Tag: جنوری وفیات

  • جب نام وَر بھارتی ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھولی!

    جب نام وَر بھارتی ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھولی!

    اپندر ناتھ اشک معاشرت پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے سماج کی برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے سیاست کو بھی اپنی کہانیوں میں‌ پیش کیا جن پر اخلاقی اور اصلاحی رنگ غالب رہا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ وہ اردو زبان کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اور پنجابی زبان کے شاعر تھے۔

    اشک کا تعلق بھارت سے تھا۔ انھوں نے 14 دسمبر، 1910ء کو جالندھر میں آنکھ کھولی۔ 1930ء تک لاہور میں رہائش پزیر رہے اور بعد میں ہندوستان چلے گئے تھے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز پنجابی شاعری سے ہوا۔ بعد میں وہ مختلف اخبارات اور رسائل میں لکھنے لگے۔ ان کا پہلا ہندی کہانیوں کا مجموعہ جدائی کی شام کے گیت لاہور سے شائع ہوا تھا۔ ایک بڑا عرصہ آل انڈیا ریڈیو میں گزرا اور جب بمبئی میں رہائش اختیار کی تو فلم نگری سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو کے لیے لکھنے کے بعد انھوں نے کئی فلموں کی کہانیاں اور اسکرین پلے بھی تحریر کیے۔

    اپندر ناتھ اشک اپنی تحریروں میں پنجاب کی روزمرہ دیہی زندگی کی عکاسی بڑے خوب صورت انداز میں کرتے ہیں۔ افسانہ نگاری میں ان کی مضبوط گرفت اور زبان کی روانی بہت متاثر کن ہے۔ ان کے زرخیز ذہن اور قلم کی روانی نے اردو افسانے کے ذخیرے میں بہت اضافہ کیا۔ اشک کے افسانوں میں پاپی، کونپل، پلنگ اور ڈراموں میں ‘چھٹا بیٹا، انجو دیدی اور قید بہت مشہور ہوئے۔ ان کے افسانوں پر ناصحانہ اور اخلاقی رنگ غالب رہا۔

    19 جنوری 1996ء کو انھوں نے الٰہ آباد، ہندوستان میں وفات پائی۔ ان کی عمر 85 سال تھی۔ اپندر ناتھ اشک کے بارے میں معروف صحافی، نام ور محقّق اور مصنّف رضا علی عابدی نے ایک مضمون میں لکھا تھا:

    "اچھے زمانوں میں ایک مضمون پڑھا تھا جو ہمیشہ یاد رہا۔ عنوان تھا ’منٹو میرا دشمن‘۔ مصنف تھے اُپندر ناتھ اشک۔ ترقی پسندوں کی انقلابی تحریک میں اردو افسانے کا پرچم اٹھائے آگے آگے چلنے والوں میں یادگار شخصیت۔ قلم پر ایسی گرفت تھی کہ دشمن کا نام دے کر ایسے مثالی دوستی کے پُل باندھے کہ اس ہنر مندی پر عقل عرصے تک حیران رہی۔”

    "یہ میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس کا زمانہ تھا۔ اپندر ناتھ اشک الہٰ آباد سے چل کر لندن آئے اور بی بی سی کی تاریخی عمارت’بُش ہاؤس‘ میں تشریف لائے۔ اسی ادارے کی ہندی سروس میں ان کا بیٹا نیلابھ کام کرتا تھا، اس سے کہا کہ مجھے رضا علی عابدی سے ملواؤ۔ وہ باپ کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ یوں لگا جیسے بچپن میں اکٹھے کنچے کھیلنے والا کوئی دوست چلا آیا ہو۔ میں نے چاہا قدموں میں بیٹھوں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سَر پر بٹھالیں۔”

    "واپس الہ آباد چلے گئے مگر وہاں کی خبریں ملتی رہیں۔ پتہ چلا کہ اپندر ناتھ اشک کی کتابوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے اور یہ کہ بددیانت افسر سرکاری اداروں کے لیے ان کی کتابیں نہیں خرید رہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر کوئی اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ اتنے بڑے شاعر اور ادیب کی مالی حالت جواب دینے لگی۔ وہ ٹھہرے سدا کے ادیب اور شاعر۔ معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے باہر آٹے دال کی دکان کھول لی تاکہ اخباروں میں سرخی لگے کہ سرکردہ ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھول لی۔ یہی ہوا۔ اخباروں کو چٹپٹی خبر مل گئی۔ کیسا عجب اتفاق ہوا کہ میں اپنے پروگرام ’جرنیلی سڑک‘ کی تیاری کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر نکلا۔ چونکہ الہ آباد اسی سڑک پر واقع ہے، ایک صبح میں نے خود کو اپندر ناتھ اشک کے گھر پر پایا۔ باہر پرچون کی دکان کھلی ہوئی تھی اور ان کی بیگم کوشلیا سودا سلف بیچ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر کھل اٹھے اور بہت پیارا انٹرویو ریکارڈ کرایا۔”

