Tag: جنوری وفیات

  • پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی کا تذکرہ

    پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی کا تذکرہ

    ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی ایک سائنس دان اور ماہرِ تعلیم ہی نہیں‌ ادبی شخصیت اور ایسے اسکالر تھے جنھوں‌ نے ہر مضمون میں اپنی ذہانت، قابلیت اور استعدادا سے اساتذہ کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کے لیے اپنے اس لائق فائق شاگرد کو کسی ایک مضمون کا ماہر قرار دینا آسان نہ تھا۔ آج ڈاکٹر رضی الدّین کی برسی ہے۔

    ان کا پورا نام محمد رضی الدّین صدیقی تھا اور وطن حیدرآباد دکن جہاں انھوں‌ نے 7 اپریل 1905ء میں آنکھ کھولی۔ عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم کی تعلیم حاصل کرکے حیدرآباد دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا جہاں‌ اعلیٰ تعلیم بھی اردو زبان میں دی جاتی تھی۔

    وہ طبیعیات اور ریاضی کے ماہر تھے، لیکن لسانیات کے ساتھ ادب بھی ان کا مضمون رہا جس میں انھوں نے عربی اور فارسی میں اپنی قابلیت اور اقبالیات کے موضوع میں‌ تحقیقی اور تخلیقی کام کیا۔

    ڈاکٹر رضی الدّین کو کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ وہ داخلے کے امتحان میں اوّل آئے اور کیمبرج میں فزکس کے نوبل انعام یافتہ پال ڈیراک کے شاگردوں میں شامل رہے۔ انہی دنوں وہ فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کی نظروں میں آگئے اور انھوں‌ نے اپنے مضمون میں اس ہونہار اور نہایت قابل طالبِ علم کی راہ نمائی کی۔ کیمبرج سے ماسٹرز کرنے کے بعد ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی گئے اور اس زمانے میں آئن اسٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ سے بھی تعلیم حاصل کی۔

    پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے مشورے پر ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ اپنے تحقیقی مقالے لکھے جو ممتاز جرائد میں شائع ہوئے۔ 1931ء میں وہ حیدرآباد دکن واپس لوٹے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔ 1950ء میں وہ پاکستان آگئے۔

    ایک عظیم سائنس دان اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ انگریزی کلاسک کا بڑا حصہ ان کے زیرِ مطالعہ رہا جب کہ اردو اور فارسی ادب میں غالب، اقبال، حافظ اور شیرازی کو نہ صرف پڑھا بلکہ اقبال شناسی میں ماہر سمجھے گئے۔ اقبالیات کے موضوع پر ان کی دو تصانیف اقبال کا تصور زمان و مکان اور کلام اقبال میں موت و حیات شایع ہوئیں۔

    حکومتِ پاکستان نے 1960ء میں انھیں ستارۂ امتیاز اور 1981ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ کئی ملکی اور غیرملکی جامعات نے بھی انھیں اعزازات دیے۔ دنیائے سائنس کا یہ معتبر نام 2 جنوری 1998ء کو ہمیشہ کے ہم سے جدا ہوگیا۔

  • ممتاز ادیب، محقق اور مترجم ظ انصاری کا تذکرہ

    ممتاز ادیب، محقق اور مترجم ظ انصاری کا تذکرہ

    اردو کے نام وَر ادیب، نقّاد، محقّق اور مترجم ظ انصاری 31 جنوری 1991ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور روسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو ادب کو کئی یادگار کتابیں دیں جو ان کی قابلیت و صلاحیت اور علم و ادب سے ان کے گہرے لگاؤ کا ثبوت ہیں۔

