آنکھ کھولی۔ 1947ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا اور لاڑکانہ میں سکونت اختیار کی۔ محسن بھوپالی نے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کے بعد 1952ء میں محکمۂ تعمیرات حکومتِ سندھ میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی ملازمت کا سلسلہ 1993ء تک جاری رہا۔ اسی عرصے میں انھوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    ملازمت اور حصولِ تعلیم کے دوران محسن بھوپالی کا ادب اور شاعری سے تعلق مضبوط تر ہوتا رہا اور ان کی شاعری مختلف اخبارات، ادبی رسائل کی زینت بنتی رہیں۔ انھیں علمی و ادبی حلقوں میں پہچان ملی تو کراچی اور ملک بھر میں منعقدہ مشاعروں میں شرکت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور وہ عوام میں بطور شاعر مشہور ہوگئے۔ محسن بھوپالی نے شعر گوئی کا آغاز 1948ء میں کیا تھا۔

    محسن بھوپالی کے مجموعہ ہائے کلام شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت کے عنوان سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتابوں میں قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعۂ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقدِ سخن شامل ہیں۔

    یہ منفرد اعزاز بھی محسنؔ بھوپالی کو حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے کی تھی اور یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریبِ رونمائی تھی جس کے دعوت نامے بھی تقسیم کیے گئے تھے۔

    کئی مشہور اور زباں زدِ عام اشعار کے خالق محسنؔ بھوپالی کا یہ قطعہ بھی ان کی پہچان بنا۔

    تلقینِ صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج
    راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
    وہ شخص لہجہ بہت دل نشین رکھتا تھا

    پاکستان کی معروف گلوکارہ گلبہار بانو کی آواز میں‌ محسن بھوپالی کی ایک غزل آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے جس کا مطلع ہے۔

    چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
    لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری

    اردو میں ’’نظمانہ‘‘ وہ صنفِ سخن ہے جس کے موجد محسنؔ بھوپالی نے افسانہ نگاری بھی کی تھی۔ انھوں نے آزاد نظم کی ہیئت میں ایک تجربہ کیا اور اپنی ایجاد کو تخلیقی وفور کے ساتھ وجود بخشا جو اخبارات اور رسائل و جرائد میں ’’نظمانے‘‘ کے طور پر شایع ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ’’نظمانے‘‘ کو ہم افسانے کی منظوم اور مختصر شکل کہہ سکتے ہیں۔

    محسن بھوپالی کی شاعری ان کی فکر و دانش اور وسیع مطالعہ کے ساتھ معاشرے کے مختلف طبقات پر ان کی گہری نظر اور قوّتِ مشاہدہ کا عکس ہے۔

    انھوں نے معاشرتی موضوعات کے ساتھ سیاسی حالات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا جس کی مثال ان کا یہ قطعہ بھی ہے۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    محسن بھوپالی نے جاپانی ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔ انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس کا اسلوب منفرد اور کلام شستہ و رواں ہے۔ محسن بھوپالی کی شاعری انسانی جذبات و احساست کے ساتھ اُن مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے جس سے عام آدمی کی طرح ایک شاعر بھی متأثر ہوتا ہے۔

    کراچی میں وفات پانے والے محسن بھوپالی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • حکیم احمد شجاع: اردو کے مشہور انشا پرداز اور صف اوّل کے افسانہ نگار

    حکیم احمد شجاع اردو کے مشہور انشا پرداز، افسانہ نگار، فلمی مصنّف اور شاعر تھے جنھوں نے 1969ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ تقسیمِ ہند سے قبل بھی حکیم احمد شجاع نے چند فلمیں‌ اور ان کے مکالمے تحریر کیے تھے، لیکن پاکستان میں‌ بطور مصنّف ان کی پہلی فلم شاہدہ تھی جو 1949ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف ادیب اور شاعر نے لاہور میں سنہ 1896ء میں‌ آنکھ کھولی۔ اسی شہر سے میٹرک کیا اور پھر ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کی سند لی۔ میرٹھ کالج سے بی اے کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ وہ ایک بیورو کریٹ کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے اور 1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہونے کے بعد سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے تھے۔ حکیم احمد شجاع مجلسِ زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔ انھوں نے علّامہ اقبالؒ کے ساتھ مل کر اس دور کی اردو کی درسی کتب بھی مرتب کی تھیں۔