  • محمد حسن عسکری: اردو تنقید کے معمار کا تذکرہ

    محمد حسن عسکری: اردو تنقید کے معمار کا تذکرہ

    محمد حسن عسکری کو اردو تنقید کے معماروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نقّاد، مترجم اور افسانہ نگار تھے جن کا کام نہایت وقیع اور مستند ہے۔ ان کے نگارشات کے پس منظر میں اردو تنقید نے کئی محاذ سر کیے اور نئی دنیا بسائی۔

    18 جنوری 1978ء کو اردو تنقید نگاری کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ ان کی غیرمعمولی تحریریں اور تنقیدی مضامین اردو زبان و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

    محمد حسن عسکری قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آئے تھے، کچھ عرصے بعد وہ کراچی منتقل ہوگئے اور ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے شعبے سے وابستگی اختیار کرلی، وہ تمام عمر تدریس کے ساتھ تخلیقی کاموں اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

    محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی سند لی۔ یہاں انھیں فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔

    بطور ادبی تخلیق کار انھوں نے ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر انگریزی سے ایک ترجمہ تھا جو 1939ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شایع ہوئے۔ 1943ء میں انھوں نے یہ کالم لکھنے کا آغاز کیا جس کا عنوان جھلکیاں تھا۔

    انھوں نے تنقید کے ساتھ افسانہ نگاری بھی کی۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    بحیثیت نقّاد اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے فرانسیسی ادب سے اردو تراجم کیے جو ان کی زبان و بیان پر گرفت کا ثبوت ہیں۔

    وہ کراچی میں دارالعلوم کورنگی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جو اپنے فکاہیہ کالموں کی بدولت دنیا بھر میں پہچانے گئے

    آرٹ بکوالڈ کا تذکرہ جو اپنے فکاہیہ کالموں کی بدولت دنیا بھر میں پہچانے گئے

    آرٹ بکوالڈ کو کالم نگار کے طور پر ان کے موضوعات اور اسلوب نے دنیا بھر میں‌ شہرت دی۔ 1970ء کی دہائی میں امریکا میں‌ ان کے لاکھوں مداح تھے۔ ان کے کالم پانچ سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونے والی ان کی تحریروں میں سیاست اور سماج پر گہرا طنز ملتا ہے جس نے انھیں ہم عصروں سے جداگانہ شناخت دی۔

    اس امریکی فکاہیہ نگار کا سنِ پیدائش 1925ء ہے۔ انھوں نے نیویارک کے ایک یہودی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ آرٹ بکوالڈ نے لگ بھگ 40 برس تک کالم نگاری کی اور تیس سے زائد کتابوں کے مصنّف بنے۔ ان کی تحریروں میں سیاسی طنز کے ساتھ مختلف موضوعات پر ان کی رائے اور منفرد تبصرے ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور جرائد کی زینت بنتے تھے۔ اپنے زمانے میں امریکی صحافت میں نصف صدی تک آرٹ بکوالڈ کا نام سیاسی طنز نگار کے طور پر گونجتا رہا۔

    بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں اس وقت شائع ہوا جب وہ پیرس میں رہائش پزیر تھے۔ امریکا لوٹنے پر انھوں نے اپنے کالموں میں طنز و مزاح کا وہ انداز اپنایا جس نے عام لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ وہ خاص طور امریکا کے اعلیٰ طبقے کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے تھے۔ بکوالڈ نے واشنگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو اپنی تحریر کا اس خوب صورتی سے موضوع بنایا کہ سیاست اور سماج کے مختلف طبقات میں مقبول ہوگئے۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے نمایاں تبصرے پر پلٹزر انعام بھی دیا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر اپنے مقدمے میں دعویٰ کیا تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ نے نو لاکھ ڈالر جیتے۔ اس مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے قانون میں تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کا بنیادی خیال پیش کرنے والے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    آرٹ بکوالڈ کی تحریروں کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ارد گرد بکھرے ہوئے موضوعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے اور اپنے مختصر جملوں میں چونکا دینے والی باتیں کر جاتے تھے ان کا طرزِ بیان سیدھا دل میں اتر جاتا اور ان کا طنز مزاح کی چاشنی میں‌ ڈھل کر نہایت بلیغ اور وسیع شکل اختیار کرجاتا۔ بکوالڈ کی یہ شہرت اور شناخت آج بھی قائم ہے۔