    ظ انصاری کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ ان کا مکمل نام ظلِّ حسنین نقوی تھا۔ وہ 6 فروری 1925ء میں سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ حصولِ تعلیم کے بعد جب دہلی آئے تو وہاں ایک روزنامے سے منسلک ہوگئے۔ اس زمانے کے ایک ہفتہ وار اخبار کے مدیر سید سبطِ حسن تھے، یہ کمیونسٹ پارٹی کا اخبار تھا۔ ظ انصاری اس کی مجلسِ ادارت میں شامل ہوئے۔ اس وقت ترقی پسندی کا بھی بڑا شور تھا اور کئی لکھاریوں کی طرح وہ گرفتار بھی ہوئے۔ وہ کمیونزم کے نظری پیرو کار تھے، لیکن بعد میں مایوس ہوگئے تھے۔

    صحافت کو پیشہ بنایا اور قلم تھاما تو علمی و ادبی مضامین، کالم اور مختلف اصنافِ ادب کو اپنی فکر اور فن سے مالا مال کیا، اخبار اور مختلف رسائل سے منسلک رہے اور اپنی علمی استعداد بڑھاتے رہے۔ انھوں نے انگریزی اور روسی زبان پر عبور حاصل کیا۔ روس کے دارالترجمہ میں کام بھی کیا اور کئی روسی ادیبوں کی کہانیوں اور ناولوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ انھوں نے مولانا آزاد، غالب، میر، خسرو، اقبال اور انیس پر اپنی تحقیق کو سپردِ‌قلم کیا۔

    انھوں نے کارل مارکس، اینجلس کی منتخب تصانیف بھی اردو میں شایع کیں جب کہ دستووسکی، چیخوف، اور پشکن کے ناول ترجمہ کیے اور جدید روسی شاعری کو بھی اردو میں منظوم کیا۔ ان کی متعدد تصانیف میں سے اہم اور چند قابلِ ذکر کتب میں ’’مثنوی کا سفر نامہ‘‘، ’’کانٹوں کی زبان‘‘، ’’کہی ان کہی‘‘، ’’کتاب شناسی‘‘، ’’اقبال کی تلاش‘‘، ’’غالب شناسی‘‘، ’’کمیونزم اور مذہب‘‘، ’’ورق ورق‘‘ شامل ہیں۔

  • ممتاز شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم انجم اعظمی کا یومِ وفات

    ممتاز شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم انجم اعظمی کا یومِ وفات

    اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم پروفیسر انجم اعظمی 31 جنوری 1990ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق ہندوستان کے ضلع اعظم گڑھ سے تھا جہاں وہ 2 جنوری 1931ء کو پیدا ہوئے تھے۔

    پروفیسر انجم اعظمی کا اصل نام مشتاق احمد عثمانی تھا۔ انھوں نے گورکھ پور، الٰہ آباد اور علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد 1952ء میں کراچی چلے آئے۔ یہاں وہ محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔ کراچی کی علمی و ادبی فضا میں وہ اپنی شعر گوئی اور نقد و نظر کی وجہ سے پہچان بنانے میں‌ کام یاب رہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں لب و رخسار، لہو کے چراغ، چہرہ اور زیرِ آسماں کے نام شامل ہیں۔ پروفیسر انجم اعظمی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ادب اور حقیقت اور شاعری کی زبان بھی شایع ہوا۔

    پروفیسر انجم اعظمی نے اپنے مجموعہ کلام چہرہ کے لیے 1975ء میں ادب کا آدم جی انعام حاصل کیا تھا۔

    انھیں‌ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سدا بہار فلمی دھنوں کے خالق ماسٹر عبداللہ کی برسی

    سدا بہار فلمی دھنوں کے خالق ماسٹر عبداللہ کی برسی

    31 جنوری 1994ء کو پاکستان کے نام ور فلمی موسیقار ماسٹر عبداللہ لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج اس لیجنڈ موسیقار کی برسی ہے۔ ماسٹر عبداللہ نے انور کمال پاشا کی فلم سورج مکھی سے فلمی دنیا میں‌ قدم رکھا تھا۔ ان کی دھنوں میں خالص راگ راگنیوں کا رچائو ہوتا تھا جس نے انھیں‌ فلمی دنیا میں ایک صاحبِ طرز موسیقار کے طور پر شہرت اور مقام دیا۔