    1948ء سے 1969ء تک مجلسِ زبان دفتری کے سیکرٹری کے طور پر حکیم احمد شجاع نے خوب کام کیا، لیکن رسالہ "ہزار داستان” اور بچوں کے لیے "نونہال” کا اجرا کر کے بھی انھوں نے علمی و ادبی سرگرمیوں میں‌ خود کو مشغول رکھا۔ حکیم احمد شجاع کی خود نوشت "خوں بہا” کے نام سے شایع ہوئی جب کہ ایک مشہور تصنیف لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی ادبی تاریخ پر "لاہور کا چیلسی” کے نام سے تھی۔

    حکیم احمد شجاع افسانہ اور ناول نگاری میں بھی معروف ہوئے اور ان کا ناول "باپ کا گناہ” بہت مشہور ہوا جسے انھوں نے ڈرامہ کے طرز پر لکھا تھا۔ یہ ناول 1922ء میں لکھا گیا تھا۔ اس ناول کی کہانی پر قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں متعدد کام یاب فلمیں بنائی گئیں۔

    بطور مصنّف حکیم احمد شجاع کی پہلی پاکستانی فلم شاہدہ کے تمام گیت بھی انہی کے قلم سے نکلے تھے اور ان کی موسیقی بابا جی اے چشتی اور ماسٹر غلام حیدر جیسے عظیم موسیقاروں نے ترتیب دی تھی، لیکن اس فلم کا کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ حکیم احمد شجاع کو بطور فلمی شاعر کام یابی نہیں ملی۔

    حکیم احمد شجاع کو اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانے اور ناول کےعلاوہ اپنے منفرد طرزِ تحریر اور شان دار اسلوب میں اپنی خود نوشت اور دیگر کتب یادگار چھوڑیں۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • روحی بانو: شاید کوئی اس پری چہرہ اداکارہ کے لیے کچھ نہیں‌ کرسکتا تھا

    روحی بانو: شاید کوئی اس پری چہرہ اداکارہ کے لیے کچھ نہیں‌ کرسکتا تھا

    شائستہ آداب، مہذّب، نہایت سلجھی ہوئی اور باوقار روحی بانو ایک منجھی ہوئی اداکارہ تھیں‌ جنھوں نے فن کی دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ٹیلی ویژن ڈراموں میں انھوں نے جو کردار نبھائے وہ لازوال ثابت ہوئے اور پاکستان میں ایک نسل ان کے فن کی معترف اور پرستار ہے۔

    پھر دنیا کے اسٹیج پر اُن کی زندگی کا وہ کھیل شروع ہوا جس کی تکمیل میں روحی بانو کی باقی ماندہ عمر تمام ہو گئی۔ 25 جنوری 2019ء تک جاری رہنے والے اس کھیل کی چند جھلکیاں ہی اتنی درد انگیز اور کرب ناک تھیں‌ کہ دیکھنے والوں کا کلیجہ پھٹ گیا۔

    اداکارہ کی پرستار نسل ہی نہیں، بعد میں ان کے ڈراموں کی ریکارڈنگ دیکھنے والی نسل نے بھی فاؤنٹین ہاؤس میں پڑی ہوئی اور گلبرگ کی سڑکوں پر مجنونانہ انداز میں پھرتی روحی بانو کا دکھ شدّت سے محسوس کیا۔ سبھی افسردہ و ملول رہے۔ وہ نفیسائی الجھنوں کا شکار تھیں اور عدم تحفظ کا شکار بھی۔

    یہ سب ان کی نجی زندگی کے نشیب و فراز اور صدمات کی وجہ سے تھا۔ پہلے ازدواجی زندگی کی ناکامی کے دکھ نے انھیں گھائل کیا اور بعد میں جواں سال بیٹے کی موت نے اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ یوں روحی بانو دماغی مریض بن گئیں۔ انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے حالات اور مشکلات بیان کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی تھی کہ انھیں قبضہ مافیا سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ چند سال قبل ان پر نامعلوم افراد کی جانب سے تشدد کی خبر بھی سامنے آئی تھی۔ ایک پری چہرہ، خوش گفتار اور تعلیم یافتہ مہذّب خاتون کو نیم پاگل یا مجنونانہ انداز میں سڑکوں پر پھرتا دیکھنا ان کے ساتھی فن کاروں اور چاہنے والوں‌ کے لیے باعثِ کرب تھا، لیکن شاید کوئی ان کے لیے کچھ نہیں‌ کرسکتا تھا۔