    امریکا اور دنیا بھر میں اپنے تخلیقی صلاحیت اور قلم کی انفرادیت کو منوانے والے بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔

  • کئی مقبول فلمی گیتوں کے خالق ابراہیم اشک انتقال کرگئے

    کئی مقبول فلمی گیتوں کے خالق ابراہیم اشک انتقال کرگئے

    معروف شاعر اور بھارتی فلموں کے گیت نگار ابراہیم اشک گزشتہ روز ممبئی کے ایک اسپتال میں‌ انتقال کرگئے۔ ابراہیم اشک نے مشہور فلم ’کہو نہ پیار ہے‘ سے بطور نغمہ نگار فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ ان کی عمر 70 برس تھی۔

    ابراہیم اشک اردو اور ہندی دونوں زبانو‌ں میں‌ لکھتے تھے۔ وہ صحافت سے وابستہ رہے اور متعدد اردو اخبارات میں کام کیا۔ ابراہیم اشک نے کئی ہندی فلموں کے لیے نغمات لکھے اور ٹی وی سیریلوں کے اسکرپٹ تحریر کیے۔

    انھیں گزشتہ ہفتے سے علالت کے باعث ممبئی کے نواح میں ایک اسپتال میں علاج کی غرض سے داخل کیا گیا تھا، جہاں اتوار کی شام ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔ اہلِ خانہ کے مطابق وہ کووڈ 19 کا شکار تھے۔

    ابراہیم اشک جن کا اصل نام ابراہیم خاں غوری تھا، اپنے دور کے نمائندہ شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ انھوں نے فلم نگری میں ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے شہرت اور شناخت بنائی۔

    ابراہیم اشک نے متعدد شعری اصناف میں طبع آزمائی جن میں غزل اور نظم کے علاوہ دوہے اور گیت شامل ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہوئے جن میں الہام اور آگہی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم اشک نے شاعری کے ساتھ تنقید بھی لکھی۔ اقبال اور غالب پر ان کی کتابیں ان کی ثروت مند تنقیدی فکر کا اعلان ہیں۔

    ابراہیم اشک 20 جولائی 1951ء کو اجین مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم اجین میں ہی حاصل کی اور بعد میں ہندی ادبیات میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ انھوں نے شاعری کا آغاز کیا تو اشک تخلّص اختیار کیا۔

    کہو نہ پیار ہے، کوئی مل گیا، جانشین، اعتبار، آپ مجھے اچھے لگنے لگے، کوئی میرے دل سے پوچھے اور دھند وہ فلمیں تھیں جن کے نغمات ابراہیم اشک نے تحریر کیے اور انھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے لکھے ہوئے گیت مختلف گلوکاروں کی آواز میں مقبول ہوئے۔ مرحوم کو کئی ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔

  • یومِ وفات: ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی اختراع ہیں

    یومِ وفات: ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی اختراع ہیں

    ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی اختراع ہیں۔ انھیں مصوّرِ مشرق بھی کہا جاتا ہے۔ آج پاکستان کے اس ممتاز مصوّر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1975ء میں وفات پاگئے تھے۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی کا یومِ پیدائش 21 ستمبر 1897ء ہے۔ ان کا تعلق لاہور سے تھا۔ ان کے بزرگ شاہجہاں دور میں مشہور معمار رہے تھے۔ 1914ء میں میو اسکول آف آرٹس، لاہور سے امتحان پاس کرنے والے عبدالرّحمٰن چغتائی نے استاد میراں بخش سے فنِ مصوّری میں استفادہ کیا۔ وہ رنگوں اور موقلم کے ساتھ تخلیقی کام کرنے لگے اور ساتھ ہی میو اسکول میں تدریس کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔

    1919ء میں لاہور میں ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش منعقد ہوئی جس نے عبدالرّحمٰن چغتائی کو باقاعدہ فنی سفر شروع کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے بعد انھوں نے اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ماڈرن ریویو میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ ان کی یہ تصاویر شایع ہوئیں اور چغتائی صاحب کا فن شائقین اور ناقدین کے سامنے آیا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔

    عبدالرّحمن چغتائی نے اسی زمانے میں فنِ مصوّری میں اپنے اس جداگانہ اسلوب کو اپنایا جو بعد میں‌ چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی پہچان و شناخت بن گیا۔ وہ دو روایتو ں کے امین تھے، ایک طرف ترک، ایرانی اور مغل مصوری تھی تو دوسری جانب ہندوستانی مصوری کی بنیاد پر مبنی بنگالی آرٹ تھا، جس کا سرا دو ہزار سال پہلے کے ایلورا اور اجنتا کے غاروں میں بنائی گئی تصاویر سے جا ملتا ہے۔ یہ اسکول آف آرٹ اٹھارہویں صدی کے درمیان سے لے کر انیسویں صدی کے آغاز تک ہندوستانی مصوری کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا، جب کہ شوخ رنگوں والی ترکی اور ایرانی مصوری کے اثرات جب منی ایچر میں منتقل ہوئے تو ان کے اثر سے چغتائی بھی نہ بچ سکے۔ اسی لیے ہمیں چغتائی کے اسلوب میں دونوں فن ملے جلے نظر آتے ہیں۔

    مصوّرِ مشرق نے اسلامی، ہندو، بدھ ازم، مغل اور پنجاب کے موضوعات پر فن پارے تخلیق کیے۔ ان کی تصاویر آج بھی دنیا کی ممتاز آرٹ گیلریوں میں آویزاں ہیں۔ علّامہ اقبال، پکاسو اور ملکہ الزبتھ دوم جیسی شخصیات بھی ان کے فن کی معترف تھیں۔ 1924ء کی ویمبلے نمائش میں لاکھوں شائقین نے ان کے فن پاروں کو دیکھا اور سراہا۔

    1928ء میں مرقعِ چغتائی شایع ہوا جس میں عبدالرّحمٰن چغتائی نے غالب کے کلام کی کینوس پر تشریح کی تھی۔ گویا انھوں نے شاعری کو رنگوں سے آراستہ کیا تھا اور یہ اردو میں اپنے طرز کی پہلی کتاب تھی جسے بڑی پذیرائی ملی۔ 1935ء میں غالب کے کلام پر مبنی ان کی دوسری کتاب نقشِ چغتائی شایع ہوئی۔ یہ کتاب بھی بے حد مقبول ہوئی۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی موقلم ہی نہیں‌ قلم بھی تھامے رہے۔ انھوں نے افسانہ نگاری کی اور دو افسانوی مجموعے شایع کروائے۔

  • خطروں سے کھیلنے والی میری این ایوانز کا تذکرہ جنھیں نادیہ کے نام سے شہرت ملی

    خطروں سے کھیلنے والی میری این ایوانز کا تذکرہ جنھیں نادیہ کے نام سے شہرت ملی

    میری این ایوانز المعروف نادیہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی وومن اسٹنٹ تھیں۔ انھیں بے خوف نادیہ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ انھوں‌ نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی خطرناک مناظر عکس بند کروائے تھے۔

    وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے ایسے اسٹنٹ کیے جنھیں بظاہر بہادر اور مضبوط اعصاب کے مالک مرد بھی شاید کرنے سے انکار کردیتے، لیکن نادیہ نے فلمی دنیا کے لیے حقیقی خطروں کا سامنا کیا اور خوب شہرت پائی۔ وہ 1930ء اور 1940ء کے عشرے میں ہندوستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔

    نادیہ نے ہیروئن یا کسی دوسرے اہم کردار کی جگہ گھڑ سواری کی، پہاڑیوں پر جان بچانے کے لیے بھاگیں، کود کر باڑ عبور کی۔ اسی طرح تیز رفتار ٹرین میں فائٹنگ کے مناظر عکس بند کرواتی اور ندی یا دریا عبور کرکے پار پہنچنے کی کوشش کرتی دکھائی دیں۔ انھوں نے فلم کے سین کی ڈیمانڈ کے لیے خطرناک جانوروں کا سامنا کیا، گھوڑے کی پیٹھ سے چھلانگ لگائی، تلوار چلائی اور انھیں فضا میں ہوائی جہاز سے بھی لٹکتا ہوا دیکھا گیا۔ انھوں نے نہایت سنسنی خیز اور جان کو خطرے میں‌ ڈال دینے والے سین کیے جس پر انھیں ’اسنٹنٹ کوئن‘ کہا جانے لگا تھا۔