    ماسٹر عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں‌ فلم ٹیکسی ڈرائیور، بابل، نظام، ضدی، شریف بدمعاش، بدل گیا انسان، اک سی چور، ہرفن مولا، دلیر خان، لاڈو، میدان، کمانڈو، وارث، شہنشاہ، پیار دی نشانی، رنگی، اکھ لڑی بدو بدی، کشمکش، رستم، ہیرا پتّھر، دل ماں دا، قسمت اور ضدّی کے نام سرِفہرست ہیں۔

    فلم انڈسٹری کو کئی سدا بہار دھنیں دینے والے لیجنڈ موسیقار ماسٹر عبداللہ نے اردو سے زیادہ پنجابی دھنیں فلموں کے لیے کام کیا۔ انھوں نے اپنی موسیقی سے شائقین ہی نہیں‌ معروف گلوکاروں‌ کو بھی متاثر کیا اور وہ ان کی تخلیق کردہ دھنوں‌ پر گیت ریکارڈ کروانے کے خواہش مند نظر آتے تھے۔

    فلم واہ بھئی واہ، لاڈو، ملنگی، کمانڈر، زندگی، رنگو جٹ اور دیگر فلموں کی شان دار کام یابی میں ماسٹر عبداللہ کی موسیقی کا بڑا دخل تھا۔

  • مشہور فلمی اداکارہ اور مقبول گلوکارہ ثریّا کی برسی

    مشہور فلمی اداکارہ اور مقبول گلوکارہ ثریّا کی برسی

    آج مشہور فلمی اداکارہ اور گلوکارہ ثریّا کی برسی ہے۔ 15 جون 1929ء کو گوجرانوالہ (پاکستان) میں پیدا ہونے والی ثریّا کا پورا نام ثریّا جمال شیخ تھا۔ وہ اپنے وقت کی مقبول اداکارہ اور پلے بیک سنگر تھیں۔ ثریّا نے 31 جنوری 2004ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لیں۔ وہ ممبئی میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ثریّا نے 1937ء میں بننے والی ایک فلم میں پہلی بار چائلڈ ایکٹریس کے طور پر کیمرے کا سامنا کیا تھا۔ 1941ء میں ہدایت کار ننو بھائی وکیل نے اس نوجوان اداکارہ کو اپنی فلم تاج محل میں ممتاز محل کا مرکزی کردار نبھانے کے لیے منتخب کیا اور یوں‌ وہ بڑے پردے پر سب کی توجہ کا مرکز بنی۔ ثریّا کی دیگر فلموں میں پھول، انمول گھڑی، تدبیر، عمر خیام، پروانہ، پیار کی جیت، بڑی بہن، دل لگی، وارث، مرزا غالب اور رستم و سہراب شامل ہیں۔

    اداکارہ ثریّا نے ایک دہائی تک ہندی فلم نگری پر راج کیا۔ ان کا شمار اس وقت کی کام یاب ترین اداکاراؤں‌ میں‌ میں کیا جاتا ہے۔ ثریّا نے کُل 68 فلموں‌ میں‌ اداکاری کی اور تین سو سے زائد گانے اپنی آواز میں‌ ریکارڈ کروائے۔

    ثریّا کو موسیقی اور گائیکی کا بھی شوق تھا۔ ان کی آواز اچّھی تھی اور اسی صلاحیت نے انھیں‌ اپنی ہم عصر اداکارائوں میں ممتاز بھی کیا۔ وہ اپنی فلموں کے نغمات اپنی آواز میں ریکارڈ کرواتی تھیں۔