    پاکستان کی نام وَر اداکارہ اور پُرکشش شخصیت کی مالک روحی بانو نے 10 اگست 1951ء کو ممبئی میں آنکھ کھولی تھی۔ اُن کے والد کا نام اللہ رکھا تھا جو ہندوستان کے مانے ہوئے طلبہ نواز تھے۔ والد نے دوسری شادی کی تو والدہ روحی بانو اور دوسرے بچّوں کو لے کر پاکستان چلی آئیں۔ یہاں لاہور میں روحی بانو نے اپنی تعلیم مکمل کی اور نفسیات کے مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ ان کی دو شادیاں ہوئیں جو ناکام رہیں۔ ان کا اکلوتا بیٹا ناگہانی موت کا شکار ہوا اور روحی بانو کا کہنا تھا کہ اسے جائیداد کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔

    روحی بانو کا شمار اُن فن کاروں میں ہوتا تھا جنھوں نے پاکستان میں ٹی وی کا آغاز دیکھا اور پھر اس کے عروج اور مقبولیت میں‌ اپنا حصّہ ڈالا۔ 1970ء اور 1980ء کے عشروں میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی روحی بانو نے ٹیلی ویژن کے ساتھ سلور اسکرین پر بھی شان دار پرفارمنس سے فلم بینوں کے دل جیتے۔ انھوں نے اپنے وقت کے ممتاز ڈرامہ نگاروں اشفاق حسین، منو بھائی، بانو قدسیہ، انور سجاد اور حسینہ معین کی کہانیوں میں اپنے کردار نبھائے۔

    اداکارہ کے سپر ہٹ ڈراموں میں کرن کہانی، کانچ کا پُل، زیر زبر پیش، ایک محبت سو افسانے، دروازہ، دھند، زرد گلاب، سراب، پکّی حویلی شامل ہیں۔ ان کی قابلِ ذکر فلموں میں پالکی، امنگ، انسان اور فرشتہ، راستے کا پتھر، انوکھی، گونج اٹھی شہنائی، خدا اور محبت، دشمن کی تلاش، ضمیر، آج کا انسان اور دیگر کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ روحی بانو نے وحید مراد، محمد علی، آصف رضا میر، غلام محی الدین اور سدھیر کے ساتھ فلموں میں اپنے کردار ادا کیے۔ اسی طرح ٹیلی ویژن پر اپنے وقت کے باکمال فن کاروں کے ساتھ انھوں نے اپنی جان دار اداکاری سے ناظرین کو اپنا مداح بنایا۔

    نئے فن کاروں کے لیے اکیڈمی کا درجہ رکھنے والی روحی بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔ وہ علاج کی غرض سے ترکی کے شہر استنبول میں‌ مقیم تھیں اور وہاں ایک اسپتال میں دس روز وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد دنیائے فانی سے کوچ کیا۔

  • جارج آرویل کا ”اینیمل فارم“ اور ”1984ء“ !

    جارج آرویل کا ”اینیمل فارم“ اور ”1984ء“ !

    ایرک آرتھر بلیئر کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے اور ان کا کنبہ ہندوستان کی ریاست بہار میں‌ مقیم تھا۔ ایرک یہیں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک سال کے تھے جب اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان گئے اور کبھی ہندوستان واپس نہیں‌ لوٹے، لیکن کئی برس بعد ایرک آرتھر بلیئر کو ان کے قلمی نام جارج آرویل سے ہندوستان بھر میں‌ پہچانا گیا۔ وہ ناول نگار، صحافی اور نقّاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    1903ء میں برطانوی راج میں پیدا ہونے والے جارج آرویل بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جنھوں‌ نے کمیونزم کو پھلتے پھولتے دیکھا۔ دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا اور قلم کی طاقت کو آزماتے ہوئے قابلِ‌ ذکر تصانیف قارئین کے سامنے رکھیں۔