    نادیہ کا جنم آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں سن 1908 میں ہوا تھا۔ ان کے والد برطانوی اور ماں یونان نسل کی تھیں۔ ان کے والد کا نام اسکاٹ مین ہربرٹ ایوانز تھا۔ وہ برطانوی فوج میں رضاکار تھے۔ میری 1913ء میں کم عمری ممبئی میں آئیں جب ان کے والد برطانوی فوجی کی حیثیت سے لڑ رہے تھے۔ 1915ء میں پہلی جنگِ عظیم میں محاذ پر بھیجے گئے اور وہاں‌ لڑائی کے دوران مارے گئے۔ تب نادیہ کی والدہ پشاور منتقل ہوگئیں۔ یہاں اپنے قیام کے دوران نادیہ نے گھڑ سواری اور رقص میں مہارت حاصل کی۔ وہ 1928ء میں ممبئی چلی گئیں‌ جہاں ابتدا میں سرکس میں کام کیا اور وہیں‌ انھیں نادیہ کا نام دیا گیا۔

    فلم ساز جمشید بومنا ہومی واڈیا (جے بی ایچ) نے انھیں بڑے پردے پر چھوٹا سا کردار دیا اور وہ 1933ء میں پہلی بار فلم ’دیش دیپک‘ میں نظر آئیں۔ نادیہ ایک مضبوط جسم کی مالک اور خاصی پھرتیلی تھیں جنھوں نے سرکس سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور اسی بنیاد پر مسٹر واڈیا نے ان کی شخصیت کے مطابق ایک فلم ’ہنٹر والی‘ بنائی، اور نادیہ کو مرکزی کردار سونپا۔ اس فلم میں وہ ایک شہزادی بنی تھیں‌، جو اپنے والد کی سلطنت میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف لڑتی ہے۔ یہ فلم ہٹ ہوئی۔ نادیہ نے اپنے فلمی کیریئر کے دوران کل 38 فلموں میں کردار ادا کیے اور مختلف اسٹنٹ کیے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کے زیادہ تر کردار ناانصافی کے خلاف اور عورت کے حق کے لیے لڑائی والے تھے، جس نے نادیہ کو ہندوستانیوں‌ سے توجہ اور محبّت سمیٹنے کا موقع دیا اور وہ صرف اداکارہ ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سماجی کارکن کے طور پر بھی دیکھی گئیں۔

    نادیہ نے فلم ساز ہومی واڈیا سے شادی کی تھی۔ وہ 8 جنوری 1908ء کو پیدا ہوئی تھیں اور ممبئی میں 9 جنوری 1996ء کو وفات پائی۔

  • کاغذی گھاٹ والی خالدہ حسین کا تذکرہ

    کاغذی گھاٹ والی خالدہ حسین کا تذکرہ

    خالدہ حسین نے کہا تھا، ’کئی کہانیاں ایسی ہیں جو میں لکھنا چاہتی ہوں، مگر یوں لگتا ہے جیسے میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اسی طرح کاغذ پر آجائیں، لیکن بہر طور لکھوں گی۔‘

    11 جنوری 2019ء کو خالدہ حسین اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ انھوں نے 1954ء میں قلم تھاما اور کہانیاں لکھنا شروع کیں، لیکن ادبی حلقہ اور سنجیدہ قارئین 60ء کی دہائی میں ان کے نام سے واقف ہوئے۔ خالدہ حسین نے اپنے ابتدائی دور کی کہانیاں چند غیر معروف رسائل کو بھیجیں جو شائع ہوئیں اور اس وقت وہ دسویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ بعد میں ان کی تخلیقات معروف جرائد کی زینت بنیں اور تب عظیم افسانہ نگار غلام عباس، قرۃُ العین حیدر اور اس دور کے دیگر اہم نام ان کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب خالدہ حسین نے ان سے اپنے فن اور اسلوب کی داد پائی۔

    18 جولائی 1938ء کو لاہور میں پیدا ہونے والی خالدہ حسین کا خاندانی نام خالدہ اصغر تھا۔ ان کے والد ڈاکٹر اے جی اصغر انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں وائس چانسلر کے عہدے پر فائز تھے۔ اپنے بچپن اور ماحول کے بارے میں خالدہ حسین بتاتی تھیں کہ ان کی زندگی کا ابتدائی دور نہایت حسین اور خوش گوار تھا، اساتذہ ہی نہیں بلکہ عزیز و اقارب اور احباب سبھی اچھّے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ گھر میں لکھنے پڑھنے کا رجحان تھا، ماحول ادبی تھا۔ سبھی مطالعے کے عادی تھے اور مختلف موضوعات پر مباحث کے بھی۔ خالدہ حسین کے مطابق ان کی سہیلیاں بھی باذوق تھیں اور لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھا کرتی تھیں۔ ایسے میں لکھنے لکھانے کی تحریک کیوں نہ پیدا ہوتی۔