    ثریّا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں اور تقسیم کے بعد ان کے خاندان کے تمام لوگ اور قریبی عزیز پاکستان چلے آئے، لیکن ثریّا تمام عمر ممبئی کے ایک اپارٹمنٹ میں تنہا رہیں۔ انھوں نے شادی نہیں‌ کی تھی۔ ان کے پڑوسی ان کی دیکھ بھال کرتے تھے۔

    ثریّا نے اداکاری اور گلوکاری دونوں‌ شعبوں میں‌ اپنی صلاحیتوں کو آزمایا اور خود کو منوانے میں کام یاب رہیں۔ کہتے ہیں وہ اپنے زمانے کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ تھیں۔

  • سیماب اکبر آبادی: اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

    سیماب اکبر آبادی: اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

    آج اردو کے قادرُ الکلام شاعر سیماب اکبر آبادی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 31 جنوری1951ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ سیماب اکبر آبادی کراچی میں قائدِاعظم کے مزار کے نزدیک آسودہ خاک ہیں۔

    اکبر آباد، آگرہ میں‌ 5 جون 1880ء کو پیدا ہونے والے سیماب کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو اپنے وقت کے نام وَر اور استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد ہوئے۔ مشقِ سخن کے بعد ایک وقت آیا جب خود سیماب کے ڈھائی ہزار تلامذہ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔

    وہ کچھ عرصہ ریلوے میں ملازم رہے، لیکن زبان و ادب کی خدمت کے خیال سے مستعفی ہوکر آگرہ میں ’’قصرُ الادب‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ ایک ہفتہ وار پرچہ ’’تاج‘‘ اور ایک ماہ نامہ پرچہ ’’شاعر‘‘ نکالا اور شعروادب کو فروغ دیا۔

    علّامہ سیماب اکبر آبادی کو اردو، فارسی اور ہندی زبان کے قادرُ الکلام شعرا میں شمار کیا جاتا ہے جن کی تصانیف کی تعداد 300 کے لگ بھگ ہے۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے قرآنِ پاک کا منظوم ترجمہ وحئ منظوم کے نام سے مکمل کیا تھا۔

    ان کا شمار بیسویں صدی کے اوائل کے ان شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے مختلف اصنافِ سخن مثلاً غزل، نظم، قصیدہ، رباعی، مثنوی، مرثیہ، سلام، نوحہ اور حمد و نعت میں فکری و فنّی التزام کے ساتھ کام یاب اور بامقصد تجربے کیے اور مقبولیت حاصل کی۔ سیماب اکبر آبادی کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور ان کا کلام اپنے زمانے کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا۔

    سیماب اکبر آبادی کی شاعری ان کے مخصوص اور منفرد لب و لہجہ کے سبب اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ خاصی مقبول ہوئی اور وہ ہر خاص و عام میں‌ پہچانے جاتے تھے۔ نیرنگیِ خیال، شستہ و پاکیزہ، پُراثر اور زبان و بیان کی نزاکتوں اور لطافتوں سے آراستہ ان کا کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔

    ان کی تصانیف میں ’’کلیمِ عجم‘‘، ’’سدرۃُ المنتہیٰ‘‘، ’’لوحِ محفوظ‘‘، ’’ورائے سدرہ‘‘، ’’کارِ امروز‘‘، ’’ساز و آہنگ‘‘، ’’الہامِ منظوم‘‘(مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ) ’’وحئ منظوم‘‘(قرآن مجید کا منظوم ترجمہ) ’’عالمِ آشوب‘‘ (رباعیات)، ’’تغیّرِ غم‘‘(سلام و مراثی)، ’’شعر انقلاب‘(انقلابی نظمیں) شامل ہیں۔

    سیمابؔ کے اشعار موجودہ دور اور آج کے شاعرانہ مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انہی کا ایک شعر دیکھیے۔

    کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
    جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