    1933ء سے 1939ء کے درمیان ان کی یکے بعد دیگرے سات کتابیں منظرِ عام پر آئیں، لیکن 1945ء میں ان کا سیاسی تمثیلی ناول ”اینیمل فارم“ دنیا بھر میں‌ ان کی وجہِ شہرت بنا۔ برطانوی مصنف کا یہ ناول علامت نگاری کی عمدہ مثال ہے جس میں ایک فارم میں بسنے والے جانور اپنے استحصال سے بیزار ہو کر اپنے مالکان کو بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں اور پھر فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اس کہانی کو دنیا بھر میں پسند کیا گیا اور ناول کا اردو اور متعدد دیگر زبانوں میں‌ ترجمہ کیا جاچکا ہے۔

    اسی طرح 1949ء میں انھوں نے ایک خیالی دنیا پر ”1984“ کے عنوان سے ناول سپردِ قلم کیا جو شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔ آرویل نے اس ناول میں ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے، جس میں نگرانی کا ایک غیر معمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا کا عالم یہ ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی سوچ یا تصوّر نہین رکھ سکتے جو حکومت کی نظر میں قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ سوچ جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گی، اس کڑے پہرے داری نظام میں گرفت میں‌ آجائے گی اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ الغرض یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔

    انگریزی کے اس مشہور مصنّف اور صحافی نے 21 جنوری 1950ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ بند کرلی تھیں۔

  • یومِ وفات: ماں کا کردار نبھانے میں سلمیٰ ممتاز کا کوئی ثانی نہ تھا

    یومِ وفات: ماں کا کردار نبھانے میں سلمیٰ ممتاز کا کوئی ثانی نہ تھا

    سلمیٰ ممتاز پاکستانی فلم انڈسٹری کی پہلی اداکارہ تھیں جنھیں ملکۂ جذبات کا خطاب دیا گیا تھا۔ انھوں نے اردو اور پنجابی فلموں میں ماں کے روپ میں شان دار پرفارمنس سے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ آج ماضی کی اس اداکارہ کا یومِ وفات ہے۔

    اداکارہ سلمیٰ ممتاز نے 21 جنوری 2012ء کو لاہور میں وفات پائی۔ انھوں نے اردو فلموں سے اداکاری کا سفر شروع کیا تھا اور بعد میں سماجی موضوعات پر بنے والی پنجابی فلموں میں زیادہ تر ماں کے کردار ادا کیے جو یادگار ثابت ہوئے۔

    پنجابی فلموں میں جب ایکشن فلموں کا دور دورہ ہوا تو اداکارہ پس منظر میں چلی گئی تھیں کیوں کہ وہ لاؤڈ ڈائیلاگ نہیں بول سکتی تھیں۔ سلمیٰ ممتاز ایسی کام یاب اداکارہ تھیں جنھوں نے ہیروئن کا رول نہ کرنے کے باوجود کئی فلموں میں اپنی پرفارمنس سے زبردست شہرت حاصل کی۔

    لگ بھگ تین سو فلموں میں کام کرنے والی سلمیٰ ممتاز کی پہلی فلم دربار بعض کے نزدیک نیلو فر تھی۔ یہ 1958ء کی بات ہے، لیکن 1963ء میں بننے والی فلم موج میلہ سے انھیں بریک تھرو ملا تھا۔ موج میلہ وہ فلم تھی جس میں اداکارہ ولن کی ماں کے روپ میں سامنے آئیں اور یادگار پرفارمنس دی۔ یہ ایسا کردار تھا جس سے سب ڈرتے تھے، لیکن وہ اپنی ماں کے سامنے بھیگی بلّی بن جاتا ہے۔ اگلے سال فلم ہتھ جوڑی آئی اور یہ بھی اداکارہ کی یادگار فلم تھی۔