    پاکستان کی اس ممتاز افسانہ نگار کی پسندیدہ مصنف قرۃُ العین حیدر تھیں۔ انھوں نے عالمی ادب بھی پڑھا اور جنون کی حد تک مطالعہ کی عادی رہیں۔ وہ کافکا کے بعد روسی ادیب ترگنیف، ٹالسٹائی اور دوستوفسکی سے متاثر ہوئیں۔

    خالدہ حسین ادب کی مختلف اصناف میں نت نئے تجربات، ادبی تحریکوں سے بھرپور آگاہی رکھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا قلم تمام موضوعات کو بخوبی سمیٹتا رہا۔

    ان کی کہانیوں اور افسانوں کی طرف چلیں تو ’پہچان‘، ’دروازہ‘، ’مصروف عورت‘، ’خواب میں ہنوز‘، ’میں یہاں ہوں‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ خالدہ حسین نے ایک ناول بھی لکھا جس کا عنوان ’کاغذی گھاٹ‘ تھا۔ تاہم اسے وہ توجہ اور پذیرائی نہ مل سکی جس کی توقع تھی۔

    ان کی ایک کہانی ’سواری‘ نے اردو کی صفِ اوّل کی ادیب قرۃُ العین حیدر کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ یہ ایک ایسی کہانی تھی جس میں سماج اور ثقافت کے تمام رنگ شامل تھے۔ اس طویل کہانی کی فضا مابعد الطبیعاتی ہے۔ یہ کہانی ایٹم کے پلنے اور اس سے اٹھنے والے تعفن اور اس کے متاثرین کی زندگی پر لکھی گئی ہے۔ اس کا پلاٹ یہ ہے کہ ایک سواری گزرتی ہے جس سے تعفن اٹھتا ہے اور لوگ اس تعفن سے بیمار پڑجاتے ہیں۔ 3 کرداروں کے ساتھ کچرا ڈمپ کرنے والے گڑھے اور اس تعفن پر خالدہ حسین نے کیفیات اور صورتِ حال کو جس طرح بیان کیا ہے وہ نہایت متاثر کن ہے۔

    خالدہ حسین نے اس کہانی میں علامت اور واقعہ نگاری کے امتزاج سے قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ تاہم خالدہ حسین کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ اساطیر کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں اور یہ آمیزش افسانے کا حُسن بڑھا دیتی ہے۔ بلاشبہ انہوں نے معاشرتی مسائل کو تخلیقی انداز میں بیان کیا اور انہیں کسی خاص فکر یا نظریے کے تحت بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔ ان کے بیشتر افسانے اور کہانیاں متوسط درجے کے گھرانوں کی عکاس ہیں۔ ان کے تمام کردار ان جذبات اور کیفیات سے لبریز ہیں جو ہمارے گرد عام ہیں۔

    ‘رہائی’ اور ‘تیسرا پہر’ کے علاوہ ‘جزیرہ’ اور ‘ابنِ آدم’ مہذب دنیا کی جانب سے فلسطین، عراق اور دیگر خطوں پر ظلم اور ناانصافی مسلط کرنے کی داستان ہیں۔ اسی طرح ‘سلسلہ’ اور ‘میں یہاں ہوں’ جیسی کہانیاں ایک قسم کی روحانی وارداتوں کا بیان ہیں۔

    ناقدین کے نزدیک وہ خوب علامتی یا تجریدی افسانہ لکھتی تھیں، مگر خود خالدہ حسین کی نظر میں ایسا نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کہانیوں میں استعارہ اور علامت ہوگی، مگر اس پر معنویت غالب ہے۔

  • یومِ وفات: نام وَر ادیب اور شاعر ابنِ انشا کو بطور مزاح نگار زیادہ شہرت ملی

    یومِ وفات: نام وَر ادیب اور شاعر ابنِ انشا کو بطور مزاح نگار زیادہ شہرت ملی

    اردو ادب میں‌ ابنِ انشا کو ان کی تخلیقات کی بدولت جو مقام حاصل ہے، اس میں وہ نظم اور نثر دونوں اصناف پر حاوی نظر آتے ہیں۔ ایک طرف شاعری، بالخصوص ان کی نظموں اور دوسری جانب ان کی مزاحیہ تحریروں نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ کالم نویسی اور سفرنامہ نگاری ان کا ایک ایسا مستند حوالہ ہے جو ان کے منفرد اسلوب کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے۔ آج ابنِ انشا کا یومِ وفات ہے۔

    سرطان کے مرض نے ابنِ انشا کو ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا تھا وہ علاج کی غرض سے لندن میں تھے جہاں 11 جنوری 1978ء کو ان کے انتقال کے بعد میّت کراچی لائی اور اس شہر میں ابنِ انشا سپردِ خاک کیے گئے۔

    ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ وہ 15 جون 1927ء کو ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا تھا اور بعد میں باتیں انشا جی کے نام سے لکھنے لگے، وہ روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی اور بعد میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور طویل عرصہ تک نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    ابنِ انشا کا پہلا مجموعۂ کلام ’’چاند نگر‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں ’’اس بستی کے ایک کوچے‘‘ میں اور ’’دلِ وحشی‘‘ شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے شاعری بھی کی اور نثر بھی لکھی۔ متعدد کتب کا اردو ترجمہ کیا اور خوب صورت سفرنامے بھی لکھے جن میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر شامل ہیں۔

    مرحوم کی دیگر کتابوں میں اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی اور قصّہ ایک کنوارے کا بہت مقبول ہوئیں۔ مکتوبات بھی ان کے اسلوب اور دل چسپ انداز کے سبب قارئین میں مقبول تھے اور ابنِ انشا کے خطوط کتابی شکل میں بھی شایع ہوئے۔

    ابنِ انشا کی یہ غزل بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
    وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

    اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی
    جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

    شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے میں
    کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا

    اس حُسن کے سچّے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
    جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

    اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
    یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

    اُس روز جو ان کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
    اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

    جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بَن میں نہ جا بسرام کرے
    دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

    ابنِ انشا نے محض 51 برس کی عمر میں‌ یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ وہ اپنے اہلِ قلم احباب میں بھی بہت پسند کیے جاتے تھے۔ ادیبوں اور شاعروں کی زندگی کے بعض واقعات پُرلطف بھی ہیں اور ان کی شخصیت کی کم زوریوں یا خوبیوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ یہاں ہم ممتاز مفتی کی کتاب اور اوکھے لوگ سے ابنِ انشا سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں۔

    "احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ابنِ انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا، ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا تھا جو پہلے ہی کسی اور کی ہو چکی تھی اور شادی شدہ اور بچّوں والی تھی جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہم دردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ جس سے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔

    مواقع تو ملے، مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی، اس کی ہمّت نہ پڑی۔ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا: ’’یار اُسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔‘‘

    اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی پھر عاشق کا جلال جاگتا، وہ کہتا: ’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘

    محبوبہ تیز طرّار تھی، دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔ اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔ انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔

    دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔

    ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔ میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تنخواہ لگ جائے گی۔

    انشا بولا۔ ’’مفتی جی، تمہیں پتا نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا، شہرت دی، زندگی دی!‘‘ انشا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔

  • البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو نے 1913ء میں الجزائر میں‌ آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہاں فرانسیسی قابض تھے اور طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد یہاں کے عوام نے آزادی حاصل کی تھی۔

    کامیو شمالی افریقہ میں‌ پلا بڑھا اور پھر فرانس چلا گیا جہاں جرمنی کے قبضے کے بعد وہ خاصا متحرک رہا اور ایک اخبار کا مدیر بن گیا۔ اس کی مادری زبان فرانسیسی تھی۔ اسی زبان میں اس نے ناول نگاری سے صحافت تک اپنا تخلیقی سفر بھی طے کیا اور ایک فلسفی کی حیثیت سے بھی شہرت پائی۔ اس نے ناولوں کے ساتھ متعدد مضامین لکھے اور کتابیں‌ تصنیف کیں۔ اسے 1957ء میں‌ ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    البرٹ کامیو فرانسیسی نژاد اور ہسپانوی والدین کی اولاد تھا۔ اس نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور کم عمری میں اپنے والد کو کھو دیا۔ اسے مختلف کام کر کے گزر بسر کرنا پڑی۔

    ’’اجنبی‘‘ اس کا پہلا ناول تھا جس کی اشاعت نے اسے دنیا بھر میں شہرت دی۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی داستان تھی جسے اچانک اپنی ماں کے مر جانے کی خبر ملتی ہے۔ وہ اس خبر کو سننے کے بعد سے اپنی ماں کی تدفین تک تمام معاملات سے جذباتی طور پر قطعی لاتعلق رہتا ہے۔