  • ‘سخن کے معبدِ بے سائباں’ کے مکیں عبد العزیز خالد کی برسی

    ‘سخن کے معبدِ بے سائباں’ کے مکیں عبد العزیز خالد کی برسی

    اردو کے نام ور شاعر عبدالعزیز خالد 28 جنوری 2010ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں شاعری میں ان کے منفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے اردو شاعری کو عربی ادبیات سے ہم آمیز کیا جس نے اس صنفِ ادب میں مشرقی روح اور طرزِ بیاں کو زندہ کیا۔

    عبدالعزیز خالد 14 جنوری 1927ء کو تحصیل نکو در ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اسلامیہ کالج لاہور کے فارغ التّحصیل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں کالج کے مجلّے کی ادارت کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔

    1950ء میں انھوں‌ نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور انکم ٹیکس افسر مقرّر ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔ ملازمت کے ساتھ ان کا ادبی سفر بھی جاری رہا اور ان کی متعدد تصانیف منظرِ عام پر آئیں۔

    عبد العزیز خالد کو اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور سنسکرت زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اپنی اسی قابلیت کی بنیاد پر انھوں نے غیر ملکی زبانوں کے شعری تراجم بھی کیے۔

    عبدالعزیز خالد کی تصانیف میں ماتم یک شہرِ آرزو، زرِ داغِ دل، خروشِ خم، فارقلیط، غبارِ شبنم، سرابِ ساحل، کلکِ موج، برگِ خزاں، دکانِ شیشہ گر، کفِ دریا، غزلُ الغزلات کے علاوہ سیفو، ٹیگور اور ہوچی منہ کی نظموں کے تراجم شامل ہیں۔

    عبد العزیز خالد کو ان کی گراں قدر ادبی خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان جنھوں نے قائداعظم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ

    سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان جنھوں نے قائداعظم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ

    پاکستان کے نام وَر سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان 27 جنوری 2002ء کو وفات پاگئے تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں‌ کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے مختلف ساز اور سازندوں نے بھی شہرت پائی اور انہی میں‌ ایک نام اللّہ رکھا خان کا تھا جن کی آج برسی ہے۔

    ہندوستانی کلاسیکی سنگیت میں سارنگی وہ ساز تھا جس کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی آواز سے سب سے زیادہ ملتا ہے۔ آج یہ ساز ہیں‌ اور نہ ہی اس کے بجانے والے موجود ہیں۔ ماضی کے نام ور سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان 1932ء میں سیالکوٹ کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بچپن ہی میں امرتسر چلے گئے تھے، وہیں اپنے والد استاد لال دین سے سارنگی بجانی سیکھی۔ بعدازاں استاد احمدی خان، استاد اللہ دیا اور استاد نتھو خان جیسے ماہر سازندوں سے استفادہ کیا۔

    1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ 1948ء میں وہ پاکستان آگئے تھے جہاں 1992ء تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔

    استاد اللّہ رکھا خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں‌ نے ایک مرتبہ قائداعظم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔

  • اردو زبان، تاریخ و ادب، مذہب اور صوفیا کی ارادت مند مستشرق این میری شمل

    اردو زبان، تاریخ و ادب، مذہب اور صوفیا کی ارادت مند مستشرق این میری شمل

    ڈاکٹراین میری شمل ممتاز جرمن اسکالر، ماہرِ اقبالیات اور مستشرق تھیں جنھوں‌ نے اردو زبان سے اپنی محبّت اور شعروادب سے لگاؤ کے سبب کئی علمی و ادبی مضامین تحریر کیے اور پاک و ہند کے نام ور ادبا اور شعرا کی تخلیقات کا ترجمہ کیا۔

    ڈاکٹر این میری شمل کا تعلق جرمنی سے تھا۔ وہ 1922ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ 19 سال کی تھیں جب ‘مملوک خاندان کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام’ کے عنوان سے انھوں نے ڈاکٹریٹ کی سند لی۔ این میری شمل نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ کیا۔ وہ جرمن اور انگریزی زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔ اس جرمن مستشرق نے پاکستان کے ممتاز ادیب اور مؤرخ و محقق پیر علی محمد راشدی، پیر حسامُ الدّین راشدی، غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔

    وہ کئی کتابوں‌ کی مصنف تھیں جب کہ کئی علمی و ادبی موضوعات پر ان کی تحقیق و ترجمہ شدہ کتب شایع ہوئیں۔ مسلمان ممالک کی تاریخ اور تہذیب سے لے کر شعروسخن تک این میری شمل کی کاوشوں سے جرمن زبان میں‌ کئی کتابیں منتقل ہوئیں اور یہ کام ان کی لگن و محنت کا نتیجہ تھا‌۔ وہ پاکستان کی مقامی زبانوں‌ سے بھی واقف تھیں‌ جن میں‌ سندھی، پنجابی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں ان کی دل چسپی بہت زیادہ تھی اور انھوں نے مسلمان صوفی شعرا اور علما کی کتب و تخلیقات کو مطالعہ کیا اور ان میں‌ گہری دل چسپی لی۔

    وہ متعدد بار پاکستان بھی آئیں جہاں انھوں نے علمی و ادبی سرگرمیوں میں وقت گزارا اور اس شعبے کی قابل پاکستانی شخصیات سے ملاقات میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ 26 جنوری 2003ء کو این میری شمل وفات پاگئی تھیں۔ جہانِ ادب اور سرکاری سطح پر بھی ان کی علمی و ادبی کاوشوں اور اردو زبان کے لیے ان کی خدمات کو سراہا گیا اور لاہور میں ایک شاہ راہ بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔

    ڈاکٹر شمل سنہ 1992 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر خود مسلمان اسکالروں نے اتنی گہرائی سے نہیں لکھا تھا۔ انھیں نہ صرف امریکا بلکہ مشرق وسطیٰ کے علاوہ ان کے اپنے وطن جرمنی میں بھی بے انتہا پذیرائی ملی۔ انھیں متعدد ایوارڈز اور اعزازی اسناد سے نوازا گیا۔

  • ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار ضیا سرحدی کی برسی

    ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار ضیا سرحدی کی برسی

    27 جنوری 1997ء کو پاکستان کے ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار ضیا سرحدی وفات پاگئے۔ ضیا سرحدی کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 1912ء میں پیدا ہوئے۔ ضیا سرحدی پاکستان سے اسپین منتقل ہوگئے تھے جہاں شہر میڈرڈ میں‌ ان کا انتقال ہوا۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار خیّام سرحدی ان کے فرزند ہیں جب کہ موسیقار رفیق غزنوی ان کے داماد تھے۔

    ضیا سرحدی گریجویشن کرنے کے بعد 1933ء میں بمبئی چلے گئے جہاں معروف ہدایت کار محبوب کے ساتھ کہانی نگار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ اس زمانے میں‌ انھوں‌ نے "دکن کوئن، من موہن، جاگیردار، مدھر ملن، پوسٹ مین جیسی فلموں کے لیے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ 1947ء میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں‌ خود کو آزمایا اور ان کی فلم نادان سامنے آئی۔ بطور ہدایت کار ان کی کام یاب فلموں میں انوکھی ادا، ہم لوگ، فٹ پاتھ اور آواز سرفہرست ہیں۔

    1958ء میں ضیا سرحدی پاکستان آگئے جہاں انہوں نے رہ گزر کے نام سے ایک فلم بنائی جو کام یاب نہ ہوسکی۔ ان کی چند فلمیں‌ "لاکھوں میں ایک، غنڈہ، اور نیا سورج وہ تھیں جن کی کہانی ضیا سرحدی نے لکھی تھی، لیکن ان میں سے بھی دو مکمل نہ ہوسکیں۔

    اسپین میں‌ وفات کے بعد ان کی میّت پاکستان لائی گئی اور انھیں‌ پشاور میں سپردِ خاک کیا گیا۔