    اداکارہ نے یوں تو کئی فلموں میں ماں کے روپ میں‌ عمدہ جذبات نگاری کی، لیکن فلم جگ بیتی جو 1968ء میں ریلیز ہوئی، اس میں ان کے کردار نے شائقین کو بہت محظوظ کیا۔ وہ ہر وقت سَر پر کچھ باندھے، مصنوعی بیماری کا رونا روتے اور خاص طور پر اپنی بہو اور اپنے پچھلوں کو کوستے ہوئے دن گزارنے والی ایسی عورت بنی تھیں جو ہمارے معاشرے کا جیتا جاگتا کردار تھی۔ اس عورت کا غصّہ اس وقت آسمان کو چھونے لگتا جب اس کی معصوم پوتی کھیلتے ہوئے اپنی دادی نقل اتارتی ہے۔

    سلمیٰ‌ ممتاز 1926ء کو جالندھر میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کی زندگی کئی مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزری جس میں‌ تقسیم کے بعد ہجرت اور پاکستان میں‌ قیام اور معاشی حالات کے ساتھ زندگی کی کئی تلخیاں شامل ہیں، ان کا اصل نام ممتاز بیگم تھا۔ انھوں نے ریڈیو کے ڈراموں میں بھی کام کیا۔

    انھوں نے معاون اداکارہ کے علاوہ کیریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور خود کو منوایا۔ وہ فلم ساز اور ہدایت کارہ بھی رہیں۔ سلمیٰ ممتاز نے محمد علی، وحید مراد، شاہد اور سدھیر کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔

    فلم ’ہیر رانجھا‘ میں اداکارہ نے ہیر کی ماں کا کردار ادا کیا تھا جس میں مکالموں کی ادائیگی کے ساتھ ان کے چہرے کے تاثرات نے اس کردار کو لازوال بنا دیا۔ سلمیٰ ممتاز کا فلمی کیریئر تین دہائیوں پر محیط رہا۔

    سلمیٰ ممتاز ایسی خاتون تھیں جنھیں فلم انڈسٹری میں نہایت عزّت اور احترام دیا گیا اور انھوں نے پُروقار انداز سے اپنا سفر جاری رکھا اور شائقینِ سنیما سے بھی پذیرائی کے ساتھ بڑا احترام پایا۔

  • پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد اور اداکار نذر

    پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد اور اداکار نذر

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری نے 1948ء میں پہلی فلم تیری یاد کے نام سے شائقین کے لیے پیش کی تھی جس میں اداکار نذر نے بھی ایک مزاحیہ کردار ادا کیا تھا۔ وہ فلمی صنعت کے قیام کے ابتدائی دو عشروں تک مقبول ترین کامیڈین کی حیثیت سے مصروف رہے۔ آج اداکار نذر کی برسی ہے۔

    اس فلمی اداکار نے اپنی جسمانی حرکات و سکنات اور فی البدیہہ جملوں کی ادائیگی سے مزاح پیدا کرکے شائقینِ سنیما کو محظوظ کیا۔ وہ تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی پنجابی فلم گُل بلوچ (1946) میں کام کرچکے تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ممبئی میں‌ فلم نیک دل سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

    نذر کے دور میں فلمی دنیا میں آصف جاہ، اے شاہ اور دلجیت مرزا جیسے بڑے بڑے کامیڈین بھی میدان میں تھے لیکن مقبولیت میں نذر سب سے آگے تھے۔ اداکار نذر کو 1964ء کی فلم انسپکٹر میں نغمہ کے مقابل ہیرو کے طور پر بھی کاسٹ کیا گیا تھا۔

    اس فلمی اداکار کا پورا نام سید محمد نذر حسین شاہ تھا۔ انبالہ ان کا وطن تھا جہاں انھوں نے 1920ء میں آنکھ کھولی تھی۔ قیامِ پاکستان سے پہلے انھوں نے بمبئی میں بننے والی فلم نیک دل میں کام کیا تھا اور پاکستان میں تیری یاد میں مزاحیہ کردار ادا کرنے کے بعد وہ غلط فہمی، پھیرے، انوکھی داستان، ہماری بستی، جہاد، امانت، اکیلی، بھیگی پلکیں، شہری بابو، برکھا، سسی، دو آنسو، پاٹے خان جیسی فلموں میں‌ شائقین کے سامنے آئے۔ اداکار نے ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں کام کیا تھا جن میں 117 فلمیں اردو میں اور باقی پنجابی اور پشتو زبان میں بنائی گئی تھیں۔

    اداکار نذر نے 20 جنوری 1992ء کو لاہور میں وفات پائی اور ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