    کامیو کے اس ناول کو دو عالمی جنگوں کے فوراََ بعد یورپ میں پھیلی انسانی زندگی، معاشرتی رشتوں اور ریاستی معاملات پر لوگوں کے بے تعلق ہوجانے کا مؤثر ترین اظہار ٹھہرایا گیا۔ وہ ایک ایسے ناول نگار کے طور پر دنیا میں‌ مشہور ہوا جس نے فلسفے کو نہایت خوبی سے اپنی کہانیوں میں‌ پیش کیا اور اسے مؤثر و قابلِ‌ قبول بنایا۔ اس نے الجیریا میں‌ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران ٹی بی جیسے مرض سے بھی مقابلہ کیا۔ اس وقت یہ مرض خطرناک اور جان لیوا تصوّر کیا جاتا تھا اور لوگ ایسے مریضوں‌ سے دور رہتے تھے۔ غربت اور ان حالات نے اسے فلسفے کے زیرِ اثر رشتوں اور تعلقات کو کھوجنے پر آمادہ کیا اور اس نے اپنے تخلیقی شعور سے کام لے کر ان مسائل کو اجاگر کیا۔

    ’’متھ آف سی فس‘‘ میں کامیو نے لایعنیت کا فلسفہ پیش کیا۔ ناول کی صورت میں اس فلسفے کی اطلاقی شکل ’’اجنبی ‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ کامیو کا ناول ’’طاعون‘‘ بھی دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس کے ڈرامے اور ناولوں کے ساتھ فلسفے پر مبنی تصانیف نے علمی اور ادبی حلقوں‌ کو بہت متاثر کیا۔

    فرانس کے اس فلسفی اور ناول نگار نے 4 جنوری 1960ء کو ایک حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا تھا۔

  • یومِ وفات: مسحور کُن فلمی دھنوں کے خالق شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    یومِ وفات: مسحور کُن فلمی دھنوں کے خالق شوکت علی ناشاد کا تذکرہ

    دنیائے موسیقی اور فلم انڈسٹری کو کئی بے مثال اور رسیلے نغمات دینے والے شوکت علی ناشاد کو پاکستان ہی نہیں سرحد پار بھی ان کے تخلیقی جوہر اور فنی صلاحیتوں کی بدولت پہچان ملی۔ آج بھی جب ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو لبوں پر یہ گیت مچلنے لگتا ہے: ’’اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم۔‘‘ ایک یہی گیت نہیں ʼجان کہہ کر جو بلایا تو برا مان گئےʼ، ʼلے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سےʼ بھی پاکستان اور بھارت میں‌ بھی بے پناہ مقبول ہوئے۔

    شوکت علی ناشاد زندگی کے آخری ایّام میں صاحبِ فراش ہو گئے اور برین ہیمبرج کے بعد کومے کی حالت میں 3 جنوری 1981ء کو ان کی روح نے ہمیشہ کے لیے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ آج اس عظیم موسیقار کی برسی ہے۔

    ’’اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم‘‘ جیسے سدا بہار گیت موسیقار ناشاد نے 1974ء میں فلم ’’ایمان دار‘‘ کے لیے کمپوز کیا تھا۔ اسے تصوّر خانم کی آواز میں ریکارڈ کروایا گیا تھا۔

    ناشاد 1918ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام شوکت علی دہلوی تھا۔ ان کے والد غلام حسین خان اپنے دور کے ایک معروف طبلہ نواز تھے۔ تقسیم ہند سے قبل وہ موسیقار غلام حیدر کے ساتھ سازندے کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1953ء میں نخشب جارچوی نے فلم ’’نغمہ‘‘ کی موسیقی کے لیے شوکت علی دہلوی کی خدمات حاصل کیں اور انھیں ’’ناشاد‘‘ کا نام دیا۔ فلم ’’نغمہ‘‘ کے گانوں نے ہندوستان بھر میں دُھوم مچا دی۔

    ناشاد کا نام 1953ء سے ایک کام یاب موسیقار کے طور پر لیا جانے لگا۔ انھوں نے پہلی بار 1947ء میں فلم ’’دلدار‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ابتدائی زمانے میں وہ شوکت علی اور شوکت حسین کے نام سے مشہور ہوئے اور بعد میں ناشاد نام اپنایا۔

    ناشاد 1964ء میں پاکستان آگئے اور یہاں سب سے پہلے نخشب کی فلم ’’میخانہ‘‘ کے لیے موسیقی دی۔ اس فلم کے چند گیت بے حد مقبول ہوئے، جن میں ’’جان کہہ کر جو بلایا تو بُرا مان گئے‘‘ بھی شامل تھا۔ ناشاد نے پاکستان آنے کے بعد 58 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی آخری فلم آزمائش تھی۔

    اس معروف موسیقار نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی مشہور فلموں‌ مے خانہ، جلوہ، ہم دونوں، تم ملے پیار ملا، سال گرہ، سزا، افسانہ، چاند سورج، رم جھم، بندگی اور دیگر کے لیے اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ناشاد لاہور کے ایک قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